ایم کیو ایم جب تک مہاجر قومی موومنٹ تھی،اس کی حیثیت ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھلونے جیسی تھی۔لیکن جیسے ہی اس نے متحدہ قومی موومنٹ کا روپ اختیار کیا،اس کا سیاسی کردار بہتر ہونے لگا۔اب اس کی پیش قدمی پنجاب،بلوچستان،اندرون سندھ ،صوبہ سرحد اور کشمیرکی طرف جاری تھی۔اگرچہ بہت سے لوگ ایم کیو ایم کے نئے روپ کو ایک بہروپ کہتے تھے لیکن میرے جیسے کئی لوگوں کو خوشی تھی کہ یہ جماعت اپنی لسانی سطح سے اوپر اٹھ کر ایک قومی جماعت کا کردار ادا کرنے لگی ہے۔اس کے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں سے ہمدردی صرف سیاسی نعرہ نہیں تھا بلکہ اس کے طرز عمل سے بھی اسی کا اظہار ہوتا تھا۔یہ سب خوش آئند تھا،ایم کیو ایم کے لئے بھی اور پاکستان کے لئے بھی۔۔لیکن ۱۲مئی کے بعد سے ایم کیو ایم نے نہ صرف دوسرے سارے علاقوں اور اندرون سندھ میں اپنی ہمدردیاں کھوئی ہیں بلکہ خود کراچی میں بھی اس کی حمایت میں کمی ہو گئی ہے۔ ۱۲مئی کوہی ایم کیو ایم نے اپنا پاکستان اسٹیل مل کا ووٹ بنک کھو دیا ہے۔ایم کیو ایم کی حامی ہونے کے باوجود اور ہر جلسے،ریلی میں چالیس سے پچاس ہزار تک افراد کی حاضری دینے والی اسٹیل مل اس بار ایم کیو ایم کی ریلی کی بجائے اپنے محسن جسٹس افتخار محمد چوہدری کا استقبال کرنا چاہ رہی تھی ۔الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے دوسرے رہنما اپنے اپنے ضمیر میں جھانک کر خود سے پوچھیں کہ ۱۲مئی کو اگر انہوں نے خونی لسانی جماعت کا روپ دھارنے کی بجائے چیف جسٹس کاا ستقبال کیا ہوتا تو ان کی ملک گیر عزت اور مقبولیت میں کتنا اضافہ ہوتا۔ ایسا کرنے کی صورت میں وہ مذہبی جماعتیں بالکل ہی پس پردہ چلی جاتیں جو اس وقت چیف جسٹس کے استقبال میں اپنے جھنڈوں کے ساتھ پیش پیش ہوتی ہیں۔ایم کیو ایم نے اس موقعہ کو ضائع ہی نہیں کیا ،اپنی عزت اور تکریم کو اپنی ذلت اور رسوائی میں بدل لیا ہے۔ ایجنسیوں کا آلۂ کار بن کر، کراچی کو لہو لہان کرنے کے علاوہ سیاسی طور پر بھی اپنا نقصان کیا ہے۔اس وقت حکومتی پارٹی قاف لیگ میں ان کی حمایت صرف وہ گروہ کر رہا ہے جسے ایم کیو ایم خود ڈاکوؤں کا سرپرست اور مذہبی دہشت گردوں کا سپورٹر قرار دیتی رہی ہے۔وہ سرائیکی بیلٹ جو ایم کیو ایم کو زیادہ خوش آمدید کہہ رہی تھی ،اسی سرائیکی بیلٹ کے قاف لیگ کے ممبران ایم کیو ایم کے خلاف پھٹ پڑے۔ انہوں نے صدارتی ریفرینس کو بھی پسند نہیں کیا اور ایم کیو ایم کے ۱۲مئی کے کردار کو ویسا ہی باور کیا ہے جیسا اپوزیشن والوں نے کہا ہے اور جیسا غیر جانبدار پریس نے دنیا کو بتایا ہے۔
۱۲مئی ۲۰۰۷کو چیف جسٹس کی کراچی میں آمد کو روکنے کے لئے کراچی میں جنرل مشرف نے صوبائی حکومت اور ایم کیو ایم کی قیادت کے ذریعے جو خونی کھیل دکھایاوہ جنرل مشرف اور ایم کیو ایم دونوں کی سیاہ کاریوں میں شمار کیا جاتا رہے گا۔اس کا مزید شرمناک پہلو یہ ہے کہ دن بھر کراچی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی اور اسی دن شام کو جنرل پرویز مشرف اسلام آباد میں ڈھول کی تھاپ پر ہوتے رقص کے جلو میں گجرات کے چوہدریوں کی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔اس سیاسی تماشے پر وہ پرانی کہاوت یاد آئی”روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا“ لیکن اسے اب ”نیرو“ کے ساتھ کیوں نتھی کیا جائے براہ راست نئے نیرو کا نام کیوں نہ دیا جائے۔
