اس بار اِدھر اُدھر کی مختلف باتیں کروں گا لیکن میرا خیال ہے کہ ان سب میں ایک ربط بھی کہیں نہ کہیںملے گا۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحہ کے حوالے سے لکھے گئے میرے گزشتہ کالم کے بارے میں کافی اچھا ردِ عمل سامنے آیا۔بعض نامور ادیبوں نے بھی حقائق کے تجزیہ کو درست قرار دیتے ہوئے میری حوصلہ افزائی کی۔اس دوران لال مسجد کے دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کے کئی روپ سامنے آئے۔چھ ماہ سے جن لوگوں نے اسلام کے نام پر اسلام کو تماشا بنا کر رکھ دیا تھا اب انہیں کے بھائی بند اُن کی حمایت میں مختلف ذرائع سے پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔اسی سکول آف تھاٹ کے صحافی،اسی مکتب فکراور فکری ہمنواؤں کے سیاستدان،اسٹیبلشمنٹ میں موجود افراد ،سب کی ملی بھگت کے ساتھ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔میں اس سانحہ کے انسانی مسئلہ کی المناکی کا ذکر گزشتہ کالم میں کر چکا ہوں اور اس المیہ کی سب سے زیادہ ذمہ داری لال مسجد کے عبدالعزیز اور عبدالرشید غازیوں پر ہی عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنے ہی بچوں کو یرغمال بنا کر حکومت کو بلیک میل کیا۔آپریشن سائلینس سے کچھ دیر پہلے تک اسی مکتبِ فکر اور فکری ہمنواؤں کے افراد اپنے اپنے داؤ پر بیٹھے ہوئے تھے۔کوئی بیٹھے بٹھائے مفت میں ۶۱،ایکڑ زمین کو اپنے قبضہ میں لینے کا کھیل کھیل رہا تھا تو کوئی کچھ اور چال چل رہا تھا۔
جو لوگ حکومتی رٹ کو دارالحکومت میں بیٹھ کر چیلنج کرنے والوں کی حمایت کر رہے ہیں انہیں صرف اتنا یاد دلاؤں گا کہ جب مشرقی پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت کچھ اور چاہ رہی تھی،تب الشمس اور البدر تنظیموں کے نام پر وہاں کیا کچھ نہیں ہوا تھا۔تب یہی مذہبی دہشت گرد وہاں کی اکثریت کی خواہش کو کچلنے کے لئے قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے تھے۔ ان کے نزدیک مشرقی پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت ملک سے غداری کررہی تھی اس لئے وہ قتل و غارت جائز تھا ،اور اب جب ان کی غیر قانونی سرگرمیوں کا نوٹس لیا گیا ہے تو انہیں انسانی حقوق اور شہری حقوق یاد آتے جا رہے ہیں۔ بہرحال عبدالرشید غازی کے کئی کھلے جھوٹ بولنے کے باوجود ایک سچ تو روزبروز عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اگر ہمارے خلاف کاروائی ہوئی تو ہمارے پاس اتنے خود کش حملہ آور موجود ہیں کہ پورے ملک میں خود کش حملے ہوں گے۔سو ملک بھر میں خود کش حملوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔تربیلا غازی میس میں ہونے والا حملہ ان جوانوں پر کیا گیا جنہوں نے لال مسجد آپریشن میں حصہ لیا تھا۔یوں لال مسجد،طالبان اور القاعدہ کے فکری ڈانڈے ہی نہیں دہشتگردی کے ڈانڈے بھی ملے ہوئے تھے جو کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس سال پاکستان میں خود کش حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد افغانستان سے بڑھ چکی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق خود کش حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کے لحاظ سے عراق پہلے نمبر پر ہے،پاکستان دوسرے نمبر پر اور افغانستان تیسرے نمبر پر۔
