لبّیک الہمّ لبّیک
قل ان کانت لکم الدّارالآٓخرۃ عنداللہ خالصۃ من دون الناس فتمنو الموت ان کنتم صادقینO ولن یتمنوہ ابداً بما قدمت ایدیھم ط واللہ علیم بالظٰٰلمینO (سورۃ البقرۃ۔ آیت ۹۴۔ ۹۵)
(ترجمہ:تو ان سے کہہ اگر اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر (باقی) لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے ہے، تو اگر تم [اس دعویٰ میں ] سچے ہو تو موت کی خواہش کرو۔ (یاد رکھو کہ) جو کچھ ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں، اس کے سبب سے وہ کبھی بھی (موت کی)تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے جنوری ۲۰۰۹ء میں ایک خواب کے ذریعے واضح طور پر بتایا گیا کہ ۳؍دسمبر کو میری وفات ہو گی۔ میں یہ تحریر نومبر کے آخری عشرہ میں لکھ رہا ہوں اور قارئین تک تب پہنچے گی جب ۳؍دسمبر ۲۰۰۹ء گزر ہو چکا ہو گا۔
زندگی کے معاملہ میں دو جمع دو چار کی طرح کوئی دو ٹوک اور حتمی بات کہہ کر گزر جانا ممکن نہیں۔ ہر انسان کی زندگی اس کے اپنے ڈھب سے ہوتی ہے۔ زندگی نے اس کے ساتھ کیا کیا اور اس نے زندگی کے ساتھ کیا کیا؟ دونوں معاملات ہی ہر انسان کی ذات اور اس کی اپنی کائنات کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ میری چھوٹی سی کائنات خاندانی سطح پر میرے والدین، بہن بھائیوں، بیوی، بچوں اور ان سب سے منسلک رشتہ در رشتہ کہکشاں پر مشتمل ہے۔ ان سارے رشتوں کا ذکر اذکار میرے، خاکوں اور یادوں میں نمایاں طور پر اور دوسری اصناف میں بھی کسی نہ کسی رنگ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اب کہ عمر کے اس حصے میں ہوں جب بندہ اِس دنیا سے آگے کی دنیا میں جانے کے لیے بوریا بستر باندھنے میں لگا ہوتا ہے، میں نے بھی کچھ عرصہ سے اپنا بوریا بستر باندھنا شروع کر رکھا ہے۔ اگلی دنیا میں جانے کی تیاری کے ساتھ اِس دنیا سے لذت کشید کرنے کا عمل بھی میں نے کم نہیں ہونے دیا۔ میری اہلیہ مبارکہ ان معاملات میں ایک حد تک میرے ساتھ ہے اور ایک حد تک مزاحمت کر رہی ہے۔ اس دنیا کے معاملات میں تو نہ صرف اس نے مزاحمت نہیں کی بلکہ بڑی حد تک پردہ پوشی بھی کی ہے۔ البتہ اگلی دنیا کے معاملہ میں اس نے شدید مزاحمت کر رکھی ہے۔ اس حوالے سے جو تازہ ترین صورتحال ہے اسے بعد میں بیان کروں گا پہلے گزرے دنوں کا کچھ ذکر ضروری ہے۔
۱۹۹۶ء میں مبارکہ کوRheumatism کی بیماری کی ابتدا ہوئی تھی۔ پہلے تو بیماری کی نوعیت سمجھ میں نہیں آئی۔ پتہ نہیں یہ’‘ روئے ماٹ ازم’‘ کونسی اللہ ماری ولایتی بیماری لا حق ہو گئی ہے۔ ہم نے تو سوشلزم، کمیونزم، کیپٹل ازم کے نام ہی سن رکھے تھے اور مبارکہ کو ان میں سے کسی سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ بہر حال بیماری کی نوعیت کا جب کچھ کچھ اندازہ ہوا تو اس کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے میں نے ۱۹۹۶ء ہی میں ایک غزل میں کہا تھا:
دیکھو مجھے اس حال میں مت چھوڑ کے جانا دل پر ابھی میں نے کوئی پتھر نہیں رکھا
پھر مبارکہ نہ صرف اس بیماری کی عادی ہو گئی بلکہ Rheuma نے بھی اس کے ساتھ دوستانہ برتاؤ شروع کر دیا۔ بارہ تیرہ برس علاج معالجہ کے ساتھ آرام سے گزر گئے۔ مبارکہ کی علالت اور اپنے شروع میں بیان کردہ خواب کا مزید ذکر ذرا آگے چل کر۔ ۔ ۔ ۔ یہاں یادوں کے اس نئے باب کے تناظر میں اپنی پرانی تحریروں کا تھوڑا سا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
بیسویں صدی کے آخری سرے پر لکھی گئی میری یادوں کے باب ‘’دعائیں اور قسمت’‘ کا اختتام ان دعائیہ الفاظ پر ہوتا ہے۔
‘’اب یہی دعا ہے کہ ایسی ہی دافع البلیّات دعاؤں کے سائے میں زندگی کا یہ سفر آسانی کے ساتھ، حفاظت کے ساتھ، اور بے حد آرام و سکون اور اطمینان کے ساتھ مجھے اگلی دنیا میں لے جائے۔ موت میرے لئے دُکھ کا مُوجب نہیں راحت کا مُوجب بنے۔ ہجر کا احساس نہیں بلکہ وصل کا پیغام ہو اور وصل کا راحت بھرا پیغام تو جب بھی آئے، عشّاق کی خوش نصیبی ہوتا ہے۔ ’‘
یہ کوئی دنیا کو جتانے یا بتانے کا رویہ نہیں ہے بلکہ زندگی کے مقابلہ میں موت کے تئیں میرا یہ رویہ میری ابتدائی شاعری سے اب تک کسی کسی نہ رنگ میں آتا چلا گیا ہے۔ زندگی اور موت کے معاملہ میں میرا رویہ میرے مزاج کی ترجمانی کرتا ہے۔ مثلاً میرے شعری مجموعوں کی بالکل ابتدائی غزلوں سے لے کر اب تک کی شاعری کے یہ اشعار دیکھیں۔
موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب
زندگی! جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیں
دیکھا خلوص موت کا تو یا د آ گیا
کتنے فریب دیتی رہی زندگی مجھے
چلو پھر آنکھیں کرو چار موت سے حیدرؔ
پھر آج موت کی آنکھوں میں زندگی بھر دو
زندگی! دیکھ بجھتے ہوئے لوگ ہم
بزمِ جاں میں چمکتے رہے رات بھر
ابھی ممکن ہی نہیں قرض چکانا تیرا
زندگی! قرض ترا ہو گا ادا میرے بعد
موت کی بھی حقیقت انہیں سے کھلی
زندگی کے جو دل میں دھڑکتے رہے
موت کو چھو کے دیکھنا ہے ذرا
زندگی، اپنی دیکھی بھالی ہے
گزشتہ برس میری دو غزلوں میں اس حوالے سے زیادہ کھلا اظہار سامنے آیا:
کفن مرے لیے دامانِ یار ٹھہرے گا
چلوں گا کوچۂ دلدار میں لحد کے لیے
تمام خواہشیں حیدرؔ کبھی کی چھوڑ چکے
کہو تو خود سے بھی اب ہم کنارا کرتے ہیں
ایسے اشعار کے زمانی تسلسل کے درمیان میں کہیں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا جب موت مجھے کچھ دیر تک دیکھتی رہی۔ ساتھ لے جانے کا ارادہ کیا، زندگی کے ساتھ کچھ دیر کے لیے الجھی، مگر پھر خاموشی سے واپس چلی گئی۔ اُس وقت کی کیفیات میری تب کی ایک غزل میں موجود ہیں۔
موت آئی ہوئی ہے مجھے لینے کے لیے اور
یہ زندگی پاس اپنے ہی رکھنے پہ اڑی ہے
ہے زندگی و موت میں اک معرکہ برپا
جیتے کوئی، ہم پر یہی اک رات کڑی ہے
دیکھو ہمیں ہم ہنستے ہوئے جانے لگے ہیں
کچھ جان پہ گزری ہے نہ نزع کی تڑی ہے
ہمبرگ کے خالد ملک ساحل صاحب کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مجھے اپنی بالکل ابتدائی شاعری کے دو شعر یاد آ گئے۔ یہ غزل ہفت روزہ مدینہ بھاولپور میں ۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۷ء کے درمیانی عرصہ میں کہیں چھپی تھی، میرے کسی مجموعہ میں شامل نہیں ہے۔ لیکن اس کے ان دو اشعار سے موت کے تئیں میرے رویہ اور بالخصوص ابتدائی رویہ کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
کوئی آوارہ ہے یا بھٹکی ہوئی ہے زندگی
موت کی نظروں میں جو کھٹکی ہوئی ہے زندگی
شور سنتے تھے بہت لیکن حقیقت اور ہے
ایک ہی تو سانس پر اٹکی ہوئی ہے زندگی
۲۶جنوری ۲۰۰۹ء کو میں نے صبح چار بجے کے لگ بھگ ایک خواب دیکھا۔ اس میں مجھے تاریخِ وفات ۳؍دسمبر بتائی گئی۔ خواب میں سَن نہیں بتایا گیا لیکن بیداری پر مجھے اس کی جو تفہیم ہوئی اس کے مطابق سال ۲۰۰۹ء ہی میں وفات ہو گی۔ اس تفہیم کے ساتھ ایک بار پھر غنودگی کی کیفیت ہوئی اور اس میں یہ قرآنی الفاظ میرے ہونٹوں پر جاری ہوئے: انی متوفیک۔ یعنی بے شک میں تجھے وفات دوں گا۔
میں نے اسی روز صبح پانچ بجے سبز رنگ کی جلد والی اپنی نوٹ بک کے بائیں جانب اندر کے پہلے صفحہ پر وہ خواب، اوراس کی تعبیر و تفہیم درج کر دی، اپنے دستخط بھی کر دئیے۔ اسی روز اپنے چھوٹے بیٹے طارق کو وہ نوٹ بک دکھا کر بتا دیا کہ دسمبر۲۰۰۹ء میں اگر کچھ رونما ہو جائے تو اس تحریر کو خود بھی پڑھ لینا اور بہن بھائیوں کو بھی پڑھا دینا۔ ساتھ ہی اسے کچھ اور ہدایات بھی دیں۔ لیکن ہوا یہ کہ طارق نے دو چار دن تک تو صبر سے کام لیا لیکن پھر گھبرا کر اپنی ماں کو اس بارے میں بتا دیا۔ مبارکہ کو خواب کی کچھ حقیقت کا اندازہ ہوا تو وہ خود بیمار پڑ گئی۔ یہاں تک کہ ۶ فروری کو ایمبولینس بلانا پڑ گئی۔ ہفتہ بھر صورتحال اتنی زیادہ نازک رہی کہ ڈاکٹرز نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنی طرف سے بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ بچ جانے کے چانسز ہیں تو سہی لیکن بہت کم۔ کیونکہ قوتِ مدافعت کمزور ہوتے ہی Rheuma نے تقریباً تمام مرکزی اعضا پر حملہ کر دیا ہے۔ ان آرگنز کو بچانے کے لیے جن دواؤں کو دیا جا سکتا ہے وہ موجودہ صورت میں جتنی مفید رہیں گی، سائڈ ایفیکٹ میں اس سے زیادہ نقصان دہ ہوں گی۔ عجیب مشکل اور پیچیدہ صورتحال تھی۔ بہر حال دعا اور دوا دونوں کے نتیجہ میں مبارکہ نے ایک مہینہ کے لگ بھگ عرصہ میں بیماری کو کچھ کوَر کر لیا۔ شیمو تھراپی جو کینسر کے مریضوں کے لیے ہوتی ہے، اس کا پانچ فیصد چھ مہینوں میں آزمانے کا طے ہو گیا۔ پانچ مہینوں میں مبارکہ اس حد تک صحت یاب ہو گئی کہ مجھے باقاعدہ ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگی۔ کامیاب شوہر بخوبی جانتے ہیں کہ بیوی جب شوہر کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ پوری طرح سے صحت یاب ہو چکی ہے۔ وگرنہ ناکام و نامراد شوہر تو بیوی سے سرِ عام جوتے یا دھکے کھا کر بھی کچھ نہیں سمجھ اور سیکھ پاتا، البتہ اس کے انجام سے لوگ سبق ضرور سیکھ لیتے ہیں۔
مبارکہ کی حالت سنبھلنے تک ۲۰۰۸ء کے آخر میں دی گئی، میری بائیں آنکھ کے موتیا کے آپریشن کی تاریخ آ گئی۔ اطہر خان جیدی جو پاکستانی مزاحیہ ڈرامہ کا ایک معروف نام ہیں، ان کا ایک شعر حسبِ حال ہو گیا۔
ہم نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا
۲؍مارچ کو آپریشن ہوا اور اسی دن مجھے چھٹی بھی مل گئی۔ دو تین دن احتیاط سے کام لیا اور پھر اپنی معمول کی ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد دوسری آنکھ کے آپریشن کی تجویز دی گئی تھی۔ چند مہینوں کے بعد جب اس کی نوبت آئی، دائیں آنکھ کے کنارے پر نیچے کی جانب ایک چھوٹا سا دانہ نکل آیا۔ بس اس دانے کے ختم ہونے تک آپریشن موخر کر دیا گیا۔ جو تا حال موخر چلا آ رہا ہے۔ لیکن یہ تاخیر تو بعد کی بات ہے۔ فی الحال بات ہو رہی تھی مبارکہ کی اپنی سنگین بیماری کے وارسے بچ کر گھر واپس آ جانے کی۔