”کراچی جل رہا تھا اور جنرل مشرف ڈھول کی تھاپ پر ہوتے رقص کو دیکھ رہا تھا“
اب یہ نئی کہاوت رائج کی جانی چاہئے۔
۱۳مئی کو یومِ سیاہ منایا گیا اور ۱۴مئی کو پورے ملک میں اپوزیشن کی اپیل پر کراچی کی دہشت گردی کے اصل مجرموں کے خلاف ہڑتال کی گئی۔۴۱مئی کو ہی حکومت کے مرکزی شہر اسلام آباد میں ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ حمادرضا کو علی الصبح ان کے گھر پر قتل کر دیا گیا۔پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس ٹارگٹ کلنگ کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی لیکن جب حماد رضاکی بیوہ ،برطانوی نیشنلٹی ہولڈر شبانہ نے برطانوی سفارتخانہ سے رابطہ کرکے قانونی مدد کی درخواست کی اور واضح طور پر کہا کہ حکومتی اداروں سے منصفانہ تحقیق کی امید نہیں ہے ،تو جنرل مشرف کی جانب سے چیف جسٹس کے خلاف کھیلے جانے والے گھناؤ نے کھیل کا ایک اور ورق کھل کر سامنے آگیا۔حقیقت یہ ظاہر ہوئی کہ ۹مارچ کو چیف جسٹس کے خلاف کاروائی شروع کی گئی تو ایڈیشنل رجسٹرار حماد رضا کو بھی خفیہ ایجنسیوں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ان پر شدید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ چیف جسٹس کے خلاف گواہ بن جائیں۔لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔اب سپریم کورٹ میں فل کورٹ کی تشکیل کے بعد مشرف کی جرنیلی حکومت کی یہ کہانی عدالت میں آنے والی تھی ۔سو انہیں اس گواہی سے روکنے کے لئے ڈاکے کی واردات کا ڈرامہ بنا کر گھر پر قتل کر دیا گیا ۔ لیکن ان کی بیوہ کی برطانوی حکام سے فریاد کے بعد اور میڈیا کی طرف سے واضح اشارے ملنے کے بعد جنرل پرویز مشرف اب شاید اپنے اقتدار کے زوال کے آخری سرے تک پہنچ گئے ہیں۔
۱۵مئی کو پشاور کے ناز سینما روڈ پر،مسجد مہابت خان کے سامنے واقع ”مرحبا ہوٹل“پر خوفناک بم دھماکہ ہوا ہے۔اس کے نتیجہ میں ۲۷سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔بے شک اس دھماکہ کے سبب کے مختلف امکانات ہو سکتے ہیں۔ صوبہ سر حد میں حالیہ دنوں میں کئی خود کش حملے ہو چکے ہیں۔اسی دوران صوبہ سر حدمیں ایک ایسے شخص کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا جو دھماکہ خیز مواد چپکے سے رکھ کر نکلنا چاہتا تھا،وہ شخص مرکزی خفیہ ایجنسی کا ایک اہلکار نکلا۔جسے مرکز والے زبردستی چھڑا کر لے گئے۔اس پر وزیر اعلیٰ سرحد نے کئی دن تک شور مچایا لیکن مرکز نے اس اہلکار کی کہانی پوری طرح دبا دی۔اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ بعض دھماکے مذہبی انتہا پسند کر رہے ہیں تو کبھی کبھار خفیہ ایجنسیاں بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دھماکوں کا کھیل کھیل لیتی ہیں۔سو اسی وجہ سے میرے نزدیک حالیہ دھماکہ میں بھی جنرل پرویز مشرف کا اشارہ شامل ہے۔