میں نے سنبھل کر گردن گھمائی تو راجہ دروازے میں نظر آیا۔ وہ خاموشی سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ میرے دل میں اس کے لئے نفرت ابھر آئی۔ کم بخت نشے باز ایسی نیک عورت پر ظلم کرتا ہے۔
’’آج بھٹی نہیں جلے گی کیا؟‘‘ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ میں اسے گھورتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ بھٹی جلی، کام ہوا، میں نے گھن بھی چلایا۔ راجہ نے مجھ سے بات نہیں کی تھی۔
شام کو میں نے کہا۔ ’’راجہ بھیا ایک بات کہوں۔‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’تم نشہ مت کیا کرو۔‘‘
’’کیا بکواس کررہا ہے۔‘‘
’’تم نے رشیدہ بھابی کو مارا ہے؟‘‘
’’تو پھر… نکاح میں تو میرے ہی ہے وہ۔‘‘
’’عورت پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے راجہ بھیا۔‘‘ میں اس کی بات نہیں سمجھا تھا۔
’’جا نادر، اپنے گھر جا، میرے منہ مت لگ۔ جا چلا جا۔‘‘ اس نے کہا۔ میرا ان داتا تھا وہ، اس سے زیادہ اور کیا کہتا۔ گردن لٹکا کر واپس آگیا۔ رشیدہ کے لئے دل دکھ رہا تھا لیکن سچ بات ہے میاں بیوی تھے وہ، میں کیا کرسکتا تھا۔ خود کو سمجھا لیا۔ دوسرے دن اپنا کام کررہا تھا۔ سرخ لوہے پر گھن چلا رہا تھا کہ راجہ نے بیٹھے بیٹھے ایک بہت بری بات کردی۔ اتنی بری کہ سارا وجود لوہے کی طرح سرخ ہوگیا۔ میں نے اسے خونی نظروں سے دیکھ کر کہا۔
’’بہن ہے وہ میری… بھابی کہتا ہوں میں اسے، ماں کے برابر ہے وہ میرے لئے۔ آج تم ضرورت سے زیادہ نشے میں ہو راجہ بھیا۔‘‘ مگر وہ نہ مانا۔ اس نے میری روح پر ایسی ضربیں لگائیں کہ مجھے جوابی ضرب لگانی پڑی مگر یہ ضرب ساڑھے چار سیر وزنی گھن کی تھی جو میرے ہاتھ میں تھا اور سر سے اوپر اٹھا ہوا تھا۔ راجہ بھیا کا سر غائب ہوگیا، شاید گردن میں گھس گیا تھا۔ اس کا سفید سفید مغز خون کے ساتھ سرخ دہکتی ہوئی بھٹی میں گر رہا تھا۔ شدید تکلیف کے عالم میں وہ بھی بھٹی ہی پر گر پڑا اور گوشت کی چراند دور دور تک پھیل گئی۔ میرے ہوش و حواس گم ہوگئے تھے۔ خون کی چادر تنی ہوئی تھی میری آنکھوں پر… آج تک نہیں معلوم کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا۔ ہوش اس وقت آیا تھا جب میں چوہدری صاحب کے سامنے تھا۔
’’حواس ٹھیک ہوگئے تیرے…‘‘ چوہدری صاحب نے کہا۔
’’چوہدری صاحب! میں… یہ… یہاں…‘‘ میں نے حیرت سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’پھانسی کا پھندہ تیار ہو رہا ہے تیرے لئے بیٹے۔ اسی میں گردن پھنسے گی۔ تختہ ہٹا دیا جائے گا، آنکھیں اور زبان باہر نکل آئے گی۔ اوئے جوانی زیادہ چڑھ رہی تھی تجھ پر۔ بیچارے لوہار کو مار ڈالا۔‘‘
’’راجہ بھیا خود شیطان بن گیا تھا چوہدری صاحب۔‘‘
’’اوئے ہم سے بھی جھوٹ بول رہا ہے۔ سیدھا پولیس کے ہاتھوں میں جاتا، ہم یہاں لے آئے۔‘‘
’’جو ہونا تھا، وہ ہوچکا ہے چوہدری صاحب، اور اس کے بعد جو ہوگا، وہ میری تقدیر ہے۔‘‘
’’اتنا بڑا مان دیا تجھے، سارے گھر والے عیش کرتے۔ اب بھی سوچ لے، ہم بچا لیں گے تجھے۔ تو قبول کرکے نہ دینا۔ کہہ دینا بھٹی میں گر گیا تھا، تو اس وقت پاس نہیں تھا۔ نشہ تو کرتا ہی تھا سسرا، ہم گواہی دے دیں گے، پھر کسی کی مجال ہے کہ بولے مگر ایسے نہیں۔‘‘
’’چوہدری صاحب…!‘‘
’’سوچ لے اچھی طرح… فیصلہ تجھے کرنا ہے۔‘‘
’’پولیس نہیں آئی چوہدری صاحب؟‘‘
’’آئی تھی، ٹال دیا ہم نے۔ تجھے لے آئے اپنے ساتھ اور یہاں بند کردیا۔ سب یہی سمجھ رہے ہیں کہ پولیس لے گئی ہے تجھے۔ پولیس والے اپنے یار ہیں۔ جب تک ہم نہیں کہیں گے، وہ دوبارہ نہیں آئیں گے مگر فیصلہ تجھے کرنا ہے۔ تیرا باپ تیرے سامنے نہیں بول سکتا، یہ ہمیں معلوم ہے۔ بول کیا کہتا ہے۔ فیصلہ کر ابھی، اسی وقت… اور پھر یہ سب کچھ کسی کو پتا تھوڑی چلے گا۔ ہم خود بھی تو اس بات کو چھپا کر رکھیں گے۔‘‘
’’فیصلہ اسی وقت کرنا ہوگا چوہدری صاحب؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’سولہ آنے کھرا سودا ہوگا۔ تو تیار ہوگا، ہم نکاح کریں گے اور بس… اس کے بعد ہم تجھے سامنے لے آئیں گے۔ لوگوں سے کہیں گے کہ پولیس نے تجھے بے گناہ قرار دے دیا۔‘‘
’’ٹھیک ہے چوہدری صاحب۔ میں نے فیصلہ کرلیا۔ ہو گیا فیصلہ۔‘‘ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ چوہدری بھی خوشی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ دونوں ہاتھ پھیلا کر مسکراتا ہوا مجھ سے گلے ملنے کے لئے آگے بڑھا۔
’’اسے کہتے ہیں عقلمندی سالے صاحب۔ یہ ہوئی بات۔ اب تم دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔‘‘ وہ میرے بالکل قریب آگیا۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کی گردن دبوچ لی۔ میری انگلیاں اس کی گردن پر شکنجے کی طرح کس گئیں۔
’’میرا فیصلہ پسند آیا چوہدری صاحب! کیسا رہا میرا فیصلہ؟‘‘ وہ میری گرفت میں تڑپنے لگا۔ اس کی آنکھیں اور زبان باہر نکل آئیں۔ یہی منظر اس نے میرے سامنے پیش کیا تھا۔ جب اس کی جان نہ رہی تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کی تلاشی لی۔ بہت سے روپے تھے اس کے پاس، سونے کی چین، ہیرے کی انگوٹھیاں پہنے ہوئے تھا وہ۔ یہی نہیں اس کے اس کمرے میں تجوری بھی تھی جسے میں نے خالی کردیا۔ میں واقعی عقلمند ہوگیا تھا۔ چھپتا چھپاتا گھر واپس آیا۔ ماں، باپ اور بہنوں کو تیار ہونے کے لئے کہا۔ بدر چاچا کے بیل کھولے، گاڑی جوتی اور سب کو اس میں بٹھا کر چل پڑا۔ صبح پانچ بجے میں ہردوار جنکشن پہنچا۔ وہاں سے کانپور جانے والی گاڑی میں بیٹھ گیا اور کانپور آگیا۔ ماں، باپ، بہنوں کو کچھ خبر نہیں تھی کہ یہ سب کیا ہورہا ہے مگر کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اپنے ساتھ اتنا لایا تھا کہ ساری مشکلیں آسان ہوگئیں۔ ایک گھر خریدا، نام بدلا اور رہنے لگا۔ سب پُرسکون تھے، میں مضطرب تھا۔ پھر ایک دن میں نے اخبار میں اپنی تصویر دیکھی۔ پولیس کو دہرے قتل کے مجرم کی تلاش تھی۔ سارے ہندوستان کی پولیس کو چوکس کردیا گیا تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ بات ایسے نہ ٹل جائے گی۔ شمو کے لئے ایک شریف نوجوان تلاش کیا۔ اسے بہت کچھ دے کر اس کی شادی کردی۔ باقی رقم باپ کو دے کر کہا۔ چھوٹی بڑی ہوجائے تو اسے بھی رخصت کردیا جائے اور پھر وہاں سے بھاگ آیا۔ ایک روپوش مجرم کیلئے جائے پناہ کہیں نہ تھی۔ زندہ رہنے کیلئے مجرم تنہا تھا چنانچہ میں سنتو خان بن گیا۔ گروہ بنایا، یہ خانقاہ بنائی اور یہاں جعلی پیر بن کر بیٹھ گیا۔ باقی سب کچھ تمہارے سامنے ہے بابا صاحب۔ خوب کھیل کھیلے مگر سکون نہیں ملا۔ احساس گناہ۔ گناہ پر گناہ کرائے جا رہا ہے۔ میری منزل کہاں ہے بابا صاحب۔ کوئی منزل ہے میری۔‘‘
میں سکتے کے عالم میں اس کی کہانی سن رہا تھا۔ اکرام بھی پتھرایا ہوا تھا۔ بہت دیر کے بعد میں نے کہا۔
’’ڈاکے کیوں ڈالتے ہو؟‘‘
’’دولت کے لئے۔‘‘
’’اتنی دولت کا کیا کرو گے؟‘‘
’’خرچ کردیتا ہوں۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’عرضیاں لانے والوں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں بیٹیاں بیاہنی ہوتی ہیں، بیماروں کا علاج کرانا ہوتا ہے۔ ان کی دعائیں پوری ہوجاتی ہیں۔ رات کی تاریکی میں کون منہ پر رومال لپیٹے ان کے دروازے پر جاتا ہے اور ان کی مراد پوری ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں پیر بھورے شاہ آئے تھے اور سب کچھ ہوگیا تھا۔ پھر وہ انہی پیسوں میں سے پھولوں کی چادر چڑھانے آتے ہیں، گھی کے چراغ جلانے آتے ہیں۔‘‘
’’اوہ… تم یہ کرتے ہو؟‘‘
’’ہاں بابا صاحب۔‘‘
’’پھر بھی سکون نہیں ملتا؟‘‘
’’نہیں بابا صاحب! بے سکون ہوں، دل کو قرار نہیں ملتا۔‘‘
’’ماں باپ، بہنوں سے دوبارہ ملے؟‘‘
’’کبھی نہیں مگر ان کی خبر رکھتا ہوں۔ سب ٹھیک ہیں۔ دوسری بہن کی شادی بھی ہوگئی ہے۔ دونوں بہنیں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ باپ کے پاس کافی رقم موجود ہے اور وہ خوشی کی زندگی گزار رہا ہے۔ میں صرف اس لئے ان کے پاس نہیں جاتا کہ کہیں میری شناخت نہ ہوجائے اور سب کچھ بگڑ جائے۔ بہت دور ہوں میں ان سے لیکن بس یہ اطمینان ہے کہ وہ سکھ چین کی زندگی بسر کررہے ہیں مگر بابا صاحب، میرا سکھ چین کہاں ہے؟ میرا سکون کہاں ہے؟ مجھے سکون چاہئے بابا صاحب، مجھے سکون چاہئے۔‘‘
بڑی حیران کن کہانی تھی۔ بڑا عجیب احساس تھا میرے دل میں اس شخص کے لئے۔ اکرام کی کیفیت بھی مجھ سے مختلف نہیں تھی۔ کیسا عجیب کردار ہے۔ میں حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔ بھلا میں کیا اور میری اوقات کیا کہ میں ایسے کسی کردار کو کوئی سہارا یا سنبھالا دے سکوں۔ بہت دیر تک خاموشی رہی۔ پھر اس نے کہا۔
’’آپ نے مجھ سے بہت کچھ پوچھ لیا بابا صاحب۔ میں نے سب کچھ بتا دیا۔ آپ مجھے اپنے بارے میں نہیں بتائیں گے؟‘‘
’’اب میں تمہیں نادر حسین کہہ کر ہی پکاروں گا۔ نادر حسین! یقین کرو جھوٹ نہیں بول رہا میں، جو میں نے روز اول کہا، وہ آج کہہ رہا ہوں۔ ایک مسافر ہوں۔ آوارہ گردی کرتا ہوا یہاں تک آپہنچا ہوں اور اس کے بعد سے تمہارا مہمان ہوں۔ تم نے جس حال میں بھی رکھا، خوش ہوں۔ اللہ کے کلام میں برکت ہوتی ہے۔ کون بھلا اس بات سے منحرف ہے کہ کلام الہٰی سے بڑھ کر اور بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے۔ اگر لوگوں کو اس کلام سے فائدہ ہو جاتا ہے، اگر ان کی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں تو اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے۔ بس یہ کلام الہٰی کی برکت ہے۔‘‘
