۱۴فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جا رہا ہے۔عام طور پر ہندوستان میں انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا اس موقعہ پر ”محبت دشمن“(فلمی زبان میں ولن)کا کردار ادا کرتی ہے۔جابجا ان کے لٹھ بردار متشددانہ کاروائیاں کرتے ہیں ۔ پاکستان میں اسی دن یہ نیک کام انتہا پسند ہندوؤں کی بجائے جماعت اسلامی کرتی ہے۔میں ذاتی طور پر سڑکوں پر ہونے والی محبت کو مناسب نہیں سمجھتا لیکن مجھے یہ بھی احساس ہے کہ نئی نسل اور نئے دور کی اپنی رفتار ہے جس کے آگے ہم بند نہیں باندھ پائیں گے۔ویلنٹائن ڈے مغربی ممالک کی رسم ہے۔اگر ہم مغربی ایجادات سے استفادہ کریں گے تو مغربی تہذیب اپنے اثرات بھی لے کر آئے گی۔ویسے تو یہ اثرات سیٹلائٹ کے ذریعے ہی ہمارے برصغیر میں اس حد تک سرایت کر گئے ہیں کہ فوری طور پر ان سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔سو ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنے والوں کو اسی خلوص کے ساتھ مغربی ممالک کی تمام ایجادات سے استفادہ کرنا بھی بند کر دینا چاہئے۔ تاہم میرایہ خیال متعدد دوسرے مواقع کے ساتھ ہر ویلنٹائن ڈے پر بھی مزید پختہ ہوتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں طرف کے ہندو اور مسلم انتہا پسندوں کے رویوں اور طرزِ عمل میں بڑی ہم آہنگی ہے۔دونوں الگ الگ ہو کر بھی ایک ہیں۔
بہر حال میری طرف سے تمام اہلِ دل،اہلِ محبت کو ویلنٹائن ڈے پر مبارکباد!
اسی ویلنٹائن ڈے کے موقعہ پر محبت کی ایک قدیم ترین داستان کی تازہ ترین خبر پیش خدمت ہے۔
اٹلی کے شہر Mantovaکے مضافات میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو چھ ہزار سال پرانے دو انسانی ڈھانچے ملے ہیں۔ان ڈھانچوں کے قدیم ہونے کی مدت ماہرینِ آثارِقدیمہ کی دلچسپی کی چیز ہے میرے لئے حیرانی والی خبر یہ ہے کہ دونوں ڈھانچوں کی جو تصویر شائع ہوئی ہے اس کے مطابق دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے ہوئے لیٹے ہوئے ہیں۔ہمارے ہاں تو ابھی تک رومانوی کہانیوں میں کرداروں کا آخری انجام اس سے ملتا جلتا بتایا جاتا ہے۔مثلاً ایک کردار مر گیا تو دوسرا کردار اس کی قبر تک جا پہنچا،وہاں زمین شق ہوئی تو وہ بھی وہاں سما گیا اور دونوں ایک ساتھ دفن ہو گئے۔یا دریا میں ڈوبے ہوؤں کی لاشیں نکالی گئیں تو دونوں ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے۔یا پھر فلمی گانوں میں اس خواہش کا اظہار ملتا ہے کہ مجھے موت بھی جو آئے،ترے بازوؤں میں آئے
