جب میں مغربی دنیا کے بارے میں کچھ کہتا ہوں تو میرے پیشِ نظر سب سے پہلے جرمنی ہوتا ہے۔تاہم اسی کے تناظر میں بڑی حد تک باقی یورپی ممالک اور امریکہ و کینیڈاکے ماحول کو بھی شامل رکھنا چاہیے۔یہاں فراہمی آب اور نکاسیٔ آب کی سہولت ،سردیوں میں گھروں کو گرم رکھنے کے لیے ہیٹنگ سسٹم کی سہولت،بجلی کی سہولت کسی بڑے سے بڑے شہر سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں تک فراہم کی گئی ہے۔سڑکوں کا جال بھی اسی طرح پھیلا ہوا ہے اور دور دراز کے دیہات والے بھی سڑک کے ذریعے آسانی سے کہیں بھی آجا سکتے ہیں۔یہ سہولیات فراہم کرتے ہوئے نہ تو کسی چھوٹے یا بڑے شہر کا امتیاز برتا گیا ہے،نہ کسی قصبہ یا دیہات میں تفریق کی گئی ہے۔جبکہ ہمارے ہاں تو ایک شہر ہی میں پوش علاقوں اور غریب عوامی علاقوں میں ایسی سہولیات کے سلسلہ میں جو واضح فرق موجود ہے،اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی دکھ ہوتا ہے۔ویسے کوئی بات ہو ہم فوراََ اسلامی حوالہ جات پیش کرکے اپنی عظمت کا پرچم بلند کر لیتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے کی عملی صورتحال کتنی مختلف ہے،غریب اور دکھی عوام سے زیادہ اسے کون جانتا ہے۔
اسلام کے اقتصادی نظام کی تشریح و تفسیر کے حوالے سے میں حضرت علیؓ اور حضرت ابوذرؓ غفاری کے فرمودات کو زیادہ اہم سمجھتا ہوں۔تاہم حضرت عمرؓ کے اس فرمان میں بھی سرکاری ذمہ داری کا اسلامی تصور واضح طور پر موجود ہے جس میں دریائے فرات کے کنارے بھوکے یا پیاسے مرجانے والے کتے کی موت کی ذمہ داری بھی انہوں نے اپنے ذمہ لی تھی۔لیکن افسوس ہے کہ اس معاملہ میں سارے مسلمان ممالک واضح فلاحی قوانین سے عاری ہیں۔اس کے بر عکس مغربی دنیا میں فلاحی قوانین کے تحت ہر بے روزگار کو معین مالی امداد دی جاتی ہے۔اگر کسی کی تنخواہ وہاں کے کم از کم مالی معیار سے تھوڑی ہے تو حکومت اسے بقیہ رقم کے طور پر مزید امداد فراہم کرتی ہے۔اس کے لیے کاغذات کی مکمل جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور اس کے مطابق اسے نہ صرف مزید رقم دی جاتی ہے بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس فراہمی میں غیر ضروری تاخیر نہ ہو۔بات صرف مالی امداد تک محدود نہیں بلکہ جس کے پاس گھر نہیں ہے اسے گھر کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔وہ جتنا کرایہ اداکرنے کی سکت رکھتا ہے،اس سے لیا جاتا ہے،باقی کرایا سرکاری طور پر ادا کیا جاتا ہے۔کرایا ادا کرنے کی بالکل سکت نہ رکھتا ہو تو سارا کرایہ حکومت ادا کرتی ہے۔
اگر کوئی خود کفیل ہے تو ملکی قوانین کے مطابق انہیں طبی سہولیات میسر رہتی ہیں۔اگر کوئی خود کفیل نہیں ہے اور حکومت سے اسے امداد ملتی ہے تو اس کی ساری طبی سہولیات فری ہو تی ہیں۔طبی سہولیات میں ڈاکٹرز کے علاج سے لے کرتمام دواؤں کی فراہمی تک سب کچھ فری ہوتا ہے ،چاہے وہ دوائیں کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ہوں۔ رعائت ملتی ہے تو غریب افراد کو،جبکہ خود کفیل افراد کو بہر حال اپنا خرچہ خود اٹھانا ہوتا ہے۔