’’آہ! کیا مجھ پر یہ بھی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ میرے لئے بھی تو دعا کرو بابا صاحب! مجھے بھی تو سکون کی دولت عطا کرو۔ میں جل رہا ہوں، اندر ہی اندر سلگ رہا ہوں، مدھم مدھم دھواں دے رہا ہوں میں… کم ازکم اتنی ہی دعا کردو میرے لئے کہ میرا یہ وجود جلدی بھسم ہوجائے، میں جل کر راکھ ہوجائوں۔ آہستہ آہستہ جلنا میرے لئے اب ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔‘‘ میں نے ہمدردی کی نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر آہستہ سے کہا۔
’’دیکھو نادر حسین! ضمیر کی عدالت میں جو فیصلے ہوتے ہیں، وہ دنیا کے تمام فیصلوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہاں سچ کی حکمرانی ہے اور تم نے جو کچھ کیا ہے، ضمیر کی عدالت اسے قبول نہیں کرتی۔ تم بے شک نیک راستوں کے مسافر ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو، وہاں شاید توازن متاثر ہوجاتا ہے۔ توازن نہیں ہے نادر حسین… یہی توازن قائم کرنا ہے تمہیں۔ جب تم لوٹ مار کرتے ہوگے سنتو خان کی حیثیت سے تو ظاہر ہے دلوں سے آہیں نکلتی ہوں گی، بددعائیں دیتے ہوں گے لوگ تمہیں اپنی بربادی پر جس کے نتیجے میں بے سکونی تمہاری روح میں جابسی ہے۔ اگر مجھ سے مشورہ چاہتے ہو تو میرے چند مشوروں کو قبول کرو۔ سب سے پہلے ڈاکا زنی کا یہ سلسلہ ترک کردو۔ یہ سب سے بری چیز ہے، اس کے بعد اور بھی کچھ مشورے دوں گا میں تمہیں۔ ذرا غور کرلوں اس بات پر… اکرام پانی لائو۔‘‘ ایک بار پھر اکرام نے پانی کا ایک پیالہ میرے سامنے پیش کردیا۔ میں نے اس پر درود پاک سات بار پڑھ کر دم کیا اور نادر حسین سے کہا۔
’’لو یہ پانی پی لو۔‘‘ نادر حسین نے پانی کا یہ پیالہ بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ لے کر منہ سے لگایا اور اسے غٹاغٹ پی گیا۔ میں نے اس سے کہا۔
’’اگر طبیعت قبول کرتی ہے تو نماز کا آغاز کردو۔ تمہاری یہ بے سکونی تو چٹکیوں میں ہوا ہوجائے گی۔ اس کے بعد نادر حسین، میں تم سے اور بھی بہت سی باتیں کروں گا۔ کیا خیال ہے تمہارا؟‘‘
’’مجھے سکون چاہئے، سکون دے دیجئے مجھے بابا صاحب۔ جو آپ کہیں گے، سو کروں گا۔‘‘
’’پھر ٹھیک ہے جائو آرام کرو، یہ سارے کام یونہی چلنے دو، سوائے اس کے جو میں نے تم سے کہا۔‘‘ نادر حسین اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ اکرام ابھی تک اس داستان کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں بھی خاموشی سے اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اکرام نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
’’مسعود بھیا! اس دنیا میں کوئی ایسا ہے جسے کوئی دکھ نہ ہو؟ کیا کوئی ایسا شخص مل جائے گا جو یہ کہے کہ وہ زندگی کے مسائل سے دور رہا ہے اور اس کی ذات میں غم کا کوئی پہلو نہیں ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں کہا جاسکتا اکرام! کائنات بنانے والے نے اپنی کائنات میں کیا کچھ رکھا ہے، بھلا کون جان سکتا ہے۔ وہی جانے جس کا یہ گورکھ دھندا ہے۔‘‘ اکرام عجیب سے تاثر میں ڈوبا رہا۔ پھر اس نے کہا۔
’’اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنے دکھ کو سب سے بڑا سمجھتا ہے۔ میرے دل میں ایک بہن کسک رہی ہے، آپ کے دل میں ایک پورا گھرانہ۔ نجانے کس کس دل میں کیا کیا دکھ پل رہا ہوگا۔ ویسے مسعود بھیا، آپ یقین کیجئے کچھ دکھی ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو دکھ کا احساس ہلکا لگنے لگتا ہے۔ خیر آپ کے ساتھ یہ وقت گزار کر میری تو کایا ہی پلٹ گئی ہے اور جو سوچیں آپ کی قربت نے دی ہیں اور ان میں سب سے نمایاں سوچ یہ ہے کہ جہاں انسان اپنی تمام تر جدوجہد کرکے تھک جاتا ہے، وہاں پھر اسے اپنی الجھنیں اس کائنات کے خالق کے سپرد کردینی چاہئیں جو تمام مشکلات کا حل رکھتا ہے۔ اس طرح اس پر تکیہ کرکے کم ازکم یہ احساس ضرور ہوجاتا ہے کہ جب فیصلہ ہوگا تو بات بن جائے گی۔ مسعود بھیا مجھے اتنا سکون مل گیا ہے کہ میں بتا نہیں سکتا آپ کو۔ ثریا جب بھی یاد آتی ہے، ہاتھ اٹھا کر اس کے لئے دعا کرتا ہوں کہ مالک اسے اپنی پناہ میں رکھنا کہ تو سب سے بڑا رکھوالا ہے، اور مجھے یوں لگتا ہے مسعود بھائی جیسے زبردست طاقتور محفوظ ہاتھوں نے میری ثریا کے سر پر اپنا سایہ ڈال دیا ہو مگر نادر حسین کی کہانی نے دل پر عجیب سا اثر ڈالا ہے۔ کتنا دکھی ہے یہ شخص۔ آپ کے خیال میں کیا اس کا یہ عمل جو اس نے آج تک کیا، کیا مناسب ہے؟‘‘ اکرام نے پوچھا اور میں گردن ہلانے لگا۔ پھر میں نے کہا۔
’’کیا ہے، کیا نہیں ہے، یہ جانے دو۔ بس جو کچھ ہمارے علم میں ہے، اسے بتا دیں گے۔ باقی وہ جانے اور اللہ۔‘‘ اکرام نے خاموش ہو کر گردن جھکا لی تھی۔
نادر حسین اب زیادہ تر ہمارے پاس بیٹھنے لگا تھا۔ اس کی کیفیت کچھ عجیب ہوگئی تھی۔ پہلے جیسی شان و شوکت اب اس کے چہرے پر نظر نہیں آتی تھی۔ اداس خاموش آکر دوزانو بیٹھ جاتا تھا۔ میں نے اسے نماز سکھانا شروع کردی تھی۔ اس نے بڑی پابندی سے ہمارے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردی تھی۔ درود پاک کا پھونکا ہوا پانی وہ بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ پیتا تھا۔ پھر ایک دن اس نے کہا۔
’’بابا صاحب! یہ باقی لوگ سرکشی کررہے ہیں۔ میں اتنے دن سے خاموش بیٹھا ہوں تو آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے ہیں۔ میرا خیال ہے یہ سرکشی کریں گے کیونکہ بہت دن سے انہوں نے کوئی ڈاکا نہیں ڈالا ہے اور صرف انہی چڑھاووں کی روٹیوں پر گزربسر ہو رہی ہے۔ ویسے تو ہمارے پاس بہت کچھ موجود ہے، بھنڈار بھرے پڑے ہیں لیکن ایک عادت جو ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یہ مجھ سے بغاوت نہ کردیں۔ ان کی بغاوت اچھی نہیں ہوگی۔‘‘ میں نے آنکھیں بند کرکے گردن ہلائی اور کہا۔
’’ان کے پینے کا پانی کہاں ہے نادر حسین؟‘‘ وہ نہ سمجھنے والے انداز میں مجھے دیکھنے لگا لیکن پھر سمجھ کر جلدی سے بولا۔
’’میں سمجھ گیا بابا صاحب۔ آپ مجھے پانی پڑھ کر دے دیجئے۔‘‘ چھ سات دن تک ان لوگوں کو درود پاک کی برکتوں میں ڈوبا ہوا پانی پلایا گیا اور نادر حسین نے مسکرا کر کہا کہ اب ان کی سرکشی ختم ہوگئی ہے اور وہ معتدل نظر آنے لگے ہیں۔ کچھ دن کے بعد نادر حسین نے خوشخبری سنائی کہ اسے نماز پڑھتے دیکھ کر ان میں سے کچھ نے نماز پڑھنا شروع کردی ہے۔ ایک دن اکرام نے کہا۔
’’ایک خیال میرے دل میں باربار آتا ہے مسعود بھائی۔ لوگ اس خالی قبر کو کسی بزرگ کی قبر سمجھ کر یہاں منتیں، مرادیں مانگتے ہیں اور ہم مجرمانہ طور پر ان کی باتیں سنتے ہیں۔ اس طرح وہ فریب کھاتے ہیں، کیا ہم یہ فریب انہیں دیتے رہیں۔‘‘
’’بیشک یہ غلط ہے۔ قبر پرستی بت پرستی کے مترادف ہے لیکن میں بہت کچھ سوچ کر بھی اس کا حل نہیں تلاش کرسکا ہوں۔ بس اتنی سوچ ہے میری کہ مخلوق خدا کے مسائل علم میں آجاتے ہیں اور ہم بساط بھر ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ نادر حسین سے مشورہ کریں گے، ہوسکتا ہے کوئی اور حل نکل آئے۔‘‘
معمولات جاری تھے۔ نہ مجھے اور نہ اکرام کو کوئی پریشانی تھی۔ مجھے تو فوراً ہی پتا چل جاتا تھا کہ میری کیا ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ افسران اعلیٰ فیصلہ کرتے تھے کہ میری پوسٹنگ کہاں کی جائے اور جب تک کہیں اور تبادلہ نہ ہو، مجھے وہیں اپنے فرائض سرانجام دینا ہوتے تھے۔ یہاں بھی میری ضرورت تھی۔ مشکلات میں گھرے لوگ آتے، اپنے دکھ درد بیان کرتے۔ آسمانی رہنمائی میں جو کچھ ذہن میں آتا، انہیں بتا دیتا۔ اس میں میرا کوئی دخل نہ تھا۔ کئی بار مراقبے کرکے اکرام کے اعتراض کا حل مانگا مگر خاموشی رہی تو میں بھی خاموش ہوگیا۔
خانقاہ کا ماحول بے حد پُروقار ہوگیا تھا۔ ہم پر اب کوئی قید نہیں تھی۔ راتوں کو باہر نکل آتے تھے، کھلی فضا میں عبادت کرتے تھے۔ ایک رات میں تنہا باہر نکلا اور تاروں کی چھائوں میں دور دور تک کے پُرسکون ماحول کا جائزہ لینے لگا۔ کچھ فاصلے پر میں نے ایک ٹیلے پر کچھ تحریک دیکھی۔ غور کیا تو پہچان گیا۔ یہ نادر حسین تھا۔ خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے دکھ ہوا۔ نہ جانے کس سوچ میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہمدردی ابھر آئی اور میں اس کے پاس پہنچ گیا۔ میرے قدموں کی چاپ پر بھی اس نے گردن نہیں گھمائی اور اسی طرح ساکت بیٹھا رہا۔
’’نادر حسین، کیا بات ہے، کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ مگر میری آواز پر بھی اس نے جنبش نہیں کی۔ نہ جانے کیوں میرے دل میں خوف کا احساس ابھر آیا۔ میں نے اسے زور زور سے جھنجھوڑا لیکن وہ سکتے کے عالم میں تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ میں نے ان آنکھوں میں جھانکا اور میرے منہ سے ہلکی سی آواز نکل گئی۔ اس کی آنکھوں کی سیاہ پتلیاں غائب تھیں۔ پوری آنکھوں میں سفید ڈھیلے چھائے ہوئے تھے۔ مجھ پر کپکپی سی طاری ہوگئی۔ ایک عجیب سا خوف مجھ پر مسلط ہوگیا اور میں اسے اسی طرح چھوڑ کر وہاں سے چلا آیا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے۔
دوسری صبح فجر کی نماز کے بعد اکرام سے رات کے اس واقعے کا تذکرہ ہی کرنا چاہتا تھا کہ اکرام نے کہا۔ ’’نادر حسین سے کتنے دن سے ملاقات نہیں ہوئی مسعود بھائی۔‘‘
’’بہت دن سے ہمارے پاس نہیں آیا لیکن…‘‘
’’کچھ عجیب سی کیفیت ہوگئی ہے اس کی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔
’’اکثر چلچلاتی دھوپ میں اسے سورج کی طرف منہ اٹھائے کھڑے دیکھا ہے۔ کئی بار راتوں کو جاگا تو کبھی اسے کھڑے ہوئے پایا، کبھی ساکت بیٹھا ہوتا ہے۔ دو تین دن پہلے کی بات ہے میں رات کو باہر نکل آیا تو وہ کچھ فاصلے پر ٹیلے پر کھڑا ہوا تھا۔ میں نظرانداز کرکے آگیا۔ صبح کو نماز کے بعد بھی اسے کھڑے ہوئے پایا اور پھر ساری دوپہر وہ اسی طرح کھڑا رہا۔‘‘
