ماں باپ بچھڑ گئے تھے۔ بھائی نامعلوم راستوں پر نکل گیا تھا۔ پتا نہیں زندگی میں دوبارہ ملاقات ہو کہ نہ ہو، ابا اور اماں کا کیا حال ہوگا۔ ان کے دونوں بیٹے ان سے چھن گئے تھے۔ ماموں ریاض کے بارے میں یقین تھاکہ وہ انہیں سنبھال لیںگے۔ وہ نہ ہوتے تو باپ کی کمر تو ٹوٹ ہی گئی تھی۔‘‘
خان صاحب دن بھر مصروف رہے تھے۔ مجھے حکیم صاحب کی دی ہوئی دوائیں کھانی پڑی تھیں۔ رات کو خان صاحب واپس آکر بولے۔ کل روانگی ہے مسعود میاں۔‘‘
’’کل؟‘‘
’’ہاں کچھ کام تھے جن کی وجہ سے پرسوں کا ارادہ کیا تھا، آج ہی ہوگئے، اس لیے اب کل چلتے ہیں۔ اللہ کرے علیم الدین میاں جیتے ہوں، بڑے اچھے انسان ہیں، پہلے ان کے پاس چلیں گے پھر ان کے ساتھ مزار پر چلیں گے، تم دیکھ لینا ساری مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔‘‘
’’جو حکم خان صاحب۔‘‘
رات کو خان صاحب نے کہا۔ ’’میرے پاس سونا ہے تمہیں۔ دوسرے کمرے میں نہیں سونے دوںگا۔‘‘ دل کے انتہائی گوشوں سے خان صاحب کے لیے دعائیں نکل رہی تھیں، اس سے زیادہ کوئی کیا کرسکتا ہے۔ بڑی پُرسکون رات گزری، دل کو بڑی تقویت اور سکون رہا تھا۔ صبح بے حد خوشگوار تھی۔ خان صاحب نے آدمی بھیج کر ریل کے ٹکٹ منگوائے تھے۔ اب میں صرف ان کے اشاروں پر چل رہا تھا۔ تیاریاں ہی کیا کرنی تھیں، دو جوڑے کپڑے خان صاحب کے سوٹ کیس میں رکھے اور دوپہر کو ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے، سوچ کے دروازے بند کرلیے تھے۔ اب صرف ایک ہی لگن تھی کسی طرح اس بزرگ ہستی کے حضور پہنچ جائوں جس کے فیض سے میری مشکل حل ہوجائے۔ خان صاحب معمولی آدمی نہ تھے جو سامنے سے گزرتا سلام کرتا گزرتا۔ ریل آگئی ہمیں بڑے احترام سے ریل میں بٹھایا گیا۔ خان صاحب پان کھانے کے عادی تھے۔ ریل چل پڑی تو پانوں کی ڈبیہ اور بٹوا نکال لیا۔ مسکراکر بولے۔
’’لو چندا پان کھائو۔‘‘
’’خان صاحب ۔‘‘
’’اماں کھالو۔ عید بقرعید پر تو سب کھالیا کرتے ہیں۔ اور سنو ہنسو مسکرائو، بری گھڑی گھڑیوں کی مہمان رہ گئی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ ان واقعات کو یاد کرکے ہنسا کرو گے مگر چاند خان کو مت بھول جانا اس وقت۔‘‘ میں سسک پڑا اور خان صاحب نے میری گردن میں ہاتھ ڈال دیا…’’نا… مرد کی آنکھوں سے آنسو نہیں شعلے نکلنے چاہئیں۔ ناچندا نا۔ دشمن بھی مردوں کے ہی ہوتے ہیں۔ مرد ہو، مردوں کی طرح حالات سے مقابلہ کرو۔ بری بات چندا بری بات۔‘‘ خان صاحب کے محبت بھرے لمس کو محسوس کرکے نہ جانے کیا کیا احساسات جاگ اٹھے تھے۔
سفر جاری رہا۔ رات ہوگئی۔ خان صاحب کھانا ساتھ لائے تھے۔ دسترخوان کھول کر بیٹھ گئے، اصرار کرکے کھاتے اور کھلاتے رہے۔ رات کو بارہ بجے انہوں نے کہا۔
’’اب پائوں پھیلاکر سوجائو دلارے۔ ہم جاگ رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں خان صاحب آپ سوجایئے۔‘‘
’’ میاں عمر بھر سفر میں نیند نہیں آئی۔ آج کیا خاک آئے گی۔ تم سوجائو ہم کہہ رہے ہیں اور پھر ہمارا جاگنا ضروری ہے، ساڑھے چار بجے ریل منزل پر پہنچے گی تمہیں تو اندازہ بھی نہ ہوگا۔‘‘ انہوں نے ضد کرکے مجھے لٹادیا۔ ٹرین کی ردھم خیالات کے ساتھ سفر کرتی رہی اور آنکھوں میں غنودگی گھل گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد سارے احساسات سوگئے۔ نہ جانے کتنی دیر ہوئی تھی سوتے ہوئے، نہ جانے کیا وقت تھا کہ اچانک قیامت ظہور میں آگئی۔ اتنی تیز روشنی ہوئی کہ بینائی جاتی رہی، کوئی آتش فشاں پھٹا تھا یا زلزلہ آیا تھا، کچھ اندازہ نہیںہوپا رہا تھا، انسانی شور چاروں طرف سے ابھر رہا تھا۔ لوگ بھیانک آواز میں چیخ رہے تھے۔ میرا چہرہ بھیگا بھیگا سا لگ رہا تھا۔ گہری نیند سے آنکھ کھل جانے کی وجہ سے سر دکھ رہا تھا۔ دوبارہ سوجانے کو جی چاہ رہا تھا، سب کچھ بھول کر سب کچھ نظر انداز کرکے میں نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔ پھر نہ جانے کب جاگا تھا۔ تیز روشنی ہوگئی تھی، کھڑکیوں سے سورج کی شعاعیں اندر آرہی تھیں۔ گرمی لگ رہی تھی، پنکھا بند تھا۔ نہ جانے کیوں تبھی مجھے آواز سنائی دی۔
’’رتنا او رتنا، کب تک سوتا رہے گا رے۔ دس بج رہے ہیں، رتنا اٹھ جا بھئی۔‘‘ نہ جانے کون تھا۔ نہ جانے کسے آواز دے رہا ہے۔ مگر پھر میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک دراز قامت خاتون اندر آگئیں۔ بھاری بھرکم معمر خاتون تھیں، ساڑھی باندھے ہوئے تھیں، ماتھے پر بندیا لگی ہوئی تھی، عمر چالیس سے اوپر ہی تھی۔ رتنا اٹھ جا بیٹا۔ دیکھ کتنا دن چڑھ چکا ہے، افوہ پسینے میں بھیگ رہا ہے۔ نگوڑ ماری بتی دو گھنٹے سے گئی ہوئی ہے۔ ان بجلی والوں نے تو ناک میں دم کردیا ہے۔ ارے تو اٹھے گا یا نہیں۔ خاتون نے میرے شانے کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ اور میں دم بخود رہ گیا۔ ’’رتنا…میں؟‘‘ میں پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔
’’پانی لائوں ٹھنڈا چاچی۔ دو کٹورے بھر ڈال دو نیند ایسے بھاگے گی جیسے ماماجی کے سر سے سینگ۔‘‘ باہر سے ایک نسوانی آواز سنائی دی۔
’’رتنا اٹھ جا بیٹا۔ اتنی دیر سونا اچھا نہیں ہوتا۔‘‘ عورت نے پھر کہا اور میں جلدی سے اٹھ گیا۔ ’’ جا منہ دھولے میں مالتی سے ناشتہ بھجواتی ہوں۔ اب دوبارہ نہ لیٹ جائیو۔‘‘ معمر خاتون واپس مڑیں اور دروازے سے باہر نکل گئیں۔
مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے، کیا ہے یہ سب کچھ کیا ہے۔ میں کہاں ہوں یہ کونسی جگہ ہے اور رتنا۔ یہ عورت مجھے رتنا کیوں کہہ رہی ہے۔ کیسا عجیب انداز ہے اس کا۔ محبت سے بھرپور۔ ایسا جیسے مجھے عرصے سے جانتی ہو۔ کون ہے یہ۔ اور جگہ کونسی ہے۔ یاخدا یہ خواب ہے یا عالم بیداری۔ ابھی مسہری سے پائوں لٹکائے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ دروازے میں ایک جھری پیدا ہوئی اور ایک روشن چہرے نے اندر جھانکا۔ چمکتا ہوا سفید رنگ، بھورے بال، پرکشش نقوش، حسین آنکھیں جن میں شوخی تھی۔ پھر ہنسی سنائی دی اور وہ اندر آگئی۔ ہاتھ میں نقشین مرادآبادی کٹورہ تھا جس میں پانی بھرا ہوا تھا۔
’’رتن مہاراج صبح ہوگئی۔ یہ میری طرف سے۔‘‘ اس نے کٹورے کا پانی میرے چہرے پر ڈال دیا اور میں اچھل پڑا۔ پانی یخ ٹھنڈا تھا اور میرا چہرہ اور سینہ بھگوگیا تھا۔ میں جھجھک کر مسہری سے نیچے آکھڑا ہوا۔ لڑکی نے قہقہہ لگاتے ہوئے دروازے کی طرف چھلانگ لگادی اور غڑاپ سے باہر نکل گئی۔
آہ! یہ خواب نہیں حقیقت ہے مگر اب… اب یہ کیا حقیقت ہے؟ کیا ہوگیا ہے میرے معبود! کیا ہوگیا ہے۔ میں نے ڈوبتے ہوئے دل سے سوچا۔ یوں احمقوں کی طرح کھڑے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں تھا، باہر نکلوں کچھ اندازہ تو ہو۔ دروازے سے باہر نکل آیا۔ سامنے صحن تھا، باتھ روم کا دروازہ نظر آرہا تھا۔ قدم اس طرف اٹھ گئے۔ میں اس پرانے طرز کے باتھ روم میں داخل ہوگیا۔ دروازہ بند کیا، کپڑے اتارے مگر کپڑے اتارتے ہوئے میں بری طرح اچھل پڑا۔ یہ میرے کپڑے نہیں تھے۔ یہ تو میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ سلک کا کرتا، لٹھے کا پاجامہ… آہ کیا ہوگیا مجھے۔ کیا ہوگیا ہے۔ میں نے پانی کا نل کھول دیا، اس کے نیچے بیٹھ گیا۔ میری سوچ پرواز کرنے لگی۔ کب سویا تھا، کہاں سویا تھا کہ آنکھ یہاں کھلی۔ ذہن کے پردوں پر مٹے مٹے نقوش ابھرنے لگے۔ کانوں میں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی جو واضح ہوتی جارہی تھی۔ ریل کی آواز… ریل… چاند خان… میاں کھالو چندا۔ عید بقرعید پر تو سب ہی… سو جائو… سو جائو… چاند خان… ارے ریل… چاند خان رتولی.. رتولی.. وحشت زدہ انداز میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ پاگلوں کی طرح دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر دروازہ باہر سے بند تھا۔ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ دماغ بری طرح چکرا رہا تھا۔ پانی شانے پر گر رہا تھا۔
’’کون ہے اندر۔‘‘ باہر سے آواز سنائی دی اور میں دروازے کو دیکھنے لگا۔ ’’کون ہے اندر۔‘‘ آواز دوبارہ سنائی دی۔
’’میں ہوں مالتی۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ لیکن جو کچھ میں نے کہا تھا، وہ…! وہ آہ کیا ہے یہ سب کچھ۔‘‘
’’نہا رہے ہو رتنا…؟‘‘ باہر سے پوچھا گیا۔
’’ہاں!‘‘ میں گھٹی گھٹی آواز میں بولا۔
’’دروازہ باہر سے کیوں بند کرایا ہے؟‘‘
’’میں نے نہیں کرایا۔‘‘ میں نے جھلا کر کہا۔
’’سمجھ گئی شیاما نے شرارت کی ہوگی۔ میں نے کھول دیا ہے۔‘‘ وہی آواز سنائی دی۔ مگر اس بار میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ میرا دل، میرا دماغ قابو میں نہیں تھا۔ اندر سے ایک ہی آواز ابھر رہی تھی۔ پھر کچھ ہوگیا۔ پھر کچھ ہوگیا۔ میں چاند خان کے ساتھ رتولی نہیں پہنچ سکا اور چاند خان۔ وہ نہ جانے کہاں گئے۔ میں ہوش میں ہوں اور نہ جانے کس طرح اس اجنبی جگہ آگیا ہوں۔ اجنبی جگہ… رتنا۔ کیا بے تکا نام ہے۔ آخر یہ لوگ مجھے اس نام سے کیوں پکار رہے ہیں۔
’’رتنا جی…‘‘ باہر سے پھر وہی آواز ابھری اور میں چونک پڑا مگر کچھ بولا نہیں… ’’رتنا جی… کتنی دیر میں باہر آئو گے۔‘‘ بڑی زور سے غصہ آیا تھا مگر کیا مجھے غصہ آنا چاہیے۔ کیا میں اس پوزیشن میں ہوں۔
’’آرہا ہوں بس!‘‘
’’ہم نے ناشتہ لگا دیا ہے۔‘‘ باہر سے آواز ابھری۔ اور میں گہری سانس لے کر اٹھ گیا۔ کوئی پاگل ہے، کچھ نہ سوچنے دے گی۔ نکلا جائے مگر دماغ ٹھنڈا رکھنا ہوگا۔ نہ جانے کیا ہوا ہے، کیسے ہوا ہے۔ نل بند کردیا، لباس پہنا، بال سنوارے اور باہر نکل آیا۔ باہر کوئی نہیں تھا۔ میں اس کمرے میں نہیں گیا جہاں خود کو سوتے ہوئے پایا تھا بلکہ ایک راہداری سے گزر کر بائیں ہاتھ کے ایک کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ سامنے ڈائننگ ٹیبل تھی، اس پر ناشتے کا سامان سجا ہوا تھا۔ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ ناشتہ آگے سرکا لیا مگر… میں اس کمرے میں کیسے آگیا۔ میں کیسے جانتا تھا کہ ناشتہ اس کمرے میں لگا ہوگا۔ میرے قدم اس طرف کیسے اٹھے، میں بھٹک کیوں نہ گیا؟ یہ سب کچھ مجھے اجنبی کیوں نہیں لگ رہا۔ آہ…! یہ کیا ہے۔ بھوریا چرن کا کوئی نیا کھیل… دماغ پر سناٹا سا طاری ہوگیا۔ چاند خان کہاں ہیں۔ ہم دونوں تو ریل میں سفر کررہے تھے۔ چاند خان جاگ رہے تھے، میں سو رہا تھا۔ پھر وہ خواب جیسی کوئی آواز، تیز روشنی اور پھر میں دوبارہ سو گیا تھا، سب کچھ ایک خواب سمجھ کر… اور اب… ضرور بھوریا چرن کوئی چال چل گیا۔ اس نے مجھے اس مقدس مزار پر نہیں پہنچنے دیا اور اب میں کسی ہندو گھرانے میں تھا اور یہ لوگ مجھے رتنا کہہ کر پکار رہے تھے۔ کون لوگ ہیں یہ… وہ معمر خاتون… وہ خوبصورت شریر لڑکی… آہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کسی خطرناک جال میں تو نہیں پھنس گیا۔ کوئی نئی مصیبت تو نہیں آنے والی… نہیں… ہوشیاری سے کام لینا ہوگا۔ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا۔ حالات کا جائزہ…
