ستیہ پال آنند کی”۔۔۔بُودنی نابُودنی“
اس کتاب کا نام ستیہ پال آنند کی ایک نظم کے عنوان ”کون و فساد و بودنی نابودنی“سے اخذ کیا گیا ہے ۔یہ نظم میرے مضمون”دو نظموں کا قضیہ“میں شامل ہے۔اس مضمون کو پڑھنے کے بعد قارئین کتاب کے نام کو اس کے پورے تناظر میں زیادہ بہتر طورپر جان لیں گے۔
ستیہ پال آننداردو ادب کے ایک عمدہ تخلیق کار ہیں۔لیکن وہ اپنے تخلیقی اظہار کے پیمانے کا شاید درست تعین نہیں کر سکے۔قیامِ پاکستان کے زمانے سے وہ افسانے لکھتے رہے تھے۔مجھے لگتا ہے کہ ان کا اصل میدان افسانہ ہی تھالیکن پھر وہ نظم نگاری کی طرف آگئے۔ان کی افسانہ نگاری سیدھے سادے بیانیہ پر مبنی تھی تو نظم نگاری کے لیے انہوں نے جدید پیرایہ کو اختیار کرنے کی کوشش کی۔اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ہر تخلیق کارکی تخلیق کا جدید یا روایتی پیرایہ اس تخلیقی لمحے کی عطا بھی ہوجاتا ہے،جس میں وہ ظہور کرتا ہے۔ستیہ پال آنندکے بقول احمد ندیم قاسمی نے انہیں ایک عمر کے بعد کہا کہ:
”آپ نے تو کہانی کا پیچھا کرنا چھوڑ دیا، لیکن کہانی نے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ دیکھ لیجیے، آپ کی لگ بھگ سب نظموں میں کہانی چپکے سے در آتی ہے!“
(جدید ادب شمارہ نمبر ۱۲۔ جنوری تا جون ۲۰۰۹ء۔ صفحہ نمبر۲۸۴)
میرا ذاتی خیال بھی یہ ہے کہ ستیہ پال آنند بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے۔افسانے میں اپنے روایتی انداز کے باوجود ان کے اندر کا عمدہ تخلیق کاراپنے رستے تراشتا چلا جاتا۔نظم نگاری میں بھی ان کے پاس اپنے امکانات کو ظاہر کرنے کے مواقع تھے لیکن ایسے لگتا ہے کہ وہ خود اپنی نظموں سے مطمئن نہیں رہے۔ایک عمدہ تخلیق کار کے ہاں ایسا عدمِ اطمینان خوب سے خوب تر کی جستجو کے طور پر ہوا کرتا ہے۔ستیہ پال آنند بھی اپنے اندر کے عمدہ تخلیق کار کو اس راہ پر لگا لیتے تواطمینان نہ سہی ایک تخلیقی آسودگی ضرور انہیں مل جایا کرتی۔لیکن ہوا یہ کہ اپنے اندر کے عمدہ تخلیق کار پر بھروسہ کرنے کی بجائے انہوں نے شہرت کے حصول کے لیے مختلف قسم کے شارٹ کٹ تلاش کرنا اور اختیار کرنا شروع کر دئیے۔جب اچھے تخلیق کار اس نوعیت کی حرکات میں مبتلا ہوتے ہیں تو نہ صرف بے برکتی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں بلکہ تخلیق کی دنیا انہیں اپنے آباد دیار سے باہر نکال کر بنجراور بانجھ ویرانوں کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ستیہ پال آنند جتنا شارٹ کٹ اختیار کرتے گئے،عمدہ ادب کی تخلیق سے اتنا ہی محروم ہوتے چلے گئے۔غیر ادبی دیویوں کے چکر میںان کی حرکات جتنی مضحکہ خیز ہوتی گئیں،اتنا ہی ادب کی دیوی انہیں رد کرتی چلی گئی۔کسی تخلیق کار کا اپنی تخلیق کے اظہار کے ساتھ اس میں قارئین کی شرکت کی خواہش کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔تخلیق کی اولیت اور اہمیت کی بنیاد پریہ شہرت کا باوقار طریقہ ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔میری اس کتاب کے مضامین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جب کوئی عمدہ تخلیق کاراپنی تخلیقی لگن میں مگن رہنے سے زیادہ شہرت کے شارٹ کٹ ڈھونڈنے لگتا ہے توپھر اس کا کیا انجام ہوتا چلا جاتا ہے۔