مگر اٹلی کے محبت کرنے والے ان نامعلوم کرداروں نے ایسی ساری کہانیوں پر ایک طرح سے مہرٔ صداقت ثبت کر دی ہے۔اے محبت زندہ باد!۔۔۔۔ویسے مجھے خیال آرہا ہے کہ اگر ان دونوں کرداروں کو کلوننگ کے طریقِ کار کے مطابق دوبارا جگا دیا جائے تو ان کی اصل داستانِ محبت تک پہنچا جا سکتا ہے۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان حالیہ پانچ ون ڈے کرکٹ میچ کے سلسلہ میں پہلے میچ کے دوران اتوار کوجب شاہد آفریدی ۱۷رنز پر آؤٹ ہوکر واپس جا رہے تھے تو ایک تماشائی نے ان پر آوازے کسے ۔اس کے جواب میں انہوں نے تماشائی کی طرف اپنا بَلا لہرایا۔اصولاً یہ سپورٹس مین سپرٹ اور قواعد کے خلاف حرکت تھی۔لیکن اسے میچ ریفری بھی دیکھ رہا تھا۔اگر اس غلطی پر کوئی ایکشن لینا تھا تو اسی دن یا اس سے اگلے دن کاروائی شروع ہو جانا چاہئے تھی۔ آئی سی سی کی طرف سے چار دن تک کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا، لیکن جیسے ہی واقعہ کے چوتھے دن بدھ کوشاہد آفریدی نے ۵۳گیندوںپر ۷۷اسکور کی مار لگائی،جمعرات کے دن ان کے خلاف پانچ دن پہلے والے واقعہ کے خلاف کاروائی شروع کر دی گئی اورپھر شاہد آفریدی پر چار ون ڈے میچ کھیلنے کی پابندی عائد کر دی گئی ۔اگرچہ پاکستان کے کھلاڑیوں سے بھی بار ہا جذباتی حرکتیں ہوئی ہیں،تاہم آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیونے جس طرح پانچ دن کی تا خیر سے کاروائی شروع کی ہے اس سے شکوک پیدا ہوتے ہیں۔بنیادی طور پر آئی سی سی کے چیف آسٹریلیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ڈیرل ہئیر کے جانبدارانہ کردار کے باوجود موصوف نے انہیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔جب غیر گورے ملکوں کی اکثریت نے مخالفت کی تو آئی سی سی کے چیف کو فیصلہ دینا پڑا۔لگتا ہے کہ وہ ابھی تک پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے سلسلہ میں اپنے دلی جذبات پر قابو نہیں پا سکے۔
پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی عقل سے کام لینا چاہئے۔اپنی جذباتیت اور مشتعل مزاجی سے وہ موجودہ قومی کیفیت کی ترجمانی تو بخوبی کر دیتے ہیں لیکن ان کے ایسے اقدامات سے سپورٹس مین سپرٹ مجروح ہوتی ہے۔ان کے حریفوں کو انہیں مشتعل کرنے کے آسان نسخے معلوم ہو گئے ہیں۔شاہد آفریدی کے معمولی سے غصہ کے نتیجہ میں کرکٹ ٹیم کو جو مجموعی نقصان اُٹھانا پڑاوہ اب سب کے سامنے ہے۔
انگلستان سے ایک دلچسپ مگر افسوسناک خبر آئی ہے۔وہاں ایک چالیس سالہ خاتون انیسہ ناصر نے ایک ٹریفک ھادثہ میں زخمی ہونے کا جواز بنا کر ایک لاکھ پونڈ ہرجانے کا دعویٰ کر رکھا تھا۔انیسہ ناصر کے دس بچے ہیں جن کی عمریں۵ماہ سے ۵۱سال تک ہیں۔محترمہ نے کیس یہ کیا تھا کہ وہ ایک بس میں سفر کر رہی تھیں۔دورانِ سفر ان کی بس کے دوسری بس سے ٹکرانے کی وجہ سے اس کی کمر اور گردن پر زخم آئے ہیں،جس کا اسے ہرجانہ ادا کیا جائے۔واقعتاً ایسا ہوا ہوتا تو لازماً ان محترمہ کی داد رسی ہوتی۔لیکن ان کا دعویٰ جھوٹا تھا اور یہ جھوٹ کلوز سرکٹ ٹی وی کیمروں کے ذریعے پکڑا گیا۔وقوعہ کے وقت محترمہ انیسہ ناصر کسی بس میں سوار نہیں تھیں۔بلکہ بس کے انتظار میں بس اسٹاپ پر قطارمیں کھڑی تھیں۔