کسی حادثہ کی صورت میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ حادثہ کا شکار ہونے والا کون ہے،بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب پہلے حادثہ کے شکار کی جان بچانے کی کوشش کی جاتی ہے،اس کے لیے حادثہ کی نوعیت کے مطابق ایمبولینس سے لے کر ہیلی کاپٹر تک کی سہولت ہمہ وقت دستیاب رہتی ہے۔ہسپتالوں میں صفائی کا اعلیٰ ترین معیار دیکھنے کو ملتا ہے تو علاج معالجہ میں ہسپتال کا عملہ سچ مچ مسیحا جیسے کردار کا حامل ہوتا ہے۔شخصی سطح پر بعض منفی استثنائی مثالیں بھی مل جاتی ہیں لیکن شرح کے اعتبار سے انہیں بمشکل پانچ فی صد کہا جا سکتا ہے۔اس کے بر عکس ہمارے ہاں تمام بہتر طبی سہولیات اشرافیہ طبقہ کے لیے مخصوص ہیں۔غریب اپنی جیب سے دوا خریدے تو دوا بھی جعلی ملتی ہے۔
یہاں کا ٹیکس کا نظام بہت عمدہ ہے۔کوئی پارٹ ٹائم جاب کرتا ہے تو اس کی آمدنی کے حساب سے اس کا ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔رقم کم پڑتی ہے تو فلاحی قوانین کے تحت سوشل ہیلپ کر دی جاتی ہے لیکن ٹیکس میں چھوٹ نہیں دی جاتی۔گویا کمانے والے ہر بندے کو ٹیکس دینا ہوتا ہے۔اس کے بر عکس ہمارے ہاں ٹیکس چوری کو سٹیٹس سمبل سمجھ لیا گیا ہے۔بڑے بڑے سیاستدان جو کرپشن کے خلاف بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں ،ان کی انڈسٹریز اور جائیدادوں کو سامنے لایا جائے اور پھر ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کا ریکارڈ سامنے لایا جائے تو اندازہ ہو گا کہ ہمارے ہاں”کمیشن کرپشن “نے اتنی لوٹ نہیں مچائی جتنی قرض لے کر معاف کرالینے والے مافیا اور ٹیکس چوری کلچر نے پہنچائی ہے۔
اپنے ہاںامیر اور غریب کی تفریق گوارا کی جا سکتی ہے لیکن جہاں غریب کو غربت کے ہاتھوں بھوکا مرنا پڑے،سردی میں ٹھٹھر کر مرنا پڑے،گرمی میں فٹ پاتھ پر سوئے ہوؤں پر گاڑیاں چڑھ جائیں۔ جہاں سڑکیں کسی بڑے کے گاؤں تک جا کر رک جائیں، جہاں بڑوں کے گھروں تک موٹر وے کے اربوں روپے جھونک دئیے جائیں،جہاں بجلی،پانی کی فراہمی اور نکاس کی سہولتیں صرف امیر علاقوں کے لیے مخصوص ہوں اور باقی لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہوں اور جن کے گلی کوچوں میں نالیاں اور گٹر ُابل رہے ہوں،وہاںجس قسم کی نعرہ بازی کو رواج دے لیا جائے تمام نعروں کا مقصد صرف یہی ہے کہ غریب کو اس کے حقوق نہ ملنے دئیے جائیں۔ہمارے رہنما یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارے خلاف امریکہ اور اس کے حلیف سازشیں کر رہے ہیں لیکن کوئی ہے جو یہ بتائے کہ پاکستان کے غریب اور غریب ترین عوام کو بنیادی انسانی ضروریات اور سہولیات سے محروم رکھنے میں ان مغربی ممالک کی کتنی سازش شامل ہے اور ان رہنماؤں کی کتنی سازش شامل ہے۔کیا ہمارے ہر قسم کے قومی رہنمااس حوالے سے اپنے گریبانوں میں جھانکنا گوارا کریں گے؟
روزنامہ مقدمہ کراچی مورخہ ۔۔۱۴جنوری ۲۰۱۰ء
روزنامہ ہمارا مقصد دہلی مورخہ ۱۴جنوری ۰۱۰۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