نائن الیون کے بعد میں نے منظر اور پس منظر کے نام سے جو کالم لکھے تھے،اور جو بعد میں کتابی شکل میں چھپے تو میں نے اس کتاب کا انتساب جنرل پرویز مشرف کے نام کیا تھا۔اب حالیہ دنوں میں جنرل پرویز مشرف کے بعض غلط اقدامات پر جب میں نے کچھ تلخی کا مظاہرہ کیا تو میرے دوست ارشاد ہاشمی صاحب نے طنزاً یاد دلایا کہ میں تو جنرل مشرف کا مداح تھا۔ارشاد ہاشمی مسلم لیگ نون والے جاوید ہاشمی کے کزن ہیں اور جرمنی میں مقیم میرے بہت قریبی دوستوں میں سے ہیں،اس لئے ان کی بات کے جواب کے طور پر چند وضاحتیں کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔پہلے تو میرے کتاب میں شامل انتساب کے الفاظ یہاں پیش ہیں۔
صدرِ پاکستان جنر ل پرویز مشرف کے نام
جنہوں نے بالکل جائز بنیاد پر ملک کا اقتدار سنبھالا،جنہوں نے یکایک بدلتے ہوئے عالمی حالات میں بہت سے ناگوار سہی مگر بروقت اور درست فیصلے کئے،جنہوں نے اقتصادی لحاظ سے ڈوبتے ہوئے ملک کو کسی طرح سہی ،اقتصادی زبان میں سنبھالا دیا،لیکنجنہوں نے اندرون ملک، قومی دولت لوٹنے والوںسے کسی سیاسی امتیاز کے بغیر ملک کی دولت واپس لانے کا سب سے اہم اور بنیادی فرض فراموش کر دیا ہے،اور جو اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث بہت سے بڑے چوروں کا سیاسی تعاون حاصل کرنے کے لئے انہیں اپنے سیاسی سیٹ اپ میں حصہ دار بنائے بیٹھے ہیں ۔
میں نے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ان کا اقتدار پر آنا میاں نواز شریف کے غلط اقدام کا نتیجہ تھا۔انہوں نے آکر دیوالیہ کے قریب پہنچی ہوئی ملکی معیشت کو ایک حد تک سنبھالا دیا،اور نائن الیون کے سانحہ کے بعد جو فیصلہ کیا بعض جزوی کمزوریوں کے باوجود وہ فیصلہ ایک درست فیصلہ تھا۔اسی عرصہ کے دوران جنرل پرویز مشرف کی حمایت کرنے کے باوجود میں نے بار ہا یہ لکھا کہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رویے کو تبدیل کیا جانا ضروری ہے اور میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی بھی حمایت کی۔تاہم بے نظیر بھٹو کی بعض کمزوریوں اور میاں نواز شریف کی بہت ساری کمزوریوں کا بھی میں نے کھل کر ذکر کیا۔جنرل پرویز مشرف کی آمد کو جائزماننے کے باوجود میں نے ان کے بعض اقدامات پر کڑی تنقید کی۔بعض ایسے سخت الفاظ تک لکھے جو پاکستان کے کئی بے باک صحافی بھی لکھتے ہوئے کچھ احتیاط کرتے ہیں(اور ان کی احتیاط بجا ہے)۔خصوصاً جب جنرل پرویز مشرف نے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے کا وعدہ پورا کرنے کی بجائے ان ٹھگ اور لٹیرے طبقوں کو مزید اربوں کے قرضے معاف کر دئیے تو تب میں نے انتہائی سخت الفاظ میںان کے اس اقدام کی مذمت کی تھی۔اس نوعیت کے میرے اظہار خیال کے ثبوت کے طور پر اپنے کالموں کے مجموعہ منظر اور پس منظر کے یہ چند صفحات بطور حوالہ پیش کر رہا ہوں۔۲۷،۸۰، ۸۱،۸۲، ۸۱، ۱۰۲، ۱۰۳۔۔۔۔۔ کالموں کے دوسرے مجموعہ خبر نامہ کے یہ چند صفحات بھی بطور حوالہ کے پیش ہیں۔۷۱،۹۱، ۵۶، ۵۷، ۶۶، ۷۲، ۷۶، ۷۷، ۸۴، ۹۶، ۹۸، ۱۱۲،۱۱۶،۱۲۸۔۱۳۰،۱۴۰،۱۵۴،۱۵۵۔ اس لئے یہ واضح رہے کہ میں نے جنرل پرویز مشرف کے لئے لکھے ہوئے پہلے جملوں میں بھی ان کی تعریف کے ساتھ ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کر دی تھی اور آج حقیقتاًوہی کمزوریاں ان کوزوال کی طرف دھکیل رہی ہیں۔
