’’سدھارتھ’‘ پر بات کرنے سے پہلے ہرمن ہیسے کے بارے میں چندمعروف باتیں دہرانا ضروری ہے۔ تاکہ جو قارئین ان سے واقف نہیں انہیں بھی اس کا علم رہے۔ ہرمن ہیسے کی پیدائش۲؍ جولائی ۱۸۷۷ء میں جرمنی کے شہرCalw/Württemberg میں ہوئی۔ خاندانی طور پر وہ ایک راسخ العقیدہ مسیحی پس منظر کا حامل تھا۔ تاہم اپنے مذہبی سسٹم کے جبر کے سامنے اسے مختلف صورتوں میں بغاوت کرنا پڑی۔ ۱۸۹۱ء میں وہ مذہبی تعلیم دینے والے اسکول سے بھاگ گیا۔ ایک موقعہ پر اس نے خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس کے ابتدائی ناولوں میں ایسی بے چینی ملتی ہے جو کسی جستجو میں بھٹکنے جیسی ہے۔ اس کا مذہبی سسٹم، اور اس کی سوسائٹی اس جستجو میں مزاحم ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ ۱۹۱۱ء میں ہرمن ہیسے نے سیلون، سنگا پور، سماٹرا اور انڈیا کا سفر کیا۔ ۱۹۱۲ء میں اس نے جرمنی کو خیر باد کہا۔ ۱۹۱۴ء کی پہلی جنگ عظیم کے وقت وہ جرمنی کی فوج میں رضاکارانہ طور پر شامل ہوا۔ نظر کی کمزوری کے باعث اسے محاذ جنگ پر بھیجنے کی بجائے جنگی قیدیوں کی نگرانی کی ڈیوٹی دی گئی۔ وہیں اسے جنگی قیدیوں کے ذریعے جنگ کے دوسرے رُخ کو دیکھنے کا موقعہ ملا، اسے جنگ سے نفرت ہو گئی اور اس نے رزمیہ شاعری کے خلاف لکھا۔ اس پر دائیں بازو کے متعصب قلم کاروں نے اسے غدار قرار دے کر اس کے خلاف مہم شروع کی، وہ پھر سوئٹزر لینڈ چلا گیا۔ اس نے تین شادیاں کیں۔ ازدواجی زندگی خوشگوار نہ تھی۔ شروع میں ایک بار ایک عالم نے اس کا روحانی علاج کرنا چاہا تھا۔ بعد میں ایک بار اس نے خود ژونگ سے اپنا نفسیاتی تجزیہ کرایا۔ یہ ۱۹۱۶ء کی بات ہے۔ در اصل اسی برس ہیسے کے والد کی وفات ہوئی، اس کا بیٹا ایک شدید بیماری کا شکار ہوا اور اس کی بیوی پاگل ہو گئی۔ اسی برس اسے ہم عصر دانشوروں کی بے حسی نے بھی گہرے بحران میں مبتلا کیا۔ ۱۹۱۹ء میں اس نے اپنی تحریروں اور جوابی خطوط کے ذریعے جرمن نوجوانوں کی ذہنی و روحانی جلا کے لیے کاوش کی۔ ۱۹۲۲ء میں اس کا ناول’’سدھارتھ’‘ شائع ہوا۔ ۱۹۲۳ء میں ہیسے کو سوئس نیشنلٹی مل گئی۔ ۱۹۴۶ء میں ہرمن ہیسے کو ادب کا نوبل پرائز دیا گیا۔ اس کے بعد سے اپنی وفات ۹؍ اگست۱۹۶۲ء تک اس نے اکا دکا دوسری تحریریں تو پیش کیں لیکن پھر کوئی نیا ناول نہیں لکھا۔ ہیسے کی تحریروں میں نازیوں کے خلاف کھلی سیاست تو نہیں ملتی لیکن اس کی تحریریں بین السطور ایسا تاثر قائم کرتی ہیں۔ اب ’’سدھارتھ’‘ کا خلاصہ ملاحظہ کیجیے :
