فاروق چھت پر پینچا تا کہ وہ باہر کے حالات دیکھ سکے… وہ سر اوپر اٹھا کر چاروں طرف دیکھنے لگا, اسے چاروں بدمعاش ٹہلتے ہوئے نظر آئے مگر ساتھ ہی ایک ٹارچ کی روشنی اس پر پڑی… دوسرے ہی لمحے ایک آواز فضا میں اُبھری…
“تم چھت پر کیا کر رہے ہو… فوراً نیچے اتر آؤ ورنہ ہم گولی چلا دیں گے…”
“فاروق کو اپنے جسم کا سارا خون جمتا ہوا محسوس ہوا… وہ تھر تھر کانپنے لگا اور گرتا پڑتا نیچے اترنے لگا… بیگم جمشید نیچے کھڑی پریشان نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں…
“کیا ہوا؟”
“انہوں نے مجھے چھت پر دیکھ لیا…”
“یہ تو بہت برا ہوا, اب انہیں شک ہو جائے گا… خدا جانے محمود ٹیلیفون کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے یا نہیں…”
ابھی الفاظ ان کے منہ ہی میں تھے کہ دروازہ ایک بار پھر زور زور سے کھٹکھٹایا جانے لگا…
“اب آئی مصیبت, وہ محمود کے متعلق پوچھیں گے تو ہمارا کیا جواب ہو گا؟”
“کہہ دیں گے باتھ روم میں گیا ہے…”
دروازہ بدستور کھٹکھٹایا جا رہا تھا… آخر انہوں نے دروازہ کھول دیا…
“تم چھت پر کیا کرنے گئے تھے؟”
“یونہی چڑھ گیا تھا… آپ لوگ جو ہمیں رات سے پریشان کر رہے ہیں… نیند اُڑ گئی ہے… ٹہلنے کے لیے چھت پر چڑھ گیا تھا…”
“جھوٹ بکتے ہو, اب ہمیں یقین ہے کہ پیکٹ یہیں کہیں موجود ہے… اب تم اسے نہیں چھپا سکتے…”
“پیکٹ یہاں نہیں ہے… ہمیں اس پیکٹ کا کیا کرنا ہے’ اگر وہ ہمارے پاس ہوتا تو کبھی کا تمہیں دے چکے ہوتے…”
“وہ تمہارا دوسرا ساتھی کہاں ہے… کیا نام ہے اس کا…… محمود..” نقاب پوش نے غرّاتے ہوئے کہا…
“وہ باتھ روم میں ہے ابھی آ جاتا ہے…”
“تم چھت پر جا کر دیکھو’ پیکٹ وہاں تو نہیں ہے…” نقاب پوش نے اپنے ایک ساتھی سے کہا…
“پیکٹ یہیں کہیں موجود ہے اور میں اسے برآمد کر لوں
گا… اس کے بعد تم تینوں کی خیر نہیں… تم نے ہمیں ساری رات پریشان کیا ہے…”
“پریشان تو تم نے ہمیں کیا ہے, ساری رات ہو گئی ہے جاگتے ہوئے…” بیگم جمشید نے گلہ کرتے ہوئے کہا…
“محمود اب تک نہیں آیا…” نقاب پوش کے لہجے میں شک تھا…
“ابھی ابھی تو گیا ہے.. آ جائے گا…”
“تو تم نہیں بتاؤ گے کہ پیکٹ کہاں ہے…”
“یہاں ہو تو بتائیں بھی… جب ہے ہی نہیں تو بتائیں کیا؟”
“تم نے مسٹر شاہد کے ساتھ کیا سلوک کیا؟” فاروق اچانک پوچھ بیٹھا… شاید اس کا ارادہ اسے باتوں میں لگانے کا تھا…
“تمہیں صبح معلوم ہو جائے گا, لیکن نہیں, صبح تک تو شاید تم میں سے بھی کوئی نہ بچے… اس لیے بتا ہی دیتا ہوں… اس نے ہم سے غداری کی تھی اور ہمارے ہاں غداری کی سزا موت ہے… سمجھے…”
“تو وہ غدار تھا؟”
“ہاں! وہ پیکٹ میرے پاس تھا, اس نے اڑا لیا جبکہ یہ……” وہ یہ کہتے کہتے رک گیا…
“تم اس گروہ کے سردار ہو؟”
“ہاں…… ہاں…” اس نے زور دے کر کہا اور سینہ تان لیا…
