پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی یا غیر فعالیت اور پھر ان کے ساتھ زیرِ حراست افراد جیسا سلوک،صدارتی ریفرینس کی قانونی موشگافیاں۔۔۔۔اس حوالے سے پچھلا کالم لکھنے کے بعد (یعنی دل کا غبار نکال لینے کے بعد)سے اب تک جو پیش رفت ہوئی ہے،ان کا تاریخ وار ترتیب سے ذکر کروں گا۔کہیں کہیں کوئی خبر پہلی خبر سے متعلق ہوئی ہے تو اسے پہلی خبر کے ساتھ ملا دوں گا۔در اصل پاکستان کا عدالتی بحران اتنی تیزی سے بدلتا چلا جا رہا ہے کہ کسی خاص تجزیے کی نوبت نہیں آ،پاتی،خبروں پر خبریں چلی آتی ہیں،ان خبروں سے جو تاثر بنتا ہے وہی ساتھ کے ساتھ لکھتا جاؤں گا۔ تاہم پہلے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے چند”کچھ اور “ قسم کی خبریں پیش ہیں۔
جرمنی کی ایک دلچسپ خبر ہے کہ یہاں ایک شخص کو لوگوں نے دیکھا کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر عجیب سی حالت میں پڑا ہے۔ایسا لگتا تھا جیسے وہ خود کشی کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔راہگیروں نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی۔اس کو پولیس نے کافی مشکل سے چھت پر سے اتارا۔لیکن حقیقتاً وہ خود کشی نہیں کر رہا تھا بلکہ اپنی چھت کی مرمت کرتے ہوئے تارکول سے چپک گیا تھا۔
قاہرہ ،مصرسے ایک حیران کن خبر آئی ہے کہ وہاںایک درخت میں سے اللہ،محمد اور طحہٰ کی آواز آرہی ہے۔اسماعیلیہ روڈ نوزہاپرہائیک سٹیپ پر جو ایک فوجی علاقہ ہے ،یہ درخت موجود ہے،اس درخت کے ارد گرد ایک عجیب سی مہک پھیلی ہوئی ہے۔اس درخت کو دیکھنے کے لئے لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔فوجی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں عوامی ہجوم تشویش کا باعث ہے۔اس کے علاوہ ہجوم کی وجہ سے ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہو رہا ہے۔اس وجہ سے پولیس حکام نے گورنر قاہرہ کو درخواست بھیجی ہے کہ اس درخت کو کاٹنے کی اجازت دی جائے۔ روزنامہ جنگ کے مطابق مصری اخبار المصر ی الیوم نے اس درخت کی پوری خبر شائع کی ہے۔
اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ خبر کس حد تک درست ہے۔کیونکہ ایسا کچھ ہوا ہے تو اس درخت کی تصویر اور آوازیں کم از کم عربی اور اردو ٹی وی چینلز پر تو دکھائی جانا چاہئیں تھیں۔اس لئے اس خبر کی صحت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتالیکن ایسا ہونا نا ممکنات میں سے نہیں ہے۔ہندؤں میں مقدس درختوں کی ایک بڑی روایت موجود ہے۔یہودی اور مسیحی عقائد کے مطابق بائبل کی کتاب خروج کے باب ۳میں ایک مقدس جھاڑی کا ذکر ہے جس میں بظاہر آگ لگی ہوئی تھی لیکن وہ آگ جلانے والی نہ تھی۔حضرت موسیٰ وہاں سے بچ کر گزرنے لگے تو جھاڑی میں سے خدا کی آواز آئی ۔قرآن شریف میں یہی وا قعہ مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے۔سورہ القصص کی آیت۳۱میں درج ہے کہ جب حضرت موسیٰ اس آگ کے قریب پہنچے ایک درخت کے اندر سے آواز آئی”انی انااللہ رب العٰلمین“میں اللہ ہوں تمام جہانوں کا رب۔یہ واقعہ مصر میں پیش آیا تھا اور اب بھی جس درخت کا ذکر ہورہا ہے مصر ہی میں پایا گیا ہے۔سو اس لحاظ سے اس درخت میں سے اللہ،محمد اور طحٰہ کی آواز آرہی ہے تو ایسا ہونا ممکن ہے۔البتہ پریشانی والی بات کو علامہ اقبال کے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جلوۂ طور تو موجود ہے،موسیٰ ہی نہیں
