(میں نے نائن الیون کے سانحہ کے بعد منظر اور پس منظر کے زیر عنوان ۲۵کالم لکھے تھے جو کتابی صورت میں بھی چھپ چکے ہیں۔ میں نے ان کالموں میں آنے والے مزید تکلیف دہ دنوں کا ایک خاکہ سا بھی بتا دیا تھا۔اب تک کی عالمی صورتحال سے لگتا ہے کہ وہ سب کچھ ہونے جا رہا ہے۔جب میں نے مذکورہ کالم نگاری کا سلسلہ مکمل کر لیا تو بعض دوستوں کے کہنے پر خبر نامہ کا ایک ہلکا پھلکا سلسلہ شروع کر دیا۔اس کی کتاب بھی مکمل ہو گئی تو یہ سلسلہ بھی بند کر دیا۔یہ دونوں کالم اردوستان ڈاٹ کام پر کاشف الہدیٰ صاحب نے آن لائن بھی رکھے ہوئے ہیں۔ صحافیانہ کالم نگاری خاصی مشکل جاب ہے اور جب جاب بغیر کسی تنخواہ کے ہو تواور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔اب اردو دوست ڈاٹ کام کے خورشید اقبال صاحب نے حکم دیا ہے کہ ان کی ویب سائٹ کے لئے کالم لکھوں۔ جرمنی کے تھکا دینے والے محنت مزدوری والے روز وشب میں تھوڑا بہت ادبی کام کرنا بھی خاصا مشکل ہوتا ہے،جبکہ صحافتی کالم لکھنے کے لئے تازہ ترین خبروں سے ہر وقت با خبر رہنا ضروری ہوتا ہے۔بہر حال جیسے جیسے مجھے وقت کی سہولت کے ساتھ اہم یا دلچسپ یا دکھی کرنے والی خاص خبریں ملتی رہیں گی،اِدھراُدھر سے میں وہ خبریں جمع کر کے اپنے ذاتی تاثرات کے ساتھ پیش کر دیا کروں گا۔جب تک قارئین ان میں دلچسپی لیتے رہیں گے لکھنے کی کوشش کرتا رہوںگا۔)
اس وقت سب سے اہم خبر عراقی صدر صدام حسین کی پھانسی کی ہے۔انہیں۳۰دسمبر ۲۰۰۶ءبروز ہفتہ اس دن یہ سزا دی گئی جب سارے عرب میں عید الاضحیٰ تھی۔اس وجہ سے صدام سے ناخوش کئی لوگوں کو بھی افسوس ہوا کہ امریکیوں نے ناحق اتنی عجلت سے کام لیا۔ویسے اس سزا پر عملدرآمد پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا۔عراق کی سنی آبادی میں دکھ اور غصے کی کیفیت پیدا ہوئی،جبکہ شیعہ آبادی نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ جشن جیسا سماں بنا دیا۔کسی کی موت پر اتنی خوشی منانا افسوسناک ہے۔تاہم مجھے یہ احساس ہوا کہ صدام حسین نے اپنے ہی ملک کی ایک بڑی آبادی کواتنا تنگ کر رکھا تھا کہ وہ ان کی موت پر بے اختیار خوشی منانے لگ گئے۔صدام حسین کے مقدمہ کی قانونی صورتحال تو شرمناک رہی۔دورانِ سماعت ان کے دو یا تین وکلاءکو قتل کر دیا گیا۔ایک موقعہ پر عدالت کے چیف جج نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کے لئے حکومت مجھ پر دباؤ ڈال رہی ہے۔چنانچہ بعد میں موجودہ چیف جج صاحب کو چیف بنایا گیا اور انہوں نے اپنے اصل حکمرانوں کی خواہش کے مطابق فیصلہ سنا دیا۔عراقی قانون کے مطابق کسی مجرم کو عید کے روز پھانسی نہیں دی جا تی۔ اس سزا پر عملدر آمد سے عراقی قانون کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے اور بین الاقوامی طور پر تو انسانی حقوق کے عالمی ادارہ نے بھی اس مقدمہ کو عالمی طریق انصاف کی خلاف ورزی قرار دیاہے۔لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ یہاں صرف طاقت کا قانون چلایا گیا ہے جو در حقیقت امریکہ سرکار کے ہاتھ میں ہے۔