’’چائے واپس لے گئی تھی۔ سوچا ٹھنڈی ہوجائے گی۔ اب گرم گرم لائی ہوں۔ ارے تم نے تو ناشتہ بھی شروع نہیں کیا۔ ابھی تک سو ہی رہے ہوکیا…‘‘ نوجوان عورت تھی۔ کالا رنگ تھا مگر نقوش برے نہیں تھے۔ ’’رتنا جی…! ناشتہ کرو۔‘‘
’’کررہا ہوں مالتی…‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا اور ایک بار پھر دل میں چونک پڑا۔ میں اسے اتنے اعتماد سے مالتی کیوں کہہ رہا ہوں۔ کیسے جانتا ہوں کہ یہ مالتی ہے۔
’’کچھ اور لائیں تمہارے لیے…؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’لالہ سریش چندر جی آئے ہیں۔ گڑ کے شیرے ہیں نرے، چپک جائیں تو چھٹنے کا نام نہ لیں۔ بے چاری رما رانی ان کے سامنے جا پھنسی ہیں۔ اب کوئی کیسے نکالے انہیں۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’ہم کہیں انہیں اور کوئی کام نہیں ہے۔ ابھی صبح ہوئی ہے اور… ارے کچھ اور لائیں تمہارے لیے۔‘‘ مالتی بھی جنونی ہی معلوم ہورہی تھی۔ کم بخت کی زبان تالو سے نہیں لگ رہی تھی۔ بولے چلے جارہی تھی۔ اسی وقت کہیں سے کتے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیں اور مالتی کی آواز بند ہوگئی۔ کتا بری طرح بھونک رہا تھا۔ مالتی نے پریشانی سے کہا۔ ’’یہ کتا کہاں سے گھس آیا۔‘‘
’’دیکھو باہر جاکر۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ارے ہم دیکھیں۔ نا رتنا جی… کتے سے ہماری جان نکلے ہے۔ دروازہ بند کیے دیں ہیں ہم، کہیں پاپی ادھر ہی نہ گھس آئے…‘‘ مالتی نے جھپٹ کر دروازہ بند کردیا۔ میں ناشتے میں مصروف رہا۔ کتا خاموش ہوگیا تھا۔ مگر کچھ دیر کے بعد ایک تیز آواز سنائی دی۔
’’مالتی… اری او مالتی! کہاں مر گئی۔‘‘ مالتی اچھل پڑی۔
’’لو شروع ہوگئیں آوازیں۔‘‘ اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ ’’آئی رما رانی… وہ کتا…!‘‘
’’یہ کشنا کہاں چھپی ہے۔ اسے تلاش کر، آج یہ نہیں یا میں۔ آخر یہ کرنا کیا چاہتی ہے، کیا سوچا ہے اس نے ارے ہمارے ہاں کام کے آدمی ہیں۔ ہزاروں کام نکلتے ہیں ان سے اور یہ ہے کہ…‘‘ رما رانی اندر داخل ہوگئیں۔ یہ وہی معمر خاتون تھیں۔ رمارانی… میں نے سوچا… معمر خاتون اندر گھس آئیں۔ ادھر ادھر دیکھا اور بولیں۔ ’’رتنا! وہ یہاں تو نہیں آئی…؟‘‘
’’نہیں چاچی…‘‘ میں نے کہا۔
’’جائے گی کہاں… آج چھوڑوں گی نہیں اسے۔‘‘ رما رانی باہر نکل گئیں۔ میری کیفیت اب کسی قدر بحال ہوگئی تھی۔ سمجھ میں تو کچھ آیا نہیں تھا لیکن اب دیوانگی سے کیا حاصل، سمجھنے کی کوشش کرنی پڑے گی اور کچھ نہ کچھ سمجھ میں آہی جائے گا۔ چائے کی دو پیالیاں پی کر اٹھا ہی تھا کہ وہی شوخ لڑکی اندر گھس آئی اور میری کمر پکڑ کر میرے پیچھے آگئی۔
’’آج بچا لیں رتنا جی! بس آج بچا لیں۔ بھگوان کے لیے۔ وعدہ کرتی ہوں آگے کچھ نہیں کروں گی۔‘‘
’’ارے ارے… میری کمر تو چھوڑو۔‘‘
’’کپڑے دھونے کی موگری ہاتھ آگئی ہے۔ ایک بھی پڑ گئی تو اپنے جل ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ سچ مچ غصے میں ہیں، مار دیں گی۔‘‘
’’کون…؟‘‘
’’چاچی…!‘‘
’’مگر ہوا کیا ہے…؟‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا۔
’’ارے بھگوان ان کا ناس کرے۔ کھٹیا کھڑی ہو ان کی۔ وہی آمرے تھے سریش چندر جی۔ آتے ہیں تو جاتے نہیں ہیں، سارا سارا دن اینڈتے رہتے ہیں یہاں اور ہم سب پر کرفیو لگ جاتا ہے۔ خاموش رہو، ہنسو بھی نہیں…اور سامنے آجائو تو ایسے گھورتے ہیں جیسے گنڈیری نظر آگئی ہو۔‘‘
’’پھر تم نے کیا کیا…؟‘‘
’’کتے سے جان نکلتی ہے ان کی۔ سنا ہے اٹھائیس انجکشن لگوا چکے ہیں۔ دو بار کتوں نے کاٹا ہے۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔ چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ کندنی رنگ پر پسینے کے قطرے بے حد بھلے لگ رہے تھے۔ بے اختیار ہنستی رہی۔ آنکھوں میں پانی آگیا۔ بولی۔ ’’کتے کی آواز کا ریکارڈ لگا دیا تھا میں نے اور آواز تیز کھول دی تھی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر بے اختیار ہنسنے لگی تھی۔ ہنستے ہوئے بولی۔ ’’یہ ریکارڈ میں انہی کے لیے لائی تھی۔ سر پر پائوں رکھ کر بھاگ گئے، چاچی پکارتی رہ گئیں۔‘‘
’’تم نے غسل خانے کا دروازہ بند کیا تھا…!‘‘ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’اب جو ایسے کروں تو اتی بڑی مر جائوں۔‘‘ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا اور پھر سہمے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’ارے ادھر ہی آرہی ہیں۔‘‘
یہ تھا میرا نیا ٹھکانہ… مگر میں یہاں کیسے آگیا۔ یہ لوگ مجھے رتنا کہہ کر کیوں پکارتے ہیں۔ میں ان کا شناسا کیسے ہوں۔ بار بار تو ایسے جیسے واقعات نہیں ہوتے ہیں۔ اگر سرفراز کا ہم شکل نکل آیا تھا تو کسی رتنا یا رتن کا ہم شکل تو نہیں ہوسکتا تھا… پھر یہ سب کچھ… آخر فیصلہ کیا کہ جو کچھ بھی ہے، صبر و سکون سے برداشت کروں۔ انتظار کروں کہ صورتحال معلوم ہوجائے۔ یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ میں رتولی نہیں پہنچ سکا۔ اب بھوریا چرن کوئی اور چال چل گیا۔ مگر اس نے اس بار کیا کیا ہے، کچھ اندازہ نہیں ہورہا تھا۔ نہ جانے چاند خان کہاں گئے۔