ستیہ پال آنند کی شاعری جیسی بھی ہے،وہی ان کی شعری پہچان بنے گی اور اسی کی بنیاد پر ان کے اہم یا غیراہم شاعر ہونے کا فیصلہ ہو گا۔ابھی تک کا جو منظر دکھائی دے رہا ہے اس کے مطابق ستیہ پال آنند اپنے تخلیقی جوہر پر بھروسہ کرتے ہوئے نظمیں کہنے سے زیادہ پبلک ریلشننگ سے کام لے کر شہرت کمانے کے شارٹ کٹ اختیار کرتے پائے جاتے ہیں۔وہ اچھی نظمیں لکھنے کی کاوش کرنے سے زیادہ غزل کی مخالفت کرکے مشہور ہوتے ہیں۔اب ان کی پہچان اچھے نظم نگار کی نہیں بلکہ ایک” غزل مخالف“ کی پہچان ہے۔ایک طرف ایسا ہورہا ہے دوسری طرف وہ غزل کے اشعار سے مرکزی خیال اُڑا کراپنی دانست میں نظمیں تخلیق کررہے ہیں۔غزل کے کسی شعر کا خیال اُڑا کر اسی کو موڑتوڑ کر نظم میں ڈھال لینا اپنی جگہ،شہرت کے حصول کے لیے انہیں کسی غیر اردو ماحول میں ہندی والوں کے سامنے کسی غزل گو شاعر کی کسی مقبول غزل کے اشعار اپنے نام سے سنانے کا موقعہ مل جائے تو اس سے بھی گریز نہیں کرتے۔اس سلسلہ میں غلام محمد قاصر کی غزل کے دو شعر اپنے نام سے سنانے کا ان کا اسکینڈل ساری اردو دنیا کے علم میں ہے۔اس حوالے سے میرا مضمون ”اردو غزل کا انتقام۔ستیہ پال آنند کا انجام“اس کتاب میں شامل ہے۔اس مضمون میں تقریباً ساری تفصیل آگئی ہے۔
شروع میں ہی جب میں نے اپنا مضمون ”غزل بمقابلہ نظم“لکھا تو اس میں ستیہ پال آنند کو کسی الجھاؤ کے بغیر اور نام لیے بغیر ان کے ایک مضمون کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا۔
”پہلی بات تو یہ کہ بھائی! اگر آپ آزاد نظم کے شاعر ہیں تو اپنی نظموں پر توجہ دیں، تاکہ پھر ادب کے قارئین بھی آپ کی نظم کی طرف متوجہ ہو سکیں۔اپنی تخلیقات کے بَل پر قارئین کو اپنی نظموں کی طرف متوجہ نہ کر سکنے والے شعراءکو یہی رستہ سوجھا ہے کہ حیلے بہانے سے غزل کو ملامت کرتے رہو، اس میں کیڑے ڈالتے رہو اور غزل مخالف ہونے کی سند حاصل کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرلو۔ لیکن کیا اس طریقے سے مخالفینِ غزل خود کو اہم نظم نگار منوالیں گے؟اس کے لیے تو اچھی نظمیں لکھنا ہوں گی اور اچھی نظمیں کسی ورکشاپ میں تیار نہیں کی جاتیں۔غزل کی مخالفت میں اب باقاعدہ کھاتے کھتونیوں کے انداز میں چارٹ بنا کر لفظوں کی شعبدہ بازی دکھائی جانے لگی ہے۔“
(مضمون:غزل بمقابلہ نظم)
اس مضمون کے اختتام پر میں نے انہیں واضح طور پر مشورہ دیا تھا کہ:
”جہاں تک غزل کی بقا اور ترقی کا مسئلہ ہے یہ تخلیقی اذہان کے ذریعے تب تک زندہ رہے گی جب تک اردو زبان زندہ ہے۔ نظم سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، کوئی مخاصمت نہیں ہے۔جو نظم نگار غیر ضروری طور پر غزل کی مخالفت میں اپنی توانائیاںضائع کر رہے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ غزل کے غم میں ہلکان نہ ہوں اور اچھی نظمیں کہنے پر توجہ دیں تاکہ پھر ان کا نام ان کی اچھی نظموں کی وجہ سے یاد رکھا جاسکے۔“
کاش ستیہ پال آنند نے میرے مشورے پر توجہ فرمائی ہوتی!