سدھارتھ نامی ایک نوجوان برہمن گھرانے کا فرد ہے۔ اپنی مذہبی روایات سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس کرتے ہوئے اور اپنے اندر جنم لینے والے سوالات کے جواب کی تلاش میں وہ اپنے گھر کو خیر باد کہہ کر سادھوؤں کے ایک گروہ کے ساتھ چل پڑتا ہے۔ اس کا بچپن کا دوست گووند بھی اس کے ساتھ نکل آتا ہے۔ سادھوؤں کے ساتھ تین برس تک سدھارتھ نے بہت ریاضتیں کیں اور ان کے ثمرات کے طور پر بہت کچھ حاصل کیا۔ تین برس کے بعد اس نے گوتم بدھ کے بارے میں کچھ سنا اور پھر وہ گووند کے ساتھ گوتم بدھ سے ملنے کے لیے سادھوؤں سے الگ ہو جاتا ہے۔ گوتم بدھ سے ملاقات کافی ایمان افروز ہوتی ہے۔ گووند توگوتم بدھ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو جاتا ہے لیکن سدھارتھ گوتم کی عظمت اور روحانیت کو تسلیم کرنے کے باوجود اپنی جستجو کو خود مکمل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ گوتم بدھ سے رخصت ہو کر ایک نئے سفر پر نکلتا ہے۔ ایک ملاح واسو دیو اسے دریا کے دوسرے کنارے پہنچاتا ہے لیکن یہ اس سے معذرت کرتا ہے کہ میرے پاس تمہیں معاوضہ دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ دریا کے دوسرے کنارے سے وہ ایک شہر میں داخل ہوتا ہے۔ وہاں ایک طوائف کملاسے عشق کرتا ہے اور اس سے کام رس کی جانکاری حاصل کرتا ہے۔ اسی کے توسط سے ایک کاروبای شخص کے ہاں ملازم ہو جاتا ہے اور پھر خود ایک بڑے کاروبار اور باغ کا مالک بن جاتا ہے۔ جنسی لذت آفرینی اور دنیاوی دولت حاصل کرنے کے بعد ایک دن کسی کو بتائے بغیر سب کچھ تیاگ کے شہر سے نکل جاتا ہے۔ جنگل میں اپنے بچپن کے دوست گووند سے ملاقات ہوتی ہے۔ گووند اسے پہچان نہیں پاتا۔ جنگل سے سدھارتھ پھر اسی دریا کے کنارے پہنچتا ہے اور وہی ملاح واسو دیو اسے ملتا ہے۔ اس بار بھی اسے ملاح کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تعارف ہونے پر واسو دیو اسے اپنی جھونپڑی میں رہنے کی پیش کش کرتا ہے۔ چنانچہ وہ وہیں رہ پڑتا ہے۔ یہاں وہ واسو دیو کے ذریعے دریا کو سننے کے تجربہ میں پختگی حاصل کرتا ہے۔ سدھارتھ کے تیاگ کی خبر پا کر کملا اپنا پیشہ چھوڑ دیتی ہے اور گوتم بدھ کی چیلی بن کر اپنا باغ اور ساری دولت گوتم بدھ کے مشن کو سونپ دیتی ہے۔ جب گوتم بدھ کے وقت آخر کی خبر پھیلتی ہے تو ہندوستان بھر سے ان کے شاگرد اور عقیدتمند ان کی آخری زیارت کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ کملا بھی اسی مقصد کے تحت شہر سے نکلتی ہے۔ اس کا گیارہ سالہ بیٹا (جو در اصل سدھارتھ سے تھا) بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ واسو دیو کی ناؤ کے قریب کملا کو ایک سانپ ڈس لیتا ہے۔ واسو اور سدھارتھ اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران سدھارتھ اور کملا کے درمیان زندگی کی الوداعی اور محبت کی یاد تازہ کرنے والی ملاقات ہوتی ہے اور سدھارتھ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ جو بچہ ہے وہ اسی کا بیٹا ہے۔ کملا کی موت کے بعد سدھارتھ کا بیٹا اس سے باغی ہوتا ہے اور وہاں سے فرار ہو جاتا ہے۔ سدھارتھ اس کی تلاش میں دریا کے دوسرے کنارے سے پھر اسی شہر تک چلا جاتا ہے جہاں کملا سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ بیٹا نہیں ملتا اور واسو دیو اسے جھونپڑی میں واپس لے آتا ہے۔ دریا کنارے پر ایک بار پھر سدھارتھ کی گووند سے ملاقات ہوتی ہے اور اس بار بھی گووند اسے پہچان نہیں پاتا۔ گووند سدھارتھ کے وقتِ آخر میں سدھارتھ کے چہرے پر گیان کی روشنی دیکھتا ہے جو اس کی مسکراہٹ سے پھوٹ رہی تھی اور جس میں زندگی کے سارے رنگ یکجا ہوئے جا رہے تھے۔
ہرمن ہیسے نے اس ناول میں گوتم بدھ اور سدھارتھ کو دو الگ شخصیات کے طور پر پیش کیا ہے۔ سدھارتھ کو جب گیان نصیب ہوا تھا تو وہ عظیم گوتم بدھ کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ ہرمن ہیسے نے سدھارتھ کے نام کو اپنے ہیرو کے طور پر کیوں پیش کیا اور اسے گوتم بدھ سے الگ کیوں ظاہر کیا؟یہ سوال مسلسل میرے سامنے رہا۔ مجھے ایسا لگا کہ ہرمن ہیسے نے ہندوستان کے سفر کے دوران گوتم بدھ کا جو احوال سنا اُس کی روشنی میں اپنی زندگی کو دیکھنے کی کاوش کی۔ اس کاوش میں ہرمن ہیسے کو یہ احساس ہوا کہ وہ اپنے چند ازلی سوالوں کے ساتھ حقیقتِ عظمیٰ کی جستجو اور تلاش کا سفر تو کر رہا ہے لیکن اسے گوتم بدھ جیسے گیان کی منزل نصیب نہیں ہو سکتی۔ سو اس نے خود کو گیان کی روشنی سے پہلے والے سدھارتا کے مقام پر رکھا اور اسی نام کے ساتھ اپنی جستجو کا سفر شروع کیا جو ظاہر ہے ایک نا مختتم سفر ہونے کے باعث کبھی مکمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ تاہم اس سفر میں جو کچھ پیش آیا وہ سب بجائے خوداس کی زندگی کی روحانی واردات کا حصہ شمار کیا جا سکتا ہے۔
سدھارتھ نے ایک راسخ العقیدہ مذہبی گھرانہ میں آنکھ کھولی۔ وہاں کی ابتدائی تربیت تو آخر دَم تک اس کے مزاج میں شامل رہی لیکن اپنے مذہبی ماحول کی سخت گیر برہمنیت سے یا خشک ملائیت سے اسے بیزاری سی محسوس ہوئی۔ چنانچہ وہ اپنے برہمن باپ سے اپنی جستجو کے سفر پر روانہ ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔ باپ شروع میں سختی کے ساتھ منع کرتا ہے لیکن پھر اس کی ضد دیکھ کر اسے اجازت دے دیتا ہے۔ اپنے باپ کے جذبات و احساسات اُسے تب یاد آتے ہیں جب ایک عمر کے بعد کملا سے اس کا بیٹا، اس کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیتا ہے اور بدتمیزی کر کے اس کے پاس سے بھاگ جاتا ہے، تاہم سدھارتھ کی ضد میں باپ کا احترام شامل تھا کہ جانا بھی ہے اور اجازت لے کر جانا ہے۔ جبکہ اس کا بیٹا انتہائی گستاخی اور بد تمیزی کے ساتھ پیش آنے کے بعد خود ہی بھاگ جاتا ہے۔ اور اس کی تمام تر تلاش کے باوجود اسے نہیں ملتا۔ جیسے وہ خود پھر اپنے باپ کو نہیں ملا تھا۔
