پھر خوب رات ہوگئی۔ وقت کا صحیح اندازہ نہیں کر پایا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی تو میں نے چونک کر دیکھا۔ مرزا عزت بیگ ایک ملازم کے ساتھ آیا تھا۔ ملازم نے ہاتھوں میں ٹرے پکڑی ہوئی تھی اور مرزا صاحب ہاتھوں میں پانی کا جگ اور گلاس لئے ہوئے تھے۔ میں جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’آپ کیوں زحمت کر رہے ہیں مرزا صاحب؟‘‘
’’رہنے دیجئے شاہ صاحب، شرمندگی کی آخری حد کو پہنچا ہوا ہوں، اگر اس گھر کا ماحول اتنا غیریقینی نہ ہوتا تو کیا ایک معزز مہمان کے ساتھ یکجا بیٹھ کر کھانا نہ کھایا جاتا، مگر کیا کروں، میرے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ براہ کرم جو دال دلیہ مہیا کر سکا ہوں، حاضر خدمت ہے، قبول فرمایئے۔ میں شکرگزار ہوں گا…‘‘
’’بہتر ہے رکھ دیجئے۔‘‘ ملازم نے ٹرے سینٹر ٹیبل پر رکھ دی تھی۔ مرزا صاحب بولے۔
’’تو پھر اجازت، میں چلتا ہوں۔ ہاں اگر کسی اور شے کی حاجت ہو تو براہ کرم باہر تشریف لا کر کسی کو آواز دے لیجئے گا۔ اچھا…‘‘ مرزا صاحب نے ملازم کو اشارہ کیا اور باہر نکل گئے۔ میں نے ایک نظر اس خوان پر ڈالی جس پر خوان پوش ڈھکا ہوا تھا۔ جگ کے پانی سے ہاتھ دھوئے اور پھر کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا۔ بھوک تو لگ رہی تھی، کھانا بھی کھانا تھا۔ چنانچہ خوان سے خوان پوش ہٹایا۔ بہت ہی عمدہ خوشبو اُٹھ رہی تھی اس قاب سے جس میں سالن تھا۔ برابر میں تین خمیری روٹیاں رکھی ہوئی تھیں، سلاد بھی تھا، سادہ سا کھانا فیرنی کے دو پیالوں کے ساتھ ٹرے میں سجا ہوا تھا۔ ساتھ ہی پلیٹ اور چمچہ بھی رکھا ہوا تھا۔ میں نے سامنے بیٹھ کر بسم اللہ پڑھی اور قاب کا ڈھکن اُٹھا دیا۔ بھنا ہوا گوشت تھا۔ خاصی مقدار میں تھا، لیکن ابھی میں چمچہ ہاتھ میں لے کر سالن نکالنے ہی والا تھا کہ بوٹیوں میں ہلچل سی محسوس ہوئی اور میرا ہاتھ رُک گیا۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے سالن کے اس قاب کو دیکھتا رہا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بوٹیوں کے نیچے سے کوئی شے پھڑپھڑا کر اُوپر آنا چاہتی ہو… اور پھر میں نے بحالتِ ہوش میں اُلّو کے سر کو سالن میں سے نمودار ہوتے ہوئے دیکھا۔ وہ بار بار پھڑپھڑا رہا تھا اور اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ دُوسرے لمحے اُلّو کا یہ سر قاب سے پھدک کر ٹرے میں آ گرا اور اس کے بعد ٹرے سے نیچے زمین پر۔ اس کے ساتھ چھینٹیں سی بلند ہو رہی تھیں اور یہ چھینٹیں دھبّے لگاتی ہوئی ایک سمت کو جا رہی تھیں۔ پھر اچانک ہی اُلّو کا یہ سر کئی فٹ اُونچا بلند ہوا اور اس کھلی کھڑکی سے باہر نکل گیا جس سے پرندے اور تصویر والا آدمی باہر نکل بھاگا تھا۔ میں پہلے ہی کئی قدم پیچھے ہٹ گیا تھا اور یہ منظر عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
سر کے غائب ہو جانے کے بعد سکون چھا گیا۔ سالن کی لذیذ ترین خوشبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی اور میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ یہ رمز میری سمجھ میں نہیں آ سکا تھا، وہی آسیب وہی انداز… اس حویلی کے مکینوں نے میرا زبردست استقبال کیا تھا۔ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد تو اور بھی لطف آ گیا تھا۔ بھلا اب اس بات کی کیا گنجائش تھی کہ میں ایک لقمہ بھی توڑ سکوں۔ مرزا عزت بیگ کو اگر آواز دے کر اس بارے میں بتاتا تو وہ بے چارہ کیا کرتا۔ سوائے اپنے دُکھوں کا رونا رونے کے، لیکن یہ ساری چیزیں واقعی قابل غور تھیں اور اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ مجھے کہاں سے عمل کرنا چاہیے۔ بھوک بے شک لگ رہی تھی لیکن اب اس واقعے کے بعد وہ کافی حد تک کم ہوگئی تھی اور مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میں کھائے پیئے بغیر گزار سکتا ہوں۔ کام شروع کر دینا چاہیے، مرزا عزت بیگ کو اس سلسلے میں پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
قاب کا ڈھکن واپس اس کی جگہ پر رکھا اور خوان پوش اس پر ڈال دیا۔ ٹرے اسی جگہ رہنے دی تھی اور میں اس سے کچھ فاصلے پر جا بیٹھا تھا۔ اس واقعہ کو بھی میں نے ان واقعات سے ہی منسلک سمجھا تھا جو یہاں چند گھنٹے قیام کے دوران پیش آ چکے تھے۔ پے درپے شرارتیں ہو رہی تھیں اور ان شرارتوں میں بڑی ہیبت ناک کیفیت تھی لیکن میرے لئے نہیں۔
کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ مرزا عزت بیگ اب دوبارہ میرے پاس آئے گا یا جیسا کہ اس نے مجھے بتایا، وہ بھی دوسرے لوگوں کی مانند اپنی خوابگاہ میں جا چھپے گا۔ درحقیقت اس بھیانک ماحول میں جہاں اتنی سی دیر میں اتنے سارے محیرالعقول واقعات پیش آ چکے تھے۔ ذہنی توازن برقرار رکھنا ایک مشکل کام تھا۔ بڑی بات تھی کہ وہ لوگ ہوش و حواس کے عالم میں یہاں رہ رہے تھے۔ بہت دیر گزر گئی۔ چاروں طرف سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔ کھلی کھڑکی بند کی اور پھر دروازے سے باہر نکل آیا۔ حویلی شہر خموشاں بنی ہوئی تھی۔ کہیں زندگی کے آثار نہیں تھے۔ قدموں کی ہلکی سی چاپ بھی بہت زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ سنّاٹے چیخ رہے تھے، دل کی دھمک کنپٹیوں میں محسوس ہو رہی تھی۔ پیچ دَر پیچ راہداریوں اور کمروں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا، بند دروازوں کی قطاریں مدھم روشنی میں نظر آ رہی تھیں۔ میں ان کے درمیان کسی آوارہ رُوح کی مانند بھٹکنے لگا۔ اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر کسی بھی کمرے میں روشنی نہیں جل رہی تھیں۔ غالباً مرزا عزت بیگ کے اہل خاندان بھی روشنی بجھا کر سونے کے عادی تھے۔ واقعی اس ماحول میں کیا بیت رہی ہوگی ان پر، زندگی یہیں گزار رہے تھے۔ یہ بھی بہت بڑی بات تھی۔ عام دل گردے والوں کا کام نہیں تھا۔ یہ لوگ اگر اس ماحول کے عادی نہ ہوگئے ہوتے تو کلیجہ پھٹ جاتا ان کا یہاں رہ کر، لیکن انسان میں یہی تو سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ وقت سے لڑنا سیکھ لیتا ہے اور حالات کیسے ہی بھیانک کیوں نہ ہوں، بالآخر اسے ان میں گزارنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ کوئی پندرہ سے لے کر بیس منٹ تک میں اس حویلی کے مختلف گوشوں میں چکراتا رہا، ہر لمحہ اس بات کا تھا کہ اب کچھ ہوگا، لیکن کچھ نہیں ہوا تھا۔ پھر میری یہ توقع بھی پوری ہوگئی۔ اچانک ہی میرے عقب میں ایک کمرہ روشن ہوا اور ساتھ ہی سنّاٹے میں دروازہ کھلنے کی آواز کسی بم کے دھماکے ہی کی مانند محسوس ہوئی۔ میں چونک کر پلٹا… دروازے سے روشنی باہر پھوٹ آئی تھی اور اس روشنی میں ایک سایہ اُبھر رہا تھا۔ پھر وہ سایہ باہر نکل آیا۔ مرزا عزت بیگ تھا، دروازے ہی میں رُک کر وہ مجھے دیکھنے لگا اور پھر آہستہ سے بولا۔
’’اندر آ جایئے شاہ صاحب۔ یہ میرا کمرہ ہے، غالباً آپ نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔‘‘ میں خاموشی سے واپس پلٹا اور مرزا عزت بیگ کے قریب پہنچ گیا۔ وہ دروازے سے واپس اندر داخل ہوگیا تھا۔ میں بھی اس کے پیچھے ہی پیچھے کمرے میں داخل ہوا تو عزت بیگ نے جلدی سے پلٹ کر دروازہ بند کر دیا اور اس سے کمر لگا کر کھڑا ہوگیا۔ کمرے میں ننگا فرش تھا، کوئی ایسی چیز نہیں تھی وہاں جو کسی کے بیٹھنے یا آرام کرنے کےلئے ہو۔ دیواریں بھدّی اور بغیر پلاستر کی تھیں، فرش کا پلاستر بھی جگہ جگہ سے اُکھڑا ہوا تھا۔ میں نے متحیّرانہ نگاہوں سے عزت بیگ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ آپ کا کمرہ ہے مرزا صاحب؟‘‘
’’آپ ہی کا ہے مہاراج۔‘‘ مرزا عزت بیگ کا لہجہ ایک دم بدل گیا اور میں پھر چونک پڑا۔
’’مم… مہاراج۔‘‘
’’پدم پردھائی مہاراج، گیانی ویانی آکاش کے رہنے والے۔‘‘مرزا عزت بیگ نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگاتے ہوئے کہا۔
’’مرزا صاحب آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے حیرانی سے کہا اور مرزا کے حلق سے ایک بھیانک قہقہہ نکل گیا۔
’’اب بالکل ٹھیک ہے مہاراج پران پردھانی۔‘‘
’’آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’کہہ نہیں رہے مہاراج، سمجھا رہے ہیں آپ کو، حویلی کے بھوت پکڑنے نکلے ہیں۔ مہان پران پردھانی، کیوں یہی بات ہے ناں؟‘‘ میں سہمی ہوئی سی نگاہوں سے مرزا عزت بیگ کو دیکھنے لگا۔ ایک نیا خیال میرے ذہن میں آیا تھا اور مرزا عزت بیگ نے دوبارہ قہقہہ لگایا تھا۔
