چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے خلاف دائر ریفرینس کیس حکومت کے لئے سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔۵مئی کو لاہور ہائی کورٹ بار کی دعوت پر ان کا اسلام آباد سے لاہور تک کا جی ٹی روڈ کے رستے ہونے والا سفر پاکستان کی تاریخ کا ایک یادگار سفر بن گیا ہے۔۵گھنٹے کا یہ سفر ۲۵گھنٹوں میں طے ہوا۔عوام نے جگہ جگہ چیف جسٹس کا استقبال کرکے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔لاہور شہرسارا دن اور ساری رات چیف جسٹس کے استقبال کے لئے جاگتا رہا۔وقت گزرنے کے ساتھ عوام میں تھکن اور اکتاہٹ کی بجائے گرم جوشی پیدا ہوتی گئی۔ہائی کورٹ کے ۱۷حاضر سروس اور ۲۰ریٹائرڈ جج صاحبان نے بھی چیف جسٹس کا استقبال کیا۔یوں پنجاب کے ججوں کے سابقہ کردار کو کسی حد تک بہتر بنانے کی کوشش کی گئی۔حکومت کے ترجمان اوٹ پٹانگ قسم کے بیانات دے کر اس یاد گارسفر کی اہمیت کم کرنے کی کوششِ رائگاں کر رہے ہیں لیکن دو شخصیات کے دو بیانات سے حکومت کی اندرونی حالت کا اور بوکھلاہٹ کابخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ایک اور ریفرینس بھیجا جا سکتا ہے۔(پہلا ریفرینس بھیج کر ابھی سبق نہیں ملا؟)،جبکہ ریفرینس کے اصل محرک ،اسٹیل مل میگا کرپشن کے مرکزی کردار وزیر اعظم شوکت عزیز نے کہا ہے کہ ”آئین میں واضح طور پر ایسے حالات کی نشاندہی کی گئی ہے،جن کی موجودگی میں ملک میں ایمر جنسی نافذ کی جا سکتی ہے“اور یوں بالواسطہ طور پر ایمر جنسی نافذ کرنے کا پیغام دیا ہے۔
چیف جسٹس کے شاندار استقبال پر مختلف قسم کے موافقانہ اور مخالفانہ تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ایک الزام یہ لگایاجا رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں چیف جسٹس کو استعمال کر رہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ چیف جسٹس کی حمایت میں قدرت کی طرف سے ایسی ہوا چلی ہے کہ ساری اہم سیاسی جماعتیں ان کی حمایت کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔نہ چیف جسٹس کسی کو استعمال کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت انہیں استعمال کر رہی ہے۔یہ مجموعی طور پر فوجی جبر کے خلاف عوام کی نفرت کا اظہار ہے۔چیف جسٹس کے ”انکار“ نے جس حیرت انگیزفضا کو جنم دیا ہے،اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جبر اور سختی کے باوجود ،حتی کہ پی سی او کے تحت جج بننے کے باوجود اگر جج حضرات فوجی جرنیلوں کا ”آلۂ کار“ بننے سے انکار کردیں تو فوجی جرنیل ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔جسٹس منیر سے لے کر جسٹس انوارالحق تک سارے جج صاحبان فوجی جرنیلوں کے آلۂ کار بن کر قوم پرمارشل لا کا عذاب مسلط کرنے میں فوجی جرنیلوں کے برابر کے مجرم رہے ہیں ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لاہور میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ انتظامیہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی(یہ بڑا اہم قانونی نکتہ ہے)۔