ورلڈ کپ میں پاکستان کی جو درگت بنی ہے،اس پر قوم نے انضمام الحق کا”ماشاءاللہ“تو دیکھ لیا ہے اور اب قوم منتظر ہے کہ ٹیم واپس آئے تو اسے انضمام الحق کا”انشاءاللہ“قوم کی طرف سے دکھایا جائے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی جو رہی سو رہی اوپر سے ٹیم کے کوچ باب وولمر کی اچانک موت اور اس موت پرمختلف شبہات کا اظہار اور پولیس کی تفتیش ایک اور سر درد بن رہا ہے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جا سکے گا۔
روزنامہ خبریں کی ۲۰مارچ کی اشاعت میں یہ افسوسناک خبر چھپی ہے کہ موضع ہالہ،کوٹ ادّو میں مولوی غلام رسول نے دینی تعلیم دینے کا ایک مدرسہ قائم کر رکھا تھا۔وہاں سے ایک بچہ کسی طرح بھاگ کر پولیس تک پہنچا اور اس نے شکایت کی کہ مولوی غلام رسول نے اپنے مدرسہ میں بہت سارے بچوں کو قید کر رکھا ہے اور وہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرتا رہتا ہے۔خود شکایت کنندہ کے ساتھ بھی مولوی غلام رسول نے جنسی زیادتی کی۔مزید یہ بھی بتایا کہ وہ زیادتی کرنے سے پہلے خود کو انجکشن لگاتا ہے اور پھر زیادتی کرتا ہے۔چنانچہ پولیس نے مدرسہ پر چھاپا مارا۔وہاں تین بچے زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔باقی سارے بچوں کو دو کمروں میں بند کیا ہوا تھا۔دینی مدرسہ پر چھاپہ کے دوران وہاں سے قوت بخش ادویات،انجکشن اور سرنجیں بھی برآمد کر لی گئیں۔ میڈیکل رپورٹ سے جنسی زیادتی کے الزام کی تصدیق یا تردید ہو جائے گی۔لیکن یہ صرف ایک مدرسہ اور ایک مولوی صاحب کی کہانی نہیں ہے، ہمارے معاشرہ میں ایسی اور بھی کئی شرمناک کہانیاں موجود ہیں۔
مغربی بنگال میں مشرقی مدنا پور ضلع کے موضع نندی گرام میں پولیس اور عوام کے تصادم میں کم از کم ۱۴شہری ہلاک اور ۵۰سے زائد زخمی ہو گئے۔زخمیوں میں ۱۴پولیس والے بھی شامل ہیں۔یہ تصادم اس تنازعہ کے حوالے سے ہوا ہے جو کچھ عرصہ سے بنگال کی حکومت اور دوسری سیاسی جماعتوں کے درمیان چل رہا تھا۔زرعی زمینوں پر حکومت فیکٹریاں بنانا چاہ رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جن سے زمینیں لی گئی ہیں انہیں معاوضہ ادا کیا جا چکا ہے۔دوسری طرف مخالف سیاسی جماعتیں زرعی زمینوں پر فیکٹریاں بنانے کی مخالفت کر رہی ہیں۔یہ تنازعہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت ریاست کی انتظامیہ کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔
بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع بیجا پور میں مسلح کیمونسٹ باغیوں نے ایک پولیس چوکی پر حملہ کر دیا۔اس شدید حملہ کے نتیجہ میں اسپیشل پولیس آفیسرز اور پولیس اہلکاروں سمیت ۵۰سرکاری ملازمین ہلاک ہو گئے۔ہلاک شدگان میں بڑی تعداد اسپیشل پولیس افسران کی ہے۔باغیوں نے بموں کے ساتھ حملہ کیا اور ساتھ ہی اندھا دھند فائرنگ کی،جس کے نتیجہ میں اتنا بڑا جانی نقصان ہوا۔
جنرل پرویز مشرف نے گوجرانوالہ میں ایک جلسہ