ہر چند اس وقت ملک میں ملائیت کے عفریت نے دہشت گردی کی جو صورت اختیار کر لی ہے ،اس سے نمٹنا اب اولین ترجیح بن گئی ہے۔تاہم اس کے بعد سب سے پہلی ترجیح قوم کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی واپس لانا ہی، ملک کی ترقی کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے۔یہ لوٹ مار جن شکلوں میں بھی ہوئی ہے جنرل ضیاع الحق کے دور سے اب تک کی ساری لوٹی ہوئی دولت واپس لانا ناگزیر ہے۔یہ اتنی بڑی کرپشن ہے کہ اس کی واپسی سے پاکستان کا سارا بیرونی قرض اتر جاتا ہے اور عوامی فلاح و بہبود کے کئی منصوبے شاندار طریقے سے شروع کئے جا سکتے ہیں۔جو رہنما بھی جنرل ضیاع الحق کے دور سے لے کر اب تک کی لوٹی ہوئی دولت قوم کو واپس دلائے گا،وہی پاکستان کا اصل بہی خواہ اور سچا رہنما ہو گا۔باقی سب اس چور اور ڈاکو طبقہ کے لوگ ہیں جو سیاسی،مذہبی یااور کسی بھی دلفریب روپ میں صرف ملک کو لوٹ رہے ہیں۔
جہاں تک ملائیت کے عفریت اور دہشت گردی سے نمٹنے کا تعلق ہے،اس سلسلہ میں پہلے ذہن کو واضح کرلینا ضروری ہے۔افسوس کہ جنرل پرویز مشرف سات سالہ گومگو کی کیفیت کے بعد ابھی تک درست ڈائریکشن میں کاروائی نہیں کر سکے۔جس عفریت کو قابومیں لانا ہے،اس کے بہی خواہ جنرل یحییٰ کے زمانہ سے فوج،خفیہ اداروں اور بیوروکریسی میں گھسنا شروع ہوئے تھے اور اس وقت ان تمام اداروں میں ۰۶فی صد سے زیادہ یہی لوگ گھسے ہوئے ہیں،چھائے ہوئے ہیں۔انہیں کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کے درست اقدامات سست روی کا شکار بنا دیئے جاتے ہیں اور انہیں کی وجہ سے دہشت گردی کی وہ ساری صورتیں کھل کر سامنے آگئی ہیں جنہیں چند برس پہلے تک ہم سب بھی صرف امریکی پروپیگنڈہ اور حامد کرزئی کا واویلا کہہ کر نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔سو کسی بھی گند کی صفائی سے پہلے گندگی کی صفائی پر مامور عملہ کی صفائی ضروری ہے۔اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ فلاں ماڈریٹ ہے اور فلاں دہشت گرد تو غلط کہتا ہے۔اوراگر کوئی اس پر اصرار کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود بھی اُسی ساٹھ ستر فیصد دھڑے کا آدمی ہے۔یہ جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مقامی طالبان نے اڑھائی،تین سو کے لگ بھگ پاکستانی فوجی یرغمالی یا قیدی بنا لئے ہیں،یہ شاید اسی ساٹھ ستر فیصد دھڑے کے لوگوں کا کیا دھرا ہے۔اس علاقہ میں حالیہ دنوں میں اٹھارہ فوجیوں کو ایک دن اغوا کیا گیا اور دوسرے دن ان سب کی لاشیں مل گئیں۔قبائلی علاقوں سے اسلام آباد تک اور اسلام آباد سے قبائلی علاقوں تک جو باطنی لہریں چل رہی ہیں یہ سارے واقعات ان کی بخوبی نشاندہی کرتے ہیں۔
ابھی چند دن پیشتر مولانا فضل الرحمن نے امریکہ کو پیش کش کی ہے کہ وہ طالبان اور مغرب کے درمیان ثالثی کرانے کو تیار ہیں۔میں نے اپنے ۱۶اکتوبر ۲۰۰۲ءکے کالم(ذیلی عنوان: ”متحدہ مجلس عمل،امریکہ اور افغانستان“)میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا تھا کہ امریکہ ایم ایم اے کے ذریعے افغانستان میں امن قائم کرکے اپنے مفادات کے حصول کا اصل کام شروع کرے گااس میں مختلف امکانات کا ذکر کرنے کے بعد میں نے آخر میں لکھا تھا کہ :
”اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو پھر وہ سب کچھ تو ہوگا ہی جس کے بارے مختلف طبقات کی طرف سے مختلف خدشات،شکوک و شبہات اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے“۔۔۔یہ کالم اس لنک پر براہ راست پڑھا جا سکتا ہے۔
http://urdustan.com/manzar/2002/1016.html