’’بہت چالاک ہیں آپ مہاراج، بہت بڑے دیوتا ہیں، مہان ہیں، مگر شری شنکھا کے سامنے آ کر آپ نے اچھا نہیں کیا۔ مہمان شنکھا اگر ھنڈولا بن جاتا تو آپ کا کیا جاتا مہاراج، آپ کی چالاکی اسے جگہ جگہ روکتی رہی ہے اور آپ نے اسے اپنا اتنا بڑا دُشمن بنا لیا ہے، حالانکہ شری شنکھا کے داس جیون میں مزے ہی مزے کرتے ہیں۔ پتہ نہیں آپ کیسے انسان ہیں، ایک لکیر پکڑے بیٹھے ہوئے ہیں جس نے آپ کو کچھ نہیں دیا، پری پردھان پرن تھاری مہاراج۔‘‘
’’تت… تم، تم کون ہو؟‘‘ میں نے اب عجیب سے لہجے میں پوچھا۔
’’شری شنکھا کا داس، ان کا ایک معمولی سا سیوک۔‘‘
’’تم عزت بیگ نہیں ہو۔‘‘
’’جو عزت ہمیں چاہیے مہاراج، وہ شری شنکھا کا داس بننے سے حاصل ہوگئی ہے اور کوئی عزت درکار نہیں ہے ہمیں، پرنت آپ کی کم بختی آ گئی، جھوٹی خانقاہ میں رہ کر آپ نے جو جال پھیلا لیا تھا مہاراج آپ کے خیال میں شری شنکھا اس سے بے خبر رہ سکتے تھے، آپ… اپنے دین دھرم کے ساتھ جو ناٹک رچائے ہوئے تھے وہ صرف ناٹک تھے اور وہاں شری شنکھا کا پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ کھوج تو ہوتی ہی ہے ناں دو دُشمنوں کو ایک دوسرے کی اور شری شنکھا جی آپ کی کھوج میں بھی تھے۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ اب آپ نے ناٹک رچایا ہے اور لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دے کر دولت بٹور رہے ہیں تو شری شنکھا کو موقع مل گیا، پہنچ گئے وہ آپ کی اس جھوٹی خانقاہ میں اور وہاں پہنچ کر آپ کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے۔ پتہ چلا کہ مہاراج کو دولت چاہیے دولت۔ سو انہوں نے ہمیں عزت بیگ بنا کر بھیج دیا۔ آپ کی عزت لوٹنے کو مہاراج اور ہمارا کام تو یہ تھا ہی کہ آپ کو دھوکے سے ادھر لے آئیں۔ سو لے آئے ہم اور اب تو شری شنکھا کو موقع ملا ہے آپ سے سارے حساب کتاب چکانے کا مہاراج، کیا سمجھے، اب تو ساری کہانی آپ کی سمجھ میں آ گئی ہوگی۔ ہم شری شنکھا کے داس ہیں، جے شری شنکھا…‘‘
’’ہوں، تو ناٹک رچایا ہے اس بار بھوریا چرن نے۔‘‘ میں نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا۔
’’پکا ناٹک مہاراج پکا ناٹک، دراصل یہ دَھن دولت سسری چیز ہی ایسی ہے کہ آدمی کو پھیر میں لاتی ہی رہتی ہے۔ آپ نے بہت بچنا چاہا اس سے مہاراج مگر دیکھ لیجئے دن کے لالچ نے آپ کو نہیں چھوڑا اور اسی کے ہاتھوں مارے گئے آپ۔ ارے ہم نے تو سنا ہے کہ شری شنکھا نے آپ کو سب کچھ دے دیا تھا۔ پورنیاں دے دی تھیں آپ کو، پورنیوں کو آپ سے بڑی شکایت تھی مہاراج، بڑا انیائے کیا آپ نے ان کے ساتھ، ایک پورنی آپ کے سامنے آئی تھی، آپ نے اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا تھا مہاراج، خیر یہ آپ کا اپنا معاملہ ہے، اب یہ بتایئے کہ ہم آپ کے ساتھ کیا سلوک کریں۔‘‘
اس بار میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی، میں نے اس سے کہا۔ ’’تمہارا کیا خیال ہے، اب تو میں تمہیں عزت بیگ کے نام سے بھی مخاطب نہیں کر سکتا تو پھر تمہارا کیا خیال ہے۔ شنکھا کے داس بھوریا چرن کو کیا اب کوئی ایسی قوت حاصل ہوگئی ہے میرے خلاف جس سے وہ اپنے مقصد کی تکمیل کر سکے۔‘‘
’’اوش مہاراج اوش، اصل میں شری شنکھا مہاراج کو تو بہت ساری قوتیں ہمیشہ سے حاصل تھیں، پَر آپ بچتے رہے ان سے اپنے دین دھرم کے ہاتھوں۔ سُنا ہے شنکھا مہاراج نے آپ کا گیان دیان بھی پورا کر دیا تھا اور پورن بن گئے تھے آپ، پورنا بن کر آپ نے پورنیوں کو دھوکا دیا اور ان کے جال سے اپنے آپ کو نکال لیا۔ پر مہاراج اس سمے آپ نے جو بھوجن کھایا ہے ناں، وہ ہمارے شنکھا مہاراج ہی کی سوغات تھی۔ اُلّو کا گوشت تھا مہاراج، وہ مردہ اُلّو کا جسے شنکھا مہاراج نے منتر کے ذریعے جیتا کیا تھا، پھر اس کا گوشت پکوا کر آپ کو بھیجا اور ہمیں بنا دیا مرزا عزت بیگ، کیونکہ مرزا عزت بیگ ہی آپ کو وہ بھوجن کھلا سکتا تھا مہاراج جو آپ کے شریر کو ایک بار پھر نشٹ کر دے اور اب آپ نشٹ ہوگئے۔ نشٹ ہوگئے، آپ کا دھرم ایک بار پھر آپ سے چھن گیا چونکہ آپ نے جس اُلّو کا گوشت کھایا ہے وہ بھیروں کے ہاتھوں جگایا گیا تھا۔ ایک مردہ اُلّو، سڑا ہوا گوشت، پر اسے وہ شکتی دے دی گئی تھی کہ وہ آپ کے پورے شریر کو بھشٹ کر دے نجس کر دے اور اس ناپاک شریر سے وہ ساری طاقتیں نکل گئیں مہاراج جن پر آپ پھولتے تھے، جے شری شنکھا، جے شری شنکھا، جے شری شنکھا۔‘‘ وہ عقیدت بھرے لہجے میں بولا اور میری آنکھوں میں خون کی سرخی لہرانے لگی، میں جانتا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ ایک بار پھر، ایک بار پھر مجھے سرخروئی حاصل ہوئی تھی۔ میں نے اُلّو کا گوشت نہیں کھایا تھا۔ وہ غلط فہمی کا شکار تھے اور اپنی اسی غلط فہمی میں وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ میرا ایمان مجھ سے چھن چکا ہے لیکن میرے ایمان کا تحفظ کیا گیا تھا ہمیشہ کی طرح اور اس بات پر میرا کلیجہ ہاتھ بھر کا نہ ہو جاتا تو کیا ہوتا۔ میرے سینے میں بے پناہ قوت اُبھر آئی اور میرا ایک زوردار قہقہہ اس کا چہرہ اُتارنے کے لئے کافی ثابت ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ناپاک رُوح کے ناپاک پجاری، اتنی آسانی سے تم لوگوں کو میرے خلاف کامیابی نہیں حاصل ہوگی، کیا سمجھے۔ وہ کتا، وہ تمہارا بھوریا چرن پھر ناکام ہوگیا۔‘‘
’’ناکام ہوگیا…‘‘ وہ بولا۔
’’ہاں۔ جاگا ہوا اُلّو اُڑ گیا۔ کھڑکی سے باہر پرواز کر گیا۔‘‘
’’جھوٹ مت بولو مہاراج۔ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ کیا تم نے بھوجن نہیں کیا۔‘‘
’’مجھے میرے اللہ نے بچا لیا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’میں نے وہ کھانا ہی نہیں کھایا۔ میرے کھانا شروع کرنے سے پہلے تمہارا بھیروں جاگا اور بھاگ گیا۔‘‘
’’جھوٹ ہے۔ اگر ایسا ہے۔ اگر تم نشٹ نہیں ہوئے ہو تو اپنا کوئی چمتکار دکھائو۔ دکھائو اپنا دھرم چمتکار۔‘‘
’’وہ تو مجھے دکھانا ہے۔ کہاں ہے تمہارا بھوریا چرن۔ آخاہ بھوریا چرن آ گئے تم۔‘‘ میں نے دروازے کی طرف دیکھا۔ مقصد عزت بیگ کو دھوکا دینا تھا۔ جونہی اس نے چونک کر مجھے دیکھا۔ میں نے لپک کر اسے دبوچ لیا۔ میرے ہاتھوں کی اُنگلیاں اس کے حلقوم میں پیوست ہوگئیں۔ میں نے پوری قوت صرف کر دی اور مرزا عزت بیگ کی آنکھیں باہر نکل پڑیں۔ منہ بھیانک انداز میں کھل گیا، زبان بالشت بھر آگے لٹک آئی۔ اس کے ہاتھ پائوں تشنجی انداز میں ہلتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ بے جان ہوگیا۔ میرے بدن میں شرارے بھرے ہوئے تھے۔ اس کی موت کا اندازہ لگانے کے بعد میں نے اسے چھوڑ دیا اور وہ پٹ سے زمین پر گر پڑا۔ میں گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔ پھر میں نے حقارت سے اس کے مردہ جسم کو زوردار ٹھوکر رسید کی اور نفرت سے اس پر تھوک کر واپس پلٹا۔ میرا رُخ تبدیل ہوا تھا کہ اچانک میری پنڈلی کسی ہاتھ کے شکنجے میں آ گئی۔ میں بری طرح اوندھے منہ گرا تھا، سنبھلنے بھی نہیں پایا تھا کہ مرزا عزت بیگ پھرتی سے اُٹھ کر میرے اُوپر آ لدا۔
’’ایسے بچ کر نہیں جائو گے پران پردھائی۔ شنکھا کے بھی جیون مرن کا سوال ہے۔‘‘ اس کی منمناتی آواز سُنائی دی اور اس نے اپنے ہاتھ میری گردن میں ڈال دیئے۔ میں نے پوری قوت صرف کر کے اسے اپنی پیٹھ پر اُٹھا لیا اور پھر کندھے سے گزار کر زمین پر پٹخ دیا۔ جونہی وہ نیچے گرا، میں نے پائوں اُٹھا کر پوری قوت سے اس کے سینے پر مارا۔ اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اور پھر پائوں اس کے سینے کے خول میں پھنس گیا۔ کالے خون کی پھواریں بلند ہونے لگیں اور میں نے دانت کچکچا کر اپنا پائوں کھینچ لیا اور پیچھے ہٹ گیا۔ وہ ڈکراتا ہوا اوندھا ہوگیا۔ پھر شدید تکلیف کے عالم میں اس کے منہ سے نکلا۔