اس ٹھوس ثبوت کے بعد محترمہ نے ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں اعتراف کیا کہ اس نے دھوکے سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔اس کیس میں محترمہ کو جیل کی سزا ہو سکتی تھی لیکن ڈسٹرکٹ جج میرائم شیلوے نے ان کے بچوں کی کم عمری اور گھریلو حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہیں جیل کی سزا نہیں دی۔انہیں چار ماہ کی معطل سزا، ۰۸۱گھنٹے بلا معاوضہ کام کرنے اور ۵۶پونڈ جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔یہ صرف ایک خاتون کا معاملہ نہیں ہے،ہمارے بہت سارے پاکستانی،ہندوستانی اور افریقی احباب یہاں کے فلاحی قوانین کی سہولیات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے کئی طرح کے فراڈ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اور ایسا کرتے ہوئے انہیں اسلامی طرزِ زندگی کی کوئی بات یاد نہیں آتی۔
ہندوستان میں اسرائیل کے مذہبی رہنما، چیف ربی اور دیگریہودی علماءکی آمد پر ہندوؤں کی مختلف جماعتوں کی طرف سے ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ایک نشست میں چند ممتاز اور جید مسلمان علماءنے بھی شرکت کی۔اس پر ان علماءکے خلاف بیانات جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔برِ صغیر کے مسلمان اس لحاظ سے بڑے ہی سادہ لوح ہیں کہ انہیں یہودی کم از کم گزشتہ ساٹھ سال سے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق استعمال کرتے آرہے ہیں۔اسرائیل کو بخوبی علم ہے کہ اس کے لئے سنجیدہ خطرہ کون لوگ ہو سکتے تھے۔اس نے ۱۹۵۲ء سے کچھ پہلے ان کے خلاف مسلمانوں کو بھڑکانے کا کام شروع کیا۔اس کے بعد انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو اندر سے لڑا کر مارنا ہے۔اندرونی اختلافات کو ہوا دینے کے لئے کیسے انتہا پسندوں کی سرپرستی کرنی ہے۔کس طرح انہیں اشتعال دلا کر نقصان پہنچانا ہے۔مسلمانوں کی نفسیات سے آج مسلمانوں سے زیادہ یہودی باخبر ہیں۔اسی لئے وہ جب چاہتے ہیں انہیں آپس میں لڑا دیتے ہیں اور جب چاہیں ایسا مشتعل کر ادیتے ہیں کہ مسلمان ہوش کے بغیر خالی خولی جوش میں اپنی ہی قومی املاک کو برباد کرکے خوش ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ ساٹھ برسوں سے پاکستان کے اسرائیل سے متعدد بار بالواسطہ اور خفیہ رابطے ہوئے۔عرب ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے مذاکرات ہوتے رہتے ہیں۔اب اگر مذاہبِ عالم کے درمیان مکالمہ کی کوئی صورت نکالنے کے لئے یہودی،مسیحی اور ہندو مذہبی رہنماؤں کے ساتھ چند مسلمان علماءمل بیٹھے ہیں تو اس پر اتنا خفا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟اگر یہودیوں کو کوئی سازش کرنا ہوئی تومفاہمت کرنے والے حلقوں کے ذریعہ نہیں کریں گے بلکہ اس کام کے لئے اپنی مخالفت کرنے والے مشتعل مزاج حلقوں کو استعمال کریں گے اور بڑی آسانی کے ساتھ استعمال کر لیں گے،جیسا کہ گزشتہ ساٹھ سال کا ریکارڈ گواہ ہے۔