صدام حسین نے بھی تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک اپنے ملک کے عوام پر ہی طاقت کا قانون چلائے رکھا تھا۔ امریکی امداد کے بل پر ایران کے ساتھ ایک ایسی بے مقصد جنگ چھیڑ دی جس میں دونوں طرف کے دس لاکھ افراد مارے گئے،عراقی شیعہ آبادی کے ساتھ ناانصافیوں اور مظالم کا سلسلہ روا رکھا گیا،صلیبی جنگوں کے اسلامی ہیروصلاح الدین ایوبی کُردقوم کا فرد تھے۔صدام حسین نے ماضی کے اسلامی ہیروکی قوم کا جینا بھی حرام کئے رکھا۔دو لاکھ کے لگ بھگ کرد عوام کو صدام حسین کے دور میں ہلاک کیا گیا۔ امریکی امداد اور اشاروں پر کام کرتے کرتے صدام حسین اُس وقت امریکی جال میں پھنس گئے جب انہوں نے درپردہ امریکی شہ پر کویت پر قبضہ کر لیا۔۱۹۹۱ء سے لے کر اب تک پھرصدام حسین کا قافیہ تنگ سے تنگ ترہوتاگیا اور عراق کے عوام کے دکھ بڑھتے چلے گئے۔صدام حسین امریکی اشاروں پر جو مظالم روا رکھے ہوئے تھے،آخر کار خود بھی امریکی اشارے پر دوسروں کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنے۔اس پر شیعہ آبادی نے جس طرح خوشی کا اظہار کیا اور خود مغربی میڈیا نے جس طرح اس کی تشہیر کی،اس سے لگتا ہے کہ امریکہ اسی برس ایران پر حملہ کرنے یا اسرائیل سے حملہ کرانے کا تہیہ کئے بیٹھا ہے۔فی الوقت جس طرح شیعہ ،سنی منافرت میں اضافہ ہوا ہے،اس سے لگتا ہے کہ پہلے اس منافرت کو مزید ہوا دی جائے گی اور پھر ایران پر حملہ ہو گاتاکہ پھر سنی اس حملہ پر خوشی کا اظہار کر سکیں۔اس وقت ایرانی حکومت اور اسرائیلی حکومت کی طرف سے صدام کی پھانسی پر ایک جیسا ردِ عمل ظاہر کیا گیا ہے۔اگر یہی صورتحال قائم رہی تو کوئی بعید نہیں کہ ایران پر حملہ کے وقت اسرائیل اور عرب ممالک کا ردِ عمل ایک جیسا ہو۔دیکھیں ابھی اگلے تین چار ماہ میں کیا پیش رفت ہوتی ہے۔
مسلمانوں کے نفاق اور انتشار کے نتیجہ میں ہی مسلمانوں کو عالمی سطح پر یہ مار پڑ رہی ہے۔چاہئے تو یہ تھا کہ ہر طرح کے باہمی اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن نفاق اور انتشارکا حال یہ ہے کہ پاکستان کے صوبہ سرحد میں جہاں مولویوں کی حکومت ہے ،وہاں تین عید الاضحی منائی گئیں۔ہفتہ کے روز سعودی عرب کے حساب کے مطابق افغان مہاجرین اور ان کے پاکستانی ملازمین نے عید منائی۔اتوار کے دن صوبائی حکومت نے عید منائی جبکہ سوموار یکم جنوری کو وفاقی حکومت کی طرف سے عید منائی گئی۔یہ مولویوں کی حکومت والے صوبہ کا حال ہے۔اس صورتحال پر اب کیا تبصرہ کیا جائے،سوائے اس کے کہ شرم سے سر جھکا لیا جائے۔
پاکستان میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ،ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل ایک زمانہ میں خفیہ ایجنسیوں کو سیاست میں گھسیٹ لائے تھے۔تب سے ہماری ایجنسیوں کو سیاست کا چسکا لگا ہوا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جو عالمی سازش رچی گئی تھی اور جس کے نتیجہ میں انہیں عدالتی قتل کے ذریعے تیسری دنیا کے حکمرانوں کے لئے عبرت کا نشان بنادیا گیا۔بھٹو کے خلاف آئی ایس آئی نے ہی اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کرائی تھی اور یوں آئی ایس آئی کو اپنے اصل فریضہ سے ہٹا کر ،سیاست میں نیا گل کھلا کر عالمی سیاست کے کھلاڑیوں کے مقاصد کی تکمیل کی گئی۔ اسی آئی ایس آئی کرداروالے ایک جرنیل حمید گل اب ملک میں جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں انہوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں اعتراف کیا کہ ہم لوگ ہر بار امریکہ کے ہاتھوں ٹریپ ہوتے رہے ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے جرنیل اپنی سادگی اور معصومیت میں ٹریپ ہوتے رہے ہیں،بلکہ خوشی اور شوق کے ساتھ ٹریپ ہوتے رہے ہیں۔اگر جنرل حمید گل کی ندامت سچی ہے تو انہیں چاہئے کہ پاکستانی تاریخ کے اوراق کھنگالیں اور دیکھیں کہ اتحاد و اتفاق ملی کے خلاف اصل سازشیں کہاں سے شروع کی گئیں؟قوم کا پاؤں اس ٹریپ میں ابھی تک پھنسا ہوا ہے۔ جب تک اپنی اُس بنیادی غلطی کو مانا نہیں جائے گا اور اس کی تلافی نہیں کی جائے گی،تب تک پوری قوم دکھ اور تکلیف میں مبتلا رہے گی۔
