ہوا
یہ شُو کتی۔ پھنکارتی ناگن ہوا
برہم ہوئی
بل کھا کے جب پلٹی
تو آنچل سر سے ڈھلکا
زہر اس کا
کانچ کی ان چوڑیوں تک بھی
اتر آیا، جو پہنی ہی نہ تھیں
برہم ہوا ڈائن بنی
جب خواب جو دیکھے تھے
جن کا دیکھنا باقی تھا
سارے ٹوٹ کر بکھرے
سرابوں میں بھٹک کر رہ گئے
ڈائن ہوا تب اک بگولہ
بن کے سب کچھ لے گئی
ظالم ہوا ناگن بھی ہے
ڈائن بھی ہے
جو شُو کتے پھنکارتے
اندھے بگولوں سے
ہمارے یوسفوں کی زندگی کی
روشنی کو چاٹتی جائے
مگر ٹھہرو!
ذرا تم دل کے دریا میں
اُتر کر اپنی نَم آنکھوں سے
تھوڑا مسکراؤ اور پھر دیکھو
ہمارے رُوٹھنے والے
بھلا کب ہم سے بچھڑے ہیں
بچھڑتے ہی نہیں، اپنے جو ہیں
وہ تو فقط باہر کی دنیا سے
سفر کر کے
ہمارے دل کے بہتے پانیوں
میں آن بستے ہیں
بتائے ہی بِنا
جب ان کا جی چاہے
ہماری بے کلی کے منظروں کو
خود ہماری آنکھ کے اندر سے
تکتے ہیں
رُلاتے ہیں ہمیں اور آپ ہنستے ہیں
یا شاید خود بھی روتے ہیں!
ذرا پھر دل کے دریا میں اُتر کر
اپنی نَم آنکھوں سے تھوڑا مسکراؤ
اور پھر سوچو!
زمیں، پانی، فضاؤں تک
جہاں بھی زندگی ہے
اس ہوا کی حکمرانی ہے
ہوا نہ ہو اگر تو زندگی معدوم ہو جائے
نہ پھر یہ دل کے دریا ہوں کہ جن میں
روٹھنے والے
مسافت کو ادھورا چھوڑ کر
خود آن بستے ہیں
جہاں ان کی حَسیں یادوں کے سب منظر مہکتے ہیں
ہوا ناگن سہی، ڈائن سہی، لیکن
ہوا تو زندگی بھی ہے!