’’مجھے نہیں بتایا تم نے…‘‘
’’بس بھول گیا۔‘‘
’’اللہ نہ کرے اس کا ذہنی توازن متاثر نہ ہوگیا ہو۔‘‘
’’کیا کیا جائے؟‘‘
’’تلاش کرو اسے، وہ بہت دکھی انسان ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ اکرام کو رات کا واقعہ سنانے کا خیال یکسر ذہن سے نکل گیا تھا۔ ہم باہر آگئے۔ پوری خانقاہ میں نادر حسین کو تلاش کیا، وہ نہ ملا۔ تب مجھے اس ٹیلے کا خیال آیا اور اکرام کو ساتھ لے کر میں اس ٹیلے کی طرف چل پڑا۔ نادر حسین وہاں بھی نہیں ملا تھا۔ میں نے یہاں آکر اکرام کو گزری رات کا واقعہ بتایا اور وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ وہ تعجب سے بولا۔
’’تم جانتے ہو میں جھوٹ نہیں بولتا۔‘‘
’’میرا یہ مطلب نہیں بھیا۔ میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ دیوانگی دوسری بات ہے مگر آنکھوں کا بدل جانا۔ مسعود بھائی میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں کوئی اور معاملہ نہ ہو۔‘‘
’’اور معاملہ…‘‘
’’یہ خانقاہ مصنوعی ہے اور یہاں کسی بزرگ کا دخل نہیں ہے۔ کوئی یہاں اثرانداز ہوسکتا ہے، ہمیں نگاہ رکھنی پڑے گی، خاص طور سے یہ دیکھنا پڑے گا کہ نادر حسین کی کیا کیفیت ہے۔‘‘
میں اکرام کا اشارہ سمجھ گیا تھا لیکن نہ جانے دل اس سے اتفاق کیوں نہیں کررہا تھا۔ نادر حسین کہیں بھی نہیں ملا اور ہم واپس آگئے۔ آج عرضیاں لکھنے کا دن تھا۔ حسب معمول اس کام پر بیٹھ گئے۔ یہ بھی باقاعدہ کام ہوتا تھا۔ حاجت مند انہی روایات کے ساتھ آتے تھے اور سورج ڈھلے خانقاہ خالی ہوجاتی تھی۔ ہم نے ان روایات کی تردید نہیں کی تھی اور انہی پر عمل کررہے تھے۔ خانقاہ خالی ہوچکی تھی۔ اکرام تمام عرضیاں ترتیب دے چکا تھا۔ کوئی آٹھ بجے ہوں گے کہ اچانک شامی بدحواس ہمارے پاس دوڑا چلا آیا۔ اس کی کیفیت بے حد خراب تھی۔ سفید دھونکنی بنا ہوا تھا، چہرہ سرخ ہورہا تھا، بات منہ سے نہیں نکل رہی تھی۔
’’مم… مسعود بھائی… مسعود بھائی۔‘‘
’’کیا ہوا… کیا بات ہے شامی؟‘‘ میں نے گھبرا کر پوچھا۔
’’بڑا بابا… بڑا بابا قتل کردیا گیا۔ کسی نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اس کی لاش… اس کی لاش قبر پر پڑی ہوئی ہے۔ سر الگ کردیا گیا ہے، ہاتھ پائوں الگ الگ پڑے ہوئے ہیں۔ ساری قبر خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بڑا بابا مار دیا گیا مسعود بھائی… بڑا بابا مار دیا گیا۔ میں چراغ جلانے گیا تھا تو میں نے… میں نے۔‘‘ شامی کی آواز رندھ گئی۔ میرے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ اکرام بھی سکتے میں رہ گیا تھا۔ بمشکل تمام میں نے شامی سے کہا۔
’’آئو…‘‘ ہم تینوں لڑکھڑاتے قدموں سے خانقاہ کے اس حصے کی طرف بڑھ گئے جہاں قبر تھی۔
باہر کا ماحول سُنسان تھا۔ بیرونی لوگ تو سرشام چلے جاتے تھے، خانقاہ کے باسی بھی اپنی کمین گاہوں میں گھس جاتے تھے۔ یہ لوگ اب کیا کرتے ہیں، اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں لیکن سنا یہ گیا تھا کہ زیادہ تر لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں۔ باقی ان کے معمولات کیا ہیں، یہ تفصیل سے نہیں معلوم ہو سکا تھا۔
ہم تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے خانقاہ کے دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔ چراغ جل رہا تھا۔ اس کی پیلی روشنی میں نادر حسین عرف بڑے بابا ایک دیوار کی طرف پشت کئے دو زانو بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا بدن ساکت تھا اور ہمارے قدموں کی آہٹ پر بھی اس کے اندر کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی۔ میں نے حیران نظروں سے شامی کو دیکھا، جو کچھ اس نے کہا تھا وہ تو نہیں تھا مگر شامی کی آنکھیں حیرت سے چڑھی ہوئی تھیں۔ وہ چکرا رہا تھا۔ اکرام بھی تعجب سے اسے دیکھ رہا تھا۔ شامی نے بمشکل کہا۔
’’خدا کی قسم۔‘‘ میں نے جھوٹ نہیں بولا۔
’’کیا مطلب۔ گویا اب بھی…‘‘ میں نے کہا۔
’’میں اندھا تو نہیں ہوں۔ میں نے خود دیکھا تھا۔ ارے میرے مالک… خون … بھی نہیں ہے مگر اس وقت، گردن یہاں پڑی تھی۔ ہاتھ وہاں اور پائوں… اور دھڑ… قسم کھا رہا ہوں مگر… بڑا بابا، بڑا بابا…‘‘ میں اندھادھند آگے بڑھا اور نادر حسین کے قریب پہنچ گیا۔ بڑے بابا تم ٹھیک ہو… وہ نادرحسین کے سامنے پہنچ گیا، پھر اس کے منہ سے چیخ نکل گئی اور وہ اُچھل کر ہم پر آ رہا۔ اکرام نے اسے گرنے سے بچایا تھا۔ ’’آنکھیں، آنکھیں۔ اوہو، ہو، ہو… آنکھیں، ہو ہو ہو۔‘‘ شامی کا بدن کانپنے لگا۔ وہ جھومنے لگا تھا۔ ایک بار پھر اکرام کو ہی اسے سنبھالنا پڑا تھا۔ وہ آنکھیں آنکھیں بڑبڑاتا ہوا بے ہوش گیا تھا۔ ہم دونوں پریشان ہو گئے۔
’’اب کیا کروں۔‘‘ اکرام نے پریشان لہجے میں پوچھا۔ میں آگے بڑھ کر اکرام کے پاس پہنچا اور شامی کو سنبھال لیا۔ ’’باہر لے چلو…‘‘ میں نے کہا۔
’’اور وہ، وہ…‘‘ اکرام نے نادر حسین کے بارے میں کہا۔
’’اسے فی الحال چھوڑو۔ آئو…!‘‘ میں نے شامی کو سنبھال کر دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ہم دونوں باہر آ گئے۔ کچھ دُور چل کر شامی کو پتھر کی سِل پر لٹا دیا گیا۔ اس میں ہوش کے آثار نظر آ رہے تھے۔ چند لمحات کے بعد اس نے آنکھیں کھول دیں۔ کچھ دیر ہر احساس سے عاری رہا۔ پھر چونک پڑا، ہمیں دیکھا اور اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اِدھر اُدھر نظریں دوڑا کر اس نے ماحول کا جائزہ لیا۔ پھر بولا۔
’’خدا کی قسم میں نے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ میں ہوش و حواس میں تھا۔ لاش خون میں ڈُوبی ہوئی تھی اور بڑے بابا کے اعضا الگ الگ پڑے ہوئے تھے۔ میں تو دہشت کھا کر بھاگا تھا۔ مگر بعد میں… اور پھر… پھر مسعود بھائی خُدا کی قسم میں نے بڑے بابا کی آنکھیں دیکھیں۔ اُف میرے خدا کیسی بھیانک آنکھیں تھیں۔ ان میں پُتلیوں کا کوئی نشان نہیں تھا۔ بس سفید سفید ڈھیلے، چمکتے ہوئے، ویران ویران…!‘‘ شامی نے جھرجھری لے کر کہا۔
’’اسے اس کے حال پر چھوڑ دو شامی۔‘‘
’’مگر یہ کیا ہو رہا ہے، کچھ سمجھ میں تو آئے۔ اب آپ سے کوئی بات چھپی نہیں ہے مسعود
بھائی۔ یہاں جو کچھ ہوتا ہے آپ کو معلوم ہے۔ بڑے بابا میں ایک دم تبدیلیاں آئی ہیں۔ پہلے اس نے نماز شروع کی پھر تہجد پڑھنے لگا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بیشتر دیکھا۔ اس نے سونا چھوڑ دیا۔ راتوں کو نماز پڑھ رہا تھا۔ نماز نہیں پڑھ رہا تو چاند پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ دن میں دُوسروں سے چھپ چھپ کر یہ عمل کرتا ہے۔ اس کا رنگ کالا پڑ گیا ہے، صحت بھی خراب ہو رہی ہے، نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور اب… میرا خیال ہے مسعود بھائی، میرا خیال ہے…!‘‘ شامی رُک گیا۔
’’ہاں کیا خیال ہے تمہارا شامی…‘‘
’’اس پر اثرات ہوگئے ہیں۔ کسی جن کا سایہ یا کسی اور ارواح…‘‘
’’پھر بولو کیا کریں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں تو بہت چھوٹی عقل کا آدمی ہوں مسعود بھائی۔ بس دُعا کر سکتا ہوں اس کے لئے اور اب تو مجھے اس کے سامنے جاتے ہوئے بھی خوف آئے گا۔‘‘
’’اللہ مالک ہے شامی۔ میرے خیال میں اسے پریشان نہ کیا جائے۔ دیکھو اللہ کی کیا مرضی ہے۔ جائو آرام کرو۔ اب اس کی ٹوہ میں نہ رہنا۔ اسے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔‘‘
شامی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اپنی جگہ سے اُٹھا اور لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ میں اور اکرام خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر کےبعد اکرام نے کہا۔
’’اسے اتنی بڑی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔‘‘
’’اللہ بہتر جانتا ہے، آئو چلیں۔‘‘ میں نے کہا۔ اکرام سمجھ گیا کہ میں اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ آرام گاہ پہنچ کر بھی اس نے اس سلسلے میں مزید کچھ نہیں کہا مگر میں اب مطمئن نہیں تھا۔ کچھ معلوم ہونا چاہیے مجھے اس بارے میں۔ میری رہنمائی تو مجھے بخش دی گئی تھی درود پاک کا ورد کیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ دل میں یہ خواہش کی کہ مجھے نادر حسین کی کیفیت کے بارے میں علم ہو جائے۔ رات بھر کوشش کرتا رہا لیکن دماغ سادہ رہا۔ روشنی کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو اُٹھ گیا۔ اب کوئی تردّد نہیں تھا۔ میرا ان حالات سے لاعلم رہنا مناسب تھا۔ اس سے یہی احساس ہوا تھا، اور اب مجھ پر لازم تھا کہ ان معاملات کی کرید نہ کروں۔ جو کام مجھے سونپا گیا ہے، خاموشی سے اسے سرانجام دوں۔ حالانکہ بہت مشکل مرحلہ تھا لیکن اب جو کچھ بھی تھا، معمولات سے فراغت کے بعد عرضیوں کے حل دریافت کرنے بیٹھ گیا۔ یہ سلسلہ اسی انداز میں چل رہا تھا۔ اس میں تبدیلی کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ ہاں جو تبدیلیاں ہو گئی تھیں وہ دل خوش کن تھیں۔ مثلاً اب لوگوں کو فریب دے کر ان کی جیبیں نہیں خالی کرائی جاتی تھیں۔ کوئی اپنی خوشی سے کچھ لے آتا تو مال خانے میں جمع کر لیا جاتا، یہاں جو لوگ موجود تھے ان کی ضرورتیں بھی تھیں۔ اس کے علاوہ سنتو خان کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس کے گروہ کے جو افراد تھے، وہ عبادتِ الہٰی میں مصروف نظر آتے تھے۔ ان میں کچھ ایسے تھے جن کے گھر بار مختلف بستیوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ ان کی ضرورتیں بے شک پوری ہوتی تھیں لیکن اس کے لئے مال خانہ بہت وسیع تھا۔
