چند مہینے پہلے کی بات ہے۔ ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا کہ ہالینڈ سے ایک دوست آئے ہوئے ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اگرآپ فرینکفرٹ آسکیں تو ہم ایک گھنٹے تک فرینکفرٹ کے مین ریلوے اسٹیشن پر پہنچ رہے ہیں۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ یورپ کی کڑکڑاتی سردی تھی۔ لیکن میں نے کہہ دیا کہ شاید آدھ گھنٹہ آپ لوگوں سے لیٹ پہنچوں لیکن میں آ رہا ہوں۔ رات ساڑھے نو بجے اس دوست سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنی دستیاب کتب میں ”محبت کے پھول“ اور” اردو میںماہیا نگاری“ تحفةً پیش کیں۔ اس دوست کو تو ان کتابوں سے کچھ ایسی دلچسپی نہیں تھی لیکن ان کتابوں کو درست کے ہاتھوں تک پہنچنا تھا، سو پہنچیں۔۔۔۔۔
اس دوست کے ذریعے میری یہ کتابیں ہالینڈ میں ناصر نظامی کی نظر سے گزریں تو انہوں نے فوری طور پر مجھ سے رابطہ کیا۔ ٹیلی فون پر رسمی باتوں کے بعد پتہ چلا کہ وہ شاعری کے گائیگی والے پہلو پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ان کی شاعری متعدد گلوکار گا چکے ہیں۔ ان گلوکاروں میں ابھرتے ہوئے گلوکار بھی شامل ہیں اور نصرت فتح علی خان اور مہدی حسن جیسے عہد سازگائیک بھی شامل ہیں۔ ناصر نظامی خود موسیقی کی تھوڑی بہت تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ فیصل آباد میں نصرت فتح علی خان کے ماموں پیارے علی خان کا میوزک سکول ہوا کرتا تھا۔ غالباً ۱۹۶۸ءمیں ناصر نظامی نے ان سے موسیقی کی ابتدائی تعلیم لی ۔ انہیں ستار کا شوق تھا لیکن ان کے استاد نے انہیں آسان ساز بینجو کی طرف متوجہ کیا۔ سو تب سے لگ بھگ تیس برسوں سے ناصر نظامی اپنے ذاتی شوق کے طور پر بینجو بجا رہے ہیں اور ماہیے کی دھن پر بھی بینجو میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔
ہم ا س کے خوگر ہیں
گیتوں کی بندش
کے۔ گُن کے خوگر ہیں
ہم لکھتے لکھاتے ہیں
گاہے گاہے مگر
ہم خود بھی گاتے ہیں
دھن کاری کرتے ہےں
سُر کی لہروں میں
لفظوں کو بھرتے ہیں
موسیقی سے مَس ہے
اپنی صدا میں بھی
تھوڑا ساتو رَس ہے
ناصر نظامی کی ذاتی کہانی کے یہ ماہیے تو بعد کی بات ہےں ۔۔۔ جب مجھے ناصر نظامی کے اِن گُنوں کا علم ہوا۔ ساتھ ہی انہوں نے میری مذکورہ بالا دونوں کتابوں پر اپنی پسندیدگی کا بہت زیادہ اظہار کیا تو میں نے دبے دبے لفظوں میں کہا کہ پھر آپ بھی ماہیے کہئے ناں ! آپ تو ماہیے کی لے کو مجھ سے کہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔۔۔۔
