لال مسجد ،جامعہ حفصہ کے ڈرامہ کا ڈراپ سین لیکن۔۔۔۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ سے اسلامی نظام نافذ کرنے کے ڈرامہ کا ڈراپ سین ہو گیا ہے۔اس سلسلہ میں ماضی کے حوالے سے بھی کئی اہم سوال ہیں اور مستقبل کے حوالے سے بھی کئی اہم سوال ہیں۔ فوجی حکومت اور حساس اداروں کے قابلِ اعتراض کردار کے بارے میں جتنی باتیں اب تک کھل کر کی جا چکی ہیں ،اُن کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔تاہم پہلے میں یہاں حکومتی بیانات کو فوقیت دیتے ہوئے اس سانحہ کی مختصر روداد دہرا دیتا ہوں۔
لال مسجد سرکاری مسجد تھی، ۱۹۹۸ء میں اس کے خطیب مولوی عبداللہ کے قتل کے بعد ان کے بیٹے مولوی عبدالعزیز کو اس کا خطیب بنایا گیا۔مولوی عبدالرشید غازی نائب خطیب مقرر ہوئے۔مولوی عبداللہ اس امریکی جہاد کے سرگرم مبلغ و مجاہد تھے جو سوویت یونین کے خلاف لڑا گیا تھا۔امریکہ اور اسرائیل نے اس امریکی برانڈ جہاد کے لئے جتنی مالی و عسکری امداد بھیجی وہ زیادہ تر پاکستان اور سعودی عرب کے ذریعے بھیجی گئی۔تاہم جذبۂ جہاد سے سرشار دوسرے مجاہدین کی طرح یہ بھی افغانستان میں جنگ لڑتے رہے اور وہاں سے واپسی کے بعد بھی وہاں کے عسکری حلقوں سے براہِ راست رابطوں میں رہے ۔ ان میں ملا عمر اور اسامہ بن لادن جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد امریکی مقاصد پورے ہوگئے اور وہ اپنا بوریا بستر لپیٹ کر یہاں سے رخصت ہو گیا ۔ اسرائیل کو متعدد ڈپلومیٹک فوائد کے ساتھ ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سب سے پہلی چار ریاستیں جو آزاد ہوئیں اور کسی خون خرابے کے بغیر آزاد ہوئیں وہ چاروں یہودی آبادی والی ریاستیں تھیں۔جبکہ مسلم آبادی والی ریاستیں جو بعد میں آزاد ہوپائیں، ہر ایک کوخون خرابہ کے بعد آزادی مل سکی۔بہر حال افغان،افریقی اور عرب مجاہدین جو امریکہ برانڈ جہاد کو سچ مچ اسلامی جہاد سمجھ رہے تھے،بعد میں بھی اسی بات پرمُصر رہے۔وہ ابھی تک یہ اندازہ نہیں کر پائے یا کرنا نہیں چاہتے کہ جہاد کے نام پر وہ امریکہ اور اسرائیلی مقاصد کے حصول کی جنگ لڑتے رہے ہیں۔اور اس معاملہ میں ان کی حیثیت بھاری معاوضہ کے کرائے کے فوجیوں سے زیادہ کچھ نہ تھی۔سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد جب امریکہ اپنے ان ایجنٹوں کا کوئی متبادل بندو بست کئے بغیر علاقہ سے نکل گیا تو اس کے نتیجہ میں پہلے افغان مجاہدین کا باہمی خون خرابہ ہوا،بیچ میں صلح صفائی کے لئے خانہ کعبہ میں بیٹھ کر قسمیںکھائی گئیں اورکا بل پہنچنے تک سارے مجاہدین کی قسمیں ٹوٹ گئیں پھر طالبان کا اسلامی نظام لایا گیا۔جسے ساری دنیا نے دیکھا۔نائن الیون سے پہلے تک حکومت پاکستان ہر سطح پر طالبان کی سرپرستی کر رہی تھی تاہم نائن الیون کے بعدجنرل پرویز مشرف کی حکومت کو یو ٹرن لینا پڑا۔لیکن مولویوں کا ایک خاص مکتب فکر اور ان کے ہم خیالوں کا طبقہ یہ ادراک و اعتراف نہ کر سکا کہ وہ جہاد کے نام پر امریکہ کے آلہ کار بنے تھے۔لال مسجد والے بھی اسی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔
لال مسجد اورجامعہ حفصہ کو محض مسجد اور دینی مدرسہ کہنا کافی نہ ہوگا۔ناجائز سرکاری زمینوں کو گھیرتے ہوئے ان مولویوں نے ایک کنال کی مسجد کو بڑھاتے بڑھاتے اس کا مجموعی رقبہ ۶۱کنال کے لگ بھگ بنا لیا تھا اور یوں ایک چھوٹا سا شہر بسا لیا تھا۔یہاں دینی تعلیم کے ساتھ عسکری سرگرمیاں بھی جاری تھیں،اور جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا باقاعدہ غیر ملکی دہشت گرد وں نے یہاں ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔اگر معاملہ صرف دینی درس و تدریس تک محدود رہتا تو شاید حکومت ان کے ناجائز قبضوں کو بھی برداشت کئے رکھتی لیکن ان مولویوں نے شریعت کے نفاذ کے نام پر ایسی حرکتیں شروع کرا دیں جن کا نتیجہ دنیا بھر میں پاکستان اور اسلام کی تضحیک کے سوا کچھ نہیں نکلا۔اسلام آباد کے مختلف مقامات پرغیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی بعض مساجد کے انہدام کو آڑ بنا کر چلڈرن لائبریری پر قبضہ کرکے، ناجائز قبضہ کر کے بنائی گئی مساجد کی از سر نو تعمیر کے اورشریعت کے نفاذ کے مطالبات سے یہ کھیل۲۲جنوری ۲۰۰۷ءمیں شروع ہوا۔