دسمبر کے اوائل دن تھے سارا دن سرد ہوائیں چلتی رہیں تھیں فضا میں تیرتا کہرا موسم کی شدتوں کا گواہ تھا اسی حساب سے سرد اور برفیلی تھی باہر ہواووں کے جھکڑ چل رہے تھے یخ بستہ ہوائیں درختوں کے پتوں کو بھی تھرائے دیتی تھیں بیڈ پر کمفرٹر اوڑھے سکڑی سمٹی لیٹی تھی لیکن جسم ٹھنڈک کے باعث اکڑا ہوا تھا اس نے انکھوں سے بازو ہٹا کے دیکھا آتش دان روشن تھا اور کمرے میں موجود ملگجے اندھیرے میں نارنجی روشنی کا آتشی سا خوابناک تاثر معلوم ہو رہا تھا۔۔۔۔ جہانگیر کو کمرے میں آتے دیکھ کر سحرش نے کمفرٹر منہ تک کھینچ لیا۔۔۔۔
ابھی تک خفا ہو مجھ سے ؟؟؟
جہانگیر نے اسکے برابر میں بیٹھتے ہوئے اسکے سفید مومی ہاتھوں کو تھام لیا۔۔۔۔
“مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ایسے ویسوں سے خفا ہونے کی ”
سحرش نے نہایت تنفر سے اسکا ہاتھ جھٹکا ۔۔۔
“کوئی تو ایسا دن بھی آئے گا ان بے کل دنوں میں جب تم مجھے دیکھ کر مسکراو گی ”
جہانگیر نے پر امید نظروں سے اسے تکا۔۔۔
“حسرت ہی رہ جائے گی ان شاء اللہ ”
وہ اتنا چڑی تھی کی بے ساختہ چیخ پڑی۔
بی جان کے سمجھانے کا ہی اثر تھا کہ وہ دونوں مشترکہ کمرہ میں قیام پزیر تھے یوں بھی سحرش نے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔۔
آج بڑے دنوں بعد جہانگیر اور سحرش بی جان کے روم میں ایک ساتھ موجود تھے ہلکی پھولکی گپشپ کے ساتھ چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے آسمان پر کالی گھٹاوں نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کھڑکی سے آتے ہوئے بھلی لگ رہی تھی ۔۔۔۔
“جہانگیر ہم نے سوچا ہے کیوں نہ اب تم ولیمہ کرلو کچھ رشتے داروں کو بھی مدعو کرلیں گے۔۔۔۔ اب اس رشتہ کی حقیقت سب کو بتادینی چاہیئے۔۔۔”
بی جان کی بات پر جہانگیر نے معنی خیزی سے سحرش کو دیکھا جو شاید کہیں اور ہی گم تھی ۔۔۔۔۔ یہ اسکی نظروں کی تپش ہی تھی جو وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور جہانگیر کو اپنی طرف دیکھتا پاکر نظروں کا زاویہ بدل دیا۔۔۔۔۔۔
جواب نہیں دیا تم دونوں نے میری بات کا ؟؟؟
اب کہ بی جان نے عینک انکھوں کے عین سامنے کر کے دونوں کو غور سے دیکھا جیسے ان کے تاثرات نوٹ کررہی ہوں۔۔۔۔
“جی۔۔۔ جی۔۔۔ بی جان بلکل۔۔۔ جیسا آپ مناسب سمجھیں ہم راضی ہیں ۔۔۔۔ ”
جہانگیر نے گڑبڑاتے ہوئے کہا:
“ہاں ہاں سب جانتی ہوں میں نکاح تو مجھ سے پوچھ کر ہی کیا تھا نہ آیا بڑا ۔۔۔”
بی جان نے طنزیہ انداز میں جہانگیر کو ایک دھپ لگائی ۔۔۔
“جس کا نکاح تھا اس سے نہیں پوچھا گیا آپ تو پھر بہت دور ہیں ”
ناچاہتے ہوئے بھی سحرش نے تنفر سے کہا اور کمرے سے نکل گئ ۔۔۔
جبکہ جہانگیر نے ندامت سے سر جھکا دیا تھا۔۔۔۔۔
بی جان ابھی تک سحرش کی باتوں پر غور کررہیں تھیں۔۔۔۔۔
بیٹا کتنے خراب ہوگئے تمہارے بال ؟؟
” ہیں تو ماشااللہ بہت لمبے۔۔۔ لیکن اگر خیال نہیں کرو گی تو اور زیادہ خراب ہوجائیں گے۔۔۔”
آج بی جان سحرش کے سر میں تیل کی مالش کررہیں تھیں ۔۔۔۔۔
“بی جان آپ بہت اچھی ہیں اتنا خیال تو میری سگی ماں نے میرا نہیں رکھا جتنا آپ رکھ رہیں ہیں آپ نہ ہوتییں تو شاید میں کب کی مرجاتی ۔۔۔۔”