“تم لوگ کرتے کیا ہو؟” فاروق نے سہمی ہوئی نظروں سے نقاب پوش کی طرف دیکھا…
جواب میں نقاب پوش کا قہقہہ سنائی دیا…
“تم نے بتایا نہیں؟” فاروق نے اپنا سوال دہرایا…
“میں تمہارے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا…”
“اس پیکٹ میں کیا ہے؟”
“تمہارے پہلے سوال میں اور دوسرے سوال میں کوئی فرق نہیں…”
“یعنی تم اس کا جواب بھی نہیں دے سکتے…”
“ٹھیک سمجھے……. ارے! یہ محمود ابھی تک نہیں آیا…”
“آ جائے گا…… اسے دراصل قبض کی شکایت ہے…” فاروق نے بغیر جھجک کے کہہ دیا…
اسی وقت نقاب پوش کا ساتھی جو چھت پر گیا تھا,واپس آیا…
“کیوں……… ملا؟”
“نہیں باس…. چھت پر کچھ بھی نہیں ہے…”
“تم چھت پر کیا کرنے گئے تھے؟” نقاب پوش نے فاروق سے پوچھا…
“میں بتا چکا ہوں…”
“میں سچ سننا چاہتا ہوں…”
“جھوٹ میں نے بھی نہیں بتایا…”
“دیکھو, میں بڑی بری طرح پیش آ ؤں گا…” نقاب پوش نے اس کا شانہ جھنجھوڑتے ہوئے کہا…
“رات سے تم اچھی طرح پیش آ رہے ہو نا کہ اب بری طرح پیش آ ؤ گے…”
“ہاں! میں رات بھر تمہارے ساتھ نرمی کا سلوک کرتا رہا ہوں مگر اب نہیں کروں گا…”
بیگم جمشید خاموش کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھیں… غالباً وہ فاروق کا مقصد سمجھ گئی تھیں… نقاب پوش کے ساتھی بھی خاموش کھڑے تھے…
“محمود آیا نہیں… مجھے تو کچھ گڑبڑ معلوم ہوتی ہے, تم جا کر دیکھو…” نقاب پوش نے اپنے ایک ساتھی سے کہا…
“چلو……… چل کر دکھاؤ باتھ روم کہاں ہے؟” نقاب پوش نے فاروق کو حکم دیتے ہوئے کہا…
“چلو!” فاروق نے لاپروائی سے کہا اور اس کے ساتھ چل
پڑا…
نقاب پوش کے ساتھ نے پہلے تو محمود کو آواز دی مگر جب اندر سے کوئی آواز نہیں آئی تو جھجھکتا ہوا اندر گھس گیا…
“ارے! یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے…” اس کے منہ سے نکلا…
“کیا کہا؟ کیا محمود یہاں نہیں ہے؟”
“نہیں…”
“ذرا دھیان سے دیکھو یار…” فاروق دل میں ہنسا…
“دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا, وہ بھی کوئی سوئی ہے جو دھیان سے دیکھوں…”
“کیا لیٹرین میں کوئی مکھی موجود ہے؟” فاروق نے اچانک پوچھا… دراصل وہ وقت گزارنا چاہتا تھا…
“مکھی……. کیا مطلب؟” اس کے لہجے میں حیرت تھی…
“میرا مطلب ہے کہ کہیں وہ جادو کے زور سے مکھی تو نہیں بن گیا…”
“بکواس نہ کرو…” نقاب پوش کا ساتھی غصے میں تلملاتا ہوا باہر نکل آیا اور اسے دھکا دیتے ہوئے بولا…
“چلو……… اب دیکھیں گے تم میں کتنا دم خم ہے…” فاروق دھکے کی وجہ سے اس سے کئی قدم آگے چلا آیا… دونوں پھر وہیں پہنچے جہاں بیگم جمشید, نقاب پوش اور اس کے باقی دونوں ساتھی کھڑے تھے…
“کہاں ہے وہ؟” نقاب پوش نے دونوں کو دیکھ کر کہا…
“وہ لیٹرین میں نہیں ہے…”
“تو یہ جھوٹ بول رہے تھے……… ہوں…….. تم تینوں سارے مکان میں محمود کو تلاش کرو… وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتا, کیونکہ ہم نے باہر نکلنے والے دروازے کا ایک لمحے کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا…”