ان کے بقول کسی بھی مہذب معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔جو قومیں تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتیں وہ تباہ ہو جاتی ہیں۔یہ بڑی بنیادی نوعیت کی باتیں ہیں لیکن کیا پاکستان میں تمام طبقات اور فرقوں اور مذاہب کو واقعتاً بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں؟کیا مستقبل قریب میں ایسا ہونے کی کوئی امید ہے؟شاید ابھی پاکستان کو ایک طویل سفر طے کرکے اس منزل تک پہنچنا ہوگا۔ابھی تو پاکستان مذہبی انتہا پسندوں، جاگیرداروں اور لٹیروںکے گھیرے میں پھنسا ہوا ہے۔
جنرل پرویز مشرف ابھی تک چوہدری شجاعت حسین،پرویز الہٰی ،شوکت عزیز،ڈاکٹر سلمان شاہ اور ارباب غلام رحیم جیسے عناصر پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں اور ان کے زوال کا سبب بھی یہی لوگ بنیں گے۔اگر جنرل پرویز مشرف اپنے اس قماش کے سارے حلیفوں سے نجات پا لیں اور قوم کو بھی ان سے نجات دلا دیں اور پھرملک میں اصل جمہوری قوتوں کو جمہوری طریقے سے کام کرنے دیں تو شاید ابھی بھی کچھ بیچ بچاؤ کی گنجائش بن جائے،ورنہ میں جو بات پہلے کہہ چکا ہوں اسے پھر دہرا رہا ہوں کہ ان کی بے جا ضدبالآخر ایک خونریز ی پر منتج ہو گی۔
فوج میں،خفیہ ایجنسیوں میں اور بیوروکریسی میں ضیاع الحقی عنصر بڑی تعداد میں موجود ہے۔ جس خونریز تبدیلی کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اگر ایسا ہوا تو اس کے بھی دو آپشن دکھائی دیتے ہیں۔ایک امکان یہ ہے کہ فوج میں سے سیدھا سادہ روشن خیال طبقہ آگے آئے گا اور اپنی راہ کی رکاوٹ والے انتہا پسندوں کا بڑے پیمانے پر قلع قمع کرے گا۔دوسرا امکان یہ ہے کہ امریکہ خود چاہے کہ پاکستانی فوج کا مولوی قسم کا طبقہ پوری طرح برسر اقتدار آجائے۔اس طرح پاکستان میں مولویوں کو مزید طاقتور دکھا یا جائے۔ اس کے بعد بہانہ ساز امریکہ کے لئے پاکستان کو نشانہ بنانے کا بڑا بہانہ مل جائے گا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے انتہا پسندوں کے ہاتھ میں آگئے ہیں اس لئے دنیا کی سلامتی کے لئے امریکہ کے لئے مداخلت کرنا ناگزیر ہو گیا ہے،وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔یہ محض ہوائی یا ڈرانے والی باتیں نہیں ہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف کی بے جا ضد بازی پوری قوم اور ملک کو انہیں امکانات کی طرف لے جا رہی ہے۔بہتر ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف ایسی نوبت نہ آنے دیں۔اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ قاف لیگ اور دوسرے سیاسی لوٹوں سے نہ صرف الگ ہوں بلکہ ان سب کی لوٹ مار اور دوسرے جرائم کی فائلیں کھولیں،اصل جمہوری قوتوں کو کسی رخنہ کے بغیر جمہوری عمل کا حصہ بننے دیں،اور چیف جسٹس کے خلاف ریفرینس کا باعزت حل نکال کر مزید خرابیوں سے بچیں۔