شامی پورے دن نظر نہیں آیا۔ دُوسرے اور تیسرے دن بھی وہ نہ نظر آیا تو میں نے ایک دُوسرے آدمی سے پوچھا۔ ’’شامی کہاں ہے؟‘‘
’’بیمار ہے۔‘‘
’’ارے کیا ہوگیا؟‘‘
’’چوتھا دن ہے۔ بخار سے پھنک رہا ہے۔ بستی کے ڈاکٹر صاحب سے روز دوا آ رہی ہے مگر اسے تو سرسام ہوگیا ہے۔‘‘
’’مجھے بتایا بھی نہیں کسی نے۔ بڑا بابا کہاں ہے؟‘‘
’’وہ بھی بالکل غائب ہے۔ چار دن سے نظر نہیں آیا۔‘‘
میں حیران رہ گیا تھا۔ شامی کا بخار تو سمجھ میں آ گیا۔ اس کے دِل پر دہشت بیٹھ گئی تھی۔ مگر یہ نادر حسین کہاں غائب ہوگیا۔ شامی کو دیکھنے چل پڑا۔ لاغر ہو گیا تھا۔ چہرہ سرخ تھا۔ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ پانی دَم کر کے پلایا۔ آیاتِ الہٰی پڑھ کر پھونکیں۔ تسلیاں دیں اور پُرسکون رہنے کی تلقین کر کے واپس آ گیا۔ دُوسرے دن اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ شامی دو ایک دن میں بالکل تندرست ہوگیا۔ پھر اس نے کہا۔
’’بڑے بابا کا کوئی پتہ نہیں ہے مسعود بھائی۔‘‘
’’ہاں، نظر نہیں آیا۔‘‘
’’آپ اجازت دیں تو اسے تلاش کروں؟‘‘
’’تمہاری خوشی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ شامی چلا گیا۔ میرے معمولات اطمینان بخش تھے۔ خلق اللہ کو فائدے پہنچ رہے تھے۔ دُکھی دِل والے اپنے مسائل لے کر آتے۔ میں حسب توفیق مخصوص انداز میں انہیں مشورے دیتا اور اللہ کے فضل سے انہیں فائدے پہنچے۔ اب بھورے شاہ کی اس خانقاہ کا شہرہ دُور دُور تک پھیل گیا تھا۔ آنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ چار پانچ دن مزید گزر گئے۔ پھر ایک شام سورج ڈھلے شامی نادر حسین کو تلاش کر کے لے آیا۔ مجھے اطلاع ملی تو میں اس سے ملنے چل پڑا لیکن نادر حسین کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ لباس نام کی کوئی شے نہیں تھی اس کے بدن پر، سر کے بالوں میں کیچڑ اَٹی ہوئی تھی۔ داہنے رُخسار پر زخم کا نشان تھا۔ آنکھوں میں نیم غنودگی کی سی کیفیت تھی۔ اس کے جسم کو رسیوں کے ذریعے ایک چٹان سے کس دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اسے دیکھ کر رو رہے تھے۔
’’ارے۔ یہ کیا؟‘‘
’’بڑا بابا، پاگل ہوگیا مسعود بھائی۔ بڑا بابا پاگل ہوگیا۔‘‘
’’مجھے راجن پور کے بازار میں ملا، بچّے پتھر مار رہے تھے اور یہ دونوں ہاتھ سر پر رکھے بیٹھا تھا۔ کپڑے بھی نہیں تھے اس کے بدن پر، ہم بڑی مشکل سے اسے باندھ کر لائے ہیں۔‘‘ وہ لوگ مجھے بتانے لگے۔ میں خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کچھ نہیں جانتا تھا میں اس کے بارے میں اور شاید جستجو کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔
’’اب کیا کریں مسعود بھائی؟‘‘ شامی نے پوچھا۔
’’میری سمجھ میں خود نہیں آ رہا۔ جیسا تم مناسب سمجھو۔‘‘ میں نے بے بسی سے کہا۔
’’اگر ہم نے اسے باندھے نہ رکھا تو یہ پھر بھاگ جائے گا۔ بڑی مشکل سے ملا ہے۔ کوئی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے اسے۔‘‘ ایک اور شخص نے کہا۔ وہ سب اس کے لئے مضطرب تھے۔ افسردہ تھے، رو رہے تھے۔ شامی نے کہا۔
’’میں معلومات کروں گا۔ ہم بڑے بابا کا علاج کرائیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ اس وقت تک ہمیں اس کی دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ تم سب اپنی رائے دو۔ میں اکیلا ہی بولے جا رہا ہوں۔‘‘
’’تم جو کچھ کہہ رہے ہو، ٹھیک کہہ رہے ہو شامی۔ ہم سب اس کی نگرانی کریں گے۔ اس کی خدمت کریں گے۔ جس طرح بھی بن پڑا اس کا علاج کریں گے۔‘‘ ان لوگوں نے خود ہی سارے معاملات طے کر لئے۔ میں نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ ہم وہاں سے چلے آئے۔ رہائش گاہ میں آ کر اکرام نے کہا۔
’’مسعود بھائی۔ ایک بات بار بار ذہن میں آ رہی ہے۔ اجازت ہو تو پوچھ لوں۔‘‘
’’کہو…‘‘
’’آپ اس سے کچھ غیرفطری بے اعتنائی برت رہے ہیں۔ حالانکہ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ آپ ہر شخص کے لئے مضطرب ہو جاتے ہیں اور اس کی مشکل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ پھر نادر حسین تو وہ ہے جس نے آپ کے حکم پر اپنے سارے بُرے کام چھوڑ دیئے۔ وہ سنتو خان کے نام سے ڈاکے ڈالتا تھا، بھورے شاہ کے نام سے…‘‘ اکرام نے جملہ اَدھورا چھوڑ دیا۔ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’بارہا میں نے تمہیں بتایا ہے اکرام۔ میں نہ درویش ہوں، نہ عامل نہ ولی۔ ایک گناہ گار ہوں۔ اتنا بے بس ہوں کہ خود اپنے درد کا درماں نہیں پاسکا۔ بس رہنمائی ہو جاتی ہے۔ سمجھا دیا جاتا ہے اور میں باعمل ہو جاتا ہوں۔ اس بارے میں کچھ سمجھایا نہیں گیا۔ میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
’’معافی چاہتا ہوں مسعود بھائی۔‘‘ اکرام نے شاید میرے لہجے کی تلخی محسوس کر لی تھی۔
نادر حسین کو روز ہی دیکھنے جاتا تھا۔ وہ رسیوں سے بندھا رہتا تھا، بہت کم کھاتا پیتا تھا۔ شامی واقعی اسے بہت چاہتا تھا، وہی اس کے لئے سب سے زیادہ مرتا تھا۔ اس کی گندگی صاف کرتا، چہرہ دُھلاتا، دو تین بار اس نے اسے لباس پہنایا مگر وہ ہمیشہ لباس پھاڑ دیا کرتا تھا۔ اس دوران خانقاہ کے معاملات بدستور چل رہے تھے۔ میں نے یہ شعبہ سنبھالا ہوا تھا اور اپنا کام سرانجام دے رہا تھا۔ کچھ لوگ جو سنتو خان کے ساتھی تھے، خاموشی سے چلے گئے تھے کیونکہ اب یہاں رہنے میں انہیں مالی فائدہ نہیں تھا۔ لیکن خانقاہ کی شہرت مسلسل بڑھ رہی تھی۔ بہت دُور دُور سے لوگ آنے لگے تھے۔ تقریباً سب ہی کو فائدہ پہنچ جاتا تھا۔ رنج و غم اور مشکلات سے نڈھال انسان اپنی مشکل کا حل چاہتے تو احترام و عقیدت میں ڈُوبے ہوئے آتے، تحفے تحائف اور نذرانے لاتے، انہی سے خانقاہ کی ضرورتیں پوری ہوتیں۔ پھر ایک دن شیخ مغیث الدین آئے، پریشان حال۔ برے احوال، اپنی بیوی اور والد کو ساتھ لائے تھے۔ بیوی دماغی مریضہ تھی، اس کی وجہ سے سخت پریشان تھے۔ خانقاہ کے خصوصی نظام پر ان کی آواز سنائی دی۔
’’یاولی، یا بزرگ، میری مشکل دُور کر دیں۔ بہت پریشان ہو چکا ہوں۔ زندگی عذاب ہوگئی ہے میری۔ بے بسی کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔ میری بیوی دماغی مریضہ ہوگئی ہے۔ نظام حیات درہم برہم ہوگیا ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں علاج کر چکا ہوں، کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ آپ کے قدموں میں حاضر ہوا ہوں۔ مجھے میری مشکل کا حل بتا دیں ولی۔ آپ کے قدموں میں پڑا رہوں گا۔ اس وقت تک نہ جائوں گا جب تک مشکل دُور نہیں ہو جائے گی۔‘‘
بڑی پُردرد آواز تھی۔ میں نے عرضی لکھ لی۔ پھر شاید کسی دُوسرے شخص کو بلا لیا گیا تھا۔ اسی رات شامی میرے پاس آیا۔ کہنے لگا۔ ’’ایک مشورہ چاہتا ہوں مسعود بھائی۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’خانقاہ کے انداز بدل چکے ہیں۔ اب یہاں وہ نہیں ہوتا جو کبھی ہوتا تھا۔ ہم تو دُوسری ہی وجہ سے لوگوں کو یہاں سے دُور رکھتے تھے۔ پریشان حال لوگ دُور دُور سے آتے ہیں۔ اپنی مشکل کا حل چاہتے ہیں۔ ان کے پاس قیام کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ اگر اب انہیں خانقاہ کے احاطے میں پڑا رہنے کی اجازت دے دی جائے تو کیا حرج ہے۔ دراصل یہ بات میں ایک خاندان کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘
’’ان کا نام شیخ مغیث الدین ہے۔ بوڑھے باپ اور پاگل بیوی کے ساتھ آئے ہیں۔ بہت دُور سے آئے ہیں اور قیام کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، خانقاہ میں قیام کی اجازت مانگی تو ہم نے منع کر دیا۔ بے چارے خانقاہ سے دُور ایک درخت کے نیچے جا پڑے ہیں۔ کہتے ہیں مجبوری ہے، کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ان کا…‘‘
’’ایسی کسی مشکل کے شکار شخص کو اگر اجازت دے دو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ کسی گوشے میں پڑے رہیں گے۔‘‘
’’آپ کی اجازت ہے؟‘‘
’’میرے خیال میں تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ شامی چلا گیا۔ رات کے کھانے کے بعد میں اور اکرام ٹہلنے نکلے تو ہم نے تین افراد پر مشتمل اس خاندان کو ایک گوشے میں فروکش پایا۔ یونہی دریافت حال کے لئے ہم دونوں ان کی طرف بڑھ گئے۔ ہمارے قریب پہنچنے سے قبل شیخ صاحب اُٹھ کر ہمارے قریب آ گئے اور عاجزی سے بولے۔ ’’میاں صاحب تھوڑا سا پانی عنایت ہو سکتا ہے۔ اشد ضرورت ہے ورنہ تکلیف نہ دیتا۔‘‘
’’کیوں نہیں۔ برتن ہے آپ کے پاس۔‘‘
’’جی ہاں، مجھے جگہ بتا دیجئے۔ میں لے آئوں گا۔‘‘
’’آپ برتن دے دیں۔‘‘ میں نے کہا اور پھر اکرام کو پانی لینے کے لئے بھیج دیا۔
’’اگر ضرورت ہو تو کچھ دیر تشریف رکھئے۔ بڑا بے بس انسان ہوں میں، دل میں شدید گھٹن ہے۔‘‘ شیخ صاحب نے کہا۔ میں بیٹھ گیا۔
’’آپ کی اہلیہ کو شاید کچھ تکلیف ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’جی ہاں۔ دورے پڑتے ہیں۔ کیا کیا علاج نہ کرا لیا۔ مگر اس کا علاج ڈاکٹروں کے پاس نہیں ہے۔ اس درگاہ کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ شاید یہیں سے ہمیں شفا مل جائے۔‘‘
’’ان دوروں کی کچھ نوعیت پتہ چل سکتی ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’نوعیت…‘‘ شیخ صاحب کے لہجے میں کچھ گھبراہٹ پیدا ہوگئی۔ اسی وقت پیچھے سے آواز سنائی دی۔
’’سن۔ اگر کچھ بتانا ہے کہ تو سچ سچ بتائیو۔ ورنہ زبان بند رکھیو۔ جھوٹ بولے گا تو اور مصیبت میں پڑ جائے گا۔‘‘ ساری دُنیا کے سامنے جھوٹ بول کر تو گزارہ کر لیا تو نے، اب یہاں بابا کے دربار میں جھوٹ مت بولیو۔ نہیں تو زبان بند رکھ…‘‘
