“تم جھوٹ بول رہے ہو… تم نے پیکٹ یہاں نہیں چھپایا
تھا…”نقاب پوش کی آواز میں شدید غصہ تھا…
“خدا کی قسم ہم نے یہاں ہی چھپایا تھا…” محمود فوراً بولا…
“تو پھر وہ کہاں چلا گیا؟”
“دیکھ نہیں رہے ہو… گڑھا کسی نے دوبارہ کھودا ہے, مٹی اس کے کنارے کے پاس پڑی ہے…”
“ہوں,معلوم تو یہی ہوتا ہے………. تم تینوں میرے ساتھ آؤ…” اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا اور پائیں باغ سے ہوتا ہوا باہر نکل گیا…
ان کے جاتے ہی تینوں نے اطمینان کا سانس لیا… ان کی امی نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ محمود نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا…
“امی جان! یہ لوگ ابھی یہاں سے جائیں گے نہیں… چھپ کر ہماری نگرانی کریں گے… زبان پر فرزانہ کا نام نہ آنے پائے…”
“مگر وہ ہے کہاں؟” انکی امی نے دھیمے لہجے میں کہا…
“جہاں بھی ہے’ خیریت سے ہے اور پیکٹ بھی ضرور اسی کے پاس ہے…”
“تم ٹھیک کہتے ہو,آؤ اب اندر چل کر بیٹھیں…”
تینوں اندر آئے مگر ان کے چہروں پر خوف تھا… تینوں یہی سوچ رہے تھے کہ فرزانہ کہاں اور کس حال میں ہے اور پیکٹ کہاں ہے؟
“خدا جانے وہ کہاں چھپی ہے؟”
“پہلے ہم تینوں کمرے دیکھتے ہیں…” فاروق نے کہا…
“تم دونوں جاؤ میں یہیں بیٹھتی ہوں, کہیں وہ لوگ پھر نہ آ جائیں…”
وہ ایک کمرے کی طرف چل پڑے… سب سے پہلے وہ اپنی امی کے کمرے میں آئے… فاروق نے دھیمے لہجے میں پکارا…
“فرزانہ تم کہاں ہو, اب خطرہ سر سے ٹل چکا ہے…”
انہیں کوئی جواب نہ ملا… وہ دوسرے کمرے میں گئے, فرزانہ وہاں بھی نہیں تھی… یہاں تک کہ انہوں نے سارا مکان دیکھ ڈالا… فرزانہ کہیں نہ ملی… اب تو ان کی پریشانی کی انتہا نہ رہی… وہ پریشان حال واپس امی کے پاس آئے…
“کہیں فزانہ باغ میں ہی نہ ہو…” فاروق نہ خیال پیش کیا…
“پائیں باغ میں؟” ان کی امی بے خیالی میں بولیں…
“ہاں کسی درخت پر… آپ کو معلوم ہے’ آج اس نے سبز کپڑے پہنے ہوئے ہیں… لہٰذا اگر وہ کسی گھنے درخت پر چڑھ جائے تو کسی کے فرشتوں کو بھی نظر نہیں آ سکتی اور درختوں پر چڑھنے میں تو وہ کافی تیز ہے…”
“خدا کرے میری بچی ہر طرح محفوظ ہو…” بیگم جمشید کی آواز بھرا گئی…
“اگر وہ کسی درخت میں چھپ گئی ہے تو اس طرح وہ صبح ہونے تک تو محفوظ ہے, لیکن جونہی دن نکلا وہ دیکھ لی جائے گی…”
“پھر کیا کرنا چاہیے؟”
“میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ فرزانہ پر ہی چھوڑ دینا چاہیے… اس وقت تو وہ ہم سب سے زیادہ عقل مند ثابت ہوئی ہے…”
“ہاں, مگر وہ ساری رات درخت کی شاخوں میں رہ کر کیسے گزارے گی…” بیگم جمشید کی آواز گھبرائی ہوئی تھی…
“یہ بات بھی ہے تو کیوں نہ ہم اسے تلاش کرنے کی کوشش کریں…” محمود نے تجویز پیش کی اور پھر خود ہی کہنے لگا… “ذرا میں باہر تو جھانک کر دیکھ لوں کہ کہیں وہ لوگ تو موجود نہیں…” محمود کب نچلا بیٹھنے والا تھا…
“ضرور دیکھو مگر اس طرح کہ انہیں معلوم نہ ہو سکے کہ ہم کیا کر رہے ہیں…” فاروق نے اسے خبردار کیا…
“تم فکر نہ کرو میں بدھو نہیں ہوں…” یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا… سب سے پہلے وہ اپنے کمرے میں آیا… اور پائیں باغ والی کھڑکی سے باہر جھانکا… پھر وہ مکان کی چھت پر چڑھا, لیکن اس نے اپنا سر منڈیر سے اونچا نہیں ہونے دیا… اس نے تقریباً اسی حالت میں رہتے ہوئے چاروں طرف دیکھا اور پھر دھک سے رہ گیا اور تیزی سے نیچے اترنے لگا…
“کیوں, کیا رہا؟” فاروق نے پوچھا…
“کیا وہ لوگ چلے گئے؟” بیگم جمشید نے پوچھا…
“نہیں امی وہ مکان کے چاروں کونے پر کھڑے ہیں… ہر کونے پر ایک آدمی موجود ہے…”
“اوہ, پھر اب کیا ہو گا, میری بچی فرزانہ…” وہ اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکیں…
“فرزانہ جہاں بھی ہے’ خیریت سے ہے…” محمود بڑبڑایا…
