امریکہ کے ممتاز صحافی سیموئل ہرش کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ایران کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے مسلمانوں میں موجود اپنے سابقہ ”مجاہدین“ اور موجودہ”دہشت گردوں“ کو ایک بار پھر عارضی بنیادوں پر”مجاہدین“بنانے کا سوچنا شروع کر دیا ہے ۔گویا صرف افغانستان اور قبائلی علاقوں کے مسائل کے حل کے لئے نہیں بلکہ ایران کے مسئلہ کے حل کے لئے بھی ان مذہبی حلقوں کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔یہی مذہبی حلقے ہیں جن کی فکری کوکھ سے انجمن سپاہِ صحابہ عرفASSاور لشکرِ جھنگوی جیسے شیعہ مخالف زہریلے گروپ وجود میں آئے تھے۔سیموئل ہرش کی رپورٹ کی تصدیق مختلف اقدامات سے ہونے لگی ہے۔ایک حوالہ پاکستان میں ایک امریکی سفارتکارکا بیان ہے۔لاہور میں امریکی قونصل خانہ کے پرنسپل آفیسر نے ایک تقریب میں کہا ہے کہ ایم ایم اے انتہا پسند نہیں بلکہ معتدل جماعت ہے ۔ ہمیں اس کی چند پالیسیوں سے اختلاف ہے۔عوام کو حق ہے کہ وہ اسے ووٹ دیں۔
اگرچہ امریکہ علماءکو ایک حد سے زیادہ مراعات نہیں دے گا اور اپنے کام نکالنے کے بعد وہ اپنی پرانی اور فطری روایت کو ہی دہرائے گا تاہم علماءکے خلاف مار دھاڑ کی فضا میں تبدیلی کی ہوائیں چلنے اور نئے رومانس کے آغاز پر علمائے کرام کو مبارکباد! لیکن ایک بات پکی ہے،ایران کا تورا بورا کرنے کے بعد صرف سعودی نواز علماءہی دوبارہ امریکہ کی زد پر نہیں ہوں گے بلکہ خود سعودی عرب اور اس کے ”ہم خیال“ بھی براہِ راست امریکی زد پر آئیں گے ۔ بس اس انجام کو نظر میں ضرور رکھیں۔ پھر جو جی چاہے پالیسی اختیار کریں۔
امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی کے اچانک دورۂ پاکستان پرکئی قسم کی افواہیں گردش کرتی رہیں۔ جس کے نتیجہ میںحکومت پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کی طرف سے ایک مجاہدانہ بیان آیا ہے کہ ہم امریکی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔پھر یہ خبر دی گئی کہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے وارننگ دی گئی ہے،وغیرہ ۔ پاکستان کی امریکہ نواز حکومتوں کی تاریخ گواہ ہے کہ”جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے“کے ایسے مفہوم کے بیان صرف دو مواقع پر ہی دئیے جاتے ہیں۔ایک : عوام کو الو بنانے کے لئے جابر سلطان سے پیشگی اجازت لے کر ایسا کلمۂ حق کہا جاتا ہے۔دوسرا جب امریکہ کا دستِ شفقت ہٹنے سے حکمرانوں کا وقتِ آخر قریب آجاتا ہے۔دیکھیں اب یہ بیان کس زمرے میں آتا ہے۔لگتا تو یہی ہے کہ پیشگی اجازت لے کر یہ کلمۂ حق کہا گیا ہے۔