’’جے اے… اے… شنکھا… جے شنکھا…‘‘ وہ ایک دَم کھڑا ہوگیا۔ اس کی آنکھیں خوفناک ہوگئیں اور چہرے کے نقوش بدلنے لگے۔ ہاتھوں کی اُنگلیوں کے ناخن اچانک لمبے ہونے لگے اور کوئی چھ چھ انچ لمبے ہوگئے۔ اسی طرح دانت بھی دہانے سے باہر نکل آئے۔ اسی وقت مجھے اپنے لباس میں چھپے ہوئے خنجر کا خیال آ گیا اور دُوسرے لمحے میں نے اسے نکال لیا۔ عین اسی وقت وہ مجھ پر جھپٹا۔ اس نے مجھے خنجر نکالتے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے خنجر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ اس کی آنکھیں ایک دَم چڑھ گئیں۔ چہرہ بے رونق ہوگیا۔ ہاتھ پائوں لٹک گئے اور پھر وہ نیچے گر پڑا۔ میں خنجر کھینچ کر پیچھے ہٹ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ وہ دوبارہ اُٹھے لیکن اب وہ نہیں اُٹھ سکا تھا۔ میں دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ دل میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے۔ پھر وہ لڑکی یاد آئی جسے اس ملعون نے ایک پاکیزہ نام سے متعارف کرایا تھا اور اپنی بیٹی بتایا تھا مگر وہ پورنی تھی اور اب تو اس کی تصدیق بھی ہوگئی تھی۔ اس نے مجھے بلایا تھا، سوچا اس سے بھی مل لوں۔ بھوریا چرن کے بارے میں پوچھوں، ہوسکتا ہے اس کا ٹھکانہ معلوم ہو سکے۔ جس سمت کے بارے میں اس نے بتایا تھا، اس طرف چل پڑا اور میں نے اس کمرے میں روشنی دیکھی۔ میں نے خنجر اپنے لباس میں پوشیدہ کر لیا۔ کچھ دیر کے بعد میں اس دروازے پر تھا۔ پھر میں نے آہستہ سے اس پر دستک دی اور پہلی دستک پر ہی دروازہ کھل گیا۔ اسی نے کھولا تھا مگر کم بخت سولہ سنگھار کئے ہوئے تھی۔ اسے شاید بدلے ہوئے حالات کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ مجھے بڑی چاہ سے اندر آنے کا راستہ دیا اور میں اندر آ گیا۔ تیز روشنی میں وہ شعلۂ جوالا بنی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بجلیاں تڑپ رہی تھیں۔
’’بالی سی عمر کو کیا روگ لگا بیٹھے۔ یہ سنیاس لینے کی عمر ہے شاہ جی۔‘‘ اس نے لبھانے والے انداز میں کہا۔
’’کیا تم اس حویلی کے آسیبوں سے نجات نہیں چاہتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا اور وہ ہنس پڑی۔
’’آسیب۔ وہ تو ہم خود ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’سب سے بڑا آسیب انسان کے اپنے من میں چھپا ہوتا ہے۔ اسے مار لو، سارے آسیب مر جائیں گے۔ چھوڑو شاہ جی۔ آئو اپنی بات کریں۔‘‘ وہ مسہری کی طرف بڑھ کر بولی۔ پھر وہ مسہری پر نیم دراز ہوگئی اور چمکدار آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگی۔ میں اس کے قریب پہنچ کر جھک گیا۔
’’تو تم پورنی ہو… مجھے بھوریا چرن کے بارے میں بتائو۔ وہ بدبخت کہاں چھپا ہوا ہے۔‘‘ میں نے کہا اور وہ تڑپ گئی۔ اس کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ وہ بھڑک کر بولی۔
’’یہ کیا نام لے دیا تم نے۔ یہ سب تمہیں کیسے معلوم ہوا۔ ہٹو ہٹو یہاں سے۔ میرے مالک، میرے دیوتا کا نام لیا جائے اور میں… ہٹو… اس نے ہاتھوں سے مجھے دھکا دیا اور خود تڑپ کر اُٹھ گئی، غالباً وہ بھاگنا چاہتی تھی لیکن میں نے فوراً ہی اسے پکڑنے کی کوشش کی اور اس کے لمبے لمبے بال میرے ہاتھوں میں آ گئے اور میں نے انہیں مٹھی میں جکڑ لیا۔‘‘
’’ایسے نہیں جاسکے گی تو شیطان کی بچی، مجھے بتا۔ وہ کتا کہاں چھپا ہوا ہے جس نے میری پوری زندگی کو مسلسل روگ بنا دیا ہے۔ جواب دے وہ کہاں ہے۔ میں نے زور سے اسے دھکا دیا اور اس کے حلق سے ایک چیخ نکل گئی۔ مجھ پر بھی دیوانگی طاری ہوگئی تھی۔ ان الفاظ کے ساتھ مجھے بھوریا چرن پوری طرح یاد آ گیا تھا۔ میرے دل میں نفرت کی ایسی شدید لہر اُٹھی تھی کہ میں خاکستر ہوگیا تھا۔ اپنے آپ کو نہ جانے کب سے سلا رکھا تھا میں نے اور صدمے پر صدمہ برداشت کر رہا تھا۔ اس سے زیادہ دلدوز بات اور کیا ہو سکتی تھی کہ میری بہن مجھ سے چند گز کے فاصلے پر تھی اور میں اسے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ نہیں چاہیے مجھے ایسی زندگی۔ میں تو ایک دُنیا دار انسان تھا اور میری آرزو صرف اتنی سی تھی کہ میں اس دُنیا میں ایک بہتر زندگی گزار سکوں۔ یہ ملعون بھوریا چرن ہی تھا جس نے مجھے دربدر کر دیا تھا۔ میں نے ایک ہاتھ سے اس کے بال پکڑے ہوئے تھے، دُوسرے ہاتھ سے خنجر نکال لیا تھا، اسے بھی ہلاک کر دینا چاہتا تھا میں۔ ایک جھٹکے سے میں نے اس کا رُخ تبدیل کیا اور اسے اپنے سامنے لانا چاہا لیکن اس نے بدن کی پوری قوت سے اپنے آپ کو اُچھال کر میرے ہاتھوں سے اپنے بال چھڑانے کی کوشش کی اور میں نے دیوانگی کے عالم میں خنجر اس کے بالوں پر ہی پھیر دیا۔ گردن پر وار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بال زد میں آ گئے اور بالوں کا پورا گچھا میری مٹھی میں دبا رہ گیا۔ وہ دھڑام سے زمین پر گری تھی اور اس کےفوراً بعد اُٹھ کھڑی ہوئی تھی لیکن اب میں اسے پتھرایا پتھرایا سا محسوس کر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر مردنی چھا گئی تھی اور وہ سہمی ہوئی نگاہوں سے اپنے بالوں کو دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگائے اور کہنے لگی۔‘‘
’’پرم پردھانی آزاد ہوگئی ہوں بھوریا چرن کے جال سے اور اب تمہارے چرنوں کی دُھول ہوں، تمہارے چرنوں کی دُھول ہوں میں۔ حکم دو، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘
’’بھوریا چرن کہاں ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’سوار سندھو کا میں سات استھان ہیں اس کے، انہی میں سے کسی میں ہوگا۔ تم ہی سے تو چھپا ہوا ہے۔ ایک بار پھر تمہیں بھشٹ کرنا چاہتا تھا۔ اگر تم بھیروں مچند کھا لیتے تو وہ سیدھا سیدھا مار دیتا تمہیں، اب وہ صرف تمہاری جان کا لاگو ہے۔‘‘
’’تو اسے تلاش کرنے میں میری مدد کر سکتی ہے؟‘‘
’’سات استھان دکھا دوں گی تمہیں مگر اتنا جانتی ہوں کہ وہ مجھے بھسم کر دے گا۔‘‘
’’چل اسے میرے ساتھ تلاش کر۔‘‘ میں نے کہا اور وہ تیار ہوگئی۔ میں نے سب کچھ نظرانداز کر دیا۔ سب کچھ بھول گیا، اب میں مجسم انتقام تھا۔ اچانک ہی میرا دماغ پلٹ گیا تھا۔ پورنی کے ساتھ میں بے حواسی کے عالم میں اس حویلی سے نکل آیا۔ ہم نے پہلا سفر دہلی کا کیا۔ دہلی کے ایک نواحی علاقے میں کالی کا ایک مندر تھا جو ایک ویرانے میں بنا ہوا تھا۔ یہ مندر بھوریا چرن کا استھان تھا لیکن جب ہم شام کے جھٹپٹوں میں اس میں داخل ہوئے تو مندر سے دُھواں اُٹھ رہا تھا۔ کالی کا ایک عظیم الشان بت ٹکڑے ٹکڑے پڑا ہوا تھا۔ چاروں طرف ٹوٹ پھوٹ مچی ہوئی تھی۔ پورنی نے کہا۔
’’اس نے استھان جلا دیا۔ اسے تمہارا پتہ چل گیا۔‘‘
’’دُوسرا ٹھکانہ کہاں ہے؟‘‘
’’متھرا چلنا ہوگا۔‘‘ پورنی نے
کہا۔ ہم دونوں ویران مندر میں کھڑے یہ باتیں کر رہے تھے کہ اچانک آہٹ ہوئی اور میں چونک پڑا۔ ایک پتھریلا مجسمہ تھا جو ایک اندرونی حصے سے نکل آیا تھا۔ مجسمے سے آواز بلند ہوئی جو بھوریا چرن کی تھی۔
’’اتنا آسان نہیں ہے میاں جی مجھے مارنا۔ لاکھوں کی بلی دینا ہوگی مجھے مارنے میں۔ لاکھوں مارے جائیں گے۔ کیا سمجھے۔‘‘
’’خدا اپنے بندوں کی حفاظت کرے گا بھوریا کتّے۔ سامنے آ کر بات کر تو شنکھا ہے۔ مہان شنکھا… سامنے کیوں نہیں آتا۔‘‘
’’آ جاتا پاپی۔ اگر میرا آخری کام ہو جاتا۔‘‘ مجسمے سے آواز اُبھری اور پھر وہ راکھ بن کر ڈھے گیا۔ اب یہاں کچھ بھی نہ تھا۔ پورنی نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’اب وہ اپنے کسی استھان پر نہیں ملے گا مہاراج، اسے پتہ چل گیا ہے کہ میں تمہارے قبضے میں ہوں اور وہ اپنے سارے استھان تباہ کر دے گا۔‘‘
’’پھر بھی میں اسے تلاش کروں گا۔ اس کے ساتوں ٹھکانے تباہ ہو جائیں گے تو پھر کہاں پناہ لے گا وہ…؟‘‘
’’میں تو تمہاری داسی ہوں مہاراج، جو حکم دو گے اس پر عمل کروں گی۔‘‘
میں نے سارے خیالات ترک کر دیئے تھے، اب تو بس ایک ہی آرزو تھی بھوریا چرن کو فنا کر دوں اور خود بھی موت کے گھاٹ اُتر جائوں۔ جینا بے مقصد ہوگیا ہے میرا، شمسہ کے لئے دولت کی تلاش میں نکلا تھا۔ وہ بھی نہ کر سکا۔ کس کام کا یہ سب کچھ، جس میں کچھ بھی میرا نہیں ہے، جو کرنا چاہتا ہوں وہ میرے لئے ممکن نہیں۔ کیا فائدہ دُوسروں کو بے وقوف بناتے رہنے سے، سب کچھ فضول ہے۔ نجانے کیا کیا کرتا رہا ہوں، لیکن کوئی بھی صلہ نہیں ملا مجھے… اپنی بہن کو ایک اچھا مستقبل تک نہیں دے سکتا تو مجھے جینے کا کیا فائدہ۔ ہاں اگر بھوریا چرن میرے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتر جائے تو بس اسے ہی اپنے آخری لمحات میں سکون کا درجہ دے سکتا ہوں۔ باقی سب کچھ بے کار ہے، کچھ نہیں ملا مجھے…
وہاں سے چل پڑے۔ شہر دہلی پہنچے تو دہلی جہنم کا نمونہ بنا ہوا تھا۔ چاروں طرف آگ، شعلے، چیخ پکار… معلومات کیں تو پتہ چلا کہ زبردست ہندو مسلم فسادات ہو رہے ہیں۔ پاکستان بن چکا تھا اور ہندوستان کے ہندو مسلمانوں کو اپنے درمیان نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ آٹھ سو سال کی بھڑاس نکال رہے تھے۔ پورے آٹھ سو سال انہوں نے محکوم رہ کر گزارے تھے اور اب وہ اپنے برسوں کے ساتھیوں کو موت کی نیند سلا رہے تھے۔ چاروں طرف ہاہا کار مچی ہوئی تھی۔ بھوریا چرن کے الفاظ مجھے یاد تھے…