کسی خفیہ ایجنسی نے یہ دھماکہ کرایا ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف کراچی کے دہشت گردوں سے توجہ ہٹا کر لوگوں کو پشاور کے دھماکے کی طرف غلطاں کرنا ہے۔ جلد یا بدیر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی۔دھماکہ کے فوراً بعد میرا پہلا تاثر یہی تھا۔بعد ازاں اسی روز حامد میر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں اعتزاز احسن نے اور اے این پی کے ایک لیڈر نے بھی اپنے اپنے انداز میں اسی بات کے اشارے دئیے۔جبکہ کراچی میں اے این پی کے رہنما نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ کراچی سے توجہ ہٹانے کے لئے ایجنسیوں نے یہ دھماکہ کرایا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس سانحہ کو سابق خود کش دھماکوں جیسا قرار دیا جا رہا ہے۔لیکن ایجنسیاں ویسی مشابہت پیدا کرنے کی کوشش میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکیں ۔ مثلاً پہلے دھماکوں میں نوجوان لڑکے خود کش بمبار ہوتے تھے،اس بار ایک بوڑھے بابے کو خود کش حملہ آور ظاہر کیا گیا ہے۔ایک مضحکہ خیز واقعہ یہ ہوا کہ اس خود کش حملہ آورکی ٹانگ پر ایک کاغذ بندھا ہوا پایا گیا ہے جس میں یہ باور کرایا گیا ہے کہ یہ ”افغان مجاہدوں“کا کارنامہ ہے جو امریکہ کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔اس سے اس خونی تماشہ کی منصوبہ بندی کرنے والوں کابھونڈا پن ظاہر ہوتا ہے۔
اسی دوران حکومت نے اپنے ٹوپی ڈرامہ”جامعہ حفصہ و لال مسجد“ کے منجھے ہوئے مذہبی انتہا پسند کرداروں کو استعمال کیا ہے۔ان انتہا پسندوں نے اس وجہ سے چار پولیس اہلکار پکڑ لئے ہیں کیونکہ حکومت نے ان کے تین طالب علموں کو گرفتار کیا ہے۔اس وجہ سے کچھ کھلبلی مچانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن عوام اب اس ٹوپی ڈرامہ کی حقیقت جان گئے ہیں۔کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے والے کرداروں سے توجہ ہٹانے کے لئے نہ پشاور میں مرحبا ہوٹل کا بم دھماکہ کام آسکا ہے اور نہ ہی جامعہ حفصہ کے ڈرامہ کا گھسا ہوا ریکارڈ کام آئے گا۔اب جنرل پرویز مشرف کو اپنا حساب کتاب دینا ہو گا۔اپنے غیر آئینی ،غیر قانونی اقدامات اور اقتدار کے تحفظ کے لئے اپنے ہی عوام کا خون بہانے والوںکو اب یومِ حساب کی تیاری کرلینی چاہئے۔
ماضی قریب تک ایم کیو ایم کے رہنما جب ایم ایم اے کے ساتھ مباحثہ کرتے ہوئے کسی ٹاک شو میں دلائل کے ساتھ بات کرتے تھے تو ایم ایم اے والوں کی علمی بے کسی قابلِ دید ہوا کرتی تھی۔لیکن اب وہی ایم کیو ایم کے رہنما جب چیف جسٹس کے خلاف لچر قسم کی باتیں کرتے ہیں تو ان کی باتیں اور ان کی دلیلیں سن کر ہی گھن آنے لگتی ہے۔الطاف حسین کے بعض پوچ اعتراضات کے جواب میں گزشتہ کالم میں وضاحت کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔اس دوران ایک اور بات جو ایم کیو ایم والے اپنی طرف سے بڑی دلیل بنا کر بیان کر رہے ہیں یہ سامنے آرہی ہے کہ عدلیہ کا معاملہ عدالت میں طے ہونا چاہئے۔اسے سڑکوں پر نہیں لایا جانا چاہئے۔اگراپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اسے سڑکوں پر لائیں گی تو پھر ٹکراؤ ہو گا۔