ماہیے کہنے کی تحریک کرنے پر پتہ چلا کہ میری کتابوں کے مطالعہ کے بعد وہ از خود اس طرف مائل ہوچکے ہیں اور ۲۰۰کے لگ بھگ ماہیے کہہ چکے ہیں۔ اس انکشاف نے مجھے مسرت آمیز حیرت سے دوچار کردیا۔ پھر چند ہفتوں کے اندر ہی اندر انہوں نے ماہیوں کے انبار لگا دیئے تو اس کے اندر کے پُرگو شاعر کا کچھ کچھ اندازہ ہوا۔ جو لوگ کم لکھتے ہیں وہ عموماً پُر گو شاعروں کے معیار پر طنز کیا کرتے ہیں۔ بات جزوی طور پر درست بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن پر غور کیا جانا چاہئے۔ مثلاً ایک اچھا ادیب بہت زیادہ لکھتا ہے تو اس میں بھی اس کا ایک کم از کم معیار بہرحال قائم رہتا ہے۔ اس کے برعکس کم لکھنے والا غیر معیاری ادیب کم لکھ کر بھی غیر معیاری ہی رہے گا۔ اگر کوئی کم لکھنے والا ادیب سال بھر میں دو تین اچھے فن پارے پیش کرتا ہے اور زودگو ادیب دس فن پارے پیش کرتا ہے جن میں سے پانچ بے حد عمدہ ہوتے ہیں تو وہ یقیناً کم لکھنے والے اچھے ادیب سے کوالٹی کے لحاظ سے بھی آگے ہے اورتعداد کے لحاظ سے بھی آگے ہے ۔ ناصر نظامی کے ماہیے پڑھتے ہوئے ان کی پرگوئی کے اثرات تو محسوس ہوتے ہیں لیکن وہ اپنا ایک کم از کم معیار بہرحال برقرار رکھتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے کم از کم معیار سے اوپر اٹھتے ہیں وہاں تو ان کے ماہیوں کی آن بان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ بے شک ان کے ہاں متعلقہ موضوع کے روایتی مضامین بھی کثرت سے آتے ہیں لیکن جہاں کہیں وہ اپنے عمومی معیار سے اوپر اٹھتے ہیں وہیں ان کے ماہیے کا نفس مضمون چمکنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر عارفانہ ماہیوں کی یہ جھلکیاں دیکھیں۔
خود کرتا دھرتا ہے
سامنے دنیا کے
کسی اور کو کرتا ہے
٭
آدم کا بہانہ تھا
اپنی محبت کا
اظہار جتانا تھا
٭
آدم کی خطا کیا تھی
سامنے کیوں رکی
جو چیز روا، ناں تھی
٭
کبھی ہم بھی تھے عرشوں پر
ایک ہی غلطی سے
آپہنچے ہیں فرشوں پر
٭
ہے جس کی نظر جتنی
اس کو نظر آئے
بس اس کی جھلک اتنی
ہر دم میں ہُو ہُو ہُو
میں جب ہوں ہی نہیں
کیسے کہوں تُو تُو تُو
گناہ اور ثواب، شر اور خیر کے گیان کا یہ مرحلہ دیکھیں
یہ شر اور خیر ہے کیا
آخر دونوں کا
آپس میں بَیر ہے کیا
اک دوجے کی قوت ہیں
سادہ لفظوں میں
منفی اور مثبت ہیں
رشتوں ناطوں کے بیان میں ناصر نظامی بے حد جذباتی ہوجاتے ہیں۔ والدہ، والد ، دادا، نانا، بہنوں، کزنز، دونوں بیویوں، بیٹوں ، بیٹیوں اور متعدد دیگر عزیز و اقارب ہی کو نہیں، اپنے دوست احباب کو بھی جذباتی ہو کر یاد کرتے ہیں اور ان پر اپنے خلوص کو نچھاور کرتے ہیں۔ ایسے ڈھیر سارے ماہیوں میں سے گنتی کے یہ چند ماہیے د یکھیں۔
تری ممتا روٹھ گئی
جنت کی کنجی
ہاتھوں سے چھوٹ گئی
٭
تقدیر کی کٹھنائی
میں نے بھائی کی
دولت ہی نہیں پائی
حالات نے مار دیا
ہم کو غریبی کی