¿ عام سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر ظلِ ہما عثمان کے قتل کا ذکر کیا اور ان کے قاتل مذہبی جنونی مولوی محمد سرور کے بارے میں کہا کہ”ہم مذہب کے نام پر ایسی حرکتیں کرنے والوں کو معاشرے سے باہر نکال دیں گے“ ۔۔۔۔جنرل پرویز مشرف کا جذبہ بہت نیک ہے لیکن ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کی وجہ سے انہیں ماضی کے حوالے سے بھی کچھ بتانا چاہئے تھا۔ان کے دور بابرکت ہی میں سال ۲۰۰۲ءاور ۲۰۰۳ءکے دوران اسی مذہبی جنونی مولوی محمد سرور نے چھ خواتین کو قتل کیا۔بعض خواتین کو زخمی کیا۔اس کے باوجود یہ سیریل کلر مولوی محمد سرور ہر قتل سے بری ہو گیا۔ آپ کی نگرانی میں کام کرنے والی حکومت کااب تک کا ریکارڈ تو یہ بتاتا ہے کہ ایسے جنونی شخص کو معاشرے سے نہیں بلکہ جیل سے نکالاگیا اور بار بار نکالاگیا۔
شریک تھی یہ چمن کی ہوا بھی سازش میں
اسی لئے تو یہاں نفرتوں کے خار اُگے
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حوالے سے چند اہم خبریں یہ ہیں کہ سب سے پہلے ریٹائرڈ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے حکومت کی طرف سے اس کیس کی پیروی کرنے سے انکار کیا۔پھر بہاولپور کے سول جج درجہ اولجوڈیشل مجسٹریٹ سعیدخورشید احمد نے عدلیہ پر لگائی جانے والی ضرب کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ ۱۹مارچ تک خبریں آئیں کہ کئی اور ججز نے بھی مستعفی ہونا شروع کر دیا ہے ۔ کراچی ایسٹ کے سینیئر سول اور اسسٹنٹ سیشن جج اشرف یار خان،فورتھ سول جج سینٹرل پیر اسداللہ راشدی،سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ اللہ بچایو گبول،سینئر سول جج ایسٹ مصطفی صفوی،پنو عاقل کے فرسٹ سول جج راجیش چندر راجپوت،لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ ،جوڈیشل مجسٹریٹ و سول جج شکارپور ارم جہانگیر،سول جج کوٹری جاوید میمن اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ناصر سعید شیخ اب تک استعفیٰ دے چکے ہیں۔اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
جسٹس(ر)عبدالقیوم ملک کو حکومت کی طرف سے کیس کی پیروی کے لئے کہا گیا لیکن انہوں نے بھی انکار کر دیا۔جسٹس فخرالدین جی ابرہیم اور عبدالقیوم ملک دونوں اس وقت چیف جسٹس کے ساتھ ہونے والے رویے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر تونسہ ذوالفقار ملغانی نے بھی چیف جسٹس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔مزید عجیب سی خبر یہ ہے کہ ہر فوجی حکمران کی حمایت میں اس کی حکمرانی کے جواز دینے والے رسوائی کی حد تک مشہور شریف الدین پیرزادہ نے اس کیس کی پیروی کرنے سے معذرت کر لی ہے۔حکومتی کیمپ میں موجود بہت سارے اہم قانون دان خاموش ہیں۔ان سارے مسائل کا ایک ہی حل ہے،جس طرح متعدد دوسرے سول اداروں میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسران کو تعینات کیا گیا ہے اسی طرح تمام عدالتوں میں اعلیٰ فوجی افسران کو جج لگا دیا جائے۔”جسٹس میجر جنرل“ اور” جسٹس لیفٹیننٹ جنرل “مقرر کرنے کے ساتھ حکومت کے سارے آئینی مسائل دور ہو جائیں گے۔انصاف کا بول بالا ہوگا۔
ہندوستان کی بار ایسوسی ایشن نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کی حمایت کی ہے۔نیپال کی بار ایسوسی ایشن نے بھی پاکستانی وکلا کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے چیف جسٹس کے ساتھ ہونے والے سلوک کی مذمت کی ہے۔برطانیہ میں وہاں کے ۸۰بیرسٹروں اور سالیسٹرز نے ایک یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔ان قانون دانوں میں موجودہ پرائم منسٹر ٹونی بلیئر کی اہلیہ شیری بلئیر بھی شامل ہیں۔