چند منٹ کے اندر اندر نقاب پوش کے ساتھی منہ لٹکائے واپس آ گئے…
“کیوں…. کچھ پتا نہیں چلا؟”
“محمود کہیں نہیں ہے…”
“کہیں نہیں ہے……. یہ کیسے ہو سکتا ہے… وہ گھر سے باہر کیسے جا سکتا ہے؟” نقاب پوش کے لہجے میں بلا کی حیرت تھی…
“خدا جانے ہم کیا کہہ سکتے ہیں…”
“تم نے تلاشی تو اچھی طرح لی ہے نا؟” نقاب پوش نے اس کی بات پر دھیان دیے بغیر کہا…
“بالکل… ہم نے کوئی کونا نہیں چھوڑا…”
“تم تینوں یہیں ٹھہرو… میں اپنا اطمینان کر لوں… پھر ان دونوں کی زندگیوں کا فیصلہ کر دیں گے…” اس نے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور مڑ گیا…
فاروق دل ہی دل میں ہنسا… ان کے چند منٹ اور ضائع ہو رہے تھے اور یہی فاروق اور بیگم جمشید چاہتے تھے…
تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو غصے سے مٹھیاں بھینچ رہا تھا… “تم میں سے ایک بیرونی دروازے پر ٹھہرے اور ان دونوں کو کمرے میں لے چلو اور اگر محمود آئے تو اسے فوراً میرے پاس پکڑ کر لے آنا, کوئی اور اندر داخل ہونے کی کوشش کرے تو اسے بغیر کسی جھجک کے گولی مار دینا…”
نقاب پوش کا ساتھی انہیں جانوروں کی طرف ہانکتا ہوا کمرے میں لے گیا…
“شیر خان! ذرا اپنا انگلیاں کسنے کا شکنجہ تو نکالو ابھی پتا چل جاتا ہے کہ یہ لوگ کتنے سخت جان ہیں اور کتنی دیر تک نہیں بتاتے…” اس نے اپنے ایک ساتھی سے مخاطب ہو کر کہا…
شیر خان نے جیب میں سے ایک عجیب و غریب آلہ نکالا… اس میں پانچ انگلیوں کے خول سے بنے ہوایے تھے…
“مسٹر فاروق! اپنے بائیں ہاتھ کی پانچوں انگلیاں اس میں داخل کر دو…” نقاب پوش نے آلہ اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا…
“نہیں…….. نہیں……” فاروق خوفزدہ لہجے میں چلّایا… بیگم جمشید تھر تھر کانپ رہی تھیں اور ان کا رنگ فق تھا…
“شیر خان! چاقو نکالو…” نقاب پوش غرّایا…
شیر خان نے جیب سے چاقو نکالا… چاقو کھلنے کی کڑکڑاہٹ سے ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے… حلق سوکھ گئے, ٹانگیں تھر تھر کانپنے لگیں…
“چاقو کی نوک فاروق کی گردن پر رکھ دو… اگر یہ انگلیاں شکنجے میں نہ ڈالے تو نوک کو تھوڑا سا دبا دینا… اور اگر پھر نھی نہ ڈالے تو تھوڑا اور دبا دینا…” نقاب پوش نے تحکمانہ انداز میں کہا…
شیر خان نے چاقو فاروق کی گردن پر رکھ دیا… فاروق کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکلی… بیگم جمشید سے رہا نہ گیا…
“کیوں ظلم کرتے ہو, تمہیں ترس نہیں آتا؟”
“خاموش رہو اور نظارہ دیکھو ابھی تمہاری باری بھی آنی ہے…”
شیر خان نے چاقو کی نوک گردن میں چبھو دی فاروق کی منہ سے ایک دل دوز چیخ نکلی’ دوسرے ہی لمحے وہ اپنی انگلیاں شکنجے میں داخل کر رہا تھا… بیگم جمشید بےبسی سے دیکھ رہی تھیں…
