۱۲مئی کو کراچی میں جو خونریزی کی گئی،کرائی گئی،اس کی ذمہ داری مکمل طور پر جنرل پرویز مشرف،ان کی خفیہ ایجنسیوں،ایم کیو ایم اور وزیر اعلیٰ سندھ پر عائد ہوتی ہے۔یہ سب اس قتل و غارت کے ذمہ دار ہی نہیں مجرم بھی ہیں۔ایسا سانحہ جو پاکستان کی تاریخ میں ایک اور یومِ سیاہ بن گیا ہے۔ کل تک گہرے دکھ کی کیفیت نے حد سے زیادہ جذباتی کر رکھا تھا،تاہم اب میں اس پوزیشن میں ہوں کہ جذبات پر قابو رکھتے ہوئے کل کے سانحہ کاحالات و واقعات کے تناظر میں سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کر سکوں۔
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کراچی بار کی دعوت پر کراچی میں ہونے والی تقریب میں شرکت کرنا تھی۔اس سے قبل چیف جسٹس اندرون سندھ کے دوشہروں میں وکلا کی دعوت پر جا چکے تھے اور وہاں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔عدالتوں کے حاضر سروس ججوں نے ان کے استقبال کی ابتدا اندرون سندھ کے دوروں سے ہی شروع کی تھی۔اس کے بعد چیف جسٹس پشاور اور جڑواں شہروں کی بار سے بھی خطاب کر چکے ہیں اور ہر جگہ ان کا جس طرح والہانہ استقبال ہوا،اس سے یہ امید قائم ہونے لگی تھی کہ اعلیٰ عدلیہ اپنے ماضی کے ریکارڈ کے بر عکس اب واقعتا قانون اور آئین کی بالا دستی کے لئے جرات کا مظاہرہ کرنے لگی ہے ۔ اس حوالے سے بینچ اور بار کے درمیان ایسی زبردست ہم آہنگی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے میں آئی۔جنرل پرویز مشرف نے جس جرنیلی طریقے سے چیف جسٹس کو رخصت کرنا چاہا تھا،ان کی وہ خواہش پوری نہ ہوئی بلکہ ان کے لئے خفت کا موجب بن گئی۔چیف جسٹس کے اسلام آباد سے لاہور کے سفر نے جنرل پرویز مشرف کی کمانڈو سیاست کو بھی ہلا دیا ۔اور معاملہ خفت سے کچھ آگے بلکہ کافی آگے چلا گیا۔
چیف جسٹس کو کراچی کے وکلا کی طرف سے ۲۳مارچ کو مدعو کیا جا رہا تھا لیکن ان کے خلاف ریفرینس آجانے اور اس سے پیدا شدہ بحران کے نتیجہ میں پھر انہیں ۱۲مئی کو مدعو کیا گیا۔یہ پروگرام پہلے طے ہوا اور میڈیا میں اس کی خبریں بہت پہلے سے آگئی تھیں۔لیکن اسلام آباد سے لاہور تک چیف جسٹس کے فقید المثال استقبال کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اس معاملہ کو دل پر کچھ زیادہ ہی لے لیا۔چنانچہ جنرل پرویز مشرف نے پرویز مشرف بھائی کی حیثیت سے الطاف بھائی سے مدد طلب کی۔بھائی ،بھائی کے کام آیا۔الطاف بھائی نے پرویز مشرف بھائی کی مدد کے لئے اسی بارہ مئی کو کراچی میں اپنی طاقت کے مظاہرہ کے لئے ریلیوں کے انعقاد کا اعلان کردیا۔یہ بڑی اہم بات ہے کہ چیف جسٹس کا پروگرام پہلے سے اعلان شدہ تھا۔ایم کیو ایم کا پروگرام بعد میں اسی تاریخ اور انہی روٹس کے مطابق بنوایا گیا جو چیف جسٹس کے لئے پہلے سے بتایا جا چکا تھا۔یوں بے شک الطاف بھائی،پرویز مشرف بھائی کے کام آئے تاہم اس بھائی چارے میں کراچی کو قتل گاہ بنا دیا گیا۔