پاکستان میں ”ہم خیال“اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے بعد اگلے ہی روز امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی پاکستان کے غیر اعلانیہ دورے پر پہنچ گئے۔اس سے ایران پر حملے کا امکان مزید بڑھ گیا ہے۔پاکستان کے بعد ڈک چینی افغانستان پہنچے۔وہاں ۷۲فروری کو امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے بگرام بیس پر ان کا قیام تھا اور وہیں پر ایک خود کش دھماکہ ہو گیا۔ڈک چینی کو حفاظتی بنکر میں پناہ لینا پڑی۔خود کش دھماکوں کا سلسلہ تدریجاً بڑھتا جارہا ہے۔عراق اور افغانستان کے بعد پاکستان بھی اس کی زد میں آرہا ہے۔تاہم اگلے روز خود کش بمبار کے حوالے سے پاکستان میں ایک دلچسپ واقعہ رونما ہوا۔جی ٹی روڈ اٹک خورد کے مقام پرپولیس نے ایک بس کو روک کر تلاشی لینا شروع کی۔ایک نوجوان چادر کی بکل مار کر بیٹھا ہوا تھا۔اسے تلاشی دینے کے لئے کہا گیا۔اس نے دونوں ہاتھ اوپر کرتے ہوئے ساتھ ہی نعرۂ تکبیر بلند کر دیا۔اس کا نعرہ سن کر تلاشی لینے والی پولیس نے خوفزدہ ہو کر بس سے باہر چھلانگ لگا دی۔کئی مسافر بھی باہر کودنے لگے۔سب یہی سمجھے کہ نعرہ لگانیوالا خود کش حملہ آور نوجوان ہے۔پولیس کے بہادر سپاہی تو ایسا بھاگے کہ اپنے تھانے میں جا کر ہی سانس لیا۔ یہ خبر بیک وقت دلچسپ بھی ہے اور المناک بھی۔
چین میں روبوٹ انجینئرنگ ٹیکنالوجی ریسرچ سنٹرکے سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کبوتروں کے دماغ میں چِپ لگا کر ان کی پرواز کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔اس چپ کی کارکردگی کے کئی حیران کن مظاہر سننے اور پڑھنے میں آتے رہتے ہیں۔مجرموں کو چپ لگا کر چھوڑ دیا جائے اور پھر بھی ہمہ وقت ان کی نگرانی ہوتی رہے۔ ایک مخصوص حد سے باہر جانے پر فوراً انہیں روک دیاجائے۔جاپان میں انسانی دماغ میں چپ لگانے کا تجربہ بھی چل رہا ہے۔اگر یہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو سارے ٹیلی فون بے کار ہو جائیں گے۔انسان بولے بغیر اپنے مطلوبہ فرد سے رابطہ کرکے ذہنی طور پر ہی ساری بات کر لے گا۔ایسی صورت میں تو اجنبی زبان کا کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور وہ خاموشی جو ایک طویل عرصے سے شاعروں ، صوفیاءاور عشاق کی زبان بنی ہوئی ہے ،پھر وہ سب کی زبان بن جائے گی۔دیکھیں ابھی جدید تر سائنس اور ٹیکنالوجی ہمیں مزید کتنا حیران کرتی ہے۔
ڈنمارک میں مقیم اورپاکستانی نژاد، ڈینش شہریت کے حامل میاں راشد، عمر کے آخری حصہ میں وطن کی یاد لئے پاکستان چلے گئے۔گزشتہ دو تین برسوں سے وہ لاہورمیں سرور روڈ کے مکان نمبر
C 5/6 1485-پراپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم تھے۔۲۸فروری کو ان کی کوٹھی پر ڈاکہ پڑا۔ڈاکوؤں نے انہیں اور ان کے سیکیورٹی گارڈ کو قتل کر دیااور گھر سے تین کروڑ روپے کی نقدی اور دیگر جواہرات لوٹ کر لے گئے۔وطن کی محبت میں عمر کے آخری حصہ میں واپس وطن جانے کی خواہش برحق لیکن اس طرح ڈاکوؤں کے ہاتھوں مرنے اور زندگی بھر کی کمائی گنوانے سے بہتر ہے بندہ جہاں ہے وہیں امن و سکون سے رہے اور امن اور رزقِ فراواں کے سامان مہیا کرنے والے ملکوں کی ناشکری نہ کرے،کہ یہ ایک طرح سے خدا کی ناشکری بھی ہو جاتی ہے۔اس سے پہلے بھی ڈنمارک کے ہی ایک خاندان کے ساتھ کچھ ملتا جلتا المیہ ہو چکا ہے۔ڈاکے کی ایک اور قسم بھی ہے۔