’’یہ کون صاحب ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میرے والد ہیں مگر ٹھیک کہہ رہے ہیں میاں صاحب۔ ہم نے گناہ کیا ہے۔ سزا تو کاٹنی ہی ہوگی۔‘‘ شیخ صاحب ٹھنڈی سانس لے کر بولے۔ اسی وقت اکرام پانی لے آیا جسے شیخ صاحب کے والد نے لے لیا۔ شیخ صاحب بولے۔ ’’پہلا گناہ گار تو میں ہی ہوں۔ میں نے بے لوث محبت کرنے والوں کی محبت کو ٹھکرا دیا بچپن میں میری والدہ مر گئی تھیں۔ والد صاحب نے مجھے میرے ننھیال سے دُور کرلیا، بارہ سال کے بعد مجھے اپنے ننھیالی خاندان کا پتہ چلا تو میں ان سے ملا۔ محبت کرنے والی بوڑھی نانی، ماموں اور خالہ نے مجھےسینے سے لگا لیا۔ مجھے اپنی اولاد کی طرح چاہا۔ ماموں نے مجھے بیٹوں کی طرح سمجھا۔ نانی نے اپنی اولاد کی نشانی سمجھ کر اپنی چھاتی کھول دی۔ گیارہ سال تک میں ان کے ساتھ رہا اور میریے ماموں زاد بہن بھائی، نانی اور تمام لوگ مجھے اپنا سمجھتے رہے۔ پھر انہوں نے میری شادی کر دی۔ بیوی نے مجھے زندگی کا نیا دور دیا اور سب سے پہلے میں ان پیار کرنے والوں سے دُور ہوگیا۔ میں نے ان سے اجتناب برتا اور انہیں اپنی محبت سے بے دخل کر دیا۔ میں ان سے بس ایک شناسا کی طرح ملنے لگا۔ اپنی بیوی اور اس کے خاندان کو ہی میں نے اپنا سمجھ لیا اور وہ جو میری ماں کی نشانی تھے، دل مسوس کر رہ گئے۔ شاید اسی عمل کا ردّعمل تھا کہ قدرت نے مجھے اولاد سے محروم رکھا۔ بوڑھی نانی میرے لئے اجنبی کی حیثیت رکھتی تھی۔ مجھے کسی سے اُلفت نہ رہی۔ اولاد کی محرومی میرے اور میری بیوی کے لئے بڑا دُکھ تھی۔ علاج معالجے ہوئے، ہر طرح کےجتن ہوئے مگر ہمارے ہاں اولاد نہیں ہوئی۔ پھر ہماری ملاقات کچھ ایسے لوگوں سے ہوئی جو گندے علوم سے واقفیت رکھتے تھے۔ میری بیوی نے ان سے رابطہ قائم کر لیا اور اولاد کےحصول کے لئے کالے جادو کا سہارا لیا۔ کالے جادو کے ایک ماہر نے اسے بتایا کہ اولاد حاصل کرنے کے لئے اسے ایک جان کی قربانی دینی ہوگی۔ ایک گیارہ سالہ بچہ درکار ہوگا جسے قتل کر کے اس پر کالاعلم کرنا ہوگا۔ اس جادوگر نے بچّے حصول کا ذریعہ بتاتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ ایسے کام کرتے ہیں انہیں معاوضہ دے کر کسی بچّے کو اغوا کرایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ میری بیوی نے یہ کام اس شخص کو سونپ دیا اور اغوا کرنے والوں کا معاوضہ ادا کر دیا۔ کچھ عرصے کے بعد کالے علم کے ماہر نے اسے انسانی گوشت کے کچھ ٹکڑے دے کر کہا کہ انہیں مٹی کی ہانڈی چڑھا کر چولہے پر پکاتی رہے اور جب یہ ہانڈی میں راکھ کی شکل اختیار کر جائیں تو ایک مخصوص طریقے سے وہ اس راکھ کو استعمال کرے۔ میری بیوی کالے علم کے اس ماہر کی ہدایات پر عمل کرتی رہی اور پھر… پھر ہم ایک بیٹے کے ماں باپ بن گئے۔ ہماری خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ بچّے کی خوشی میں ہم دیوانے ہوگئے تھے۔ ہم اس کی صورت دیکھ کر جیتے تھے۔ بچہ تین سال کا ہوگیا۔ وہ باتیں کرنے لگا تھا۔ لیکن… نہ جانے کیوں میری بیوی اب کچھ خوفزدہ سی رہنے لگی تھی۔ اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑنے لگا تھا۔ کبھی وہ راتوں کو جاگ جاتی تھی۔ وہ سہم سہم کر بچّے سے ہٹ جاتی تھی۔ اکثر وہ خوف بھری نظروں سے بچّے کو دیکھنے لگتی تھی۔ میں نے کئی بار یہ بات محسوس کی اور ایک دن اس سے پوچھ بیٹھا۔
’’تم کچھ عجیب سی نہیں ہوتی جا رہیں۔‘‘
’’کیسی؟‘‘ اس نے کہا۔
’’بظاہر بیمار نہیں ہو… لیکن رنگ پھیکا پڑ گیا ہے۔ چہرہ اُتر گیا ہے، کچھ عجیب سی کیفیت ہو رہی ہے تمہاری۔‘‘
’’کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
’’مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔‘‘
’’نہیں… کوئی بات ہی نہیں ہے۔‘‘
’’نہ بتائو وہ دُوسری بات ہے لیکن کچھ ہے ضرور۔‘‘
’’آپ سے کہوں گی تو آپ یقین نہیں کریں گے۔‘‘
’’کوشش کروں گا۔‘‘ میں نے کہا اور وہ کسی سوچ میں ڈوب گئی۔ پھر بولی۔ ’’آپ نے کبھی کوئی خاص بات محسوس کی ہے؟‘‘
’’کس سلسلے میں؟‘‘
’’اپنے بیٹے کے بارے میں۔‘‘
’’کیسی خاص بات؟‘‘
’’دُوسرے بچوں کو آپ دیکھتے ہیں۔ خاص طور سے اس عمر میں بچّے ماں باپ پر جان دیتے ہیں۔ ماں ان کی تمام محبتوں کا محور ہوتی ہے۔ وہ ماں کے سینے سے چمٹ کر سکون پاتے ہیں۔ ماں کی آغوش میں انہیں کائنات مل جاتی ہے لیکن ہمارا بچہ… ہمارا شانی۔‘‘
’’ہاں ۔ آگے کہو…‘‘
’’بات آج کی نہیں ہے۔ تین سال کا ہوگیا ہے وہ… مگر… وہ کبھی میرے سینے سے نہیں چمٹا۔ وہ مجھ سے گھبراتا ہے۔ اب غور کرتی ہوں تو یہ پورے تین سال میری آنکھوں میں گھوم جاتے ہیں۔ جھولے میں وہ پُرسکون رہتا تھا۔ میں گود میں لیتی تھی تو رونے لگتا تھا اور خاموش نہیں ہوتا تھا۔ ایسے تاثرات ہوتے تھے اس کے چہرے پر کہ میں بتا نہیں سکتی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے، مجھ سے اُلجھتا ہے۔ میری گود میں نہیں آنا چاہتا۔ مجھے احساس تو ہوتا تھا لیکن میں توجہ نہیں دیتی تھی۔ غور نہیں کرتی تھی۔ مگر اب۔ اب تو…‘‘ میری بیوی رونے لگی۔
’’عجیب بے وقوف عورت ہو۔ یہ کوئی عقل کی بات ہے۔‘‘ میں نے غصیلے لہجے میں کہا۔
’’آپ نہیں سمجھ سکتے۔ میری کیفیت نہیں سمجھ سکتے۔ رات کو وہ میرے پاس سوتا ہے مگر کبھی مجھ سے لپٹتا نہیں۔ میں اسے کہتی ہوں تو رونے لگتا ہے۔ مجھ سے دُور ہٹ جاتا ہے۔ ایک رات میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اسے محبت سے دیکھا مگر… مگر…‘‘
’’مگر کیا؟‘‘
’’وہ جاگ رہا تھا۔ مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نفرت کی چنگاریاں سُلگ رہی تھیں۔ وہ شدید نفرت سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسے آواز دی تو اس نے کروٹ بدل لی۔ اور اب اکثر ایسا ہوتا ہے میں راتوں کو اس سے ڈر جاتی ہوں۔‘‘
’’تمہارا دماغ خراب ہے۔ کیا پاگل پن کی باتیں کر رہی ہو۔ اپنے بچّے کے بارے میں تم ایسا سوچ رہی ہو۔‘‘
’’آہ۔ میں کیا کروں، اتنا خود کو سمجھاتی ہوں مگر نہ جانے کیوں یہ سب کچھ دماغ میں آتا رہتا ہے۔ آپ خود دیکھتے ہیں۔ وہ سب سے بولتا ہے، سب سے باتیں کرتا ہے مگر… ہم سے کتنا کم بولتا ہےوہ۔‘‘
’’بس اب اس پاگل پن کے خیال کو دل سے نکال دو۔ بارہ سال کے بعد ہماری مراد پوری ہوئی ہے اور تم…‘‘
وہ خاموش ہوگئی مگر میاں صاحب اس دن سے میں نے بھی اپنے بیٹے کی حرکات نوٹ کرنا شروع کر دیں۔ مجھے احساس ہوا کہ میری بیوی سچ کہتی ہے، شانی ایسا ہی تھا۔ وہ کسی بات پر ہنس رہا ہوتا تو ہمیں دیکھ کر خاموش ہو جاتا۔ وہ یقیناً ہمیں ناپسند کرتا تھا۔ بڑی عجیب بات تھی۔ ناقابل یقین، ناقابل سمجھ۔ اسے اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ وہ بظاہر نارمل تھا، بس ہمارے ساتھ اس کا رویہ ایسا تھا۔ پانچ سال کا ہوگیا وہ۔ میری بیوی بدستور اسی کیفیت کا شکار تھی۔ کوئی ایک سال پہلے کی بات ہے۔ میرے ایک دوست کی بہن کی شادی تھی۔ اندرون ملک کے ایک دیہی علاقے میں رہتے تھے اس کے والدین۔ میرا دوست شہر میں ملازمت کرتا ہے۔ اس نے بہت پیچھے پڑ کر مجھے اور میری بیوی کو بہن کی شادی میں شرکت کے لئے آمادہ کرلیا اور ہم وہاں پہنچ گئے۔ میں نے سوچا تھا کہ اچھا ہے میری بیوی بہل جائے گی۔ ہم وہاں جا کر خوش ہوئے تھے۔ ہمارا بیٹا بھی ہمارے ساتھ تھا۔ وہ وہاں بچوں میں گھل مل گیا تھا۔ شادی کے ہنگامے ہو رہے تھے ایک دن چودہ پندرہ سال کی ایک ہندو لڑکی میرے بیٹے کے ساتھ آ گئی۔ وہ اسے گھر چھوڑنے آئی تھی۔‘‘
’’یہ کون ہے؟‘‘ میں نے اپنے دوست سے پوچھا۔
’’جمناداس کی بیٹی ہے۔ جمنا داس پیچھے رہتے ہیں ہمارے۔‘‘ میرے دوست نے جواب دیا۔
’’بھگوتی ہمارے گھر تھا چاچا۔ آپ کہو تو ہم اسے ساتھ لے جاویں۔ رات کو پہنچا دیں گے۔‘‘ لڑکی نے کہا۔
’’کون بھگوتی؟‘‘ میرے دوست نے حیرت سے پوچھا۔
’’یہ… اور کون۔‘‘ لڑکی بولی۔
’’دماغ خراب ہے تمہارا۔ یہ تو میرا بھتیجا ہے، شانی ہے اس کا نام…‘‘
’’تو ہم کب منع کر رہے ہیں چاچا۔ لے جائیں اسے ساتھ…‘‘ لڑکی بولی۔
’’نہیں… جائو… بھاگ جائو۔‘‘ میرا دوست غصے سے بولا۔
’’جانے دو چاچا۔ ماسی سدھاوتی اسے دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ جانے دو نا۔‘‘ لڑکی ضد کرنے لگی۔
’’نہیں پریما۔ پھر آجائے گا۔ اب تم جائو… جائو شاباش… یہ مہمان ہے، یہاں کے راستے نہیں جانتا۔‘‘
’’مجھے سارے راستے آتے ہیں۔‘‘ شانی نے غصّے سے کہا۔
’’نہیں بیٹے ضد نہیں کرتے۔ جائو لڑکی۔ پھر آ جائے گا یہ تمہارے پاس۔‘‘ میں نے کہا اور لڑکی آزردہ ہو کر واپس چلی گئی۔
’’یہ کیا نام لے رہی تھی اس کا…‘‘ میں نے کہا۔
’’پتہ نہیں کیا قصہ ہے۔ میرے دوست کو گھر میں بلا لیا گیا اس لئے بات ختم ہوگئی۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ شانی کا بھی موڈ خراب ہوگیا ہے۔ اس نے کسی سے بات نہیں کی تھی۔ دُوسرا دن شادی کا تھا۔ میں بھی اپنے دوست کے ساتھ تیاریوں میں مصروف تھا۔ بارات آنے والی تھی۔ کوئی چار بجے شام میری بیوی باہر نکل آئی۔ اس نے کہا۔
’’شانی نے کھانا کھایا۔ صبح سے کھیلتا پھررہا ہے۔ کہاں ہے وہ؟‘‘
’’کیا…‘‘ میں اُچھل پڑا۔ میں نے خود اسے صبح سے نہیں دیکھا تھا۔ ’’کیا وہ اندر نہیں ہے؟‘‘
’’صبح سے اندر نہیں آیا۔‘‘
’’ٹھیک ہے آ جائے گا۔ ابھی آتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ حالانکہ میرا دل خود ہول گیا تھا۔ میں گھبرایا ہوا اپنے دوست کے پاس گیا اور اسے یہ ماجرا سنایا۔ وہ بے چارا خود شامیانے وغیرہ لگوا رہا تھا مگر فوراً میرے ساتھ بھاگا۔
