محمود اور فاروق دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوئے…
فرزانہ آرام کرسی پر بیٹھی انہیں گھور رہی تھی…
“بہت خوب… میں پوچھ سکتی ہوں تم دونوں نے اتنی دیر کہاں لگائی… امی نے صرف ایک گھنٹے کی سیر کی اجازت دی تھی اور اب تین گھنٹے ہونے والے ہیں… وہ تم سے بہت ناراض ہیں…”
“ارے ارے ہماری پیاری بہن! ہمیں ایک بہت ضروری کام کی وجہ سے دیر ہو گئی ہے… آئندہ ہم کبھی دیر نہیں لگائیں
گے…” محمود گڑگڑایا, حالانکہ فرزانہ اس سے دو سال چھوٹی تھی…
“تم ہر روز یہی کہتے ہو مگر آج تمہیں بتانا پڑے گا کہ وہ کون سا ضروری کام تھا جس کے لیے تمہیں اتنی دیر ہو گئی…”
“یہ ہم نہیں بتا سکتے…”
“تو میں چلی امی کے پاس…” فرزانہ تیزی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی…
“ارے ارے…” محمود دوڑ کر اس کے راستے میں کھڑا ہو
گیا…
“اگر تم نہیں بتاؤ گے تو میں ضرور امی کو بتاؤں گی اور اگر تم مجھے نہیں جانے دو گے تو میں یہیں کھڑے کھڑے شور مچا دوں گی…”
“تم سے خدا سمجھے…” فاروق نے دانت پیسے…
“میرا خیال ہے کہ اس شیطان کو بتانا ہی ہو گا…” محمود نے ہتھیار ڈال دیے…
“لیکن پہلے اس سے وعدہ لے لو کہ امی سے اس بات کا تذکرہ نہیں کرے گی…” فاروق بولا…
“اچھا وعدہ رہا’ بتاؤ اب…”
اور محمود اسے دھیمے لہجے میں ساری بات بتانے لگا… فرزانہ غور سے سن رہی تھی… اس پر ایک غیر معمولی جوش اور خوشی کی کیفیت طاری تھی…
“وہ پیکٹ کہاں ہے؟” بات مکمل ہونے کے بعد فرزانہ نے پوچھا…
“یہ رہا میری جیب میں…”
“ذرا دیکھوں تو…”
محمود نے جیب سے پیکٹ نکال کر اسے دے دیا…
“اس میں تو کچھ کاغذات ہیں شاید…”
“ہاں…”
“تو تم صبح انہیں محکمہ سراغرسانی پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہو…”
“ہاں بالکل’ یہی ارادہ ہے…”
تم اپنے ارادے میں کامیاب تو اس وقت ہو گے نا جب یہ پیکٹ یہاں صبح تک محفوظ رہ گیا…”
“کیا مطلب؟” دونوں بری طرح چونکے…
“ہو سکتا ہے’ شاہد اپنے دشمنوں کو بتانے پر مجبور ہو جائے کہ کاغذات کہاں ہیں…”
“نہیں ایسا نہیں ہو سکتا, مسٹر شاہد بہت سخت جان معلوم ہوتے ہیں اور پھر انہیں اپنی جان کی اتنی پروا نہیں جتنی ان کاغذات کی ہے… اگر ایسا ہوتا تو وہ یہ کاغذات دشمنوں کے حوالے کر کے اپنی جان بچا سکتے تھے…”
“تم ٹھیک کہتے ہو مگر ہو سکتا ہے’ وہ مسٹر شاہد سے اگلوانے میں کامیاب ہو جائیں اور پھر ادھر کا رخ کریں…”
فرزانہ کی بات سن کر دونوں سوچ میں ڈوب گئے… آخر فاروق نے کہا…
“میرا خیال ہے فرزانہ ٹھیک کہتی ہے…”
“تو پھر کیا کریں؟”
“اسے تصویر کے پیچھے نہ رکھ دیں…” فاروق نے تجویز پیش کی…
“وہ وہاں سب سے پہلے دیکھیں گے…” فرزانہ بول اٹھی…
“پائیں باغ میں گڑھا کھود کر کیوں نہ دبا دیں..”