“نہ نہ بیٹا ایسے نہیں کہتے اللہ ناراض ہوتا ہے ”
جہانگیر جو اپنی دھن میں انگلی میں گاڑی کی چابی گھماتا ہوا اندر آرہا تھا سحرش کو بی جان کے گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھے دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔۔۔
بی جان آپ تو مجھے بھول ہی گئیں ہیں کہ آپکا کوئی بیٹا بھی ہے؟؟؟
جہانگیر نے دل ہی دل میں سحرش کے لمبے اور گھنے بالوں کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا۔۔۔۔۔
“میں کیوں بھولوں گی تمھارے پاس ہی ٹائم نہیں مجال ہے جو اپنی ماں کا حال احوال پوچھ لو۔۔۔۔ ”
بی جان نے جہانگیر پر چڑھائی کردی سحرش کی دبی دبی ہنسی دیکھ کر جہانگیر کا منہ بن گیا اور کھسیانے لگا۔۔۔۔۔
:آپ کو پتا تو ہے میں کتنا بزی رہتا ہوں پھر بھی آپ مجھے ہی ڈانٹتی ہیں ”
جہانگیر کے لہجہ میں خفگی کا عنصر شامل تھا ۔۔۔ سحرش اٹھ کر کمرہ میں چلی گئ تو جہانگیر نے اسکی جگہ سنبھال لی ۔۔۔۔۔۔
“ہاں میرا بچہ بہت محنتی ہے کم عمری میں ہی نازک کندھوں پر بوجھ اٹھا لیا تھا اللہ تجھے دو جگ کی خوشیاں دیں ۔۔۔ آمین۔۔۔ ”
بی جان نے ممتا بھرے لہجہ میں کہتے ہوئے جہانگیر کا ماتھا چوم لیا۔۔۔۔۔
تمھیں بڑی ہنسی آرہی تھی ؟؟؟
جہانگیر نے اسے آئینہ کے سامنے کھڑے پاکر کہا:
“کیوں اس پر بھی پابندی ہے ”
آئینہ میں نظر آنے والے جہانگیر کے عکس کو گھورا اور اس کے پاس سے گزر کر جانے لگی کہ جہانگیر نے اسکی کلائی تھام لی۔۔
یہ کیا بتمیزی ہے ؟؟؟: ہاتھ چھوڑو میرا ”
“بتمیزی ہی سمجھ لو میں تو نہیں چھورنے والا کر لو جو کرنا ہے”
جہانگیر نے ڈھٹائی سے اسکی چمک دار انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا:
“تم کچھ زیادہ ہی اپنی لمٹ کراس کرنے نہیں لگے ہو ۔۔۔ میں کہتی ہوں ہاتھ چھوڑو ”
“نہ نہ تم نہیں آپ”۔۔۔۔
جہانگیر نے اسکی کلائی پر اپنی گرفت اور مضبوط کردی ۔۔۔۔
سحرش نے زور لگا کر اپنی کلائی چھڑائی اور دونوں ہاتھ کا دباو اسکے سینہ پر ڈال کر دور دھکیلا اور خود واش روم میں گھس گئ ۔۔۔
جہانگیر نے غصہ میں زور دار ٹھوکر ٹیبل کو ماری اور کمرہ سے چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہر دفعہ اسکے سامنے بے بس ہوجاتا ہے جب بھی اسکی انکھوں میں دیکھتا ہے تو بیتے دنوں کی کہانی یاد آجاتی ہے اسکی آنکھوں میں درد آج بھی ہلکورہ لیتا ہے۔۔۔۔ اس نے وقت کے ساتھ چلنا تو سیکھ لیا تھا لیکن گزرے وقتوں کی اذیت کو نہیں بھولا سکی تھی اور وہ درد پڑھنے والا کوئی نہیں بلکہ درد دینے والا ہی تھا لیکن مجبور و بے بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ واش روم سے باہر نکلی تو ۔ملازمہ اسے بی جان کا پیغام دے کر چلی گئ اور کمرہ کی حالت پر غور کرنے لگی جو جہانگیر کر گیا تھا۔۔۔۔
“اونہو ۔۔۔ اور تو کوئی کام نہیں بس ہر چیز کو اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں لیکن میں کوئی چیز نہیں ۔۔۔”
وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرہ سمیٹنے لگی دھیان کہیں اور ہونے کی وجہ سے میز کا ٹوٹنے والا شیشہ اسکی ہتھیلی پر لگ گیا تھا۔۔۔۔
اآااااہ ۔۔۔۔ اوف ۔۔۔۔