اب حالات و واقعات کو ایک اور رُخ سے دیکھتے ہیں۔۱۲مئی سے پہلے ۹مئی کو چیف جسٹس کے وکیل منیر اے ملک کے دفتر کو سرکاری طور پر سیل کیا گیا۔یہ کھلم کھلا ایسی زیادتی تھی جو ارباب غلام رحیم اور ایم کیو ایم کے ذہنی ملاپ سے ہی ہو سکتی تھی۔لیکن قانونی طریقے سے یہ سیل تڑوائی گئی اور یہ ”قانون کی آڑ لے کر کی جانے والی“چیرہ دستی کامیاب نہ ہوئی تو ۹مئی سے ۱۰مئی کی درمیانی رات منیر اے ملک کے گھر پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔یہ فائرنگ خالصتاً اسی اسٹائل کی تھی جو ماضی میں ایم کیو ایم کا وطیرہ رہی ہے۔سندھ حکومت کے سیکریٹری داخلہ جو بریگیڈیر بھی ہیں، ان کی طرف سے چیف جسٹس کو خط لکھا گیا کہ یہاں کے حالات خراب ہیں اس لئے آپ کراچی کا دورہ ملتوی کر دیں۔یعنی بجائے سرکاری پارٹی ایم کیو ایم کو روکنے کے،الٹا چیف جسٹس اور وکلاءپر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنا پروگرام ملتوی کردیں۔بارہ مئی سے پہلے ہی اپوزیشن کے کارکنوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دی گئیں۔ اور رات گئے ائر پورٹ جانے والے تمام راستے رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دئیے گئے۔یوں آنے اور جانے کے لئے صرف ہیلی کاپٹر کو استعمال کیا گیا۔
بارہ مئی کواپوزیشن نے پر امن ریلی شروع کی تھی اور اس کا کسی تصادم کا کوئی ارادہ نہ تھا۔کیونکہ چیف جسٹس کا استقبال اپوزیشن کی ترجیح تھی۔ایم کیو ایم کی ریلیاں گیارہ اور بارہ مئی کی درمیانی رات سے نکلنا شروع ہوئیں اور اس دوران کہیں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔دن کے پہلے حصہ میں بھی کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ بس جیسے ہی دوپہر بارہ بجے کے قریب چیف جسٹس کا طیارہ کراچی ائر پورٹ پر اترا۔اس کے معاً بعد ائر پورٹ کے ارد گرد کے علاقوں میں اپوزیشن کی ریلیوں پر براہ راست فائرنگ شروع کر دی گئی،گاڑیوں اور پٹرول پمپوں کو آگ لگانا شروع کر دی گئی۔ان سڑکوں پر فائرنگ اور آتش زنی کا ایک ہی مقصد تھا کہ ائر پورٹ کے رستے بلاک کرنے کے باوجود ایسی فضا بنا دی جائے کہ نہ کوئی چیف جسٹس کو لینے کے لئے جا سکے اور نہ چیف جسٹس ائر پورٹ سے باہر نکل سکیں۔ صرف اس مقصد کے لئے اپوزیشن کی ریلی کے ساتھ آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔مزید حفاظتی اقدام کے طور پر سیکریٹری داخلہ سندھ اور پولیس کے سربراہ دونوں صبح چیف جسٹس کی آمد سے لے کر ساڑھے چار بجے تک ائر پورٹ پر اس وی آئی پی لاونج کے باہر موجود رہے جہاں چیف جسٹس اپنے وکلا ساتھیوں کے ساتھ میزبانوں کا انتظار کر رہے تھے۔حالانکہ ان دونوں شخصیات کی اصل ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ائر پورٹ کے ارد گرد سڑکوں پر ہونے والی خونریزی کو روکیں، لیکن چونکہ سب کچھ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہو رہا تھا،طے شدہ پروگرام کے مطابق کرایا جا رہا تھا، اس لئے لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال کو سنبھالنے کے ذمہ دار دونوں سرکاری افسران اپنی اصل ڈیوٹی کرنے کی بجائے چیف جسٹس کوایک طرح سے حصار میں لئے موجود رہے۔
ایک طرف ائر پورٹ کے آس پاس کے علاقے میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی دوسری طرف اس دہشت گردی کو ان علاقوں تک پھیلایا جا رہا تھا جو معروف معنوں میں ”غیر مہاجر“ علاقے کہلاتے ہیں۔گویا متحدہ قومی موومنٹ پھر سے مہاجر قومی موومنٹ کے روپ میں آرہی تھی۔”غیر مہاجرعلاقوں“کو میدانِ جنگ بنانے میں یہ حکمت عملی تھی کہ اندھا دھند فائرنگ اور غارت گری کے نتیجہ میں اس علاقے کے باسیوں کا ہی زیادہ سے زیادہ نقصان ہوگا۔نتیجہ بھی یہی نکلا۔اب تک جتنی ہلاکتیں سامنے آچکی ہیں ان میں دو تہائی ہلاکتیں اپوزیشن والوں کی ہوئی ہیں۔