’’لاکھوں مارے جائیں گے، لاکھوں مارے جائیں گے اور پورا ہندوستان ہی آگ میں جل رہا تھا۔ مسلمانوں کے قافلے موت کے گھاٹ اُتارے جا رہے تھے۔ متھرا، بندرابن، بنارس، اور نہ جانے کہاں کہاں۔ ساتوں ٹھکانے دیکھ لئے میں نے اور انہیں دیکھتے ہوئے اور بھی نہ جانے کیا کیا دیکھا۔ ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ہر جگہ موت کا بازار گرم تھا۔ انسان موت سے چھپتے پھر رہے تھے۔ میری محبت بھی جاگ اُٹھی۔ ٹرین کے ایک سفر میں مسلمانوں پر حملہ ہوا تو میں بھی بے قابو ہوگیا۔ سولہ ناپاک ہندو ہلاک کئے میں نے۔ پورنی میری محکوم تھی۔ اس سے کئی کام لئے میں نے۔ مسلمانوں کے ایک قافلے پر ہندوئوں نے حملہ کیا تو میں نے پورنی سے کہا۔‘‘
’’تیرے پاس جادو کی قوت ہے۔ انہیں اندھا کر دے۔‘‘ پورنی نے بے چارگی سے راکھ اُٹھائی اور اس کو حملہ آوروں کی طرف اُڑا دیا۔ وہ اندھے ہوگئے اور اپنے ہتھیاروں کو ایک دُوسرے پر استعمال کرکے خود فنا ہوگئے۔ مسلمانوں کے اس قافلے کو میں نے بحفاظت یہاں سے روانہ کر دیا… لاکھوں مسلمان مریں گے تو اب لاکھوں ہندو بھی مریں گے بھوریا چرن۔ یہ بھی تجھ سے انتقام ہے۔ میں اس کام میں مصروف ہوگیا۔ یہ بھی دل کو سکون بخش رہا تھا۔ اب کسی جگہ کی تخصیص نہیں تھی، جدھر منہ اُٹھتا نکل جاتا۔ ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی مدد کرتا۔ ان پر ظلم کرنے والوں کو چن چن کر ہلاک کرتا۔ اپنی محکوم پورنی سے مدد لیتا۔ انہیں اس کے ذریعہ دولت، اناج اور لباس فراہم کرتا۔ میرے اس خنجر نے بے حساب ہندوئوں کو قتل کیا۔ مظلوم مسلمان مجھے درویش کا سا درجہ دیتے مگر میں خود پر ہنستا تھا۔ میں کیا تھا۔ یہ میں خود ہی جانتا تھا۔
پھر ایک دن شمسہ کا خیال آ گیا اور میں نے رُخ بدل لیا۔ سیکڑوں واقعات سے گزرتا ہوا خانقاہ تک پہنچا۔ لیکن خانقاہ کو دیکھ کر دِل دَھک سے رہ گیا۔ حلق فرط غم سے بند ہوگیا۔ آنکھوں سے آنسو اُبل پڑے۔ خانقاہ مسمار کر دی گئی تھی۔ چاروں طرف جسم بکھرے ہوئے تھے۔ لاشوں کے سڑنے کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ آگ کے نشانات نظر آ رہے تھے۔ میں دیوانوں کی طرح چیخ پڑا۔ ’’شمسہ… شمسہ میری بہن… شمسہ… میری بہن… شمسہ میں آگیا ہوں۔ شمسہ میں مسعود ہوں تیرا بھائی۔ تیرا بدنصیب بھائی۔ شمسہ… شمسہ… شمسہ… فیضان، شمسہ…‘‘
خانقاہ کی بلندیاں کس طرح طے کیں۔ مجھے نہیں معلوم، بس میرے حلق سے دلدوز آوازیں نکل رہی تھیں۔ ’’شمسہ! میری بہن… میں آگیا ہوں۔ میں تیرا بھائی مسعود ہوں۔ میری بہن کہاں ہے شمسہ! میں آہ… میں دیوانہ تھا، پاگل ہوگیا تھا میں، شمسہ میں تیرے پاس رہ کر تجھ سے دور رہا۔ اپنے خوف کے ہاتھوں مجبور ہوکر میں تجھ سے دور رہا۔ شمسہ تجھ سے باتیں بھی نہیں کیں میں نے۔ آہ شمسہ… شمسہ۔‘‘ میں زاروقطار روتا ہوا خانقاہ میں پڑی لاشوں میں اپنی بہن کی لاش تلاش کرنے لگا۔ یہ لاشیں یہاں کے لوگوں کی تھیں۔ سب کے سب جانے پہچانے۔
دفعتاً چھٹی حس نے کسی ذی روح کی موجودگی کا احساس دلایا۔ دیوانوں کی طرح چونک کر پلٹا۔ سامنے کھڑی شمسہ کو دیکھا۔ پانی کا گلاس اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ پتھرائی ہوئی کھڑی تھی۔
میں بے قابو ہوکر اس کی طرف جھپٹا۔ پاگلوں کی طرح اس سے لپٹ گیا۔ میرے حلق سے کربناک آوازیں نکل رہی تھیں۔ یہ آوازیں خودبخود الفاظ میں ڈھل کر شمسہ کو میری المناک داستان سنا رہی تھیں۔ میری قوت ارادی کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا۔ شمسہ نے مجھے پہچان لیا، سب کچھ جان لیا۔ ایسی بلک بلک کر روئی وہ کہ کلیجہ پانی ہوگیا۔
’’مجھ سے دور کیوں رہا بھیا۔ ہائے مجھ بدنصیب کی قسمت میں یہ روشنی کہاں سے آگئی۔ میں نے تو تاریکیوں ہی کو زندگی سمجھ لیا تھا۔‘‘
طوفان گڑگڑاتا رہا۔ برسوں کی جدائی تھی، دل اتنی آسانی سے کیسے بھرتا۔ بالآخر سکون ہوا۔
’’شمسہ فیضان؟‘‘ میں نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’فیضان، شامی، اکرام بھیا، بچے تہہ خانے میں موجود ہیں۔ ہندو بیس بار آچکے ہیں۔ خوب تباہی مچائی انہوں نے، سب کو مار دیا۔ ہم تہہ خانوں میں جا چھپے، اس لئے بچ گئے۔ کچھ لوگ بھاگ گئے۔ ہم کئی دن کے بھوکے پیاسے ہیں۔ باہر خطرہ تھا۔ کوئی باہر نہیں آتا۔ بچے پیاس سے تڑپ رہے تھے۔ مجھ سے ان کا بلکنا نہیں دیکھا گیا۔ پانی کی تلاش میں نکل آئی تھی، تمہاری آواز سنی۔‘‘
’’فیضان، شامی، اکرام زندہ ہیں؟‘‘ میں نے مسرور لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں!‘‘
’’پانی کہاں ہے؟‘‘
’’وہاں ایک مٹکے میں موجود ہے۔ اسی سے یہ گلاس بھرا ہے۔‘‘
’’آئو مجھے بتائو مٹکا کہاں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ پھر شمسہ کی نشاندہی پر مٹکے کے پاس آیا اور اسے اٹھا کر تہہ خانے میں لے گیا۔ سب کی حالت ابتر تھی۔ پہلے بچوں کو، پھر انہیں پانی پلایا اور ان میں زندگی جھلکنے لگی۔ فیضان یہ سن کر ششدر رہ گیا تھا کہ میں شمسہ کا سگا بھائی ہوں۔ اکرام نے وعدے کا پاس کرتے ہوئے انہیں کچھ نہیں بتایا تھا۔ مختصر الفاظ میں انہوں نے خانقاہ کی تباہی کی داستان سنائی۔ پھر فیضان نے کہا۔
’’اب کیا کریں مسعود بھائی؟‘‘
’’میں کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہوں، اس کے بعد سوچیں گے۔‘‘
’’کہاں جائو گے بھیا؟‘‘ شمسہ نے بے قراری سے پوچھا۔
’’بس، ابھی تھوڑی دیر میں آیا۔‘‘
’’نہیں بھیا! کہیں پھر نہ کھو جائو۔ ابھی تو دل کو یقین بھی نہیں آیا ہے۔‘‘
’’نہیں شمسہ۔ بس ابھی آتا ہوں۔‘‘
’’ہم بھی ساتھ چلیں گے۔‘‘ فیضان بولا۔
’’ہرگز نہیں اکرام! انہیں سنبھالو، مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘ بڑی مشکل سے انہوں نے مجھے باہر آنے کی اجازت دی تھی۔ دیوار کی اوٹ میں ہوکر میں نے پورنی کو آواز دی۔ وہ جاتی ہی کہاں تھی، حاضر ہوگئی۔ ’’پھل درکار ہیں۔ درختوں سے ٹوٹے ہوئے ہوں، جادو کے نہ ہوں۔‘‘
’’لو آگیا سوامی۔‘‘ اس نے گردن جھکا دی اور پھر چشمِ زدن میں پھلوں کا ٹوکرا میرے سامنے لا رکھا۔ اپنے لئے ساری زندگی کالے جادو کا احسان نہیں لیا تھا مگر اب مجبوریاں آڑے آگئی تھیں۔ پھل لے کر تہہ خانے پہنچا تو سب جیسے جی اٹھے۔ طرح طرح کے سوالات کئے گئے مگر خاموشی ہی جواب تھی۔ پوچھنے والے تھک گئے، پھر آگے کے منصوبے زیرغور آئے۔ شمسہ نے حسرت سے کہا۔
’’بھیا! امی، ابو، محمود، ماموں ریاض کا کوئی پتا نہیں چل سکا۔ کہاں ہیں یہ لوگ، صدیاں بیت گئیں انہیں دیکھے ہوئے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نہیں شمسہ، وہ سہارن پور میں بھی نہیں ہیں۔ میں نے انہیں تلاش کیا ہے۔ نہیں مل سکے البتہ محمود کے بارے میں، میں یہ جانتا ہوں کہ زندہ سلامت ہے۔ اسے میں نے خود ملک سے باہر بھیج دیا تھا۔ اس وقت اس کیلئے یہی ضروری تھا کیونکہ مقامی پولیس اس کی تلاش میں تھی۔ میں نے تو اپنے آپ کو چھپا لیا مگر محمود کو ملک سے باہر نہ بھیجتا تو وہ خطرے میں پڑ جاتا۔‘‘
’’کہاں ہے، یہ نہیں معلوم؟‘‘
’’نہیں شمسہ، کچھ نہیں پتا۔‘‘ فیضان نے کہا۔
’’اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارئہ کار نہیں ہے مسعود بھائی کہ ہم بھی پاکستان نکل چلیں۔ سارے ہندوستان میں فسادات کی آگ پھیلی ہوئی ہے، ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ یہاں ہمارے لئے زندگی کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘ اکرام اور شامی بھی اس بات کے حق میں تھے۔ چنانچہ تیاریاں کی گئیں۔ بھلا تیاریاں کیا تھیں بس جو کچھ ہاتھ لگا، ساتھ لے لیا اور پھر ایک دن آدھی رات کے وقت ہم خانقاہ کی بلندیوں سے نیچے اتر آئے۔ ایک طویل سفر کا آغاز کیا تھا۔ دل کی کیفیت ناقابل بیان تھی۔ نجانے کیا کیا تصورات ذہن میں تھے۔ رات بھر سفر کرکے جب دن کی روشنی ہوئی تو ایک ایسی جگہ ویرانے میں پناہ لی جہاں انسانی نگاہوں سے محفوظ رہ سکیں۔ پھر یہی ہوا۔ راتوں کو سفر کرتے اور دن میں کسی پوشیدہ جگہ کو اپنا لیتے۔ پھر ایک بستی نظر آئی اور یہاں سے ہم نے ایک گاڑی حاصل کی۔ فیضان اچھی ڈرائیونگ کرلیتا تھا۔ خالی گاڑی کس کی تھی، کچھ نہیں معلوم تھا۔ بس اس میں بیٹھ کر کسی ایسی پناہ گاہ کی تلاش میں چل پڑے جہاں سے پاکستان جانے کے راستے دریافت ہوسکیں لیکن گاڑی کا یہ سفر بھی ہم نے رات ہی میں کیا تھا۔ صبح کو البتہ جس سڑک پر ہم جارہے تھے، وہاں ہمیں ایک زبردست خطرہ پیش آگیا۔ کوئی پچاس ساٹھ افراد تھے لاٹھیوں، بھالوں اور تلواروں سے مسلح۔ گاڑی کا راستہ روکے کھڑے ہوئے تھے اور ان میں سب سے آگے بھوریا چرن تھا۔
کمینہ صفت بھوریا چرن جو یقیناً ان لوگوں کو ہماری راہ پر لے آیا تھا۔ اس نے ابھی تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ میں گاڑی سے نیچے اتر آیا اور میں نے سرگوشی کے انداز میں پورنی سے پوچھا۔
