اُردو ماہیے کو حالیہ برسوں میں جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ شعرائے کرام کے کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے۔ پنجاب کی مٹی سے جڑے ہوئے شعراءنے بھی اسے اپنایا ہے تو مہاراشٹر، بہار، راجستھان اور یو پی کے علاقوں میں بھی اسے پذیرائی ملی ہے۔ نوجوان شعراءنے اس میں دلچسپی لی ہے تو بزرگ شعراءنے بھی ماہیے کو محبت کی نظر سے دیکھا ہے۔ بالکل نوآموز شاعروں نے ماہیے میں طبع آزمائی کی ہے تو کہنہ مشق شاعروں نے بھی ماہیے میں اپنی فنی مشاقی دکھائی ہے۔ یوں ماہیا نگاری میں رنگارنگی کی کیفیت دیکھی جا سکتی ہے۔ بعض ماہیوں کے رنگ شوخ اور تیکھے ہیں تو بعض پھیکے بھی ہیں۔ بعض ماہیے بہت عمدہ اور معیاری ہیں تو بعض بہت کمزور بھی ہیں۔ یوں شاعری کی کسی صنف کو دیکھ لیں اس میں معیاری مواد کے ساتھ ڈھیروں ڈھیر بھرتی کا مواد بھی ملے گا۔ اردو ماہیے میں فی الوقت جو لوگ کسی زاویے سے کمزور ماہیے کہہ رہے ہیں ان کی باقی شعری اصناف کے مقابلہ میں الگ سے ایک حیثیت بنتی ہے۔ جس طرح حضرت امیر خسرو سے لے کر ولی دکنی تک جن لوگوں نے درمیانی عرصہ میں غزلیں کہیں، بھلا وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ رہی ہوں اور غزل کی تاریخ میں ان سارے غزل گوﺅں کے نام محفوظ ہیں، اسی طرح آج ماہیے کے اس ابتدائی دور میں جب اسے باقاعدہ طور پر اردو میں ایک شعری صنف کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے جو ماہیانگار بھی ماہیے کہہ رہے ہیں، ان کی ماہیے کے لئے خدمات ماہیے کی تاریخ میں ہمیشہ محفوظ رہیں گی۔
محمد وسیم عالم کے ماہیے پڑھتے ہوئے دو تین باتوں کا مجھے فوری طور پر احساس ہوا ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کے ماہیے پنجابی کی اس روایت سے متاثر ہیں جو اردو میں امین خیال کے ماہیوں کی صورت میں نمایاں ہوئی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کے ماہیے کے موضوعات عمومی طور پر وہی ہیں جو پنجابی ماہیے کے ہیں۔ مثلاً حمد، نعت، طبقاتی اونچ نیچ، دنیاوالوں کی دنیاوی، سیاسی اور سماجی صورت حال۔۔۔۔ ان سارے موضوعات پر انہوں نے اپنے تاثرات کو سیدھے سادے الفاظ میں یوں سچائی کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ چند مثالیں دیکھ لیں:
چاہے تو عزت دے
رب کے ہاتھ میں ہے
چاہے تو ذلّت دے
اک نام محمد کا
سب سے اعلیٰ ہے
پیغام محمد کا
٭
٭
کیا کھیل لکیروں کا
کھال غریبوں کی
اور مال امیروں کا
ایوان سجاتے ہیں
سب ہی مطلب کے
قانون بناتے ہیں
٭
٭
پولیس بھی ہوتی ہے
چوری کرنے کی
کچھ فیس بھی ہوتی ہے
ہر گھر کو جلا دے گی
نفرت کی یہ ہوا
شعلے بھڑکا دے گی
٭
٭
ہم سب ہیں تماشائی
ساتھ نہیں دیتا
مشکل میں سگا بھائی
کوے ہیں منڈیروں کے
کام کے لوگ سبھی
ڈیروں پہ وڈیروں کے
انہی موضوعات کو جب محمد وسیم عالم تھوڑے سے رمز یہ انداز میں بیان کرتے ہیں تو ان کے ماہیے اپنی سادگی کے ساتھ معنی میں وسعت پیدا کر دیتے ہیں پھر وہ متعلقہ موضوع سے منسلک ہو کر ایک نئے معنی کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ احساس ان کے ایسے ماہیوں کو ادبی شان عطا کرتا ہے ۔ ایسے ماہیوں کی چند مثالیں بھی دیکھ لیں۔