ستیہ پال آنند نے ایک طرف احمد فراز پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا کہ وہ ادب سے بے بہرہ خواتین کے جمگھٹے میں بیٹھ کر اسے اپنی ادبی مقبولیت سمجھتے تھے۔دوسری طرف اپنا یہ حال کہ فراز کے مقابلہ میںایک دو پرسنٹ خواتین کا قرب بھی نصیب ہوا تو غزل کے بے وزن مطبوعہ مجموعے کی شاعرہ کے سرپرست بن گئے۔دوسری طرف ہیمبرگ میں ایک ایسی خاتون کے ایسے شعری مجموعہ کی تقریب رونمائی کے لیے دوڑے چلے گئے ،جو سراسرروایتی غزل کے انداز میں بے وزن شاعری کرتی ہیں۔رات بھر ان کے مسودہ پر اصلاح دیتے رہے اور اگلے دن ہمبرگ جا کر کتاب کی اشاعت کے بغیر رونمائی کر دی۔اسے غائبانہ نمازِ جنازہ کے انداز کی غائبانہ تقریب رونمائی کہہ سکتے ہیں۔ہاں کتاب چھپنے کے بعد ایسا کرتے تو اسے غزل کی حاضرنمازِ جنازہ کہہ سکتے تھے۔ کیونکہ جس کلام پر ستیہ پال آنند اصلاح فرماتے رہے تھے ،وہ غزل کی نہیں پوری شاعری کی موت کا اعلان تھا۔یہ تو خواتین کے معاملہ میں ستیہ پال آنند کے عمومی کردار کی مثال ہے۔ادبی دنیا میں دیکھیں تو ادبی رسائل کے بعض مدیران کے ساتھ انہوں نے کچھ الگ قسم کے مراسم بنا رکھے ہیں۔ میں نام لیے بغیرانگریزی کی بجائے اردو میں صرف بطور علامت ایک مثال بیان کروں گا۔ستیہ پال آنندنے خود بتا یا تھا کہ میں فلاںرسالہ کے مدیر کی اہلیہ کو ہر سال عیدی کے طور پر ایک معقول رقم بھیجتا ہوں ۔
بھائی! رسالے کو سپورٹ کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔سیدھے سیدھے تعاون کرو۔کوئی عیدی کا بہانہ کرنا ہے تومدیر کے بچوں کے لیے عیدی بھیجو۔یہ بہنیں، بھانجیاں،بھتیجیاں،بہوئیں اور بیٹیاں بنانے کا کیا ڈرامہ ہے۔اردو دنیا میں اس حوالے سے پہلے ہی بہت کچھ شرم ناک ہو چکا ہے۔خواتین کا احترام ظاہر کرنا مقصود ہے تو کسی نام نہاد رشتے داری کے بغیر انسانی رشتے کے حوالے سے احترام کرو۔ اس نوعیت کی رشتہ داریاں ہمیشہ ”کھجل اور خوار“ کراتی ہیں۔خود ستیہ پال آنند کو جب ایک بار ارشد خالد سے باقاعدہ تحریری معافی مانگنا پڑی،وہ بھی ایک منہ بولی بیٹی کی وجہ سے اس حال کو پہنچے تھے۔بھانجیاں،بھتیجیاں،بیٹیاں،بہوئیں اور بہنیں بنانے والے اس مزاج کے بعض لوگوں کو میں نے بہت پہلے مشورہ دیا تھا کہ فیس بک پر” فین کلب“کی جگہ”بھَین کلب“ بنا لیں۔کسی رسالہ کے مدیر کے ساتھ تعلقات بنائے رکھنے کا باوقار طریقہ چھوڑ کر انہوں نے شہرت کے شارٹ کٹ والا طریق اختیارکیا۔
ایک اور شارٹ کٹ انہوں نے یہ اختیار کیا کہ چند نعتیہ نظمیں لکھ دیں۔اگر یہ نعتیہ نظمیں ان کے دل کی آواز ہیں تورسول کے صدقے اللہ انہیں جزائے خیر دے۔لیکن ان کے شہرت کے حصول کے لیے اختیار کیے جانے والے مختلف حربوں کو ذہن میں رکھا جائے تویہاں بھی یہی لگتا ہے کہ یہ بھی ایک خاص نسخہ ہے۔ ان کانعتیہ کلام ہندوستانی معاشرت کے حوالے سے مندر اور مسجد والوں کوقریب لانے کا باعث بن سکتا تھا۔