پھر کبھی ویڈیو کی دوکانوں کو بے حیائی کے فروغ کا باعث قرار دے کر ویڈیو کیسٹیں،سی ڈیز وغیرہ کو سرِ عام آگ لگانے کے مظاہرے شروع کئے جانے لگے،کبھی کسی خاتون کو فحاشی کا اڈہ چلانے کے الزام میں اس کی بہو بیٹیوں سمیت گھسیٹ کر ان کے گھر سے نکالا گیا اور انہیں مسجد میں یرغمال بنائے رکھا گیا۔پھر اپنی مزعومہ شریعت کے مطابق انہیں توبہ تائب کرکے رہا کیا گیا۔کبھی پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا گیا اور اپنے گرفتار طلبہ کی رہائی کے بعد انہیں رہا کیا گیا۔یہ سب کچھ کسی قبائلی علاقے میں نہیں ہورہا تھا بلکہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہو رہا تھا۔آخری اقدام چینی کلینک پر آدھی رات کو دھاوا بولنا تھا۔
اس میں چینی خواتین کے ساتھ بعض مردوں کو بھی پکڑا گیا اور الزام لگایا گیا کہ یہ سب بے حیائی میں ملوث تھے۔جب بعض سیاسی مولویوں نے انہیں اس اقدام سے روکا تو انہوں نے باقاعدہ کہا کہ ایم ایم اے کے ایک رکن اسمبلی کا بیٹا بھی یہاں جایا کرتا ہے۔ نفاذِ شریعت اور بے حیائی کے خلاف جنگ کرنے والے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے منتظمین سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں تھا کہ تم جس انداز کی شریعت نافذ کرنے لگے ہو اس کی رُو سے تو کوئی خاتون اپنے محرم کے بغیر حج یا عمرہ کے لئے بھی نہیں جا سکتی، تو تم نے کس طرح ہزاروں جوان لڑکیوں اور عورتوں کو ان کے محرموں کے بغیر یہاں جمع کر رکھا ہے؟ پہلے اپنی مزعومہ شریعت یا تفہیمِ دین پر خود تو عمل کر لو۔
چینی کلینک پر مولویوں کی واردات کے بعد چینی حکومت کی طرف سے پاکستان پر شدید دباؤ ڈالا گیا۔چنانچہ حکومت پاکستان کے پاس ایکشن لینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہ گیا۔ ۳جولائی کو حکومت نے رینجرز،پولیس اور فوج کے دستوں کے مختلف گھیرے بنا کرلال مسجد کے مولوی برادران پر دباؤ ڈالنا شروع کیا تو ان کی طرف سے رینجرز پر فائر کھول دیا گیا۔ایک شہادت اور چند زخمی سپاہیوں کا تحفہ ملنے کے بعد حکومت نے ابتدائی سخت کاروائی شروع کی۔تاہم حکومت نے پوری کو شش کی کہ یہ مولوی برادران خود کو حکومت کے سپرد کر دیں اور محصور خواتین اور بچوں کو رہا کر دیں۔
اس سے پہلے خبریں آچکی تھیں کہ مولوی عبدالعزیز نے تمام طلبہ و طالبات سے قرآن پر حلف لیا ہے کہ وہ شہادت قبول کر لیں گے لیکن ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ان کے بارے میں یہ خبر بھی سامنے آچکی ہے کہ انہیں تین سو سے زاید بشارتیں ہو چکی ہیں۔ان بشارتوں پر مبنی کتاب بھی چھپی ہوئی ہے۔ان میں سے ایک بشارت کے مطابق مولوی عبدالعزیز کا خون مسجد کے صحن میں بکھرا ہوا ہے اور اس خون سے اسلامی انقلاب نکلے گا۔طلبہ و طالبات سے قرآن پر ”شہادت قبول لیکن ہتھیار نہیں ڈالنا“ کا حلف لینے والے اور اپنے خون سے اسلامی انقلاب آنے کی بشارت چھاپنے والے مولوی عبدالعزیز۴جولائی کو برقعہ پہن کر فرار ہوتے ہوئے گرفتار ہو گئے۔حقیقتاً ۴جولائی کو رات گئے حکومت کو وہ سب کچھ کر لینا چاہئے تھا جو ۱۰جولائی کومزید مجبور ہو کرکرنا پڑا۔ ۴جولائی کو ایسا سب کچھ کر لیا جاتا تو حکومت کی اخلاقی پوزیشن کافی بہتر ہوتی ،غیر ضروری تاخیر کے جواز میں حکومت کا موقف یہ ہے کہ ہم کم سے کم جانی نقصان چاہتے تھے اسی لئے اتنی تاخیر کرنا پڑی۔ بہر حال ۹اور۱۰جولائی کی درمیانی رات کو حکومت،علمائ،اور سیاسی شخصیات کی کاوشوں سے ایک معاہدہ طے پا رہا تھا جس کے مطابق عبدالرشید غازی روجھان،راجن پور میں اپنے گاؤں میں نظر بند ہو جائیں گے۔لیکن ان کی طرف سے پوچھا گیا کہ غیر ملکی افراد کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟(یوں پہلی بار انہوں نے مدرسہ میں غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی کا اعتراف کر لیا)۔اس کے جواب میں انہیں بتایا گیا کہ انہیں قانون کا سامنا کرنا ہو گا۔بس یہیں پر مذاکرات ٹوٹ گئے اور اسی رات لال مسجد والوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا۔جس کے نتیجہ میں مولوی عبدالرشید ہلاک ہو گئے۔حکومت کی طرف سے بیان کیا گیا کہ ۲۰۱کے لگ بھگ اموات ہوئی ہیں جبکہ ۱۰جولائی کو شام تک جرمنی میڈیا ہلاکتوں کی تعداد آٹھ سو بتا رہا تھا۔یہ بلاشبہ بہت بڑا انسانی المیہ ہے،جس کا دکھ ہر انسان دوست محسوس کرے گا لیکن حکومت کی یہ بات بھی اپنے اندر وزن رکھتی ہے کہ ۱۰جولائی تک تیرہ سو کے لگ بھگ خواتین و حضرات اور بچوں کو بچا لیا گیا جن میں مولوی عبدالعزیز کی اہلیہ اور بیٹی بھی شامل ہیں۔