“میرا خیال ہے کہ یہ بہتر رہے گا…” فاروق بولا…
تینوں پائیں باغ میں پہنچے… انہوں نے ایک چاقو کی مدد سے چھوٹا سا گڑھا کھودا… اور پیکٹ کو اس میں دفن کر دیا…
اس کام سے فارغ ہو کر وہ پھر اپنے کمرے میں آئے…
“اچھا! میں جاتی ہوں… امی سے کہہ دوں گی کہ تم دونوں سرِشام ہی واپس آ گئے تھے اور اب مزے سے سو رہے ہو…” اور فرزانہ امی کے کمرے کی طرف چل دی…
“ابھی تک نہیں لوٹے وہ دونوں, کہاں رہ گئے آج… آج میں ان کی خوب خبر لوں گی…” فرزانہ کو دیکھتے ہی امی بول اٹھیں…
“نہیں امی! وہ تو بہت دیر ہوئی گھر آ چکے ہیں… اور اپنے کمرے میں سو رہے ہیں… میں انہی کو دیکھنے گئی تھی…”
“مگر وہ اندر آئے کیسے……. مجھے تو پتا بھی نہیں چلا…”
“وہ باغ والی کھڑکی میں سے آئے ہوں گے, اس خیال سے کہ آپ سو چکی ہوں گی اور آپ کی نیند میں خلل پڑے گا…”
“اچھا تو اب تم بھی لیٹ جاؤ…”
فرزانہ لیٹ گئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی…
ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کوئی زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا… فرزانہ کا دل دھڑک اٹھا…
دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا جا رہا تھا’ لیکن فرزانہ جاگنے کے باوجود بھی نہ اٹھ سکی تھی… پھر اس نے دیکھا کہ اس کی امی اٹھ کر دروازے کی طرف جا رہی ہیں…
بیگم جمشید نے دروازہ کھولا… دروازے میں چار لمبے تڑنگے نوجوان کھڑے تھے… ان کے لباس سیاہ تھے ان میں سے ایک کا چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا…
“محمود یہاں ہی رہتا ہے؟”
“کیوں کیا بات ہے؟” بیگم جمشید کا دل دھڑک اٹھا…
“جو پوچھا ہے اس کا جواب دو…”
“ہاں یہیں رہتا ہے… کیا بات ہے, تم کیوں پوچھ رہے ہو؟”
کوئی جواب دینے کی بجائے وہ اندر گھس آئے…
“یہ تم کیا کر رہے ہو… گھر کے اندر کیوں گھس آئے ہو… میں کہتی ہوں باہر نکلو…”
“خاموش رہو , ورنہ تمہارا گلا دبانا پڑے گا…” ان میں سے ایک غرایا…
“کہاں ہے محمود؟”
“اپنے کمرے میں سو رہا ہو گا…”
“تو چلو اس کے کمرے میں…”
مجبوراً بیگم جمشید محمود اور فاروق کے کمرے کی طرف چل پڑیں… ابھی وہ راستے میں ہی تھیں کہ ان کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ دونوں باہر نکل آئے…
“کیا بات ہے امی؟” ان کے منہ سے نکلا’ پھر ان چاروں پر نظر پڑتے ہی ان کے کلیجے دھک سے رہ گئے…
“تم میں سے محمود کون ہے؟”
“میں ہوں…….. کیا بات ہے؟” محمود نے بظاہر اکڑ کر کہا…
“وہ پیکٹ کہاں ہے؟”
“کون سا پیکٹ؟”
“اتنے انجان نہ بنو… ہمیں سب کچھ معلوم ہے…”
