۔۔۔۔ اُردو ادب میں دو طرح کے سفرنامے لکھے جارہے ہیں۔ بہت اچھے اور بہت بُرے۔ سفرنامہ نگاری کے ایسے ماحول میں میراسفرنامہ لکھنے کاکوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ میں اچھے سفرناموں کو پڑھ کر خود کو بے مایہ محسوس کرتاہوں اور بُرے سفرنامے پڑھ کر عبرت پکڑتاہوں۔ بُرے،بھلے کی تمیز کئے بغیر لکھنا چاہتاتودہلی کا سفرنامہ اور جرمنی کا سفرنامہ دوکتابیں تو آسانی سے تیارہوسکتی تھیں۔ پھر انگلینڈ، فرانس، ہالینڈ، سوئیٹزرلینڈ جیسے ممالک یہاں سے کون سے دور ہیں۔ جب جی چاہے ان ممالک میں ایک دو ہفتے گذارآئیے اور سفرنامہ لکھ لیجئے۔ ۔سویکم دسمبر۶۹ءتک جب مجھے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے روانہ ہوناتھا، میرا قطعاً کوئی ارادہ نہ تھاکہ میں کوئی سفرنامہ لکھوں گا۔ میں اس سفر کو اپنی ذات اور اپنے احباب تک ہی محدود رکھناچاہتاتھا۔ لیکن یہ سفر میرے لئے صرف ایک سفر اور مذہبی فریضے کی ادائیگی نہ رہا۔ میں نے اپنے جسم کے ساتھ اپنے دل، اپنے ذہن اور اپنی روح کو پے در پے انوکھے تجربوں سے گذرتے دیکھا۔ میں نے جسمانی سطح پر سفر کرنے کے ساتھ فکری اور روحانی طورپربھی سفرکیا پھر اس مختلف الجہات سفرکو کسی ایک نقطے پریک جا ہوتے بھی محسوس کیا۔ سویہ اسی روحانی تجربے کی شدت تھی جس نے مجھے یہ سفرنامہ لکھنے پر مجبور کردیا۔
۔۔۔۔۔مذہبی عقائد کے سلسلے میں اصولاً میں اعتدال پسندی کو بہتر سمجھتاہوں۔ انتہاپسند مذہبی رویّہ کوئی بھی اختیارکرے، اپنے مخالفوں کو دکھ پہنچانے کے باوجود یہ رویّہ بالآخر اپنے ہی مسلک کو نقصان پہنچاتاہے۔ مختلف فرقوں کے مختلف نظریات اور تصورات بنیادی طورپر جزوی سچائیاں ہیں ،سکّے کا ایک رُخ ہیں اور اُس رُخ کی مناسب ترجمانی ان کے ذریعے ہوجاتی ہے۔ لیکن کسی ایک جزوی سچائی کو مکمل سچائی مان کر کسی دوسری جزوی سچائی کو جبراً دبانا مناسب نہیں ہے۔ میرے اس سفرنامہ میں مذہب کے تئیں میرے رویوں اور تصورات کا اندازہ کیاجاسکتاہے۔ اس سفرکے دوران کہیں میرے تصورات میں مزید پختگی آئی ہے اورکہیں بہتر تبدیلی آئی ہے۔ تبدیلیاں غوروفکر کے ارتقائی عمل کے باعث آئیں تو وہ ہر سطح پر مفید ثابت ہوتی ہیں۔ ”سوئے حجاز“ میں میرے نظریات اور تصورات جس انداز میں آئے ہیں ان سے اتفاق کرنا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی علمی رنگ میں اور عالمانہ انداز سے میری اصلاح کرناچاہے یا مجھے سمجھاناچاہے تو میں دیانتداری کے ساتھ مزید سمجھنے کے لئے، مزید غور و فکر کے لئے تیارہوں۔ لیکن اگر کوئی کسی رنگ میں بلیک میل کرکے یا ڈنڈے کے زور سے مجھے اپنی بات منواناچاہے تو میں ایسے کسی بھی شخص کے فرمودات پر اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔ ابھی تک میں مجموعی طورپر مختلف مذہبی مسالک کے تعلق سے ایک اصولی بات کررہاتھا۔ اب مجھے اُس دانشور طبقے کے حوالے سے بھی کچھ عرض کرنا ہے جو مذہب بیزار ہے۔