افسوس یہ ہے کہ ایم ایم اے نے امن کی بحالی کے لئے کوئی موثر کردار ادا کرنے کی بجائے اپنی سیاست گری کا تماشہ دکھائے رکھا۔اس کے نتیجہ میں طالبان نے پاکستان کے اندر بھی اپنے مضبوط گڑھ بنا لئے ۔اب مولانا کی طرف سے امریکہ کو یا مغرب کو طالبان کے درمیان ثالثی کی پیش کش کرنا ویسا ہی سیاسی عمل ہے جیسا وہ لندن کی اے پی سی میں ادا کر آئے ہیں۔میرا خیال ہے مولانا نے بہت دیر کر دی ہے۔
یہاں ایک نجی نوعیت کی ہلکی پھلکی سی بات یاد آ گئی۔ اپوزیشن کے رہنما مولانا فضل الرحمن ایک بار رمضان شریف کے مہینے میں جرمنی میں آئے تو ان کی جماعت یا اپوزیشن کی کسی جماعت نے نہیں بلکہ سرکاری مسلم لیگ قاف کے مقامی عہدیداروں نے ان کی دعوت کی۔اتفاق سے مجھے بھی اس دعوت میں جانے کا موقعہ ملا۔ مولانا سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میری کتاب منظر اور پس منظر انہیں ملی تھی لیکن کوئی صاحب ان سے وہ کتاب پڑھنے کے لئے لے گئے تھے۔اس پر میں نے انہیں اس کتاب کا ایک اور نسخہ پیش کر دیا۔کتاب کا ٹائیٹل دیکھ کر انہوں نے مزاحاً کہا کہ آپ نے باقی ساری دنیا کے لیڈروں کو جنرل مشرف کے ارد گرد رکھا ہوا ہے اور انہیں مرکزی حیثیت دی ہوئی ہے۔اس پر میں نے برجستہ کہا تھا کہ یہ مرکزی حیثیت کہاں ہے ؟۔دنیا کے اور پاکستانی لیڈروں نے مل کر بے چارے جنرل مشرف کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔میرے جواب پر وہ اپنے مخصوص مولویانہ انداز میںمسکرا دئیے تھے۔
میرا خیال ہے کہ ایم ایم اے امریکہ کے ساتھ اپنے پرانے رومانس کو بحال کرنے کی پوزیشن میں تھی لیکن اس نے اپنی بولی زیادہ لگوانے کے چکر میں پانچ سال ضائع کر دئیے ہیں۔اب امریکہ بلا امتیاز اپنے پرانے وفاداروں اور موجودہ دہشت گردوں ،مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف سخت کاروائی کا ارادہ کر چکا ہے۔اور اس کاروائی میں مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ پاکستان کے کھلے دل اور کھلے ذہن والے عوام کی اکثریت بھی لپیٹ میں آسکتی ہے۔خدا کرے کہ ایسا نہ ہو اور اصلاح احوال کی کوئی بہتر صورت نکل آئے۔
چیف جسٹس کے خلاف جنرل پرویز مشرف کا ریفرینس اپنے عبرتناک انجام کو پہنچ چکا ہے۔ان کی بحالی کے ساتھ قوم کے دل میں اپنی عدلیہ سے انصاف کی کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔چیف جسٹس محمد افتخار چوہدری از خود نوٹس لے کر عوامی مفاد کے کئی تاریخی نوعیت کے فیصلے کر چکے ہیں۔اب بحالی کے بعد تین اشوز خصوصی تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ ان کے حوالے سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں۔
پہلا کام تو یہ کہ سندھ ہائی کورٹ از خود نوٹس کے تحت ۱۲مئی ۲۰۰۷ءکے سانحۂ کراچی کی جو کاروائی کر رہی ہے،اسے کسی کے بھی دباؤ کے تحت ماند نہ پڑنے دیا جائے۔عدالتی تحقیقات کے تحت جو سفاک کردار سامنے آتے ہیں ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہونی چاہئے۔چیف جسٹس خود اس ساری کاروائی پر نظر رکھیں۔
دوسرا اہم کام یہ کہ ان کے خلاف ریفرینس کی ناجائز زیادتی کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے صاحبزادے ارسلان کی محکمانہ ترقیوں میں ناجائزسفارش کے عنصر کا گہرا شک موجود ہے۔اگرچہ یہ لعنت پورے مقتدر طبقے میں’ ماں کے دودھ‘ کی طرح سرایت کر چکی ہے ،تاہم اب چیف جسٹس محمد افتخار چوہدری کو قوم نے جس انداز سے بحال کرایا ہے اور ان سے جو توقعات وابستہ کر لی ہیں،ان کا تقاضہ ہے کہ وہ خود اپنے بیٹے کی میرٹ کے بغیر ہونے والی ترقیات کے ضمن میں لگائے گئے سارے الزامات کا نوٹس لیں۔اس میں ناجائز ترقی دینے والے اور دلانے والے جو کردار بھی سامنے آئیں انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے ۔اگر ارسلان کو ناجائز ترقیات دی گئی ہیں تو یہ ترقیات بھی واپس کرائی جائیں۔ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو ارسلان کے امتحان سے ترقیات تک کا سارا ریکارڈ قوم کے سامنے لایا جائے تاکہ چیف جسٹس کی شخصیت پوری طرح بے داغ دکھائی دیتی رہے۔