لیکن یہ تو ان کا مقصدہی نہیں ہے۔مقصد صرف الگ الگ مقامات پر شہرت کمانا ہے۔اگر مندر میں نعت سناتے اور اردو تقریبات میں بھجن سناتے تو شاید کچھ نیک نیتی کا اندازہ ہوتا۔سماجی سطح پر کسی رواداری کو فروغ دینے کارویہ بھی ظاہر ہوتا۔لیکن یہاں تو ”با مسلماں اللہ اللہ ،با برہمن رام رام“والی بات ہے۔چلیں اس میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن یہ آپ کا سماجی طریق کار ہے۔اسے سماجی سطح پر رہنے دیا جائے۔ادب کے نام پر ایسا کیا جائے گا تو یہ مناسب طریقِ کار نہیں بلکہ خاص طریقۂ واردات کہلائے گا۔
نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ عربی ،فارسی روایات (اور بدھ روایات)،سے بھی ستیہ پال آنند نے کافی سارا استفادہ کیا ہے۔ایسا کوئی استفادہ یا اکتساب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،لیکن استفادہ کرنے والا تخلیق کار اس اکتساب سے تخلیقی سطح پر کچھ نیا بھی تو لے کر آئے،محض بھاری کم الفاظ اور بعض روایات کے اشارے دے کر لفاظی کرنے سے اچھی نظم تو نہیں ہو جاتی۔ عربی، فارسی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے نظم کہنے کے نام پرایسی لفاظی سے پھر آپ اردو والوں کی تقریبات میں شاید تھوڑی بہت داد حاصل کرلیں گے۔لیکن کیا ایسا کلام مندروں کے سمیلن میں بھی سنائیں گے؟
یہ ساری حرکتیں کسی تخلیقی تحرک کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ شہرت کمانے کی مختلف ترکیبیں ہیں۔ ان میں کوئی نیک مقصد یا کسی نوعیت کی عقیدت شامل دکھائی نہیں دیتی۔
اکتساب اور استفادہ سے آگے بڑھ کر ستیہ پال آنند نے سرقہ کا ارتکاب بھی کیا ہے اور بار بار کیا ہے۔میں انہیں اس حوالے سے سال ۱۹۹۹ء سے اب تک متعدد بار ان سرقات کی طرف متوجہ کر چکا ہوں۔ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم ”اک کتھا انوکھی“سے انہوں نے سرقہ کیا اور اپنی نظم ”دھرتی پران“لکھ ڈالی۔(۱)غلام محمد قاصر کی غزل کے اشعار درگا مندر امریکہ کے کوی سمیلن میں مزے سے اپنے کلام کے طور پرسنا دئیے۔جب چوری پکڑی گئی تو ایک ہی وقت میں ان کی طرف سے دو متضاد جواب آئے جن سے ان کے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹ گیا۔(۲)اردو غزل کو مضامین کے کلیشے بن جانے کے الزام سے مطعون کرتے کرتے خود غزل کے مضامین اُڑا کر نظم کہنے لگ گئے۔(۳)
یہ سارے حقائق مکمل ثبوت کے ساتھ ادبی دنیا کے سامنے پیش کیے جا چکے ہیں،اس کتاب میں بھی شامل ہیں۔ابھی تک انہوں نے تحریری طور پر ایک بار بھی اپنا دفاع کرنے کی جرات نہیں کی۔کسی نوعیت کی صفائی پیش نہیں کی۔