۱۷مارچ کو پنجاب پولیس کے ۱۵جوانوں نے جیو نیوز کے اسلام آباد آفس پر دھاوا بول دیا۔دفتر کے اندر توڑ پھوڑ کی۔سینیئر صحافیوں کی بے عزتی کی،خواتین صحافیوں کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی۔اس واقعہ کو اس کے پورے پس منظر کے ساتھ دیکھنا چاہئے۔پہلے جوڈیشل کونسل (جس کی حیثیت کو چیف جسٹس نے چیلنج کیا ہوا ہے)کی طرف سے فرمان آیا کہ ریفرینس کے حوالے سے میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے۔جب الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں نے بچ بچا کر حقائق بیان کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو۵۱مارچ کوپروگرام”آج کامران خان کے ساتھ“پر پابندی عائد کر دی گئی۔۶۱مارچ کو کامران خان نے ریفرینس کی سماعت اور ملکی صورتحال کی لائیو کوریج دینا شروع کی تو اسی دن پہلے یہ مناظر دیکھنے میں آتے رہے کہ پولیس ٹی وی والوں کے کیمرے توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔پھر پنجاب پولیس کے علاقہ راولپنڈی میںٹی وی چینلز کے بعض صحافیوں کی گرفتاری اور ان پر پولیس تھانوں میں تشدد کی خبریں آئیں اور سہ پہر تک حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور پھر جیو نیوز کے دفتر پر دھاوا بول دیا گیا۔
۳۱مارچ کو چیف جسٹس کے ساتھ جو بدتمیزی کی گئی اور پولیس نے جس طریقے سے انہیں دھکے دئیے،ان کے بالوں سے پکڑ کر ا نہیں گھسیٹا اور کپڑے تک پھاڑ دئیے گئے،یہ سارے کام فوجی احکامات کے تحت ہوئے تھے۔ان طریقوں میں فوجی دماغ کی کارفرمائی صاف دکھائی دیتی ہے۔اس کے بر عکس جیو نیوزکے دفتر پر حملہ میں گجرات کے چوہدریوں کا اسٹائل صاف دکھائی دیتا ہے۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی جس انداز میں اس حملہ کی مذمت کر رہے تھے ان کا چہرہ بھی ان کی اصل پریشانی کو ظاہر کر رہا تھا۔جو واقفان حال جانتے ہیں کہ لاہور میں ڈاکے کی وارداتوں اور پولیس کے رویوں میں کیسی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ،وہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جیو نیوز پر حملہ کرانے میں صرف پنجاب پولیس شامل نہیں بلکہ اس پولیس کے سرپرست ملوث ہیں۔۷۱مارچ کو لاہور ہائی کورٹ میں وکیلوں پر اسی اسٹائل کا تشدد کیا گیا جیسا ۱۷مارچ کو راولپنڈی،اسلام آباد میں پنجاب پولیس کے ذریعے کیا جا چکا تھا۔بلکہ اس میں کچھ ”چوہدریانہ“اضافے بھی دکھائی دئیے۔وکلاءکے چیمبرز میں توڑ پھوڑ کی گئی،پولیس کی کار کردگی کے نتیجہ میں ہائی کورٹ کے احاطہ میں کھڑی دو کاریں جل گئیں،متعدد وکلاءکو گرفتار کرنے کے بعد ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔وکلاءپر عمومی حملہ کے دوران ایک طرف پولیس نے ہائیکورٹ کا مین گیٹ بند کر دیا،دوسری طرف سے احاطہ کے اندر محصور وکلاءپر آنسو گیس کی شیلنگ کے ساتھ پتھراؤ بھی کیا گیا۔اس سارے کھیل کا سلسلہ گوجرانوالہ میں جنرل مشرف کے جلسہ عام سے جوڑ کر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پرویز الہٰی نے عوامی ردِ عمل کا سیاسی مقابلہ کرنے کے لئے اس جلسے کو خاص رنگ دلایا،یہاں سے انہیں”ضروری انتظامی(انتقامی)“کاروائی کرنے کے لئے بلینک چیک دے دیا گیا اور پھر یہ سب کچھ رونما ہونے لگا۔ اسلام آباد،راولپنڈی سے لے کر لاہور تک پنجاب پولیس کی اس ساری ”پولیس گردی“ کی ذمہ داری مکمل طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے سر پر ہے۔سب انہیں کا کیا دھرا ہے۔جنرل پرویز مشرف اس سازش کو سمجھیں!