۔۔۔۔۔جو لوگ فیشن کے طورپر خود کو ملحد یا دہریہ کہلواکرخوش ہوتے ہیں اور اسی الحاد کو اپنی دانشوری سمجھتے ہیں جبکہ یہ سب کچھ بے حد مصنوعی ہوتاہے مجھے ایسے دانشوروں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہنالیکن وہ لوگ جو کسی فیشن کے طورپرنہیں بلکہ فکری اعتبارسے اس سطح پر ہیں کہ مذہب سے بیزاری محسوس کرتے ہیں ان کے حوالے سے مجھے چند باتیں ضرور کرنی ہیں۔ ایسے دانشوروں کاخیال ہے کہ مقامات مقدسہ پرجاکر ہمیں اپنے اندرجو تبدیلیاں محسوس ہوتی ہیں وہ ان مقامات سے وابستہ ہماری گہری عقیدت کا نفسیاتی اثر ہوتاہے۔ بجاارشاد اگر ایسے مقامات پر جاکر کسی کو ذہنی، قلبی اور روحانی بالیدگی نصیب ہوتی ہے، اس کی حالت میں بہتر تبدیلی آتی ہے تو خود جدید نفسیاتی علم کی رو سے بھی یہ ایک بہترین علاج ہے۔ بعض نفسیاتی امراض کااگر اس طریقے سے علاج ہوجاتاہے تو اس سے مذہب سے لاتعلق، جدید علوم سے بہرہ ور ہمارے دانشوروں کو خوشی ہونی چاہیے۔
۔۔۔۔۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے امّتِ کلیم، امّتِ مسیح اور امّتِ محمدیہ تینوں مذاہب میں گہری محبت اور عقیدت پائی جاتی ہے۔ مذہب سے متنفردانشوروں کے لئے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت میں عظیم انقلابی کردار موجودہے۔ حضرت ابراہیم کے دور میں دو قبیح رسمیں معاشرتی سطح پر فروغ پانے لگی تھیں۔ بہت سے لوگ رہبانیت کے زیراثر تجردپسندی کی طرف مائل ہونے لگے تھے، بعض انتہاپسند اپنی مجردانہ زندگی کو ہر شبہ سے بالارکھنے کے لئے عضوِ مخصوصہ کو ہی کٹوانے لگے تھے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ایسے ماحول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس راہبانہ رسم کاخاتمہ کرنے کے لئے اس کی تہذیبی و ثقافتی علامت کے طورپر رسم ختنہ شروع کرادی۔
۔۔۔۔۔اُسی دور میںایک اوربے رحمانہ رسم یہ تھی کہ کسی قربانی کے حوالے سے بڑے بیٹے کو ذبح کردیاجاتاتھا۔سومیرے دانشور دوست ا گر اس تناظر میں ہی غور کریں تو حضرت ابراہیم کے ذریعے حضرت اسماعیل کا قربان ہوجانے کے لئے راضی ہونااور پھر آخری مرحلہ میں بیٹے کو ذبح ہونے سے بچانے کے لئے خدا کی طرف سے دنبہ آجانا اور پھر انسانی قربانی کی جگہ جانوروں کی قربانی کا رائج ہوجانایہ بھی انسانی قربانی کے خلاف ایک انقلابی قدم بنتاہے سو ہمارے دانشور احباب اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ دواقدامات کوغور سے دیکھیں تو انہیں احساس ہوگاکہ اُس زمانے کی محدود دنیامیں نسلِ انسانی خود ہی اپنے خاتمہ کی طرف جارہی تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مذکورہ انقلابی اقدامات سے نسلِ انسانی کے پھلنے پھولنے کے امکانات کو نمایاں کردیا۔ یہ میں ان دوستوں کے انداز میں بات کررہاہوں جو مذہب سے بیزار ہیں۔ انہیں ان کے مخصوص اندازِ نظر کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظمت سے آگاہ کیاہے۔ ذاتی طورپر میں ختنہ کے حکم، ذبیحہ کے حکم اور پھر بیٹے کی جگہ دنبہ کی قربانی کے حکم کو خدائی احکامات میں شمار کرتاہوں۔