’’اس کے ساتھ جو افراد ہیں، کیا وہ اس کے جادو کے زیراثر ہیں؟‘‘
’’نہیں سوامی! نہیں پرم پردھانی… یہ سیدھے سادے دیہاتی لوگ ہیں جنہیں بھوریا چرن آپ کے سامنے لے آیا ہے۔‘‘
’’تو پھر ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کر جو تو نے دوسروں کے ساتھ کیا تھا۔‘‘
’’پرم پردھانی، شنکھا ان کا ساتھی ہے۔‘‘ پورنی نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اسے میں دیکھے لیتا ہوں۔‘‘ میں نے ایک پتھر اٹھایا اور اس پر کلام الہیٰ کی آیات پڑھ کر اسے پوری قوت سے بھوریا چرن کے سر پر دے مارا۔ پتھر اس کی پیشانی پر پڑا اور اس کی پیشانی پھٹ گئی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر چکرانے لگا اور میں اس کی جانب جھپٹا۔ میں نے عقب سے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر گردن پر جما دیئے اور اسے پوری قوت سے زمین پر دے مارا۔ ادھر وہ جو بھوریا چرن کے ساتھ آئے تھے، اچانک ہی اپنی بینائی کھو بیٹھے تھے اور اس بات سے ہکابکا رہ گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے بھی آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ یونہی اپنی جگہ کھڑے آنکھیں پھاڑتے رہے۔ میں نے بھوریا چرن کو بری طرح زمین سے رگڑ دیا تھا اور اس کے حلق سے غراہٹیں نکل رہی تھیں لیکن پھر اچانک ہی وہ میرے بازوئوں کی گرفت میں تحلیل ہوگیا۔ ایک دم سے اس کا بدن چھوٹا ہوا اور میری گرفت اس پر قائم نہ رہ سکی۔ پھر میں نے ایک پیلی مکڑی کو برق رفتاری سے ایک سمت بھاگتے ہوئے دیکھا۔ ظاہری بات ہے بھوریا چرن تھا۔ میں نے چھوٹے چھوٹے پتھر اٹھائے اور مکڑی کا نشانہ لینے کی کوشش کی لیکن بھوریا چرن کو ایک جگہ چھپنے کا موقع مل گیا۔ ایک درز میں گھس کر وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا تھا لیکن زمین پر میں نے ننھے ننھے خون کے دھبے دیکھے تھے۔ وہ زخمی ہوگیا تھا۔ وہ لوگ جو اندھے ہوگئے تھے، اب ایک دوسرے کو ٹٹول رہے تھے اور ان کے حلق سے ڈری ڈری آوازیں نکل رہی تھیں۔ میں نے فیضان کو اشارہ کیا۔ یہ انوکھی لڑائی فیضان کیلئے بھی باعث حیرت تھی۔ بہرحال وہ راستہ کاٹ کر گاڑی آگے نکال لے گیا اور ہم اس خطرے سے بھی دور ہوگئے۔ دن اور رات ایک عجیب زندگی تھی۔ خوف و دہشت میں ڈوبی ہوئی راتوں کو اگر آبادیوں کے قریب ہوتے تو آبادیوں سے چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دیتیں، اللہ اکبر کے نعرے گونجتے۔ ہندو، مسلمان ایک دوسرے سے نبردآزما ہوتے۔ کہیں جے جے کار ہوتی اور کہیں اللہ کا نام لیا جاتا لیکن پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی فسادات کی آگ کو بھلا مجھ جیسا آدمی کیا روک سکتا تھا۔ ہم تو صرف اپنی جان بچانے کیلئے بھاگ رہے تھے۔ راستے میں طرح طرح کے کام ہوتے رہے۔ کھانے پینے کی اشیاء بھی حاصل ہوگئیں اور تھوڑا بہت پیٹرول بھی جو گاڑی کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہورہا تھا اور اس کے بعد اچانک ہی جب میں نے صورت حال کا تجزیہ کیا تو پتا چلا کہ میں اپنے آبائی شہر سے بالکل قریب ہوں۔ قدم رک گئے تھے، بدن کی قوتیں ساتھ چھوڑ گئی تھیں۔ دل و دماغ میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ تھوڑے ہی فاصلے پر ہاں! تھوڑے ہی فاصلے پر پیر پھاگن کا مزار پاک تھا۔ میری بچپن کی کہانی پھر سے میری آنکھوں میں تازہ ہوگئی تھی۔
نجانے کتنے عرصے کے بعد اس سمت آیا تھا۔ یہ راستے حالانکہ کبھی اس طرح جانے پہچانے تھے کہ آنکھیں بند کرکے چھوڑ دیا جائے تو میں اپنی منزل پر پہنچ جائوں لیکن اب سیکڑوں تبدیلیاں ہوچکی تھیں۔ یہاں بھی فسادات ہو رہےتھے۔ پیر پھاگن سے بچپن سے عقیدت تھی۔ میں نے شمسہ سے کہا۔
’’شمسہ! پہچانیں اس جگہ کو…‘‘
’’نہیں بھیا! کون سی جگہ ہے؟‘‘
’’ہمارا گھر ہے۔ شمسہ ہمارا شہر ہے۔ وہ دیکھو بلندی پر تمہیں پیر پھاگن کا جھنڈا نظر آرہا ہے؟‘‘ شمسہ سکتے میں رہ گئی۔ آنسو تو اس کی آنکھوں سے نکل پڑنے کیلئے بے قرار رہتے تھے۔ میرے مل جانے کے بعد ماں، باپ اور بھائی کی یاد ایسی تازہ ہوئی تھی کہ جب بھی اس پر نظر پڑتی، اسے روتے ہوئے پاتا۔ شمسہ کا بدن ہولے ہولے کانپنے لگا۔ کہنے لگی۔
’’بھیا! اپنے گھر میں جھانک لیں، ہوسکتا ہے امی اور ابو وہیں رہتے ہوں۔‘‘
’’نہیں شمسہ… اب بھلا ان کے یہاں موجود رہنے کے کیا امکانات ہوسکتے ہیں۔ ہاں اگر تیرا جی چاہے تو آ پیر پھاگن کے مزار پر چلتے ہیں، فاتحہ خوانی کریں گے اور ان سے مدد کی درخواست کریں گے۔‘‘ شمسہ تیار ہوگئی۔ فیضان اور اکرام کو بھی میں نے یہ بتا دیا تھا کہ یہ میرا آبائی شہر ہے اور وہ لوگ بھی بہت متاثر ہوئے تھے۔ پیر پھاگن کا مزار پاک اسی طرح سبز رنگ، سینہ تانے پہاڑی پر ایستادہ تھا۔ ہم لوگ آگے بڑھنے لگے اور پھر اس وقت جب میں بڑی عقیدت کے عالم میں شمسہ کے ساتھ پیر پھاگن کے مزار کی سیڑھیوں کی جانب جارہا تھا کہ میں نے ایک سمت بھوریا چرن کو دھونی رمائے دیکھا۔ سامنے چھوٹی چھوٹی لکڑیاں سلگ رہی تھیں، ان میں کوئی خوشبو ڈال رہا تھا کمبخت جوگی۔ سرگھٹا ہوا تھا، پیشانی پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اپنی مکروہ شخصیت کو وہ پیر پھاگن سے زیادہ دور نہیں کرسکا تھا اور یقینی طور پر کسی ایسے عمل کے چکر میں تھا جس سے اسے کھنڈولا بننے کا موقع مل جائے۔ اسے دیکھ کر ایک بار پھر میرے بدن میں چنگاریاں دوڑ گئیں۔ میں نے خلوص دل سے اللہ سے دعا کی کہ اس موذی مخلوق کے خاتمے میں میری مدد کی جائے۔ پیر پھاگن سے کہا کہ وہ اللہ سے دعا کریں جس شخص نے میری زندگی کا رخ اس طرح تبدیل کیا ہے جہاں سے اس کا آغاز ہوا ہے، وہیں اس کا انجام بھی ہو۔ یہ تمام احساسات دل میں لئے میں آہستہ آہستہ بھوریا چرن کے سامنے پہنچ گیا۔ اسے شاید میری آمد کا علم نہیں ہوسکا تھا۔ پھر میں نے اس کے سامنے پڑی ہوئی لکڑیوں میں سے ایک جلتی ہوئی لکڑی اٹھائی اور اسی وقت وہ بری طرح چونک پڑا۔ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھیں خوف و دہشت سے پھیل چکی تھیں۔ وہ ایک دم سے پیچھے ہٹا تو چت گر پڑا لیکن پھر اس نے الٹی قلابازی کھائی اور میں نے جلتی ہوئی لکڑی اس کے چہرے پر دے ماری۔ بھوریا چرن کی دلدوز چیخ ابھری تھی۔ اس نے پیچھے ہٹ کر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’تو آگئے تم میاں جی۔ یاد ہے یہ جگہ، یہیں سے ہماری تمہاری جنگ شروع ہوئی تھی اور آج یہیں تمہارے پیر پھگنوا کے چرنوں میں تمہارا انت ہوجائے گا۔ آج نہیں چھوڑوں گا میاں جی! آج نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ دفعتاً ہی مجھے اپنے سینے کے پاس ایک وزن سا محسوس ہوا اور یہ وزن اس خنجر کا تھا جو مجھے عطا کیا گیا تھا۔ میں نے خنجر نکال کر ہاتھ میں لے لیا تھا۔ بھوریا چرن نے گہری نگاہوں سے خنجر کو دیکھا اور دفعتاً ہی اس کے چہرے پر پھر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ غالباً اسے کسی خطرے کا احساس ہوگیا تھا۔ اس نے ایک دم الٹی چھلانگ لگائی لیکن یہ چھلانگ پیر پھاگن کے مزار کی سیڑھیوں کی جانب تھی۔ راستہ بھول گیا تھا۔ وہ صحیح راستے کا انتخاب نہیں کرسکا تھا۔ میں دونوں ہاتھ پھیلائے اس پر جھپٹا، باقی لوگ حیران نگاہوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ بھوریا چرن زور سے چیخا۔