ابھی تک مجھے حسنِ ظن تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود اصولی موقف میں برملا اختلاف کرنے کی جرات رکھتی ہے۔حکومت کا حصہ ہو کر بھی اپنے اصولوں پر قائم ہے۔لیکن عدلیہ کے حالیہ بحران پر ایم کیو ایم نے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے،اس سے ایسا لگا کہ ایم کیو ایم پرویز بھائی کی حمایت میں وہی کچھ اور ویسا کچھ کر رہی ہے جیسا چوہدری برادران پنجاب میں کر رہے ہیں۔ ۵مئی کوجیو ٹی وی،اے آر وائی اور آج ٹی وی کی نشریات کو سندھ میں صرف اس لئے جام کرادیا گیا کہ یہ چینلز چیف جسٹس کے اسلام آباد سے لاہور کی طرف سفر کی کوریج کر رہے تھے۔گلہ یہ سامنے آیا کہ ہماری کراچی کی حکومتی حمایت والی ریلی کی کوریج نہیں کی جا رہی تھی ،اور چیف جسٹس کے سفر کو اہمیت دی جا رہی تھی ۔ اس گلہ کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ہم نے نہ تو کیبل آپریٹرز کو مجبور کیا تھا،نہ ہی نشریات بند کرائی تھیں۔یہ از خود کوئی عوامی دباو قسم کی چیز تھی۔سبھان اللہ!۔۔۔اس اقدام سے ایسا لگنے لگا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پھر سے ایک لسانی تنظیم مہاجر قومی موومنٹ بن رہی ہے۔یعنی ایجنسیوں کی تائید و حمایت کے ساتھ خوف اور دہشت کی فضا پیدا کرنے والے اقدامات کرنے لگی ہے۔لیکن اتنے عرصہ میں حالات میں بڑی بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں،اب ویسے اقدامات میڈیا پر فوراً سامنے آجائیں گے۔اس لئے مناسب ہو گا کہ ایم کیو ایم اپنا مہاجر قومی موومنٹ والا انداز چھوڑ کر واقعتاً متحدہ قومی موومنٹ والا انداز ہی اپنائے رکھے۔
اب ایم کیو ایم کی جانب سے ۱۲مئی کو کراچی میں مشرف حمایت کی ایسی ریلی نکالنے کا اعلان کیا گیا ہے جس میں عدالتی بحران کو سیاسی رنگ دینے کی مخالفت کی جائے گی۔بے شک انہیں سیاسی طور پر ایسی ریلی نکالنے کا حق حاصل ہے لیکن عین اس تاریخ کو ریلی نکالنا جب چیف جسٹس کراچی آئیں گے،اس سے پھر ایم کیو ایم اور گجرات کے چوہدریوں میں مشابہت گہری ہو رہی ہے۔کیونکہ گجرات کے چوہدریوں نے بھی اسی دن لاہور میں ریلی نکالی تھی جس دن چیف جسٹس لاہور پہنچ رہے تھے۔
۵مئی کو جب چیف جسٹس لاہور کی طرف رواں دواں تھے تووفاقی وزیر قانون وصی ظفر دل کے چیک اپ کے لئے ہسپتال میں داخل ہو گئے تھے۔۷مئی کو ڈیفنس منسٹر راؤ اسکندر اقبال دل کے عارضہ کے باعث ہسپتال میں داخل ہو گئے ،ان کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔
۷مئی کو ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ نے چیف جوڈیشل کونسل کو چیف جسٹس کے خلاف ریفرینس کی سماعت سے روک دیا ہے اور ساتھ ہی فل کورٹ کو کیس ریفر کر دیا ہے۔اس فل کورٹ میں جوڈیشل کونسل میں شامل ججوں میں سے کوئی بھی شامل نہیں ہوگا۔اس فیصلے کو کئی جہات سے دیکھا جا سکتا ہے تاہم توقع ہے کہ اس کے نتیجہ میں جنرل پرویز مشرف کو کسی حد تک محفوظ راستہ دے دیا جائے گا، اور چیف جسٹس کے خلاف شوکت عزیز کی طرف سے بھیجے گئے ریفرینس کا وہی حشر ہوگا جوشوکت عزیز کی طرف سے اسٹیل مل کی نجکاری کی اسکیم کا ہوا تھا۔