نوئیڈا سے خبر آئی ہے کہ وہاں مہندر سنگھ اور اس کے ایک ملازم سریندر سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔یہ دونوں مل کر کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے تھے اور پھر انہیں قتل کر دیتے تھے۔اب تک ۷۱بچوں کی لاشیں یا ان کی باقیات مل چکی ہیں۔پورے علاقہ کے عوام میں غم و غصہ کی شدید لہر دوڑ گئی ہے۔یوپی سرکار نے ہر بچے کے گھر والوں کو دو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔یہ خبر اتنی تکلیف دہ ہے کہ میرے لئے اس پر کسی تاثر کا اظہار کرنا مشکل ہو رہا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کے حال پر رحم کرے۔
اُدھر مدھیہ پردیش کے ضلع اشوک نگرکے ڈونگر پچھاڑ سے ایک انوکھی خبر آئی ہے۔وہاں پرشوتم نامی ایک شخص اپنی بیوی شیلا بائی کے ساتھ رہ رہا تھا۔اچانک لاپتہ ہو گیا۔اس کے مفقود الخبر ہونے کے بعد شیلا بائی نے عجب سنگھ سے شادی کر لی۔اب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان قیدیوں کے تبادلوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو پتہ چلا پرشوتم بھی وہاں قید تھا اور اب ہندوستان بھیج دیا گیا ہے۔شیلا بائی کے موجودہ شوہر نے عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر شیلا بائی اپنے پہلے خاوند کے ساتھ رہنا چاہے تو وہ رستے سے ہٹ جائے گا۔اگر پرشوتم اسے قبول نہیں کرتا تو اسے شیلا قبول رہے گی۔ اگلے تین چار روز تک اس معاملہ میں کوئی سماجی فیصلہ ہوجانے کی توقع ہے۔بعض اخبارات کو اس خبر سے ایک مسلمان عورت گڑیا کا کیس یاد آیا ہے،ان کا شوہرعارف پاکستان کی قید میں چلا گیا تھا جبکہ ہندوستانی حکومت نے اسے بھگوڑا سمجھ لیا تھا۔تب گڑیا نے توفیق کے ساتھ دوسری شادی کرلی ۔ ایک عرصہ کے بعداس کا پہلا شوہر لوٹ آیا۔ سو یوں ایک مسلم ہندوستانی خاتون کے بعد ایک ہندو خاتون بھی ویسے ہی المیہ سے گزر رہی ہیں۔
مجھے اس خبر سے فلم”پیار کوئی کھیل نہیں“یاد آگئی۔مہیما چوہدری نے اس میں گڑیا اور شیلا دونوں کے جذبات کی ترجمانی کر دی تھی۔پہلے شوہر کی واپسی پر مہیما نے جو شاندار اداکاری کی ہے وہ ایسی ساری گڑیاؤں اور شیلاؤں کے اندر کی اذیت کی داستان بیان کرتی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے قیدیوں کے تبادلوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو ایک دکھ کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔پاکستان سے ہندوستان کی طرف جتنے قیدی بھی گئے ہیں سب کی ظاہری حالت مناسب تھی،لیکن ہندوستان سے جو قیدی پاکستان کو واپس کئے گئے ہیں،ان میں سے بیس پچیس کے قریب قیدی ایسے تھے جو ٹی وی پر دیکھنے سے بھی صاف دکھائی رہے تھے کہ انہیں تشدد کرکے ذہنی معذوربنا دیا گیا ہے۔یہ بڑا دردناک منظر تھا۔کیا ہندوستان کے آزاد صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان لوگوں کے بارے میں کچھ کیا ہے جنہیں زندہ درگور کر دیا گیا ہے؟
پینگوئن والوں نے ہندوستانی صحافی افتخار گیلانی پر قید میں ہونے والے وحشیانہ تشدد کی جو داستان شائع کی ہے،پاکستانی قیدی اس سے بھی زیادہ تشدد کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔افتخار گیلانی رہا ہو کر آئے تو پھر سے اپنی صحافیانہ سرگرمیوں میں فعال ہیں۔ان کے بر عکس پاکستانی قیدیوںکو ذہنی معذور بنا دیا گیا ہے۔یہ سیاسی سے زیادہ انسانی مسئلہ ہے اور ہندوستان کے صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس پر موثر احتجاج کرنا چاہئے۔