اپنی ابتدائی تربیت اور بعد کی ریاضتوں سے سدھارتھ تین بنیادی کام سیکھتا ہے۔ اس کے اپنے بقول:
میں سوچ سکتا ہوں۔ میں انتظار کر سکتا ہوں اور میں فاقہ کر سکتا ہوں۔ بظاہر یہ ایسے کام ہیں جن کا دنیا داری کے معاملات سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن حقیقتاً یہ ریاضتیں دنیا داری میں بھی اس کے کام آتی ہیں۔ سوچنا محض سوچنا نہیں ہے بلکہ سوچ کا وہ مخصوص صوفیانہ انداز ہے جس میں باقی سارے خیالات اور ہر سوچ کو جھٹک کر صرف کسی ایک سوچ پر پوری توجہ مرتکز کر دی جاتی ہے۔ ارتکاز کی صلاحیت سے پوری طرح کام لینا بلاشبہ بڑی ریاضت چاہتا ہے۔ انتظار کرنا بھی ایک بڑی خوبی ہے کہ جس کام کی تکمیل کے لیے ایک معین وقت درکار ہے، اس کے لیے انتظار کرنا لازم ہے، ورنہ بے صبری سے بنا بنایا کام بھی خراب ہو جاتا ہے۔ فاقہ کرنا، انتظار کے عرصہ میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ خالی جیب انسان فاقہ کر سکے تو دستِ سوال دراز کرنے سے بچ سکتا ہے۔ لیکن سدھارتھ نے تو بھیک مانگنے کا کام بھی سیکھا ہوا تھا، یہ بھیک مانگنے کا کام نفس کشی کے مراحل میں اس کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔ گناہ سے نجات کے دو طریقے اس ناول میں سامنے آتے ہیں۔ ایک تو سادھوؤں والا معروف تیاگ اورتجرد پسندی والا طریق ہے۔ دوسرا سدھارتھ کا کملا سے عشق والا طریق۔ مجھے اس پر اپنے ایک بزرگ کا فرمان یاد آیاکہ گناہ کو بیزار کی طرح ہو کر ترک کرو۔ میں اس کا سادہ سا مفہوم یہ سمجھتا ہوں کہ ایک بار میں اتنا گناہ کر لو کہ خود ہی اس سے بیزار ہو جاؤ۔ سدھارتھ نے کملا کے عشق میں کچھ ایسا ہی کیا۔
اس ناول میں متعدد فکری سوالات اور شبہات بھی سامنے آتے ہیں اور فلسفہ و روحانی جستجو کے ایسے اشارے بھی ملتے ہیں جو پنڈتوں، پادریوں اور مولویوں کی طویل تقریروں پر بھاری ہیں۔ چند مثالیں پیش ہیں :
۱۔ ’’کیا ضرورت تھی کہ وہ جس پر کوئی الزام نہ تھا اپنے پاپ دھوئے جائے اور روزانہ نئے سرے سے اپنے آپ کو پوتر بنانے کی کوشش کرے؟کیا آتما خود اس میں نہیں رہتی تھی؟ کیا وہ ماخذ خود اس میں نہیں تھا؟ خود اپنے اندر اس ماخذ کو ڈھونڈنا چاہیے، اسے حاصل کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ باقی سب کچھ سراب کے پیچھے بھاگنا ہے۔ ’‘
۲۔ ’’گیان کیا ہے؟آتم تیاگ کیا ہے؟برت کیا ہیں ؟دَم سادھ لینا کیا ہے؟یہ سب ذات سے فرار ہے۔ ’‘
۳۔ ’’ہر شے کے جوہر میں ایسی چیز ہے جسے ہم علم نہیں کہہ سکتے۔ میرے دوست علم صرف ایک ہے جو ہر جگہ ہے، جو آتما ہے، جو مجھ میں اور تم میں اور ہر شے میں ہے، اور مجھے یقین ہوچلا ہے کہ اس علم کاسب سے بڑا دشمن نام نہاد عالم ہے’‘