“کیوں آ گئے نا راہِ راست پر…” نقاب پوش نے کہا… اور شکنجہ کسنے لگا… فاروق کے منہ سے دبی ہوئی سسکیاں نکلنے لگیں…
“بتاؤ پیکٹ کہاں ہے, محمود کدھر ہے؟”
فاروق خاموش رہا… تکلیف کو برداشت کرنے کے کیے اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے تھے… اس کی آنکھوں میں درد کی شدت سے آنسو جھلملانے لگے تھے مگر وہ خاموش تھا… بیگم جمشید نے اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے آنکھیں بند کر لی تھیں…
شکنجے پر دباؤ بڑھتا گیا… فاروق کے منہ سے چیخیں نکلتی رہیں مگر اس نے انہیں کچھ نہ بتایا… بالآخر نقاب پوش نے شکنجہ اس کی انگلیوں سے نکال لیا…
“اب تم اس میں انگلیاں ڈالو…” اس نے بیگم جمشید سے کہا…
“نہیں…… نہیں….. یہ ظلم نہ کرو… اسے میری ہی انگلیوں میں رہنے دو…” فاروق گڑگڑایا…
“خاموش رہو….. چلو تم نے سنا نہیں…”
بیگم جمشید نے خاموشی سے انگلیاں شکنجے میں ڈال
دیں…
“فاروق تم اس تکلیف سے آشنا ہو… اب یہی تکلیف تمہاری امی کو پہنچائی جائے گی… ان کی انگلیوں کو… تم یہ نہ سمجھنا کہ میں نے تمہاری انگلیوں پر پورا شکنجہ کا دیا تھا… میں نے تو تمہیں نمونہ دکھایا تھا… اصل قوت تو اب صرف ہو گی… تم اپنی تکلیف تو برداشت کر سکتے ہو لیکن کیا اپنی امی کی تکلیف بھی برداشت کر لو گے؟”
فاروق خاموش رہا نقاب پوش نے شکنجہ کسنا شروع کیا… بیگم جمشید کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں… فاروق بےچین ہو گیا… وہ اپنی امی کو ذرا بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا مگر اس وقت مسئلہ ان سب کی زندگی کا تھا… وہ خاموش رہا… شکنجے پر دباؤ بڑھتا رہا… یہاں تک کہ امی کے منہ کے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں… فاروق کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا… وہ چلّا اٹھا…
“ٹھہرو, بند کرو یہ ظلم… میں تمہیں سب کچھ بتاتا ہوں…”
“فاروق!” بیگم جمشید چلّائیں… “خبردار جو تم نے منہ سے ایک لفظ بھی نکالا…”
“مگر امی میں یہ سب کچھ نہیں دیکھ سکتا… آپ کی چیخیں نہیں سن سکتا…”
“تو اپنی آنکھیں بند کر لو… اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لو…” بیگم جمشید نے آنسو پیتے ہوئے کہا…
“تو یہ لو…” نقاب پوش نے شکنجے پر اور دباؤ ڈالا اور ان کے منہ سے ایک دل خراش چیخ نکلی…
“بس کرو, میں تمہیں بتاتا ہوں…” فاروق سے برداشت نہ ہو سکا…
“نہیں, تم کچھ نہیں بتاؤ گے…” بیگم جمشید چلائیں…
“میں کہتا ہوں شکنجہ کھول دو… میں تمہیں سب بتاتا ہوں…”
“نہیں اسی حالت میں بتاؤ…”
“یہ نہیں ہو سکتا, پہلے شکنجہ کھولو…”
“چلو خیر یونہی سہی…”
نقاب پوش شکنجہ کھولنے لگا…
………………………………………
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...