بہتات نے ماردیا
٭
گھر واپس مڑنے میں
دیر تو لگتی ہے
دل ٹوٹ کے جڑنے میں
ایسے ماہیوں سے ہٹ کر ناصر نظامی نے جو کمال دکھایا ہے وہ بیشتر ماہیا نگاروں اور بعض دوسرے شعراءکے بارے میں ان کے خاکہ نما ماہیے ہیں۔ ایسے ماہیے نذیر فتح پوری اور امین خیال پہلے سے کہہ چکے ہیں۔ بعض دیگر ماہیا نگاروں نے بھی خاکہ نما ماہیے کہے ہیں لیکن ناصر نظامی نے اتنی کثیر تعداد میں شخصی ماہیے کہے ہیں کہ اگر صرف انہی ماہیوں کو الگ سے چھپوایا جاتا تو ایک چھوٹی سی کتاب بن جاتی اور شخصی ماہیوں میں بعض ماہیا نگاروں کے بارے میں سچ مچ دریا کو کوزے میںبند کردیا گیا ہے۔ تین مصرعوں میں متعلقہ شخصیت کے نمایاں ترین اوصاف کو بیان کردیا گیا ہے۔
ارض وطن سے ناصر نظامی کو محبت ہے لیکن وہاں نافذ ظلم اور جبر کے نظام پر انہیں سخت دکھ ہے۔ اس ایک ماہیے میں اس نظام کی اصلیت اور وطن عزیز میں جاری اقتدار کی میوزیکل چیئرگیم کی حقیقت بڑی حد تک سامنے آجاتی ہے۔
ان قرضہ خوروں کو
چور بھلا کیسے
پکڑے گا چوروں کو
ادیبوں کی ”انجمن ستائش باہمی “ کے حوالے سے انہوں نے جو ماہیے کہے ہیں ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ ان میں ادبی برادری کے بعض ”۔۔۔ چہرے “ اپنے آپ کو اور اپنے اصل ادبی قد کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔
انصاف شعار ہو!
اپنی دلیلوں پر
وہ خود ہی ہی نثار ہو!
کوئی جب نہ جواب آیا
میرے خلاف کئی
فتوے وہ لکھا لایا
ناصر نظامی کے ماہیوں میں اپنے اندر کی غواصی کے صوفیانہ قسم کے تجربے بھی ملتے ہیں۔ ایسے ماہیوں میں ان کا لب و لہجہ باطن سے ہمکلامی کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے یا اپنی ہی عرفان کی منزلیں طے کرتا ہوا لگتا ہے۔
کبھی رنگ کبھی سنگ ہوا
اپنی طبیعت پر
پھر آپ ہی دنگ ہوا
پڑھ دل کی کتاب کبھی
اپنے عملوں کا
کر خود ہی حساب کبھی
َاَن بوجھی کہانی ہے
دل کے سمندر کی
تہہ کس نے جانی ہے
اک گہرا سمندر ہے
میں دل کے اندر
دل میرے اندر ہے
محبوب کے وعدوں کا پورا نہ ہونا، پھر ان وعدوں کو چادر سے تشبیہہ دے کر، آنکھوں اور آنسوﺅں کا ذکر کئے بغیر یادوں کی برسات سے پیار کے وعدوں کی چادر کو بھگو دینا۔ ناصر نظامی کے ہاں استعاراتی سطح پر آنے کی عمدہ کاوش ہے۔
بارش ہوئی یادوں کی
چادر بھیگ گئی
ترے پیار کے وعدوں کی
تاہم چونکہ ماہیا اپنے عمومی مزاج اور اجتماعی کردار کے باعث بہت زیادہ داخلی اور علامتی نہیں ہوسکتا اسی لئے ناصر نظامی زیادہ تر رمزو کنایہ سے کام لیتے ہیں۔
جنت کے درختوں کا
یاد کرو قصہ
گزرے ہوئے وقتوں کا
٭
شہروں میں رہتے ہیں
اپنے لگائے ہوئے
پہروں میں رہتے ہیں
٭
کسی طور نہیں جھکتا
گھڑیاں رُک جائیں
پر وقت نہیں رُکتا
لی درد نے انگڑائی