جیو کے دفتر پرحملہ کے فوراً بعد جس طرح بین الاقوامی میڈیا نے اس کی خبر نشر کرنا شروع کی،اس کے نتیجہ میں حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔قانون کے وفاقی وزیر جو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اخلاق و تہذیب سے نابلد ہونے کا ثبوت وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں دے چکے ہیں ۔اور اس کے بعد بھی فخریہ طور پر اپنی بد تہذیبی کو اپنی شناخت کے طور پر پیش کرتے رہے،اس حملہ کے بعد انہوں نے اعلانیہ طور پر معروف صحافی انصار عباسی سے اپنے رویے پر معافی مانگ لی ہے۔وزیر اعظم شوکت عزیز نے سہمے ہوئے انداز میں اس حملہ کی مذمت کی ہے۔تاہم اصل خبر یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ پریس کی آزادی ان کی ترجیح رہی ہے اس لئے وہ اس حملہ کی مذمت کرتے ہوئے خود جیو والوں سے معافی مانگتے ہیں۔پرانی معاشرتی فلموں میں ایسا ہوتا تھا کہ ساری فلم میں سازشیں اور زیادتیاں چلتی تھیں اور آخر میں سب ایک دوسرے سے معافیاں مانگ رہے ہوتے تھے۔معافیاں مانگنے کا سلسلہ شروع ہوتا تو اندازہ ہو جاتا کہ اب فلم اختتام کے قریب پہنچ گئی ہے۔ہیپی اینڈ (Happy End)سے سارے ناظرین خوش ہوجاتے۔لیکن جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار کے اس مرحلہ پر جو معافیاں مانگنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے،اس سے یہ تو لگتا ہے کہ اس دور کی فلم ختم ہونے کے قریب ہے لیکن اس بار Happy Endکی بجائے بڑے پیمانے پر خونریزی دکھائی دے رہی ہے۔ اللہ رحم کرے اور میرا قیاس صرف میرا وہم ثابت ہو۔ میرے خیال میں جو تھوڑی بہت بچت ہو سکتی ہے وہ صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ فوری طور پر اپوزیشن کے مشورے کے ساتھ عبوری حکومت قائم کی جائے،شوکت عزیز اور سلمان شاہ و دیگرکے خلاف اسٹیل مل میگا کرپشن اور اسٹاک ایکسچینج کے بحران کی سازش کا مقدمہ درج کرکے کاروائی شروع کی جائے ۔چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہٰی کی فائلیں کھولی جائیں اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔موجودہ حکومت میں شامل سارے نیب زدگان کے خلاف مقدمات کو لٹکانے کی بجائے فیصلہ کن مرحلہ میں لایا جائے۔اور جن خاندانوں کے بھی کروڑوں کے قرضے معاف کئے گئے ہیں،ان کی اور ان کی اولادوں کی جائیدادیں نیلام کرکے انہیں خزانے میں واپس لایا جائے۔جو کسی قانونی موشگافی سے ایسا نہیں ہونے دیتے ان سب کو سی کلاس جیلوں میں بند کیا جائے۔ ایسے اقدامات کے دوش بدوش پھر بے شک چیف جسٹس کے خلاف ریفرینس کو بھی قانونی طریقے سے نمٹایا جائے۔ایسے چند اہم اقدامات کے نتیجہ میں ہی جنرل پرویز مشرف اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دے سکتے ہیں،ورنہ وہ خود بھی مذکورہ سارے کرپٹ عناصر کے ساتھ ان کے سرپرست کے طور پر تاریخ کی لپیٹ میں آجائیں گے۔وقت شاید بہت کم رہ گیا ہے۔
۹۱مارچ کو جنرل پرویز مشرف جیو ٹی وی کے پروگرام”آج کامران خان کے ساتھ“میں جلوہ گر ہوئے۔اس پروگرام کو پہلے بین کر دیا گیا تھا لیکن اب بین اُٹھا لیاگیا ہے اور پابندی ختم ہونے کے بعد یہ پہلا پروگرام تھا۔یہ پروگرام معمول کے ایک گھنٹہ کی بجائے دو گھنٹے تک جاری رہا۔کامران خان نے بیشتر اہم سوال پوچھ لئے اور جنرل پرویز مشرف نے بڑی حد تک اپنی پہلی والی صاف گوئی کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کے جواب دئیے۔بے شک جنرل پرویز مشرف قوم کے ساتھ اسی طرح کھل کر بات کرتے رہتے تو انہیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ان کی صاف صاف باتیں کرنا قوم کو ہمیشہ اچھا لگتا تھا لیکن درمیان میں وہ بہت زیادہ ”سیاستدان “بن گئے تھے جس کا نتیجہ بھی اب ان کے سامنے ہے۔انٹرویو میں جنرل پرویز مشرف کی بعض صاف صاف باتوں کے باوجودان باتوں سے کچھ اور سوال پیدا ہوتے ہیں۔
