اعزاز احمد آذر اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے معر وف اور ممتاز شعراءمیں شمار ہوتے ہیں۔ پنجابی لوک گیت ماہیا ان کے اندر رچا بسا ہوا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں پنجابی ماہیے کی لَے کی بنیاد پر اس کے خدوخال کو قائم رکھتے ہوئے اردو زبان میں ماہیے کوجو پذیرائی ملی ہے اعزاز احمد آذر اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے ہیںکیونکہ اردو اور ماہیا دونوں سے ہی ان کا گہرا رشتہ ہے۔ پھرخوشی کی کسی لہر میں وہ خود بھی اردو ماہیے کہنے لگے اور اب یہ خوش کن خبر ملی ہے کہ ان کے ماہیوں کا مجموعہ زیر اشاعت ہے۔
میرے سامنے اعزاز احمد آذر کامکمل مسودہ تونہیں ہے تاہم ان کے جو چند ماہیے مجھے ملے ہیں اور جو چند ماہیے پاکستان اور انڈیا کے بعض ادبی رسائل کے ذریعے میرے پاس موجود ہیں انہیں پیش نظر رکھ کر ہی میں ان کے ماہیوں کے بارے میں اپنے تاثرات لکھ رہا ہوں ۔ ان ماہیوں کی پہلی خوبی اور شناخت پنجابی مزاج کی آمیزش ہے ۔ یہاں میں نے پنجابی الفاظ کی جگہ پنجابی مزاج لکھا ہے۔ دراصل پنجابی الفاظ کا استعمال بعض اوقات غیر موزوں بھی ہو جاتا ہے جبکہ لفظ پنجابی کا آئے یا نہ آئے لیکن مزاج پنجابی آ جائے تو ایسے اردو ماہیوں میں انوکھی سی لذت پیدا ہو جاتی ہے۔
لگی بھیڑ ہے میلے میں
دفع کر بھابی کو
چلی آ تُو اکیلے میں
٭
آ پاس اے بے دردا
ہم ترے محرم ہیں
ہم سے تو نہ کر پردا
٭
سر زانو پہ دھرنے دے
دیکھ میرے بابو
مجھے چین سے مرنے دے
٭
اک کرم کما ماہی
میں مر جاﺅں گی
پردیس نہ جا ماہی
٭
سب ونجلی کا ہے میلہ
رانجھے سے پہلے بھی
موجود تو تھا بیلہ
کچھ تُو ہی بتا جوگی
شامِ جُدائی کی
کب صبح ملن ہو گی
یوں تو غزل اور نظم میں اعزاز احمد آذر کو اظہار کی یکساں قدرت حاصل ہے تاہم اُن کے اردو ماہیوں پر پنجابی اثرات کے بعد ان کی نظمیہ شاعری جیسا انداز مجھے محسوس ہوا ہے۔جن قارئین نے اعزاز احمد آذر کی نظموں کو توجہ سے پڑھ رکھا ہے وہ اس انداز کے ماہیوں کو پڑھتے ہوئے شاید مجھ سے اتفاق کریں۔
ہم آپ کے اپنے ہیں
دِل میں سنبھال رکھو
یہ کانچ کے سپنے ہیں
٭
رنگ شوق کی بھرتی ہے
رات کی تنہائی
ترے ساتھ گزرتی ہے
٭
دو پل کے لئے آ جا
پیاس کا صحرا ہوں
ساون کی طرح چھا جا
یہ خواب ہمارے ہیں
رات کے دامن میں
کچھ پھول ہیں تارے ہیں
ہلکے سے نظمیہ اثرات نے ایسے ماہیوں میں جیسے ادبی شان پیدا کر دی ہے۔ ماہیے کی لوک روایت میں جنگل کی خود روئیدگی جیسی خوبصورتی ہے بلکہ ادبی روایت میں گلستان جیسا حسن ہے۔ باغ کو مسلسل تراش خراش کے عمل سے گزار کر اپنا حسن برقرار رکھنا ہوتا ہے جبکہ جنگل کسی میک اپ کے بغیر اپنی خوبصورتی ظاہر کرتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اعزاز احمد آذر کے ماہیوں میں جنگل کی خوبصورتی بھی ہے کیونکہ ان کے بہت سارے ماہیوں میں ماہیے کا پنجابی مزاج موجود ہے اور جہاں اُن کی نظمیہ شاعری کے ہلکے سے اثرات کی آمیزش نے ان کے ماہیوں میں ادبی رنگ پیدا کر دیا ہے وہاں کسی باغ کے حسن کا احساس ہوتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن صرف جنگل اور باغ تک ہی نہیں ۔۔۔۔ اعزاز احمد آذر کی ماہیا نگاری اپنی دھرتی سے جڑ کر، دھرتی کے جملہ مظاہر کے ساتھ اپنی رونق لگائے ہوئے ہے۔