امریکی نیشنلٹی کے حامل ایک پاکستانی نے اپنے ایک عزیز دوست کے کہنے پر اسی کے بھروسہ پر اس کے نام سے بزنس شروع کیا تھا۔جب کاروبار چل نکلا تو وہ معائنہ کے لئے اور حساب کتاب کے لئے گوجرانوالہ چلا گیا۔وہاں دوست نے بزنس کو مکمل طور پر اپنا قرار دیتے ہوئے کوئی حساب دینے سے انکار کر دیا۔امریکہ سے آئے ہوئے محب وطن نے اپنا کثیر سرمایہ ڈوبتے دیکھا تو مزاحمت کرنا چاہی۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے ٹھگ دوست نے پولیس کی ملی بھگت کے ساتھ ایک عورت کے ذریعے اس پر بدکاری کا الزام لگوا کر اسے حدود کیس کے تحت اندر کرا دیا۔اس بے چارے نے بڑی مشکل سے امریکی سفارت خانے تک اپنی بپتا پہنچائی تو امریکی سفارتخانہ حرکت میں آ گیا۔عورت گرفتار ہوئی،پولیس اہلکاروں کے خلاف کھڑے کھڑے کاروائی ہو گئی اور احسان فراموش اور بے ایمان دوست بھی اپنے انجام کو پہنچا۔امریکی سفارتخانہ دخل نہ دیتا تو وہ پاکستانی نژاد امریکی حدود کیس میں سزا پا چکا ہوتا۔
نئی دہلی میں ایک تقریب میں بھارت کے صدر جمہوریہ عبدالکلام زمین پر گرگئے۔سیکیورٹی اہلکاروں نے انہیں فوری طور اُٹھا لیا۔سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے گھٹنوں کا پرابلم ہر شخص ٹی وی پر دیکھ چکا ہے،اس کے باوجود ان کے ساتھ ایسا سانحہ کبھی پیش نہیں آیا۔بہر حال ایک عمر کے بعد ہم سب کے ساتھ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔کسی بزرگ کے اس طرح گرنے پر دل میں ہمدردی اورتاسف کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، انسانی جسم کی بے وفائی کا احساس ہوتا ہے ۔عبدالکلام تو جدید سائنس کے ساتھ شعرو ادب کی بھی اہم شخصیت ہیں۔ سو ہم ان کی مکمل صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں۔اس خبر کے ساتھ دو امریکی صدور کا گرنا بھی یاد آگیا۔ایک صدر کلنٹن ،جب وہ جاپان کے دورہ پر گئے تووہاںبیٹھے بٹھائے اس طرح گرے کہ جیسے جاپانی حکمرانوں کے قدموں میں گر کر کچھ مانگ رہے ہوں۔ دوسرے صدر بش جو اپنے ہی وائٹ ہاؤس میں بسکٹ کھاتے ہوئے زمین پر آگرے تھے۔ تب ہم سب بڑے خوش ہوئے تھے کہ یہ خدا کی طرف سے وارننگ دی گئی ہے۔پر اس کے بعد کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ایسا خدا کی طرف سے ہوا،کسی جسمانی نقاہت کے باعث ہوایا اتفاقاً ایسا کچھ ہوگیا ،اس کا تعین کرنا ہی بڑا مشکل ہے۔ویسے ایک بات ہے کوئی اچھا انسان گرے تو اس سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے جبکہ کوئی مکار اور سفاک انسان اس طرح گرے تو خوامخواہ دل میں خوشی سی ہونے لگتی ہے۔شاید یہ انسانی فطرت ہے۔ یا فطری کمینگی ہے۔