یہ اچھی بات ہے کہ صدر نے اعتراف کر لیا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرینس بھیجنے کے بعد حکومت سے مس ہینڈلنگ ہوئی ہے۔ریفرینس کی کہانی کاآغاز ہی مس ہینڈلنگ سے ہوا ہے۔چیف جسٹس کی خواہش پر(اس کی دوسری طرف سے تصدیق ہونا باقی ہے)انہیں صدارتی کیمپ(آرمی ہاو
¿س)میں بلایا گیا تھا۔صدر کے بقول دوتین ہفتے پہلے بھی چیف جسٹس اپنی اہلیہ کے ساتھ اسی طرح ملنے کے لئے آئے تھے۔ریفرینس والے دن پہلے صدر نے ان سے ملاقات کی بعد میں وزیر اعظم شوکت عزیزبھی آگئے۔اس روداد پر سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا دو تین ہفتے پہلے والی ملاقات کی ویڈیو بھی ٹی وی چینلز کو جاری کی گئی تھی؟۔۔اگر وہ ویڈیو جاری نہیں کی گئی تھی تو اس بار ملاقات کی ویڈیو کو جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اگر ویڈیو جاری کرنا ہی تھی تو وزیر اعظم کی آمد کے بعد ان سمیت ویڈیو بنا کر جاری کی جاتی ۔ تب شاید کسی حد تک کم ردِ عمل ظاہرہوتا۔فوجی لباس میں ملبوس ہونے کا جواز بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔معقول جواز اور چالاکی دکھانے میں فرق ہوتا ہے۔جنرل صاحب معقول جواز پیش نہیں کر سکے۔
صدر نے چیف جسٹس کو پانچ گھنٹے تک فوج کی حراست میں رکھنے کی تردید کرتے ہوئے کچھ وقت کا شمار کیا کہ اتنی دیر اس طرح بات ہوئی،پھر میں اور وزیر اعظم جمعہ نماز پڑھنے چلے گئے اور چیف جسٹس فوجی سٹاف کے ساتھ وہاں ریفرینس پر غور کرتے رہے۔اس پر بھی پوری صفائی نہیں ہوئی۔چیف جسٹس کا یہ بیان شروع میں ہی سامنے آگیا تھا کہ انہیں بلا کر ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ دیر تک انتظار کرایا گیا،یہ مصروفیت نہیں بلکہ ہتک آمیز رویہ تھا۔اگر صدر اوروز یر اعظم جمعہ نماز پر جا رہے تھے تو چیف جسٹس کو جمعہ نماز پڑھنے کے لئے کیوں نہیں جانے دیا گیا؟۔حقیقت یہی ہے کہ عملاً چیف جسٹس کو حراست میں رکھا گیا تھا ۔ ۷۱مارچ تک ان کے گھر پر ان کو پورے اہلِ خانہ سمیت نظر بندرکھا گیا۔اس دوران جن گنے چنے لوگوں سے ملاقاتیں کرائی گئیں وہ اوپر کی منظوری سے کرائی گئیں۔ پوری قوم بلکہ پوری دنیا یہ نظر بندی دیکھ رہی تھی۔سو یہاں بھی مس ہینڈلنگ ہوئی تھی۔
جنرل پرویز مشرف نے ایک بات یہ کہی کہ ریفرینس وزیر اعظم کی طرف سے آئی ہوئی تھی۔ قوم کی طرف سے یہ میری ذمہ داری تھی کہ دستور کے مطابق کاروائی کی جائے۔بالکل درست بات ہے۔آپ قوم کی ساری امانتوں کے امین ہیں ۔آپ کو جہاں بھی قوم کی امانت میں خیانت ہوتی دکھائی دے وہاں لازماًکاروائی کریں۔لیکن پہلے اپنے ارد گرد کے سارے کرپٹ سیاستدانوں کو تو دیکھ لیں۔پھر کیاآپ نے اسٹیل مل میگا کرپشن کے مرکزی کرداروں کے خلاف کاروائی کی؟وہ تو ابھی تک اعلیٰ کرسیوں پر فائز ہیں اور انہیں کے دکھ کے مداوا کے لئے چیف جسٹس کے خلاف کاروائی کروائی گئی ہے۔یہ ہے وہ اصل سازش جس کا حقیقتاً آپ شکار ہوئے ہیں لیکن ابھی تک آپ اس کا ادراک نہیں کر رہے ہیں۔وزیر اعظم اور ان کے اقتصادی مشیر اعظم کو چھوڑیں،سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے خلاف حکومت ہی کے ایک اہم فرد امتیاز شیخ نے جو گھناؤنے اور ہولناک الزام لگائے تھے،ان کے حوالے سے آپ نے اپنی ذمہ داری کہاں پوری کی؟قوم سے کروڑوں اور اربوں کے قرضے لے کر معاف کرا لینے والوں سے آپ نے ساری رقوم نکلوانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن وہ رقوم کیا نکلتیں،اُلٹا آپ کے عہدِ بابرکت میں انہیں لٹیرو ں کو مزید قرضے دے کر وہ قرضے بھی معاف کر دئیے گئے۔سو آپ کو صرف یہی ایک ذمہ داری یاد رہی اور وہ بھی اس وزیر اعظم کی طرف سے بھیجے ہوئے ریفرینس کی ذمہ داری جو اسٹیل مل میگا کرپشن میں براہ راست ملوث تھے۔