دل کے گلے لگ کے
روتی رہی تنہائی
ناصر نظامی کے ماہیوں میں کہیں بعض معروف اشعار، بعض ماہیوں اور بعض گیتوں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے ۔ اس کمزوری کو اس بنیاد پر برداشت کیا جاسکتا ہے کہ جن اشعار، ماہیوں یافلمی گیتوں سے وہ متاثر ہیں وہ لاشعوری طور پر ان کے ماہیوں میں آتے گئے ہیں پھر چند ہفتوں، مہینوں کے اندر اتنے سارے ماہیے کہے جائیں گے تو ان میں ایسی تھوڑی بہت کمزوریاں تو کہیں نہ کہیں مل ہی جائیں گی ۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ناصر نظامی کے یہ ماہیے اندر کی کسی لہر کے نتیجہ میں مسلسل ہوتے چلے گئے ہیں۔ اس اظہار کے بعد انہیں جو آسودگی محسوس ہوئی ہوگی اس کا ایک ہلکا سا اندازہ ان ماہیوں سے لگایا جاسکتا ہے ۔۔ ایسے ماہیے ان کی ماہیا نگاری کے انداز کی بھرپور ترجمانی بھی کرتے ہیں۔
ململ کا سوٹ لیا
پہلی نظر میں
تم نے مجھے لوٹ لیا
٭
روحوں کا ملن ہوگا
من اور من کا وزن
بس ایک ہی من ہوگا
٭
پانی کی روانی کے
لے لو مزے دو دن
دودن کی جوانی کے
٭
دکھ ہم نے جھیلا ہے
خوشیوں سے لیکن
کوئی دوسرا کھیلا ہے
٭
غم کس لئے کرتا ہے
جتنا دامن ہو
اتنا ہی بھرتا ہے
٭
شیشے کی عمارت ہے
چاہت تو یارو
زخموں کی تجارت ہے
٭
جب تُو مجھے تکتا ہے
بجلی کا دل کو
جھٹکا سا لگتا ہے
ؑؑؑ٭
جنموں سے جیتے ہیں
دور تغیر کے
ہم پر کئی بیتے ہیں
٭
سرہانے سر رکھ کر
آدم حوا ہنسے
ممنوعہ شجر چکھ کر
٭
ہم پیاس بجھالیں گے
پیار کے ساون کی
بارش میں نہا لیں گے
٭
ہیں دودھ کی دو نہریں
جو بن پر آئیں
جوبن کی حسیں لہریں
قد سرو کا بوٹا ہے
اور اس قامت نے
مرے دل کو لوٹا ہے
ناصر نظامی نے اردو ماہیوں کے ساتھ تھوڑے سے پنجابی ماہیے بھی کہے ہیں۔ اردو دنیا کے لئے ناصر نظامی کی پنجابی شاعری شاید ویسے زیادہ دلچسپی کا باعث نہ ہو لیکن یہ ایک اہم خبر ہے کہ ناصر نظامی ایک عرصہ سے پنجابی شاعری بھی کررہے ہیں ۔ان کی پنجابی شاعری پنجابی کے متعدد رسائل اور اخبارات میں چھپتی رہتی ہے۔ اس خبر کی اصل اہمیت یہ ہے کہ پنجابی شاعری کرنے والا ایک شاعر جو ماہیے کی پنجابی روایت ،اس کے مزاج اور اس کی دُھن سے نہ صرف بخوبی واقف ہے بلکہ موسیقی کے علم کی سطح پر بھی ماہیے کو بہتر طور پر سمجھتا ہے۔ اس نے اردو ماہیے کے اصل وزن ، مزاج اور دیگر اوصاف کو تخلیقی سطح پر قائم رکھا ہے۔یوں ان کی ماہیا نگاری بہت سارے ناواقف اور نوآموز ماہیا نگاروں کی بہتر طور پر رہنمائی بھی کرسکتی ہے۔
ناصر نظامی کے ماہیوں کا مجموعہ ”یادوں کی بارش“ چھپنے جا رہا ہے تو میری دعا ہے کہ یہ مجموعہ اردو ماہیے کی تحریک کے لئے باران رحمت ثابت ہو۔
(ناصر نظامی کے ماہیوں کے مجموعہ”یادوں کی بارش“ میں شامل)