“کیا معلوم ہے, کیسا پیکٹ……. اور یہ کیا معاملہ ہے؟” محمود کی امی سخت حیران تھیں…
“تم خاموش رہو… ہاں محمود پیکٹ کہاں ہے؟”
“محکمہ سراغرسانی کے دفتر میں…”
“وہاں کیسے پہنچ گیا… تم جھوٹ بولتے ہو…”
“میں وہ پیکٹ چوکیدار کو دے آیا تھا…”
“بکواس کرتے ہو… وہ پیکٹ یہیں کہیں ہو گا, تلاش کرو…” نقاب پوش نے اپنے ساتھیوں سے کہا اور تینوں ادھر ادھر پھیل گئے…
“یہ تم کیا کر رہے ہو… یاد رکھو تم سے غیر قانونی حرکت سرزد ہو رہی ہے… اس کے لیے تمہیں جواب دہ ہونا پڑے
گا…”
“ہم جواب تو اس وقت دیں گے جب تم ہمیں گرفتار کرا سکو…” وہ ہنسا…
“اس گھر میں کتنے افراد رہتے ہیں؟” اس نے پوچھا…
“میں اور یہ دونوں……” وہ کچھ کہتے کہتے رک گئیں… انہیں فرزانہ اور اپنے شوہر کا خیال آ گیا تھا… فرزانہ کو وہ اپنے کمرے میں سوتا چھوڑ آئی تھیں… تلاشی لینے والے بھی وہاں پہنچیں گے… کہیں وہ فرزانہ کو نہ ڈرائیں دھمکائیں… اس خیال کے آتے ہی وہ دروازے کی طرف لپکیں…
“کہاں چلیں؟” نقاب پوش غرایا…
“تمہارے آدمی میری چیزوں کو ادھر ادھر نہ کریں…”
“نہیں, وہ صرف پیکٹ تلاش کریں گے, بےفکر رہو, ہم چور نہیں ہیں…”
“آخر اس پیکٹ میں ہے کیا اور یہاں کیسے پہنچ گیا؟”
“اس میں ایک قیمتی راز ہے وہ ہم تمہیں نہیں بتا سکتے… تمہاری خیر اسی میں ہے وہ ہمارے حوالے کر دو… تمہارا بیٹا خوب جانتا ہے…”
“کیوں محمود؟” اس کی امی نے پوچھا…
“ہاں امی, پیکٹ مجھے ملا ضرور تھا’ لیکن اب یہاں نہیں ہے… میں اسے محکمہ سراغرسانی کے چوکیدار کو دے آیا ہوں…”
“تم جھوٹ بولتے ہو, اتنی جلدی تم وہاں پہنچ بھی گئے اور واپس بھی آ گئے…”
“تم آخر میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتے…” محمود نے کہا…
“مجھے یقین ہے وہ یہیں کہیں ہے… تم نے ضرور اسے کہیں چھپا دیا ہے…”
فاروق اور محمود کے دل دھڑک رہے تھے وہ سوچ رہے تھے اگر یہ لوگ تلاش کرتے کرتے پائیں باغ تک پہنچ گئے تو کیا ہو گا اور پھر نہ جانے مسٹر شاہد کا کیا بنا… انہیں ہمارا پتا کیسے معلوم ہوا…
تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد اس کے ساتھیوں کی واپسی
ہوئی… ناکامی ان کےچہروں پر جھلک رہی تھی…
“باس! ہم نے پلنگ, کرسیوں اور صوفوں تک کو پھاڑ ڈالا, لیکن پیکٹ کا سراغ نہیں ملا…”
“ارے تمہارا ستیاناس تم نے میرا سامان برباد کر دیا…” بیگم جمشید تقریباً رو پڑیں…
“ہم نے مجبوراً ایسا کیا ہے جب پیکٹ کہیں نہ ملا تو گدّے پھاڑنے پڑے…”
“گھر میں کوئی اور فرد تو نہیں ہے؟” باس نے پوچھا…
تینوں کے دل دھڑک اٹھے… یکبارگی انہیں فرزانہ کا خیال آیا… مگر دوسرے ہی لمحے وہ حیرت کا بت بن گئے… ان کا ایک ساتھی کہہ رہا تھا…