چیف جسٹس کے خلاف صدارتی ریفرینس کے معاملہ میں یہ دلیل بھی بڑی ہی پوچ قسم کی ہے۔ساری دنیا جانتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس میں طلب کرکے وہاں استعفیٰ دینے کے لئے دباؤ ڈالا۔چیف جسٹس کے ”تاریخی انکار“کے نتیجہ میں انہیں محبوس رکھا گیا۔انہیں اس وقت تک فوج کی حراست میں رکھا گیا جب تک سپریم کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس نہیں بنا دیا گیا۔اور جب تک سندھ اور لاہور سے پسندیدہ ججوں کو بلا کراپنی مرضی کی جوڈیشل کونسل تشکیل نہیں دے دی گئی۔اس کے بعد بھی چیف جسٹس کو تب رہائی نصیب ہوئی جب ٹی وی چینلز نے ان کے محبوس ہونے کی رپورٹ دینا شروع کر دی۔انہیں برطرف نہیں کیا گیا تھا لیکن ان سے ساری سرکاری سہولیات لے لی گئیں۔ اپنے غیر آئینی اختیار کے بل پر چیف جسٹس کو معطل کردیا گیا۔ ان کے گھر پر پہرہ بٹھا دیا گیا۔صرف وہ لوگ ان سے مل سکتے تھے جن سے حکومت انہیں ملانا چاہتی تھی تاکہ انہیں استعفیٰ کے لئے راضی کیا جا سکے۔سرِ عام چیف جسٹس کو سڑک پر گھسیٹا گیا،ان کے بال نوچے گئے ،ان کے بچوں کا گھر سے نکلنا اور اسکول جانا بند کر دیا گیا۔دہشت کی یہ فضا ایک دن کی بات نہ رہی ،چار دن تک ایسا رہا۔ایسے جرنیلی اور غیر آئینی و غیر قانونی مظالم کے نتیجہ میں وکلاءاور عوام چیف جسٹس کی حمایت اور اقتدار پر قابض فوجی جرنیلوں کے خلاف نفرت کے اظہار کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔یہ وکلاءکی قابض جرنیلوں کے خلاف جدوجہد اور عوام کی حمایت تھی جس نے اپوزیشن کو بھی مجبور کر دیا کہ اس اہم مسئلہ میں ان کا ساتھ دیں۔اپوزیشن نے کبھی بھی چیف جسٹس کے اشو پر سیاست نہیں کی۔اپنے جھنڈوں کے ساتھ سب نے چیف جسٹس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔سکھر،حیدرآباد،اسلام آباد،پشاور سے لے کر لاہور تک چیف جسٹس کے ساتھ پوری قوم کونہایت پُر امن قسم کا اظہار یکجہتی جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کے نتیجہ میں کرنا پڑا۔ چیف جسٹس کے خلاف روا رکھے جانے والے جنرل پرویز مشرف کے غیر قانونی،غیر آئینی،غیر اخلاقی اور غیر انسانی اقدامات پوری دنیا میں پاکستانیوں کے لئے شرمندگی بلکہ ذلت کا موجب بنے ہیں۔عوام نے اسی کی مزاحمت کی۔اپوزیشن نے بھی عوام کے موڈ کو دیکھ کر ان کا ساتھ دیا۔اس لئے عدلیہ کے معاملہ کو سڑکوں پر لانے کے ذمہ دار صرف اور صرف جنرل پرویز مشرف ہیں۔اگر یہ معاملہ سڑکوں تک نہ آتا تو اب تک چیف جسٹس بھی پتہ نہیں کہاں غائب کئے جا چکے ہوتے اور ان کے اہلِ خانہ ان کی بازیابی کے لئے اپیلیں اور مظاہرے کر رہے ہوتے۔یا پھر ان کا بھی ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ حماد رضا والا انجام کر دیا جاتا۔ جنرل پرویز مشرف کا المیہ یہ ہے کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے اپنے چیف جسٹس کے انکار کو اپنے سترھویں ترمیم والے آئین کے مطابق بھی ہضم نہیں کر سکے۔