جب تک صدارتی ریفرینس پوری طرح سامنے نہیں آتا اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک بات جو سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے اعلانیہ کہی تھی کہ چیف جسٹس نے سندھ کے وزیر اعلیٰ پر دباؤ ڈال کر ان سے ذاتی استعمال کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹرلیا تھا۔اب انہیں وزیر اعلیٰ سندھ کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے ایک ہندوستانی خاتون سارہ سنگھ کو سرکاری ہیلی کاپٹر ان کے ذاتی تصرف میں دیا ۔مذکورہ خاتون جنوری اور فروری۲۰۰۷ءمیں اس ہیلی کاپٹر کے ذریعے عمر کوٹ،لاڑکانہ،تھرپارکر،حیدرآباد،خیرپوراور دیگر مقامات سندھ میں گھومتی رہیں۔اب یہ عجیب تماشہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر اعلیٰ سندھ اس بات پر تو اعتراض کرتے ہیں کہ چیف جسٹس نے ان سے سرکاری ہیلی کاپٹر لینے کے لئے دباؤ ڈالا تھا لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ ایک ہندوستانی خاتون کو انہوں نے سرکاری ہیلی کاپٹر کیوں دے دیا؟
جنرل پرویز مشرف کا یہ بیان بھی حیران کن ہے کہ جس انسپکٹر کی قیادت میں جیو کے اسلام آباد آفس پر حملہ ہوا تھا وہ انسپکٹر خالد محمود پر اسرار طور پر غائب ہے۔اور ان کے انٹرویو سے اگلے روز انسپکٹر کو تلاش کر لیا گیا۔مجھے اس شبہ کے اظہار میں کوئی تامل نہیں کہ مذکورہ انسپکٹر کو یا تو خفیہ ایجنسیوں نے اپنی تحویل میں لے رکھا تھا،یا پھر پرویز الہٰی انہیں وہ بیان سمجھا رہے تھے جو بدلے ہوئے منظر نامہ میں انہیں دینا ہے۔کیونکہ اس حملہ کے پیچھے ان دو کے علاوہ کوئی اور تیسرا نہیں ہو سکتا۔
پہلی پیشی پر چیف جسٹس کے وکیل اعتزاز احسن نے جوڈیشل کونسل سے درخواست کی تھی کہ اگلی پیشی ۲۶مارچ کی رکھی جائے۔لیکن جوڈیشل کونسل نے ۲۱مارچ کی تاریخ دے دی۔اب آج ۲۱مارچ کو جب سہ پہر ۳بجے جوڈیشل کونسل میں حاضری ہونا تھی،جوڈیشل کونسل کی طرف سے کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی درخواست پر۲۱مارچ کی پیشی کو ملتوی کرکے ۳اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔جبکہ چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ چیف جسٹس نے یا ان کے کسی وکیل نے تاریخ کے التوا کی کوئی درخواست کی ہے۔
لگتا ہے جوڈیشل کونسل کو اوپر سے کوئی حکم ملا ہے اور حکم بھی ایسا کہ جوڈیشل کونسل کے جملہ اراکین جمع بھی نہیں ہوئے اور ان کی طرف سے التوا کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔جنرل پرویز مشرف اپنے گھاگ قسم کے قانون دانوں کی سازش کا بھی شکار ہونے لگے ہیں۔تاہم میرا خیال ہے کہ انہوں نے ایک ٹی وی چینل پر لاہور کے ممتاز صحافی نجم سیٹھی کا بیان سنااور اسی پر عمل کر دیا۔نجم سیٹھی نے کہا تھا کہ اگر حکومت چیف جسٹس کے کیس کو لمبا کر دے(قانونی کاروائی کے ذریعے فیصلہ کرنے میں تاخیرکر دی جائے)تو یہ تحریک ختم ہو جائے گی۔ہو سکتا ہے نجم سیٹھی کا تجزیہ ان کی نظر میں بجا ہو لیکن یہ صائب نہیں ہے اور اس پر عمل کرکے جنرل پرویز مشرف مزید مشکلات میں گھر جائیں گے۔بعد میں اسے مس ہینڈلنگ کہنے سے بات نہیں بنے گی۔جن مظاہروں کو روکنے کے لئے یہ چال چلی گئی ہے،اس چال سے ان مظاہروں میں مزید شدت آئے گی۔اور وکلا کو کئی اطراف سے اخلاقی اور قانونی حمایت ملتی جائے گی۔