’’فکر مت کرو۔ مل جائے گا۔ سب جانتے ہیں کہ وہ شادی میں آیا ہے، جو اسے دیکھے گا وہ اسے یہاں پہنچا دے گا۔ اوہ آئو ذرا میرے ساتھ، میرے دوست کو جیسے کچھ یاد آ گیا۔ وہ گھوم کر پچھلے علاقے میں آ گیا۔ ایک میدان سا تھا جس کے دُوسرے سرے پر مکانات نظر آ رہے تھے۔ ایک مکان کے سامنے رُک کر میرے دوست نے دروازے کی زنجیر بجائی اور ایک آدمی باہر نکل آیا۔۔‘‘
’’کیا بات ہے بھیّا۔ سب ٹھیک ہے نا… کوئی ضرورت ہے ہماری۔‘‘
’’بس تیار ہو جائیں جمناداس جی۔ بارات ٹھیک وقت پر آ جائے گی۔ وہ کوئی بچہ تو نہیں آیا یہاں۔ کل پریما کے ساتھ تھا۔‘‘
’’بھگ…‘‘ جمناداس کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔ میں اور میرا دوست چونک کر اسے دیکھنے لگے۔ وہ جلدی سے بولا۔ ’’پریما کے ساتھ تھا صبح سے۔ سدھاوتی کے پاس بیٹھا ہے۔ میں بلا کر لائوں۔ کس کا چھورا ہے وہ؟‘‘
’’میرا بھتیجا ہے۔‘‘
’’بھگوان کے کھیل نیارے ہوتے ہیں۔ ابھی بلا کر لاتا ہوں۔‘‘ جمناداس آگے بڑھ گیا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ جمناداس بھی شانی کا نام بھگوتی کہتے کہتے رُک گیا ہے۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ کوئی تین گھر چھوڑ کر وہ ایک بوسیدہ سے مکان میں داخل ہوگیا اور کوئی تیس سیکنڈ کے بعد ہی شانی کو ساتھ لئے باہر آ گیا۔ اس کے پیچھے پریما بھی تھی اور ان تینوں کے پیچھے ایک عورت باہر نکلی تھی۔ میلی کچیلی ساڑھی میں ملبوس، بال بکھرے ہوئے، چہرے پر وحشت، رنگ پیلا پڑا ہوا۔ میں نے آگے بڑھ کر شانی کا کان پکڑ لیا۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے۔ تم صبح سے غائب ہو۔‘‘ شانی نے ایک نگاہ مجھے دیکھا۔ وہی نفرت بھرا انداز تھا اس کا، منہ سے کچھ نہیں بولا۔ میں اسے ساتھ لئے آگے بڑھا تو وہ دیوانی عورت بھی ہمارے پیچھے چل پڑی۔ جمناداس نے آگے بڑھ کر عورت کا بازو پکڑ لیا۔
’’نہ سدھو نہ، مہمان ہیں، جانے دے اپنے گھر جائیں گے۔‘‘
’’وہ … وہ…‘‘ میلی کچیلی عورت نے اُنگلی شانی کی طرف اُٹھاتے ہوئے کہا۔ اس کے انداز میں بڑی بے بسی، بڑا پیار، بڑی حسرت تھی۔ میں اپنے دوست کے ساتھ شانی کو لئے ہوئے وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میرا دوست بھی خاموش تھا اور میری سمجھ میں بھی کچھ نہیں آ رہا تھا۔ شانی کو میں نے اپنی بیوی کے پاس پہنچا دیا۔ وہ راستے بھر کچھ نہیں بولا تھا، نہ ضد کی تھی، نہ مچلا تھا لیکن اس کے انداز سے اس نفرت کا اظہار بدستور ہو رہا تھا جو اس کی فطرت کا ایک حصہ نظر آتی تھی۔ بارات کے ہنگامے تھے اور میں کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے یہاں کسی اور قسم کا احساس پیدا ہو۔ چنانچہ میں نے خاموشی ہی اختیار کئے رکھی۔ جہاں تک ہو سکا اپنے آپ کو بارات کے سلسلے میں ضروری کاموں میں مصروف رکھا، البتہ اپنی بیوی کو میں نے ہدایت کر دی کہ شانی کو اپنی نگرانی میں رکھے اور باہر نہ نکلنے دے لیکن میرا دماغ تجسس سے پھٹا جا رہا تھا۔ کوئی بات جو سمجھ میں آ رہی ہو… بالآخر بارات آ گئی۔ نکاح کا وقت قریب آ گیا۔ یہ لوگ یہاں کے قدیم رہنے والے تھے، ہندو اور مسلمان سب ہی ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شامل ہوتے تھے۔ میں نے جمناداس کو دیکھا، دھوتی اور کرتے میں ملبوس محفل میں موجود تھا اور مہمانوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ دفعتاً ہی میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ جمناداس سے اس بارے میں بات کی جائے، خاموشی سے معلومات حاصل کروں، ہو سکتا ہے کچھ پتہ چل جائے۔ کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ سارے کام خوش اسلوبی سے چل رہے تھے۔ چنانچہ میں جمناداس کے پاس جا بیٹھا۔ وہ مجھے پہچان گیا تھا۔ میں نے اس سے کہا۔
’’اس وقت تو آپ سے بات ہی نہ ہو سکی جمناداس جی۔ میرے دوست نے بتایا ہے کہ آپ تو ان لوگوں کے بڑے پرانے پڑوسی ہیں۔‘‘
’’ہاں بھیّا جی… جیون مرن ساتھ ہی رہا ہے ہمارا۔ ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں شریک ہوتے رہے ہیں، بڑے اچھے لوگ ہیں یہ بھی اور پھر بیٹی کی شادی تو یوں سمجھو پوری بستی کی بیٹی کی شادی ہوتی ہے۔ ہمیں تو افسوس ہے کہ ہم نے اس شادی میں کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘
’’آپ جیسے اچھے لوگ بڑے خوش نصیبوں کو ملتے ہیں۔ سب لوگ تعریف کر رہے تھے آپ کی جمناداس جی۔‘‘
’’ارے بھیّا ہم کیا اور ہماری اوقات کیا، بس جو خود اچھے ہوتے ہیں وہ دُوسروں کو اچھا کہتے ہیں…‘‘
’’جمناداس جی، پریما آپ کی بیٹی ہے۔ میں نے یہاں سے سلسلہ گفتگو کا آغاز کیا…‘‘
’’آپ ہی کی ہے بھیّا جی…‘‘
’’بڑی اچھی بچی ہے۔ میرا بیٹا تو اس سے بہت زیادہ مانوس ہو گیا ہے۔ ویسے جمنا داس جی میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ آپ نے میرے بیٹے کو بھگوتی کہہ کر کیسے پکارا…؟‘‘ یہ بڑی عجیب بات ہے میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا…‘‘
جمناداس نے عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پھر بے ڈھنگے انداز میں ہنسنے لگا…
’’وہ بھیّا جی بس ایک ذرا سا کھیل ہے بھگوان کا، کوئی کیا کر سکتا ہے؟‘‘
’’مجھے اس بارے میں بتائیں گے نہیں جمنا داس جی۔‘‘
’’ارے ہاں ہاں، کاہے ناں۔ وہ دراصل بھیّا جی تمہارا چھورا سدھاوتی کے چھورے بھگوتی داس کی شکل کا ہے، بالکل ویسا بے چاری سدھاوتی ودھوا تھی۔ برسوں سے یہاں رہتی ہے، اس کا پتی کارخانے میں کام کرتا تھا، بھٹی میں گر پڑا اور جیتے جی بھسم ہوگیا۔ ایک ہی چھورا تھا سدھاوتی کا جس کے ساتھ جیون بِتا رہی تھی، گھروں کے کام دھندے کر کے اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ پال رہی تھی کہ بے چاری کے ساتھ ایک عجیب و غریب حادثہ ہوگیا۔ ویسے بھی بھیّا جی بے چارہ بھگوتی داس ہماری بٹیا پریما کی عمر کا تھا۔ ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے وہ اور پریما۔ اور پھر پڑوسی ہونے کے ناتے دونوں نے ساتھ ساتھ جیون شروع کیا اور دونوں ہی ایک دُوسرے سے بڑی محبت کرنے لگے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ بھگوتی داس کھیتوں پر گیا ہوا تھا کہ غائب ہوگیا۔ پھر بھیّا وہ ملا نہیں، بے چاری سدھاوتی پاگل ہوگئی اپنے چھورے کے غم میں۔ پولیس میں رپٹ درج کروائی، آدمیوں نے جگہ جگہ اسے تلاش کیا۔ پر بھگوتی داس کہیں نہیں ملا۔ کوئی پانچ چھ سال پرانی بات ہے، بس یوں سمجھ لو کہ اس کے بعد بے چارے بھگوتی کا کچھ پتہ ہی نہ چلا۔ یہ تمہارا چھورا جو ہے نا بھیّا، یہ بالکل بھگوتی کی صورت کا ہے، پریما ہی اسے دیکھ کر پاگل ہوگئی تھی اور بھگوتی بھگوتی کہتی چڑھ دوڑی تھی۔ مگر وہ بھگوتی کہاں، وہ پانچ سال کا ہوگا زیادہ سے زیادہ۔ جبکہ بھگوتی اگر ہوتا تو اب پندرہ سولہ سال کا ہوتا۔ گیارہ سال کی عمر میں غائب ہوا تھا بے چارہ بھگوتی۔ بھگوان جانے کون لے گیا اسے، کہاں چلا گیا۔ یہ ہے بھیّا تمہارے چھورا کو بھگوتی کہنے کی کہانی اور یہ ہے بے چاری سدھاوتی کے پاگل پن کی داستان۔‘‘ جمناداس نے بتایا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ ایک انوکھا خوف میرے رگ و پے میں جاگزین ہوگیا تھا۔ بارات کے ہنگامے جاری تھے۔ مگر میرا بدن ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے چھوڑ رہا تھا۔ پانچ چھ سال پہلے بھگوتی غائب ہوا تھا۔ کالے جادو کے ماہر نے ایک گیارہ سالہ بچّے کے اغوا کی کہانی سنائی تھی، جس کی قربانی دے کر ہمارے ہاں بچّے کی پیدائش ہو سکتی تھی۔ ہم نے اسے رقم ادا کی تھی اور اس نے ہمارا کام کر دیا تھا۔ شانی بھگوتی کی صورت تھا۔ پانچ سال کا ہے وہ۔ چھ سال پہلے بھگوتی اغوا ہوا تھا۔ خدا کی پناہ، خدا کی پناہ۔ واقعات کی کڑیاں ملتی جا رہی تھیں۔ وہ کالے جادو کا کھیل جس کی بناء پر شانی وجود میں آیا، اب اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ کالا جادو صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ ہمارےہاں اولاد پیدا ہو جائے، اس کے اثرات اب ہم پر نمودار ہو رہے تھے۔ شانی ہمارا اکلوتا بچہ، منتوں مرادوں سے پیدا ہونے والا بھگوتی کی شکل کا تھا۔ میرے خدا میرے خدا، میرا بدن شدید دہشت کا شکار تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ کیا بھگوتی کی رُوح شانی میں حلول کر گئی ہے یا شانی بھگوتی کا نیا رُوپ ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ سب کچھ میرا دل قبول نہیں کرتا تھا۔ لیکن جو کچھ تھا ہمارے سامنے تھا اور میں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تھا۔ غرض یہ کہ بارات رخصت ہوئی، مہمان چلے گئے، رسمی طور پر مجھے بھی وداعی میں حصہ لینا پڑا۔ دوست کی بہن کا معاملہ تھا، خود کو الگ کیسے رکھ سکتا تھا۔ دوسرے دن صبح ہی صبح میری بیوی نے واپس چلنے کی رَٹ لگا دی۔ حالانکہ میرا دوست ابھی یہاں کئی دن قیام کرنا چاہتا تھا۔ یہ وعدہ کر کے لایا تھا مجھے کہ میں کئی دن تک اس کے ساتھ رہوں گا۔ شادی کے بعد کے ہنگاموں میں بھی حصہ لوں گا۔ لیکن اب اس کی گنجائش کہاں رہ گئی تھی۔ میرا دل تو خوف و دہشت کا شکار تھا۔ ادھر میری بیوی بھی بری طرح واپس چلنے کی رَٹ لگائے ہوئے تھی۔ سب ہی نے اسے سمجھایا لیکن وہ نہ مانی اور بحالت مجبوری میرے دوست نے بھی اجازت دے دی۔ میں خود بھی وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا، جو کچھ مجھ پر بیت رہی تھی میرا دل ہی جانتا تھا، پھر ہم اپنے شہر واپس آ گئے۔ شانی ہمارے ساتھ تھا۔ میری بیوی تو اس سے خوفزدہ رہتی ہی تھی۔ لیکن اب میری بھی کیفیت اس سے مختلف نہیں تھی۔ میں چور نگاہوں سے شانی کو دیکھتا تو اس کے چہرے پر ایک عجیب سی گمبھیرتا، ایک عجیب سی نفرت رچی ہوئی پاتا جیسے وہ ہمارے عمل سے شدید نفرت کرتا ہو۔ پھر ایک دن وہاں سے واپسی کے کوئی ایک ہفتے کے بعد کی بات ہے، میری بیوی نے مجھ سے کہا۔