ایم کیو ایم کے لیڈروں کو بودے دلائل کے ساتھ آئیں بائیں شائیں کرنا بند کر دینا چاہئے۔عوام ہوں یا مہذب دنیا،کوئی بھی ان کی چرب زبانی کے باوجود ان کی بے تکی دلیلوں اور باتوں کا یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔وہ دھونس جما کر پورے چوبیس گھنٹے بھی ٹی وی پر براہِ راست اپنی صورتیں دکھاتے رہیں،قوم ان سے سخت متنفر ہو چکی ہے۔وہ کراچی میں قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی محبت میں اپنی مرضی سے ایجنسیوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں۔پوری قوم یہ حقیقت جان چکی ہے۔ اب کچھ تلافی ہو سکتی ہے تو صرف اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے اور پوری قوم سے معافی مانگ کر ہی ہو سکتی ہے۔
معافی سے یاد آیا،اس معاملہ میں بھی پرویز مشرف بھائی اور الطاف بھائی دونوں بھائی لوگ ایک جیسی طبیعت کے مالک لگتے ہیں۔پرویز مشرف بھائی نے جیو ٹی پر حملہ کرایا اور پھر ان سے معافی مانگ لی لیکن چیف جسٹس کے معاملہ میں اپنے مجرمانہ کردار پر معافی مانگنے کے لئے ابھی تک تیار نہیں ہیں۔ الطاف بھائی نے بھی ایک طرف ٹی وی چینلز کو دھمکاکر کوریج لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔دوسری طرف ”آج“ ٹی وی کے دفتر پر حملہ کرانے کے بعد ان کے فاروق ستار نے اسلام آباد میں باقاعدہ معافی مانگ لی ہے۔اس معافی کی نوبت تب آئی جب ان کی پریس کانفرنس میں صحافیوں نے کراچی میں صحافت پر ایم کیو ایم کے حملوں پر غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔جن صحافیوں نے پریس کانفرنس میں شرکت کی انہوں نے بھی احتجاجاً زمین پر بیٹھ کر رپورٹنگ کی۔شاید بہت سے قارئین کو علم نہ ہو کہ ۲۱مئی کو کراچی میں ”آج“ ٹی وی کے دفتر پر چار گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کی وجہ کیا تھی؟۔۔۔وجہ یہ تھی کہ طلعت حسین نے اپنی اعلیٰ پیشہ ورانہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”آج“ ٹی وی پر ایک ایک ایسی فلم چلا دی تھی جس میں ایم کیو ایم کی جانب سے اس کے کارکنوں میں اسلحہ تقسیم کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔کراچی میں قتلِ عام کے اصل مجرم اس میں بے نقاب ہو گئے تھے۔اسی لئے اس چینل کے دفتر پر اتنی دیر تک وحشیانہ فائرنگ کی جاتی رہی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فوٹیج کو دوسرے چینلز پر بھی بار بار دکھایا جائے اور پھر ان چرب زبان رہنماؤں سے پوچھا جائے کہ اب بتاؤ یہ فوٹیج کیا ہے اور یہ غنڈے کون ہیں؟
ایک ویب سائٹ نے آج ٹی وی کی اس فوٹیج کو آن لائن کیا ہے۔اس کے علاوہ چند اور مناظر دوسرے چینلز کے بھی ہیں جن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ ،صرف مہاجر قومی موومنٹ والے کردار کی طرف کی واپس نہیں گئی بلکہ یہ تھی ہی مہاجر قومی موومنٹ اور اس نے متحدہ کے نام کا صرف بہروپ اختیار کیا تھا۔اس دہشت گردی کے لئے کسی الزام تراشی کی ضرورت نہیں ہے،مہاجر قومی موومنٹ کا ۲۱مئی کا دہشت گردانہ کردار براہِ راست دیکھئے:
http://www.mqmwatch.org//content/view/5/26/
http://www.mqmwatch.org/