پنجاب کی صوبائی وزیر ظلِ ہما کا مولوی محمد سرور کے ہاتھوں قتل ابھی کل کی بات ہے۔اسی دوران خبریں آتی رہی تھیں کہ بعض قبائلی علاقوں میں حجاموں کو کسی گمنام لیٹر کے ذریعے وارننگ دی جا رہی ہے کہ وہ لوگوں کی شیو کرنا چھوڑ دیں۔کئی دنوں کی وارننگ کے بعد اب باجوڑ ایجنسی میں حجاموں اور میوزک سنٹروں کی چھ دوکانوں پر بم دھماکوں کی خبریں آگئی ہیں۔ اسی دوران طالبان دور حکومت کے وزیر دفاع ملا عبیداللہ اخوند کو کوئٹہ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ان کی گرفتاری پر بھاری انعام مقرر تھا۔ان کی گرفتاری کی خبر پہلے مغربی میڈیا نے دی لیکن پاکستانی حکام دو روز تک اس کی تردید کرتے رہے۔اب اس گرفتاری کا اقرار کر لیا گیا ہے۔اس سے افغان حکومت کے ان الزامات کی طرف دھیان جاتا ہے کہ کوئٹہ طالبان کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ایک طرف یہ حالات ہیں دوسری طرف لاہور میں صوبائی حکومت کی طرف سے فلم،تھیٹراور کیبل پر فحاشی و عریانی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے اور اس کی موثر روک تھام کرنے کے لئے ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں متعلقہ شعبوں کے نمائندہ افراد نے شرکت کی۔سب خود کو اس الزام سے بری قرار دیتے رہے لیکن صوبائی حکومت کے سیکریٹری داخلہ اور ان کے ایک ہم خیال فلم ڈائریکٹر نے وہاں کچھ عجیب سی باتیں کردیں۔سیکریٹری داخلہ خسرو پرویز صاحب نے کہا کہ اگر تھیٹر سے فحاشی ختم نہ کی گئی تو بہت جلد لوگ تھیٹروں ہی کو آگ لگادیں گے۔اس پر فلم ڈائریکٹر اسلم ڈار نے کہا کہ صرف تھیٹروں کو ہی آگ نہیں لگائیں گے بلکہ فحاشی و عریانی کی مرتکب چند اداکارائیں قتل ہوں گی اور چند ایک زخمی بھی ہوں گی۔سرکاری اجلاس میں ایسے خیالات کا اظہار اور پھر ان کی پریس میں تشہیر کرانا عجیب سا لگ رہا ہے۔ ایسا کچھ تھا بھی تو اسے اجلاس سے متعلق افراد اور اداروں تک محدود رکھنا چاہئے تھا۔ پریس میں اس کی تشہیر سے تو ایسا لگتا ہے جیسے انتہا پسندوں کو ایک طرح سے گائیڈ لائن دی گئی ہے اور اس کا بھی کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ جنونی مولوی محمد سرور جیسے لوگوں کو درپردہ کون سپورٹ کرتے ہیں اور چھ سات عورتوں کے قاتل کو قانون کی گرفت سے کون بچا لے جاتے ہیں۔ ایسی مجموعی صورتحال کے نتیجہ میں امریکی حکام نے باقاعدہ دو امکانات کی ایسی رپورٹ تیار کی ہے کہ یا تو جنرل پرویز مشرف درپردہ مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اس لئے ان کے خلاف جو کاروائی مجبوراً کرتے ہیں نیم دلانہ طریق سے کرتے ہیں۔ یا پھر مذہبی انتہا پسند وہاں اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ حکومت ان کے خلاف کاروائی کرنے سے معذور ہے۔ان دونوں امکانات کی صورت میں امریکہ نے پاکستان میں براہِ راست فوجی کاروائی کرنے کی بات اب کھل کر کہہ دی ہے۔
پاکستان کے ممتاز سیاستدان خان عبدالولی خان کے صاحب زادے اسفند یار ولی خا ن بھی ملک کے ممتاز سیاستدان ہیں۔اس خانوادے کا تعلق اس سیاسی گروہ سے ہے جس کا مقصد اقتدار کے حصول کیلئے قاف لیگ،اور گاف لیگ قسم کی سیاست کرنا نہیں بلکہ جس کا مقصد اصولوں پر سیاست کرنا ہے ۔ حال ہی میںجیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں انہوں نے دو انکشاف کئے۔ایک یہ کہ جنرل ضیاع الحق سے پہلے پورے فاٹا میں صرف ایک دینی مدرسہ تھا۔