۔۔۔۔۔۔۔یکم اور ۲دسمبرکی درمیانی رات دیر گئے ہم نے عمرہ کرلیاتھا۔ ارادہ یہ تھاکہ جتنے دن مکہ شریف میں قیام رہے گا، روزانہ عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے۔ ہر نئے عمرے کے لئے غسل ضروری ہے جو مقرر کردہ مقام پر ہی کیاجاسکتاہے۔ مکہ میں قیام کرنے کی وجہ سے ہمیں میقات کی طرف جانے کی بجائے تنعیم تک جاناتھا۔ یہ جگہ مسجد عائشہ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ میں نے سوچا احرام ساتھ لے لیتاہوں۔ عصر کی نماز اداکرکے مسجد عائشہ کی طرف روانہ ہوجائیں گے اور مغرب کے وقت تک واپس بھی آجائیں گے۔سو عصر کی نماز کی ادائیگی کے لئے جب ”باب الملک فہد“ سے گذرنے لگے تو گیٹ پر موجود سرکاری اہلکارنے اعتراض کیا کہ آپ احرام ہاتھ میں لے کر اندر نہیں جاسکتے۔ اہل کارکافرمان درست تھالیکن لہجہ درست نہیں تھا۔ بائیں طرف تھوڑا سا چل کر ”باب العمرہ“ کی طرف گئے تو وہاں کے اہلکارنے نہ صرف شائستگی سے بات کی بلکہ مسئلے کا حل بھی نکال لیا۔ میرا احرام قریب کی ایک جگہ پر رکھواکرمجھے تسلی دی کہ اسے یہاں سے کوئی نہیں لے جائے گا اور واقعی ایسا ہی ہوا ”باب العمرہ“‘ سے اندرجاکر میں نے حطیم کے عین سامنے جگہ حاصل کی۔ حطیم کے اندر تو نوافل ادا کرچکاتھا اب اسے رُکن شامی سے رُکن عراقی تک والی دیوار اور دیوار پر لگے سنہری پرنالے کے جلو میں اس پورے منظر کے ساتھ۔ اور تھوڑے سے فاصلے سے دیکھنا چاہتاتھا۔سو دیکھااور جی بھر کے دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔موجودہ کعبہ مربع شکل میں ہے جبکہ حضرت ابراہیم والی بنیادوں کے مطابق حطیم کو اس میں شامل کرکے دیکھیں تو پھر یہ ایک حد تک مستطیل بن جاتاہے ویسے حطیم کی دیوار دونوں طرف سے تھوڑی سی گولائی میں ہے۔ یہ دیوار اونچائی میں قدِ آدم سے تھوڑی سی کم ہے۔ مجھے یاد پڑتاہے کہ تاریخ تعمیر کعبہ میں کہیں یہ بھی پڑھاتھاکہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے جب کعبہ کی تعمیر کی تھی تو اس کی اونچائی بھی لگ بھگ اتنی ہی تھی جتنی اب حطیم کی دیوار کی ہے۔ تب چھت بھی نہیں ڈالی گئی تھی۔ باقی اضافے وقت کے ساتھ ساتھ بعد میں ہوتے گئے۔
۔۔۔۔۔۔عصرکی نماز کی ادائیگی کے بعد مبارکہ اور میں مسجد عائشہ کے لئے روانہ ہوئے۔ حرم شریف کے قریب ہی بسوں کااڈہ ہے۔ یہاں سے مختلف اطراف میں بسیں جاتی ہیں۔ ہم مسجد عائشہ جانے والی بس میں بیٹھے اور آخری اسٹاپ پر اترگئے۔ مسجد خاصی خوبصورت تھی۔ نہانے کے لئے سرکاری طورپر اچھے انتظامات تھے۔ میں نہاکے، احرام باندھ کے باہر نکلا۔ مباکہ مجھ سے پہلے ہی مسجد کے خواتین والے حصہ میں جاچکی تھی۔ میں نے مسجد میں دونفل اداکئے، عمرہ کی نیت کی۔ یہ عمرہ میں اپنے اباجی کی طرف سے کرنے جارہاتھا۔ تلبیہ شروع کی۔ مسجد سے باہر آیاتو مبارکہ باہر منتظر کھڑی تھی۔ مسجد عائشہ سے حرم شریف آئے۔ اس بار ”باب النبی“ سے گذر کر حرم شریف میں داخل ہوئے۔ آگے جاکر تھوڑا سا بائیں ہاتھ کو ہوئے تو ”باب عباس“ کی سیدھ میں آگئے۔ اسی سیدھ میں کعبہ شریف کی طرف بڑھتے گئے۔ اب کعبہ شریف کی جو دیوار ہمارے سامنے تھی اس کے دائیں طرف حطیم اور بائیں طرف حجراسود ہے۔ حجراسود سے تھوڑا سا دائیں جانب خانہ کعبہ کا دروازہ ہے۔ درِ کعبہ کو ملتزم شریف کہتے ہیں۔ طواف کے سات چکر پورے کرنے کے بعد یہاں دو نفل پڑھنا باعثِ ثواب ہے۔ ہجومِ عاشقاں کے باعث نفل پڑھنے کے لئے جگہ نہ بن سکے تو دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر بعض مخصوص دعاؤں کے ساتھ اپنی دلی دعائیں اپنی زبان میں بارگاہ خداوندی میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ کل میں نے ہمت کرکے درِ کعبہ کے سامنے دو نفل ادا کرلئے تھے۔ پھر کوشش کی کہ دروازے کی چوکھٹ تک رسائی حاصل کرسکوں، لیکن وہاں تو پہلے ہی سے انبوہِ عاشقاں تھا۔ بہت سے لوگ درِ کعبہ کی چوکھٹ سے لپٹے ہوئے، چمٹے ہوئے گریہ وزاری میں مصرو ف تھے۔