مبارکہ کا بہتر حالت میں گھر واپس آنا خدا کا بہت ہی خاص فضل تھا۔ گردوں کی کارکردگی متاثر ہو نے کے باعث اس کے پورے جسم سے پانی رِستا تھا۔ خوشی سے بھیگنا اور غم میں آنسوؤں سے بھیگ جانا تو ہماری دنیا میں ہوتا ہے لیکن بیماری سے اس طرح بھیگنا ہمارے ہاں پہلا تجربہ تھا۔ جسم بھی کسی حد تک پھول گیا تھا، تاہم تھراپی کرانے کے نتیجہ میں حالت تدریجاً بہتر ہوتی جا رہی تھی۔ اس دوران مبارکہ کو نہانے کے لیے تو مدد کی ضرورت نہ ہوتی لیکن نہانے کے بعد کھڑا کرنے اور ٹب میں سے باہر نکالنے میں مجھے بہت زیادہ ہیلپ کرنا پڑتی۔
اپنے افسانہ’‘گھٹن کا احساس’‘ میں ایک بار اپنی بیوی کے ساتھ ہوئی بات کو میں نے یوں لکھا ہوا ہے۔
‘’ نہاتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنی پوری کمر پر نہیں پھِرسکتاتھا۔ ماں کا کمر پر صابن مَلنا یادآتاتواس کا جی چاہتا کاش ماں زندہ ہوتی اور اب بھی میری کمر پر صابن مَل دیتی۔ ایسے ہی خیالوں کے دوران ایک بار اُس نے اپنی بیوی کو عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ اس کی بیوی نہ صرف اس کی ماں کی بھتیجی تھی بلکہ بڑی حد تک اس کی ماں کی ہم شکل بھی تھی۔ اس نے اپنی بیوی سے اس خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ نہاتے وقت اس کی کمر پر صابن مَل دیا کرے۔ اس کی بیوی تھوڑا ساشرمائی پھر کہنے لگی:
‘’مجھ سے یہ فلموں والے باتھ روم کے سین نہیں ہوسکتے’‘
وہ بیوی کے جملے پر مسکرایااور سوچایہ پگلی کہاں جا پہنچی۔ یوں بھی باتھ روم میں اتنی جگہ ہی کہا ں ہے کہ وہ بھی میرے ساتھ سما سکتی۔ ’‘
اور اب صورتحال یہاں تک آ پہنچی تھی کہ ہم انڈین فلموں کے باتھ روم سے بڑھ کر انگریزی فلموں کے باتھ روم والے سین جیسی صورتحال سے گزر رہے تھے۔ مبارکہ کا وزن بہت بڑھ گیا تھا اس لیے اس سین کا مزہ تو کیا لیا جاتا، میرا سانس ہی پھولنے لگتا۔ یہ سانس پھولنے کا سلسلہ بڑھا تو ڈاکٹر سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر نے ای سی جی تک کے اپنے سارے ٹیسٹ کرنے کے بعد مجھے ہسپتال ریفر کر دیا۔ ہسپتال والوں نے ٹیسٹ کے کئی مراحل سے گزارنے کے بعد بتایا کہ دل کا کوئی وال (شریان)بند ہے۔ انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی دونوں کام ایک ساتھ کر دئیے جائیں گے۔ اس کے لیے یکم اکتوبر کی تاریخ دے دی گئی۔
انہیں دنوں میں ایک نئی غزل ہوئی، جس کے یہ اشعار جیسے ۳؍دسمبر کے لیے ذہنی تیاری کی غمازی کر رہے تھے۔
دردِ دل کی ہمیں اب کے وہ دوائی دی ہے
اپنے دربار تلک سیدھی رسائی دی ہے
اک جھماکا سا ہوا روح کے اندر ایسے
نوری برسوں کی سی رفتار دکھائی دی ہے
کیسے زنجیر کا دل ٹوٹا یہ اُس نے نہ سُنا
وقت نے قیدی کو بس فوری رہائی دی ہے
اک نئی لمبی مسافت کا زمیں زاد کو حکم
اور اس بار مسافت بھی خلائی دی ہے
جب بھی جانا ہے پلٹ کر نہیں دیکھیں گے کہیں
اپنے اندر سے یہ آواز سنائی دی ہے
اکیس ستمبر کو عید الفطر تھی، عید بہت اچھی گزری۔ سارے بچے گھر پر جمع ہوئے۔ پانچ بیٹے بیٹیاں، پانچ بہوئیں اور داماد، دس پوتے، پوتیاں اور نواسے۔ ۔ گھر پر اتنی رونق تھی کہ ہم دونوں تھک گئے۔ بائیس ستمبر کو میں ڈٹسن باخ میں خانپور کے زمانے کے ایک دوست وزیر احمد صاحب کو ملنے چلا گیا۔ شام کو گھر آیا تو مبارکہ کی طبیعت خراب تھی، بخار ہو گیا تھا۔ رات گئے تک بخار میں شدت آ گئی اور صبح تک حالت اتنی بگڑ گئی کہ اس کی لیڈی ڈاکٹر فراؤ ہے نگ، (Frau Hennig) کو گھر پر بلانا پڑا۔ ڈاکٹر نے مبارکہ کی حالت دیکھتے ہی ایمبولینس منگا لی۔ جاتے وقت مبارکہ پر غشی سی طاری تھی۔ اسے قریبی شہر ہوف ہائم کے ہسپتال میں لے جایا گیا۔ ۲۴ تاریخ تک حالت اتنی بگڑ گئی کہ اسے صوبائی صدر مقام ویز بادن کے اس ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں پہلے سے اس کا ‘’روئے ما ‘‘کا علاج چل رہا تھا۔ انتہائی نگہداشت والے کمرہ میں جب ہم دیکھنے کے لیے پہنچے تو دل دھک سے رہ گیا۔ وہاں کے ڈاکٹر ز نے کہا کہ ہم بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن اس طرح کے کیسز میں بچنے کا صرف ایک فی صد چانس ہوتا ہے۔ جو بچہ اندر آتا اور رونے لگتا میں اسے باہر بھیج دیتا۔ رفتہ رفتہ بچوں نے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا شروع کیا۔
میں تو مستقل طور پر مبارکہ کے سرہانے کھڑا ہوا تھا، بچوں کو دو سے زیادہ تعداد میں آنے کی اجازت نہ تھی۔
جب بھی کوئی بچہ آتا۔ میں پوچھتا یہ کون ہے؟ آواز نہیں آتی تھی لیکن مبارکہ کے ہونٹ اس طرح ہلتے جس سے بچے کا نام ادا ہوتا ہوا پورا سمجھ میں آتا۔ حالت تو غیر ہی تھی لیکن تیسرے دن دو دلچسپ باتیں ہوئیں جس سے مجھے کچھ تسلی ہونے لگی۔ میں نئے کپڑے پہن کر ہسپتال پہنچا۔ مبارکہ نے آنکھ کھولی تو مجھے دیکھ کر کہنے لگی۔ ‘‘کتھے چلے او’‘ (آپ کہاں جا رہے ہیں ؟)۔ جب بیوی بے ہوشی اور بے خبری کی حالت میں بھی نگرانی کی اس حد تک آ جائے تو اسے کون بے ہوش یا بے خبر کہے گا۔
جب سارے بچے باری باری آ کر ماں سے مل چکے تو مبارکہ نے دوسری طرف پڑی ہوئی کرسی کی طرف آنکھ سے اشارہ کر کے کہا آپ اب وہاں بیٹھ جائیں۔ مجھے ان دونوں باتوں سے کافی تسلی ہو گئی۔ لیکن کمال یہ ہے کہ جب مبارکہ بالکل صحت یاب ہو گئی تو اسے ان باتوں میں سے کچھ بھی یاد نہ تھا۔ صرف اتنا یاد تھا کہ بچوں کی پرچھائیاں سی دکھائی دیتی تھیں اور بس۔
