ستیہ پال آنند صاحب کی ایک ویڈیو ان دنوں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔یہ امریکہ میں ہونے والے ایک کوی سمیلن کی ویڈیو ہے جس میں انہوں نے غلام محمد قاصر کے دو شعر بڑے مزے سے اپنے کلام کے طور پر سنا دئیے ہیں۔یہ ویڈیو اس لنک پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔
http://www.youtube.com/watch?v=bVXI0WWcv6g
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
ستیہ پال آنند صاحب کی اس کاروائی کا ناصر علی سید صاحب نے اپنے کالم میں ذکر کرتے ہوئے غلام محمد قاصر مرحوم کے بیٹے کی ای میل درج کی اور لکھا:
”ناصر انکل،ستیہ پال آنند جی کو والد صاحب کے اشعار پڑھتا دیکھ کر حیرت ہوئی،والد گرامی سے ان کی ملاقاتیں بھی ہیںاور خط و کتابت بھی رہی۔یہ ان کا نام لے کرپڑھتے تو خوشی ہوتی کہ انہوں نے اپنے دوست کو یاد رکھا ہوا ہے۔یہ اشعار ۱۹۹۷میں شائع ہونے والے ان کے مجموعے کے فلیپ پر موجود ہیں جب کہ اگست ۱۹۹۶کے پی ٹی وی کے مشاعرے کا لنک میں بھیج رہا ہوں۔جس میں ان کی اپنی آواز میں یہ غزل سنی جا سکتی ہے۔“
خیر اس کے لئے تو عماد جی کسی گواہ کی ضرورت نہیں کہ یہ شعر خود ہی غلام محمد قاصر کا نام لیتے محسوس ہو رہے ہیں ۔اب اس ستم ظریفی کو دیکھئے اس کوی سیمیلن میں غزل کے شعر وہ سنا رہا ہے جس کی وجہ شہرت ہی غزل دشمنی ہے۔ (روزنامہ آج پشاور ۔30ستمبر2011ءکا ادبی ایڈیشن)
ستیہ پال آنند کو مذکورہ ویڈیو کا لنک بھیجتے ہوئے میں نے حقیقت حال جاننا چاہی تو ان کی طرف سے ایک وضاحت ۲۵ستمبر۲۰۱۱ء کو موصول ہوئی۔وہ وضاحت آگے چل کر درج کروں گا۔پہلے یہاں ان کی وہ وضاحت درج کرتا ہوں جو انہوں نے 15نومبر2011ءکو ایک انٹرنیٹ فورم بزمِ قلم سے جاری کی ہے۔
From: [email protected]
Subject: {7217} Charge against me.
Date: Tue, 15 Nov 2011 17:09:05 -0500
Someone has posted a video that shows me reciting my dear old friend Ghulam Mohammad Qasir’s couplets. The purpose is to show that I have recited his couplets in my own name. I want to make this matter clear.
This video has been tempered with. I was presiding over a function for the release of a Hindi book of poetry by Rakesh Khandelwal.The function was held in Durga Temple in Virginia. When I had finished my presidential speech, the audience asked me to recite from memory some couplets. They know only Hindi and but they always enjoy Urdu ghazal couplets. I am personally not much enamored of Ghazal but I keep them in good humor always. I recited some of own poems as also some ghazal couplets. But before reciting some of these couplets I said these were from an old friend from Peshawar, Mr. G.M. Qasir. It seems some one (I know it is a particular person from Germany, who is fond of such pranks) has tempered with the video. I have watched it carefully. It starts suddenly, as if just one second before, there was something and it has been cut off from the tape and my voice is heard. I remember, i had told the audience that my childhood was spent in Peshawar and I have dozens of friends there and I recited some couplets from Faraz, Mohsin Ehsan, Khatir Ghaznavi, Zahur Eiwan and Ghulam Mohammad Qasir. Alas, all of them are now no more. I have been left alone to face such silly and mischievous pranks.
Satyapal Anand
اس وضاحت پر ناصر علی سید صاحب نے فوراََ ستیہ پال آنند کو مخاطب کرکے یہ ای میل ریلیز کی :
From: [email protected]
Subject: RE: {7217} Charge against me.
Date: Wed, 16 Nov 2011 12:08:15 +0500
satiya jee, salam…..i hvnt heared any shair of zahoor awan…will u plz send me some of the couplets….u recite in taqreeb.