انمول گہر کہیے
میری دھرتی کو
فردوسِ نظر کہیے
٭
کچھ موتی ہیں شبنم کے
جب جب تُو گزرے
چلے پُروا تھم تھم کے
٭
رُت کھلنا ہی بھولے گی
تم جو نہیں آئے
سرسوں بھی نہ پھولے گی
پھولوں پہ اُڑے تتلی
ختم کہاں ہو گی
اب بات ہے چل نکلی
اعزاز احمد آذر کے دو ماہیے مجھے ذاتی طور پر بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔ یہ ماہیے اپنے موڈ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ لیکن ماہیے کے حسن اور رس کے لحاظ سے دونوں ہی بہت عمدہ ہیں۔
ہر پونی ہے مار گئی
عمر کا یہ چرخا
میں کت کت ہارگئی
اس میں بھی ہیں راز کئی
لڑکی وکیلوں کی
دے گئی تاریخ نئی
پہلے ماہیے میں ”زندگی“ دنیا کے دکھوں کو چرخہ کات کرپونیاں بنانے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتی ہے کہ میں اپنی (مقررہ ) عمر کا چرخہ کاتتے کاتتے تھک ہار کر رہ گئی ہوں کیونکہ اس چرخے کی ہر پونی کو تیار کرنا ایک جان لیوا عمل ہے۔ اور میں مسلسل دکھوں کے، مشقت کے، اس عمل میں مبتلا ہوں۔۔۔۔
دوسرے ماہیے میں ماہیا نگار کی محبوبہ کسی وکیل کی بیٹی ہے جو اپنے شاعر کو ٹالنے کے لئے یا پھر کسی اور سبب سے ملنے کی نئی تاریخ دے گئی ہے۔ عدالتی پیشیوں میں ملنے والی تاریخیں ذہن میں ہو ں تو اس سادہ سے ماہیے میں معانی کے کئی پرت نکل آتے ہیں۔ مثلاً عدالتی سسٹم کی طرح محبوبہ بھی تاریخ پر تاریخ ۔۔۔ پیشی پر پیشی ہی دیئے جا رہی ہے ۔ یوں ایک طرف اپنے عدالتی نظام کی بعض خامیوں کی طرف اشارہ بھی کر دیا ہے اور محبوبہ کے غیر منصفانہ رویئے کو بھی ظاہر کر دیا ہے۔۔۔ ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ محبوبہ وکیل کی بیٹی ہے ، باپ پر گئی ہے۔سچی بات نہیں کرتی بس ٹالتی رہتی ہے۔ ۔۔چونکہ ”راز کئی“ ہیں لہٰذا یہ راز بھی تو ہو سکتا ہے کہ جو نئی تاریخ ملی ہے،اس میں محبوبہ کے گھر والے کہیں جا رہے ہوںاور اس نے اپنے شاعر سے وعدی ایفا کرنے کا ارادہ کر لیا ہو۔۔۔ تاہم مذکورہ دونوں ماہیوں کا اصل لطف ان کی تشریح میں نہیں، انہیں پڑھنے میں ہے، گنگنانے میں ہے ۔ یہاں اعزاز احمد آذر کے چند اور خوبصورت ماہیے بھی پیش کر دیتا ہوں۔
یہ رُت ہے گلابوں کی
چڑ ہے سوالوں کی
اور ضد ہے جوابوں کی
چوری کی ہے رُشنائی
چاند اکیلا ہے
یہ اُس نے سزا پائی
٭
٭
جگ سے ٹکراتا ہے
حُسن بہانہ ہے
رنگ عشق جماتا ہے
آنکھوں میں ہے نِیر آجا
خواب ترے دیکھوں
بن کے تعبیر آجا
٭
٭
ہاتھوں میں ہیں دو پکھیاں
ہم تو ہیں پردیسی
ہم سے نہ لگا اکھیاں
آ لگ جا گلے میرے