ستیہ پال آنند کی ادبی زندگی کے آغاز پر ایک پردہ سا پڑا ہوا ہے۔حقائق تک رسائی حاصل کر سکنے والے کسی دوست کو اس معاملہ میں غیر جانبدارانہ طریق سے تحقیق کرنا چاہیے۔میری معلومات کے مطابق ستیہ پال آنند نے ہندوستان میں پہلے انگریزی اور ہندی میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔پھر انہیں لگا کہ وہاں جتنا وسیع میدان ہے اس سے کہیں زیادہ سخت مقابلہ ہے۔چنانچہ ان کی آرام طلب اور عافیت کوش طبیعت نے اردو کو تختۂ مشق بنا لیا۔اگر واقعی ایسا ہی ہوا ہے تو اس عرصہ کی الگ الگ زمانی تقسیم کی جانی چاہیے تاکہ اندازہ ہو کہ اردو سے ان کی محبت کب جاگی اور یوں ان کی ادبی زندگی کے رنگ ڈھنگ پوری طرح واضح ہو سکیں۔
میں بار بار لکھ رہا ہوں کہ ستیہ پال آنند شہرت کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں۔اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ پہلے انہوں نے ارشد خالدمدیر عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کو ایک نازیبا ای میل بھیجی۔جب ارشد خالد نے انہیں ان کی زیادتی کا احساس دلایاتو حقائق جاننے کے لیے کچھ مہلت مانگ لی۔ان کا خیال تھا کہ چند دنوں میں بات رفت گزشت ہو جائے گی۔ارشد خالد نے مقررہ مہلت کے بعد انہیں یاد دہانی کرائی اور آڑے ہاتھوں لیا تو سیدھے معافی مانگنے پر اُتر آئے۔ان کی پہلی حرکت شہرت کے حصول کا حربہ تھا ، جب وہ حربہ ناکام ثابت ہوا توجان چھڑانے کی کوشش کی۔آسانی سے جان نہیں چھوٹی تو معافی مانگ کر جان چھڑائی۔یوں شہرت کے حصول کا یہ حربہ انہیں خاصا مہنگا پڑا۔کبھی کبھی ایسا بھی تو ہوجاتا ہے۔
ستیہ پال آنند ایک ہی وقت میں ۔۔۔دنوں کے فرق کے ساتھ نہیں ،گھنٹوں اور منٹوں کی پوری ہم آہنگی کے ساتھ ایک ہی وقت میں ایک طرف ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی امریکہ میں آمد کے موقعہ پران کی شان میں قصیدہ نما ایک انگریزی مضمون لکھ کر اور اسے امریکہ میں شائع کراکے ان کا استقبال کرتے ہیں۔اور اسی لمحے میں فیس بک پر عمران بھنڈر کی توصیف بھی کر رہے ہیں۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک ہی وقت میں کی گئی پبلک ریلیشننگ کی یہ ساری گیم بے نقاب ہو جائے گی۔ان کا خیال تھا کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا فیس بک سے کوئی واسطہ نہیں ہے،انہیں اس بات کا علم ہی نہیںہوپائے گا۔لیکن یہ بات انہیں لمحوںمیںڈاکٹر گوپی چند نارنگ تک پہنچ گئی، پھر ڈاکٹرنارنگ نے طویل کال کرکے ستیہ پال آنند کے ساتھ جو کچھ کیا،جو کچھ کہاوہ ستیہ پال آنند جانتے ہیں اور ان کا خدا جانتا ہے۔ میں یہ سارے حقائق اپنے مضامین میں پہلے سے شائع کر چکا ہوں،یہاں مختصراََ اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ ایک ہی مضمون میں ان کی شخصیت اور کردارکا یہ رُخ اچھی طرح سامنے آجائے کہ شہرت کے حصول کے لیے کوئی معیاری اور اچھی نظمیں لکھنے کا باوقار طریق اختیار کرنے کی بجائے ستیہ پال آنند کوئی بھی حربہ،کوئی بھی نسخہ کاری گری کے ساتھ استعمال کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔اور ایسی واردات کرتے ہوئے کئی بار رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔چند وارداتوں کا میں نے اشارتاً ذکر کردیا ہے۔