مولوی عبدالرشید غازی نے اگر عورتوں اور بچوں کو یرغمالی بنانے کی بجائے انہیں خود باہر نکال دیا ہوتا تو اتنی زیادہ ہلاکتیں نہ ہوتیں۔بے شک برین واش کئے ہوئے بعض افراد ان کے ساتھ مرنے پر بھی تلے ہوئے ہوں گے لیکن ۱۰جولائی تک تیرہ سو افراد کا بحفاظت نکال لیا جانا ظاہر کرتا ہے کہ ایک بڑی تعداد کو واقعتاً یرغمال بنایا گیا تھا۔مولوی عبدالرشید غازی کے اس طرزِ عمل سے مجھے انڈو پاک کی فلموں کے روایتی ولن یاد آئے۔فلم کے اختتام سے تھوڑا پہلے وہ ہیرو کی ماں ،بہن یا ہیروئن وغیرہ کو اغوا کرکے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ عبدالرشید غازی نے اپنے ہی بچوں اور عورتوں کو یرغمال بنا لیااور حکومت کو بلیک میل کرتے رہے۔اگر وہ ساری خواتین اور بچوں کو خود نکال دیتے اور پھر حکومت کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے جاتے تو میرے جیسے گناہ گار لوگ بھی ان کی عظمت کو سلام کرتے۔ لیکن اس وقت جتنی افسوسناک اور تکلیف دہ ہلاکتیں ہوئی ہیں میں ان کی زیادہ ذمہ داری مولوی عبدالرشید غازی پر ہی ڈالوں گا ،اس معا ملہ میںان کا کردار فلموں کے روایتی ولن جیسا رہا۔
مولوی عبدالعزیز کی بشارتوں میں سے ایک بشارت کا اوپر ذکر کر چکا ہوں۔مجھے قرآن شریف میں بشارت اور انذار کے حوالے سے آیات کو سمجھنے میں کبھی دقت نہیں ہوئی تھی لیکن سورة توبہ کی ابتدائی آیات میں ایک جگہ بشارت کا لفظ عذاب کے طور پر پڑھا تو مجھے کچھ حیرانی سی ہوئی تھی۔اب مولوی عبدالعزیز کی بشارتوں کے نتائج سے اندازہ ہو رہا ہے کہ کبھی کبھی عذاب کی خبر انذار کی بجائے بشارت کے لفظ میں بھی بیان ہو سکتی ہے۔اسی سورة توبہ میں ایک مسجد ضرار کا ذکر بھی ملتا ہے جو فتنہ و فساد کا مرکز بنا دی گئی تھی۔لال مسجد کو اسلحہ خانہ بنانے والوں نے نفاذ شریعت کے نام پر جو فتنہ گری شروع کر رکھی تھی اپنے زہریلے ثمرات کے لحاظ سے یہ مسجد ضرار والوں سے کم نہ تھی۔
میں نے اپنے ۱۵ اپریل کے کالم (نمبر ۱۲)میں ان مولویوں کے کردار اور بھنڈرانوالہ کا حوالہ دیا تھا۔تب میرے ایک قریبی دوست نے گلہ کیا تھا کہ میں نے ”عالمِ دین“کو سکھوں کے ساتھ ملا دیا۔ ۳جولائی کی کاروائی کے بعد اخبارات اور ٹی وی پر آنے والے کئی تبصروں اور تجزیوں میں بھنڈرانوالہ کا ذکرِ خیر ہوتا رہا اور دونوں عبدل برادران کے کردار کے ساتھ ان کی مثال دی جاتی رہی۔اس کے نتیجہ میں میرے دوست کا گلہ تو مجھ سے کم ہو گیا ہوگا لیکن اب مجھے عبدل برادران کے ساتھ بھنڈرانوالہ کا ذکر کرنے پر شرمندگی ہو رہی ہے۔ اگرچہ گولڈن ٹمپل میں عورتیں اور بچے موجود تھے لیکن بھنڈرانوالہ نے انہیں یرغمال بنا کر اپنے آپ کو بچانے کی گھٹیا حرکت نہیں کی۔یہاں تو عبدالرشید غازی نے آخری مرحلہ پر بھی”پورے پیکیج“کے نام کے ساتھ اس گھٹیا حرکت پر اصرار جاری رکھا ۔یہ ایک سکھ رہنما اور ایک مولوی کے کردار کا واضح فرق ہے۔پھر بھنڈرانوالہ نے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جان دے دی۔جبکہ عبدل برادران کا بڑا بھائی برقعہ پہن کر فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا اور دوسرا بھائی اپنے سر پر مسلط غیر ملکی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ آخری مرحلہ پر مذاکرات کی ناکامی کی وجہ واضح طور پر یہی ہے کہ مولوی عبدالرشید غازی اپنے غیر ملکی دہشت گردوں کے لئے بھی تحفظ چاہتے تھے۔حکومت نے اس سے انکار کیا تو قوم کی عورتوں اور بچوں کو یرغمال بنانے والا خود بھی اپنے ہاتھوں سے پناہ دئیے گئے غیر ملکی دہشت گردوں کا یرغمالی بن کر رہ گیا اور انہیں کے ہاتھوں کیفرِ کردار کو پہنچا۔