ستیہ پال آنند صاحب نے اردو کلام سنایا تھا،اردو کے مختلف فورمز پر غلام محمد قاصر کے دو اشعار اپنے نام سے سنا دینے کا چرچا ہو رہا تھا۔اگر کسی وضاحت کی ضرورت محسوس کر لی تھی تو کیا انگریزی میں وضاحت کرنا ضروری تھا؟۔۔۔جبکہ آنند صاحب کے پاس اردو ای میلز لکھنے کی سہولت موجود ہے اور وہ عمومی طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے احباب سے اردو میں ہی مراسلت کرتے ہیں۔
انگریزی میں لکھے گئے ستیہ پال آنند صاحب کے اس وضاحت نامے کے مطابق:
۱۔ ”ورجینیا کے درگامندر “میں یہ کوی سمیلن ہوا تھا۔
۲۔اس میں انہوں نے غلام محمد قاصر کا نام لے کر بتایا تھا کہ یہ اشعار ان کے ہیں۔
۳۔اس ویڈیو کو ٹیمپر کیا گیا ہے اور اس میں جرمنی کا ایک بندہ ملوث ہے۔(روئے سخن غالباََ میری طرف ہے)
۴۔میں نے حاضرین کو بتایا تھا کہ میرا بچپن پشاور میں گزرا تھاوہاں میرے درجنوں دوست تھے۔ فراز، محسن احسان،خاطر غزنوی،ظہور اعوان اور غلام محمد قاصر،میں نے ان دوستوں کے نام لے کرچند اشعار سنائے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک مندر میں ہونے والے کوی سمیلن میں ستیہ پال آنند کو اطمینان تھا کہ یہاں کوئی اردو جاننے والا نہیں ہے۔حاضرین میں دیویوں کی کثرت دیکھ کر دل نے غزل کا سہارا لیااور انہوں نے ایک معصومانہ انداز میں دوسرے کا کلام اپنے نام سے سنا دیا۔اس میں ایک تسلسل بھی موجود ہے۔”مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا“کے فوراََ بعد انہوں نے اپنا کلام شروع کر دیا”سانپ سے خوف اب نہیں آتا“۔۔۔۔غزل کی داد اسی روانی میں چلتی گئی،اچھی مشاعراتی تیکنیک ہے۔بہر حال یہ ایک معصوم سی لغزش تھی جسے اب بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن ستیہ پال آنند ایک معصوم لغزش کو چھپانے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔انہوں نے ہر گز ہر گز غلام محمد قاصر کا نام لے کر شعر نہیں سنائے تھے۔اس کا ثبوت ان کی ایک میل سے پیش کرتا ہوں جو انہوں نے مجھے ۲۵ ستمبر کو بھیجی تھی:
”اس کوی سمیلن میں مجھ سے کہا گیاتھاکہ اپنی نظموں کے علاوہ اردو کے مشہور شعراءکے چیدہ چیدہ اشعار سنائیں۔مجھے کچھ اشعار یاد تھے وہ میں نے سنا دئیے۔شعراءکے نام نہیں واضح کیے گئے۔کیونکہ یاد نہیں تھے۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں خود غزل نہیں کہتا۔اور میں نے کبھی کوئی غزل کسی مشاعرے میں نہیں پڑھی۔“(ستیہ پال آنند کی ای میل بنام حیدر قریشی۔۲۵ستمبر۲۰۱۱ء)
اس ای میل میں ستیہ پال آنند اعتراف کر رہے ہیں کہ شعراءکے نام یاد نہیں تھے اس لیے واضح نہیں کیے۔جبکہ اب ۵۱نومبر کی وضاحت میں لکھتے ہیں انہوں نے غلام محمد قاصر ہی کا نہیں فراز،محسن احسان،خاطر غزنوی،ظہور اعوان کا نام بھی لیا تھا اور ان کے اشعار بھی سنائے تھے۔بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کو بھی شاعر کے طور پر نہ صرف بیان کیا بلکہ ان کے شعر بھی سنا دئیے۔یہ ہوتی ہے ”بیان ٹمپرنگ“ اسے سفید جھوٹ کہاجاتا ہے۔