۵مئی کو جنرل پرویز مشرف نے سندھ کے گاؤں نوکوٹ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کیا ۔ اس جلسہ کا انتظام وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے کیا تھا ۔یہ مقام موصوف کا انتخابی حلقہ بھی کہا جاتا ہے۔چیف جسٹس کا عوام نے جو والہانہ استقبال کیا،وہ تو جنرل پرویز مشرف کو کبھی نصیب نہیں ہو سکتا، تاہم زبردستی پکڑ دھکڑ کرکے لائے گئے عوام سے جنرل پرویز مشرف کے خطاب کی تقریب میں ایک ہی کام کی بات ہوئی ۔تمام تر خوشامد اور دریوزہ گری کے باوجود ارباب غلام رحیم کے منہ سے ایک پرانی حکایت بیان ہو گئی۔ آج کے سچ پر مبنی وہ حکایت کچھ یوں ہے:
” ایک بادشاہ راستہ بھول گیا۔رستہ تلاش کرتا ہواایک باغ میں جا پہنچا۔وہاں پیاس کی شدت کی وجہ سے باغ کے مالی سے پانی مانگا۔مالی نے اسے کوئی عام مسافر سمجھتے ہوئے ایک انار توڑا اور اس کا رس نکالا تو پورا گلاس لبالب بھر گیا۔ایک انار سے گلاس کو بھرتا دیکھ کر بادشاہ کے دل میں خیال آیا کہ اس سے تو خاصی آمدنی ہوسکتی ہے۔ اس پر ٹیکس لگانا چاہئے۔اس خیال کے ساتھ ہی اس نے پہلا گلاس پی کر ایک اور گلاس طلب کیا۔مالی نے پھر ایک انار توڑا اور اب جو رس نکالا تو بمشکل آدھا گلاس بھر سکا۔یہ دیکھ کر بادشاہ حیران ہوا اور مالی سے پوچھا کہ اس بار یہ گلاس آدھا کیوں بھرا ہے؟اس پر مالی نے کہا لگتا ہے ہمارے بادشاہ کے دل میں کھوٹ آگیا ہے،جس کی وجہ سے برکت ختم ہو گئی ہے۔“
ارباب غلام رحیم کو اپنے دورِ اقتدار میں دوسرا سچ بولنے پر مبارکباد!۔۔۔پہلا سچ انہوں نے تب بولا تھا جب کہا تھا کہ آصف زرداری کو جان بوجھ کر چھوڑا گیا ہے۔ عدالتی ضمانتوں کی وجہ سے رہا نہیں کیا گیا۔اگر گرفتار رکھنا چاہتے تو ان پر بکری چوری کا کوئی کیس بنا کر انہیں اندر ہی رہنے دیتے۔ان کا پہلا سچ بھی حکومت کی” گڈ گورنینس“ کا منہ بولتا ثبوت تھا اور اب یہ حکایت بیان کرکے انہوں نے عارفانہ انداز میں ”گڈ گورنینس“کی حقیقت بیان کر دی ہے۔اگر وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کے مشیر اعظم سلمان شاہ وہاں موجود ہوتے تو جلسہ گاہ میں اس حکایت کا پوری طرح تجزیہ کرکے قوم کو نوید سناتے کہ بادشاہ کے دل میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔مالی اپوزیشن کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے ۔پھر اعداد و شمار کی زبان میں بتاتے کہ پہلے انار میں دانوں کی شرح ۶۹فی صد تھی،جس کی وجہ سے گلاس لبالب بھرگیا۔جبکہ دوسرے انار میں دانوں کی شرح ۳۳فی صد تھی۔اس لحاظ سے دوسرا گلاس آدھا بھرجانا ،در اصل پہلے انار کے مقابلہ میں دوسرے انار کے اندر تقریباً ۱۷فی صد زیادہ رس موجود ہونے کا ثبوت ہے۔اس لئے بادشاہ کی نیت میں کھوٹ کا الزام اپوزیشن کی سازش ہے،اور اپوزیشن نے اس سازش کے لئے مالی کو استعمال کیا ہے۔بادشاہ سلامت نے اضافی ٹیکس کا جو سوچا ہے وہ بالکل بجا ہے۔اس سے قومی خزانے میں اضافہ ہو گا،اور پہلے سے بھرا ہوا خزانہ مزید بھر جائے گا،اس طرح ہماری ٹریکل ڈاؤن اسکیم جلد شروع ہو سکے گی اور حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کے نتائج عوام تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔اس سے جی ڈی پی کی شرح میں مزید بہتری ہو گی۔