’’ایک بات کہنا چاہتی ہوں میں آپ سے؟‘‘
’’ہاں ہاں کہو۔ کیا بات ہے؟‘‘
’’وہاں۔ جہاں ہم شادی میں گئے تھے، میں نے ایک عجیب بات سنی ہے، آپ کو خدا کا واسطہ اس بات کو مذاق میں نہ ٹالئے۔ میری تو حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے، کچھ کیجئے، کچھ کرنا پڑے گا ہمیں، سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں؟‘‘
’’بات کیا ہے؟‘‘
’’وہاں شانی کے بارے میں تبصرے ہو رہے تھے۔ سدھاوتی نامی کوئی عورت رہتی ہے وہاں اس کا بچہ جس کی عمر گیارہ سال تھی، پانچ چھ سال پہلے وہاں سے اغوا ہوگیا تھا۔ اس کا نام بھگوتی تھا اور وہ۔ وہ بالکل شانی کی صورت تھا، بالکل شانی کی صورت۔‘‘ میں آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھتا رہ گیا۔ میرا خیال تھا یہ کہانی میرے ہی ذہن میں محفوظ ہے۔ لیکن عورتیں بھلا کہاں چوکتیں۔ اسے بھی یہ کہانی معلوم ہو چکی تھی۔ تاہم میں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’گویا اب تم ایک نئی کہانی کا سہارا لے کر مجھے پریشان کروگی۔‘‘ میری بیوی زار و قطار رونے لگی۔ اس نے کہا۔ ’’آپ مجھ سے پریشان ہو گئے ہیں؟‘‘
’’ہاں، ہو گیا ہوں بالکل ہوگیا ہوں۔ پہلے تمہیں بچّے کی خواہش نے دیوانہ کر دیا تھا اور تم سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوگئی تھیں اور اب اس نئی کہانی سے تم نہ صرف خود پاگل ہوئی جا رہی ہو بلکہ مجھے بھی پاگل کئے دے رہی ہو۔ مجھے بتائو میں کیا کروں، میں کیا کر سکتا ہوں، مجھے جواب دو۔‘‘
’’خدا کے لئے کچھ کیجئے، اس کالے جادو کے ماہر سے ملئے، اس سے کہئے کہ اب ہم کیا کریں اور یہ سب کیا ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے، ہم تو کالے جادو کے چکر میں پھنس گئے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے کالے جادو کے ماہر سے ملوں اور اس کے بعد کوئی نیا جادو کرا کے لے آئو۔ یہی چاہتی ہو نا تم؟‘‘
’’تو پھر کیا ہوگا، شانی ہم سے نفرت کرتا رہے گا ہمارا اکلوتا بچہ، اس کے سوا ہمارا کوئی اور ہے بھی تو نہیں لیکن لیکن، میری بیوی زار و قطار روتی رہی۔ میرے پاس ان آنسوئوں کا کوئی حل نہیں تھا۔
وقت آگے بڑھتا گیا۔ شانی کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اب وہ اپنی ماں کے پاس سوتا بھی نہیں تھا۔ اس کی بیزاری اس کی نفرت بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ ایک رات جب ہم اپنے بیڈروم میں سو رہے تھے تو اچانک میری بیوی دہشت بھرے انداز میں چیخ پڑی۔ اس کی بھیانک چیخوں سے مجھے بھی دہشت کا شکار کر دیا۔ شانی اپنے الگ بستر پر سو رہا تھا۔ ان چیخوں نے اسے نہیں جگایا تھا۔ بڑی مشکل سے میری بیوی معتدل ہوئی، خوف بھری نظروں سے شانی کو دیکھ رہی تھی۔‘‘
’’یہ جاگ رہا ہے۔ میں قسم کھاتی ہوں یہ جاگ رہا ہے۔ مکر کئے پڑا ہے۔ ابھی ابھی یہ میرے قریب تھا۔ مجھ پر جھکا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح سُرخ ہو رہی تھیں۔ یہ نفرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ یہ، یہ مجھے مارے گا۔ یہ مجھے قتل کر دے گا۔‘‘
’’دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔ بتائو کیا کروں میں۔ اسے گھر سے نکال دوں۔ اور کیا کروں۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ وہ میرا بچہ ہے۔ وہ میری اولاد ہے۔‘‘ میری بیوی سسکیاں بھرنے لگی۔
’’تو پھر میں کیا کروں۔‘‘ میں نے کہا۔ اور میاں صاحب مختصر یہ کہ میری بیوی آہستہ آہستہ ذہنی توازن کھونے لگی۔ اس پر دیوانگی کے دورے پڑنے لگے اور آج یہ اس حال کو پہنچ گئی ہے کہ یہ اپنے بیٹے کو چاہتی بھی ہے اور اس سے دہشت زدہ بھی ہے۔ نہ جانے کیا کیا جتن کئے ہیں میں نے ڈاکٹروں کے پاس، بھلا اس کا کیا علاج ہے۔ میں تو اتنا بدنصیب ہوں کہ کسی کو اصلیت بتا بھی نہیں سکتا۔ کس سے کہوں کہ ایک بچّے کو قتل کر کے، ایک ماں کی گود اُجاڑ کر ہم نے اپنی سُونی گود بھری ہے، اس خانقاہ کی شہرت میں نے سُنی ہے، بڑی دُور سے آس لے کر آیا ہوں۔ خدا کے لئے ہماری مشکل کا حل بتا دیں۔ خدا کے لئے؟‘‘
میں دہشت سے گنگ تھا۔ اکرام پتھر بنا ہوا بیٹھا تھا۔ بڑی بھیانک بڑی دہشت ناک داستان تھی یہ۔
’’بچہ کہاں ہے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نانی نانا کے پاس چھوڑ آیا ہوں۔‘‘
’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’شیخ مغیث الدین۔‘‘
’’سب سے پہلے اپنا نام بدل دو۔‘‘ میرے حلق سے غراہٹ نکلی اور وہ نہ سمجھنے والے انداز میں مجھے دیکھنے لگا۔
تن بدن میں آگ سی لگ رہی تھی۔ ساری برائیاں کرلی تھیں کم بختوں نے۔ اپنی ناپاک آرزو کے ہاتھوں نڈھال ہوکر ایمان بیچ دیا تھا اور پھر بہتری کے خواہاں تھے۔ شدید گھن آرہی تھی مجھے ان دونوں سے، وہ مشرک
تھے۔
وہ بولا۔ ’’سمجھا نہیں صاحب۔‘‘
’’تمہیں اس نام کو اپنائے رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ اسلامی نام ہے۔ متبرک اور قابل احترام۔‘‘
’’میں مسلمان ہوں۔‘‘ وہ بولا۔
’’شرم نہیں آتی یہ کہتے ہوئے۔ غور نہیں کیا اپنے کالے کرتوتوں پر۔ عورت تو ناقص العقل ہوتی ہے، تم لوگ اسے سنبھال نہیں سکتے۔ اس طرح کٹھ پتلی بن جاتے ہو تم اس کے ہاتھوں۔ اس کائنات کا ہر ذرّہ مالک کائنات کے اشارے سے جنبش کرتا ہے۔ تمہاری تقدیر میں اولاد ہوتی تو تمہیں ضرور ملتی۔ ہوسکتا ہے اس کا وقت مقرر کردیا گیا ہو۔ تم نے اپنی ہوس کے ہاتھوں مغلوب ہوکر اس مردود کا سہارا لیا جسے شیطان کہا جاتا ہے۔ تمہاری عقل نے تمہیں ہوشیار نہ کیا کہ تم شیطنت کی طرف بڑھ رہے ہو۔ تمہیں علم نہیں کہ جادو کفر ہے۔ اس شیطان زادے نے تم سے کہا کہ تمہیں اولاد کے حصول کیلئے ایک انسانی جان کی قربانی دینا ہوگی۔ اس کے بجائے کہ تم اسے سنگسار کردیتے، تم نے اسے اس عمل کا اختیار دیا۔ وہ شیطان زادی اپنی گود بھرنے کے لئے ایک اور ماں کی گود اجاڑنے پر آمادہ ہو گئی اور تم اس کے ہمنوا بنے۔ تم نے اپنی آنکھوں سے اس ماں کو دیکھ لیا جو اولاد کے کھو جانے سے اپنا دماغی توازن کھو بیٹھی۔ قدرت تمہارے کالے کرتوت تمہارے سامنے لائی مگر تم نے غور نہ کیا اور اب تم اس عورت کیلئے بہتری چاہتے ہو۔ خدا کی قسم تم بے دین ہو، تمہارا اس پاک مذہب سے کوئی تعلق نہیں رہا۔‘‘
’’رحم میاں صاحب رحم…‘‘ وہ بولا۔
’’تم مردود ہو، قابل سزا ہو لیکن جزا و سزا کا مالک وہ ہے جس کے ہم بندے ہیں۔ تمہارا فیصلہ وہی کرے گا۔ اب میں تم سے ایک درخواست کرتا ہوں۔‘‘
’’کیا میاں صاحب…؟‘‘
’’یہ جگہ فوراً چھوڑ دو، یہ غیر مسلموں کیلئے نہیں ہے۔ اس سے قبل کہ میں دوسروں کو اس پر آمادہ کروں، تم یہاں سے چلے جائو۔‘‘
’’میں تو بڑی آس لے کر آیا تھا میاں صاحب۔‘‘
’’تمہاری بینائی چھن چکی ہے۔ وہ جنہوں نے تمہیں بے لوث محبت دی، تمہیں تمہارے برے وقت میں اپنایا، تمہارے لئے کچھ نہ رہے اور وہ قابل نفرت عورت جس نے بالآخر تم سے تمہارا ایمان چھین لیا، تمہارے لئے آسمان ہوگئی۔ سنو اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اگر تمہیں لمحاتی عیش و عشرت مل گئے ہیں تو انہیں دھوکا جانو۔ آنے والا وقت تم پر کٹھن ہے۔ گیارہ سال پورے ہوجانے دو۔ وہی بچہ جس کیلئے تم نے ایمان کھویا، تمہاری موت کا سامان بنے گا۔ اسے تمہارے اعمال کی سزا کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ جائو اس سے زیادہ تمہارے ساتھ رعایت نہیں کی جائے گی۔‘‘
’’ہمارے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے میاں صاحب؟‘‘
’’خدا کی لعنت ہو تم پر۔‘‘ میں نے نفرت سے کہا۔
’’سنئے تو سہی میاں صاحب۔‘‘
’’جو کچھ سنا دیا ہے تو نے، اس سے زیادہ نہ سنا۔ تیرے حق میں بہتر ہے۔ اکرام انہیں یہاں سے نکال دو۔‘‘ میں ان کے پاس سے اٹھ کر واپس چل پڑا۔ اکرام نے انہیں وہاں نہ رہنے دیا۔ اسی وقت انہیں خانقاہ سے دور جانا پڑا تھا۔
مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ دل لرز رہا تھا اس کہانی پر… کیسے کیسے مردود انسان ہوتے ہیں اس دنیا میں… لاحول ولاقوۃ۔ اکرام میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ ہم دونوں خاموش تھے مگر یہ خاموشی قائم نہ رہ سکی۔ شامی نظر آیا تھا، اس کے ساتھ نادر حسین بھی تھا۔ لباس پہنے ہوئے نہایت بہتر حالت میں۔ ہم دونوں حیرت سے اچھل کر کھڑے ہوگئے۔
’’بڑا بابا ٹھیک ہوگیا مسعود بھائی! ہمارا بڑا بابا ٹھیک ہوگیا۔‘‘ شامی خوشی سے بولا۔
’’واقعی خوشی کی بات ہے۔ نادر حسین کیسے ہو تم؟‘‘
’’میں تو جیسا تھا، ویسا ہی ہوں بس تم لوگوں کی بینائی متاثر ہوگئی ہے۔‘‘ نادر حسین نے جواب دیا۔ میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اس کا لہجہ بدلا ہوا تھا تاہم میں نے اس پر تبصرہ نہیں کیا اور شامی سے بولا۔
’’چلو شامی! تمہاری محنت بار آور ہوئی۔ ہاں نادر حسین اب ہم یہاں سے جانا چاہتے ہیں۔ تم نے وعدہ کیا تھا کہ ایک مخصوص وقت گزارنے کے بعد ہمیں اجازت دے دو گے۔‘‘
’’مخصوص وقت گزرا کہاں ہے۔ جلد بازی کیوں کررہے ہو۔ ابھی نہیں… ابھی نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔ پھر شامی سے بولا۔ ’’جائو تم آرام کرو، آرام کا وقت ہے۔‘‘
’’جی بڑے بابا۔‘‘ شامی نے کہا۔ پھر مجھے ہلکا سا اشارہ کیا اور وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ باتیں تو ٹھیک کررہا ہے مگر میں اس کا خیال رکھوں۔ کہیں بھاگ نہ جائے۔ شامی چلا گیا مگر اس نے اور کوئی بات نہیں کی، خاموشی سے گردن جھکا کر بیٹھ گیا۔ مجھے خود ہی کہنا پڑا۔
’’شامی کو بھیج کر تم کوئی خاص بات کہنا چاہتے تھے؟‘‘