وہاں اب جو متعدد دینی مدارس موجود ہیں یہ سب امریکہ کی سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکی مقاصد اور مفادات والے ”مجاہدین“تیار کرنے کے لئے بنوائے گئے تھے۔اگر واقعتاً فاٹا میں موجود دینی مدارس جنرل ضیاع الحق کے دور میں بنائے گئے تھے تو صاف ظاہر ہے کہ ان کا قیام امریکی مقاصد کے حصول کے لئے تھا۔دوسری بات اسفند یار ولی نے یہ بتائی کہ مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمودڈیرہ اسماعیل خاں کے رہنے والے تھے لیکن ڈیرہ میں ان کا کوئی دینی مدرسہ نہیں تھا۔ان کا دینی مدرسہ ملتان میں تھا۔
اب امریکہ کی مہم جوئی اور سابقہ”امریکی مجاہدین“ اور موجودہ ”اسلامی دہشت گردوں“ کی لڑائی کو کفر اور اسلام کی جنگ کی بجائے ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔غیر مقلدین اور ان سے فکری طور پر قریب تر مقلدین ان سب نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکی دولت اور امریکی اسلحہ کے بل پر امریکی مفادات کی جنگ لڑی۔جنگ کے بعد ان سب نے خود کو واقعتاً مجاہدین تصور کیا۔جبکہ امریکہ نے یہ باور کرادیا کہ یہ صرف ہمارے ایجنٹ تھے اور اب یہ ہمارے باغی ایجنٹ ہیں۔سو یہ کسی مافیا کے ڈان اور اس کے باغی ایجنٹوں کے درمیان کھینچا تانی کی صورت بن گئی ہے۔سعودی عرب کے شہزادہ بندر بن سلطان اس کھینچا تانی کو ختم کرنے اور پہلی مفاہمت کو بحال کرنے کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں۔اس سے سیموئل ہرش والی رپورٹ کی باالوسطہ تصدیق ہوتی ہے۔
علماءکا ذکرِ خیر چلا ہے تو یہاں روزنامہ خبریں کے انٹرنیٹ ایڈیشن کی اشاعت ۶مارچ ۲۰۰۷ءمیں چھپنے والے ایک مضمون”حضرت مجدد الف ثانی اور دینِ الہٰی“ از جمیل اطہر سے کچھ استفادہ کر لینا بھی مناسب لگتا ہے۔اس مضمون کے مطابق اکبر بادشاہ ”دینِ الہٰی“ کے چکر میں پڑنے سے پہلے بہت ہی اسلامی مزاج رکھنے والا بادشاہ تھا۔نماز ،روزہ کا پابند تھا،علماءکی عزت کرتا تھا۔جن علماءکی عزت کرتے ہوئے اس نے انہیں دربار تک رسائی دی وہ سب اقتدار میں زیادہ حصہ کی ہوس میں ایک دوسرے پر کفر اور شرک کے فتوے صادر کرنے لگے۔ایک ہی چیز کو ایک عالم حلال قرار دے رہا ہے اور دوسرا حرام قرار دے رہا ہے۔یہیں سے اکبر بادشاہ نے کنفیوز ہونا شروع کیا۔اور مختلف تدریجی مراحل سے گزرتے ہوئے وہ”دینِ الہٰی“ تک پہنچا۔جب حضرت مجدد الف ثانی ؒنے اس گمراہی کے خلاف آواز بلند کی تب انہوں نے بادشاہ کے ساتھ اس دور کے علماءکو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔انہیں علمائے سوءقرار دیا۔انہوں نے ایک جگہ تحریر فرمایا کہ”علمائے سوءاور مشائخ نے شیطان کو چھٹی دے کر خود اس کا کام سنبھال لیا ہے“۔جمیل اطہر کا مضمون اس اقتباس پر اختتام پذیر ہوا ہے:
”مجدد الف ثانیؒ لکھتے ہیں کہ لوگوں نے ابلیس ملعون کو دیکھا کہ بیکار و نچنت بیٹھا ہے،اس سے بے فکری کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میراسارا کام علماءنے سنبھال لیا ہے۔دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے وہی کافی ہیں۔اور ایک اور مکتوب میں حضرت مجددالف ثانیؒ نے لکھاہے ،انہیں علماءمیں سے بعض نے حرص کی بد بختی میں مبتلا ہو کربادشاہوں اور امیروں کا تقرب حاصل کیااور اس مقصد کے حصول کے لئے خوشامد و چاپلوسی کے طریقے اختیار کئے۔ماضی میں امت پر جو بلائیں آئیںوہ علمائے سوءکی بد بختی اور نحوست کی راہ سے آئیں۔بادشاہوں کو یہی لوگ راہ راست سے ہٹا کر گمراہ کرتے رہے“
یہ بڑا فکر انگیز اختتامیہ ہے۔ماضی میں امت پر آنے والی بلاؤں کے ذمہ دار بھی یہ علمائے سوءتھے تو اب بھی امت پر آئی ہوئی ساری بلاؤں کے ذمہ دار یہی علمائے سوءہیں جنہوں نے امریکہ کو دنیا کی واحدسپرپاور بنانے کے کھیل میں ایک بڑے ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔
پاکستان میں خواندگی کی شرح تو افسوسناک حد تک کم ہے لیکن علم کو پھیلانے والے اداروں کے بورڈجب ظلم اور زیادتی کے گڑھ بن جائیں تو علم کیسے پھیلے گا؟۔۰۹۹۱ءمیں لاہور سے ایک بچی رمزیہ سید نے میٹرک کا امتحان اے گریڈ میں پاس کیا تھا۔لیکن نتیجہ آنے کے چند ماہ بعد تعلیمی بورڈ لاہور نے رمزیہ سید پر unfair meansکا الزام لگا کر نہ صرف اس کا نتیجہ کالعدم قرار دے دیا بلکہ اس پر چھ امتحانوں میں شرکت کی پابندی بھی عائد کر دی۔رمزیہ نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دی۔ہائی کورٹ نے رمزیہ کے حق میں فیصلہ دے کر بورڈ کو حکم دیا کہ اسے سند جاری کی جائے۔لاہور بورڈ نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔اور اب ۰۹۹۱ءسے پورے سترہ سال کے بعد سپریم کورٹ نے بھی رمزیہ سید کے حق میں فیصلہ دے کر حکم دیا ہے کہ اسے سند جاری کی جائے۔ایسا ادھر کسی مغربی ملک میں ہوا ہوتا تو طالب علم کے مستقبل کو تباہ کرنے کی سزا کا فیصلہ بھی ساتھ ہی آتا۔اور طالب علم کو اس کا ہرجانہ دلایا جاتا۔اگرچہ پاکستان سے ایسے کسی”کافرانہ“انصاف کی توقع تو نہیں ہے لیکن پھر بھی رمزیہ سید کو چاہئے کہ تعلیمی بورڈ لاہور کے ساتھ، بورڈ کے جن افراد نے اس کے تعلیمی مستقبل کو برباد کیا ہے ان کے خلاف نام بنام ہرجانہ کا مقدمہ دائر کرے۔انصاف ہو نہ ہو،انصاف کی زنجیر ہلادینے میں کوئی حرج تو نہیں۔
سعودی عرب سے ایک تکلیف دہ خبر آئی ہے۔خبر کے مطابق ایک لڑکی کے کسی نوجوان سے مراسم تھے۔ایک دن وہ اس سے ملنے کے بعد اسی کے ساتھ واپس آرہی تھی کہ رستے میں پانچ مردوں نے انہیں اغوا کر لیا ۔وہ اسے ایک فارم میں لے گئے۔جہاں ان سب نے اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور لڑکی کے بقول ۴۱مرتبہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی۔اس جرم کے خلاف سعودی عدالت کا فیصلہ آگیا ہے ۔ اس کے مطابق لڑکی اور اس کے دوست کو ۰۹، ۰۹کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ اجتماعی زیادتی کرنے والوں کو ۰۱ماہ سے ۵سال تک قید کی سزا سنائی گئی ہے۔یہ کونسی اسلامی سزا ہے؟ اس کے بارے میں ہمارے ہندو پاک کے علماءبہتر طور پر بتا سکیں گے۔کسی اخلاقی یا انسانی تہذیبی حوالے سے بھی اس سزا کا جواز سمجھ میں نہیں آرہا۔ جبراً اجتماعی زیادتی کرنے والوں کی سزا اتنی کم اورباہمی رضامندی والوں کی سزا اتنی سخت؟۔اس موقعہ پر سعودی عرب میں انسانی حقوق کی ایک کارکن فوزیہ القونی نے کہا ہے کہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد عدالتی زیادتی بھی ہو گئی ہے۔کیا اس سزا سے دنیا کو یہ پیغام نہیں جاتا کہ کہ سعودی حکومت کے” اسلامی نظام“ میں باہمی رضامندی والا گناہ تو بہت بڑا جرم ہے البتہ جو لوگ کسی خاتون کے ساتھ جبراً اجتماعی زیادتی کرتے ہیں ،اس کے لئے چند مہینوں سے پانچ برس قید تک کی سزا کافی ہے۔اور کیا اس سے اجتماعی زیادتی کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی نہیں ہو گی؟
امریکہ سے خبر آئی ہے کہ وہاں انڈیانا ائر پورٹ کے قریب ایک امریکی شہری جونسن نے اپنا نجی طیارہ اپنے سسرال کے گھر سے ٹکرا دیا۔ اس کے نتیجہ میں وہ خود بھی ہلاک ہو گیا اور اس کی ۸سالہ بیٹی ایملی بھی ہلاک ہو گئی۔انڈیانا پولیس ابھی اس حادثہ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہی تاہم قرائن یہی بتاتے ہیںکہ اپنے سسرائیل کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے شوہر کے پاس اور کوئی رستہ نہیں بچا تھا۔اگر یہ کام کسی مسلمان امریکی نے کیا ہوتا تو اب تک اسے خود کش بمبار قرار دے کر اس کا ناطہ بھی کسی القاعدہ سے جوڑا جا چکا ہوتا لیکن چونکہ یہ جونسن خالص امریکی ہے اس لئے اب اسے اور جو کچھ کہا جائے لیکن خود کش حملہ آور نہیں کہا جائے گا۔حالانکہ یہ بھی سیدھا سادہ خود کش حملہ ہے۔
ایک دن پہلے خبر آئی کہ پاکستان کے وفاقی وزیربرائے شپنگ اینڈ پورٹس بابر غوری نے کہا ہے کہ عام انتخابات ایک سال کے لئے ملتوی کر دئیے جائیں تو جو ترقیاتی منصوبے چل رہے ہیں ان کی تکمیل ہو جائے گی اور جمہوری عمل بھی مستحکم ہوگا۔ایک دن کے بعد حکومتی درویش (اس درویش کا داستان کے اس درویش سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دن میں درویش کے روپ میں ہوتا تھا اور اندھیرے میںاپنے اصلی روپ میں ڈاکو اور قاتل بن جاتا تھا،پھر بھی پتہ نہیں کیوں اس سرکاری درویش کے ذکر پر مجھے ہمیشہ داستان کا مذکورہ درویش یا دآجاتا ہے،اللہ معاف کرے۔)چودھری شجاعت حسین نے بیان دیا ہے کہ اگر ایران پر امریکی حملہ ہوا تو پاکستان کے عام انتخابات ایک سال کے لئے ملتوی کئے جا سکتے ہیں۔بابر غوری ایم کیو ایم کی طرف سے وزیر ہیں اور چودھری شجاعت کے ساتھ ایم کیو ایم کا رشتہ آگ اور پانی کا رشتہ ہے۔اس کے باوجود دونوں رہنماوں کی تان ایک ہی بات پر آکر ٹوٹی ہے کہ الیکشن ایک سال کے لئے موخر کر دئیے جائیں۔امن کی صورت میں الیکشن کے التوا کے لئے بابر غوری کی اپیل پر غور کیا جا سکتا ہے اور ایران پر حملہ کی صورت میں چودھری شجاعت کے فرمان پر عمل کیا جا سکتا ہے۔گویا ایسا ٹاس ہو رہا ہے جس میں دونوں صورتوں میں انتخاب ملتوی کیا جا سکے گا۔ہم لوگ یہودیوں پر ہر طرح کی لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں ۔ان کے ہر عیب اورہر خوبی سے نفرت کرتے ہیں لیکن کبھی یہ بھی غور کیا کہ یہودی قلیل ہو کر بھی آج پوری دنیا پر کیوں چھائے ہوئے ہیں؟