نعیم بخاری نے چیف جسٹس کے خلاف ریفرینس دائر ہونے سے پہلے جو ”بدنامِ زمانہ“ سرکلر جاری کیا تھا،اس کے نتیجہ میں ان کے ساتھ کافی کچھ ہو چکا ہے۔لیکن اب چیف جسٹس کی بحالی کے بعد نعیم بخاری ایک مقدمہ میں پیش ہونے کے لئے لاہور کی عدالت میں گئے تو ان کے ساتھ بعض وکیلوں نے انتہائی غنڈہ گردی کا بلکہ گھناؤنا قسم کا سلوک کیا۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو چاہئے کہ نعیم بخاری کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا نوٹس لیں(اب تک نوٹس لے لیا ہوتا تو اس سے اُن کی عزت میں اضافہ ہوا ہوتا)۔یہ انتہائی شرمناک سانحہ ہوا ہے۔اگر افرادی قوت اور غنڈہ گردی کے بل پر ”انصاف“ ہونے لگا تو یہ مارشل لا کی حمایت کرنے سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہوگا۔اس کا نقصان بھی خود عدلیہ ہی کو ہوگا۔۲۱مئی کے سانحہ کی سندھ ہائی کورٹ میں جو کاروائی ہو رہی ہے،ایم کیو ایم نے اسے اپنے کارکنوں کے ذریعے جس انداز میں ہینڈل کرنے کی کوشش کی ہے اور جس طرح پانچ سو گواہان کو پیش کرکے معاملہ کو بے جا طول دینے کی ابتدائی کاوش کی گئی ہے،یہ بھی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرکے ”انصاف“ کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔لیکن جب خود چیف جسٹس سے محبت اور ان کی حمایت کے نام پر نعیم بخاری کے ساتھ غنڈہ گردی کی جا سکتی ہے تو پھر ہر کسی کاحق بنتا ہے کہ اپنے اپنے مقامات پر اپنی اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ دکھائے اور اپنی مرضی کا ا نصاف حاصل کرلے۔
پاکستان جن مختلف سماجی،سیاسی،آئینی امراض میں مبتلا ہے،ان میں کرپشن ایک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔کرپشن کا ناسور ہر شعبہ میں سرایت کر چکا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں عدلیہ کا ادارہ کرپشن میں تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ کوئی مشکل مقدمہ ہو تو اچھا وکیل کرنے کی بجائے براہِ راست اچھا جج کر لو۔ چھوٹی عدالتوں میں ہونے والی کرپشن کے بارے میں اس سے کافی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری فوری نوعیت کے حساس معاملات میں از خود نوٹس ضرور لیں لیکن ان کی پہلی ترجیح نیچے سے اوپر تک عدلیہ کو کرپشن سے پاک کرنا اور عوام کے لئے انصاف کی فراہمی کو سستا اور آسان کرنا ہونا چاہئے۔
بارہ مئی کے سانحہ کراچی کے بعدمیں نے ۱۳مئی کو کالم لکھا تھا اور اسی روز اسے آن لائن کرایا تھا۔میرا وہ کالم اس بات کا گواہ ہے کہ میں نے چیف جسٹس کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم اور زیادتی کے خلاف لکھتے ہوئے کسی کے ساتھ کوئی رُو رعائت نہیں کی تھی۔پرنٹ میڈیا میں شاید یہ اس موضوع پر چھپنے والا سب سے پہلا کالم تھا۔ تب بھی میرے پیش نظر یہی تھا کہ نا انصافی اور ظلم کا خاتمہ ہونا چاہئے۔سو اب جو میں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے لئے چند گزراشات پیش کی ہیں تو ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ چیف جسٹس انصاف کی فراہمی اور ظلم کے خاتمہ کے لئے اپنی ترجیحات میں ان امور کو بھی شامل کریں۔