ابھی تک ایم کیو ایم کے رہنما یہ کہتے رہے ہیں کہ چیف جسٹس کی وجہ سے کراچی میں خون خرابہ ہوا ہے۔اب الطاف بھائی کے جنرل پرویز مشرف بھائی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس اور اعتزاز احسن کراچی کے حالات بگاڑنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس بیان سے لگتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اپنے ہوش و حواس کھوتے جارہے ہیں۔ان کی ٹانگوں کی لڑکھڑاہٹ صدارتی بریفنگ کے لئے آنے والے گنتی کے چند سینئر صحافیوں نے دیکھی تھی لیکن ان کے اس بیان سے عوام بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف واقعی لڑکھڑا گئے ہیں۔اعتزاز احسن ان کے اس بیان پر ان کے خلاف ہتک عزت کا دو ارب روپے ہرجانہ کا مقدمہ دائر کرنے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ رقم کراچی کے غریب عوام پر خرچ کی جائے گی۔
میں ایک عرصہ تک عام پاکستانیوں کی طرح یہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ جنرل پرویز مشرف ملک کا بھلا کریں گے اور غریب عوام کے لئے ضرور کچھ بہتر کریں گے۔لیکن آہستہ آہستہ یہ امید مایوسی میں بدلتی گئی اور اب تو ان کا وجود قوم کے لئے عذاب بن چکا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے سات سالہ دور اقتدار میں کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کرتے رہے لیکن یہ اعلان قوم کو ڈیم فول بنانے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔قوم کے اربوں کھربوں روپے ڈکار جانے والوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کا اعلان کرتے رہے اور اسی دوران مزید اربوں روپے اپنے حمایتی سیاستدانوں اور سیاسی لوٹوں کو قرض دے کر معاف کر دئیے۔یعنی لوٹی ہوئی دولت تو واپس کیا لاتے اُلٹا مزید اربوں روپے ”دادا جی کی فاتحہ حلوائی کی دوکان پر“ کی طرز پر معاف کر دئیے۔اسٹیل مل کو تو ان کے وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کے مشیر اعظم ڈاکٹر سلمان شاہ ”شیرِ مادر“ سمجھ کر پی جانے لگے تھے(پتہ نہیں اس میں خود جنرل پرویز مشرف کے لئے کتنے کروڑ یا ارب کا حصہ تھا جو باہر ہی باہر ان کے کسی اکاؤنٹ میں منتقل کر دیا جاتا)چیف جسٹس کے تاریخی فیصلہ نے قومی ڈاکے کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔اگر جنرل مشرف نے بھی اس بھوکی ننگی قوم کو لوٹنا ہے اور لٹوانا ہے تو پھر اب ان کااپنے سارے کرپٹ ساتھیوں سمیت جانا ضروری ہو گیا ہے۔بہت گڈ گورنینس ہو گئی۔اب یہ ان پر منحصر ہے کہ بچی کھچی عزت کے ساتھ رخصت ہو جائیں یا پھر اسی وقت جائیں جب عوام میں ان کے لئے وہ گالی بچے بچے کی زبان پر آجائے جو ابھی چند جلسوں میں دی گئی ہے۔ یہ وہی تاریخی گالی ہے جو ایوب خان کو بھی دی گئی تھی لیکن انہیں تب اس گالی کا یقین آیا تھا جب ان کے پوتے یا نواسے کی زبان پر بھی وہ گالی آگئی تھی۔کیا جنرل پرویز مشرف اس مقام پر پہنچ کر رخصت ہونا چاہتے ہیں؟تب ساری قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے بھائی لوگ انہیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیں گے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں لگتا۔