’’ارے بچائو… ارے بچائو۔ یہ مُسلّہ مجھے مار رہا ہے۔ ہندو ہوں، میں ہندو ہوں۔ ارے ہندو جاتی کے لوگو! بچائو مجھے، بچائو۔‘‘ لیکن شاید یہاں کوئی ہندو موجود نہیں تھا یا پھر اس کی آواز نہیں سنی جارہی تھی۔ وہ سیڑھیوں کے قریب پہنچ گیا اور دفعتاً ہی اسے عقب سے ٹھوکر لگی۔ سیڑھیاں اس کے راستے میں مزاحم ہوگئی تھیں۔ وہ نیچےگر پڑا اور اسی لمحے میں اس پر چھا گیا۔ میں نے خنجر بلند کرکے اس کے پہلو میں بھونک دیا اور اس کی زبان کوئی ڈیڑھ فٹ باہر نکل آئی۔ اس نے زبان سے میرے چہرے کو چاٹنے کی کوشش کی لیکن میں نے پیچھے ہٹ کر دوسرا وار پھر اس کے سینے پر کیا۔ اس بار اس کی آنکھیں اپنے حلقوں سے کوئی دو یا تین فٹ باہر نکلیں اور ربر کی طرح کھنچ کر واپس اپنی جگہ پہنچ گئیں۔ میں دیوانہ وار اس پر حملے کررہا تھا اور میرا خنجر باربار بلند ہوکر اس کے جسم کے مختلف حصوں میں پیوست ہورہا تھا۔ قرب و جوار میں کچھ لوگ موجود تھے جو دوڑ دوڑ کر ہمارے گرد جمع ہوگئے تھے لیکن میں سب سے بے خبر اپنے کام میں مصروف تھا اور میں نے بھوریا چرن کی گردن اس کے شانوں سے علیحدہ کردی۔ اس کی چوٹی پکڑ کر میں نے گردن کاٹی اور ایک طرف اچھال دی۔ پھر اس کی بغل کے پاس سے ایک بازو کاٹا۔ خنجر انتہائی شاندار طریقے سے اپنا کام سرانجام دے رہا تھا۔ کچھ لوگ تو یہ ہولناک منظر دیکھ کر وہاں سے فرار ہی ہوگئے تھے۔ بھوریاچرن کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے میں نے انہیں قرب و جوار میں پھینک دیا۔ پھر اچانک ہی ایک گڑگڑاہٹ سی محسوس ہوئی اور میں نے دیکھا کہ جہاں جہاں اس کے جسم کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے، وہاں زمین میں گڑھا ہوتا جارہا تھا۔ پتھر چٹخ رہے تھے، اپنی جگہ چھوڑ رہے تھے۔ میں کئی قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر ایک بڑا سا گڑھا وہاں نمودار ہوا اور بھوریا چرن کا مردود جسم اس گڑھے میں اُترتا چلا گیا تھا۔ میرے دانت بھنچے ہوئے تھے، آنکھیں شدت غضب سے سرخ ہورہی تھیں۔ میں نے اس گڑھے کے قریب پہنچ کر اس میں جھانکا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اتنا گہرا گڑھا ہوگیا تھا کہ زمین نظر نہیں آتی تھی، تاہم میں نے اپنی معلومات کیلئے پتھر کا ایک بڑا سا ٹکڑا اٹھا کر اس گڑھے میں اچھال دیا۔ پتھر کے زمین پر گرنے کی آواز تک نہیں آئی تھی۔ بھوریا چرن انتہائی گہرائیوں میں دفن ہوگیا تھا۔ میں نے خنجر صاف کرکے اپنے لباس میں واپس رکھا اور اس کے بعد میرے حواس کسی قدر کام کرنے لگے۔ فیضان، شامی، اکرام، شمسہ وغیرہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ قرب و جوار کے لوگ بھی حیران حیران سے کھڑے ہوئے تھے۔ میں اپنے اس کام سے فارغ ہوگیا۔ بظاہر تو بھوریا چرن کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آگے اللہ جانتا تھا۔ پیرپھاگن کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔ ماں، باپ کے مل جانے کی دعا مانگی۔ شہر جاکر اپنا گھر تلاش کیا۔ وہاں کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ آنسو پی کر واپس چل پڑے اور اب عزم پاکستان تھا۔ ٹرین آگرہ سے روانہ ہوئی۔ چار ڈبے بارڈر کیلئے لگائے گئے تھے۔ سکھ رجمنٹ کے سولہ سپاہی ان کی حفاظت پر مقرر کئے گئے تھے لیکن میں نے ان کے چہروں کی خباثت دیکھی تھی۔ ایک نگاہ انہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنے فرض سے مخلص نہیں ہیں۔ کٹے پھٹے زخمی مسلمان مرد، عورتیں، بچے زندگی کی تلاش میں سرگرداں ٹرین کے ان ڈبوں میں کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ ان کے حلیے اور غم دیکھے نہیں جاتے تھے۔ اکرام، فیضان اور شامی بھی اب بالکل بدل گئے تھے۔ ہمارے پاس ہتھیار نہیں تھے مگر ہمارا عزم ہتھیار تھا اور ہم ہر لمحہ کسی واقعے کے منتظر تھے۔ شمسہ سہمی ہوئی ایک گوشے میں اپنے بچوں کے ساتھ سمٹی ہوئی تھی۔ اس وقت سارے خیالات سو گئے تھے۔ پورنی سے میں نے بڑے کارآمد کام لئے تھے اور حقیقتاً اس کی افادیت کا قائل ہوگیا تھا۔ ٹرین کے سفر کے چند گھنٹے کے بعد ہی میں نے اسے سرگوشی میں پکارا اور کہا۔
’’کیا تو ان لوگوں کی نیت کے بارے میں بتا سکتی ہے جو ہمارے محافظوں کی حیثیت سے ہمارے ساتھ ہیں؟‘‘
’’آپ آگیا دیں مہاراج! میں ان کے من کھول لوں گی، تھوڑا سمے لگے گا۔‘‘
’’مجھے معلوم کرکے بتا۔‘‘ کوئی دس منٹ کے بعد پورنی نے مجھے اطلاع دی۔
’’ہری سنگھ اس رجمنٹ کا سردار ہے، ہندوئوں کا پالا ہوا۔ اس نے انجن چلانے والے کو حکم دیا ہے کہ چھتناری اسٹیشن سے آگے نکل کر باندی پورہ اور چھتناری کے بیچ ریل روک دے۔ وہاں ہندو حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔‘‘
’’پورنی! ریل نہیں رکنی چاہئے۔‘‘
’’نہیں رکے گی مہاراج۔‘‘ پورنی نے جواب دیا۔ دن گزر گیا، رات ہوگئی۔ ریل کے ڈبوں میں روشنی اور ہوا کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ بچے ریں ریں کررہے تھے، مسافر عالم سکرات میں تھے۔ کوئی دس بجے چھتناری کا اسٹیشن آیا۔ ہر اسٹیشن پر ہم نے ہندو انتہا پسندوں کو دیکھا تھا مگر فوج کی وجہ سے کوئی عمل نہیں ہوا تھا البتہ چھتناری کے بعد جب ٹرین آگے بڑھی تو میں نے درود پاک کا ورد شروع کردیا تھا۔ میرا دم آنکھوں میں آگیا تھا۔ یک بیک میں نے ٹرین کی رفتار تیز ہوتی دیکھی۔ ہر ایک کو اس کا احساس ہوگیا تھا۔ مسافر چونک پڑے تھے۔ ٹرین تھی کہ گولی بن گئی تھی۔ اس طوفانی رفتار سے گزرتی ہوئی وہ باندی پورہ سے گزر گئی۔ باندی پورہ کے اسٹیشن سے گزرتے ہوئے بس روشنی کی لکیریں نظر آئی تھیں اور سائن بورڈ پر بس نام کا شائبہ ہوا تھا۔ مزید ایک گھنٹہ گزر گیا، پھر ٹرین کی رفتار سست ہونے لگی اور پھر بہت سست ہوگئی۔ پورنی نے میرے کان میں کہا۔
’’پرم پردھانی! گڑبڑ ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’سکھ افسر نے انجن چلانے والے کو گولی مار دی ہے۔ اس نے باندی پورہ کے ہندوئوں سے پیسے لئے ہوئے تھے۔ انجن چلانے والے نے گاڑی نہیں روکی اس لئے افسر نے اسے مار دیا۔ اب افسر بلادی اسٹیشن پر گاڑی رکوائے گا۔ آپ بلادی پر دوسری طرف سے اتر جایئے، وہاں خون خرابہ ضرور ہوگا۔‘‘
’’تو کچھ نہیں کرسکتی؟‘‘
’’جو بن پڑے گا، ضرور کروں گی مہاراج۔ مگر بہت بڑا جمائو ہے۔ آپ کو ہوشیار رہنا ہوگا۔‘‘
میں پریشان ہوگیا۔ میرے کمپارٹمنٹ میں جو لوگ نظر آرہے تھے، وہ بیچارے زخموں سے چور تھے، یہ کسی سے کیا مقابلہ کرسکتے تھے۔ تاہم کچھ دیر کے بعد میں نے انہیں ہوشیار کردیا۔
’’آگے حملے کا خدشہ ہے۔ آپ سب لوگ ہوشیار ہوجائیں۔‘‘ کہرام مچ گیا۔ سہمے ہوئے لوگ طرح طرح کے سوالات کرنے لگے۔ میرے لئے جواب دینا مشکل ہوگیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے وقت سے پہلے انہیں موت کے خوف سے دوچار کردیا ہے لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا تھا۔ کچھ لوگوں نے مجھے گالیاں بھی دیں اور کہا کہ میں خوف و ہراس پھیلا رہا ہوں۔ میں نے خاموشی سے سب کچھ سنا البتہ اپنے ساتھیوں کو میں نے ہوشیار کردیا اور پورنی کی ہدایت کے مطابق انہیں دونوں سمت کے دروازوں پر تعینات کردیا کہ جس سمت اسٹیشن آئے، اس کے دوسری سمت کا دروازہ کھول دیا جائے۔ بچوں کو میں نے فیضان اور اکرام کی گود میں دے دیا تھا۔ ٹرین کی رفتار سست ہونے لگی۔ بلادی کا اسٹیشن تاریکی میں ڈوبا پڑا ہوا تھا مگر دور ہی سے وہاں چہل پہل محسوس ہورہی تھی۔ ہمیں سمت کا اندازہ ہوگیا اور میں نے شمسہ وغیرہ کو اس طرف پہنچا کر درود پاک کا ورد شروع کردیا۔ ٹرین کو کئی جھٹکے لگے اور اس کے ساتھ ہی جے بھوانی، جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے لگنے لگے۔
’’پوری…‘‘ میں نے پورنی کو پکارا مگر اس کی آواز سنائی نہیں دی۔ کئی آوازوں پر بھی میں نے اس کی آواز نہ سنی۔ اگلے ڈبوں پر حملہ ہوچکا تھا، چیخ و پکار کی دلدوز آوازوں سے کانوں کے پردے پھٹے جارہے تھے۔ دل رو رہا تھا ان سب کو مصیبت میں چھوڑتے ہوئے مگر کیا کرتا۔ انہیں سپرد خدا کرکے شمسہ، بچوں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ نیچے کود گیا۔ دوسری طرف گہرائیاں اور لمبے لمبے کھیت کھڑے تھے۔ سب کے سب لڑھکتے ہوئے نیچے جاگرے۔ بچے بری طرح رونے لگے، ان کے منہ بھینچ کر انہیں چپ کرایا اور سب سنبھل کر کھیتوں میں دوڑنے لگے۔ نعروں اور چیخوں کی مہیب آوازیں تعاقب کررہی تھیں۔ کھیتوں کا سلسلہ کچھ دور چل کر ختم ہوگیا۔ کچھ فاصلے پر روشنیاں سی دہکتی ہوئی نظر آئیں۔ عجیب سی روشنیاں تھیں جیسے بھٹیاں دہک رہی ہوں۔ رخ اسی سمت ہوگیا۔ چکنی مٹی سے بنی ہوئی ایک قلعے نما عمارت تھی جس کی فصیلوں پر یہ بھٹیاں روشن تھیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ ہم قلعے کے دروازے کے پاس پہنچ گئے۔ اچانک بڑے دروازے میں ایک ذیلی کھڑکی کھلی۔
’’السلام علیکم۔‘‘ کسی نے کہا۔
’’وعلیکم السلام… آپ کون ہیں؟‘‘
’’اندر آجائو… جلدی کرو۔‘‘ ہم سے کہا گیا اور ہم عجلت میں اندر داخل ہوگئے۔ دس بارہ افراد تھے۔ ذیلی کھڑکی بند کرکے اس کے ساتھ بہت سا کاٹھ کباڑ لگا دیا گیا۔ پھر مشعل کی روشنی میں ہمیں دیکھا گیا اور کسی نے گونجدار آواز میں کہا۔
’’جو ریل کٹ گئی، اسی کے مسافر ہو؟‘‘
’’اندر آجائو۔ ہمیں ان کتوں کا منصوبہ معلوم تھا مگر افسوس وقت بدل گیا۔ مجبوری تھی، ہم کچھ نہیں کرسکے۔ آئو، اندر آجائو۔‘‘ وسیع عمارت تھی۔ ہمیں ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ بھینسوں کے ڈکرانے کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ لالٹین کی روشنی میں رائوتجمل حسین کو دیکھا۔ تعارف بعد میں ہوا تھا۔ ہمیں چائے پیش کی گئی۔ بہت تھکن سے نڈھال تھے۔ چائے کے بعد رائو صاحب نے کہا۔