سندھ حکومت کے مشیر داخلہ ایم کیو ایم کے اپنے بندے تھے۔ویسے ارباب غلام رحیم بھی اس سازش میں پوری طرح ملوث ہیں۔پہلے سے تصادم کا خطرہ موجود تھا تو حفاظتی انتظام بھی ہونا چاہئیں تھے۔لیکن بارہ بجے سے لے کر شام سات بجے تک ایم کیو ایم کے غنڈوں کو وحشت و بربریت کا کھیل کھیلنے کے لئے فری ہینڈ دے دیا گیا۔کہیں پر نہ کوئی پولیس دکھائی دے رہی تھی،نہ کوئی رینجرز کے حفاظتی دستے سامنے آرہے تھے۔اس دوران اپوزیشن کی ریلی کو تتر بتر کرنے کے بعد ایسے کام کئے گئے جو ماضی میں ایم کیو ایم کے مزاج کا حصہ رہے ہیں۔مثلاً سب جانتے ہیں کہ عبدالستار ایدھی کے معاملہ میں ایم کیو ایم کا کیا رویہ رہا ہے۔ ایک زمانہ میں تو ایدھی صاحب کراچی سے باہر چلے گئے تھے۔اس بار ان کی ایک ایمبولینس میں ڈالے گئے دو زخمیوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ایمبولینس کے ڈرائیور کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔جناح ہسپتال جہاں بہت ساری لاشیں اور زخمی لے جائے جا رہے تھے،وہاں ہسپتال کے اند ر جا کر بھی فائرنگ کی گئی۔ اے آر وائی ٹرسٹ ہسپتال پر فائرنگ کی گئی۔آج ٹی وی کے دفتر پر مسلسل فائرنگ کی گئی اور کئی گھنٹے تک دفتر کا محاصرہ بھی کئے رکھا گیا۔۵مئی کو سندھ بھر میں جیو ٹی وی،اے آر وائی چینل اور آج ٹی وی کی نشریات بند کرانے کا سہرا پہلے ہی ایم کیو ایم کے سر ہے،اسی تسلسل میں آج ٹی وی کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی کو دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کے کارکنوں کی اعلیٰ کار کردگی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
ایک طرف یہ سب قتل و غارت گری ہو رہی تھی،دوسری طرف تبت سنٹر پر ایم کیو ایم کی ریلیاں پُر امن طور پر پہنچ رہی تھیں۔ دو جمع دو چار کی طرح بہت ہی سیدھی سی بات ہے اگر اپوزیشن نے ایم کیو ایم کے ساتھ الجھاؤ چاہا ہوتا توانہوں نے تبت سنٹر پر توجہ مرکوز کی ہوتی۔وہاں پر ایک دو دھماکے کرادینا کم از کم ’براد را نِ اسلام‘کے لئے تو کوئی مشکل کام نہ تھا۔ایم کیو ایم کا سارا جلسہ ہی اکھڑ جاتا،لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن صرف چیف جسٹس کا استقبال کرنا چاہتی تھی۔ایم کیو ایم نے وحشیانہ طور پر اس استقبال کو سبوتاژ کرنے کے لئے جنرل پرویز مشرف کی دلجوئی کی ہے اور خفیہ ایجنسیوں کی فرمانبرداری کا ثبوت دیا ہے۔
یہاںایک ضمنی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مہاجر قومی موومنٹ کے قیام میں جنرل ضیا ع الحق کے دور کی خفیہ ایجنسیوں کا عمل دخل رہا ہے۔اسی لئے ایجنسیوں نے اس لسانی تنظیم کو اپنے مقاصد کے لئے جی بھر کر استعمال کیا۔ تاہم ایک مرحلہ ایسا آیا جب اس کے قائد اور دوسرے رہنماؤں نے طے کیا کہ خفیہ والوں کے لئے اب کوئی خطرناک کھیل نہیں کھیلنا۔تب ان لوگوں نے صرف سیاسی کردار ادا کرنا چاہا اور اپنی جماعت کی مقبولیت کے صرف مثبت رُخ کی طرف توجہ کرنا چاہی۔میں ان مثبت پہلوؤں کا معترف ہوںجن میں جاگیرداروں اور وڈیروں کی مخالفت،مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف مزاحمت،نچلے اور متوسط طبقے کے عوام کواوپر لانا وغیرہ شامل ہیں۔میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ جب ایم کیو ایم کی قیادت نے خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے سے انکار کر دیا تو ان ایجنسیوں نے ان کی پرانی فائلیں کھولنا شروع کر دیں۔جس کے نتیجہ میں الطاف حسین کو لندن آنا پڑا۔