کراچی میں ۱۲مئی کے قتلِ عام کی ذمہ داری خود قبول کرنے اور ایم کیو ایم کو اس کا مرکزی حصہ دار ماننے کی بجائے چیف جسٹس اور اعتزاز احسن پر الزام تراشی کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ایک اور تاریخی بیان دے دیا ہے۔اس بیان کے دو حصے ہیں اور ان دونوں حصوں سے ان کی منافقانہ شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ایک انٹرویو کی جنگ میں ہونے والی رپورٹنگ کے مطابق:”صدر نے کہا کہ وہ اردو بولنے والے ہیں اس لئے اپوزیشن ان کا تعلق ایم کیو ایم سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ پاکستان کے بارے میں سوچتے ہیں۔۔۔۔اسی انٹرویو میں صدر صاحب یہ بھی فرماتے ہیں”اگر متحدہ چیف جسٹس کو ریلی نکالنے کی اجازت دیتی تو ۰۲سے ۰۳ہزارلوگ ایم کیو ایم کے علاقے میں جمع ہو جاتے اور یہ تاثر دیتے کہ متحدہ کراچی میںاثر کھو چکی ہے“
پاکستان کے عوام کی بڑی اکثریت اردو زبان سے محبت کرتی ہے۔ گزشتہ ساٹھ ستر برس کے دوران خاص طور پراردو ادب کی جتنی خدمت غیر اہلِ زبان نے کی ہے،اتنی شاید خود اردو والوں نے بھی نہیں کی ہو گی۔اس لئے اردو بولنے والوں سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے ۔خود جنرل پرویز مشرف کو گزشتہ سات برسوں میں کبھی کسی نے اس حوالے سے طعنہ نہیں دیا کہ وہ اردو بولنے والے ہیں،بلکہ مجھے تو دل ہی دل میں یہ افسوس ہوا کرتا تھاایک اہلِ زبان خاندان کا فرد ہے اور اردو کی اہلِ زبان والی صلاحیت سے محروم ہے ۔ سو اردو بولنے والے تو ہمارے لئے محبت اور عزت کے لائق ہیں،مسئلہ ان لوگوں کا پیدا کردہ ہے جو لسانی بنیاد پر اردو کا نام لے کر دوسروں سے صرف نفرت ہی نہیں کرتے بلکہ ان کا قتلِ عام بھی کرتے ہیں۔اپنے انٹرویو میں ایک طرف تو جنرل پرویز مشرف کہتے ہیں کہ ان کا ایم کیوایم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ پورے پاکستان کا سوچتے ہیں دوسری طرف ان کا یہ کہناہے کہ
”اگر متحدہ چیف جسٹس کو ریلی نکالنے کی اجازت دیتی تو ۲۰سے ۳۰ہزارلوگ ایم کیو ایم کے علاقے میں جمع ہو جاتے اور یہ تاثر دیتے کہ متحدہ کراچی میںاثر کھو چکی ہے“یہ بیان انتہائی حیران کن ہے۔اس بیان سے کئی نکات پیدا ہوتے ہیں۔ایم کیو ایم ابھی تک” عیارانہ انکار“ کر رہی تھی کہ اس نے چیف جسٹس کے لئے جانے والی ریلی میں کہیں بھی کوئی روک نہیں ڈالی۔لیکن جنرل پرویز مشرف کہتے ہیں کہ اگر ایم کیو ایم ریلی نکلنے دیتی تو ایم کیو ایم کے علاقے میں ۲۰سے ۳۰ہزار لوگ جمع ہوجاتے اور اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا کہ ایم کیو ایم کراچی میں اپنا اثر کھو چکی ہے۔یعنی ریلی میں رکاوٹ ایم کیو ایم نے ہی ڈالی اور سارا قتل وغارت اس لئے کرایا گیا کہ ایم کیو ایم کاتاثر قائم رہے کہ کراچی صرف اسی کا ہے۔یہ جنرل پرویز مشرف کا جو اس خونی کھیل کا بڑا کردار ہیں، بالواسطہ طور پر اقبال جرم ہے۔اسے عدالتی سطح پر پیش کیا جانا چاہئے۔ اس بیان کے بعد جنرل پرویز مشرف صدرِ پاکستان تو کیا چیف آف آرمی اسٹاف بھی نہیں لگتے۔اس واضح بیان کے بعد ان کی حیثیت ایم کیو ایم کے سیکٹر کمانڈر جیسی بن گئی ہے۔