۳جولائی کے دن سے ۱۰جولائی کی رات تک مولوی عبدالرشید نے اتنے جھوٹ بولے،اتنے پینترے بدلے کہ ان کی حمایت کرنے والوں کی جذباتیت پر حیرانی ہوتی ہے۔جیوٹی وی پر ان کے ساتھ مفاہمت کی بات طے کرتے ہوئے کامران خان نے انہیں کہا کہ آپ اس بات پر قائم رہیں گے؟مولوی عبدالرشید نے کہا میں اس پر قائم ہوں ، کامران خان نے اسی وقت حکومتی ذرائع سے رابطہ کیا اور پھر پوری قوم نے دیکھا کہ مولوی عبدالرشید ایک گھنٹے کے اندر اپنی بات سے مکر گئے۔
ایک موقعہ پر انہوں نے مسجد میں بیٹھے ہوئے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ ہمارے پاس کوئی بھاری اسلحہ نہیں ہے،لائسنس والا تھوڑا سا اسلحہ ہے۔اسی رات پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل ہارون الاسلام شہید ہو گئے اور بعض دوسرے فوجی زخمی ہوئے۔اور پھر ٹی وی پر قسم کھا کر بھاری اسلحہ کی موجودگی سے انکار کرنے والے کی طرف سے صرف راکٹ لانچرہی فائرنہیں ہوئے بلکہ مولوی عبدالرشید نے خود ٹی وی پر بتایا کہ ہمارے پاس اتنا اسلحہ موجود ہے کہ ہم فوج کا ایک مہینے تک مقابلہ کر سکتے ہیں۔بعد میں مسجد سے جو اسلحہ برآمد ہوا وہ الگ سے ایک حقیقت ہے۔
شروع میں مولوی عبدالرشید غازی نے سختی کے ساتھ اس بات کی تردید کی کہ مسجد میں یا جامعہ میں کوئی غیر ملکی موجود ہے۔لیکن مذاکرات کی تان اس بات پر آکر ٹوٹی کہ مجھے تحفظ دینے کے ساتھ غیر ملکی دہشت گردوں کو بھی تحفظ دیا جائے۔گویا غیر ملکی دہشت گرد واقعی موجود تھے اور ان کی موجودگی سے انکار کرکے مولوی عبدالرشید غازی مسجد میں بیٹھ کر جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جا رہے تھے۔
ہاں ایک سچ انہوں نے ضرور بولا تھا۔۔۔انہوں نے حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اگر ہمارے خلاف کاروائی ہوئی تو ہمارے پاس اتنے خود کش حملہ آور موجود ہیں کہ پورے ملک میں خود کش حملے ہوں گے۔اب فوج اور عوام کے خلاف ہونے والے خود کش حملوں کی یلغار نے انہیں اس معاملہ میں سچا ثابت کر دیا ہے۔
چند باتیں بطور خاص حکومت پاکستان کے لئے
جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے لئے چند خاص باتیں بیان کرنا ضروری ہیں۔ان میں سے بیشتر سوالات گزشتہ دنوں میں ملک کے مختلف معتدل حلقوں کی طرف سے بار بار اٹھائے جا چکے ہیں اور ان کی تکرار کا مقصد حکومت پاکستان کو لال مسجد معاملہ میں ملوث دوسرے اور شاید اصل کرداروں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے ان کی ذمہ داری کا احساس دلانا ہے۔
۱۔عبدل برادران جب اپنی ”ریاست کے اندر ریاست“ میں مسلسل توسیع کر رہے تھے تو سرکاری زمینوں پر ان کے ناجائز قبضوں کا نوٹس کیوں نہ لیا گیا؟اور اس حوالے سے ان کے خلاف کاروائی کیوں نہ کی گئی؟
۲۔جن اداروں یا افسران نے اس ”ریاست کے اندر ریاست“ کے خلاف کاروائی کرنا چاہی،اُلٹا ان افسروں یا اداروں کے خلاف کیوں کاروائی ہو جاتی تھی؟یہ سب کرنے والے با اختیار کون لوگ تھے؟ان سارے حکام کے نام قوم کے سامنے لائے جائیں اور ان سب کے خلاف بھی دہشت گردی کو تحفظ اور فروغ دینے کے جرم میں مقدمہ قائم کیا جائے۔
۳۔ریاست کے اندر یہ ریاست ملکی سلامتی کے سب سے حساس ادارے آئی ایس آئی کے دفتر سے ایک ،ڈیڑھ کلو میٹرکے فاصلے پر قائم تھی۔یہاں غیر ملکیوںسمیت ہر طرح کے دہشت گرد پناہ گزیں ہوتے رہے،تعمیراتی طور پر اتنے تہہ خانے بنا لئے گئے کہ فوج کو انہیں چیک کرکے کلیئر کرنے میں کئی دن لگیں گے،یہاں ہر طرح کے اسلحہ کے انبار لگتے رہے،اتنا کچھ ہوتا رہا اور آئی ایس آئی جیسا اہم اور حساس ادارہ اس سب کچھ سے بے خبر رہا؟کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟یا پھر حکومت کے حساس ادارے ہی ان کی پرورش کرتے رہے؟اس معاملہ میںآئی ایس آئی کے کردار کو بطور خاص سامنے لایا جائے اور اس وقت کے ان سارے اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی جائے جو ان مولویوں کو دہشت گردی کے لئے تیار کر رہے تھے۔اگر آئی ایس آئی ان معاملات میں ملوث نہ تھی تو اس کی بے خبری اور نا اہلی کا جرم اصل جرم سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ان تمام معاملات کی عدالتی تحقیقات ضروری ہے۔