ہاتھوں سے جو دی تھیں
وہ گرہیں اس نے
دانتوں سے کھولی تھیں
بجلی کے تاروں سے
بچ کے رہنا اب
مطلب کے یاروں سے
٭
٭
ہر شاخ ہری دیکھی
ہم نے خوابوں میں
اک دنیا بھلی دیکھی
تیور تیرے دیکھے
یا چاروں موسم
پل پل بدلے دیکھے
٭
٭
لاشے تو گرنے تھے
تتلی کے دشمن
جب باغ میں پھرنے تھے
اک سُونی بیٹھک ہیں
تیری سب باتیں
کہنے کی حد تک ہیں
محمد وسیم عالم کے ماہیوں میںتیسری بات مجھے یہ محسوس ہوئی ہے کہ انہوں نے پیار، محبت کے موضوع سے متعلقہ موضوعات کو اگرچہ روایتی انداز میں بیان کیا ہے لیکن ان ماہیوں سے غیر ارادی طور پر محبت کی ایک کہانی بنتی چلی گئی ہے۔ محبوب کے حسن کی تعریف، اس کے بغیر زندہ نہ رہ جانے کا جذبہ ، محبوب کی جدائی۔۔۔ اور اس جدائی کا دکھ، کبھی یادوں کے سہارے جینے کا حوصلہ کرنا اور کبھی جیتے جی مر جانے کی کیفیت محسوس کرنا ۔۔۔۔۔ یہ سارے محسوسات وسیم عالم کے ماہیوں میں ایک مربوط کہانی سناتے ہیں ۔ چند ماہیوں سے ان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
سوہنا سا رنگ دیکھا
میں نے ساجن کا
اک اور ہی ڈھنگ دیکھا
تو ٹال مٹول نہ کر
پیار کے مسئلے کو
بس یونہی گول نہ کر
٭
٭
یہ راز نہ کھولوں گا
ترے ستم کو بھی
میں راز ہی بولوں گا
یوں غم کا مداوا کر
کالی راتوں کو
یادوں سے اجالا کر
٭
٭
ہر بات ہی مانوں گا
دن کو رات کہے
تو، رات ہی جانوں گا
جینے کب دیتے ہیں
مرنے کی بھی دوا
پینے کب دیتے ہیں
٭
٭
دل کو ناشاد نہ کر
وہ گر بھول گیا
اب اس کو یاد نہ کر
کتنے پاپڑ بیلے
تیرے لئے ہم نے
کیا کیا نہ ستم جھیلے
محمد وسیم عالم نے اپنے ماہیوں میں کہیں کہیں اردو الفاظ کو پنجابی لہجے میں برتا ہے۔ نہ کو ناں تو پنجابی کی طرح اردو ماہیے میں بھی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض ساکن حروف کو متحرک بھی کر دیا جاتا ہے اور ع گرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ع تو خیر اردو میں بھی بعض اساتذہ نے گرائی ہے البتہ باقی الفاظ کے برتاﺅ کے سلسلے میں کیا کہاں تک روا ہے؟ اس کے لئے ہمیں وقت کے فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا۔ فی الوقت یہی بڑی بات ہے کہ ماہیے کے ذریعے الفاظ کے نئے برتاﺅ کے تجربے ہو رہے ہیں۔ محمد وسیم عالم نے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے ماہیوں کا یہ انداز ان کی ماہیا نگاری کے امکانات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
موجوں میں روانی ہے
عمر کا ہر پہلو
بہتا ہوا پانی ہے
اپنی ہی دنیا میں
روز وہ مرتا ہے
جینے کی تمنا میں
٭
٭
سنسار میں بستے ہیں
بے اعتبارے بھی
اب ہم پر ہنستے ہیں
کوٹھے پر انٹینا
تیرے بن ساجن
مشکل ہے اب جینا
مجھے امید ہے کہ محمد وسیم عالم کے ماہیوں کے اگلے مجموعہ میں ان کی ماہیانگاری کا یہ رنگ مزید گہرا ہو گا۔ ان کا زیر نظر مجموعہ اردو ماہیے کے قارئین میں محبت کے ساتھ پڑھا جائے گا اور اردو ماہیے کی تحریک کو تقویت پہنچائے گا۔
(محمد وسیم عالم کے ماہیوں کے مجموعہ ”سب رنگ الفت کے“میں شامل)