چیف جسٹس کے مسئلہ کے حوالے سے اب تک کی تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ جسٹس محمد افتخار چوہدری کے بعد سینئر ترین جج ،جسٹس رانا بھگوان داس آج دہلی سے کراچی پہنچ گئے ہیں۔چیف جسٹس کے خلاف کاروائی سے پہلے جسٹس رانا بھگوان داس دھارمک یاترا کی غرض سے چھٹی لے کر ہندوستان چلے گئے تھے۔اور وہاں مختلف مقامات پر بغیر کسی پروٹوکول کے عام یاتری کی طرح زیارات اور پوجا پاٹ میں مشغول تھے۔آج ان کی دہلی سے واپسی کی فلائیٹ تھی۔ ان کا جہاز کراچی میں اترنے سے پہلے بار بار یہ خبر دی جا رہی تھی کہ کراچی سے اگلی فلائیٹ لے کر وہ اسلام آباد روانہ ہو جائیں گے جہاں وہ قائم مقام چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا حلف اُٹھائیں گے۔لیکن کراچی ائر پورٹ سے وہ سیدھے اپنے گھر چلے گئے ہیں اور ان سے منسوب یہ بیان گردش کر رہا ہے کہ وہ اگلے دو تین روز میں قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اُٹھانے کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔اگر انہوں نے حلف اُٹھانے سے انکار کر دیا تو عدلیہ کا حالیہ بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا۔
فوجی حکمرانوں نے ۱۹۸۰ء کے زمانے سے امریکی مقاصد کی تکمیل کے لئے”جہاد“ کے نام پر قوم کی راہ میں جو کانٹے بچھانے شروع کئے تھے،وہ کانٹے اب پلکوں سے چننے پڑرہے ہیں۔ ماضی میں فوج ، ایجنسیوں اور مخصوص مکتبہ فکر کے علماءنے مجاہدین تیار کئے تھے۔ اب وہ مجاہدین،وہ مذہبی انتہا پسند پاکستان میں بھی طالبان جیسا اسلام لانا چاہ رہے ہیں ۔وہ کچھ عرصہ سے پاکستان کے شہروں میں حجاموں ،سی ڈیز شاپس اور ویڈیو والوں کو وارننگ دے رہے تھے،انہوں نے اب مزید کاروائی شروع کر دی ہے۔ مردان میں ویڈیو، سی ڈی کی ایک دوکان کو بم دھماکے سے اُڑا دیا گیا اور اس کے چوکیدار کو بھی قتل کر دیا گیاہے۔پشاور میں کوہاٹ روڈ پر ویڈیو مارکیٹ میں بم دھماکے سے پانچ دوکانوں کو شدید نقصان ہوا اور وہاں کا چوکیدار شدید زخمی ہو گیا۔۲۰مارچ کو جیو کے ایک ٹاک شو میں اسفند یار ولی خاں بتا رہے تھے کہ صوبہ سرحد کے کوہاٹ کے قریب کے ایک شہر میں متعددگرلز اسکولز کو مذہبی انتہا پسندوں نے دھماکوں سے اُڑا دیا ہے اور حکومت خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہی ہے۔کل تک سب تردید کرتے تھے کہ قبائلی علاقوں میں کوئی غیر ملکی نہیں ہیں،آج مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ مختلف قبائلی علاقوں کے قبائلیوں کے ساتھ غیر ملکیوں کے تصادم ہو رہے ہیں۔گویا غیر ملکی جنگجو نہ صرف موجود ہیں بلکہ اتنی تعداد اور طاقت کے ساتھ موجود ہیں کہ خود اپنے میزبانوں پر بھی حملہ آور ہو گئے ہیں۔
ایسی فضا میں آج ہی اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بین کی مون کا بیان آیا ہے کہ افغانستان میں خود کش بمبار پاکستان سے آرہے ہیں۔اب آپ لاکھ کہیں کہ ایسے حملے روکنا صرف ہماری ذمہ داری نہیں ہے،افغان حکومت،امریکی اور نیٹو افواج کی بھی ذمہ داری ہے،لیکن جب آپ کے اپنے قبائلی علاقوں کا طوفان آپ کے شہروں سے ہوتا ہوا اسلام آباد کو بھی چھو رہا ہے تو ایسی صورت میں زمینی حقائق خود آپ کی کمزوریوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
وہ کہ نازاں رہے جن باتوں پہ ،اب دیکھ بھی لیں
آگئے وقت انہیں باتوں پہ پچھتانے کے