اور مسلمان کثیر ہو کر بھی کیوں ذلت و مسکنت کی صورت بنے ہوئے ہیں؟صرف الیکشن کے مسئلہ کے بارے میں ہی تھوڑا سا موازنہ کر لیجئے۔ا سرائیل اپنے قیام کے پہلے دن سے لے کر آج تک مسلسل حالتِ جنگ میں ہے۔اس کے باوجود اس کے تعمیراتی و ترقیاتی منصوبے بھی جاری و ساری ہیں اور انتخابی عمل میں بھی کبھی کوئی رخنہ نہیں پڑا۔اگر یہودیوں کو الیکشن کے التوا کی ضرورت پیش نہیں آتی توآپ لوگ کیوں یہودیوں کے قومی کردار کے مقابلہ میں اتنے گرے ہوئے قومی کردار کا مظاہرہ کئے چلے جا رہے ہیں۔خدا کا خوف کریں قوم اور ملک کی ترقی کو اپنی ذات بلکہ ذاتی مفادات سے چپکا کر نہ رکھ دیں اور الیکشن سے فرار کے بہانے مت ڈھونڈیں۔
امریکہ کی معروف گلوکارہ برٹنی اسپیئرز نے، جو کیلی فورنیا کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھیں،یکایک شور مچاتے ہوئے خود کشی کی کوشش کی۔وہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ وہ مسیحیت کی مخالف ہیں ۔ اور گلے میں چادر کا پھندہ ڈال کر خود کشی کرنا چاہی۔انہیں فوری طور پر سنبھال لیا گیا۔ان کے اس اقدام کو ڈپریشن کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔لیکن یہ ایسا ڈپریشن ہے جو ہر صاحبِ دل اور صاحبِ دماغ مسیحی کو لاحق ہے۔کہاں حضرت مسیح علیہ السلام کی یہ تعلیم کہ کوئی تمہارے دائیں گال پر تھپڑ مارے تو اپنا بایاں گال بھی(دوسرے تھپڑ کے لئے)اس کے آگے کر دو۔اور کہاں امریکی نیو کونزکی عالمی دہشت گردی اور لوٹ مار۔ہر سچا مسیحی جو حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا سچا پیرو کار ہے،یقیناً اس صورتحال پر مضطرب ہے اور بجا طور پر مضطرب ہے۔
امریکہ کی بات چلی ہے تو امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹس کے دو امیدواروں کا ذکر بھی کر دیا جائے۔ڈیموکریٹس اس وقت کانگریس اور سینیٹ میں اچھی پوزیشن میں ہیں تاہم صدارتی انتخاب کے لئے انہیں خاصی احتیاط کرنا پڑے گی۔سینیٹر اباما بنیادی طور پر سیاہ فام ہیں اور ہیلری کلنٹن خاتون ہیں۔ہمارے مشرقی ممالک میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے چیمپئن امریکہ میں ابھی اتنی وسعت قلبی پیدا نہیں ہوئی کہ اپنے ہی وطن کے کسی سیاہ فام کو یا کسی خاتون کو بطور صدرِ مملکت قبول کر لے۔اس لئے ڈیموکریٹس کو اپنے ان دونوں اچھے امیدواروں کو بہر حال ڈراپ کرنا ہو گا۔ان کی بجائے کسی تیسرے امیدوار کو سامنے لانا ہو گا،(تیسرے امیدوار کا نام بھی سننے میں آ رہا ہے۔)بصورت دیگر ری پبلیکن کا کمزور امیدوار بھی ان کے مقابلہ میں آسانی سے جیت جائے گا۔یہ آنے والے دنوں کا ایک ہلکا سا نقشہ ہے۔تاہم اگر واقعتاً ابامہ یا ہیلری کلنٹن میں سے کوئی ایک امیدوار نامزد ہو گیا اور جیت بھی گیا تو اسے امریکی ذہنوں میں ایک مثبت تبدیلی کہا جا سکے گا،جس کی مجھے زیادہ امید نہیں ہے۔ ابھی امریکہ کی خواتین کو اور سیاہ فام سیاستدانوں کوزیادہ سے زیادہ وزارت خارجہ تک ہی مقام دیا جا سکتا ہے،اس سے آگے کا نہیں۔