رتنا ہی بن گیا۔ اپنی کیفیت پر البتہ سخت حیران تھا۔ مجھے اس گھر کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا۔ میرا کمرہ کونسا ہے، عورت کو میں چاچی کہہ کر پکار رہا تھا۔ ایک اور نوجوان لڑکی سامنے آئی تو میں نے اسے رادھا کہا اور اس نے جواب بھی دیا۔ آہ! اس طلسمی کیفیت کا کوئی جواز نہیں تھا میرے پاس… دن بھر کوئی کام نہ کرنا پڑا۔ عجیب سا گھرانہ تھا۔ دو تین بار مردوں کی آواز بھی سنائی دی تھی۔ البتہ رات ہوئی تو دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ قرب و جوار کی ساری عمارتیں جگمگا اٹھیں اور ہر طرف سے طبلہ، سارنگی اور ہارمونیم کی آوازیں ابھرنے لگیں۔ یہ ناچنے گانے والوں کا علاقہ تھا اور رما رانی بھی انہی میں سے ایک تھیں۔ خدا تجھے فنا کردے بھوریا چرن… یہ کہاں لا پھینکا تو نے مجھے… اس غلاظت خانے میں! دل بری طرح دکھنے لگا۔ کیا کروں۔ کیا یہاں پڑا رہوں یہاں… کشنا یاد آئی۔ معصوم شوخ الھڑ لڑکی رادھا اس کی ہم شکل! اور یہ سب ناچ گانے کا کاروبار کرتی تھیں۔ اس کا عملی تجربہ بھی ہوگیا۔ شام سے پہلے اس گھر کی حقیقت نہیں کھلی تھی۔ لیکن جونہی شام ہوئی، ماحول بدل گیا۔ پاکیزگی، گندگی میں تبدیل ہونے لگی۔ رادھا، لکشمی اور شوخ و شریر کشنا رنگ بدلنے لگیں۔ زرق برق لباس، چہروں پر مصنوعی اشیاء کا نکھار اور پھر وسیع و عریض کمرہ، سفید براق چاندنیاں، طبلہ، سارنگی، ہارمونیم۔ ان کے عقب میں نکیلی مونچھوں والے سازندے… سازوں کے سُر درست کرتے ہوئے۔ میں پابہ زنجیر نہیں تھا۔ یہاں سے بھاگ سکتا تھا لیکن کہاں… ہر جگہ موت اور تباہی! کہیں امان نہیں تھی۔ بے بسی سے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ خدایا…! یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ ایسی جگہ بھی رزق لکھا تھا۔ خان صاحب یاد آئے۔ میاں چاند مرد کی آنکھوں میں آنسو نہیں شعلے نظر آنے چاہئیں۔ آہ خان صاحب! یہ شعلے مجھے بھسم کرسکتے ہیں۔ میں کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
’’رتن جی۔ اے رتن جی!‘‘ مالتی کی آواز سنائی دی اور وہ سامنے آگئی۔
’’کیا ہے مالتی…؟‘‘
’’ہار نہیں لائے ابھی تک۔‘‘
’’ہار…؟‘‘
’’تیار کر رکھے ہوں گے۔ رحیم خان سے جائو لے آئو۔ رما رانی پوچھ رہی تھی۔ ذرا جلدی جائو، مہمان آنے شروع ہوگئے ہیں اور ہاں ذرا دیکھ کر لینا۔ رحیم خان سے کہنا اصلی چنبیلی لگایا کرے، بیچ بیچ میں سدابہار ڈال دیتا ہے۔ لو پیسے رکھ لو۔‘‘ مالتی نے سو روپے میرے حوالے کردیے۔ میں نے سو روپے کا نوٹ ہاتھ میں لیا اور آگے بڑھ گیا۔ مجھے علم تھا کہ زینہ کہاں ہے۔ ہار کہاں سے لانے ہیں۔ کیسے آخر کیسے؟
سیڑھیاں اتر کر گلی میں آگیا۔ بازار کی رونق عروج پر تھی۔ تر گلاب، موتیا، کڑاکڑ بول رہی ہیں ریوڑیاں! لیلیٰ کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں، کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں۔ زیادہ تر پان والوں، پھول والوں اور عطر فروشوں کی دکانیں تھیں۔ بلندیوں سے طبلے ٹھونکنے کی آوازیں، ہار مونیم کی ریں ریں کے ساتھ سنائی دے رہی تھیں۔ دکانوں پر بورڈ لگے ہوئے تھے۔ دور سے عبدالرحیم خان گل فروش کا بورڈ نظر آگیا اور وہیں اسی طرف چل پڑا۔ قدم من من بھر کے ہو رہے تھے۔ کیا ہے یہ سب کچھ۔
’’آئو رتنا! بڑی دیر میں آئے آج‘‘ عمر رسیدہ مگر کلف لگی نوکیلی مونچھوں والے رحیم خان نے ایک بڑا سا پُڑا اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’بیس ہیں پورے! گننا تو نہیں ہیں؟‘‘
’’نہیں!‘‘ میں نے پھنسے پھنسے لہجے میں کہا اور سو روپے کا نوٹ رحیم خان کی طرف بڑھا دیا۔
’’کل تم بیس روپے ہی چھوڑ گئے۔ میں نے آواز لگائی مگر تم نے سنا ہی نہیں۔‘‘
’’کل…!‘‘ میرا دل لرز گیا۔
’’ہاں میاں! یہ بیس روپے کل کے اور بیس یہ لو، چالیس ہوگئے نا…!‘‘
’’ہاں… رحیم خان کل بھی میں ہی آیا تھا ہار لینے؟‘‘ میں نے بمشکل پوچھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ رحیم خان بولے۔
’’کل میں ہی ہار لے گیا تھا نا؟‘‘
’’تو اور کون لے جاتا۔ کل کچھ تو ترنگ میں تھے پیارے۔‘‘ رحیم خان ایک آنکھ دبا کر مسکرائے۔
’’کب سے لے جاتا ہوں میں یہ ہار۔‘‘
’’مہینوں ہوگئے مگر بات کیا ہے۔ طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری، پچھلے ہفتے سے کچھ کھوئے کھوئے سے ہو۔‘‘
’’میرے خدا… میرے خدا!‘‘ میرے منہ سے لرزتی آواز نکلی اور رحیم خان چونک پڑے۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔
’’کیا کہا تم نے…؟‘‘ وہ بولے۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ میں واپس چل پڑا۔ رحیم خان کی آواز کانوں میں گرم گرم سیسے کی طرح اتر رہی تھی۔ ’’مہینوں سے… مہینوں سے‘‘ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ میں مہینوں سے یہاں ہوں۔ مہینوں سے مگر کیسے۔ یہ میں ہی ہوں کوئی اور نہیں ہے مگر میں تو پچھلی رات میں تو چاند خان کے ساتھ ریل میں سفر کررہا تھا۔ پھر میں مہینوں سے یہاں کیسے ہوں۔ یہ ماحول، یہ لوگ، یہ سب کچھ جانا پہچانا کیوں ہے۔ کیا ہوا ہے آخر میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔
راستہ تک نہیں بھولا تھا۔ بے خیالی کے عالم میں آیا تھا مگر انہی سیڑھیوں سے اوپر پہنچا تھا جن سے اتر کر گیا تھا حالانکہ ساری سیڑھیاں ایک جیسی تھیں۔ یہ تمام باتیں ذہن خراب کررہی تھیں۔ اتنا اندازہ تو میں نے لگا لیا تھا کہ یہ سب کچھ بھوریا چرن نے کیا ہے لیکن کیا کیا ہے۔ یہ جاننا ضروری تھا۔ مالتی ہار لینے کے لیے کھڑی تھی۔ جلدی سے ہاروں کا پُڑا لے کر چلی گئی اور میں اپنے کمرے میں جاکر بستر پر لیٹ گیا۔ رحیم خان نے کہا تھا کہ مہینوں سے میں اس سے ہار لے جاتا ہوں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ وہی کچھ ہم شکل والا معاملہ ہوسکتا ہے۔ رتنا نامی کوئی شخص میرا ہم شکل ہو۔ لیکن اتنے سارے ہم شکل؟ ہر جگہ میرا ایک ہم شکل موجود ہے۔
مالتی آگئی۔ بولی۔ ’’اندھیرے میں کیوں لیٹے ہو رتنا جی! بتی جلا دوں۔‘‘
’’رہنے دو مالتی! اندھیرا اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
’’کچھ چاہیے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں! آئو بیٹھو۔‘‘
’’اندھیرے میں! نا بابا نا۔ ہمیں اندھیرا اچھا نہ لگے۔‘‘
’’تمہیں کوئی کام تو نہیں ہے۔‘‘
’’اسی وقت تو فرصت ملے ہے۔ اب بارہ بجے مہمان چلے جائیں گے تو بڑا کمرہ صاف کرکے سوئیں گے۔‘‘
’’روشنی جلا دو اور بیٹھو۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔‘‘ مالتی نے لائٹ جلا دی اور پھر نیچے قالین پر بیٹھ گئی۔
’’مالتی! آج کیا تاریخ ہے؟‘‘
’’انیس۔‘‘
’’مہینہ کونسا ہے، معلوم ہے۔‘‘
’’ستمبر۔‘‘
’’ہیں…‘‘ میں اچھل پڑا۔ ’’تمہارا دماغ خراب ہے؟‘‘
’’کاہے رتنا جی؟‘‘
’’آج انیس ستمبر ہے؟‘‘
’’تو اور کیا؟‘‘
’’اوہ میرے خدا۔ میرے خدا!‘‘ میرے منہ سے سرگوشی میں نکلا میرے ہوش و حواس درست تھے۔ پاگل نہیں ہوا تھا لیکن یہ مالتی کیا کہہ رہی تھی۔ یہ ستمبر کا نہیں مارچ کا مہینہ تھا۔ چاند خان کا پہلے اٹھارہ مارچ کو رتولی جانے کا ارادہ تھا۔ لیکن اپنا کوئی کام ہونے کی وجہ سے وہ سترہ مارچ ہی کو رتولی چل پڑے تھے اور اس بات کو پانچ ماہ گزر گئے تھے۔ پانچ ماہ اگر واقعی ستمبر کا مہینہ ہے تو میرے یہ پانچ ماہ کہاں کھو گئے۔‘‘
’’مالتی! میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ وعدہ کرو گی کسی کو کچھ نہیں بتائو گی۔ بولو وعدہ کرو گی مالتی!‘‘
’’شکنتا کے بارے میں پوچھو گے؟‘‘
’’شکنتا…؟‘‘
’’ہاں رتن جی! شکنتا کے بارے میں بات کرو گے تو ہم کچھ نہیں بولیں گے۔ رما رانی ہمارا سر گنجا کردیں گی۔ پہلے بھی تمہاری وجہ سے پٹ چکے ہیں۔‘‘
’’شکنتا کون ہے؟‘‘
’’جاتے ہیں۔ آگئے نا اسی پر۔ ارے ہاں ہمیں سب پتا ہے، سب ہمارے ہی دشمن ہیں۔‘‘
’’نہیں میں شکنتا کے بارے میں کچھ نہیں پوچھوں گا۔‘‘
’’لو پوچھے جارہے ہو اور کہتے ہو نہیں
پوچھوں گا۔ ویسے ہماری مانو تو رتن جی! شکنتا کے پھیر میں مت پڑو۔ وہ تم سے زیادہ پاگل ہے۔ تمہیں بھی بیچ چوراہے پر مروا دے گی۔‘‘
’’تم مجھے کب سے جانتی ہو مالتی۔‘‘
’’تمہیں…؟ جب سے تم یہاں آئے ہو۔‘‘
’’میں کب یہاں آیا تھا۔‘‘
’’ہولی جلی تھی جب تم آئے تھے۔ ٹھہرو بتاتی ہوں۔‘‘ وہ انگلیوں پر حساب لگانے لگی پھر بولی۔ ’’پورے پانچ مہینے ہوگئے۔‘‘
’پانچ مہینے سے میں یہاں ہوں۔‘‘
’’تو اور کیا۔‘‘
’’کہاں سے آیا تھا میں؟‘‘
’’انجنا پور گئی تھیں رما رانی سنکھ یاترا کو وہیں تم کاشوکا کے مندر کنارے دھونی رمائے بیٹھے تھے۔ رما رانی کو دیکھا تو ماں کہہ کر ان سے لپٹ گئے۔ جمعہ استاد نے تو لٹھ ہی دے مارا ہوتا تمہارے سر پر مگر رما رانی کو اپنا رتن یاد آگیا، جیتا ہوتا تو تمہارے برابر ہوتا۔ انہوں نے جمعہ استاد کو روکا بعد میں پتا چلا کہ تم بائولے ہو۔ اور سچ مچ تم تھے بھی نرے بائولے۔ نہ کھانے کا ہوش، نہ پہننے کا! رما رانی کو رتن یاد نہ آتا تو بھلا تم یہاں لائے جاتے مگر ان کے من میں مامتا کی گنگا بہنے لگی تھی۔ وہیں تو مرا تھا ان کا رتن… میرا مطلب ہے انجنا پور!گاڑی کے نیچے آگیا تھا اور پھر رما رانی انجنا پور ہی میں اس کی ارتھی جلا کر آئی تھیں۔ مہینوں بائولی رہی تھیں اس کے لیے، حالانکہ تم جانتے ہو رتن جی! ان جگہوں پر بیٹوں سے زیادہ پیار نہیں کیا جاتا، مگر اکیلے جو تھے رما رانی کے، تینوں لڑکیاں رما رانی کی بڑی بہن اوما رانی کی ہیں۔ چاچی کہتی ہیں بچپن سے، مگر تم یہ سب کیوں پوچھے جارہے ہو؟‘‘
’’تو میں رما رانی کا رتن نہیں ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور مالتی ہنس پڑی۔ بڑی سادہ سی عورت تھی، کہنے لگی۔
’’لو جب رتن مر ہی گیا تو تم بھلا کیسے اس کے رتن ہوسکتے ہو؟‘‘ مگر انہوں نے تمہارا نام رتن ہی رکھ ڈالا اور بڑے پیار سے تمہیں رتنا رتنا کہتی ہیں۔‘‘
’’اور جب سے میں انہی کے پاس ہوں مگر میں نے رما رانی کو اپنا نام نہیں بتایا تھا کیا۔‘‘ مالتی پھر ہنس پڑی اور بولی۔
’’بتاتے کیسے، منہ سے رال بہتی تھی، ہر وقت ناک بہتی رہتی تھی، کھانے پینے کا ہوش نہیں تھا، مہینوں کے بعد تو بولے ہو، ورنہ پہلے ہم تمہیں گونگا ہی سمجھتے تھے۔ ویسے ترویدی جی کے علاج نے تمہیں بڑا فائدہ دیا مگر تم بائولے کیسے ہوگئے تھے رتن جی…؟‘‘