از روئے قرآن بت پرستوں کے بتوں کو بھی برا کہنے سے منع کیا گیا ہے،اور زیادہ سے زیادہ لکم دینکم ولی دینکہہ کر بات ختم کر دی ہے۔ قرآن کے بر عکس بائبل میں تو بڑے واضح احکامات ہیں کہ بت پرستوں کے عبادت خانے گراؤ اور ان کے بتوں کو توڑو۔ایسے احکامات کے ہوتے ہوئے اگر ہندو اور یہودی ایک دوسرے سے مکالمہ کر رہے ہیں توبعض سخت آیات کے دوش بدوش قرآن شریف میں ایسی آیات بھی موجود ہیں۔اِنّاالذین اٰ منوا والذین ھادواوالنصٰرٰے والصٰبئین من اٰمن باللہ والیوم الاٰخر و عمل صالحاً فلھم اجرھم عند ربھم،ولاخوف علیھم ولا ھم یحزنون (سورة البقرہ:۲۶)
سو ایسی آیات کے ہوتے ہوئے،۔۔۔ماضی میں اسپین سے لے کر دوسری اسلامی سلطنتوں تک مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان دوستانہ روابط کی تاریخ کے ہوتے ہوئے،۔۔اور آج کے در پیش سنگین مسائل سے عہدہ برا ہونے کے لئے،۔۔۔ مسلمانوں کو بھی مکالمہ کی راہ کھلی رکھنی چاہئے ۔ورنہ وقت تو اپنی رفتارِ بلا خیز کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔
پچھلے دنوں انگلینڈ میں پوسٹ آفس میں یکے بعد دیگرے چار پانچ لیٹربم دھماکے ہوئے تھے۔
جس سے ایک ورکر خاتون زخمی بھی ہوئی تھیں۔ظاہری طور پر یہی تاثر مل رہا تھا کہ یہ کام بھی مسلم گروپس کر رہے ہیں۔لیکن اب اصل مجرم پکڑ لیا گیا ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ گرفتار شدہ شخص ایشیائی یا عرب ہے یا انگریز۔تاہم جس طرح اس کی گرفتاری کی خبر دی گئی،اس کا نام اخفا میں رکھا گیا اور اس کے خلاف دہشت گردی کا کوئی مقدمہ قائم کرنے کی بجائے ذہنی صحت کی خرابی کی کسی شق کے تحت کیس فائل کیا گیا،اس سے صاف لگتا ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والا کوئی انگریز ہی تھا۔اس خبر کے ساتھ مجھے نائن الیون کے کچھ عرصہ بعد فرینکفرٹ میں رونما ہونے والا ایک واقعہ یاد آگیا۔ایک نجی طیارہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فرینکفرٹ کی شہری حدود میں گھس آیا ۔یہاں کی بلند و بالا عمارات سے وہ کسی وقت بھی ٹکرا سکتا تھا۔اس نے اپنے کسی مطالبہ کے ساتھ دھمکی آمیز پیغام بھیجا اور پورے شہر میں ہائی الرٹ ہو گیا۔اس خبر کے نشر ہوتے ہی میرے ملازم ساتھی مجھے اس طرح دیکھنے لگے جیسے میں نے طیارہ اغوا کیا ہو۔اس وقت تک اسے دہشت گردی کی واردات سمجھا جا رہا تھا۔لیکن جیسے ہی جہاز کو اتار لیا گیا پتہ چلا کہ اسے کوئی سرپھرا جرمن نوجوان اڑا رہا تھا۔تب اسے ذہنی مریض قرار دے کر بات ختم کر دی گئی۔ایسے رویوںسے لگتا ہے کہ اتنی ترقی کرنے اور روشن خیالی کے باوجودمغرب میں بھی بہت سارے تعصبات مستحکم ہو رہے ہیں۔ایک بات تو ہے کہ مغربی عوام کی بڑی تعداد اپنے میڈیا پر ہی انحصار کرتی ہے،جو میڈیا نے بتا دیا اسے سچ مان لیا،بہت کم افراد خود تجزیہ کرکے سچ جھوٹ کی تفریق کرپاتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کی داستان ‘In the Line of Fire‘ کے نام سے چھپی ہے تو موضع میر والا کی مظلوم بی بی مختاراں کی داستان”In the Name of Honour“کے نام سے چھپ چکی ہے۔