مجھے اندازہ ہے کہ اصلاً مبارکہ کو اندر سے یہ خوف ہے کہ میں دنیا سے کوچ کرنے والا ہوں۔ فروری والی بیماری کے دوران میں نے اسے بڑے رسان سے کہا تھا کہ مبارکہ بیگم!آپ زیادہ فکر مت کریں، میں پہلے چلا گیا تو جاتے ہی آپ کو بلوا لوں گا۔ آپ پہلے چلی گئیں تو میں بھی زیادہ دیر یہاں نہیں رہوں گا، آپ کے پیچھے پیچھے ہی چلا آؤں گا۔ لیکن شاید ہم دونوں کے درمیان اہلِ لکھنؤ کے ‘’پہلے آپ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے آپ’‘ کے برعکس ’‘پہلے میں۔ ۔ ۔ پہلے میں ‘‘ کا مقابلہ چلا ہوا ہے۔ اس چکر میں شاید موت کا فرشتہ بھی کنفیوز ہو رہا ہے کہ ان دونوں میاں بیوی نے مجھے کس چکر میں ڈال دیا ہے۔ پہلے کسے لے جاؤں ؟
۲۹؍ستمبر ۲۰۰۹ء کو مبارکہ ابھی انتہائی نگہداشت والے روم میں تھی، گردن میں، ہاتھ پر، سینے پر، بازو پر مختلف کنکشنز لگے ہوئے تھے۔ ایک بازو اور ہاتھ کے الٹی طرف ڈرپیں لگانے کے لیے، ایک بازو پر بوقتِ ضرورت ٹیسٹ کرنے کی غرض سے خون لینے کے لیے، گردن اور سینے پرکہیں ڈائلسز کے لیے، کہیں کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کے لیے اور کہیں پتہ نہیں مزید کن کن مقاصد کے لیے کنکشن کی تاریں ہی تاریں لگی ہوئی تھیں۔ مبارکہ کیا تھی، اچھی بھلی روبوٹ دکھائی دے رہی تھی۔ جیسے روبوٹ کو بالکل انسان جیسا دکھائی دینے کا تجربہ کر لیا گیا ہو۔ ہم سارے گھر والے اسے دیکھ کر واپس گھر پہنچے۔ چائے بنانے کے لیے کہا، چائے بن کر ٹرے میں ہی چائے کے کپ رکھ کر لائی جا رہی تھی کہ اچانک میری چھ سالہ پوتی ماہ نور کمرے سے باہر کی طرف دوڑ کر گئی اور اپنی چچی کی اٹھائی ہوئی چائے کی ٹرے سے ٹکرا گئی۔ یہ حادثہ ایسے ہوا کہ ساری چائے ماہ نور پر آن گری۔ فوراً ایمبولینس کو بلایا۔ ایمبولینس پہنچی تو انہوں نے حادثہ کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ایک اور ایمبولینس بلا لی۔ ہم سمجھے ابھی فرسٹ ایڈ دے رہے ہیں، بعد میں پتہ چلا کہ گھر پر ہی اصل علاج شروع کر دیا گیا تھا۔ معاملہ کی سنگینی کا تب احساس ہوا جب انہوں نے ہیلی کاپٹر بھی منگا لیا۔ ماہ نور اور ا س کی امی تسنیم دونوں ہیلی کاپٹر سے من ہائم کے یونیورسٹی کلینک روانہ ہوئے۔ یہ شہر ہمارے شہر سے ایک گھنٹہ کی ڈرائیو پر ہے۔ بچوں کے اس طرح کے جلنے کے علاج کے سلسلہ میں اسے خصوصیت حاصل ہے۔ شعیب اور میں، ہم دونوں کار کے ذریعے من ہائم روانہ ہو گئے۔ من ہائم اور ویزبادن کے دونوں ہسپتال بالکل مختلف سمتوں میں واقع ہیں۔ بہر حال ابھی پہلے بحران سے نکلے نہ تھے کہ دوسرا بحران آ گیا۔ اور تیسرا بحران یکم اکتوبر کو میرے دل کا وال (شریان) کھولنے کی صورت میں پہلے سے طے کیا جا چکا تھا۔ کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ ان سارے بحرانوں میں گھرا ہوا تھا اور تب ہی میری گیارہ کتابوں کی کتاب ‘’عمرِ لاحاصل کا حاصل’‘ کا لائبریری ایڈیشن اور جدید ادب کا جنوری ۲۰۰۹ء کا شمارہ ریلیز ہو چکا تھا۔ اسی دورانیہ کے اندر میں نے ارشد خالد کے عکاس انٹرنیشنل کے نارنگ نمبر کے لیے بنیادی نوعیت کا کام بھی نمٹایا۔ اسی دوران ہی میں نے نہ صرف اپنی کتاب ‘’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت’‘ کی بیک وقت ہندوستان اور پاکستان سے اشاعت کو ممکن بنایا بلکہ جنوری ۲۰۱۰ء کا جدید ادب کا شمارہ بھی انہیں ایام میں مکمل کر کے اشاعت کے لیے بھیج دیا۔ اور اب جبکہ نومبر کے آخری عشرہ کے شروع میں یادوں کا یہ باب لکھ رہا ہوں تو جدید ادب کا اگلے سال جنوری ۲۰۱۰ء کا شمارہ جدید ادب کی ویب سائٹ پر ریلیز کیا جا چکا ہے اور کتابی صورت میں چھپ جانے کی اطلاع بھی آ گئی ہے۔ اور انشاء اللہ نومبر کے مہینے کے اندر ہی کتابی صورت میں ریلیز بھی کیا جا رہا ہے۔ اسی اثناء میں غزلیں، نظمیں بھی تخلیق ہوئیں، ایک نیا افسانہ بھی لکھا گیا، اور اب یادوں کا یہ نیا باب بھی مکمل کر رہا ہوں۔ انہیں ایام کے دوران ہی خدا نے مجھے چوتھا پوتا شیراز حیدر بھی عطا کر دیا۔ یہ شعیب کا دوسرا بیٹا ہے۔ فالحمدللہ علی ذالک!
جب شیراز کی پیدائش ہوئی مبارکہ ہسپتال میں تھی۔ ہسپتال سے چھٹی ملتے ہی سب سے پہلے اس ہسپتال میں گئی جہاں شیراز کی پیدائش ہوئی تھی، وہاں پوتے کو دیکھا، چوما، دعا کی اور پھر گھرواپس آئی۔ اپنے دو نواسوں اور ایک پوتے کے ختم قرآن کا ذکر یادوں کے ایک باب میں کر چکا ہوں۔ اس عرصہ میں مزید پیش رفت یہ ہوئی کہ گزشتہ برس عثمان کے بیٹے اور میرے دوسرے پوتے جہاں زیب نے فروری میں ساڑھے پانچ برس کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا۔ اس برس جولائی میں جہانزیب کی بہن علیشا نے پونے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا۔ ماہ نور بھی بیس پارے پڑھ چکی ہے اور اگلے دو تین ماہ تک اس کے ختم شریف کی بھی امید ہے۔ سو اپنی ذاتی زندگی کی اس سال کی اچھی خبروں میں ان خبروں کو بھی شمار کرتا ہوں۔ ایک بار پھر شکر الحمدللہ!
یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ویسے تو سارے بچے بہت فرمانبردار اور خیال رکھنے والے ہیں۔ ہمارے عمرہ اور حج کی توفیق میں ان کا بھرپور ساتھ شامل رہا ہے۔ جب مجھے کسی ذاتی کام کے لیے رقم کی ضرورت پیش آئی اور میں نے تینوں بیٹوں کے ذمہ کچھ رقم لگائی، سب نے وہ رقم فراہم کر دی۔ عام حالات کے مطابق میرے کہے بغیر بھی طارق نے دو تین اہم مواقع پر از خود میری ضرورت کا احساس کرتے ہوئے مجھے خاصی معقول رقم فراہم کی ہے۔ تاہم مجھے پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ بڑا بیٹا شعیب ایک عرصہ سے ہر سال ایک معقول رقم خاموشی کے ساتھ ماں کو دے رہا ہے۔ مجھے کئی برس کے بعد اب علم ہواتو میں نے دونوں ماں بیٹے کو نصیحت کی کہ مجھے اس کا علم ہونا چاہیے تھا تاکہ میں تحدیث نعمت کے طور کہیں اس کا ذکر کر دیتا۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مجھے اس کا ذکر کرنے کا موقعہ مل گیا ہے۔
یکم اکتوبر کو میری انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی ہوئی۔ ایک سائڈ پر سکرین پر سارا منظر دکھائی دے رہا تھا۔
سمندروں ڈوہنگے دل دریا کی گہرائیوں میں تو کئی بار غوطہ زن ہوا ہوں، لیکن اس کی مواجی کا منظر ایک اور طرح سے دیکھ رہا تھا۔ دائیں ران سے سوراخ کر کے تار وہاں سے گزارا گیا جو بائیں جانب مقیم دل تک پہنچنا تھی۔ تو جناب یہ دل بائیں جانب ہی کیوں ہوتا ہے اور دائیں جانب سے چل کر ہی بائیں جانب والے دل کا علاج کیوں کیا جاتا ہے۔ ادب میں دائیں بازو اور بائیں بازو کے مکاتب فکر کی کہانی بھی شاید ران اور دل کے رشتے کی کہانی ہے۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ۔
میں ادب میں دائیں بازو، بائیں بازو والوں کی کارگزاری کے ساتھ مشینوں کی انسان دوستی کا منظر بھی دیکھ رہا ہوں۔ علامہ اقبال نے اپنے حساب سے کہہ دیا تھا ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہو رہا ہے۔ مشینیں دل کے لیے موت کا نہیں بلکہ حیات کا پیغام بن رہی ہیں۔ پیس میکر کی صورت میں دل کا محافظ تو متعارف ہو چکا ہے، حال ہی میں جاپان کے سائنس دانوں نے پلاسٹک کا ایسا دل تیار کیا ہے جو کارکردگی کے لیے لحاظ سے اب تک کے سارے متبادل ذرائع سے زیادہ موثر اور مفید ثابت ہو گا۔
علامہ اقبال کی بعض باتیں آج بھی درست ثابت ہو رہی ہیں، لیکن مشینوں کو دل کے لیے موت قرار دینے کی طرح ان کی بعض باتیں درست ثابت نہیں ہوئیں۔ انہوں نے مغربی تہذیب کو للکارتے ہوئے کہا تھا۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، نا پائیدار ہو گا
مغربی تہذیب نے تب سے اب تک خود کشی نہیں کی، البتہ عالمِ اسلام کے کئی خطوں سے چلتی ہوئی خود کش حملوں کی وبا اب پاکستان کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ میں یہاں کسی موازنۂ مشرق و مغرب میں نہیں پڑ رہا۔ بس اتنا سا اشارہ ہی کافی ہے۔ بات ہو رہی تھی، جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان کو ملنے والی سہولتوں کی۔ میرے لیے آپریشن کا سارا مرحلہ خیر و خوبی کے ساتھ مکمل ہو گیا تھا۔ کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن چند گھنٹوں کے بعد شدید تکلیف اور اضطراب کا سامنا کرنا پڑا۔ دائیں ٹانگ کو پٹیوں سے جکڑ دیا گیا تھا اور اگلے چھ گھنٹے تک اس ٹانگ کو ہلاناسختی کے ساتھ منع تھا۔ چھ گھنٹے تک ٹانگ کو نہ ہلانے کا احساس اتنا جان لیوا ثابت ہوا کہ میں اس کرب کو بیان ہی نہیں کر سکتا۔ رات مجھے ہسپتال ہی میں گزارنا تھی۔ رات کو ساڑھے دس بجے کے قریب دائیں ٹانگ کو جکڑ بندی سے نجات ملی تو میں نے فوراً ہسپتال کی جانب سے پہنایا گیا ملنگوں جیسا چولا اتارا، اپنا لباس پہنا اور چہل قدمی کرتا ہوا ہسپتال سے باہر نکل آیا۔ سردی کے باوجود کھلی فضا میں بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ باری باری سارے بچوں کو فون کیا۔ سب کو اپنی خیریت سے آگاہ کیا، ان سب کی خیریت دریافت کی۔ مبارکہ اور ماہ نور کا حال پوچھا۔ گھنٹہ بھر باہر گھومنے کے بعد ہسپتال میں واپس آ گیا۔ اگلے دن دوپہر کے بعد مجھے گھر جانے کی اجازت مل گئی۔ اسی دن شام کو مبارکہ سے ملنے گیا۔ وہ انتہائی نگہداشت والے روم سے اب درمیانی نگہداشت والے روم میں منتقل ہو گئی تھی۔ ہوش میں آ گئی تھی لیکن کوئی جنبش از خود نہیں کر سکتی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ میں خود اپنے دل کے معاملے سے نمٹ کر آ رہا ہوں۔ ابھی اسے اپنے بارے میں یا ماہ نور کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ جیسے جیسے مبارکہ رو بصحت ہو رہی تھی ویسے ویسے ماہ نور کی حالت بھی بہتر ہو رہی تھی۔ اس کا چہرہ تو خدا نے اپنے فضل سے محفوظ کر دیا تھا۔ سینے کے بیشتر داغ بھی کم ہو رہے تھے اور ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ بچی بہت چھوٹی ہے اس لیے ایک سے دو سال تک یہ داغ بھی دور ہو جائیں گے۔
