کافی سارے دن یوں ہی ہوئے گزر گئے۔۔۔۔۔۔ نگین سارہ سارہ دن اپنے رب کے حضور عبادت میں مصروف رہتیں ۔۔۔۔ جہانگیر اپنے بزنس کے سلسلے میں آوٹ اف سٹی گیا ہوا تھا تھوڑی بہت سحرش جو اسکے قریب ہوئی تھی اب اس رات کے منظر کے بعد پھر بے دلی سی ہوگئ تھی جہانگیر سے ۔۔۔اور رہی سہی کسر جہانگیر کے ٹھپڑ نے پوری کردی تھی ۔۔۔۔۔۔
” عورت چاہے کتنی بھی لاپرواہ ہو ، ضدی ہو ، لیکن کہیں نہ کہیں وہ اس گمان میں رہتی ہے کہ میرا شوہر کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ اور یہ ہی ایک غرور ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ اپنی زندگی کے ماہ و سال اس کے سنگ گزار دیتی ہے ”
“سحرش بھی اسی خوش فہمی میں مبتلا ہوگئ تھی وہ اسکی بدلتی نظروں کو سمجھ رہی تھی خود بہ خود ایک مان ہونے لگا تھا کہ اب کچھ بھی ہو وہ مجھے سپورٹ کریں گے لیکن وہ یہ بھول گئ تھی جہانگیر ایک مرد ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔ ”
سحرش اس وقت خود اذیتی کا شکار ہوگئی تھی وہ جہانگیر کو ذمہ دار ٹہرارہی تھی لیکن اس کو ایک موہوم سی امید بھی تھی کہ وہ آئے گا اسکے پاس اپنے رویہ کی معاذرت کرنے ۔۔۔۔ لیکن اس کی یہ امید اس وقت دم توڑ گئ جب اسکے پوچھنے پر ملازمہ نے بتایا کہ وہ بزنس کے سلسلے میں گیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ سحرش نے خود رابطہ کیا اور نہ جہانگیر نے ضرورت محسوس کی ۔۔۔۔ جہانگیر تھک گیا تھا اسے مناتے مناتے ۔۔۔۔۔ آخر انسان تھا کبھی تو اسکو سحرش کے رویہ سے دل برداشتہ ہونا تھا ۔۔۔۔۔۔
کھڑکی میں کھڑے وہ سیگریٹ پر سیگریٹ پھونک رہا تھا سوچتے سوچتے جب تھک گیا تو اس کے دل میں موہوم سا احساس جاگا ۔۔۔۔اسی احساس کے تہت اس نے پندرہ 15 دن بعد اسکو کال کرنے کا سوچا ۔۔۔۔۔
وہ جو اپنے ذہن میں جہانگیر کے خلاف سوچ رہی تھی کہیں دور سے اسے موبائل کی رنگ ٹون کی آواز آئی پہلے تو اس نے نظر انداز کردیا لیکن مسلسل بیل ہونے پر اس نے تھکیہ ہٹا۔ کر دیکھا پھر سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولی تو سامنے پڑے سیل فون کی آواز اب مدہم ہوگئ تھی البتہ سکرین کی لائٹ ابھی بھی روشن تھی ۔۔۔۔
پہلے تو اسے حیرت ہوئی کہ یہ کس کا موبائل ہے کیوں کہ جہانگیر کے موبائل کا اسے پتا تھا ۔۔۔ جب کال دوبارہ آنے لگی تو اس نے ریسیو کی ۔۔۔۔
اسلام و علیکم کیسی ہو ؟؟؟
جہانگیر کی آواز پر اسکے دل کو سکون محسوس ہوا۔۔اسکا دل چاہا کہ وہ اسکی آواز سنتی ہی رہے ۔۔۔ اس وقت وہ سب بھول گئ تھی اسے یاد تھا تو یہ کہ کتنے دنوں بعد اسکی آواز سن رہی تھی ۔۔۔۔
کیا۔ بات نہیں کرو گی ؟؟؟
کمال کا یقین تھا اسے کہ وہ اسکی آواز سن رہی ہے یہ کیسا یقین تھا محبت کا۔ ۔۔۔۔۔۔