۴۔ سال۲۰۰۴ءمیں دونوں عبدل برادران کو دہشت گردی کے ایک کیس میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔اس سلسلہ میں اس وقت کے حکومتی ترجمان شیخ رشیداحمد نے ۱۴ اگست کو باقاعدہ اعلان کیا کہ ملک کو دہشت گردی کی ایک بہت بڑی واردات سے بچا لیا گیا ہے۔لیکن پھر جنرل ضیاع الحق کے سپوت اعجاز الحق کی سفارش پر دونوں بھائیوں کا نام کیس سے نکال دیا گیا۔کیا اعجاز الحق اس طرح براہ راست ان دہشت گردوں کی حفاظت نہیں کرتے رہے؟اگر ان کی ضمانت پر دونوں مولویوں کو معافی دی گئی تھی تو اب ان کی موجودہ دہشت گردی کے نتیجہ میں اعجاز الحق کو لازماً شاملِ تفتیش کیا جانا چاہئے اور کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے۔وگرنہ حکومت کی کاروائیاں صرف دکھاوے کی یا مجبوری کی کاروائیاں ثابت ہوں گی۔ حکومت کو دہشت گردوں کے سرپرستوں اور ضمانتیوں سے پاک کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنا۔ اعجاز الحق اور چوہدری شجاعت حسین جیسے لوگوں سمیت حکومت کے اندر ابھی بہت سارے اور ایسے عناصر موجود ہیں جو دہشت گردوں کے بنیادی مقاصد کے ساتھ مکمل ہمدردی ہی نہیں رکھتے ،بلکہ ان کی دامے،درمے،قدمے سرپرستی بھی کرتے رہتے ہیں۔ان سب کے خلاف تفتیش کرنا لازم ہو گیا ہے۔
۵۔حکومت پاکستان عمومی طور پر اور پاک فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے دوسرے بڑے کردار خصوصی طور ۱۹۶۹ء سے اپنے کردار کا جائزہ لیں۔اس زمانے سے مقتدر جرنیلوں اور ان کے سیاسی و بیوروکریسی کے مشیروں نے مل کر ملک کی تاریخ اور جغرافیہ دونوں کو مسخ کرنے کا کھیل شروع کیا تھا۔ اس کھیل کی ابتدا میں ہی ان مولویوں کو نظریۂ پاکستان کا چیمپئن بنا دیا گیا جو قیامِ پاکستان کے شدید مخالف تھے۔یہاں اس نکتہ کی تھوڑی سی وضاحت کردوں۔
پاکستان کا سوادِ اعظم جسے معروف معنوں میں بریلوی مسلک کے سنی کہا جاسکتا ہے،اپنی تعداد کے لحاظ سے کم از کم ۷۰ فیصدہے۔بریلوی کے برعکس دیوبندی مسلک کے لوگ اور ان کے ہم خیال گروپس ۱۰فی صد کے لگ بھگ ہیں لیکن ایک سازش کے تحت ملک کی خاموش اور پُر امن اکثریت کو اقلیت کی طرح نظر انداز کرکے ان مکاتب فکر کو آگے لایا جانے لگا ۔قیام پاکستان میں سواد اعظم کی حمایت ان رہنماؤں کو حاصل تھی جو شیو کیا کرتے تھے۔اُس زمانے میں کوٹ پتلون پہنا کرتے تھے۔علامہ اقبال ہوں یا قائدِ اعظم اور ان کے کشادہ دل و کشادہ نظر ساتھی ،یہ سب اپنے حلیہ سے لے کر علم و عمل تک سکہ بند ملائیت سے کوسوں دور تھے۔ تب قائدِ اعظم کے خلاف اور مطالبۂ پاکستان کے خلاف یہ سارے علماءزہر افشانی کر رہے تھے جو آج نظریۂ پاکستان کے علم بردار اور چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔قائد اعظم کی مخالفت اور پاکستان دشمنی کی باتیں شاید ایسے سمجھ میں نہیں آئیں گی اس لئے یہاں ان مولویوں کے ماضی کی تاریخ کے چند صفحات نہیں بلکہ صرف چند اقتباسات نمونہ کے طور پر پیش کر دیتا ہوں۔مولویوں کے بولے ہوئے اور لکھے ہوئے ایسے شرمناک بیانات پاکستان کے قیام کی تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔لیکن ہم ایک سازش کے تحت اپنی تاریخ سے غافل کر دئیے گئے ہیں۔ (میں یہ اقتباس اپنے حافظہ کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں ،اس میں کہیں ایک آدھ لفظ تو آگے پیچھے ہو سکتا ہے لیکن نفسِ مضمون سو فی صد درست ہے اور میں نفس مضمون کی درستی کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں)
۔۔۔ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے۔
۔۔۔پاکستان بن گیا توپیشاب سے اپنی داڑھی منڈا دوں گا۔اگر مرنے کے بعد بناتو میری قبر پر آکر پیشاب کردینا۔
۔۔۔جب میں مسلم لیگ کے ریزولیشن (۲۳مارچ ۱۹۴۰ء) کو دیکھتا ہوں تو میری روح بے اختیار ماتم کرنے لگتی ہے۔
۔۔۔افسوس لیگ کے قائدِ اعظم سے لے کر مبتدی تک کوئی بھی اسلامی طریق کے مطابق نہیں ہے۔
۔۔۔ اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا یہ قائدِ اعظم ہے کہ ہے کافرِ اعظم
۔۔۔یہ مولوی لوگ” قائدِ اعظم“ کی بجائے” کائدِ اعظم“ (مکار اعظم) لکھا کرتے تھے۔
جب پاکستان بن گیا تو ان پاکستان دشمن مولویوں نے پاکستان دشمنی کے لئے اپنے ہندوستانی اڈوں میں مقیم رہنے کی بجائے پاکستان کا رخ کر لیا۔اور یہاں بھی اعلانیہ طور پر ایسے بیانات دیتے رہے۔