مبارکہ کو جب مختلف کنکشنز سے آزاد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو جہاں جہاں سے سوئی وغیرہ کو ہٹاتے، وہاں گہرے سرخ داغ نمایاں ہو جاتے۔ تن ہمہ داغ داغ شد والا منظر تھا۔ پنبہ کجا کجا نہم کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ ایک دن کے بعد یہ گہرے سرخ داغ جیسے نیلے سے رنگ میں ڈھلنے لگے اور مجھے پنجابی کا ‘’تن من نیل و نیل’‘ یاد دلانے لگے۔ (ویسے کمال ہے کہ ایک مہینہ کے اندر ہی وہ گہرے داغ ایسے ختم ہو گئے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں )۔
۲۳؍اکتوبر کو مبارکہ کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی لیکن اس خبر کے ساتھ کہ ہفتہ میں تین بار ڈائلسز ہوا کرے گا۔ سرکاری طور پرہی سارا انتظام کیا گیا ہے۔ مقررہ وقت پر ٹیکسی آتی ہے اور گھر سے ہسپتال لے جاتی ہے، چار سے پانچ گھنٹے کے درمیان ڈائلسز کا عمل مکمل ہوتا ہے تو ٹیکسی گھر چھوڑ جاتی ہے۔ مبارکہ کی بیماری، اپنی پوتی ماہ نور کے حادثہ اور اپنے دل کے علاج تک تین چار ہسپتالوں سے واسطہ رہا۔ کہیں بھی امیر یا غریب، جرمن یا غیر جرمن کا فرق دکھائی نہیں دیا، کہیں بھی ہسپتال کے عملہ میں دیکھ بھال کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ جو مسیحا نہ مقام تھا ہر جگہ دکھائی دیا۔ انسانی خدمت کا ایسا اعلیٰ معیار کہ سوچنے بیٹھیں تو آنکھیں شکر گزاری سے بھیگ جائیں۔ ہمارے معاشرے کے لوگ اپنی ذہنیت کے مطابق ان کے بارے کیا کچھ باور کرتے ہیں لیکن میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اپنی خدمتِ انسانی کے اعلیٰ ترین معیار کے باعث ان لوگوں نے سچ مچ اپنی جنت کمالی ہے۔
اپنی اس علالت کے نتیجہ میں مبارکہ کا وزن پچاس کلو کے لگ بھگ رہ گیا۔ بیشتر کپڑوں کی نئی فٹنگ کرانی پڑی، چھوٹی بیٹی کا شادی سے پہلے کا ایک کوٹ پورا آ گیا۔ اب بہو بیٹیوں میں حسرت کے ساتھ مبارکہ کو دیکھا جاتا ہے کہ ہائے امی! آپ اتنی سمارٹ ہو گئی ہیں۔
میرے دل کا وال(شریان) ٹھیک کر دیا گیا تھا لیکن سانس پھولنے کی کیفیت نہیں جا رہی تھی۔ ڈاکٹر اور ہسپتال کے دو معائنوں کے بعدفرینکفرٹ کے یونیورسٹی کلینک کے ریڈیالوجی نیوکلیر میڈیسن کے شعبہ میں چیک اپ کے لیے بھیج دیا گیا۔ یہ چار گھنٹے طویل دورانیے کا چیک اپ تھا۔ پہلے مرحلہ میں جب مجھے انجکشن لگا کر سائیکلنگ کرائی جا رہی تھی تو ڈاکٹر بار بار پوچھتی تھی کہ دل میں کوئی گھبراہٹ تو نہیں ہو رہی؟میں مزے سے سائیکل چلائے جا رہا تھا اور ہر بار بتا رہا تھا کہ دل کو کوئی گھبراہٹ نہیں ہو رہی، البتہ سائیکل چلاتے ہوئے ٹانگوں میں درد ہو رہا ہے۔ دوسرے مرحلہ میں جب مجھے لٹا کر اوپر ایک مشین لائی جانے لگی تو شدید گھبراہٹ ہونے لگی۔ میرے دونوں ہاتھ اس طرح سے میرے سر کے نیچے تہہ کر دئیے گئے تھے کہ میں اُٹھ بھی نہ سکتا تھا۔ میں نے کہا میں اپنے جوتے اتارنا چاہتا ہوں، جواب ملا آپ اسی طرح پڑے رہو، ہم خود جوتے اتار دیتے ہیں۔ پندرہ منٹ تک کسی جنبش کے بغیر پڑے رہنا تھا، یہ بھی ٹانگ سیدھی رکھنے جیسا ہی کربناک تجربہ تھا۔ کھجلی جو ویسے کبھی نہ ہوتی تھی اب ہر جگہ ہوئی جا رہی تھی لیکن کہیں بھی کھجانے کی اجازت نہ تھی۔ بہر حال پندرہ منٹ کے بعد اس مشکل سے نجات ملی۔ ایک وقفہ کے بعد جب ایک بار پھر یہی معائنہ دہرایا گیا تو پھر میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پا لیا تھا۔ دوسری بار یہ معائنہ بخیر و خوبی مکمل ہو گیا۔ سارے چیک اپ کا نتیجہ یہ نکلا کہ مزید دو وال بند پائے گئے۔ اور اب ایک بار پھر آپریشنل پراسیس سے گزرنا ہو گا۔ گھر آ کر میں نے مبارکہ سے پنجابی میں کہا کہ ‘’سِرتے اک وال نئیں ریہا،تے اے ہن دل دے والاں دے دوالے ہو گئے نیں ‘‘۔ بہر حال ۳ نومبر کو ایک بار پھر دل کی انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی ہونا قرار پائی۔