۔۔۔۔۔۔ ”سوئے حجاز“ میں کہیں کہیں میرا ردِّ عمل شدید بھی ہوگیاہے۔ حقیقتاً یہ ان متشدد رویوں کا ردِّعمل ہے جو مجھے اپنی ذاتی زندگی میںیا اس سفر کے دوران پیش آتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کسی کی اس سے دلآزاری ہوتی ہے تو میں پیشگی معذرت کئے لیتاہوں۔ تاہم میرے ردِّعمل سے میرے فکری رجحانات کو بہتر طورپرسمجھاجاسکتاہے۔ اپنی ذاتی زندگی میں کبھی کبھار میںمذہبی امور میں کسی حد تک شوخ بھی ہوجاتاہوں۔ بعض عقلی باتیں دل کو لگتی ہیں لیکن خدا جانے کعبہ شریف کی دیواروں میں کیا بھید تھے کہ کعبہ کاسامنا ہوتے ہی میری ساری شوخیاں اورعقلی باتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ پھر میرے ساتھ وہاں ایسے ایسے اسرار رونما ہوئے اور اتنے انوکھے روحانی تجربے ہوئے کہ انہیں پوری طرح بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔روانگی سے پہلے میرے ذہن میں یہ تاثر تھاکہ مکہ میں جلالی شان کا سامنا ہوگا۔وہاں شاید میں زیادہ دیر تک ٹک نہیں پاؤں گا اور مدینہ کی جمالی شان میں زیادہ مزہ آئے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدینہ کی جمالی شان میں بھی بہت مزہ آیا لیکن کعبہ شریف نے تو جیسے مجھے باندھ لیاتھا۔ محبت کی، عقیدت کی عجیب سی ڈور تھی۔ بقول شاعر:
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے
میں نے ”سوئے حجاز“ میں اسی ”عالم نو“کی چند جھلکیا ںپیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرا یہ سفر ویسے تو جسمانی، فکری اور روحانی تینوں سطحوں پرہواتھااور تینوں سطحوں پر اس کے اثرات مجھے آج بھی محسوس ہوتے ہیں لیکن اس سفرکے روحانی اثرات تو جیسے میری روح کی گہرائیوں تک رچے بسے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔مجھے امید ہے کہ بعض امور میں اختلاف رکھنے کے باوجود میرے قارئین، میرے اس سفر میں اپنی شرکت کو محسوس کریں گے۔
”اے اللہ!میں تجھ سے مانگتاہوں۔ کامل ایمان اور سچا یقین اور کشادہ رزق اور عاجزی کرنے والا دل،اور تیرا ذکر کرنے والی زبان، اور حلال اور پاک روزی اور سچے دل کی توبہ اور موت سے پہلے کی توبہ اور موت کے وقت کا آرام اور مرنے کے بعد مغفرت اور رحمت اور حساب کے وقت معافی اور جنت کا حصول اور دوزخ سے نجات یہ سب کچھ میں مانگتاہوں تیری رحمت کے وسیلہ سے، اے بڑی عزت والے، اے بڑی مغفرت والے، اے پروردگار میرے علم میں اضافہ کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل فرمادے“(آمین)
۔۔۔۔۔۔میں طوافِ کعبہ شریف کے ساتویں چکرکی اس مخصوص دعاکے ساتھ اپنے ابتدائیہ کو مکمل کرتاہوں!
خاکسار
حیدرقریشی
(مقیم جرمنی)
٭٭٭