اسٹاک مارکیٹ مستحکم ہو گی۔اگر اپوزیشن اضافی ٹیکس کی مخالفت کے لئے مالی کو استعمال کرتی رہی تو پھر حکومت کے پاس اس باغ کی نجکاری کے علاوہ کوئی رستہ باقی نہ رہے گا۔اگر نجکاری کی گئی تو اس کے لئے وہی طریق کار اختیار کیا جائے گا جو اسٹیل مل کی نجکاری کے لئے اختیار کیا گیا تھا۔اس سلسلہ میں چوہدری شجاعت حسین کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں تاکہ اس باغ کی نجکاری کا انجام اسٹیل مل کی نجکاری والا نہ ہو سکے۔آخر انسان حالات سے کچھ نہ کچھ تو سیکھتا ہی ہے۔
خبر براہِ راست نہیں ہے اس لئے اس کے راست ہونے میں شک کی گنجائش ہے۔ تاہم جنرل ضیاع الحق کے صاحبزادے اور مذہبی امور کے وزیر اعجاز الحق نے بیان دیا ہے کہ امامِ کعبہ نے ان سے ملاقات کے دوران جامعہ حفصہ اور لال مسجد والوں کے طور طریقوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں غیر اسلامی قرار دیا ہے اور صاف کہا ہے کہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری جگہ پر غیر قانونی طریقے سے مسجد تعمیر کرناجائز نہیں ہے۔پاکستان میں سعودی عرب کے حکمرانوں کے مسلک سے قریب ترمکتبِ فکروالے جامعہ حفصہ کے طور طریقوں پر امامِ کعبہ کی رائے خود انہیں لوگوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔ویسے امامِ کعبہ نے وہی باتیں نرم ،ملائم اور ڈھکے چھپے لفظوں میں کہی ہیں جو اس سے پہلے ایم کیو ایم کے الطاف بھائی نے زیادہ کھل کر کہی ہیں۔ان باتوں کا مذکورہ اداروں کے مولویوں پر خاک اثر ہو گا،ابھی تو حکومت پر بھی ان باتوں کا اثر نہیں ہوا۔چنانچہ پاکستان میں کرپشن کے میگا اسکینڈل میں ملوث وزیر اعظم شوکت عزیز نے اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین کے مولویوں سے مذاکرات کا احوال جاننے کے بعد اسلام آباد کی ایک کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں دینی مدارس پر فخر ہے۔ پاکستانی دینی مدارس میں کوئی دہشت گردتربیت نہیں دی جارہی، اور ہمیں مدارس کے بارے میں کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔خدا کرے شوکت عزیز کی ساری باتیں سچ ثابت ہو جائیں،کیونکہ ان کی تردید تو خود دوسرے معتبر سرکاری ذرائع سے ہوتی رہتی ہے۔
چوہدری شجاعت حسین عام طور پررات کو لال مسجد یا جامعہ حفصہ جاتے ہیں،رات بھر وہاں ان کے مذاکرات جاری رہتے ہیں اور اگلے دن فجر کی نماز پڑھ کر وہ وہاں سے واپس آتے ہیں۔رات بھر کے ان مذاکرات میں قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے اس لئے حکومت اور جامعہ حفصہ والوں کے مذاکرات کو ’مذاق رات‘ کہنا برمحل ہو گا۔ایسے ’مذاق رات‘ کے نتیجہ میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے جس طرح دہشت گردی کے کھلے گڑھ پر فخر کا اظہار کیا ہے اس کے ردِ عمل میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف بھائی نے کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔الطاف بھائی کے بقول:
” وزیر داخلہ پر حملہ لال مسجد،جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ والے انہی مذہبی انتہا پسندوں نے کرایا،جنہوں نے چند روز پیشتر ملک بھر میں خودکش حملوں کی دھمکی تھی۔انہوں نے کہا کہ کھلے عام خود کش حملوں کی دھمکی دینے والوں کے خلاف قانونی ایکشن لینا چاہئے تھا لیکن حکمراں جماعت کے سربراہان انہیںمعصوم اور فرشتے بنا کر پیش کر رہے ہیںاور ان مذہبی انتہا پسندوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔“
سپریم کورٹ کے جج جسٹس فلک شیر نے ایک مقدمہ میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”سلیکشن بورڈ کا کام وزیر اعظم نے کرنا ہے تو پبلک سروس کمیشن کو ختم کر دینا چاہئے“وزیر اعظم شوکت عزیز اسٹیل مل اور اسٹاک مارکیٹ کریش میگا کرپشن اسکینڈلز کے مرکزی کردار ہیں اوران کے دامن سے اور بھی کئی اقتصادی چھو منتر قسم کے اسکینڈل وابستہ ہیں۔ان کی کرپشن کا ایک اور زاویہ سپریم کورٹ کے ایک جج کے مذکورہ ریمارکس سے بھی ظاہر ہو رہا ہے۔ ان کی طرف سے بھیجا جانے والا چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے خلاف ریفرنس ان کے مذکورہ اسکینڈلز کے حوالے سے عدالتی ریمارکس اور فیصلوں کا شاخسانہ رہا ہے۔انہیں چاہئے کہ اب جسٹس فلک شیر کے خلاف بھی ایک ریفرینس بھیج دیں۔
گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک خاص ای میل ۲۷اپریل کو آئی تھی،وہ میل اور جوابی ای میل من و عن پیش ہے:
موصولہ میل: آپ کا کالم” ادھر ادھر سے“ پڑھا،بہت اچھا تھا،مزہ بھی بہت آیا لیکن اسلامی مدارس کے بارے میں آپ کے خیالات کچھ اچھے نہ ہیں۔مانا کہ کچھ مولوی پاکستان بنانے کے مخالف تھے،خاص کر مفتی محمود،لال مسجد والے بھی وہی لوگ ہیں۔حدیث پاک ہے کہ برائی کو سختی سے روکو۔اگر ایسا نہ کر سکو تو زبان سے روکو۔اگر ایسا بھی نہ کر سکو تو دل سے برا جانو۔سختی کرنا حکومت کا کام ہے،نہ کرے تو اس کا گناہ صاحبِ اختیار پر ہوگا۔زبان سے روکنا علماءکا کام ہے۔دل سے برا جانے عوام کے لئے ہے۔اس لیے لال مسجد والوں کا مطالبہ یوں ٹھیک ہے لیکن طریقہ غلط ہے۔
میری جوابی میل: آپ کے کمنٹس کے لئے آپ کا شکریہ۔میں آپ کی رائے اور خیالات کا احترام کرتا ہوں ۔ پاکستان کی مجموعی فضا بہتر بنانے کے لئے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا اور ایک دوسرے کو خوشدلی کے ساتھ برداشت کرنا ضروری ہے۔ورنہ ہم لوگ واقعتاً دوسرا افغانستان بن جائیں گے۔ آپ نے حدیث لکھی ہے ،اس کی تشریح میں اختلاف ہیں،لیکن قرآن شریف میں تو خود سرکارِ دو عالم (ﷺ)کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے آپ کو داروغہ نہیں مقرر کیا ہے۔آپ کا کام پیغام پہنچا دینا ہے اور اتنا کافی ہے۔بہر حال تشریح کے اختلاف کے ہوتے ہوئے اس طرح ڈنڈا اور بندوق اٹھا لینا پاکستان کے لئے انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہے۔امید ہے مکالمہ کی گنجائش رہے گی۔