میں اپنے دوست احباب کو بتا رہا تھا کہ زندگی بھر جنہیں دل کھول کر دکھانے کی حسرت رہی وہ تو پوری نہیں ہوئی، لیکن یہ لوگ نہ صرف دل میں جھانکتے رہتے ہیں بلکہ جب جی چاہتا ہے اسے کھول کر دیکھ بھی لیتے ہیں، بلکہ بار بار دیکھتے جا رہے ہیں۔ بہر حال ۳ نومبر کو یہ مرحلہ بھی خیرو خوبی سے گزر گیا۔ رات کو چھ گھنٹے سیدھے لیٹے رہنے اور دائیں ٹانگ کو بالکل نہ ہلانے کی ہدایت پر عمل کے لیے میں اس بار ذہنی طور پر تیار تھا۔ میں نے نیند کی گولی کی خواہش ظاہر کی۔ ڈاکٹر نے ڈرپ میں ہی ہلکی سی مقدار میں دوا دے دی۔ اس سے نہ تو گہری نیند آئی اور نہ ہی بے چینی والی بیداری رہی۔ نیم خوابی کی سی کیفیت تھی۔ سو اس بار زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ جب پٹی کھولی گئی تو میں اطمینان اور آرام کے ساتھ اُٹھا۔ ہسپتال والوں کا ملنگوں والا چولا اتارا، اپنالباس پہنا اور اس بار اپنے وارڈ کے باہر لان میں کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ ہسپتال سے باہر جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
دوسرے دن معمول کے مطابق چھٹی مل جانی تھی لیکن ایک مہینے میں دوسری بار اس مرحلہ سے گزرنے کے باعث مجھے احتیاطاً ایک دن کے لیے مزید روک لیا گیا۔ ۵؍ نومبر کو چھٹی دی گئی اور میں مزے مزے سے گھر پہنچ گیا۔
پہلی بار آپریشن وارڈ سے جنرل وارڈ تک پہنچا تھا تو طارق، نازیہ اور شایان فوراً ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ اب دوسری بار جنرل وارڈ میں پہنچا تو مبارکہ، طارق، نازیہ اور شایان کے ساتھ پہنچ گئی تھی۔ دوسرے دن جب چھٹی نہیں ملی تو مبارکہ، شعیب اور عثمان ایک ساتھ ملنے آ گئے۔ اب عمر کے اس حصے میں اور بیماریوں کی اس یلغار میں مبارکہ اور میں ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ بعض عزیز اور دوست احباب ہم دونوں کی خیریت دریافت کرنے لگے تو میں نے کہا ہم دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی دیکھ ریکھ کرتے رہتے ہیں ۔ مثلاً میں مبارکہ سے کہتا ہوں آپ آرام سے بیٹھیں، میں چائے تیار کر کے لاتا ہوں۔ مبارکہ جواباً کہتی ہے نہیں آپ آرام سے بیٹھیں میں چائے تیار کر کے لاتی ہوں۔ ہم دونوں کا جذبہ دیکھ کر چائے کہتی ہے آپ دونوں آرام سے بیٹھیں میں خود ہی تیار ہو کر آ جاتی ہوں۔
۱۹؍ نومبر۲۰۰۹ء کو ڈاکٹر کو میں نے بتایا کہ سانس پھولنے کا مسئلہ جوں کا توں ہے، تو اس نے کہا کہ ایک بار پھر انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کے مراحل سے گزرنا ہو گا۔ میں نے کہا ۳؍دسمبر کے بعد کی کوئی تاریخ طے کر لیں۔ تب تک خواب کی تعبیر نہ آئی تو پھر جیسے چاہیے ہمارے دل پر مشقِ ناز فرمائیے۔
جب میرے ۳ ؍دسمبر والے خواب کی بات گھر کے تقریباً سارے افراد تک پہنچ گئی تو میں نے مناسب سمجھا کہ خوابوں اور ان کی تعبیروں سے دلچسپی رکھنے والے بعض خاص دوستوں کو بھی خواب بتا دیا جائے۔ اس سلسلہ میں ہالینڈ سے جمیل الرحمن، انگلینڈ سے نصیر حبیب اور جرمنی سے خالد ملک ساحل تین دوستوں کا بطور خاص حوالہ دوں گا۔ خالد ملک ساحل صاحب اتنے رقیق القلب نکلے کہ مجھے لگا میری فوتگی پر وہ جس طرح رونے لگیں گے، انہیں دلاسہ دینے کے لیے شاید مجھے خود ہی اٹھ کر انہیں چپ کرانا پڑے گا۔ تاہم انہوں نے تعبیر یہ کی کہ ۳؍دسمبر سے آپ کی زندگی میں ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گا، جس میں روحانی پہلو زیادہ ہو گا۔ لگ بھگ اسی انداز کی بات نصیر حبیب صاحب نے ہنستے ہنستے اور بعض رنگین اشارے دے کر کر دی۔ جمیل الرحمن سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ۳ دسمبر کی تاریخ کو ایک طرف رکھیں۔ اور انّی متوفّیک کے اعداد نکالیں۔ اعداد نکالے تو ۹ نکلے۔ میں نے کہا اب تو بات واضح ہو گئی کہ ۲۰۰۰ کی صدی میں ۲۰۰۹ ایک بار ہی آنا ہے۔ اس کی دوسری تاویل کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ۲۰۰۹ء سے اگلے نو برس تک زندگی رہے گی اور ۲۰۱۸ء میں وفات ہو گی۔ اس پر جمیل الرحمن نے کہا کہ میرے حساب سے ۲۰۱۶ء کا سال نکلتا ہے۔ کیونکہ ۲۰۱۶ کے اعداد نو نکلتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہاں یہ بھی قرینِ قیاس ہے۔ جب مبارکہ کو اس حساب کتاب کا علم ہوا تو کہنے لگی کہ ۲۰۲۵ ء اور ۲۰۳۴ء کے اعداد بھی تو نو ہی نکلتے ہیں۔ میں نے کہا کہ صرف ۲۰۳۴ تک ہی کیوں پھر ۲۰۵۲ء کر لیں۔ اس کا عدد بھی ۹ نکلتا ہے اور میری زندگی کی سنچری بھی پوری ہوتی ہے۔ ۹ کے پھیر میں جمیل الرحمن نے ڈال دیا ہے ورنہ خواب سیدھا سادہ ۳؍دسمبر۲۰۰۹ء سے متعلق ہے۔ پورا ہو گیا تو بھی ٹھیک اور پورا نہ ہوا تو بھی خیر۔ ۔ ۔ لیکن نو کے عدد سے تاویل و تعبیر کا ایک طویل تر سلسلہ بنتا جا رہا ہے۔
اتنی تعبیریں یکجا ہوتی گئیں تو میرا بے چارہ خواب اپنی موت آپ مر جائے گا۔ شاید دوستوں نے مجھے بچانے کے لیے یہی ترکیب نکالی ہو کہ اتنی تعبیریں اور تاویلیں جمع کر دو کہ سب کچھ خلط ملط ہو جائے۔ کثرتِ تعبیر کے ہاتھوں خواب کے انجام سے مابعد جدید والوں کا ڈھکوسلہ بھی مزید سمجھ میں آتا ہے۔ لیجیے صاحب معنی کو ہمہ وقت ملتوی کراتے رہیے، موت سے جان بچاتے رہیے، لیکن تا بہ کے!