اس بیان کو سرسری نہیں لینا چاہئے۔بلکہ اب تو فوج کے محب وطن جرنیلوں کو فکر کرنی چاہئے کہ اگر آرمی چیف ایم کیو ایم کا سیکٹر کمانڈر بن گیا ہو تو قوم کا کیا بنے گا۔میں اس حساس موضوع پر مزید کچھ لکھنے سے گریز کر رہا ہوں۔لیکن اگر اس خوفناک بیان کے مضمرات کو فوج کے اعلیٰ افسران نے نظر انداز کرنا چاہا تو یہ خود پاک فوج کے ادارے کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔
۵۱مئی کوایک ہی دن دو اہم بیانات سامنے آئے۔پہلا بیان پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر
رابرٹ برنکلے کا تھا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صدر اور آرمی چیف کے عہدے الگ ہونے چاہئیں ۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ جنرل پرویز مشرف اس سال کے آخر تک وردی اتار دیں گے۔ کیونکہ دو عہدے ایک ساتھ رکھنے سے ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں آسکتی۔دوسرا بیان امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر کا ہے۔انہوں نے امریکہ میں اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف وعدہ کے مطابق اس سال اپنی وردی اتار دیں گے اور غیرجانبدارانہ شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائیں گے۔
اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس ۱۵مئی سے اسلام آباد میں شروع ہوئی ۔اسے موثر بنانے کے لئے اس کے نئے چارٹر پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔تنظیم کے جنرل سیکریٹری نے اتفاق رائے نہ ہوپانے کو تعجب خیز قرار دیا ہے۔حالانکہ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔مسلمانوں نے کچھ آپس میں لڑ لڑ کر مرنا ہے اور جو باقی بچیں گے وہ باری باری امریکہ کے ہاتھوں مریں گے۔یہ محض خیال آرائی نہیں ہے۔جس دن او آئی سی کے جنرل سیکریٹری نے نئے چارٹر پر اتفاق رائے نہ ہو پانے پر تعجب کا اظہار کیا ہے ،اسی روز امریکی سینٹرل کمان کے سابق سربراہ جنرل جان ابی زید نے کہا ہے کہ ضروری نہیں کہ عراق اور افغانستان امریکہ کے لئے دو سب سے بڑے مسائل ہوں۔آگے چل کر پاکستان اور سعودی عرب امریکہ کے لئے زیادہ بڑے مسائل بن سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک سیکیورٹی کے مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔لیکن امریکہ کو تشویش اس وجہ سے ہے کہ سعودی عرب تیل کے بڑے ذخائر رکھتا ہے اور پاکستان ایٹم بم رکھتا ہے۔یہ جنرل جان ابی زید اپنے جنرل پرویز مشرف کے خاص دوست رہے ہیں۔ان کے بیان کو ذرا کھول کر دیکھا جائے تو انہوں صاف کہہ دیا ہے کہ عراق اور افغان مسائل ہمارے لئے کوئی اتنا بڑا دردِ سر نہیں ہیں اور ہم مستقبل میں پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ بھی ایسا کچھ کرنے جا رہے ہیں۔برطانوی ہائی کمشنر کے وردی والے بیان پر اور ابی زید کے بیان پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔کسی بات کی ٹو دی پوائنٹ تردید یا رد تو سامنے نہیں آیا تاہم اس بیان میں اتنا ہی غنیمت ہے کہ وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے”سرِ تسنیم“ خم نہیں ہونے دیا ۔