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹا پھر آئے درِ کعبہ اگر وا ۔نہ ہوا
۔۔۔۔۔۔مجھے درِ کعبہ کے واہونے کا ظاہری طورپرکوئی انتظارنہیں تھاکہ میرے باطن میں کعبہ کا دروازہ آہستہ آہستہ کھلنے لگاتھا۔ سو میں نے الٹا پھر آنے کی بجائے ملتزم کے سامنے دعاکے لئے ہاتھ اٹھالئے تھے۔ جو کچھ مانگنا تھا، مانگتا چلاگیاتھا۔ یہاں سے پھر مقام ابراہیم کے سامنے آیاتھا، اس کے قریب دو نفل اداکئے تھے، دعائیں کی تھیں لیکن یہ تو کل کی بات ہے اب کہ ۲دسمبر اور ۳دسمبر کی درمیانی رات تھی۔ مجھے مقامِ ابراہیم کے سامنے نماز مغرب کی ادائیگی کی توفیق ملی۔ کعبہ کے اس رُخ کے دیدار کی سعادت دیر تک نصیب ہوتی رہی۔ نماز عشاءکی ادائیگی کے لئے میں نے خصوصی طورپر کوہ صفاکی طرف جانے والے گیٹ ”الصفا“ والی سائڈ سے جگہ منتخب کی۔ یہاں سے کعبہ کی جو دیوار سامنے تھی اس کے دائیں جانب کونے میں حجراسود اور بائیں جانب رکن یمانی ہے۔ یہ دیوار اس لحاظ سے اہم ہے کہ طوافِ کعبہ کا آغاز اس کے سائے میں شروع ہوتاہے۔اس کے دائیں کونے میں حجراسود سے طواف کا آغاز ہوتاہے اور اسی جگہ پر پہنچ کر اختتام ہوتاہے۔ گویا آغاز بھی وہی تھااور اختتام بھی وہی تھا۔ وہی اوّل، وہی آخرطواف کے ہر چکر پر حجرِ اسود کے مقام سے ایک مخصوص دعاپڑھنا شروع کی جاتی ہے اور رُکن یمانی تک پہنچنے تک اسے مکمل کرناہوتاہے۔ لیکن میں عموماً مقام ابراہیم تک عربی دعا پڑھ لیتاتھا، پھر حطیم کے نصف حصہ تک پہنچتے پہنچتے دعاکا اُردو ترجمہ بھی پڑھ لیتا تھااور باقی وقت اپنی زبان میں اپنی دعائیں کرتاہوا رُکن یمانی تک پہنچتاتھا۔ وہاں سے حجرِ اسود تک پھر ایک اور مخصوص دعا پڑھنی ہوتی ہے۔ اس بار طوافِ کعبہ کے ساتوں چکروں میں مجھے اباجی کی حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺسےمحبتکےجذباتبارباریادآتےرہے۔مبارکہآجکاعمرہ اپنی والدہ مرحومہ یعنی میری ممانی مجیدہ کی طرف سے کررہی تھی اور میں یہ عمرہ ابّاجی کی طرف سے کررہاتھا۔ پہلے تو اس سوچ کے ساتھ شدّت سے دل بھر آیاکہ آج اباجی خود زندہ ہوتے اور ہم باپ، بیٹے ایک ساتھ یہ سعادت حاصل کررہے ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ لیکن پھر یہ درداباجی کی مغفرت کے لئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی شکر گذاری میں ڈھل گیاکہ مجھ جیسے ملامتی شخص کو نہ صرف اس ارضِ مقدّس میں حاضری کی سعادت بخشی بلکہ اباجی کی دیرینہ آرزو اُن کی وفات کے باوجود میرے ذریعے سے پوری کرادی۔ درد اور شکر گزاری کی لہریں پھر بھی ایک دوسرے میں مدغم ہوتی رہیں۔ اس سے عمرہ کے سرور میں اضافہ ہوا۔ طواف سے سعی تک تمام مراحل میں یہ سرور قائم رہا۔ اب سوچتاہوں کہ اباجی کی طرف سے وہ عمرہ نہ کرتا تو اس انوکھی لذّت سے آشناہی نہ ہوتاجو اس عمرہ کے دوران نصیب ہوئی۔ رات ساڑھے گیارہ بجے ہم اپنے کمرے میںپہنچے۔ وہاں سے برتن لے کر میں آبِ زم زم لینے چلاگیا۔ جب سے ”بئر زم زم“ کے الفاظ لکھے دیکھے ہیں آبِ زم زم پیتے ہوئے تبرّک کے احساس کے ساتھ ایک اشتیاق سا بھی ہونے لگاتھا۔ سوابارہ بجے تک آبِ زم زم لے کر لوٹا تو ۳دسمبر کی تاریخ شروع ہوچکی تھی۔ رات ایک بجے کے قریب آنکھ لگی۔
٭٭٭