میں ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لے رہا تھا۔ جو انکشاف مجھ پر ہوا تھا، وہ بہت ہی حقیقتوں سے روشناس کرا رہا تھا مگر یہ اندازہ نہیں ہوا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ پانچ مہینے کھو گئے تھے میرے، پورے پانچ مہینے! کیسے آخر کیسے۔ کیا چکر چلایا تھا اس خبیث بھوریا چرن نے۔ اس بار کیا چکر چلا دیا تھا۔ چاند خان صاحب کو تو وہ اس بزرگ کے دیے ہوئے تعویذ کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا تھا لیکن راستہ ضرور روکا ہوگا اس نے میرا اور کامیاب ہوگیا کم بخت! خدا اسے غارت کرے۔ پتا نہیں بیچارے چاند خان پر کیا گزری ہوگی۔ کہاں کہاں مجھے تلاش کرتے پھرے ہوں گے مگر میں پاگل کیسے ہوگیا تھا۔ بڑی الجھنیں باقی تھیں ابھی لیکن کم ازکم یہ اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ میں کسی رتن کا ہم شکل نہیں بلکہ دماغی خرابی ہوگئی تھی میرے اندر اور بھٹکتا پھر رہا تھا کہ رما رانی مجھے یہاں لے آئی مگر میری دیوانگی کی وجہ کیا تھی۔ ایک سوال اور کیا میں نے مالتی سے۔
’’مالتی! تمہارے اس شہر کا نام کیا ہے؟‘‘
’’ارے یہ بھی نہیں یاد تمہیں!‘‘
’’بتا دو مالتی! بہت سی باتیں مجھے یاد نہیں۔‘‘
’’اب ہمیں بائولا کردو گے تم! شکتی نگر کا نام نہیں جانتے تم۔‘‘ اور میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ یہ تو وہی جگہ تھی جہاں چاند خان رہتے تھے۔ شکتی نگر! ’’یہ شکتی نگر ہی ہے نا!‘‘ میں نے بے یقینی کے انداز میں مالتی سے پوچھا۔
’’بائولا کرکے چھوڑو گے۔ لو ہم نہیں بیٹھتے تمہارے پاس جارہے ہیں۔ جسے دیکھو ہمارا مذاق اڑا وے ہے۔‘‘ وہ اٹھی اور باہر نکل گئی لیکن میرا دماغ سائیں سائیں کررہا تھا۔ بھوریا چرن صرف بھوریا چرن۔ بھلا اور کون ہوسکتا ہے ان واقعات کے پیچھے مگر چاند خان صاحب! آہ اگر یہ شکتی نگر ہی ہے تو پھر مجھے فوراً چاند خان صاحب سے ملنا چاہیے، ان کی خبر لینی چاہیے۔ بیچارے تھک ہار کر بیٹھ گئے ہوں گے۔ نجانے کس طرح مجھے ان سے الگ کردیا گیا ہوگا۔ دل بے چین ہونے لگا۔ جی تو چاہا اسی وقت باہر نکل جائوں۔ راستے تلاش کر ہی لوں گا۔ ویسے بھی شکتی نگر کے ان علاقوں سے اجنبی نہیں تھا جہاں چاند خان صاحب رہتے تھے، باہر نکلوں گا تو پتا چل ہی جائے گا۔ اس دوران کبھی اس طرف نہیں آنا ہوا تھا اور آنے کا کوئی جواز بھی نہیں تھا۔ رات نجانے کس طرح گزاری۔ بارہ بجے کے بعد اس علاقے میں مکمل سناٹا چھا گیا تھا اور ویسے بھی بس یہی لمحات ہوا کرتے تھے یہاں زندگی کے! مجھے اب پوری طرح یہ احساس ہوگیا تھا کہ بہت سی باتیں میری شناسا کیوں ہیں لیکن… لیکن یہ پانچ مہینے میری نگاہوں سے اوجھل کیسے رہے۔ روزاول ہی مجھے کیوں نہ معلوم ہوگیا کہ میں کسی اجنبی جگہ آگیا ہوں۔ مالتی کہتی تھی کہ میں پاگل ہوگیا تھا۔ ہوسکتا ہے مگر ان پانچ مہینوں نے مجھے فائدہ بھی پہنچایا تھا۔ پولیس کی نگاہوں سے پانچ مہینے تک دور رہا تھا اور اب شاید میری تلاش میں اس قدر شدت بھی نہ رہ گئی ہو۔ آہ خدا کرے چاند خان صاحب مل جائیں تو… تو ایک بار پھر ان سے درخواست کروں گا کہ مجھے رتولی لے جائیں۔ وہ کم بخت بھوریا چرن کب تک میرا راستہ روکے گا۔
رات ہی کو میں نے اپنے دل میں کچھ اور فیصلے بھی کئے تھے۔ یہ اندازہ تو مجھے ہو ہی گیا تھا کہ میں پانچ ماہ تک ذہنی عدم توازن کا شکار رہا تھا اور یہ وقت عالم دیوانگی میں گزرا ہوگا لیکن یہ بھی بڑی بات تھی رما رانی نے سب کچھ کیا تھا میرے لیے بے لوث، بے غرض! وہ جو کچھ بھی تھیں، ماں کا جذبہ ابھرا تھا ان کے دل میں، جانور تک اس جذبے میں کھوٹ نہیں رکھتے، وہ تو انسان تھیں۔ چنانچہ اب کوئی ایسی بات نہیں رہ گئی تھی جس سے پرہیز کرتا۔ اگر مجبوری ہی ہوئی تو کچھ وقت اور یہاں گزار دوں گا اور ایک بار پھر خود کو حالات سے لڑنے کے لیے تیار کروں گا۔ ہاں! اگر تقدیر ساتھ دے اور چاند خان بددل نہ ہوگئے ہوں تو ایک بار پھر ان کے ساتھ بزرگ کے مزار پر جانے کی کوشش کروں گا۔ نہ جانے رات کے کون سے حصے میں نیند آگئی۔ مگر صبح جلدی جاگ گیا تھا اور جاگنے کی وجہ وہ سنگترہ تھا جو کھلی کھڑکی کے راستے اندرآیا تھا اور زور سے میرے سینے پر پڑا تھا۔ آنکھ کھلی تو چوٹ کا احساس ہوا۔ ٹٹول کر دیکھا تو سنگترہ ہاتھ لگا۔ یہاں تو ہر چیز سے خوف کھانے کی عادت پڑ گئی تھی۔ سنگترہ پکڑے اٹھ گیا۔ خوف زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھا۔ کھلی کھڑکی نظر آئی اور قدم اس طرف بڑھ گئے۔ کھڑکی کے آگے گلی تھی اور گلی کے دوسری طرف ایک عمارت اور عمارت میں اس جیسی ہی کھڑکی اور کھڑکی میں ایک لڑکی سفید ساڑھی پہنے، سفید چہرہ، گھٹائوں جیسے بے پناہ بال جو نیچے نہ جانے کہاں تک چلے گئے تھے۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگائے۔ مجھے ہی مخاطب کیا گیا تھا اور ہندو طریقے سے مجھے ہی سلام کیا گیا تھا مگر مجھے کیوں؟ اسی وقت عقب سے دروازہ پیٹا جانے لگا اور میں اچھل پڑا۔ دروازہ جس زور سے پیٹا جارہا تھا، اس میں بڑا ہیجانی انداز تھا۔ آہ شاید پھر کوئی مصیبت آگئی پھر کوئی نیا کھیل۔ سامنے والی لڑکی کچھ اشارے کررہی تھی۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ آخر میں وحشت زدہ انداز میں کھڑکی کے پاس سے ہٹ آیا اور دروازے پر پہنچ گیا۔ پھر دروازہ کھول دیا۔ کشنا تھی۔ دھلی نکھری کشنا!