’’آپ لوگ آرام کریں۔ ہاں! مرد ہوشیار رہیں۔ اگر حویلی پر حملہ ہوا تو آپ کو جگا دیا جائے گا۔‘‘
’’نہیں رائو صاحب! ہم آپ کے ساتھ جاگیں گے۔‘‘
’’ابھی ضرورت نہیں ہے۔ اچھا ہے کچھ دیر آرام کرکے چاق و چوبند ہوجائیں۔‘‘ رائو صاحب چلے گئے۔ کسی کے پاس بولنے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ ایک خوف سب پر طاری تھا۔ بچے البتہ سو گئے۔ میں نے سرگوشی میں پورنی کو پکارا۔
’’پرم پردھانی!‘‘ اس کا جواب ملا۔
’’پرم پردھانی کی بچی۔ کہاں مر گئی تھی؟‘‘
’’جے پرم پردھائی۔ آپ پوتر اشلوک پڑھ رہے تھے، ان کے سامنے گندی نہیں آسکتی تھی۔ میں مجبور تھی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کیا ریل کے سارے مسافر مارے گئے؟‘‘
’’کچھ جیتے ہیں دھنی، کچھ مارے گئے۔‘‘
اور کیا پوچھتا اس سے، خاموش ہوگیا۔ رات بھی بہت سی راتوں کا مجموعہ بن گئی تھی۔ نہ جانے کیسے صبح ہوئی، ناشتہ ملا، دوپہر کو رائو صاحب سے ملاقات ہوئی۔ بلادی کے مسلمان رئیس تھے۔ ہندوئوں میں گھرے ہوئے تھے مگر بڑے کلے ٹھلے کے آدمی تھے۔ ہندوئوں کا مسلسل مقابلہ کررہے تھے۔ بتانے لگے۔
’’بڑی مشکل سے بچائو کررکھا ہے۔ بستی کے سارے مسلمان بھاگ گئے، ہم پھنس گئے ہیں۔ دس بندوقیں ہیں، ہندو ملازموں کے سامنے انہیں سو بتا کر پیش کیا ہے۔ ان کے خوف سے ابھی حویلی پر حملہ نہیں ہوا ہے ورنہ کب کا ہوچکا ہوتا مگر کب تک… ہاں! اللہ کرے شمس اللہ آجائے۔ بھتیجا ہے ہمارا، انگریزی فوج کا افسر ہے۔ ایک منصوبہ بنا کر گیا ہے۔ دیکھو اللہ کرے ہماری موت سے پہلے پہنچ جائے۔‘‘ بعد میں شمس اللہ کے بارے میں معلوم ہوا وہ کچھ انتظامات کرنے گیا تھا اور یہاں اس کا انتظار ہورہا تھا تاکہ پاکستان کی طرف کوچ کیا جائے۔ رائو صاحب نے بعد میں فصیلوں پر جلتی ہوئی بھٹیاں دکھائیں جن پر بڑے بڑے کڑھائو چڑھے ہوئے تھے اور ان میں تیل ابل رہا تھا۔ قریب ہی لمبی لمبی سینکوں کی جھاڑوئیں انبار تھیں۔
’’یہ ہمارے ٹینک ہیں۔ سسرے ایک بار ہمت کرلیں، دوبارہ رخ نہیں کریں گے۔‘‘ رائو صاحب نے بتایا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اسلحہ… تیل میں گڑ پک رہا ہے۔ حویلی پر حملہ ہوا تو ان جھاڑوئوں کو اس میں ڈبو کر تیل اچھالیں گے۔ کسی پر اس کی ایک بوند بھی پڑ گئی تو سمجھ لو، عمر بھر جلتا رہے گا۔ ساری تیاریاں پوری ہیں۔‘‘
میں اس تدبیر پر انگشت بدنداں رہ گیا۔ جوالا پور کے کنور ریاست علی یاد آگئے تھے۔ پھر اسی رات حملہ ہوگیا۔ کوئی ڈیڑھ دو سو ہندو رات کی تاریکی میں حویلی کے پاس آگئے۔ ہم لوگ جاگ رہے تھے، فوراً بلاوا آگیا۔ فصیلوں پر سب دم سادھے ہندوئوں کے زد پر آجانے کا انتظار کررہے تھے۔ حویلی کے مرد تیار تھے، پھر جونہی وہ لوگ زد میں آئے، اوپر سے ان پر تیل میں جلے ہوئے گڑ کی بارش ہوگئی۔ خدا کی پناہ… جس طرح وہ بلبلائے، جس طرح زمین پر لوٹیں لگائیں، دیکھنے کا منظر تھا۔ کئی دن کا پکتا ہوا گڑ تیل کے ساتھ مل کر جس کے جسم پر پڑا، اندر تک اترتا چلا گیا۔ تین منٹ بھی نہ لگے، صفایا ہوگیا۔ ایسے سر پر پائوں رکھ کر بھاگے کہ پلٹ کر نہیں دیکھا۔ حملہ ناکام ہوگیا۔ رائو صاحب پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنس رہے تھے۔ دوسری صبح دو جیپیں آئیں جن میں پولیس بھری ہوئی تھی۔ نیچے ہی سے مذاکرات ہوئے۔ رائو صاحب نے کہا۔
’’بھیا! گارڈ لے کر آجائو۔ مالک کی قسم ٹینکوں اور توپوں سے مارو گے تب بھی سو پچاس کو لے مریں گے۔ اب جلدی سے پیچھے ہٹ جائو، نہیں تو ہم شروع ہورہے ہیں۔‘‘
جیپیں مڑ کر واپس چلی گئی تھیں۔ رائو تجمل حسین بیشک عظیم انسان تھے۔ ان حالات میں بھی بات بات پر قہقہہ لگانے والے۔ دو دن تک خاموشی طاری رہی۔ تیسری رات کوئی نو بجے ہوں گے کہ تین گاڑیوں کی روشنیاں نظر آئیں۔ اطلاع مل گئی اور اسلحہ تیار ہوگیا۔ گاڑیاں بالکل نیچے آگئیں، پھر کسی نے چیخ کر کہا۔
’’چچا ابا… میں شمس اللہ ہوں۔ کوئی کارروائی نہ کریں۔‘‘ اس نام میں بڑا سحر تھا۔ حویلی کے دروازے کھل گئے۔ شمس اللہ اندر آگیا۔ ایک بس اور دو جیپیں تھیں۔ جیپوں میں مسلح فوجی بھرے ہوئے تھے۔ افراتفری مچ گئی۔ سامان کی گٹھڑیاں بس میں بھری گئیں۔ بارہ ملازم، پانچ عورتیں جن میں شمسہ بھی تھی اور بس شمسہ کے بچے۔ یہ سب بس میں بیٹھے اور بس چل پڑی۔ رائو صاحب بھی بس میں تھے۔ دونوں جیپیں بس کو حفاظت میں لے کر چل پڑیں۔ ایک بار پھر موت کا سفر شروع ہوگیا تھا۔ رات بھر میں نہ جانے کتنا فاصلہ طے کرلیا گیا۔ جوالا پور کے قریب ایک گروہ بس کی طرف لپکا مگر فوجیوں نے فائر کھول دیا۔ کچھ مرے، کچھ زخمی ہوئے باقی بھاگ گئے۔ پھر صبح ہوگئی۔
خوف و دہشت کا یہ عالم تھا کہ کوئی ایک دوسرے کی صورت بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔ سفر رکے بغیر جاری رہا۔ روشنی پوری طرح ہوگئی تو اچانک برقع میں لپٹی ایک عورت کے حلق سے عجیب سی چیخ نکلی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اکرام پر جھپٹی۔ اکرام ہونق ہوگیا تھا۔ عورت برقع میں چھپی چھپی اکرام سے لپٹ گئی۔ وہ اس کے سینے سے منہ رگڑ رہی تھی۔ میں خود ہکابکا ہوگیا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ سب ہی حیران تھے۔ اچانک رائو صاحب بولے۔
’’ارے اکرام میاں! اس کی صورت تو دیکھو۔ تمہاری کوئی نہ ہو، بیچاری گونگی ہے۔‘‘ اب اکرام کو ہوش آیا۔ اس نے عورت کے چہرے سے برقع ہٹایا۔ میری آنکھیں بھی اسی طرف نگراں تھیں اور پھر میرے دل کی حالت عجیب ہوگئی۔ میں اپنی اس وقت کی کیفیت کو الفاظ میں نہیں بیان کرسکتا۔ ثریا تھی۔ اکرام کی بہن… اور… اور…!
میں سکتے کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا۔ اکرام بھی اس کا چہرہ دیکھ کر چند لمحات کیلئے پتھرا گیا تھا۔ پھر اس نے ثریا کو اپنے سینے میں سمو لیا۔ اس کی مدھم مدھم سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔
’’شکر ہے مالک کا… کون ہے یہ اس کی؟‘‘ رائو صاحب نے پوچھا۔
’’بہن…‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ماری باندھی آگئی تھی۔ اکیلی تھی، سلام کیا تھا مجھے اشارے سے۔ آنکھوں میں شرم و حیا تھی۔ گو زبان نہیں تھی بیچاری کی مگر سمجھ میں آگیا کہ مسلمان ہے، ساتھ رکھ لیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کا بھائی مل گیا اور ایک فرض سے سبکدوشی ہوگئی۔‘‘
شمسہ مل گئی تھی، ثریا مل گئی تھی۔ اللہ کے احسان سے گردن جھکی ہوئی تھی۔ سارے وسوسے دل سے نکلتے جارہے تھے۔ کھیل کیسے شروع ہوگا، کیسے ختم، انسان کیا جانے۔ یہ سب کچھ کسی اور ہی کا کام ہے۔
ثریا، اکرام کے سینے سے لگی رہی۔ نڈھال ہوگئی تھی۔ مونا بائو پہنچ گئے۔ شمس اللہ کے ساتھ آئے ہوئے فوجی واپس چلے گئے۔ اللہ نے ہمیں سلامتی کے ساتھ پاک وطن پہنچا دیا تھا۔ پناہ گزینوں کے مجمع لگے ہوئے تھے۔ لٹے پٹے قافلے درد کی لاکھوں کہانیاں سمیٹے آہوں اور آنسوئوں کے ساتھ سجدئہ شکر ادا کررہے تھے۔ وطن نوزائیدہ تھا، وسائل ناکافی تھے۔ جس طرح بن پڑ رہا تھا، آنے والوں کو سہولتیں مہیا کی جارہی تھیں۔ ہم نے بھی ایک گوشہ اپنا لیا۔ بوریاں، ٹرنک، گٹھڑیاں دیوار بنے ہوئے تھے۔ بس انہی کی پردہ پوشی تھی، یہی چار دیواری تھی۔ رائو تجمل حسین پر بھی وہی بیت رہی تھی۔ جو کچھ چھوڑ دیا تھا پاکستان کیلئے، وہ اس عمر میں دوبارہ نہیں حاصل ہوسکتا تھا۔ ثریا نے مجھے بھی دیکھ لیا تھا اور ایک عجیب سا احساس جھلکنے لگا تھا اس کی آنکھوں سے۔
مخیر حضرات مصروف عمل تھے۔ جسے دیکھو دل کھولے دے رہا ہے۔ آنے والوں کیلئے اتنا کچھ کھانے پینے کو آرہا تھا کہ منع کرنا پڑتا تھا۔ معذرت کرنی پڑ رہی تھی کہ بھائی کھا چکے ہیں، اللہ کا دیا موجود ہے۔ دو دن یہاں گزر گئے۔ میرپورخاص کیلئے ریل چکر لگا رہی تھی۔ سب کی پرچیاں کٹ چکی تھیں۔ نمبر سے باری آرہی تھی۔ تیسرے دن کی بات ہے فجر کی
نماز سے فارغ ہوا تھا۔ یونہی سوچ میں بیٹھا ہوا تھا کہ نگاہ سامنے اٹھ گئی۔ صندوق رکھے ہوئے تھے، ان کے درمیان رخنے بھی بنے ہوئے تھے۔ میری نظر سامنے والے رخنے کے دوسری سمت اٹھ گئی۔ ایک پُرنور چہرہ نگاہوں کے سامنے تھا اور یہ چہرہ… بھلا آنکھیں دھوکا کھا سکتی ہیں بھلا؟ وہ لگن جس نے ایک طویل عرصے سے دل میں ہلچل مچا رکھی تھی، بینائی کو متاثر کرسکتی ہے۔ ماں تھی میری، امی تھیں میری، یقینی طور پر وہی تھیں۔ بدن میں بجلیاں بھر گئیں، دیوانوں کی مانند اپنی جگہ سے چھلانگ لگائی اور ٹین کی اس دیوار کے دوسری جانب پہنچ گیا۔ نماز پڑھ رہی تھیں، سر جھکا ہوا تھا، اللہ کے حضور سربسجود تھیں۔ جانتا تھا کہ ان کے دل میں کیا دعا ہوگی۔ ماموں ریاض اور ابو بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ لاغر، لاچار مفلوک الحال، بے بسی کا شکار… میرے کلیجے کا سارا خون سمٹ کر چہرے پر آگیا تھا، آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ بدن میں ایسا تشنج پیدا ہوگیا تھا کہ پیروں پر قابو نہیں پا سکا۔ ایک عجیب سا انداز طاری ہوگیا تھا مجھ پر۔ دو قدم آگے بڑھا اور دھڑام سے ان کے سامنے گر پڑا۔ قوت گویائی تو مفلوج تھی ہی، بدن نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ ابو اور ماموں ریاض چونک پڑے تھے۔
