دور ہو یہ کیا کر رہی ہو ؟؟؟ ہوا کیا ہے ؟؟۔
وہ وہ بببڑے صصصاحححب نننننگگگگین بی بی کو بچالیں؟؟؟
کیا کہہ رہی ہو صحیح سے بتاو؟؟
“صاحب جی نگین بی بی کو یاسر نے اغوا کروالیا ہے ۔۔۔”
یہ کیا کہہ رہی ہو ہوش میں تو ہو ۔؟؟؟
نواب ملک نے ڈھاڑتے ہوئے کہا ۔۔۔
اس نے رو رو کر سارا ماجرا انہیں کہہ سنایا سب کو وہاں پر سانپ سونگھ گیا تھا ۔۔
“نمک حرام جس تھالی میں کھائیا اسی میں چھید کردیا۔۔۔”
ملک نواز نے زور دار ٹھپڑ مارا وہ دور جاکر گری ۔۔۔۔
“بابا جان یہ وقت غصہ کرنے کا نہیں ہے آپ چلیں میرے ساتھ ہم وہیں چلتے ہیں اسے بعد میں دیکھیں گے۔۔۔”
رب نواز نے تنفر سے سعیدن کو دیکھ کر بابا کو احساس دلایا ۔۔۔۔
“نہیں صرف ہم جائیں گے تم یہیں رہو ۔۔۔۔۔”
پر بابا؟؟؟؟
کرم دین گاڑی نکالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگین کو ہوش آگیا تھا اسے اپنا سر بھاری لگا جیسے ہی اسے سب یاد آیا وہ کھڑی ہوگئ اپنا ڈوپٹہ دیکھنا چاہا تو وہ نظر نہ آیا پاس پڑی کرسی پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئ ۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا کہہ رہی تھی تو مجھے ہاں آوارہ ہوں، بد معاش ہوں منہ نہیں لگتی میرے ۔۔۔۔۔۔۔ اب تجھے بتاوں گا کہ کتنا آوارہ ہوں”
ننہیںںں۔۔نہیں مجھے معاف کردو خدا کے لئے ؟؟؟
“معاف کردوں ہاں یاسر کسی کو معاف نہیں کرتا ”
“تتتم مممیرے بابا کو نہیں جانتے وہ تمھارے ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے”
“ہاہاہاہاہاہاہاہا ” یاسر نے اسکی دھمکی پر چھت پھاڑ قہقہہ لگایا اور اسکے قریب اکر زور دار ٹھپڑ اسکے چہرے پر مارا جس سے نکسیر اسکی ناک سے بہنے لگی۔۔۔۔
“تم انتہائی ایک گرے ہوئے درندے ہو تم جیسا گھٹیا انسان میری نظر میں کیڑے مکوڑے سے بھی گیا گزرا ہے ”
“اسکے الفاظ جلتی پر تیل کا کام کرگئے وہ اس پر وحشیوں کی طرح جھپٹا اسکی سسکیاں ، آہیں ، چیخ و پکار نے آسمان تک کو ہلادیا تھا لیکن اس کی شیطانیت کو نہیں روک سکی تھی سفاکیت کی انتہا تھی انتہا ۔۔۔۔”
اپنی حوس پوری کر کے وہ فرار ہو چکا تھا ۔۔۔
ملک نواز حویلی میں نگین کے بے ہوش وجود کو اٹھائے داخل ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واقعہ پورے گاوں میں پھیل چکا تھا یاسر اسی رات ملک چھوڑ کر جا۔ چکا تھا جانے سے پہلے اس نے منشی عالم کو موت کی نیند سلادیا تھا اور اسکی جھونپڑی میں آگ لگوادی تھی اپنے پیچھے تمام ثبوت مٹانے کی غرض سے اس نے دو معصوموں کو زندہ جلادیا تھا جو جھونپڑی میں سوئے ہوئے تھے جبکہ خود اپنی حویلی ۔ملازوں کے حوالے کر کے امریکہ چلاگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنسان سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے ہوئے اسے دو گھنٹے ہوگئے تھے دماغ ٹھنڈا ہوا تو سب سے پہلے سحرش کا خیال آیا ۔۔۔۔۔۔گاڑی گھر کی جانب روک دی دل کے ایک کونے میں احساس ندامت نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا حویلی پہنچ کر اپنے کمرہ کا رخ کیا کمرہ میں گھپ اندھیرا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر سوئچ بورڈ کو ٹٹولا لائٹ کھلتے ہی پورا کمرہ روشن ہوگیا اس نے سامنے دیکھا تو اسے دھچکا لگا جس پوزیشن میں وہ اسے چھوڑ کر گیا تھا وہ اتنے گھنٹے اسی زاویہ سے گری ہوئی تھی بالوں نے اسکے چہرے کو چھپایا ہوا تھا وہ
دوڑ کر آگے بڑھا اور سحرش کو سیدھا کیا چہرہ سے بال ہٹانے پر اس کو ایک اور جھٹکا لگا ناک سے بہہ کر خون ہونٹ پر جم گیا تھا سفید گال پر پانچوں انگلیوں کے نشان چھپے تھے اس نے جلدی سے اسے اٹھا کر بیڈ پر ڈالا اور خود واش روم سے فرسٹ ایڈ باکس لے کر آیا روئی سے خون صاف کیا اور اسے ہوش میں لانے کی تدبیر کرنے لگا ۔۔۔۔