۴۔ ’’میں ساری مذہبی تعلیمات پر شبہ کرنے لگا ہوں اور مجھے ان الفاظ پر کم ہی یقین ہے جومذہبی استادوں کی زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ ’‘
۵۔ ’’یہ بھی میں نے دریا سے سیکھا ہے، ہر چیز لَوٹ کے آتی ہے۔ ’‘
۶۔ ’’اس نے دریا سے ایک ہی بھید پایا ہے، ایسا بھید جس نے اس کی آتما کو جا پکڑا۔ اس نے دیکھا کہ پانی بہتا ہے اور بہے جاتا ہے اور پھر بھی ہمیشہ وہیں رہتا ہے۔ پانی ہمیشہ ایک سا رہتا ہے اور پھر بھی ہر لمحے نیا ہوتا ہے۔ ’‘
۷۔ ’’کیا اس بات سے تمہارا مطلب یہ ہے کہ دریا ایک ہی وقت میں ہر جگہ ہوتا ہے، اپنے منبع پر اور اپنے دہانے پر، جھرنے اور گھاٹ پر، بھنور میں اور سمندر میں، پہاڑوں پر۔ ۔ ہر جگہ اور اس کے لیے صرف لمحۂ موجود ہوتا ہے۔ نہ گزشتہ کا سایہ، نہ آئندہ کا سایہ۔ ’‘
اپنے مخصوص مذہبی سسٹم کے جبرسے بیزار ہو کر سادھوؤں کے ساتھ ترکِ دنیا کرنے والا سدھارتھ، سادھوؤں اور گوتم بدھ سے جدا ہونے کے بعد براہ راست دنیا داری میں آ جاتا ہے لیکن اس دنیا داری میں بھی ایک دن سب کچھ چھوڑ کر پھر سے تیاگ کی طرف نکل جاتا ہے۔ خود کما کر دنیا بنانے کے بعد تیاگ کے عمل سے گزرتے ہوئے سدھارتھ نے ملاح واسو دیوکے ہاں بسیرا کر لیا تھا۔ ملاح کی دوستی نے سدھارتھ کو دریا سے قریب کر دیا۔ وہ دریا کی آوازیں سننے لگا اور دریا کے ذریعے ہی اس نے اپنی توفیق کا گیان حاصل کیا۔ یوں واسو دیو عام زندگی کا ایک ایسا کردار ہے جو کوئی عالم نہ ہوتے ہوئے جنگل اور دریا کے کناروں پر فطرت سے براہِ راست فیض یاب ہو کراس کے بھیدوں سے آشنا ہوتا ہے۔ واسودیو کا کردار خاموش طبع ہونے کے باوجود دریائی صفات سے لبریز دکھائی دیتا ہے۔ واسو دیو کی موت کے بعد سدھارتھ گووند کونروان کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے، اس کے بارے میں کچھ یوں بتاتا ہے:
’’نروان خیال بھی ہو سکتا ہے مگر میرے دوست! مجھے اعتراف ہے کہ میں خیالات اور الفاظ میں زیادہ فرق نہیں کرتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خیالات کو بھی زیادہ اہم نہیں سمجھتا۔ مثلاً ناؤ پر ایک آدمی ہوا کرتا تھا جو میراپیش رو اور میراگروتھا۔ وہ ایسا مُنی تھا جو بہت برسوں تک دریا کو دھرم سمجھتا رہا اور دریا کے سوا کسی کی بھگتی نہیں کی۔ اس نے دیکھا کہ دریاکی آواز اس سے کچھ کہتی ہے۔ اُس نے اِس سے سیکھا۔ اس کی آواز نے اسے پڑھایا، اسے سکھشا دی۔ دریا اسے دیوتا سمان معلوم ہوتا اور بہت برسوں تک اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ ہوا کا ہر جھونکا، ہر بادل، ہر چڑیا، ہر کیڑا بھی اتنا ہی الوہی ہوتا ہے اور اتنا ہی جانتا ہے اور سکھا سکتا ہے۔ مگر جب وہ جنگل میں لَوٹ گیا تو اسے سب معلوم تھا۔ اسے مجھ سے اور تم سے زیادہ معلوم تھا، بغیر کسی گُرو کے، بغیر کتابوں کے، کیونکہ وہ دریا کو دھرم سمجھتا تھا’‘