دونوں کی کتابیں تصنیف کردہ نہیں بلکہ بیان کردہ ہیں اور انہیں لکھنے والے کوئی اور ہیں۔دونوں کتابیں امریکہ سے شائع ہوئیں ۔پرویز مشرف کی کتاب کی تقریب رونمائی تزک و احتشام سے ہوئی۔مختاراں بی بی کی کتاب کے بیس زبانوں میں تراجم ہو گئے ہیں جن میں ہندی اور عبرانی زبانیں بھی شامل ہیں۔جنرل مشرف کی کتاب کا پیش لفظ نیویارک ٹائمز کے ایک کالم نگارنکولس کرسٹوف نے لکھا ہے جبکہ مختاراں بی بی کی کتاب میں امریکی صدرکی اہلیہ لارا بش کے تاثرات شامل ہیں۔جنرل مشرف کی کتاب ایک ابال کی طرح سامنے آئی اور اب اس کاذکر بھی نہیں ہوتا جبکہ مختاراں بی بی کی کتاب آنے کے بعد اب اس پر فلم بنائے جانے کی خبریں سننے میں آرہی ہیں۔ یہاں دونوں شخصیات کے درمیان کسی قسم کا موازنہ نہیں کر رہا ہوں بلکہ یہ باتیں اس ترتیب سے مجھے اب کافی تاخیر کے بعد معلوم ہوئی ہیں اس لئے اپنے ہی جیسے بے خبروں کے ساتھ انہیں شیئر کر رہا ہوں۔
اسلام آباد میں مسجد امیر حمزہ کو پہلے سرکاری طور پر تجاوزات میں شمار کرتے ہوئے گرادیا گیا تھا۔اس پر علماءنے احتجاج شروع کیا۔اسی دوران جامعہ حفصہ کی طالبات نے بچوں کی ایک لائبریری پر مسلح قبضہ کر لیا۔اس قبضہ کی جو ویڈیو ٹی وی پر دکھائی گئی وہ خاصی مجاہدانہ قسم کی تھی۔کئی روز کی مارا ماری کے بعد حکومت پاکستان نے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔نہ صرف مسجد کی دوبارہ تعمیر کا معاہدہ کیا گیا بلکہ اس کے فورأ بعد مسجد کی تعمیر بھی شروع کرا دی گئی۔یہ واقعہ بھی سابقہ اسی نوعیت کے کئی واقعات کی کڑی ہے۔پرویز مشرف کی حکومت نے بعض ”جرأت مندانہ“اقدامات لئے،ان پر مولویوں نے فورأ ردِ عمل ظاہر کیا اور حکومت نے چند دن کے اندر وہ احکامات واپس لے لئے۔پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کو ختم کرنے اور اسے باقی دنیا اور سعودی عرب کے پاسپورٹ جیسا بنانے کے اقدام سے لے کر اس مسجد کو گرانے کے اقدام تک اگر حکومت غلطی پر تھی تو ایسی غلطیاں بار بار کیوں کی جا رہی ہیں؟کیونکہ ایسے ہر اقدام پر اور اس کو واپس لینے پر یہ مثل صادق آرہی ہے”نانی نے خصم کیا،بُرا کیا۔کرکے چھوڑ دیا،اور بھی بُرا کیا“
ویسے اس طرح کے تمام اقدامات سے پاکستان کے لبرل حلقوں میں یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ یا تو پرویز مشرف کے ارد گرد کے مولوی نواز طبقات جان بوجھ کر ایسا کروا رہے ہیں یا پھر پرویز مشرف خود ہی ایسا کر رہے ہیں۔اور ایسے اقدامات سے ان کا مقصدملک کی اصل سیاسی قوتوں کو کمزور کرکے مولوی طبقہ کی سیاسی قوت کو مستحکم کرنا ہے۔اگر ایسا پاکستان میں سوچا جا سکتا ہے تو پرویز مشرف کے سرپرست بھی اس سے بے خبر نہیں ہوں گے،البتہ شاید پرویز مشرف اس سب کچھ کے آنے والے نتائج سے بے خبر ہیں۔یا تو وہ اپنے سرپرستوں پر تکیہ نہ کریں،یا پھراپنے سرپرستوں کی طرف سے آنے والے وقت کی چاپ کو سننے کی کوشش کریں۔