یہاں آکر انہوں نے لسانی تنظیم کے کلاوے سے نجات حاصل کرنے کے لئے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ بنایا۔تب سے اب تک ان کی سیاست میں وہ ساری خوبیاں بھی تھیں جو دوسری سیاسی جماعتوں سے منسوب کی جا سکتی ہیں اور وہ سارے عیب بھی تھے جو مجموعی طور پر ہماری سیاست کا مزاج بن چکے ہیں۔تاہم ان کے کردار کا یہ رخ واضح لگتا تھا کہ وہ اب خفیہ ایجنسیوں کا آلۂ کار نہیں بنیں گے۔ابھی تک حکومت میں شراکت کی قیمت کے طور پر جو معاملات طے ہوئے تھے وہ بھی کوئی بہت زیادہ قابلِ اعتراض نہ تھے۔لیکن اب ۲۱مئی کے قتل و غارت اور خون خرابے کے بعد ایم کیو ایم متحدہ قومی موومنٹ کی بجائے پھر سے مہاجر قومی موومنٹ بن گئی ہے۔یہ سب کچھ صرف پرویز مشرف بھائی کی محبت میں کیا گیا ہے یا پھر سے ایجنسیوں کی خدمات بجالانے کا ثبوت دیا گیا ہے،دونوں صورتیں ہی افسوسناک ہیں۔جن کا حتمی نقصان بالآخر ایم کیو ایم ہی کو ہو گا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل ذمہ داری اپنے ہاتھ میں ہونے کے باوجود اور کراچی میں خود ہی قتل وغارت کرانے کے باوجود،ایم کیو ایم کے وزیروں اور مشیروں سے لے کر قائد تک سب لوگ انتہائی مکاری کے ساتھ اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورہ بھی پیٹتے رہے۔اور حیرت انگیز طور پر سب کی تان چیف جسٹس کے خلاف زہر اگلنے پر آکر ٹوٹتی رہی۔گورنر سندھ عشرت العباد،پارٹی کے مرکزی رہنما فاروق ستار،وزیر و مشیران بابر غوری،وسیم اختر اوررکن اسمبلی حیدر عباس رضوی،سب نے انتہائی وحشیانہ طور پر چیف جسٹس کے خلاف زہر اگلا اور ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی کے اعلان بھی کرتے رہے۔ الطاف حسین نے اپنی تقریر میں یہ تک کہہ دیا کہ چونکہ چیف جسٹس نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا ،اس لئے قوم سے معافی مانگیں،پھر چیف جسٹس کے عہدہ سے استعفیٰ دیں۔اس کے بعد ایم کیو ایم ان کی حمایت کرے گی۔
جہاں تک پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے پر اعتراض کی بات ہے تو پہلی بات یہ کہ پہلے تو اس کی مزاحمت کی جائے جو پی سی او کے تحت حلف اٹھوانے کا حکم صادر کرتا ہے۔دوسری بات یہ کہ اگر کوئی پی سی او کے تحت حلف اُٹھا کر بھی اسی قانون اور اسی آئین کے دائرے میں رہ کر جرنیلی حکم کو ٹھکرادیتا ہے اور جنرل مشرف کو اپنے سترھویں ترمیم والے آئین اور قانون کے مطابق چلنے کا کہتا ہے تو اس جرات پر تو چیف جسٹس کا ساتھ دینا چاہئے تھا۔سترھویں ترمیم کی حمایت کرنے والوں،اسی ترمیم کے تحت پی سی او کے حلف کا حکم دینے والے کی حمایت کرنے والوں،اور اسی سترھویں ترمیم کے بعد کے آئین کے تحت حکومت میں شامل ہونے والوں کو یہ کہتے ہوئے شرم آنی چاہئے تھی کہ چیف جسٹس پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کی وجہ سے قوم سے معافی مانگیں۔چیف جسٹس کی آنکھ کے تنکے پر معترض ہونے والوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر کیوں نہیں دکھائی دے رہا؟چیف جسٹس کا حلف اسی قانون کے تحت ہوا تھاجس کی منظوری کے جرم میں الطاف حسین کی جماعت بھی پوری طرح شریک تھی۔
حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام نے اپنے زمانے کے لمبی لمبی آیتیں پڑھ کر تقریریں کرنے والے رہنماؤں کو کہا تھا:”تم مچھروں کو تو چھانتے ہو مگر اونٹوں کو نگل جاتے ہو“۔تو جناب الطاف حسین آپ بھی سترھویں ترمیم کی منظوری میں حکومت کے ساتھ،باوردی جمہوریت میں حکومت کے ساتھ،فوجی جمہوریت میں آپ کی پارٹی حکومت کی حلیف اور حکومت میں پوری طرح حصہ دار،یہ سارے اونٹ نگل لینے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اعتراض ہے تو صرف یہ کہ ہم نے سترھویں ترمیم کے ذریعے جس پی سی او حلف کی راہ نکالی،آپ نے اس کے تحت حلف کیوں اٹھایا؟
الطاف بھائی! یہ آپ ہیں تو آپ کے قربان جائیے
جہاں تک چیف جسٹس سے استعفیٰ دینے کے مطالبہ کا تعلق ہے،یہ تو وہی مطالبہ ہے جو الطاف بھائی کے پرویز مشرف بھائی نے اپنے دوسرے جرنیل بھائی لوگوں کے ساتھ مل کر چیف جسٹس سے کیا تھا ۔ اگر فوجی جرنیل دھونس کے ذریعے استعفیٰ حاصل نہیں کر سکے تو الطاف حسین کی ایم کیو ایم بھی کسی دہشت گردی کے ذریعے ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔بس اتنا ہے کہ استعفیٰ کا مطالبہ کرکے الطاف بھائی اور پرویز مشرف بھائی کی ایک جیسی خواہش سامنے آگئی ہے۔
آملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک!
سینہ چاکانِ چمن کی بات سے گجرات کے سینہ چاکوں کی یاد آگئی۔ابھی کل تک الطاف حسین اور ان کی جماعت کھلے عام کہتی تھی کہ لاہور میں اور پنجاب میں جو ڈاکے پڑ رہے ہیں اور ڈاکوں کے ساتھ قتل اور عصمت دری کے جو ہولناک سانحات ہورہے ہیں ان کی سرپرستی گجرات کے چوہدری کر رہے ہیں ۔ یہ باتیں کھلے عام کی جا چکی ہیں۔پھر الطاف حسین کے اس بیان کی تو ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی کہ :
” وزیر داخلہ پر حملہ لال مسجد،جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ والے انہی مذہبی انتہا پسندوں نے کرایا،جنہوں نے چند روز پیشتر ملک بھر میں خودکش حملوں کی دھمکی تھی۔انہوں نے کہا کہ کھلے عام خود کش حملوں کی دھمکی دینے والوں کے خلاف قانونی ایکشن لینا چاہئے تھا لیکن حکمراں جماعت کے سربراہان انہیںمعصوم اور فرشتے بنا کر پیش کر رہے ہیںاور ان مذہبی انتہا پسندوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔“
لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں اورخفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی میں کی گئی بارہ مئی کی دہشت گردی کے بعد گجرات کے چوہدریوں نے بطور خاص الطاف حسین کو ٹیلی فون کئے ہیں۔اگر یہ صرف تعزیتی فون ہوتے تو بعینہ ایسے ہی ٹیلیفون ان جماعتوں کے سربراہوں کو بھی جاتے جن کے کارکن ایم کیو ایم سے دو تہائی زیادہ تعداد میں ہلاک کئے گئے۔لیکن تعزیت کی آڑ میں یہ ٹیلی فون بھی سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاکانِ چمن کے ملنے کا منظر ہی بتاتے ہیں۔ ابھی تک جو چوہدری خود آپ کے بقول ڈاکوؤں کے سرپرست تھے اور مذہبی دہشت گردوں کو معصوم فرشتہ بنا کرانہیں سپورٹ کر رہے تھے،اب وہ اورآپ، دونوں ایک ہی مشن پر چل نکلے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد کی ایک موثر سیاسی قوت ہے۔الطاف حسین چاہیں تو ابھی بھی کسی کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے اپنی سیاست خود کریں اور ملک کووردی سے پاک جمہوریت کی طرف لے جانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں(زبانی کلامی نہیںبلکہ عملی کردار)لیکن اگر وہ اپنی قوت کا اسی طرح غلط استعمال کرنے کی راہ پر چل نکلے تو پھر اللہ ان کے حال پر بھی رحم کرے،کراچی کے حال پر بھی رحم کرے اور پاکستان کے حال پر بھی رحم کرے۔الطاف حسین نے اپنی تقریر میں یہ دعا کی تھی:
”اے اللہ! تو دیکھ رہا ہے۔ہم تیرے انصاف کے طالب ہیں، ہم تیرے انصاف کے طالب ہیں، ہم تیرے انصاف کے طالب ہیں۔“
انسان ،انسانوں کو تو دھوکہ دے سکتا ہے،لیکن خدا کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔الطاف حسین خود ہی ایجنسیوں کے آلۂ کار بن کر،پرویز مشرف کے برادرانہ فرمانبردار بن کر اتنا بڑا قتلِ عام کراکے خدا سے انصاف نہ مانگیں، کہیں وہ سچ مچ انصاف نہ کر دے۔بہتر ہے خدا سے معافی اور رحم کی التجا کریں،وگرنہ بقول میاں محمد بخش:
او جبار،قہار سداوے،متاں روڑ سٹی ددھ کڑھیا
اس بات کو آسان اردو میں کراچی کے بارے میں کہے گئے ایک شعر کے مطابق یوں بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ شہر سمندر کے کنارے پہ ہے آباد
اس شہر میں رہنا بھی تو اوقات میں رہنا
اپنی اب تک کی ساری گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ایک بار پھر کہوں گا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اندرون سندھ،پشاور،اسلام آباد،لاہور جہاں بھی گئے ہیں کہیں تشدد اور خون خرابہ نہیں ہوا۔بارہ مئی کوکراچی میں جو آگ لگائی گئی ،وہ ساری منظم حکومتی سازش تھی،جس میں مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت پورے تال میل کے ساتھ ملوث تھیں۔وہ تمام حالات و واقعات جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، حکومتی منصوبوں کو کھول کرظاہر کر چکے ہیں۔کراچی بار کے صدر ابرار حسین کے بیانات سے مزید تصدیق ہوتی ہے کہ ایم کیو ایم اور پوری حکومتی مشینری اس سازش کو درجہ بدرجہ مکمل کر رہے تھے۔ان کے بیانات کی تردید عشرت العباد ابھی نہیں کر سکے۔ کراچی میںجو کچھ ہوا وہ صرف اور صرف ریاستی دہشت گردی تھی جس کا شکار اپنے ہی بے گناہ عوام کو بنایا گیا۔ اس کے لئے مکمل سرکاری تحفظ کے ساتھ ایم کیو ایم کے غنڈوں کو استعمال کیا گیا اور وحشت و بربریت کا کھیل کھیلا گیا۔
اگر پاک فوج بحیثیت ادارہ اس گھناؤنے کھیل میں ملوث نہیں ہے،اور مجھے حسنِ ظن ہے کہ بحیثیت ادارہ پاک فوج اس گھناؤنے کھیل میں ملوث نہیں ہے،تو پھر پاک فوج کا فرض بنتا ہے کہ چند اقتدار پرست جرنیلوں اور چند انتہائی کرپٹ اور غنڈے قسم کے سیاستدانوں ،اور ٹھگ بنکاروں کے اس ٹولے کو لگام دیں جو پورے ملک کو صرف اور صرف اپنے ذاتی اقتدار اور ذاتی مفادات کی حصول کی ہوس میں خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔میں کسی نئے جرنیل کو اقتدار سنبھالنے کی ترغیب نہیں دے رہا بلکہ میری گزارش اتنی ہے کہ موجودہ کرپٹ حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے اور ملک میں کسی تاخیر کے بغیر آزادانہ اور شفاف انتخاب کراکے جمہوری عمل بحال کیا جائے۔ جنرل پرویز مشرف سے اصلاح احوال کی جو تھوڑی بہت امید کی جا سکتی تھی اب وہ بھی باقی نہیں رہی،وہ مکمل طور موجودہ حکمران کرپٹ ٹولے کے سرپرست اور محافظ بن چکے ہیں اور ملک کو مذہبی اور لسانی فسادات کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔اس سے پہلے کہ ملک دوسرا افغانستان بن جائے،اسے بچا لیا جائے۔ملک بچانے کے لئے اب موجودہ سارے حکمرانوں اور ان کے سرپرست کا صرف جانا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ ان سب کا احتساب بھی بے حد ضروری ہو گیا ہے۔