غزل میں اس کے مخصوص مضامین کی تکرارکو بہت سارے ناقدین نے نشان زد کرتے ہوئے اصلاحِ احوال کی طرف توجہ دلائی ہے تو بعض لکھنے والوں نے پیش پا افتادہ مضامین سے نجات کے لیے غزل کی صنف کو ہی رد کرنا چاہا ہے کہ اس میں اب کسی نئے پن کی گنجائش نہیں رہ گئی۔ایسے اعتراضات میں کہیں کچھ جزوی سچائی موجود ہے اور مضامین کی تکرار سے بچنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔اس نوعیت کی نشان دہی غزل میں مزید وسعت اور نئے مضامین کی گنجائش پیدا کرنے کا باعث ہوسکتی ہے۔اس جذبے کے ساتھ جو تنقید کی جائے وہ غزل کے ارتقا میں معاون ثابت ہو گی۔حقیقت یہ ہے کہ غزل میں مضامین کی تکرارعام طور پر پہلی نظر میں ہی پکڑی جاتی ہے۔اس لحاظ سے یہ غزل کی خوبی بھی ہے کہ بے شک اس میں یار لوگ ایک دوسرے سے استفادہ کرتے رہیں لیکن وہ استفادہ صاف دکھائی دے جاتا ہے۔غزل کے برعکس جدید نظم میں کسی کے مضامین پر ہاتھ صاف کیا جائے تو عام طور پر استفادہ کرنے والے کے ہاتھ کی صفائی دکھائی نہیں دیتی۔چنانچہ اس سہولت سے فائدہ اُٹھا کر بعض نظم نگاروں نے خاصی لفظی کاری گری کا مظاہرہ کیا ہے۔عام طور پر کوئی نظم نگار ایسا کچھ کرتا ہے تو اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔لیکن جب کوئی نظم نگار اردو غزل کو مسلسل ہدف ِتنقید بنائے رکھے اور پھر خود اس کی اپنی نظمیں دوسروں کے مضامین سے استفادہ کرنے لگیں تو ان کی نشان دہی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔میں نے ۱۹۹۹ء میں ستیہ پال آنند کی نظم”دھرتی پران“کے بارے میں ظاہر کیا تھا کہ کس طرح سے اس میں ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم”اک کتھا انوکھی“سے استفادہ کیا گیا ہے۔وہ سارے حوالہ جات میرے مضامین کے مجموعہ”تاثرات“(صفحہ نمبر ۱۸۳،۱۸۴)میں شائع کیے جا چکے ہیں۔اپریل ۲۰۱۲ء میں ستیہ پال آنند کی ایک اور نظم بھرپور اور دہرے استفادہ کی مثال بن کر سامنے آئی۔
موت سے مہلت مانگنے کا خیال کوئی نیامضمون نہیں ہے۔ ۔”موت“کے عنوان سے معین احسن جذبی کی نظم اس موضوع پر شہکارکا درجہ رکھتی ہے ۔”ابھی چلتا ہوں ذرا خود کو سنبھالوں تو چلوں“کی نغماتی تکرار نے نظم میں ایسی انوکھی کیفیت پیدا کردی ہے جواس موضوع کی دوسری نظموںمیں شاید ہی کہیں دکھائی دے۔ اردو غزل بھی اس موضوع کے اشعار سے بھری پڑی ہے۔ستیہ پال آنند مضمون کی جس تکرارکو کلیشے کی حدتک سمجھتے ہیں،اس حد سے بھی زیادہ اس مضمون کو غزل میں باندھا جا چکا ہے۔چند شعر بطور مثال:
اے اجل ذرا ٹھہرجا،میں کچھ اور دیر جی لوں
ابھی تلخیاں ہیںباقی،انہیں کر تو لوں گوارا
(دانش پیرزادہ)
اے اجل بہرِ خدا اور ٹھہر جا دَم بھر
ہچکیاں آئی ہیں،شاید میں اُسے یاد آیا
(میر مونس)
اجل ٹھہر کہ ابھی تیرے ساتھ چلتا ہوں
مگر یہ دیکھ ابھی میرے روبرو ہیں حضور
(بیکل اتساہی)
مِرے خدا مجھے تھوڑی سی زندگی دے دے
اداس میرے جنازے پہ آرہا ہے کوئی
(قمر جلالوی)
غزل کے حوالے سے اس مضمون پرمزیدمثالوںکو یہیں روکتے ہوئے مجھے یہاں معروف فکشن رائٹر اور شاعرہ ترنم ریاض کی نظم ”مہلت“ اور ستیہ پال آنند کی نظم”نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی“کا جائزہ پیش کرنا ہے۔اس جائزہ کے ساتھ یہ بتانا ضروری ہے کہ ترنم ریاض کا شعری مجموعہ”پرانی کتابوں کی خوشبو“۲۰۰۵ء میں دہلی سے شائع ہواتھا۔اس مجموعہ کے صفحہ نمبر۱۰۱،۱۰۲پر ان کی نظم”مہلت“ شامل ہے۔
”ٹھہر جا اے اجل
اے مرگ کے ملکِ مہرباں
میں