انکھ کھلنے پر اس نے کمرہ میں نظر ڈورائی اور جہانگیر کو اپنے قریب دیکھ کر آٹھ بیٹھی جہانگیر نے اٹھنے میں اس کی مدد کی تھی اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرالیا شاید پہلے ہونے والے واقعہ یاد کررہی تھی جو ذہن سے محو ہو گیا تھا جہانگیر تو یہ ہی سمجھا۔۔۔۔
جہانگیر نے اس کی طرف پانی کا گلاس بڑھایا جس کو اس نے نظر انداز کردیا تھا۔۔۔۔
“ایک دفعہ زہر ہی کیوں نہیں دے دیتے بار بار ذخم دے کر مرہم کرنے سے تو بہتر ہے ”
اس نے زہر خند لہجے میں جواب دیا ۔۔۔
اب کے وہ جہانگیر کی سائیڈ سے اٹھ کر جانے لگی تو اچانک چکر آگیا جہانگیر اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے تھا اسے لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو کونی سے پکڑ کر تھاما اور اپنے قریب ہی بٹھا دیا ۔۔۔ہاتھ کی گرفت مضبوط ہونے سے اس کے تکلیف سے آنسو نکل گئے اس نے دوسرے ہاتھ سے جہانگیر کا ہاتھ جھٹکا ۔۔۔
کیا ہوا ہے کونی پر دکھاو ذرا؟؟
“کیوں نہیں آپکی کی ہوئی مہربانیاں ہیں دیکھ لیں اور دل خوش کرلیں ”
سحرش نے طنز کرتے ہوئے کہا :
جہانگیر نے لب بھینچ کر اس کے ہاتھ کی استین کو کہنیوں سے اوپر کیا: جگہ جگہ سے کھال ہٹی ہوئی تھی اور اندر کا گوشت نظر آرہا تھا اس نے اپنے آپ کو کوسا ۔۔۔
” رہنے دیں اتنی مہربانی بہت ہے اپکی اور مہربانی کی ضرورت نہیں ہے ”
وہ بیڈ سے جھٹکے سے اٹھی اور واش روم میں گھس گئ۔۔۔۔
اور جہانگیر کو پچھتاووں نے گھیر لیا۔۔۔۔۔۔
تم اپنے گھر جاو گی؟؟
وہ جو کب سے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی کرنٹ کھاکر جہانگیر کے الفاظوں کو غور کرنے لگی ۔۔۔
کیا تم اپنے گھر جانا چاہتی ہو ؟؟
جہانگیر نے شاید اسکے تاثرات بھانپ لئے تھے جبھی اس بار اونچی آواز میں کہا :
“گھر” اس نے زیر لب دہرایا ۔۔۔
“ہاں”
جہانگیر نے جب جواب میں خاموشی پائی تو دوبارہ بول اٹھا :
“پانچ منٹ تک ریڈی ہوجاو میں تمھیں تمہارے گھر چھوڑنے جارہا ہوں ”
کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟؟
سحرش نے خدشہ کے زیر اثر پوچھا :
“بلکل سچ ”
جہانگیر نے اسے یقین دلایا ۔۔۔۔
ایک ہفتہ تک اسے اپنی کم ہمتی پر غصہ رہا ؟؟ اس کا تو اس سب میں کوئی قصور ہی نہیں تھا اس کی تو ساری باتیں ٹھیک تھیں کہیں نہ کہیں غلطی اسی سے ہو رہی تھی اس نے اسکی سزا ختم کرنے کا سوچ لیا تھا جس پر اب عمل کررہا تھا ۔۔۔۔
وہ بی بی جان سے آخری دفعہ مل کر گاڑی میں آبیٹھی جس میں جہانگیر پہلے ہی موجود تھا گاڑی اپنی منزل پر گامزن ہوگئ تھی کس کو کیا پتا کہ منزل شاید ابھی نہیں تھی گاڑی میں موجود دونوں نفوس اس بات سے بے خبر اپنی اپنی سوچوں میں مگن محو سفر تھے۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی جیسے ہی خان زادہ ہاوس کے پورچ میں رکی سحرش اپنی طرف کا گاڑی کا دروازہ کھول کر جہانگیر کا انتظار کئے بغیر ہی اندر کی جانب بڑھ گئ اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ وہ اس کے ساتھ جائے یا نہیں ۔۔۔۔
جہانگیر جو جانے کیلئے گاڑی ٹرن کرنے لگاتا پھر کچھ سوچ کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
وہ لاونج میں داخل ہوتا ہی کہ اسکے قدم اندر سے آنے والی آوازوں نے باہر ہی روک دیئے۔۔
کیوں آئی ہو اب یہاں ہماری عزت کا جنازہ نکال کر؟؟؟
یاسر کی گرجدار آواز نے سحرش کی ساری خوش فہمیوں کے پرزے پرزے کر دیئے تھے اور وہ جو یہ سوچ کر آئی تھی کہ وہ اپنے ماں باپ سے مل کر اپنے سارے درد مٹائے گی اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔۔۔۔
نجانے کیا کیا وہ سوچ کر آئی تھی کہ اپنے اوپر ڈھے جانے والے ہر ظلم کا ازالہ کرے گی ۔۔۔ اور بتادے گی جہانگیر کو وہ کوئی کھلونہ نہیں ہے جسے جب چاہا توڑ دیا اور جب چاہا اس کا تماشہ بنالیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کس بلبوطہ پر؟؟؟؟
باپ نے تو اس کی سننے سے پہلے ہی سزا میں اضافہ کردیا تھا۔۔۔۔
وہ بے ہقین سی یاسر خان زادہ کو ٹکر ٹکر دیکھے جارہی تھی۔۔۔۔۔