یہاں ضمناً ایک اور بات کا ذکر بھی کر دوں۔میں نے کئی برس پہلے سے لکھنا شروع کیا تھا کہ بے نظیر اور نواز شریف دونوں کو پاکستان آنے دیا جانا چاہئے۔تاہم نواز شریف کی جلاوطنی کے حوالے سے سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ،اس سے ایسا لگا جیسے عدالتِ عظمیٰ کسی غصہ کا اظہار کر رہی ہے۔شیر افگن نیازی نے اس فیصلہ کے خلاف جو ریمارکس دئیے تھے،لب و لہجہ،الفاظ کے چناو وغیرہ کے لحاظ سے تو نامناسب تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس بارے میں نواز شریف کے معاہدہ یا انڈر ٹیکنگ کو یکسر نظر اندازکردینا حیران کن امر ہے۔یہ نواز شریف اور شہباز شریف کا کسی سے کیا ہوا معاملہ تھا تو عدلیہ کو چاہئے تھا کہ ان کے حمایتیوں سے کہتی کہ اس کے بارے میں شریف برادران سے پوچھا جائے کہ وہ اس تحریر کو مانتے ہیں یا نہیں؟ اگر مانتے ہیں تو انہوں نے ایسی تحریر کیوں دی تھی؟شریف برادران سے تحریری بیان منگایا جاتا اور پھر کوئی فیصلہ صادر کیا جاتا۔عدالت عظمیٰ نے جس عجلت میں مختصر فیصلہ سنایا(تفصیلی فیصلہ ابھی تک جاری نہیں ہوا)،اس سے تو خود شریف برادران بھی پریشان ہو گئے کہ وہ اپنے بین الاقوامی مصالحت کاروں کے ساتھ معاملات کو حتمی صورت نہیں دے پائے تھے ۔اور اسی وجہ سے دونوں بھائیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ایک کو لندن میں ہی رک جانا پڑا اور دوسرے کو اسلام آباد آکر پھر جدہ جانا پڑا۔اگر بین الاقوامی مصالحت کاروں کے ساتھ سارے معاملات پوری طرح سیٹ کر لئے ہوتے تو شاید ایسی صورتحال پیش نہ آتی۔یوں آئینی طور پر ایک درست فیصلہ ہونے کے باوجود اس کے بین الاقوامی تناظر کو یکسر نظر انداز کردینے اور عجلت میں فیصلہ دینے سے یہ فیصلہ ذاتی ناراضی کے تاثر کو چھپا نہیں سکا۔
میاں نواز شریف ۱۰ستمبر کو اسلام آباد آنے کا اعلان کر چکے تھے،مجبوراً انہیں آنا پڑا اور جیسے شہباز شریف کو لاہور سے جدہ بھیج دیا گیا تھا ویسے ہی نواز شریف کو بھی جدہ بھیج دیا گیا۔اس حوالے سے واقفان حال نے اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اندر خانے جو معاملات طے پا رہے ہیں ان کے مطابق عید کے بعد(صدارتی الیکشن کے بعد) نواز شریف کو پاکستان آنے کی اجازت مل سکتی ہے۔بے نظیر بھٹو کے ساتھ حکومت کی ڈیل کا تاثر گہرا کرنے کے نتیجہ میںبے نظیر بھٹو کی سیاسی اخلاقی پوزیشن پر کچھ اثر تو پڑا ہے لیکن وہ جس طرح معاملات کو ہینڈل کر رہی ہیں لگتا ہے کہ ان کا ووٹ بینک خراب نہیںہو گا ۔حکومت کی طرف سے جتنی یقین دہانی سامنے آرہی ہے اس سے لگتا ہے کہ ماضی کی طرح پیپلز پارٹی کو الیکشن میں بہت زیادہ دھاندلی کا شکار نہیں بنایا جائے گا ۔لیکن ایک شبہ اب دل میں پیدا ہونے لگا ہے۔نواز شریف کو جس طرح اسلام آباد تک آنے دیا گیا اور پھر جدہ بھیج دیا گیا،کہیں اس طرح اسٹیبلشمنٹ انہیں پھر سے ہیرو تو نہیں بنانا چاہتی؟اگر اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف اندر خانے ملے ہوئے ہوں تو اس طرح بے نظیر کے مقابلہ میں انہیں عوامی ہیرو بنانے کا کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود واقعتاً صاف شفاف الیکشن ہوئے تو بے نظیر بھٹو کی پارٹی اب بھی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی۔لیکن ایک بات طے ہے،کوئی بھی پارٹی برسر اقتدار آئے،عوام کے بنیادی مسائل اتنے الجھائے جاچکے ہیں کہ کوئی بھی انہیں حل نہیں کر سکے گی۔