سدھارتھ کا بچپن کا دوست گووند گوتم بدھ کا چیلا بن جاتا ہے تاہم سدھارتھ کو دوبار راستوں میں ملتا ہے۔ ایک بار جب وہ اپنی دولت اور کملا کو تیاگ کر جنگل میں جا نکلتا ہے اور دوسری بار جب گووند دریا پار کرنے کے لیے سدھارتھ کی ناؤ میں بیٹھتا ہے لیکن دونوں بار ہی وہ سدھارتھ کو پہچان نہیں پاتاکہ پہلی بار وہ ایک مالدار کے روپ میں تھا اور دوسری بار ایک ملاح کے روپ میں۔ ۔ تاہم آخری ملاقات میں گووندکو سدھارتھ کے چہرے پر گیان کی مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے، وہی مسکراہٹ جو اس نے ہمیشہ گوتم بدھ کے پر نور چہرے پر دیکھی تھی۔ یہ مکاشفہ نما تجربہ اپنی جگہ ایک مکمل روحانی واردات بن جاتا ہے۔
گووند نے سدھارتھ کے چہرے کو دیکھا تو وہاں لاتعداد چہروں کی فلم سی چل رہی تھی۔ اس نے ایک مچھلی کا تکلیف سے کھلا ہوا منہ دیکھا اور پھر اسے مرتے ہوئے دیکھا، ایک نوزائیدہ بچے کا چہرہ دیکھا جس پر بڑھاپے کی جھریاں پڑی ہوئی تھیں، پھر اس نے ایک قاتل کو دیکھا جوکسی کو چھُرے سے قتل کر رہا تھا اور اسی لمحہ میں اس قاتل کو سزائے موت پاتے دیکھا۔ اس نے مردوں اور عورتوں کو ننگ دھڑنگ سرورو مستی کی حالت میں لپٹے ہوئے اور عشق کے مراحل طے کرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے ایسی ہزاروں، بلکہ ان گنت شکلیں دیکھیں جو ایک دوسرے سے محبت اور نفرت کے رشتوں میں بندھی ہوئی تھیں۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کو تباہ اور ہلاک بھی کرر ہی تھیں اور پھر اسی وقت نیا جنم بھی لے رہی تھیں۔ یہ سب فانی شکلیں تھیں لیکن پھر بھی ایک نئی شکل کے ساتھ دوبارہ سامنے آ جاتیں ان سارے رشتوں میں ایک ٹھہراؤ بھی تھا اور ایک بہاؤبھی تھا۔ اس طور کہ وہ ایک دوسرے کو تباہ کرتے ہوئے ایک دوسرے میں ضم ہو رہی تھیں۔ یہ سب کچھ گووند کو سدھارتھ کے چہرے کی مسکراہٹ میں دکھائی دے رہا تھا۔ یہ مسکراہٹ ہی اس کے نصیب کے گیان کی روشنی تھی۔ اس ناول کا اختتام اسی روحانی تجربہ پر ہو جاتا ہے۔
سدھارتھ کی مجموعی شخصیت کو دیکھیں تو یہ ایک ایسی مضطرب روح ہے جو علم کی بجائے دانائی کی کھوج میں ہے۔ جو ترکِ دنیا کر کے بھی دنیا سے دور نہیں جا پاتی اور دنیا کے اندر اتر کر بھی اپنے اندر کے تیاگی سے نجات نہیں پا سکتی۔ یہی اس کی اصل کشمکش ہے۔ سدھارتھ کی روح در حقیقت ہرمن ہیسے کی روح ہے اور ہرمن ہیسے نے دانش مشرق سے استفادہ کرتے ہوئے، گوتم بدھ سے اکتساب و اختلاف کرتے ہوئے اسی کے نام کا سہارا لے کر ’’سدھارتھ ‘‘ میں اپنے اندر کے اضطراب اور بے چینی کو فنکارانہ طریق سے پیش کر دیا ہے۔ مجھے اس ناول کے مطالعہ نے قلبی و روحانی مسرت سے ہمکنار کیا ہے۔