منظر اور پس منظرکے کالم ۱۵اپریل۲۰۰۲ء سے لے کر۱۸نومبر۲۰۰۳ء کے عرصہ میں شائع ہوئے تھے۔اور کتابی صورت میں ان کی اشاعت ۲۰۰۴ءمیں ہو گئی تھی۔خبر نامہ کے کالم۲۱اپریل ۲۰۰۳ءسے لے کر۲۵دسمبر ۲۰۰۳ءتک کے عرصہ میں شائع ہوئے اور سال ۲۰۰۶ء میں کالموں کے مجموعہ کی کتابی صورت میں اشاعت ہوئی۔اس کے بعد میں کالم نگاری ترک کر چکا تھا اور میری توجہ صرف ادب تک تھی۔لیکن اسی دوران میرے عزیز دوست خورشید اقبال صاحب کا اصرار آڑے آیا ۔ مجھے ان کی ویب سائٹ www.urdudost.comکے لیے اِدھراُدھر سے کے نام سے کالم کا نیا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔
اس کالم کا آغاز کرتے وقت میرے ذہن میں یہی تھا کہ دلچسپ نوعیت کی خبروں کو اِدھر اُدھر سے جمع کرکے ایک ہلکا پھلکا سا کالم لکھا کروں گا،جیسا کہ آپ کو میرے شروع کے کالموں میں دکھائی دے گا۔لیکن جنرل پرویز مشرف کے ۹مارچ ۲۰۰۷ء کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف اٹھائے گئے اقدام نے بتدریج ایسی صورت اختیار کر لی کہ باقی ساری خبریں پسِ پشت جانے لگیں اورملکی سیاست ، وکلاءاور عدلیہ کی جدو جہدکی خبریں کالم کوبہت زیادہ سنجیدہ بناتی گئیں۔ ۱۲مئی ۲۰۰۷ء کو کراچی میں ہونے والے سانحہ نے اور پھر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے انتہا پسندوں کے خلاف حکومتی کاروائی نے ساری توجہ پاکستان کے حالات پر مرکوز کرا دی۔
ان واقعات کی وجہ سے میرے ان بیس کالموں میں سے لگ بھگ آدھے کالم ایسے ہیں جو اس ہلکے پھلکے انداز میں ہیں جیسے میں لکھنا چاہتا تھا۔ بعد میں حالات کی فکرمند کرنے والی صورت نے گہری سنجیدگی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا اور یوں آدھے کالم تجزیاتی نوعیت کے ہو گئے۔بہر حال جو کچھ لکھا گیا ، جیسا لکھا گیا اب کتابی صورت میں پیش کر رہا ہوں۔
میں نے اس کتاب کی فہرست میں ہر کالم کی تاریخ اشاعت درج کی ہے جبکہ ہر کالم کے آخر میں اس کالم کے لکھے جانے کی تاریخ درج کی ہے۔قارئین اس فرق کو مدِ نظر رکھیں۔بعض کالموں کی حساس نوعیت کے باعث مجھے ان کی فوری اشاعت پر زور دینا پڑا۔خورشید اقبال صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایسے حالات میں عام طور پر تعاون کرنے میں کافی تیزی کا مظاہرہ کیا اور جس دن کالم لکھا گیا اسی دن،یاایک دو دن کے فرق سے کالم کو آن لائن بھی کر دیا۔
باقاعدہ صحافی نہ ہوتے ہوئے بھی میرے کالموں کا تیسرا مجموعہ چھپنے جا رہا ہے تو میں اپنے صحافی ہونے سے انکار کرنے کے باوجودادیب کے ساتھ صحافی بھی ہو ہی گیا ہوں۔ اگرچہ پاکستان کا ہر عام شہری اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کے لحاظ سے میرے جتنا صحافی ہو چکا ہے،تاہم اب مجبوراً اپنے صحافی ہونے کا اقرار کرنا پڑ رہا ہے تو یہ واضح کر دوں کہ اس میں مجھ سے زیادہ قصور اردوستان کے کاشف الہدیٰ صاحب کا ہے جنہوں نے میرے پہلے کالموں کے دو مجموعے مکمل کرائے ۔اور اب برادرم خورشید اقبال کا قصورہے جنہوں نے اردو دوست ڈاٹ کام کے لیے مجھ سے یہ کالم لکھوائے۔
ان دونوں دوستوں کا شکر یہ ادا کرنا واجب ہے۔
شکریہ کاشف الہدیٰ صاحب!
شکریہ خورشید اقبال بھائی!
حیدر قریشی
E-Mail: [email protected]