کرپشن کی لعنت سے کون نجات دلائے گا؟عوام کی بنیادی ضروریات صرف روٹی ،کپڑا اور مکان نہیں ہیں بلکہ بہتر تعلیم،اچھی صحت کے لئے بہتر طبی سہولیات اور منا سب روزگار کوبھی اب ضروریات میں شمار کرنا چاہئے۔ان ساری سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ملائیت کے عفریت کا سامنا کرنا ۔۔۔خاص طور پر دہشت گرد کاروائیوں کے خلاف موثر اقدام کرنا۔جو کام جنرل پرویز مشرف سے سات برسوں میں ڈھنگ سے نہیں ہو سکا،اسے کوئی سیاسی جماعت کیسے کر پائے گی؟وقت آنے پر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
صدر کے دو عہدوں کے حوالے سے جماعت اسلامی کی ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔اس میں مختلف قانونی اور آئینی نکات پر بحث جاری ہے۔اگلے چند روز میں (شاید یہ کالم چھپنے تک)فیصلہ آنے کی امید ہے ۔اس فیصلہ کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ یا تو پاکستان تدریجاً جمہوریت کی پگڈنڈی پر چلنے لگے گا(پگڈنڈی سے کامیابی سے گزرنے کے بعد جمہوریت کی شاہراہ تک پہنچے گا،شاہراہ پر گامزن ہونے کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے)۔۔لیکن ایسا نہ ہو سکا تو ایک اور مارشل لا سر پر کھڑا سمجھیں۔
میں نے گزشتہ کالم میں نام لئے بغیر بعض مذہبی جماعتوں کا ذکر کیا تھا جو قیام پاکستان کی شدید مخالف رہی تھیں۔اور اب نظریۂ پاکستان کی چیمپئن بنا دی گئی ہیں۔۱۷اور ۱۸ستمبر کی تاریخوں میں روزنامہ خبریں میں ایک مضمون دو قسطوں میں شائع ہوا ہے۔مضمون کا عنوان ہے”مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور جماعت اسلامی“اور اسے تحریر کیا ہے جماعت اسلامی کے موجودہ امیر قاضی حسین احمد نے۔مضمون کے پہلے پیراگراف میں انہوں نے پاکستان کی مخالفت کرنے کے الزام کی صفائی دینے کی کوشش کی ہے۔ان کی تحریرکے مطابق:
”مولانا مودودی اور علامہ اقبال کے درمیان گہرا تعلق اس امر سے واضح ہوجاتا ہے کہ مشرقی پنجاب میں پٹھانکوٹ کے نزدیک”دارالاسلام“کے نام سے جماعت اسلامی کا جو پہلا مرکز قائم ہوا،اس کے لیے زمین علامہ اقبال کے توسط سے فراہم ہوئی تھی۔یہ زمین علامہ اقبال کو پنجاب کے ایک زمیندارچوہدری نیاز علی صاحب نے اس مقصد کے لئے پیش کی تھی کہ اس پر دین کا کام کرنے کے لئے کوئی مرکز بنائیں ۔ علامہ اقبال نے اس کے لئے مولانا مودودی کا انتخاب کیا اور ان کو دعوت دی کہ وہ اس پر ایسا مرکز بنائیں ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو نہ تو کوئی جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی انکار کر سکتا ہے۔یہ تاریخی حقیقت ان تمام اعتراضات اور الزامات کی بھی تردید کر دیتی ہے جو پاکستان کی مخالفت کے سلسلے میںمولانا مودودی پر لگائے جاتے ہیں“
اگر تو واقعتاً مولانا مودودی نے پاکستان کی اور قائد اعظم کی مخالفت نہیں کی تھی تو بے جا الزام تراشی نہیں کی جانی چاہئے۔لیکن ”پاکستان کی مخالفت کے اعتراض اور الزام“ سے بریت کے لئے علامہ اقبال کی طرف سے پٹھانکوٹ کی زمین فراہم کرنے کو دلیل بنانا قاضی صاحب کے لئے مناسب نہیں لگ رہا۔دین کا کام کرنے والے کئی علماءکانگریس کے ہمنوا اور پاکستان کے کھلے مخالف تھے۔مولانا ابوالکلام آزاد جیسے اعلیٰ پائے کے عالمِ دین بھی پاکستان کے مخالف تھے۔کون کہے گا کہ انہوں نے دین کے لئے کام نہیں کیا تھا۔لیکن ان کا سیاسی کردار اور کانگریس سے وابستگی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔۔۔۔اسی طرح” دین کا کام کے لئے“زمین کی فراہمی میں مدد کرنے سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ مولانا مودودی نے پاکستان کے قیام کی مخالفت نہیں کی تھی؟