۔۔۔پاکستان ایک بازاری عورت ہے جسے ہم نے مجبوراً قبول کیا ہے۔
۔۔۔میں نے اپنے دفتر کے چپراسی کا نام قائد اعظم رکھ دیا ہے۔
یہ مخالفین پاکستان، قائدِ اعظم کے معاملہ میں اپنے دلوں میں اتنا زہر رکھتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد مرتے دَم تک کبھی ان کے مزار پر دعائے مغفرت کے لئے بھی جانا گوارا نہیں کیا۔اور اب المیہ یہ ہے کہ یہی لوگ خود کو قائدِ اعظم کے دست راست،مشیر اور نظریاتی ساتھی بتا رہے ہیں۔ان سارے مکروہ چہروں کو بے نقاب کیا جا سکتا تھا اور قوم ان سے ہمیشہ باخبر رہ کر محتاط رہ سکتی تھی۔لیکن افسوس کہ فوج کے چند جرنیلوں،بیوروکریسی اور لوٹا سیاست کے بعض کرداروں نے مل کر نظریہ پاکستان کا راگ الاپتے ہوئے دشمنانِ پاکستان کو پاکستان کا مالک و مختار بنا دیا۔اس ملی بھگت نے پاکستان کا جغرافیہ بھی خراب کیا، پاکستان کی اکثریتی آبادی کو پاکستان سے الگ کردیا اور اسی ملی بھگت نے پاکستان کی تاریخ کو بھی مسخ کر رکھا ہے۔جس ملک و قوم کی تاریخ اور جغرافیہ مسخ کر دئیے جائیں وہاں کا آئین کیونکر مسخ نہ ہوگا۔
اب عبدل برادران کی حمایت میں بولنے والے مولویوں کو دیکھیں تو یہ وہی کردار ہیں،وہی مکاتبِ فکر ہیں جو پاکستان کے قیام کے مخالف تھے،قائدِ اعظم سے نفرت کرتے تھے۔ان کے بر عکس وہ علماءجو ستر فی صد آبادی کے معتقدات کے ترجمان ہیں وہ آج بھی ان دہشت گردوں سے اپنی بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔
۱۱جولائی کو چھپی ایک خبر کے مطابق:تنظیم المدارس پاکستان کے ناظم اعلیٰ و مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے کہا ہے کہ جو مدارس منفی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے اور جو دہشت گردی میں ملوث ہیں انہیں ختم کردینا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ لال مسجد والوں کی منفی سرگرمیوں کی وجہ سے دوسرے مدارس بدنام ہو رہے ہیں۔
اب فوج اور دوسرے مقتدر اداروں کے سامنے سیدھا رستہ یہی ہے کہ وہ مسلک کے امتیاز کے بغیر تمام دینی مدارس کی جانچ پڑتال کا کام کریں،ان کی تلاشیاں لی جائیں۔تہہ خانے کھنگالے جائیں۔جن کے دامن صاف ہیں وہ ایسی کسی احتیاطی تدبیر کے خلاف قطعاًکوئی مزاحمت نہیں کریں گے ،ہر طرح سے حکومت کے ساتھ تعاون کرکے ملک میں امن و امان کے قیام میں تعاون کریں گے۔اور جو مدارس لال مسجد و جامعہ حفصہ جیسی دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہ یقیناً ایسے فیصلے اور اقدام کی مخالفت کریں گے۔ پہلے مرحلہ میں تویہیں پر پُر امن مولویوں اور دہشت گردوں کے ساتھیوں کا ایک واضح فرق سامنے آجائے گا اور حکومتی رٹ قائم کرتے ہوئے تلاشی اور نگرانی کا عمل جاری رکھنے سے مزید دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آتاجائے گا۔ایسا کرنا لازم ہو گیا ہے وگرنہ وقفے وقفے کے بعد لال مسجد جیسے کئی سانحے سامنے آتے رہیں گے۔
مدارس کی مکمل تلاشیوںاور نگرانی کے علاوہ ضروری ہے کہ پاکستان کی تاریخ کو مزید مسخ کرنے سے بچایا جائے۔ابتدائی طور پر پڑھائی جانے والی تاریخ پاکستان میں ان عناصر کے نام لے کر بچوں کو بتایا جائے کہ یہ لوگ پاکستان کے قیام کے اور قائد اعظم کے مخالف تھے۔اور تدریجاً اگلے درجوں میں ان کی پوری تاریخ بیان ہوتی چلی جائے۔اس طرح قوم کے ساتھ مزید دھوکے نہیں ہو سکیں گے۔تاریخ کے نصاب میں یہ درستی کرنا ناگزیر ہے۔
دینی مدارس کے حوالے سے ایک اہم بات کرنا ضروری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جو دینی مدرسے صرف درس و تدریس تک محدود ہیں وہ پاکستان جیسے اونچ نیچ والے معاشرے میں غریب لوگوں کے بچوں کے لئے تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہونے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔یہ اس معاشرتی اونچ نیچ کا نتیجہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں اعلیٰ درجہ کے تعلیمی ادارے ہیں جہاں تک صرف اشرافیہ کی اولاد کی رسائی ممکن ہے،دوسرے مرحلہ میں سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جہاں عام متوسط طبقہ کی رسائی ہے اور تیسرے مرحلہ میں دینی مدارس ہیں جہاں غریب والدین کے بچوں کو کچھ آسرا مل جاتا ہے۔