بھول جا سب شکوے
ساہ روٹھ چلے میرے
٭
٭
اس دُکھ کی دوا دے جا
حبس کا موسم ہے
آنچل کی ہوا دے جا
یہ رسم نبھائیں گے
تُو چاہے یاد نہ کر
ہم بھُول نہ پائیں گے
٭
٭
رکھ دیپ یہاں لا کر
رہ میں اندھیرا ہے
آنکھوں کا اُجالا کر
اے یار دَیا کرنا
پیار کے پھولوں سے
اس جھولی کو تم بھرنا
جس طرح اُردو کے بعض اہل زبان ایک عرصہ کے بعد صرف ”اہل زبان“ ہونے پر ہی ناز کرنے لگے اور ان کے مقابلے میں پنجاب اور دوسرے علاقوں کے شاعر اور ادیب تخلیقی لحاظ سے کہیں آگے نکل گئے (مستثنیات دونوں طرف موجود ہیں)۔ ویسے ہی مجھے اب ماہیے کے حوالے سے تشویش ہونے لگی تھی۔ ماہییااصلاًپنجاب کا لوک گیت ہے ۔ اہل پنجاب سے بہتر اسے کون سمجھ سکتا ہے لیکن جب پنجاب کا یہ لوک گیت اردو میں ایک باقاعدہ شعری صنف بننے لگا تب بعض احباب اپنے پنجابی ”اہل زبان“ ہونے کے زعم میں مبتلا ہو گئے۔ اردو ماہیے کو ایک طرف ہزارہ، کشمیر، کراچی اور سرائیکی علاقوں میں مقبولیت حاصل ہو رہی تھی تو دوسری طرف انڈیا کے بہار، راجستھان ، مہاراشٹر، یوپی، آندھراپردیش (سابق ریاست حیدر آباد دکن) اور بنگال جیسے صوبوں میں ماہیے کو محبت کی نظر سے دیکھا جارہا تھا۔ پھر انگلینڈ، ہالینڈ، جرمنی،اٹلی، جاپان کے اردو شاعروں نے ماہیے کی طرف خصوصی توجہ کی۔ اس فضا میں مخالفین اور حاسدوں نے تو عناد اور حسد کا اظہار کرنا ہی تھا بعض اچھے بھلے پنجابی بھی ماہیے کے سلسلے میں کوئی اہم اور مثبت کام کرنے کی بجائے اپنے پنجابی ”اہل زبان“ ہونے کی خوش فہمی میں گھر کر رہ گئے۔ یوں مجھے تشویش ہونے لگی تھی کہ اردو ماہیا شاید دوسرے علاقوں میں استحکام حاصل کرلے گا اور خود پنجاب اپنے ہی گھر کی دولت گنوا بیٹھے گا ۔لیکن جہاں امین خیال جی نے ماہیے کے فروغ میں اپنا فعال تخلیقی کردار ادا کیا ہے اور راولپنڈی، جہلم، لاہور، بورے والا جیسے علاقوں سے متعدد نوجوان شعراءسامنے آئے ہیں وہیں لاہور سے اعزاز احمد آذر کے ماہیوں کے مجموعہ کا شائع ہونا اس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ بحیثیت پنجابی شاعر بھی اور بحیثیت اردو شاعر بھی اپنے فرض سے غافل نہیں ہیں ۔ نہ وہ کسی زعم میں مبتلا ہیں نہ کسی خوش فہمی میں۔ ۔۔۔ وہ تو بس ماہیے کے فروغ میں اپنا تخلیقی کردار ادا کر رہے ہیں اور اسی لگن میں مگن ہیں۔
اعزاز احمد آذر کے ماہیوں کا یہ خوبصورت مجموعہ نہ صرف ماہیے کی تحریک میں ایک قیمتی اضافہ ہے بلکہ اس کے ذریعے سے وہ تمام شعراءماہیے کے پنجابی مزاج کو بخوبی سمجھ سکیں گے جو پنجابی زبان سے واقف نہیں ہیں اردو ماہیا نگاروں میں اعزاز احمد آذر صفِ اول کے ماہیا نگار ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کے مجموعہ کی اشاعت کے بعد اس تاثر کو تقویت ملے گی۔
میں ان کے مجموعہ ”کب صبح ملن ہو گی“ کا کھلے دل اور بازوﺅں سے استقبال کرتا ہوں۔
(اعزاز احمد آذر کے ماہیوں کے مجموعہ”کب صبح ملن ہو گی“ میں شامل)