’’دروازہ کیوں بند کیا تھا۔‘‘ وہ غرائی۔ میں منہ کھول کر رہ گیا۔ ’’بولو دروازہ کیوں بند کیا تھا؟‘‘
’’کک… کیا ہوگیا؟‘‘ میرے منہ سے خوف زدہ سی آواز نکلی۔
’’اندھے ہیں نا ہم سب! کیوں اندھے ہیں؟‘‘ وہ مجھے دھکا دے کر اندر گھس آئی۔ بری طرح بھنائی ہوئی تھی۔ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا، وہ بولی۔ ’’کیا پھینکا تھا اس نے؟ بتائو کیا چیز نشانہ باندھ کر پھینکی تھی۔‘‘
’’یہ…!‘‘ میں نے سنگترہ سامنے کردیا۔
’’سنگترہ۔‘‘ اس نے میرے ہاتھ سے سنگترہ چھین لیا۔ پھر غرائی۔ ’’تو یہ ہوتا ہے صبح ہی صبح، یوں جگایا جاتا ہے راج کمار جی کو۔ اور راج کمار جی! اب دروازہ بند اور کھڑکی کھلی چھوڑ کر سوتے ہیں۔ ارے تم پاگل ہو۔ ہیں پاگل ہو تم۔ سارے کھیل اچھی طرح جانتے ہو اور بنے ہو پاگل! میں بتائوں پاگل چاچی ہے، سمجھے پاگل ہم سب ہیں، تم ٹھیک ہو بالکل ٹھیک۔‘‘
’’مم… میں… میں…‘‘ میرے حلق سے بمشکل نکلا۔
’’چلو پھینکو اسے گلی میں، میرے سامنے پھینکو!‘‘ وہ مجھ پر جھپٹی اور میں کھڑکی کی طرف دوڑا۔ میں نے سنگترہ گلی میں پھینک دیا۔ سامنے والی کھڑکی بند ہوچکی تھی۔ اب وہاں کوئی نہ تھا۔ کشنا میرے پیچھے تھی اور میں ہونقوں کی طرح اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
یہ سب کچھ اضطرابی انداز میں ہی ہوا تھا۔ دراصل سو کر جاگا تھا، حواس بحال نہیں ہوئے تھے۔ پھر جس ذہنی بحران سے گزر رہا تھا، اس میں قوت ارادی کچھ نہ رہ گئی تھی، چنانچہ کشنا نے جو رویہ اختیا کیا تھا، اس سے مرعوب ہوگیا اور اسی کیفیت نے میری دیوانگی کا بھرم رکھ لیا۔ مگر یہ کشنا صاحبہ ان کا انداز کیا کہہ رہا ہے! وہ اب بھی شعلہ بار نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’کیوں کھولی تھی تم نے کھڑکی…؟‘‘
’’میں نے نہیں کھولی تھی۔‘‘
’’ہوا سے کھل گئی ہوگی۔‘‘ اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’ہاں شاید۔‘‘
’’آنکھیں پھوڑ دوں گی تمہاری، ٹینٹوا دبا دوں گی سمجھے۔‘‘ اس نے غراتے ہوئے کہا۔ رما رانی اچانک کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔ انہوں نے شاید کشنا کے آخری الفاظ سن لیے تھے۔
’’کیا ہوا…؟ کیا بات ہے کشنا…؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘وہ جھٹکے دار لہجے میں بولی اور پلٹ کر جانے لگی۔ رما رانی نے اس کی آستین پکڑ لی تھی۔
’’یہ تو مجھ سے بات کررہی ہے۔ دماغ میں خشکی ہوگئی ہے کیا۔‘‘
’’وہ… وہ شکنتا کیا سمجھتی ہے خود کو۔ بہت خوبصورت ہے۔ وہ سب کو پاگل بنا سکتی ہے۔ اس بے چارے پاگل کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے اور یہ اس کے ایک اشارے پر کیسے ہوش میں آجاتا ہے۔ اس کا ہر اشارہ کیسے سمجھ لیتا ہے۔ سنگترہ پھینک کر اسے جگاتی ہے اور یہ کھڑکی پر پہنچ کر اس کے درشن کرتا ہے۔ پوجا کرتا ہے اس کی اور ہم اسے پاگل سمجھتے ہیں۔‘‘ کشنا کا لہجہ عجیب تھا۔
رما رانی نے کھلی کھڑکی کی طرف دیکھا اور پھر کشنا کی طرف… اور پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولیں۔ ’’پاگل تو تم بھی ہو کشنا! کیا تم پاگل نہیں ہو۔‘‘ کشنا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ رما رانی پھر بولیں۔ ’’یہ کونسی جگہ ہے کشنا! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ یہاں جیسی باتیں کرو، تم نہ جانے کہاں کی باتیں کرنے لگی ہو۔ یہاں جو کچھ ہوتا ہے، اس میں یہ کوئی معیوب بات ہے؟ منع کرسکتے ہیں ہم کسی کو… لوگ ہم پر ہنسیں گے نہیں، جو کچھ وہ کہیں گے، اس کا اندازہ ہے تمہیں؟‘‘
’’وہ اور بات ہے چاچی! پر یہ ہمارا رتنا ہے۔‘‘
’’یہ… یہ ہمارا کہاں ہے کشنا! یہ ہمارا تو نہیں ہے۔ ترویدی جی کی بات بھول گئیں۔ کہتے تھے اپنا ماضی بھول گیا ہے، اسے ماضی یاد آیا تو ہمیں بھول جائے گا۔ روک سکو گی اسے، رہ سکے گا یہ اس اجنبی ماحول میں اور اسے تم شکنجوں میں جکڑنا چاہتی ہو۔ یہ نہ ہمارا ہے، نہ شکنتا کا اور… اور… پھر کیوں دوسروں سے لڑتی ہو۔ جائو کشنا! ہوش سے کام کرو۔ مہمانوں سے ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘
کشنا نے کچھ کہنا چاہا مگر نہ کہہ سکی۔ ایک لمحے رکی، مجھے گھورا پھر باہر نکل گئی۔ رما رانی خاموشی سے کھڑی مجھے دیکھتی رہیں۔ ان کے چہرے پر غم کے تاثرات نظر آرہے تھے پھر وہ آگے بڑھ کر میرے سامنے آگئیں۔ ’’کیوں رتنا… ٹھیک کہا نا میں نے، تو ٹھیک ہوجائے گا، چلا جائے گا یہاں سے، ٹھیک ہوا تو سوچے گا کیسی بری جگہ آگیا تھا۔ یہ بہت بری جگہ ہے رتنا! مگر میں تجھے اور کہاں لے جاتی رے، ماں کہہ کر لپٹ گیا تھا تو مجھ سے ارے بائولے، ماں کہہ کر تو کسی پتھر کی مورتی سے بھی لپٹ جاتا تو… تو اس کی چھاتی دھڑک اٹھتی۔ میں تو گوشت پوست کی بنی ہوں، کیا کرتی اس سمے۔ تیرے ساتھ دیوانی ہوگئی تھی مگر یہ جگہ غلط ہے۔ ہم وہ نہیں جو دوسرے ہوتے ہیں۔ میں کیا کروں۔ ہم تو وہ ہوتے ہیں جو پیدا ہوتے ہی برے کہلاتے ہیں۔ ہمیں ماں کہنا گناہ ہے۔ گالی بن جاتی ہے کہنے والے کے لیے… ڈاکو کے گھر ڈاکو پیدا ہوجائے، شریف بن سکتا ہے مگر یہاں، تجھے جونہی ہوش آیا یہاں سے چلا جائے گا تماشبین بن کر تو یہاں ہر کوئی آسکتا ہے، بیٹا یا بھائی بن کر نہیں…‘‘
میں سکتے کے عالم میں تھا۔ یہ الفاظ میرے دل کو چھو رہے تھے۔ کتنا کرب تھا ان میں، کتنی انوکھی سچائی تھی۔