“نہیں گھر میں اور کوئی بھی نہیں…”
“کیا؟ گھر میں اور کوئی نہیں…” نقاب پوش کے لہجے میں بےیقینی تھی…
“نہیں…” اس بات پر انہیں حیرت بھی اور خوشی بھی… ساتھ ہی وہ پریشان بھی تھے کہ فرزانہ کہاں چلی گئی…
“بہت خوب, میں ابھی پوچھ لیتا ہوں…” یہ کہتے ہوئے نقاب پوش نے ریوالور جیب سے نکال لیا… دوسرے ہی لمحے ریوالور کی نال بیگم جمشید کی کنپٹی پر رکھی تھی اور وہ ان سے کہہ رہا تھا… “اگر تم نے پیکٹ کا پتا نہ بتایا تو میں گولی مار دوں گا…”
“مم………. میں……….” محمود ہکلایا… اس وقت اس کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی… وہ بےبس ہو گیا تھا… ایک طرف ماں کی زندگی تھی تو دوسری طرف وہ پیکٹ…
“تم اب تک خاموش ہو… میں دس تک گنتا ہوں… اگر تم نے دس پر بھی نہ بتایا تو تمہاری ماں کی لاش تمہارے قدموں میں تڑپ رہی ہو گی…”
“مت بتانا بیٹے! ہو سکتا ہے’ اس پیکٹ کے ان کے ہاتھوں میں چلے جانے سے کسی بکو کتنا نقصان پہنچے… اس لیے میری جان کی ہرگز پروا نہ کرنا……” ان کی والدہ چلائیں…
“ایک!” نقاب پوش غرایا…
“دو!” ان کے رنگ اڑ گئے مگر بیگم جمشید پُرسکون تھیں…
“تین!” تین پر دونوں گڑبڑا گئے…
“چار, پانچ, چھ, سات…”
“ٹھہرو…” فاروق چلا اٹھا… “میں بتاتا ہوں خدا کے لیے ٹھہرو…”
“فاروق! خبردار جو تم نے بتایا…” بیگم جمشید چلائیں…
“آٹھ…”
“ٹھہرو…” اس مرتبہ محمود برداشت نہ کر سکا…
“وہ پیکٹ پائیں باغ کے ایک درخت کے پاس زمین میں دفن ہے…
“بہت خوب…” نقاب پوش نے مسکراتے ہوئے کہا…
“یہ تم نے کیا کیا……. تم اپنے باپ سے بہت پیچھے رہ گئے… اگر اس وقت وہ گھر میں ہوتے تو کبھی نہ بتاتے, چاہے یہ لوگ میری بوٹیاں تک نوچ ڈالتے…”
“چلو چل کر وہ جگہ دکھاؤ…” نقاب پوش نے اسے کندھے سے پکڑتے ہوئے دھکیلا…
فاروق اور محمود دروازے کی طرف بڑھے…
“تم بھی ساتھ چلو…” نقاب پوش غرایا…
وہ بھی محمود کے پیچھے چل پڑیں… ان کے قدم بوجھل بوجھل تھے… جسم میں جیسے جان نہیں رہ گئی تھی…
سب پائیں باغ میں آئے… رات تاریک تھی… اگر ان کے پاس ٹارچیں نہ ہوتیں تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا… دھڑکتے ہوئے دلوں کے ساتھ وہ اس جگہ پر پہنچ گئے جہاں انہوں نے پیکٹ دفن کیا تھا…
“یہی ہے وہ جگہ…” محمود نے اشارہ کیا…
وہ تیزی سے اس جگہ جھکے مگر ٹھٹھک گئے… مٹی گڑھے کے کنارے ایک چھوٹے سے ڈھیر کی صورت میں پڑی تھی اور خالی گڑھا لمبے تڑنگے بدمعاشوں کا منہ چڑا رہا تھا…
…………………………………………
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...