“محبت ؟؟؟؟ ہاں محبت ۔۔۔ محبت ہی تو۔ ہوگئ تھی اسے سحرش سے ۔۔۔ ضروری تو نہیں کہ عہد و پیماں کے بعد ہی ہو محبت ۔۔۔۔ محبت تو وہ احساس ہے جو اچانک سے دل میں پیدا ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ اسکی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ دل کی مسند پر قابض ہو جاتی ہے محبت میں محبوب کی ہر ادا عزیز ہوتی ہے ۔۔۔ ”
“جہانگیر کو یقین تھا کہ وہ کال پک کرے گی اور اس۔ یقین کا نام ہی محبت ہے۔۔۔۔”
“میں ٹھیک ہوں ۔۔۔آپ کیسے ہیں ؟؟؟ ”
جہانگیر کا درد اسکی آواز سن کر ختم ہو گیا اس کا موڈ خود بہ خود خوشگوار ہوگیا شاید یہ پہلی دفعہ سحرش نے اس سے نرم لہجے میں بات کی تھی۔۔۔۔
” میں بہت اچھا ہوں تمہیں تو پتا ہوگا ”
جہانگیر کے لہجہ میں شوخی وشرارت در آئی تھی ۔۔
” ہمممم۔۔۔۔ ”
سحرش نے ہنکارا بھرا ۔۔۔۔ کافی دیر دونوں ایک دوسرے کی سانسوں کے تسلسل کو سنتے رہے کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں ۔۔۔۔ سحرش نے کال کاٹ دی تھی ۔۔۔۔ دونوں کے لئےشاید یہ سکون کی رات تھی ۔۔۔ ہر فکر سے آزاد۔۔۔۔۔
رات کاپتا نہیں کون سا پہر تھا جب کہیں دور سے دروازہ کھٹکھٹانے کی آوازیں آرہی تھی آوازیں تیز ہوئی تو سحرش ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی تو پتا چلا دروازے کے اس پار کوئی دروازہ بجا رہا ہے اس نے انکھوں کو بمشکل کھولا اور دروازہ کے پاس گئ ۔۔۔ جہانگیر نے کمرہ میں قدم رکھا تو نائٹ بلب کی مدہم سی روشنی پورے کمرہ میں پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔۔ سحرش بلیک سوٹ میں بند ہوتی انکھوں کو کھولنے کی کوشش میں لگی ہوئی اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی یا سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ واقعی وہ ہی ہے یا پھر خواب ۔۔۔
جہانگیر اسے دروازےکے سامنے سے ہٹاتا ہوا اندر آیا اور لائیٹ روشن کی ۔۔۔۔
آپ ابھی کیسے آئے آپ۔۔۔ آپ تو گئے ہوئے تھے نہ ؟؟؟
“کیوں بھئ میں نہیں آسکتا کیا ؟؟”
جہانگیر نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے اپنے جوتے اور موزے اتارے۔۔
“نہیں میں نے یہ نہیں کہا ۔۔۔”
سحرش نے اگے بڑھ کر پانی کا۔ گلاس اٹھایا اور جہانگیر کے اگے کردیا۔۔۔۔
جہانگیر نے گلاس لیتے ہوئے اسکا جائزہ لیا بال پشت پر بکھرے ہوئے تھے کچی نیند سے بیدار ہونے کہ تحت انکھوں میں لال لال لائینیں نمودار ہوگئ تھیں ۔۔۔۔۔
“سوری یار میں نے تمھیں جگا دیا ۔۔” ” اصل میں میرے پاس چابی نہیں تھی روم کی میں یہیں بھول گیا تھا۔۔”
“تم سوجاو ۔۔۔”
آپ کھانا کھائیں گے ؟؟، سحرش نے اسکی بھوک کے خیال سے پوچھ لیا تھا۔۔۔۔
“نہیں میں نے راستے میں کھالیا تھا” ” ویسے اج تو تم پکی بیوی لگ رہی ہو کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ؟؟ ذرا چٹکی تو کاٹنا۔۔۔”
جہانگیر نے اپنا ہاتھ آگے کردیا۔۔۔
سحرش نے اسکی چٹکی کاٹی جہانگیر کی چیخ نکل گئ۔۔۔