جب ہم جدید نظم کی بات کرتے ہیں تو میرا جی،راشد،اخترالایمان،مجید امجد،فیض احمد فیض اور وزیر آغاتک اچھے نظم نگاروں کی کئی اہم نظموں کا ذکر کرسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ یہ شعراءاپنی فلاں فلاں نظموں کے باعث ہی ادب کی دنیا میں زندہ رہیں گے۔لیکن ستیہ پال آنند کے بارے میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ ابتدا میں عمدہ تخلیق کار ہونے کے باوجود ان کے دامن میں ایک نظم بھی ایسی نہیں ہے جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ یہ ان کی بڑی نظم ہے اور اس نظم کو ان کی شناخت مان کر ادب میں ان کا نام زندہ رہے گا۔ہندوستان میں دو بڑے نقاد موجود ہیں۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی۔ یہ دونوں نقاداگر بتا دیں کہ ستیہ پال آنند کی کون سی نظم بڑی نظم ہے،جس کے حوالے سے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جاسکے گاتو میں بھی اس کا اقرار کر لوں گا۔۔۔۔بلکہ میں ستیہ پال آنند کو مزید سہولت دیتا ہوں۔انہوں نے چونکہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بارے انگریزی میں ایک نہایت خوشامدانہ مضمون لکھا ہوا ہے،جسے پڑھ کر ڈاکٹر نارنگ بھی ہنسے تھے۔چلیں وہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب سے ہی لکھوا دیں کہ ستیہ پال آنند اپنی فلاں نظم کے باعث ادب کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ایک نظم کا سوال ہے بابا!
میں نے اپنے مضمون”غزل بمقابلہ نظم“میں انہیں سیدھا سا مشورہ دیا تھا کہ:
” ان سے درخواست ہے کہ وہ غزل کے غم میں ہلکان نہ ہوں اور اچھی نظمیں کہنے پر توجہ دیں تاکہ پھر ان کا نام ان کی اچھی نظموں کی وجہ سے یاد رکھا جاسکے۔“
میرے مشورے کے بعد بھی انہوں نے شارٹ کٹ کی عادت ترک کرکے اچھی نظمیں کہنے کی طرف توجہ کی ہوتی تو اب تک ان کے دامن میں ایک دو اچھی نظمیں ضرور موجود ہوتیں۔اور اس عبرت ناک حال کو نہ پہنچے ہوتے کہ ہندوستان کے دو ممتاز نقاد مل کر بھی ان کے ہاںکسی ایک اچھی نظم کی نشان دہی نہ کرپائیں اور ایسے کسی مطالبہ پر خاموش رہنے کو ترجیح دیں۔
یہ ایک عمدہ تخلیق کار کا اپنے آپ پر اعتماد نہ کرکے بھٹک جانے کا المیہ ہے۔
افسانہ نگار ونظم نگارستیہ پال آنندکے تخلیقی طور پر بے برکتی کا شکار ہو کرضائع ہوجانے کی کہانی ہے!
لگتا ہے ستیہ پال آنند سے صرف اردو غزل نے ہی انتقام نہیں لیا،ان کے اندر کے افسانہ نگار نے بھی ان سے انتقام لیا ہے اور انہیں اس حال تک پہنچایا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ:
(۱)اس کی نشان دہی اس کتاب کے صفحہ نمبر ۷۲،۸۲پر موجود ہے۔
(۲)دو متضاد جواب دینے کی تفصیل اس کتاب کے صفحہ نمبر۴۳تا ۷۳پر ملاحظہ کریں۔
(۳)اس کے ناقابلِ تردید ثبوت اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۴۵اور ۹۵پر دیکھیں۔