مظفر گڑھ کے باسی افضل چوہان سے حال ہی میں رابطہ ہوا اور ان کے ماہیے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ان کے کے ماہیے پڑھتے ہوئے مجھے سب سے پہلے اس بات نے چونکایا کہ ان میں مندرکے حوالے سے اور ہندوستانی فضا کے حوالے سے بہت سی باتیں کی گئی تھیں ۔مسجد اور مندر کے تعلق سے ہماری فارسی،اردو اور پنجابی کی شعری روایات میں پہلے سے بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔تاہم اردو ماہیا میں مندر کی فضا بہت کم آئی ہے۔پروین کمار اشک،کرشن کمار طور اور سنجئے گوڑ بولے کے ماہیوں میں ایسا تھوڑا بہت ذکر ملتا ہے،لیکن یہ بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔مذکورہ بالا ماہیا نگاروں کے ہاں اگرایسا ذکر کثرت سے بھی ملتا تو قابلِ فہم ہوتا۔افضل چوہان کے ہاں ایسا ذکر جاننے کے لیے پہلے چند ماہیے دیکھئے:
نہروں مےں نہاتے تھے بہتی ہوئی نیّا ہے بستی کے دامن میں
پاس کے مندر سے ڈانگ سے مت مارو بچپن گزرا ہے
پرشاد چراتے تھے پنڈت کی گیّا ہے مندر کے آنگن میں
مندر کے دیپ جلے بھگوان اکتارے میں مندر میں ہیں تالے
سورج ڈھلتے ہم ساز سا بجتا ہے کرنی بھگتوں کی
تری بستی چھوڑ چلے جمنا کے دھارے میں بھگوان ہی اب ٹالے
ان ماہیوں میں براہِ راست مندر اور اس کے دھارمک حوالہ جات ملتے ہیں،جبکہ کئی ماہیوں میں براہِ راست حوالہ نہ ہونے کے باوجود اُس ماحول کے ثقافتی اثرات کی خوشبو نمایاں ہے۔
خوشبو لی مَٹی سے ترے ہاتھ میں چھتری ہے پنڈت کا چھورا ہے
جھونگا لیتے تھے گھورتا رہتا ہے نین شرابی ہیں
آنند کی ہٹی سے گاؤں کا جو کھتری ہے ظالم بڑا گورا ہے
جے پور مجھے جانا ہے جمنا کا کنارا ہے ہم لوگ بریلی میں
دیکھنا ہے تجھ کو لوگ بھی پیارے ہیں چھوڑ آئے سب کچھ
اسکول بہانہ ہے اور گاؤں بھی پیارا ہے دادا کی حویلی میں
افضل چوہان کے ماہیوں میں یہ ہندوستانی حوالے جیسے ایک طرف قدیم ہندوستانی کلچر سے ان کی وابستگی کا مظہر ہیں تو دوسری طرف خود ان کے اندر ان کے آباؤاجداد کے ننھیالی اور ددھیالی عادات و اعمال کی جھلک کا احساس دلاتے ہیں۔یوں افضل چوہان نے ایک جنم میں جیسے کئی جنم جی لیے ہیں۔ جس طرح جدید نظم میں میرا جی کے ہاں قدیم ہندوستان کی روح ملتی ہے، اس سطح پر تو نہیں لیکن اسی انداز میں افضل چوہان کے ایسے ماہیوں میں بھی قدیم ہندوستان کی روح کا احساس ہوتا ہے۔یوں اردو ماہیے میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا تجربہ ہے۔
ماضی کی کسی گونج سے قطع نظر پاکستان کے مقامی رنگ اور لہجے کو بھی افضل چوہان کے ہاں اتنی ہی وابستگی کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ان کے ماہیوں میں نہ صرف اپنے شہروں کا ذکر ملتا ہے بلکہ پنجابی زبان کے الفاظ بھی اردو میں بے ساختگی کے ساتھ استعمال کرنے کا رویہ ملتا ہے۔ ذیل کے ماہیوں میں سے پہلے ماہیے میں اپنے شہر مظفر گڑھ کے ساتھ جھنگ شہر کا ذکر کرکے ایک نئے قصہ ہیر رانجھا کا اشارا دیا گیا ہے،جبکہ دوسرے ماہیے میں ضرورت کے لیے ”لوڑ“اور بات چیت کے لیے”گل“کے پنجابی الفاظ کا استعمال بے ساختہ طور پر ہوا ہے۔
تتلی کے ہیں رنگ ماہیا ساڑھی ہے بنارس کی تجھ سے کوئی گل ہووے
ہم ہیں مظفر گڑھ ہمت تو ہے بہت اپنے جیون میں
تورہتا ہے جھنگ ماہیا بس لوڑ ہے ڈھارس کی ایسا بھی پل ہووے
افضل چوہان کے ماہیوں کا عمومی رنگ پنجابی روایت سے منسلک رہتے ہوئے ان کی مختلف النوع سماجی واردات اور قلبی کیفیات کو اجاگر کرتا ہے۔
موروں کے پر ماہیا بہتا ہے تو بہنے دے کچھ کرکے دکھا ماہیا
پیار کی دنیا ہے رنج کے دریا کو گم ہے جو مدت سے
دُنیا سے نہ ڈر ماہیا مت آنکھ میں رہنے دے جا ڈھونڈ کے لا ماہیا
قسمت بھی عجب پھوٹی میٹھے نہیں پھل سارے بارش جب ہوتی ہے
ٹوٹ گیا خود تو ہوتے نہیں جاناں لگتا ایسے ہے
پر آس نہیں ٹوٹی اک جیسے تھل سارے برہن کوئی روتی ہے
مایوس نہ ہو ماہیا پتھر کو لگی جونکیں دکھ ہے ترے جانے کا
آنکھیں نعمت ہیں توڑتی رہتی ہیں کوئی بہانہ ہو
اتنا بھی نہ رو ماہیا غیروں کی ہمیں ٹوکیں آنسو کے بہانے کا
بیلوں کی نئی جوڑی تتلی کو پکڑ لینا راوی کا ہے پُل ماہیا
ڈور تعلق کی خواب میں آئے تو لوگ لگاتے ہیں
ہم نے تو نہیں توڑی بانہوں میں جکڑ لینا مٹی کا بھی مُل ماہیا
مجھے امید ہے کہ افضل چوہان کی ماہیا نگاری اپنے سارے منفرد اور عمومی رنگوں کے ساتھ اردو ماہیے میں خوبصورت اضافہ کرے گی۔ان کی ماہیے میں دلچسپی اردو ماہیے کے لیے نیک فال ثابت ہو گی۔میں ان کے ماہیوں کے مجموعہ ”خاموش نہ ہو ماہیا“کی اشاعت پرانہیں مبارک باد پیش کرتا ہواں اور اس مجموعے کا دلی مسرت کے ساتھ استقبال کرتا ہوں!
(افضل چوہان کے ماہیوں کے مجموعہ”خاموش نہ ہو ماہیا“کا پیش لفظ)