“ہاں کاش…” بیگم جمشید کاش کہہ کر چپ ہو گئیں…”
“کیا کہنا چاہتی ہیں آپ,کیا یہی کہ اس وقت ابا جان یہاں ہوتے تو…”
“نہیں, میں تو یہ سوچ رہی تھی کہ کاش ہمارے گھر میں ٹیلیفون لگا ہوتا…”
“ٹیلیفون تو شیرازی صاحب کے ہاں بھی ہے…” فاروق کو اچانک خیال آیا…
“مگر ہم میں سے کوئی شیرازی صاحب کے گھر کیسے پہنچ سکتا ہے… دونوں گھروں کی دیواریں ملی ہوئی ضرور ہیں… لیکن ان کی چھت بہت اونچی ہے اور دروازے کے راستے تو ہم جا ہی نہیں سکتے…” ان کی امی نے مایوس لہجے میں کہا…
“دن نکلتے ہی فرزانہ چھپی نہیں رہ سکے گی اور پیکٹ ان کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گا…”
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں دن نکلنے سے پہلے پہلے کچھ کرنا ہے…” فاروق بولا…
“دیکھو, نہ ہم چھت کے راستے شیرازی صاحب کے مکان میں جا سکتے ہیں, نہ دروازے کی طرف سے, اس صورت میں ہم صرف ایک طرح وہاں جا سکتے ہیں…” محمود نے مسرت سے کہا…
“اور وہ کیا؟” بیگم جمشید بےچینی سے بولیں…
“دیوار کے راستے…”
“تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا ہے… کیا ہم دیوار میں نقب لگائیں؟”
“یار تم سنو تو سہی… پوری بات سنتے نہیں اور درمیان میں بول پڑتے ہو…”
“اچھا کہو, کیا کہنا چاہتے ہو…”
“تمہیں معلوم ہے ہمارے باورچی خانے میں ایک روشن دان ہے… اس روش دان کے دوسری طرف کسی زمانے میں کُھلا میدان تھا شاید یہ اُسی لیے بنایا گیا تھا’ لیکن بعد میں شیرازی صاحب نے وہ کھلا میدان خرید لیا اور اب ہمارے باورچی خانے کے دوسری طرف ایک کمرہ بن چکا ہے جو شیرازی صاحب سٹور کے طور پر استعمال کرتے ہیں…”
“اوہ ہاں, بالکل ٹھیک, تم ٹھیک کہہ رہے ہو…” بیگم جمشید کی آواز میں مسرت رچی ہوئی تھی…
“پھر تم کیا کہنا چاہتے ہو’ یہ کہ میں یا تم اس روشن دان میں سے پھلانگ جائیں…” فاروق نے کہا…
“ہاں!” محمود نے کہا…
“اس روشن دان کے دوسری طرف چھلانگ لگانا اتنا آسان نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو… تم ضرور سر کے بل گرو گے…”
“میری تجویز یہ ہے کہ ایک رسی باورچی خانے میں کسی چیز سے باندھ کر روشن دان سے دوسری طرف یعنی شیرازی صاحب کے گھر میں لٹکا دی جائے… میں میز پر ایک چھوٹی میز اور اس پر کوئی سٹول رکھ کر روشن دان تک پہنچ کر رسی کے ذریعے دوسری طرف لٹک جاؤں اور پھر آہستہ آہستہ دوسری طرف اتر جاؤں… کیوں ہے نا شاندار تدبیر…” محمود نے فخریہ انداز میں دونوں کی طرف
دیکھا…
“بالکل ٹھیک…” فاروق نے اس کے خیال کی تائید کی…
تینوں اٹھے… سب دروازے اندر سے بند کیے اور باورچی خانے میں چلے آئے…
فاروق نے بڑی سی میز دیوار کے ساتھ لگا دی اور پھر اس پر ایک چھوٹی میز رکھ دی گئی… یہ کام وہ اتنی احتیاط سے کر رہے تھے کہ ذرا سی بھی آہٹ نہ ہو’ اب محمود بڑی میز پر چڑھا, پھر چھوٹی میز پر… چھوٹی میز پر کھڑے ہو کر اس نے ہاتھ روشندان کی طرف بڑھائے… اس کی انگلیاں روشن دان سے صرف تین انچ کے فاصلے پر تھیں… اس نے ایڑیاں اوپر اٹھائیں مگر ہاتھ پھر روشن دان تک نہ پہنچ سکے… وہ آہستہ آہستہ نیچے اتر آیا…
“کوئی ایک فٹ اونچی چیز اور ہونی چاہیے تب میں روش دان تک پہنچ سکوں گا…”
فاروق گیا اور ساتھ والے کمرے سے ایک سٹول اٹھا لایا…
“بس اب ٹھیک ہے لو بھئی فاروق اب میں چلا خدا
حافظ…”
محمود پہلے بڑی میز پر چڑھا… پھر فاروق سے بولا…
“لاؤ مجھے رسی پکڑا دو…” فاروق نے رسی کا دوسرا سرا اس کے ہاتھ میں دے دیا…
وہ دوسری میز پر بھی چڑھ گیا, لیکن ابھی تیسری میز پر چڑھنے کے لیے پاؤں اٹھایا ہی تھا کہ عین اس وقت دروازہ زور زور سے دھڑ دھڑایا جانے لگا… ان کے دل دھک سے رہ گئے…
………………………………………
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...