ویڈیو ٹمپرنگ کے الزام میں چونکہ ستیہ پال آنند صاحب نے مجھے گھسیٹ لیا ہے اس لیے اس کی بھی کھل کر بلکہ کھول کر وضاحت کر دوں۔یو ٹیوب پر اسے اپ لوڈ کرنے والے کا آئی ڈی helloanoopہے۔ان کا چینل ایڈریس یہ ہے:
http://www.youtube.com/user/helloanoop
ابھی تک یہاں ۲۲ویڈیوز اپ لوڈ کی گئی ہیں۔انوپ صاحب کا پورا نام انوپ بھارگوا ہے۔یہ امریکہ میں مقیم ہیں۔۲۲میں سے چند ویڈیوز کو چھوڑ کر زیادہ تر درگا مندر کے کوی سمیلن کی ویڈیوز ہیں۔ان میںانوپ بھارگوا صاحب خود بھی کویتائیں سنارہے ہیں۔یہ ویڈیوز آج کل میں اپ لوڈ نہیں کی گئیں بلکہ2008ءمیں اپ لوڈ کی گئی تھیں۔ستیہ پال آنند صاحب جس ویڈیو میں غلام محمد قاصر کے اشعار اپنے کلام کے طور پر سنا رہے ہیں اس کی اپ لوڈنگ ڈیٹ 13.10.2008 درج ہے۔چیک کی جا سکتی ہے۔اس لیے سچی بات یہ ہے کہ کوئی ویڈیو ٹمپرنگ نہیں ہوئی۔ستیہ پال آنند نے اپنی ایک معصوم لغزش کا فراخدلانہ اعتراف کر لیا ہوتا تو آج یوں مزید تماشا نہ بنتے۔انہیں جھوٹ پر جھوٹ بولنے پڑ رہے ہیں اور ہر جھوٹ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔اگر ستیہ جی کا ویڈیو ٹمپرنگ کاالزام سچ ثابت ہوجائے اور اس میں میرے ملوث ہونے کا ایک فی صد بھی ثبوت مل جائے تو جو ستیہ پال آنند کی سزا،وہی میری سزا۔
میرے نام اپنی ۲۵ستمبر۲۰۱۱ء والی ای میل میں آنند صاحب نے لکھا ہے کہ:”آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں خود غزل نہیں کہتا۔اور میں نے کبھی کوئی غزل کسی مشاعرے میں نہیں پڑھی۔“
اب انہیں کیسے یاد دلاؤں کہ انہوں نے چند غزلیں کہہ رکھی ہیں۔میرا جی کے انداز والی غزل تو وہ جرمنی والی تقریب میں بھی سنا کر گئے ہیں۔لیکن وہ اس سے صاف مکر سکتے ہیں ۔سو میں ان کے اس بیان کی تردیدبھی اسی درگا مندر کے کوی سمیلن کی ایک دوسری وڈیوسے کر دیتا ہوں۔مذکورہ کوی سمیلن ہی میں ستیہ پال آنند نے اپنی غزلیں بھی سنائی تھیں اور انہیں اس لنک پر سنا جا سکتا ہے۔
http://www.youtube.com/user/helloanoop#p/u/5/CgG47EPwoac
اس ویڈیو پرپہلے پچپن سیکنڈ کے بعد آنند صاحب کی غزلیں سنی جا سکتی ہیں۔
ستیہ پال آنند بطور نظم نگار اتنے اہم نہیں ہیں جتنا انہوں نے خود کو غزل کا مخالف ظاہر کرکے اہمیت حاصل کی ہے۔غزل کا کمال دیکھیں کہ اپنے مخالفوں کو بھی شہرت عطا کر دیتی ہے۔لیکن غزل بڑی ظالم صنف بھی ہے۔یہ کبھی کبھار اپنے مخالفوں سے انتقام بھی لیتی ہے۔غلام محمد قاصر مرحوم کے دو اشعار پڑھنے کی صورت میں ستیہ پال آنند صاحب کی معصومانہ لغزش سے لے کر وضاحت کے نام پر دلیرانہ جھوٹ پہ جھوٹ بولنا اور پھر ہر جھوٹ کا بے نقاب ہو تے چلے جانا،یہ ستیہ پال آنند صاحب سے اردو غزل کا انتقام ہے۔
فاعتبرو یا اولی الابصار!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر کردہ ۱۷نومبر۲۰۱۱ء
مطبوعہ روزنامہ ہمارا مقصد دہلی
روزنامہ نادیہ ٹائمز۔دہلی ۱۸نومبر ۲۰۱۱ء