اصولاً تو ایسا ہونا چاہئے کہ تعلیمی اونچ نیچ ختم کرکے سارے تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب اور یکساں تعلیمی مواقع مہیا کئے جائیں ۔ اس میں ایچی سن اور آرمی برن ہال سے لے کر گورنمنٹ اسکول اور دینی مدرسہ تک سب کے لئے ایک ہی معیار اور نصاب ترتیب دیا جائے۔اگر حکومت جنگی بنیادوں پر ایسا کرنا چاہے تو دو تین سال کے اندر ملک کا نظام تعلیم صحیح خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے۔پھر ہمیں موجودہ دینی مدارس سے اچھے سائنس دان اور ایچی سن سے دینی اسکالرز بھی مل سکیں گے،ایسے دینی اسکالرز جو فرقہ پرستی کی بجائے ادیان کے تقابلی مطالعہ کا شعور رکھنے والے ہوں گے، اور ان سب کا علمی مرتبہ پایۂ اعتبار والا ہوگا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ہمارا مقتدر طبقہ ایسا کرنا پسند کرے گا۔مقتدر طبقہ کی مفاد پرستی،خود غرضی اور منافقت کی وجہ سے ہی ملک و قوم کو ایسے دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔سو اگر کہیں نیک نیتی کے ساتھ تبدیلی کی خواہش ہے تو تعلیم کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیاںلا کر ان میں تدریجاً پیش رفت کی جا سکتی ہے۔
ان مولوی صاحبان کی تفہیمِ دین اتنی محدود ہے کہ چھاپہ خانہ کے قیام پر انہوں نے کفر کا فتویٰ جاری کیا،قرآن شریف کے پہلے ترجمہ پر انہوں نے تکفیر کی،لاؤڈ اسپیکر کو انہوں نے شیطانی آلہ قرار دیا(اور اب اس شیطانی آلے کے سب سے گہرے دوست یہی لوگ ہیں)،سر سید احمد خان نے زمانے کی رفتار دیکھ کر مسلمانوں کو انگریزی پڑھنے کی طرف راغب کرنا چاہا تو انگریزی پڑھنا اور پڑھانا حرام قرار دے دیا گیا۔اب سارے مولوی ان ساری تبدیلیوں کو نہ صرف مان چکے ہیں بلکہ ان سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں لیکن کوئی نہیں جس میں اتنی اخلاقی جرات ہو جو کہہ سکے کہ ہمارے اکابرین کو وقت کی تبدیلیوں کا شعور ہی نہیں تھا(اور اب بھی نہیں ہے) علامہ اقبال مسلمانوں کو اجتہاد کے لئے کہتے کہتے گزر گئے۔ اس وقت مسلمانوں کے بیشتر مسائل کا حل اجتہاد میں ہے۔مجبوراً تو وقت کے ساتھ مانتے جاتے ہیں لیکن وقت سے پہلے حقائق کا ادراک نہیں کریں گے۔اجتہاد کے ضمن میں کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑے بغیرصرف دو مثالیں دے کر غور و فکرکی دعوت دیتا ہوں۔نمازوں کے اوقات احادیث مبارکہ میں بیان کئے گئے ہیں ۔اب ہم جدید زمانے کی گھڑیوں کے ساتھ ہم آہنگ کرکے ان گھڑیوں سے وقت کا تعین کرتے ہیں۔قرآن شریف میں روزے کے سحر و افطار کے لئے سفید لکیراور سیاہ لکیر کے فرق والی جو آیات ہیں وہ تو مذہبی زبان میں نص صریح ہیں۔ لیکن کیا کوئی ایک مولوی بھی اب اس نص صریح پر عمل کر سکتا ہے اور کرا سکتا ہے؟اس کے لئے بھی ہم قرآنی حکم کی روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گھڑیوں سے ہی استفادہ کرتے ہیں۔بس نماز کی تائمنگزاور سحرو افطار کی ان مثالوں کے مطابق جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر اسلامی احکامات کی روح کو پیش نظر رکھتے ہوئے اجتہاد کی ضرورت ہے اور جدید دور کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے ایسا ناگزیر ہے۔وگرنہ برق رفتاری کے ساتھ بڑھتا ہوا وقت کا پہیہ اپنے نیچے آنے والوں کو روندتا ہوا گزر جائے گا۔دنیا چاند سے بھی آگے پہنچ جائے گی اور ہم عید کے چاند کی تاریخوں پر ہی لڑتے رہیں گے۔اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے اشتعال انگیزی سے کام لیتے رہیں گے۔ مولویانہ اشتعال انگیزی کی جھلک کے طور پر دائیں بازو کے معروف اخبار کے دوکالم نویسوں کے دو اقتباس یہاں پیش کئے دیتا ہوں۔ :
”امریکہ کی ایک مسجد میں رونما ہونے والاواقعہ یاد آگیا۔دو مولویوں میں رنجش ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ایک ہاتھ میں دوسرے کی داڑھی تھی کہ پولیس آن پہنچی اور دونوں کو حراست میں لے لیا گیا۔مسلمان کی بدنامی ہوئی جبکہ مولوی صاحبان نے عدالت میں کہا کہ پولیس کے اہلکاروں نے جوتیوں سمیت مسجد میں داخل ہو کر مسجد کی بے حرمتی کی ہے۔اسلام کے محافظوں کی حرکات اور بیانات پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی“(نوائے وقت ۱۱جولائی ۲۰۰۷ء)
”ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ انہیں ایک گاؤں میں نماز جنازہ پڑھنے کا موقعہ ملا۔نماز جنازہ پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ امام صاحب کو نماز جنازہ میں پڑھی جانے والی دعائیں یاد نہیں ورنہ وہ اتنی جلد اور بے ہنگم طریقے سے نماز نہ پڑھاتے۔میں نے سوچا امام صاحب کو احسا س دلاؤں مگر اس انداز میں کہ وہ برا نہ منائیں۔ تدفین کے مراحل باقی تھے ،امام صاحب ایک درخت کے نیچے براجمان تھے جو ایک بوسیدہ قبر کی پائینتی کی طرف اُگ آیا تھا۔میں نے عرض کیا کہ مجھے پوری نماز جنازہ یاد نہیں،اگر آپ یہ پڑھتے جائیں اور میں دہراتا جاؤں تو میری اصلاح ہو جائے گی اور آپ کو ثوابِ دارین ہوگا۔پہلے تو انہوں نے وقت کی تنگی کا بہانہ بنایا،پھر مسجد میں آکرفارغ وقت میںدعائیں سیکھنے کی دعوت دی۔یہ بھی باور کرایا کہ بازار میں کتابیں دستیاب ہیںمگرجب انہوں نے دیکھا کہ میں کسی صورت جان نہیں چھوڑ رہا تو انہوں نے سر اُٹھایا،آواز قدرے بلند کی اور کہا’تمہیں قبرستان میں بیٹھ کر ناموس رسالت کاکوئی احساس نہیں اور مسلسل گستاخی کئے جا رہے ہو‘۔مولوی صاحب کا تیر نشانے پر بیٹھا۔میں جوتی قبرستان میں چھوڑ کر بھاگ آیا کہ کہیں کھودی جانے والی قبر میں میرا ہی مردہ نہ پڑا ہو۔“(نوائے وقت ۲جون ۲۰۰۷ء)
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحہ کے بعد عوامی سطح پر کوئی بڑا ردِ عمل سامنے نہیں آیا اور ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ پاکستانی عوام کی بڑی اکثریت مذہب سے تو وابستہ ہے لیکن ملائیت سے بیزار ہے۔ چنانچہ فوجی جرنیلوں کے پالے ہوئے اور طویل عرصہ تک امریکی اور اسرائیلی مفادات کے لئے امریکی برانڈ جہاد کرنے والے سابق مجاہدوں اور موجودہ دہشت گردوں نے عوامی رویے سے دل برداشتہ ہو کر خود کش حملوں کا رستہ اختیار کر لیا ہے۔اگر ان عناصر کی ان کے اندرونی و بیرونی سرپرستوں اور ہمدردوں سمیت سب کی فوج نے بر وقت سر کوبی نہیں کی تو پھر بڑے خطرات اور بڑی تباہی کا یقین رکھنا چاہئے۔ جن ملکوں اور اداروں نے ان دہشت گردوں کو پالا،پوسا،جوان کیا اور جن کے لئے یہی مولوی لوگ سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران فخریہ طور ”اہل کتاب بھائی“کے الفاظ ادا کرتے ہوئے سر شار ہو جایا کرتے تھے،اب انہیں روکنے کے لئے بھی انہیں اداروں کو ٹھوس کام کرنا ہو گا۔’اِس کو بچا لواور اُس کو رگڑ دو ‘ والی پالیسی اب کام نہیں آئے گی۔مقتدر جرنیلوں ،سارے خفیہ اداروں کو بخوبی علم ہے کہ کون کون سے مجاہدین گروپ دہشت گردی میں ملوث ہیں،کون کون سے مدرسے عسکری تربیت یا مجاہدین کی تربیت کا کام کرتے رہے ہیں۔کون سے سیاسی علماءبظاہر غیر متعلق ہو کر بھی در حقیقت ایسی دہشت گردی کے سرپرست ہیں۔اس لئے ان سب کے خلاف ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے، ایسا جتنا جلدی کر لیا جائے ملک کے مفاد میں ہے۔وگرنہ اچھی طرح یاد رکھیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے پاس اپنی دی ہوئی رقوم کے ایک ایک پیسے کا حساب محفوظ ہے، مجاہدین کو دئیے ہوئے اسلحہ کی ایک ایک گولی کا ریکارڈ موجود ہے اور کہاں کہاں ان کی فراہمی ہو کر کہاں کہاں تک پہنچتی رہی، اس سب کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔
اگر یہ مغرب اور اسلام کی جنگ ہے تو اس میں مغرب والے ہر داؤ ،ہر چال دانشمندی سے کھیل رہے ہیں جبکہ مسلم انتہا پسند گروپ ہر چال جذباتیت اور مشتعل مزاجی کے ساتھ کھیلتے ہوئے صرف خود کولہولہان کر رہے ہیں،اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔یہ بے وقوفی ہے۔ مقتدر جرنیلوں اورحساس قومی اداروں نے بروقت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی اور ایسے تمام مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی نہیں کی تو ابھی کئی لال مسجدیں سامنے آئیں گی اور پھر پاکستان کو افغانستان اور عراق جیسے حالات کا شکار ہونے سے بچایا نہیں جا سکے گا۔شاید یہ اصلاح احوال کی آخری گھڑیاں ہیں۔