انہوں نے تاسف بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا اور آگے سہارا دینے کیلئے بڑھے لیکن باپ کی نگاہ تھی۔ وہی دل کے تار جنہیں کوئی شے غیر مرئی طور پر آپس میں جوڑے رکھتی ہے، بھلا ان تاروں میں لرزش کیوں نہ ہوتی۔ تار جھنجھنائے۔ ابو نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور پھر ایک دلدوز چیخ مار کر مجھ سے لپٹ گئے۔
’’مسعود! میرے بچے مسعود۔‘‘ اور یہ الفاظ ایسے تھے کہ امی بھی خود پر قابو نہ پاسکیں۔ ماموں ریاض پاگلوں کی طرح چیخے۔
’’ہاں مسعود، ہمارا مسعود ہی ہے، مسعود ہی ہے۔‘‘ ایسے مناظر یہاں عام تھے۔ ایسے واقعات گوشے گوشے میں ہورہے تھے۔ ہر لمحہ کہیں نہ کہیں سے آوازیں ابھر آتی تھیں، بھلا ان آوازوں کی جانب کون متوجہ ہوتا لیکن اس گوشے میں جو کچھ ہوا تھا، وہ عام واقعات میں سے نہیں تھا۔ یہاں تو کہانی ہی انوکھی تھی، یہ تو ملاپ ہی غیریقینی تھا۔ صدیوں کے بچھڑے ملے تھے، کسے یقین آتا۔ بس یوں لگ رہا تھا جیسے کٹھ پتلیاں نچانے والا کھیل ختم کرچکا ہو، سارے دھاگے قریب لائے جارہے ہوں۔ سب کو پتا چل گیا کہ میرے ماں، باپ مل گئے ہیں۔ شمسہ، ماں کے سینے سے لگی ہوئی تھی۔ ابو نے مجھے کلیجے میں بھینچ رکھا تھا۔ محمود باقی رہ گیا تھا۔ میں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ وہ زندہ سلامت ہے، وہ ضرور ہم سے آملے گا۔ مبارک ہے یہ وطن پاک جس نے صدیوں کا طلسم توڑ دیا۔ مبارک ہے پاکستان جس نے بچھڑوں کو ملا کر دل کے زخم سی دیئے۔
اکرام نے کہا۔ ’’مسعود بھائی! میں نہ کہتا تھا کہ اِن شاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ گزرے وقت کی کہانیاں ایک دوسرے کو سنائی گئیں۔ ماموں ریاض خوشی سے دیوانے ہورہے تھے۔ کہنے لگے۔
’’وطن پاک نے ہمیں نئی زندگی سے نوازا ہے… ہم باہمت ہیں، ایک بار پھر وہی گھر بنا لیں گے۔ ہم ایک بار پھر اسی زندگی کا آغاز کریں گے۔‘‘
ہماری روانگی کا وقت آگیا۔ میرپورخاص، حیدرآباد پھر کراچی۔ کراچی میں ہمیں پرانی نمائش کے کیمپ میں جگہ ملی تھی۔ رفتہ رفتہ زندگی آگے سفر کررہی تھی۔ یہاں کیمپ میں ہم نے اپنا انتظام کیا۔ امی کو بخار ہوگیا۔ شمسہ اور ثریا نے انہیں ہاتھوں میں سنبھالا ہوا تھا۔ میرے دل میں ایک خیال سر ابھارنے لگا۔ پورنی میرے قبضے میں ہے، سب کچھ حاصل کرسکتا ہوں۔ اس کے ذریعے ایک عالیشان رہائش گاہ، زروجواہر کے انبار۔ اتنے عرصے کے بعد یہ لوگ ملے ہیں، کیوں نہ فائدہ اٹھائوں۔
’’غلط…‘‘ عقب سے آواز آئی اور میری گردن گھوم گئی۔ دن کی روشنی میں بھی اس گدڑی پوش کو دیکھ چکا تھا جو پیوند لگی گدڑی میں سر سے پائوں تک چھپا بیٹھا تھا۔ اب شام کے دھندلکوں میں بھی وہ وہیں موجود تھا۔ اس نے یہ جملہ کہا تھا۔
’’تم نے مجھ سے کچھ کہا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں شاہ جی! غلط سوچ رہے ہو۔‘‘ گدڑی پوش نے چہرے سے گدڑی ہٹا کر کہا۔ میں اسے دیکھ کر اچھل پڑا۔ نادر حسین تھا۔ میرے کچھ کہنے سے قبل وہ بول اٹھا۔ ’’برے بھلے کی تمیز دی گئی ہے۔ رزق حلال ہر طرح افضل ہے۔ کالی طاقت زہر کا تریاق ہے تو ٹھیک ہے زہر کو زہر سے مارو، لوہے کو لوہے سے کاٹو… خلق خدا کی مدد کرنے میں ہرج نہیں مگر گندگی سر پر نہیں اوڑھنی چاہئے۔ بازو دیئے ہیں اللہ نے، محنت سے کمائو، ہمت سے جیو… دنیا داری، ترک دنیا سے بہتر ہے۔‘‘
اس نے دوبارہ گٹھری میں منہ چھپا لیا۔ میں لپک کر اس کے قریب پہنچ گیا۔ میں نے بے اختیار کہا۔ ’’نادر حسین! تم بھی یہاں آگئے؟‘‘ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ’’منہ تو کھولو نادر حسین! میں تم سے باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے اس کی گدڑی کھینچی لیکن گدڑی زمین پر پھسل گئی۔ نادر حسین اس میں نہیں تھا۔ میں سکتے میں رہ گیا لیکن مجھے علم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نادرحسین کو بہت کچھ دے دیا تھا۔ وہ فنافی اللہ ہوگیا تھا۔
میں اس کے الفاظ پر غور کرنے لگا۔مجھے پورنی کے بارے میں ہدایت دی گئی تھی۔ اس کی کالی قوت، کالے علم کے خلاف استعمال کرسکتا تھا۔ اس سے اپنے لئے کچھ نہیں لے سکتا تھا۔ اس ہدایت سے میں نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ اب صرف محنت کی کمائی پر گزارہ کرنا ہے۔ وقت کا انتظار کروں تو سب سے بہتر ہے ورنہ سزا بھگت چکا تھا۔
اور صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ کیمپ میں محبت و اخوت، بھائی چارے کے ایسے مظاہرے ہورہے تھے کہ آنسو نکل آتے تھے۔ جسے دیکھو پناہ گزینوں کیلئے اپنا سب کچھ لٹانے پر آمادہ۔ امدادی اشیاء کے انبار چلے آرہے ہیں، حکومت الگ آسانیاں فراہم کررہی تھی۔ ایک سہ پہر ایک رئیس پھل اور مٹھائیاں لے کر آیا۔ چار ملازم یہ اشیاء تقسیم کررہے تھے۔ وہ خود نگرانی کررہا تھا۔ نوجوان اور خوبصورت آدمی تھا۔ ماموں ریاض نے اسے سب سے پہلے دیکھا۔ بے تابی سے اٹھ کھڑے ہوئے، قریب پہنچے اور آہستہ سے بولے۔
’’میاں! آپ کا نام محمود احمد تو نہیں ہے؟‘‘ نوجوان نے چونک کر انہیں دیکھا۔ پھلوں کا تھیلا اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ اس نے ایک چیخ ماری۔
’’ماموں ریاض…‘‘ اور ان سے لپٹ گیا۔ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ بساط کا آخری مہرہ بھی مل گیا تھا، آشیانے کا آخری پرندہ بھی واپس آشیانے میں آگیا۔ محمود نے تو صرف ماموں ریاض کو پایا تھا۔ سب کو دیکھ کر مسرت سے دیوانہ ہوگیا۔ امی کا بخار شاید اسی لئے تھا۔ ایسی خوش ہوئیں کہ بخار کا نام و نشان نہیں رہا۔ محمود کراچی میں رہتا تھا۔ جمشید روڈ پر اس کا بنگلہ تھا۔ اس بنگلے میں ہمیں لا کر اس نے اپنی کہانی سنائی۔ کئی سال وہ ملک سے باہر رہا اور اس نے خوب دولت کمائی۔ پھر ماں باپ کیلئے بے چین ہوکر واپس آگیا اور احتیاطاً اس نے کراچی میں رہائش اختیار کی۔ اس کا خیال تھا کہ اب وہ خفیہ طور پر ماں باپ کو تلاش کرے گا۔ اسی اثناء میں پاکستان بن گیا اور اسے یہاں رکنا پڑا۔ محمود کی اس حیثیت نے کایا ہی پلٹ دی۔ کوئی مشکل نہ رہی۔ اس نے اپنا کاروبار بھی تقسیم سے پہلے یہاں مستحکم کرلیا تھا۔ اکرام، فیضان اور شامی بھی اب غیر نہیں تھے۔ یہاں سب کی کھپت تھی۔ چنانچہ سب تعمیر وطن میں مصروف ہوگئے۔ ہم وطن ہی کے فرد تھے۔ نیک راہوں پر چل کر اپنے گھر کیلئے ہی باعزت روزی حاصل کرلی جائے تو خدمت وطن ہوتی ہے۔ اب اس بارے میں کیا عرض کروں، شرم محسوس ہوتی ہے کہ میری خواہش پر ثریا سے میرا نکاح کردیا گیا۔ یہ میری دلی آرزو تھی۔ معصوم و مظلوم ثریا میری زندگی میں شامل ہوگئی۔ پورنی سے میں نے بھوریا چرن کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا۔ ’’پرم پردھانی وہ شنکھا ہے۔ شنکھا تین بار کالے جنم لیتا ہے۔ ہاں اگر وہ کھنڈولا بن جائے تو پھر اسے امر شکتی حاصل ہوتی ہے۔ اسی سمے وہ مر گیا تھا مگر کون جانے وہ کب نیا جنم لے لے۔ ہر جنم میں وہ کھنڈولا بننے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اگر اس کے تینوں جنم ختم ہوجائیں تو وہ پھر نہیں جیتا۔‘‘ گویا بھوریا چرن کے دوبارہ سامنے آنے کے امکانات ہیں۔
لیکن چالیس سال گزر چکے ہیں، خدا کا احسان ہے کہ ان چالیس سالوں میں مجھے وہ کبھی نہیں نظر آیا۔ ہمارا باغ ہرابھرا ہے۔ میرے محمود کے شامی اور شمسہ کے بہت سے بچے ہیں۔ میں نے زندگی گزارنے کیلئے کاروبار کرلیا تھا۔ اللہ کا احسان ہے، دیانت سے خوب چل رہا ہے۔ خلق خدا کی جس طرح مدد ہوتی ہے، کرتا ہوں۔ پورنی میری غلام ہے۔ کالے جادو کا توڑ مجھ سے بہتر کوئی نہیں کر پاتا۔ اتنے پُراسرار اور پیچیدہ واقعات پیش آئے ہیں ان چالیس سالوں میں کہ سنانے بیٹھوں تو پھر اتنی ہی طویل ایک داستان کا آغاز ہوجائے۔ چلئے یار زندہ، صحبت باقی۔ ہاں! اگر کہیں گھر کی دیواروں پر یا کسی درخت پر کوئی پیلی مکڑی نظر آجاتی ہے تو اپنے بدن کی لرزشوں پر قابو نہیں پا سکتا۔ خدا سب کو محفوظ رکھے۔ آمین… آپ کا مسعود احمد۔
(ختم شد)