صرف حافظہ کی بنیاد پر جو چند حوالے گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں ان میں سے تین براہِ راست مولانا مودودی سے متعلق ہیں۔میں نے اپنے کالم میں متعلقہ مخالفین پاکستان علماءکے نام نہیں لکھے تھے۔ لیکن اب بات چل نکلی ہے تووضاحتِ احوال کے طور لکھ رہا ہوں۔ قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو مولانا مودودی نے لکھا کہ میں اس قراداد کو دیکھتا ہوں تو میری روح بے اختیار ماتم کرنے لگتی ہے۔انہوں نے قائدِ اعظم کا نام لے کر لکھا کہ لیگ کے قائدِ اعظم سے لے کر مبتدی تک کوئی بھی اسلامی زندگی کا نمونہ نہیں ہے۔(بعد میں جماعت اسلامی نے تحریف کردی،اس کتاب کے نئے ایڈیشنوں میں قائد اعظم کا لفظ ہٹا کر” بڑے لیڈروں“کر دیا۔تاہم مودودی صاحب کی کتاب کے پہلے ایڈیشن میں قائدِ اعظم کا لفظ واضح طور پر لکھا ہوا ہے اور ان کے اسلامی کردار پر صاف حملہ کیا گیا ہے۔)
قیامِ پاکستان کے بعد اپنی وفات تک مولانا مودودی ایک بار بھی قائدِ اعظم کے مزار پر دعائے مغفرت کے لئے نہیں گئے۔جس سے ان کے دل میں قائدِ اعظم کی عزت و محبت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔یہ تین حقائق آفتاب آمد دلیلِ آفتاب کی طرح روشن ہیں۔ان کے جواب میں جماعت اسلامی کی طرف سے پٹھانکوٹ کی زمین دینے دلانے کا کوئی حوالہ لانے کی بجائے صرف ایک ایک سادہ سا حوالہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے قیام سے پہلے پاکستان کی حمایت میں لکھا ہوا صرف ایک جملہ عطاکر دیا جائے تو تاریخ کا بھلا ہو جائے گا۔اسی طرح قائد اعظم کے بارے میں کلمۂ خیر کے طور پر بھی صرف ایک جملہ جو مولانا مودودی صاحب نے کہا ہو۔۱۹۴۷ءسے پہلے کے ایسے دو حوالے جماعت اسلامی کو ان سارے الزامات سے پاک کر سکتے ہیں جو پاکستان کی مخالفت کے سلسلے میں لگائے جاتے رہے ہیں۔
قاضی صاحب!
پاکستان کی حمایت میں اور قائدِ اعظم کی تائید میں صرف ایک ایک جملے کا سوال ہے۔اگر جماعت اسلامی کے لٹریچر میں سے ایسے دو جملے مل جائیں تو حقیقت کا یہ رخ سامنے آجائے گا۔ورنہ حقیقت یہی ہے کہ مولانا مودودی نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔قائد اعظم کی زندگی کو غیر اسلامی کہا تھا ،اور پاکستان کے قیام میں ان کا قطعاً کوئی کردار نہیں تھا۔
دیوبندی مکتبہ فکر نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اور کھل کر مخالفت کی تھی۔وہ لوگ آج بھی اس بات کو چھپاتے نہیں ہیں۔ہمہ وقت اس کا اعلان نہیں کرتے رہتے لیکن کہیں اس موضوع پر بات چل نکلے تو وہ کسی اعتذار کے بغیر اپنے اکابرین کے موقف کا برملا اقرار کرتے ہیں۔مولانا حسین احمد مدنی ، سید عطاءاللہ شاہ بخاری ،مولانا محمد علی جالندھری سے لے کر مولانا ابوالکلام آزاد تک متعدد علمائے کرام نے کسی نہ کسی جواز کے ساتھ پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی اور بعد میں بھی اپنے موقف پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کو بھی چاہئے کہ پاکستان مخالف دوسرے جید علماءکے طرز عمل کے مطابق اپنے تاریخی ریکارڈ کا سامنا کریں۔غلط دعویٰ ٹھیک نہیں ہے۔ویسے تاریخی حقائق کے ساتھ بحث چل نکلے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کا ہو جائے گا۔