تکلیف سے اسکے آنسو نکل گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر پلٹ کر کمرہ میں آنے لگا تھا سحرش کو اپنا ہاتھ پکڑے روتا ہوئے دیکھ کر اسکے پاس چلا آیا ۔۔۔۔
“یہ کیا کر لیا دیکھاو ادھر ”
سحرش نے چپ چاپ اپنا ہاتھ اسکے سامنے کردیا ۔۔۔ جہانگیر اسکی پٹی کرکے اپنی فائل اٹھا کر کمرہ سے نکل گیا۔۔۔۔۔
“میں اس شخص کو اتنا نفرت سے دھتکارتی ہوں پھر بھی ہر دفعہ تکلیف میں میرے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اس نے تو وہی کیا جو اسے ٹھیک لگا۔۔۔ جو میری قسمت میں لکھا تھا وہ تو ہوہی گیا ۔۔۔۔۔
اتنے دنوں میں پہلی بار سحرش نے جہانگیر کیلئے مثبت سوچا تھا ۔۔۔ یہ شاید جہانگیر کی خلوص لگن تھی جو سحرش کی نفرت کو کم کرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔
اسے اپنے آپ پر حیرت ہوئی کہ وہ واقعی جہانگیر کے لئے مثبت سوچ رہی تھی تو کیا اس کو جہانگیر سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا میں اس سے کبھی محبت نہیں کرسکتی ۔۔۔۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔۔۔”
وہ تیار ہوکر نیچے آئی تو جہانگیر اسکے انتظار میں ادھر اودھر چکر لگا رہا تھا اسے دیکھ کر مبہوت رہ گیا ۔۔۔
ائیر لائن فراک اور چوڑی دار پجامہ میں اس پر ہلکا میک اپ کئے وہ گڑیا ہی لگ رہی تھی جہانگیر نے اسے کبھی اس حلیئے میں نہیں دیکھا تھا وہ تو بغیر میک اپ میں بھی حسین لگتی تھی اب تو حسن دو آتشہ ہوگیا تھا ۔۔۔۔ وہ بنا پلک جھبکائے اسے تکے جارہا تھا جہانگیر کی گرم نظروں سے اس کا چہرہ سرخی مائل ہوگیا تھا وہ کنفیوز ہونے لگی تو گھبرا کر بولی ۔۔۔
چلیں دیر ہورہی ہے ؟؟؟
ہممم۔۔۔۔ہا۔۔۔ہاں ۔۔ہاں چلو ۔۔ وہ گڑبڑایا اور گاڑی کی جانب چلاگیا سحرش اس کے پیچھے قدم ملاتی ہوئ چل دی ۔۔۔۔
بی جان نے ہی اسے بتایا تھا کہ جہانگیر کے ایک دوست کا ولیمہ تھا وہ اسکے ساتھ بزنس میں ڈیل بھی کر چکا تھا تو بی جان نے اسے جہانگیر کے ساتھ جانے کا۔ کہا تھا ۔۔۔۔۔
“بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔”
جہانگیر نے سامنے مرر میں دیکھتے ہوئے کہا :
سحرش نے منہ کھڑکی کی جانب موڑ لیا تھا ۔۔۔
گاڑی سگنل پر رکتے ہی ایک بچہ ہاتھوں میں گجرے لئے گاڑی کے قریب آیا ۔۔۔
“صاحب جی ۔۔ صاحب جی یہ گجرے لے لو بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں بہت اچھے لگیں گے لے لو صاحب جی ”
جہانگیر نے اس بچہ سے گجرے لئے اور پانچ پانچ سو کے کئ نوٹ اس بچہ کو۔ تھما دیئے ۔۔۔
صاحب جی یہ اتنے کے نہیں ہیں ؟؟؟
بچے نے گھبراتے ہوئے پیسے واپس کرنے چاہے لیکن جہانگیر نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور سگنل کھلتے ہی گاڑی بھگالی ۔۔۔۔
یہ سب سحرش نے بھی دیکھا تھا اس کے دل نے اس بات کو سراہا تھا ۔۔
“وقعی یہ بندہ حساس دل بھی رکھتا ہے۔۔۔” جہانگیر نے اس کی گود میں گجرے رکھ دیئے ۔۔۔
میں اسکا کیا کروں ؟؟؟
سحرش نے سوالیا انکھوں سے پوچھا :
“چاہو تو پھینک دو ، چاہو تو پہن لو ۔۔۔۔”
جہانگیر نے بے نیازی سے کہتے ہوئے موڑ کاٹا تھا ۔۔۔۔
سحرش نے گجرے اٹھا کر ہاتھوں میں پہن لئے تھے جہانگیر کی زیرک نگاہوں نے یہ منظر دیکھا تھا اور دل کو گونا اک سکون محسوس ہوا تھا ۔۔۔