جو جاؤں گی اچانک یوں
تو کتنے اَن کہے اشعار
میرے ساتھ جائیں گے
کئی افسانے ،جو
کچھ دیر میں جیتی تو لکھ لیتی
کئی نغمے مجھے بچوں کے سہرے پر
جو گانے ہیں
وہ مجھ سے چھوٹ جائیں گے
وہ جن کی آس میں ،میں نے
یہ تنہا دن گزارے ہیں
خوشی کے آنے سے پہلے وہ لمحے روٹھ جائیں گے
ٹھہر جا اے اجل،اے مرگ کے ملکِ مہرباں
میں
کہ یہ بھی جانتی ہوں
خوف سے تنہائی کے اکثر
مِری شاموں نے خود تم کو پکارا تھا
مجھے شب بھر کی مہلت دے
کہ دل پر فصلِ گل آنے کے کچھ ہی دن میں کھینچی تھی
پہاڑوں پر جو تصویریں
میں اک شب ساتھ ان کے رہ تو لوں تنہا
اور اپنی سوچ میں ہر شام کو جی لوں
ذرا اس سوکھتی ندی کا اک قطرہ ہی اب پی لوں
ٹھہر جا اے اجل،اے مرگ کے ملکِ مہرباں !“
ترنم ریاض کی نظم میں موت سے کچھ اور زندگی کی مہلت مانگی گئی ہے۔اور اس کے لیے جو جواز پیش کیا گیا ہے وہ ایک سے زائد معانی کا حامل ہے۔ ادبی سطح پر ایک تخلیق کار کی حیثیت سے وہ اپنی کچھ اور شاعری اور کہانیوں کی تکمیل کی متمنی ہیں۔ جسمانی سطح پر ایک ماں کی حیثیت سے بھی ان کا تخلیقی جذبہ انہیں اپنے بیٹوں کے سہرے کے نغمے گانے کی خواہش کے باعث مزید زندہ رہنے کا جواز دیتا ہے ۔سو وہ موت سے پہلے اپنے یہ ادھورے تخلیقی کام پورے کرنے کے لیے موت سے مزید مہلت مانگتی ہیں۔یہاں موت کا خوف نہیں ہے بلکہ تخلیقی وفور ہے جو اپنے اظہار کی تکمیل چاہ رہا ہے۔
ترنم ریاض کی نظم”مہلت“کے مطالعہ کے بعد اب ستیہ پال آنند کی نظم”نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی“کا مطالعہ کرتے ہیں۔
”نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی،اے مرگ
ابھی سراپا عمل ہوں،مجھے ہیں کام بہت
ابھی تو میری رگوں میں ہے تیزگام لہو
ابھی تو معرکہ آرا ہوں،برسرِپیکار
یہ ذوق و شوق،یہ تاب و تواں،یہ بے چینی
ابھی تو میرے تمتع پہ منحصر ہے یہ جنگ
نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی،اے مرگ
یہ رزمیہ جو مِری زیست کا مقدر ہے
یہ حرف حرف تحارب،یہ لفظ لفظ جہاد
مِرا یہ نعرۂ تکبیر،صف شکن”رَن بیر‘
اسے تو ظلم و تشدد کی جڑکو کاٹنا ہے
اسے تو زشت خو دشمن سے جنگ جیتنی ہے
نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی،اے مرگ
کہ اب یہ لفظ مِرے گل نہیں ہیں،کانٹے ہیں
مجھے پرونا نہیں کتخداؤں کے سہرے
مجھے سجانا نہیں باکرہ بتولوں کو
مجھے تو تیغ زن غازی کی طرح لڑنا ہے
مِری قضا، مجھے کچھ وقت دے کہ مجھ کو ابھی
جہاں کے فرضِ کفایہ کو پورا کرنا ہے“
(ستیہ پال آنند کی نظم”نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی“
مطبوعہ ماہنامہ شاعر بمبئی شمارہ اپریل ۲۰۱۲ء)
ترنم ریاض کی نظم کا مرکزی خیال ستیہ پال آنند کی نظم میں پورے طور پر موجود ہے کہ موت سے مزید زندگی کی مہلت مانگ رہے ہیں۔اس کے لیے وہ اپنی کسی معرکہ آرائی کا جواز دیتے ہیں،ایسی معرکہ آرائی جس میں انہیں ”ظلم و تشددکی جڑ کوکاٹنا ہے“اورکسی”زشت خو دشمن سے جنگ جیتنی ہے“۔اس ”کارِخیر“کے لیے وہ اپنے پھول لفظوں کو کانٹے بنا چکے ہیں اور لفظ کی تلوارلہراتے ہوئے غازی بنناچاہتے ہیں۔ان کا یہ شوقِ جہاد دیدنی ہے۔لیکن شوقِ جہاد میں صرف غازی بننے کی خواہش موت سے ان کے خوف کو ظاہر کرتی ہے۔جہاد میں تو شوقِ شہادت غالب ہوتا ہے اور یہاں موت سے بچنے کے لیے”جہاد“ کی آڑ لی جا رہی ہے۔نظم کا عنوان”نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی“بجائے خوداس خوف کی تصدیق کرتا ہے۔یوں ترنم ریاض کی نظم کے تخلیقی وفور کے برعکس ستیہ پال آنند کی نظم پر موت کا خوف اور اس سے فرارکی کیفیت طاری ہے۔ایک جدید نظم نگارعمر کے آخری حصے میں جب قویٰ مضمحل ہوچکے ہیں،ایک تو ”ترقی پسند“لہجے میں بات کرنے لگے ہیں دوسرے ترقی پسندوں جیسے لہجہ کے باوجود ان جیسی بہادری نہیں دکھا رہے،بلکہ خوف خود ہی نظم سے جھلک رہا ہے، چھلک رہا ہے۔