“یہ تم نے چٹکی کاٹی ہے یا ناخن گڑائے ہیں؟؟؟ ”
جہانگیر نے بازو سہلاتے ہوئے اسے گھوری سے نوازا ۔۔۔
” آپ نے ہی تو کہا تھا کہ چٹکی کاٹو”
سحرش نے معصومیت کی حد کرتے ہوئے انکھیں ٹپٹپائیں ۔۔۔۔۔
اچھا ادھر آو ؟؟
جہانگیر نے کھینچ کر اسے اپنے ساتھ بٹھالیا۔۔۔۔
میری یاد آئی کہ نہیں ؟؟؟
“نہیں ۔۔۔”
سحرش نے صاف جھوٹ کہا ورنہ سارا دن تو وہ اسے ہی سوچ رہی تھی ۔۔۔۔
” اچھا ۔۔۔۔۔ انکھوں میں دیکھ کر بتاو ذرا ۔۔۔”
سحرش اسکی انکھوں میں زیادہ دیر نہ دیکھ سکی اور پلکیں جھپکالیں۔۔۔
جہانگیر کا جاندار قہقہہ فزا میں بلند ہوا ۔۔۔۔
کھڑکی کے اس پار دور فلک پر تارے اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ جگمگا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
سحرش کی ساری تلخیوں کو جہانگیر کی محبت نے مٹا دیا تھا ۔۔ ۔۔۔
بہت سالوں بعد سحرش سکون کی نیند سوئی تھی اور اسی حساب سے اس کی صبح بھی میٹھی میٹھی سی تھی ۔۔۔۔۔ ضروری نہیں زندگی صرف درد ہی نہیں دیتی بلکہ ان درد پر مرحم بھی رکھتی ہے بس اس کو جینے کا حوصلہ ہونا چاہیئے۔۔۔۔
بیٹا آج تم دونوں مارکیٹ چلے جاو ولیمہ بھی کرنا ہے یا نہیں ؟؟؟
بی جان نے جہانگیر کو کہا جو ریموٹ ہاتھ میں لیے چینل سرچ کررہا تھا ۔۔۔۔
بی جان میرا جانا ضروری ہے کیا ؟؟؟
جہانگیر نے جھنجھلاتے ہوئے پوچھا ؟؟؟
نہیں بیٹا دلہا تو مجھے بننا ہے ؟؟؟
بی جان کی بات پر جہانگیر نے قہقہہ لگایا ۔۔۔۔
“چل جا جلدی سے اس بچی کو بھی کہیں لے کر نہیں گیا اس بہانے بچی کا دل بھی بہل جائے گا۔۔۔”
بچی کون ؟؟؟
جہانگیر نے پتلیان سکیڑ کر پوچھا ۔۔۔
“ائے ہائے کیا پگلا گیا کیا ؟؟؟ اپنی سحرش اور کون۔۔۔۔”
“لاحول ولا ” “بی جان وہ بچی کہاں سے ہے مجھ سے پوچھیں کیا ہے وہ ”
“کیا بڑبڑا رہا ہے ؟؟ “اونچا بول ۔۔۔۔”
“نہ نہیں کچھ نہیں ”
جہانگیر نے چپ رہنے میں ہی عافیت جانی ۔۔۔۔
“لو آگئ اپکی بچی ۔۔۔”پوچھ لیں اس سے جائے گی یا نہیں؟؟
سحرش کو آتے دیکھ کر جہانگیر نے بی جان کو مخاطب کیا:
“تم دونوں ایسا کرو ابھی مارکیٹ چلے جاو جو لینا ہو لے آنا بیچ میں ایک دن تو رہ گیا ۔۔۔”
کس سلسلے میں بی جان ؟؟؟
سحرش نے ناسمجھی سے پوچھا :
لو بھلا بیٹا تمھارا ولیمہ ہے کیا جہانگیر نے نہیں بتایا؟؟؟
بی جان نے جہانگیر کو کڑے تیور سے گھورا ۔۔۔
“بتایا تھا کیوں نہیں بتایا بی جان ۔۔۔ بتایا تھا نہ ؟؟؟
جہانگیر نے سحرش کو سخت نظروں سے دیکھا :
“ججی بتایا تھا ۔۔۔ میرے ذہن میں نہیں رہا ۔۔”
سحرش نے گھبرا کر جلدی جلدی کہا۔۔۔۔۔
اب وہ انھیں کیا بتاتی اتنی بات نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی دونوں میں ابھی بھی بیچ میں ان دیکھی اجنبیت کی دیوار حائل تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پل میں ماشہ اور پل میں تولہ والی کیفیت تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