اس خبر سے اگلے روز ہی اسفند یار ولی خاں کا بیان آیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کے حالات کو ۱۷۹۱ءسے بھی زیادہ خراب اور تشویشناک بتاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مسائل کا حل ایک بڑے جرگہ کے قیام میںہے۔امریکہ میں حامد کرزئی اور جنرل مشرف نے جرگہ پر اتفاق کیا تھا لیکن اب بقول اسفندیار ولی جس قسم کا جرگہ بنایا جا رہا ہے اس میں اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی جیسے پختون اور بلوچ رہنماؤں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔اسفندیار ولی کے اس بیان سے احساس ہوتا ہے کہ جنرل مشرف مولوی اور ملک صاحبان پر مشتمل جرگہ بنانا چاہتے ہیں اور سیاسی قوتوں کو اس میں شامل نہیں کر رہے۔ایسے اقدامات کے نتائج سے اللہ پاکستان کو بچائے۔
اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے قریب کھدائی کا جو کام شروع کر رکھا تھا اور جس کے خلاف وہاں کے مسلمانوں کی مزاحمت جاری تھی۔ عرب ممالک نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو باضابطہ طور پر اس طرف توجہ دلائی تھی۔اس کے نتیجہ میں اسرائیل نے کھدائی کا کا م روک دیا ہے۔وقتی طور پر تو ایک خطرہ ٹل گیا ہے لیکن یہ خطرہ ختم نہیں ہوا۔
بگلہیار ڈیم کے ہند پاک تنازعہ میں جوعالمی بنک کے مقر کردہ ثالث کے پاس گیا ہوا تھا،فیصلہ آگیا ہے اور اس میں چار میں سے تین نکات میں پاکستان کے موقف کو درست مان لیا گیا ہے۔ اس فیصلہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دونوں ممالک اس فیصلہ کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔چلیں دونوں ہی کامیاب ہوئے،اب اس پر فیصلے کی روح کے مطابق عملدرآمد کیجئے اور اپنی اپنی کامیابی کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیے۔
امریکہ سے ایک بار پھر ایک ایماندار کی انوکھی خبر آئی ہے۔اس سے پہلے ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے ایک بڑی رقم کا بیگ ٹیکسی میں بھول جانے پر بیگ اس کے مالک تک پہنچا دیا تھا۔اب ابھی واضح تو نہیں کہ ٹیکسی ڈرائیور کس ملک کا ہے کیونکہ اس کا نام مسٹر چوہدری ہی بتایا گیا ہے،اس لئے قوی قیاس ہے کہ یہ پاکستانی چوہدری ہی ہوگا۔اس بار ایک امریکی خاتون ہیروں کی انگوٹھیوں کا بیگ ٹیکسی میں بھول گئی۔اس کے جانے کے بعد جب چوہدری صاحب کو معلوم ہوا کہ ٹیکسی میں اتنے قیمتی ہیروں کی انگوٹھیاں رہ گئی ہیں تو انہوں نے کسی لالچ میں پڑنے کی بجائے اس بیگ کو نیویارک ٹیکسی ورکر الائنس کے ذریعے اصل مالک تک پہنچا دیا۔مالک خاتون نے چوہدری صاحب کو انعام دینا چاہا تو انہوں نے انعام لینے سے انکار کر دیا۔اس خبر سے اندازہ ہوا کہ پاکستان کی مٹی میں صرف گجرات کے چوہدری صاحبان جیسے لوگ ہی نہیں ہیں ٹیکسی ڈرائیور چوہدری صاحب جیسے ایماندار لوگ بھی ہیں۔