جب کسی دوسرے کی نظم سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اس استفادہ کو چھپانے کی شعوری کوشش کی جائے تو اسی انداز کی نظم ہوپاتی ہے۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ترنم ریاض کے ہاں بیٹوں کی شادی کے سہرے کے نغموں کو گانے کی خواہش کا جذبہ،ان کے ہاں آنہیں سکتا تھا۔تو انہوں نے کمال سادگی سے اسے یہ رنگ دے دیا۔
مجھے پرونا نہیں کتخداؤں کے سہرے
مجھے سجانا نہیں باکرہ بتولوں کو
پیش پا افتادہ مضامین پر معترض ہو کر اردو غزل کو دریا برد کرنے کی آرزو رکھنے والے کسی نظم نگارکا خود کمالِ مہارت سے دوسروں کی نظموں کے مرکزی خیال پر ہاتھ صاف کرناکوئی مستحسن عمل نہیں ہے۔”شوقِ جہاد“کا تاثر بھی مصنوعی ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے نظم نگار نے غصے کی حالت میں قلم کو گنڈاسا بنا لیا ہے اورگنڈاسا پکڑے ہوئے موت سے مزید زندگی کی التجا کر رہا ہے۔ اس مضحک کیفیت سے قطع نظراب ان کی نظم”نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی“اگر ترنم ریاض کی نظم ”مہلت“سے استفادہ کرتی دکھائی دے رہی ہے تویا تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے،عام سی بات ہے اور اگر بری بات ہے تو یہ ستیہ پال آنند سے سرزد ہوئی ہے۔اگر اس موضوع کو بہت سارے شاعروں نے اپنے اپنے انداز سے برتا ہے تو ستیہ پال آنند خود واضح کر دیں کہ انہوں نے کس شاعر کے انداز سے استفادہ کرکے یہ نظم لکھی ہے۔اگر میں نے ماخذ کی نشان دہی میں غلطی کی ہے تو وہ خود اپنے اصل ماخذ کے بارے میں بتا دیں۔
غزل کے چند اشعاربطور مثال پیش کرنے کے باوجود میں نے اپنی توجہ صرف دو نظموں کے مرکزی خیال کے جائزہ تک محدود رکھی ہے۔اگر ستیہ پال آنند کی نظم کا پورا پوسٹ مارٹم کرنا مقصد ہوتا تو اس پر مزید بہت کچھ لکھا جا سکتا تھا۔”بہت کچھ“جو لکھا جا سکتا تھا،نظم کے آغاز سے ہی اس کی صرف ایک مثال یہاں پیش کردیتا ہوں۔نظم کی ابتدا کرتے ہوئے ستیہ پال آنند نے جو یہ فرمایا ہے:
”نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی،اے مرگ
ابھی سراپا عمل ہوں، مجھے ہیں کام بہت
ابھی تو میری رگوں میں ہے تیزگام لہو“
اس کے ساتھ اب غالب کا شعر ملاحظہ کیجیے۔
خوں ہوکے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں،اے مرگ!
رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے
نظم کی ابتدائی تین سطروں میںغالب کے شعر کی لفظیات کو صرف آگے پیچھے کرنے اور کہیں معنی کو اُلٹاکر دینے کے علاوہ ستیہ پال آنند کا اپنا کیا ہے؟ستیہ پال آنند کبھی سوچیں کہ غزل پر جو اعتراض وہ کرتے رہے ہیں وہ کیسے پلٹ کر ان کی نظم نگاری کی طرف بار بار آرہے ہیں۔
میں نے اسے ستیہ پال آنند سے اردو غزل کا انتقام قرار دیا تھااور بالکل درست لکھا تھا۔
موت کے موضوع پر بات ہورہی ہے تو اپنی ایک غزل کا یہ شعر ستیہ پال آنند کی نذر کرتے ہوئے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔
اور تھے حیدر جو اس کی چاہ میں مرتے رہے
ہم نے اُلٹے ہاتھ سے جھٹکی ہوئی ہے زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