میں نے اپنی یادوں کے باب ’‘دعائیں اور قسمت’‘میں بڑی وضاحت سے لکھا تھا:
‘’چند قرآنی اور مسنون دعائیں مجھے بچپن میں رٹا دی گئی تھیں۔ ان کی بھی ایک اہمیت ہے لیکن میں جب کسی دُکھ کی حالت میں ہوتا ہمیشہ اپنی زبان میں خدا سے دعا کرتا۔ بہت بار ایسا تجربہ ہوا کہ میں نے دعا کی اور اسی حالت میں مجھے دعا کی قبولیت کا یقین بھی ہو گیا۔ جب بارہا ایسا ہوا تو میں نے اپنے بعض قریبی عزیزوں کو اس بارے میں بتایا۔ اس بتانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو دعا بظاہر قبول ہو چکی تھی، ایک لمبے وقفہ تک معلّق ہو گئی۔ دو تین بار ایسے جھٹکے لگنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ قبولیت دعا کا نشان تو خدا کے مامورین اور اولیاء کے لئے مخصوص ہے۔ میری کسی بھی دعا کا قبول ہونا میرا انفرادی معاملہ ہے۔ اگر میں اسے دوسروں کو بتاؤں گا تو مقامِ ولایت پر قدم رکھنے جیسی جسارت کروں گا، جس کا میں اہل ہی نہیں۔ سو اسی لئے وہ دعائیں جن کی قبولیت کے بارہ میں دوسروں کو بتا دیتا ہوں، لمبے عرصہ کے لئے ردّ و قبول کے درمیان معلّق ہو جاتی ہیں اور یہی میرے افشاء کی سزا ہوتی ہے۔
عجب سزا ہے کہ میرے دعاؤں والے حروف
نہ مسترد ہوئے اب تک نہ مستجاب ہوئے ‘‘
اپنے خواب اور غنودگی کی حالت میں قرآنی الفاظ کے زبان پر جاری ہونے کے تجربہ کو قبولیت دعا سے ملتا جلتا یا شاید اس سے بھی کچھ زیادہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تو میں نے جو اسے مقررہ وقت آنے سے پہلے اپنے عزیزو اقارب اور دوستوں میں اتنا زیادہ بتا دیا ہے تو کہیں لا شعوری طور پر میں نے یہی تو نہیں چاہا کہ تین دسمبر کا سن سچ مچ معلق ہو جائے۔ اور چاہے پھر بعد میں تاریخ بھی ادل بدل ہو جائے۔ بظاہر ایسا نہیں ہے لیکن انسانی لا شعور کا کیا کہا جا سکتا ہے۔ یوں بھی دل دریا سمندروں ڈوہنگے۔ مجھے موت کے سلسلہ میں صرف ایک خواہش شدت کے ساتھ رہی ہے کہ جب بھی آئے بہت آرام سے آئے۔ جیسے ہلکی سی اونگھ میں گہری اور میٹھی اونگھ آ جائے اور میں اسی میٹھی اونگھ میں آگے نکل جاؤں۔ روح اور جسم کے حوالے سے میں اپنی بساط کے مطابق کافی کچھ لکھ چکا ہوں۔ یہاں اپنی سوچ میں ہوئی پیش رفت کا ہلکا سا ذکر بھی کر دوں۔ جسم اور روح لازم و ملزوم ہیں۔ جسم کے اندر ہی کہیں کوئی مین سوئچ ہے (جسے ابھی جدید سائنس دریافت نہیں کر پائی)۔ وہ مین سوئچ آف کر دیا جاتا ہے تو ہم مر جاتے ہیں۔ جسم سے گہرے اور مستقل ربط کے باوجود مجھے روح کی ایک حد تک الگ حیثیت کا بھی پرچھائیں جیسا ادراک ہوتا ہے۔ اس سے جسم کی نفی نہیں ہوتی لیکن روح جسم کے ساتھ اس سے سوا بھی ہے۔ مثال کوئی بہت واضح نہیں ہے لیکن اسے کسی حد تک اور محض مثال کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ سیٹلائٹ سے جو پروگرام نشر کیے جا رہے ہیں، وہ اپنے اظہار کے لیے ٹی وی سیٹ کے محتاج ہیں۔ ٹی وی کے بغیر وہ خود کو ظاہر نہیں کر سکتے، یوں ٹی وی اور سیٹلائٹ سے آنے والے پروگرام میں گہرا ربط ہے۔ تاہم ٹی وی کے بغیر بے شک وہ پروگرام خود کو ظاہر نہ کر پائے لیکن وہ یہیں کہیں موجود تو ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر میرے لیے بہت سا مزید غور و فکر کا سامان موجود ہے۔ تاہم اس سے روح اور جسم کے لازم و ملزوم ہونے کے اس تصور کی نفی نہیں ہوتی جو میں اپنی یادوں کے باب ‘’روح اور جسم’‘ میں بیان کر چکا ہوں۔ یہ نئی سوچ در اصل اسی سوچ کی محض توسیع اور اسی کے اندر ایک نئے زاویے کی دریافت کا احساس دلاتی ہے۔
بہر حال دوستوں کی تعبیروں کو بھی ایک حد تک مد نظر رکھا جائے تواب تین امکانات ہیں، اسی سال ۲۰۰۹ء کے ۳ دسمبرکو مجھے بارگاہِ الٰہی سے بلاوا آ جائے۔ یا پھر ۲۰۱۶ء یا ۲۰۱۸ء تک اسے موخر سمجھا جائے۔ ذاتی طور پر میرے دامن میں حبّ رسولؐ کے طور پر کچھ بھی خاص نہیں ہے۔ ایک ہلکا سا احساس اور بس۔ میں نے ایک عرصہ پہلے سے یہ خواہش کر رکھی ہے کہ میرے پاس نذر گزارنے کو اور کچھ بھی نہیں ہے سو اپنی عمر کا نذرانہ بارگاہِ رسالت میں پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ میری عمر ۶۳ برس سے تجاوز نہ کرے، اس کے اندر ہی اندر کہیں بھی مکمل ہو جائے۔
بلاشبہ زندگی خدا کا عطا کردہ بہت بڑا انعام ہے، اس کے لیے خدا کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ موت بھی بر حق ہے، خدا جب چاہے بلا لے، میں اس کے لیے بھی ہمیشہ اس کی رضا پر راضی اور کوچ کے لیے کمربستہ ہوں۔ بس اپنی عمر کے ۶۳ برس سے تجاوز نہ کرنے کی خواہش کے پیش نظر مجھے ۲۰۱۶ء یا ۲۰۱۸ء کے مقابلہ میں ۲۰۰۹ء کا سال ہی زیادہ مناسب لگ رہا ہے۔ آگے جو اس کی مرضی!
۳دسمبر ۲۰۰۹ء والی تعبیر سچ ثابت ہو گئی تواس لیے بھی خوشی ہو گی کہ یادوں کا یہ باب چھپتے وقت پورا باب بزبانِ حال کہہ رہا ہو گا۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
خواب کی تعبیر کچھ اور ہوئی یا سارا خواب ہی غلط ہو گیا تو پھر ۴؍دسمبر کو ایک دو سطروں کا اضافہ کر کے یہ باب مکمل کر لوں گا۔ وماتوفیقی الا باللہ!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(یہ تحریر میں نے ۲۳؍ نومبر ۲۰۰۹ء کو مکمل کر لی تھی۔ آج۲۶؍ نومبر تک اس میں ہلکے پھلکے اضافے کیے اور آج ہی ان احباب کو ای میل سے یہ فائل بھیج رہا ہوں :شمس الرحمن فاروقی(الٰہ آباد)، محمد عمر میمن(امریکہ)، شمیم حنفی (دہلی )، ڈاکٹر علی جاوید(دہلی)، منشا یاد(اسلام آباد)، ایوب خاور(کراچی)ڈاکٹر صغریٰ صدف(لاہور)، جمیل الرحمن (ہالینڈ)، خورشید اقبال (۲۴ پرگنہ)، خالد ملک ساحل (جرمنی)، شبانہ یوسف(انگلینڈ )، ارشد خالد(اسلام آباد)، احمد حسین مجاہد(ایبٹ آباد)، سلیمان جاذب(دبئی)۔ ۔ ۔ ح۔ ق)
۲۸نومبر کو یہ فائل سلطان جمیل نسیم (کینیڈا)، عبداللہ جاوید اور شہناز خانم عابدی(کینیڈا)کو بھی بھیج دی گئی۔
٭٭
۴؍دسمبر کو لکھا جانے والا اضافی نوٹ: اس وقت جرمنی کے وقت کے مطابق رات کے بارہ بج کر سات منٹ ہو چکے ہیں، ۳؍دسمبر۲۰۰۹ء گزر چکا ہے، ۴؍دسمبر کا دن شروع ہو چکا ہے۔ ویسا کچھ نہیں ہوا جیسا میں سمجھ رہا تھا۔ لیکن منشا یاد کے افسانہ ‘’بیک مرر’‘ کے اختتام کے مطابق ایسا ہو تو سکتا تھا۔ (ح۔ ق)