مغربی بنگال میں اردو ماہیے کو حالیہ دنوں میں جو مقبولیت اور پذیرائی ملی ہے میرے لئے حیران کن ہے۔ شمیم انجم وارثی وہاں سے 34 ماہیا نگاروں کا ایک خوبصورت انتخاب شائع کر چکے ہیں۔ فراغ روہوی کی جانب سے کلکتہ میں ایک کامیاب ماہیا مشاعرہ ہو چکا ہے اور اب فراغ روہوی کے ماہیوں کا مجموعہ ”چھیّاں چھیّاں“ شائع ہو رہا ہے۔ مختلف ادبی رسائل میں فراغ روہوی کے ماہیے پڑھ کر میں خوش ہوتا رہا ہوں اب ان کے ڈھیر سارے ماہیے ایک ساتھ پڑھنے کو ملے ہیں تو میں جیسے خوشی سے لبالب بھر گیا ہوں۔
بعض ادیبوں نے محض اپنی بعض شخصی ترجیحات کے باعث غیر پنجابی۔۔۔ اردو ماہیا نگاروں کے بارے میں ایسے رویے کا اظہار کیا تھا جس سے صرف ان کا زعم ہمہ دانی ظاہر ہوتا تھا۔ اس زعم کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ معترضین گنتی کے چند اچھے ماہیے لکھنے کے بعد اپنے زعم کا خود ہی شکار ہو گئے۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ بہار اور پونہ کے بعد اب مغربی بنگال بھی اردو ماہیے کا مرکز بن گیا ہے اور اس مرکز کی مرکزی شخصیات میں ایک بے حد اہم نام فراغ روہوی کا ہے۔
”چھیّاں چھیّاں“ کے آغاز میں پہلے حمدیہ پھر نعتیہ اور پھر تھوڑے سے کربلائی ماہیے پیش کئے گئے ہیں۔ ان ماہیوں سے محبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔
تعریف الٰہی میں
وقت مرا گزرے
توصیفِ الٰہی میں
پھٹ جائے نہ سینہ چل
دل کی دوا لینے
چل کوئے مدینہ چل
٭
٭
کس حال میں لشکر تھا
دھوپ کی چادر تھی
اور ریت کا بستر تھا
کربل کی کمائی تھی
پیاس شہیدوں کی
کوثر نے بجھائی تھی
اب فراغ روہوی کے چند ایسے ماہیے دیکھیں جنہیں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ماہیا نگاروں کے سامنے اعتماد کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے:
کیا مجھ کو دوا دو گے
زخم مرے چھُو کر
پھر درد بڑھا دو گے
اب انگلی ہے اٹھنے کو
نام کوئی دے دو
بے نام سے رشتے کو
٭
٭
ہر حد سے گزرتے ہیں
پیار کے پنچھی کب
پرواز سے ڈرتے ہیں
رُکنا یا ٹھہرنا کیا
عشق کی راہوں میں
انجام سے ڈرنا کیا
٭
٭
کس بات کی الجھن ہے
ٹوٹ نہیں سکتا
یہ پیار کا بندھن ہے
کچھ پاسِ وفا رکھنا
کون مٹاتم پر
یہ یاد ذرا رکھنا
٭
٭
کیا آنکھ لڑا بیٹھی
اپنے ہی دل کو وہ
ایک روگ لگا بیٹھی
ہم جان گئے تجھ کو
دیر لگی، لیکن
پہچان گئے تجھ کو
پنجابی ماہیے کا سیاسی اور اخلاقی رنگ ۔۔۔ مغربی بنگال کے اردو ماہیے میں اپنے ماحول سے اُگتا ہوا یوں فراغ روہوی کے ہاں اظہار پاتا ہے:
ہم جنگ کے دشمن ہیں
رُوپ جو کجلادے
اس رنگ کے دشمن ہیں
وہ کالا دسمبر تھا
رام کے بھگتوں سے
ماحول مکدر تھا
(سانحہ بابری مسجد کی شہادت کی طرف اشارہ ہے)
٭
٭
اب ایسی فضا کیوں ہے
سرد رُتوں میں بھی
یہ گرم ہوا کیوں ہے
منہ اپنا نہ کالا کر
اپنے بزرگوں کی
پگڑی نہ اُچھالا کر
فراغ روہوی نے ”بچوں کے ماہیے“ بھی کہے ہیں۔ یہ تجربہ پنجابی ماہیا میں بھی نہیں ملتا اور اردو میں اس کی ابتدا فراغ روہوی کے ذریعے ہوئی ہے۔ فراغ روہوی کے اس نوعیت کے یہ چند ماہیے اس رجحان کو آگے بڑھانے میں اہم کردارا دا کر رہے ہیں:
سُن میری دُعا یا رب
باغ میں ٹافی کا
اک پیڑ اُگا یا رب
کیوں اتنا ستاتے ہیں
خواب میں بھی ہم کو
اُستاد ڈراتے ہیں
٭
٭
یہ کیسی کہانی ہے
دور تلک جس میں
راجہ ہے نہ رانی ہے
لوگو! یہ کرم کر دو
بوجھ کتابوں کا
ہم بچوں پہ کم کر دو
٭
٭
میرے نزدیک فراغ روہوی کا یہ تجربہ خوبصورت بھی ہے اور کامیاب بھی۔۔۔۔ آخر میں ”چھیِّاں چھیّاں“ سے چند ایسے ماہیے دکھیں جو ایک طرف ماہیا نگاری میں ان کی انفرادیت کا موجب بن سکتے ہیں تو دوسری طرف ان کے آئندہ امکانات کی طرف۔۔۔ خوبصورت ممکنات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:
تھے کیسے دوانے ہم
آگ کو دامن سے
نکلے تھے بجھانے ہم
وہ خاک سمندر ہے
تہہ میں اگر اُس کے
موتی ہے نہ گوہر ہے
٭
٭
اک اچھا سا گھر دیدے
چاند سی بیٹی ہے
مولا اسے بر دیدے
دفتر نہ بنا گھر کو
پھینک بہی کھاتے
چاہت سے سجا گھر کو
٭
٭
اب وقت پہ سوئیں گے
جاگتی آنکھوں میں
سپنے نہ سنجوئیں گے
گم صم نہ رہا کرنا
یاد کے ساحل پر
لہروں کو گنا کرنا
٭
٭
یوں ختم سفر کر دو
چھوڑ گیا مانجھی
موجوں کو خبر کر دو
تکیہ نہ بچھونا تھا
خواب میں بھی مجھ کو
چٹّان پہ سونا تھا
فراغ روہوی کے ماہیوں کا مجموعہ ”چھیّاں چھیّاں،، اردو ماہیے میں ایک اضافہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس مجموعے کے مطالعہ کے بعد مغربی بنگال میں خصوصی طور پر اور پوری اردو دنیا میں عمومی طور پر نئے شعراءبھی ماہیے کہنے کی طرف مائل ہوں گے اور اردو ماہیا ایک شعری صنف کے طور پر مسلسل مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔
(فراغ روہوی کے ماہیوں کے مجموعہ ”چھیاں چھیاں“میں شامل)