’’ہاں! رکو… ابھی یہاں رکو۔ کہیں سے بلاوا تو نہیں آیا ہے؟‘‘
’’کیسا بلاوا…؟‘‘ میں نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھ کر کہا۔
’’بلاوے الگ الگ ہوتے ہیں، کیا سمجھے۔ سارے بلاوے الگ الگ ہوتے ہیں۔ تمہارا کوئی بلاوا نہیں ہے، ابھی رکو، نہ جانے کسے کسے تمہاری ضرورت پڑے۔‘‘
میں خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔ نادر حسین کے بولنے کا یہ انداز نہیں تھا۔ وہ تو میرا بہت احترام کرتا تھا لیکن اس کا یہ انداز بالکل مختلف تھا۔ اس کے بعد اس نے بالکل خاموشی اختیار کرلی۔ وہ رخ بدل کر بیٹھ گیا تھا۔ اکرام نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔
’’آپ بیٹھیں گے مسعود بھائی؟‘‘
’’نہیں۔ چلو آرام کریں۔‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا حالانکہ شامی مجھے اشارہ کرکے گیا تھا لیکن میں رات بھر چوکیداری نہیں کرسکتا تھا۔ پھر اب وہ بہتر بھی نظر آرہا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنی آرام گاہ کا رخ کیا۔ اکرام نے بھی نادرحسین کے انداز کو محسوس کیا تھا۔ آرام گاہ میں آکر میں نے پُرخیال لہجے میں کہا۔ ’’اگر آپ کہیں مسعود بھائی تو میں شامی کو ہوشیار کر آئوں؟‘‘
’’کس سلسلے میں؟‘‘
’’یہی کہ ہم وہاں سے اٹھ گئے ہیں، اب وہ خود نادر حسین کا خیال رکھے۔ میرے خیال میں وہ ابھی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس کے بات کرنے کا انداز بتاتا ہے وہ آپ سے اس لہجے میں تو بات نہیں کرتا تھا۔‘‘ میں نے اکرام کی بات کا جواب نہیں دیا۔ چنانچہ اکرام بھی خاموش ہوگیا۔ ہم دونوں آرام کرنے لیٹ گئے تھے مگر نیند نہیں آرہی تھی۔ شیخ مغیث اور اس کی بیوی کا خیال بار بار آرہا تھا۔ دونوں بدبختوں سے مجھے شدید کراہت محسوس ہوئی تھی۔ یہ نہ معصومیت تھی، نہ لاپروائی۔ اتنا بڑا کام انہوں نے نہایت آسانی سے کر ڈالا تھا۔ کچھ تو سوچنا چاہئے تھا مگر اندازہ ہوتا تھا کہ شیخ مغیث پہلے ہی ایک بدانسان تھا، اس کے خون میں وفا نہیں تھی۔ وہ شقی القلب تھا ورنہ اپنے محسنوں کے احسان کو کبھی نہ بھولتا جنہوں نے اس کا مستقبل بنایا، انہیں اس نے تسلیم نہ کیا۔ باقی بات رہی اس کی بیوی کی تو یقیناً وہ بدکردار عورت تھی اور اس سے وفا ممکن نہیں تھی۔ جو کچھ میں نے شدید کراہت کے عالم میں کہا تھا، اس پر مجھے کوئی افسوس نہیں تھا۔
رات کافی گزر گئی۔ اکرام بھی کروٹیں بدل رہا تھا۔ میں نے اسے پکار لیا۔ ’’نیند نہیں آرہی؟‘‘
’’ہاں بھیا۔ باہر چلیں؟‘‘
’’میں خود یہی سوچ رہا تھا۔ باہر کھلی فضا ہوگی۔‘‘
ہم دونوں باہر نکل آئے۔ عبادت سے بہتر اور کیا مشغلہ ہوسکتا تھا۔ وضو کیا اور آگے بڑھ گئے۔ تبھی نادر حسین نظر آیا۔ جہاں چھوڑ گئے تھے، وہیں گردن جھکائے بیٹھا تھا۔ اسے مخاطب کرنے کو دل نہ چاہا۔ ہم اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئے۔ اس کی پشت ہماری طرف تھی۔ میں نے اس کی طرف سے ذہن ہٹا لیا اور آنکھیں بند کرلیں، پھر میں نے درود شریف کا ورد کیا۔ ابھی پہلی بار درود شریف ختم کیا تھا کہ دفعتاً نادر حسین کی آواز سنائی دی۔ وہ چیخ مار کر کھڑا ہوگیا۔ میں اور اکرام چونک کر اسے دیکھنے لگے۔
’’احمق ہو تم… دیوانے ہوگئے ہو، بالکل پاگل ہوگئے ہو۔‘‘ وہ بپھرے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’کیا ہوا نادر حسین؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’پاک کلمات کسی کی پشت پر نہیں پڑھے جاتے، آئندہ خیال رکھنا۔‘‘ اس نے کہا اور میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ میں کچھ بولا بھی نہیں تھا کہ اس نے کہا۔ ’’بلاوا آگیا ہے میرا۔ جب تک تمہارا بلاوا نہ آئے، یہاں سے نہ جانا۔ ایک حاجت مند کی حاجت روائی ضروری ہے۔ حق…‘‘ اس نے زور سے نعرہ لگایا اور اچانک اس کے لباس میں آگ لگ گئی۔ مجھے اور اکرام کو نہیں معلوم تھا کہ شامی کچھ لوگوں کے ساتھ خفیہ طور پر اس کی نگرانی کررہا ہے۔ ابھی ہم دونوں ششدر کھڑے غور کررہے تھے کیا کریں کہ عقب سے شامی کے چیخنے کی آواز ابھری اور وہ دو تین افراد کے ساتھ دوڑ پڑا۔
’’آگ… آگ… پانی… پانی۔‘‘ وہ ناچتا ہوا بولا مگر اتنی دیر میں نادر حسین کا لباس خاکستر ہوگیا تھا۔ اس نے دوسرا نعرہ لگایا اور اس کے ساتھ خانقاہ کی بلندیوں سے نیچے چھلانگ لگا دی۔ شامی کے حلق سے دلخراش آواز نکلی۔
’’بڑے بابا…‘‘ وہ دیوانہ وار بھاگتا ہوا کنارے تک آگیا۔ میں اور اکرام نے بھی اس کی تقلید کی تھی اور پھر سکڑ کر رہ گئے تھے حالانکہ جتنی بلندی سے وہ نیچے کودا تھا، اس کے ہاتھ، پائوں ٹوٹ جانے چاہئے تھے لیکن نیچے وہ تاروں کی چھائوں میں بے تکان دوڑتا نظر آرہا تھا۔ لباس سے عاری، ہر تکلیف سے بے نیاز۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ میرے بدن میں شدید سنسنی دوڑ رہی تھی۔
’’اس پر پھر دورہ پڑ گیا مسعود بھائی۔ آہ! اب کیا ہوگا؟ وہ پھر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔‘‘ شامی نے افسوس بھرے لہجے میں کہا اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔
’’نہیں شامی! وہ ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’ٹھیک ہے؟‘‘ شامی سسکی سی لے کر بولا۔
’’ہاں! ہم سب سے زیادہ ہوشمند۔‘‘
’’نہ جانے تم کیا کہہ رہے ہو۔‘‘ شامی جھلا کر بولا اور میں شامی کو تسلیاں دینے لگا۔
’’جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، وہی درست ہے شامی۔ اب وہ اس جھوٹی خانقاہ کا بزرگ نہیں ہے۔‘‘
’’اب کیا ہوگا مسعود بھائی۔ ہمیں پھر اس کے پیچھے نکلنا ہوگا۔ نہ جانے کہاں سے کہاں نکل جائے وہ۔ ہمیں بتائو اب کیا کریں۔‘‘
’’جو کچھ کرو گے، بیکار ہوگا۔ ویسے تم اپنی مرضی کے مالک ہو۔ آئو اکرام۔‘‘ میں نے کہا اور اکرام کو ساتھ لے کر اپنی آرام گاہ میں آگیا۔ خانقاہ میں جتنے لوگ تھے، سب وہیں جمع ہوگئے تھے۔
’’سچ مچ شدید ذہنی دبائو کا شکار ہوں مسعود بھائی۔ برداشت نہیں ہو رہا ورنہ آپ سے نہیں کہتا۔‘‘ اکرام بے بسی سے بولا۔
’’کیا بات ہے اکرام؟‘‘
’’نادر حسین کو کیا ہوگیا؟‘‘
’’وہ جو مصرع ہے نا کہ خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال، وہ صادق آگیا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’عہدہ مل گیا ہے اسے، مجذوب ہوگیا ہے۔ ویسے بھی اکرام، تمہیں یاد ہوگا وہ ڈاکو تھا۔ جعلی خانقاہ میں وہ لوگوں کو جھوٹے دلاسے دیتا تھا لیکن خود کو پیر کہلوانے سے لرزتا تھا۔ خود کو دنیا کا بدترین انسان سمجھتا تھا۔ اسے اپنے گناہوں کا شدید احساس تھا۔ اللہ کو اس کی کوئی ادا بھائی، اسے بہت بڑا مقام مل گیا۔‘‘
’’سبحان اللہ… تو یہ بات ہے۔‘‘
’’ایک آدھ بار شبہ ہوا تھا، یقین نہیں کرسکا تھا۔‘‘
’’پھر یہ اندازہ کیسے ہوا؟‘‘
’’اس کی پشت ہماری طرف تھی۔ میں نے درود شریف پڑھ لیا تھا۔ وہ تڑپ گیا۔ کلام الہٰی کی بے حرمتی برداشت نہیں کرسکا۔ اب واقعی وہ اس خانقاہ کا انسان نہیں ہے۔‘‘
اکرام خاموش ہوگیا۔ ہم دونوں ہی تاثر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں نادر حسین کی خوش بختی پر رشک کررہا تھا۔ بہرحال یہ رمز تھے جو انسانی عقل کے دائرے میں نہیں آتے۔ کچھ دیر کے بعد اکرام نے کہا۔
’’یہاں رکو گے مسعود بھائی؟‘‘
مسعود کا سامنا اتفاقاً کالے جادو کے ماہر بھوریا چرن سے ہوا تو وہ لمحہ گویا اس کیلئے نت نئی مصیبتوں کا آغاز ثابت ہوا۔ بھوریا، مسعود کو اپنا آلۂ کار بنانا چاہتا تھا لیکن مسعود کو کسی قیمت پر شیطان کا ساتھی بننا گوارا نہ تھا۔ یہیں سے بھوریا سے اس کی دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ بھوریا نے اپنی شیطانی طاقتوں سے کام لیتے ہوئے مسعود کا جینا اجیرن کردیا لیکن وہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنے انکار پر ڈٹا رہا۔ انہی حالات میں مسعود کچھ خاص ہستیوں کی نظر میں آیا اور ان کی مہربانیوں کے نتیجے میں شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لائق ہوگیا لیکن بھوریا نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ اسی آنکھ مچولی کے دوران مسعود کی ملاقات ایک بے سہارا اور مظلوم لڑکی ثریا سے ہوئی اور وہ اسے پسند کرنے لگا لیکن حالات نے اسے ثریا سے دور کردیا۔ وہ خدمتِ خلق میں مصروف ہوگیا تھا۔ پھر جب اس کی ملاقات ثریا کے بھائی اکرام سے ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں بھی بھوریا کے ظلم کا شکار ہوئے تھے، بھوریا نے اکرام کو اپنے جال میں پھنسانے کی خاطر ثریا کی زبان کاٹ ڈالی تھی اور بہن بھائی کو ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔ مسعود اور اکرام، ثریا کی تلاش میں تھے جسے بھوریا نے نہ جانے کہاں غائب کردیا تھا۔ ثریا کی تلاش کے ساتھ ساتھ مسعود کا خدمتِ خلق مشن بھی جاری تھا لہٰذا اس دوران وہ مختلف حالات و واقعات سے گزرتا ہوا ایک ایسی خانقاہ تک جا پہنچا جسے ایک جعلی پیر بابا چلا رہا تھا۔ لوگ اپنی منتیں مرادیں لے کر اس کے پاس آتے تھے اور وہ ان سے چڑھاوے وصول کرتا تھا۔ وہاں قیام کے دوران پیر بابا نے مسعود اور اکرام کو اپنی کہانی سنائی تو معلوم ہوا کہ وہ زمانے کا ستایا ہوا تھا اور مجبوراً یہ کام انجام دے رہا تھا۔ پھر اچانک پیر بابا کا ذہنی توازن خراب ہوگیا اور مسعود کو وقتی طور پر خانقاہ کا انتظام سنبھالنا پڑا۔ اس دوران اس نے کلامِ الہٰی کے ذریعے لوگوں کی مدد کی اور وہاں آنے والے اچھے برے سائلین کو نمٹاتے ہوئے اسے اندازہ ہوا کہ پیر بابا بظاہر جس کا ذہنی توازن خراب نظر آتا تھا، ایک مجذوب کا درجہ پا چکا تھا۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
٭…٭…٭