’’دھت تیرے کی بائولوں کے ساتھ میں بھی بائولی بن گئی۔ چل منہ دھو، ناشتہ کرلے۔ مالتی… اری او مالتی! رتنا جاگ گیا ہے۔ چل ناشتہ بنا اس کے لیے، جا رتنا منہ دھولے…!‘‘ رما رانی باہر نکل گئیں۔ میں ٹھنڈی آہ بھر کے کمرے سے باہر آیا اور غسل خانے کی طرف چل پڑا۔ ناشتا بڑی بددلی سے کیا تھا۔ دماغ بری طرح الجھا ہوا تھا۔ رما رانی کے الفاظ نے دکھی کردیا تھا۔ کبھی خواب میں بھی اس ماحول کو نہیں دیکھا تھا۔ ابتداء میں دوسرے برے راستے اختیار کیے تھے یعنی ریس، سٹہ اور جوا وغیرہ لیکن شناسائوں میں بھی کوئی ان راستوں کا راہی نہیں تھا۔ البتہ کبھی اگر ان ناچنے گانے والیوں کے بارے میں سنا تو بہت برے انداز میں… لیکن ان کی بھی ایک زندگی ہوتی ہے جو اب میری نگاہوں کے سامنے تھی۔ وہ مجھ پر اپنا حق سمجھتی تھیں۔ کشنا نے کیسے عجیب انداز میں کہا تھا… ’’پر یہ ہمارا رتنا ہے۔‘‘ آہ! میں تو خود اپنا ہی نہیں رہا ہوں، کسی اور کا کہاں ہوسکتا ہوں۔ مگر یہ شکنتا کون ہے؟ کیسی عجیب تھی۔ انداز ایسا تھا جیسے میری اس سے بھی شناسائی رہی ہو۔
ناممکن تو نہیں تھا… پورے پانچ ماہ کا معاملہ تھا۔ کس کس سے کیا رابطے تھے۔ کون جانتا تھا۔ چاند خان سے ملنے کے لیے دل بیتاب تھا۔ وہ مل جائیں تو کچھ ہمت بندھے۔ پتا تو چلے کہ کیا ہوا تھا۔ یہ تو آسانی سے سمجھا جاسکتا تھا کہ بھوریا چرن نے رتولی جانے کا راستہ روک دیا تھا۔ مگر کیسے؟
لباس تبدیل کرلیا تھا۔ بظاہر کوئی پابندی بھی نہیں تھی کہیں باہر آنے جانے کی۔ جیب میں چالیس روپے پڑے ہوئے تھے۔ نیچے اترا اور چل پڑا۔ شکتی پور سے زیادہ واقفیت تو نہیں تھی مگر چاند خان کے محلے کا نام معلوم تھا۔ تانگے چلتے تھے۔ ایک تانگے نے مجھے وہاں اتار دیا۔ دل دھڑک رہا تھا۔ پیروں میں لرزش تھی اور اس وقت دل کو دھچکا سا لگا جب چاند خان کے مکان کے دروازے میں بڑا سا تالا لٹکا دیکھا۔ گم صم کھڑا دیکھتا رہ گیا تھا۔ ہوسکتا ہے سب لوگ کہیں گئے ہوئے ہوں۔ کچھ فاصلے پر ایک پرچون کی دکان تھی۔ ایک بزرگ وہاں بیٹھتے تھے۔ پہلے بھی انہیں دور سے دیکھا تھا۔ ان کے قریب پہنچ کر انہیں سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام!‘‘
’’وہ سامنے والے مکان میں چاند خان رہتے تھے۔‘‘ میں نے اشارہ کرکے کہا۔
’’ایں…؟ ہاں!‘‘
’’کہیں گئے ہوئے ہیں کیا؟‘‘
’’چاند خان‘‘… بزرگ حیرت سے بولے۔
’’جی…!‘‘
’’وہ تو… وہ تو خلد آشیانی ہوگئے عزیزی، کہیں باہر سے آئے ہو؟‘‘ بزرگ نے کہا۔
کیا بتائوں کیسا سماعت شکن دھماکا ہوا تھا دل و دماغ میں! بزرگ کا جواب سمجھ میں نہیں آرہا تھا یا سمجھ کر نہیں سمجھنا چاہتا تھا۔ ہمت کرکے دوبارہ کہا۔ ’’کیا فرمایا آپ نے…؟‘‘
’’آئو میاں! بیٹھو، کہیں باہر سے آئے ہو۔ عزیز ہو ان کے…؟‘‘
’’کیا ہوا انہیں، میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’جنت نشیں ہوگئے وہ تو… محلے کی عظمت تھے۔ بخدا پیشہ برا پایا تھا مگر محلے کی ناک تھے۔ درویش صفت، امیروں کی جیب تراش کر غریبوں کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ کسی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے تھے۔ آدھی رات کو پہنچ جائو، چاند خان دامے درمے سخنے حاضر ہیں۔ مجال ہے کسی ضرورت مند کو…!‘‘
’’انتقال ہوگیا ان کا…؟‘‘ میں نے لرزتی آواز میں پوچھا۔ بزرگ بہت باتونی معلوم ہوتے تھے۔
’’ہاں میاں عرصہ ہوا۔ ریل کا حادثہ ہوا تھا۔ ستر افراد ہلاک ہوئے تھے اور بے شمار زخمی! خدا جانے ان میں سے کون کون…!‘‘
’’ریل کے حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے وہ…‘‘
’’ہاں عزیز! مگر کئی ماہ ہوگئے اس بات کو… تم کہیں ملک سے باہر گئے ہوئے تھے؟‘‘
’’حادثہ کہاں ہوا تھا؟‘‘
’’رنجنا پور جنکشن سے کوئی چھ کوس پیچھے۔ سنا ہے قیامت خیز حادثہ تھا۔ سنا ہے ریل کے ڈبے…!‘‘ اس سے آگے بزرگ نے کیا کیا کہا سمجھ میں نہیں آیا۔ بہت کچھ یاد آرہا تھا… آہ… وہی وقت تھا… بالکل وہی وقت تھا۔ اس رات انہوں نے مجھے سلا دیا تھا۔ میں سو گیا تھا۔ پھر سورج چمکا تھا، کچھ شور سنا تھا میں نے اور اس کے بعد… اس کے بعد میرے پانچ ماہ گم ہوگئے تھے۔ رما رانی نے مجھے شکتی پور میں ہی پایا تھا۔ یہی بتایا تھا مالتی نے… حالات سمجھ میں آرہے تھے۔ حادثے نے میرا دماغ الٹ دیا ہوگا اور چونکہ میرا کوئی وارث تو تھا نہیں اس لیے نہ جانے کہاں کہاں مارا پھرا ہوں گا اور پھر رما رانی…
’’محترم…! خان صاحب کے کچھ اور ساتھی بھی یہاں رہتے تھے…‘‘ میں نے آواز پر قابو پا کر کہا۔
’’ہاں! بہت سے تھے۔ بہت سارے تھے مگر جب بادشاہ ہی نہ رہا، رعیت کیا رہتی! جس کا جدھر منہ اٹھا، چلا گیا۔ اب تو تالا پڑا ہے کوئی چار مہینے سے، کوئی آتا ہی نہیں ادھر۔‘‘ بزرگ نے جواب دیا۔
آخری امید بھی ٹوٹ گئی تھی۔ چاند خان صاحب کے بارے میں تو اندازہ ہوگیا تھا کہ بے چارے میری ہی وجہ سے موت کی نیند جا سوئے۔ ذلیل بھوریا چرن اس تعویذ کی موجودگی میں خان صاحب کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا، لیکن ریل کا حادثہ بلاوجہ ہی تو نہیں ہوا ہوگا، ضرور اس میں اس کی بھی کوئی چال ہوگی۔ آہ! کتنے لوگ مارے گئے میری وجہ سے، ان سب کا خون میری ہی گردن پر تو ہے۔ اگر میں برے راستوں کا انتخاب نہ کرتا، اگر غلاظت کی تلاش میں قدم آگے نہ بڑھاتا، زندگی کو اس انداز میں گزارنے کی کوشش کرتا، جیسے اس دنیا میں رہنے والے نیک نام لوگ گزارتے ہیں تو یہ سب کیوں ہوتا۔ بہت بڑا گناہ گار تھا میں… نجانے کس کس کا قاتل…! اپنے ہاتھوں سے بھی تو میں نے قتل کیے تھے۔ وہ بے چارے جیل کے مظلوم سپاہی جو صرف اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں پیٹ کے لیے، رزق کے لیے، براہ راست میرے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ آہ! گناہوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی تھی۔ نجانے آگے کیا کیا کچھ کرنا پڑے گا۔ خان صاحب کے کسی ساتھی کا پتا چل جاتا تو کم ازکم اس سے رتولی کے بارے میں معلومات حاصل کرلیتا۔ ان صاحب کا نام بھی مجھے یاد نہیں رہا تھا۔ جن صاحب کے پاس خان صاحب مجھے لے جارہے تھے۔ کاش! اس وقت توجہ ہی دے لیتا۔ خان صاحب سے وہ تمام تفصیلات پوچھ لیتا تو کم ازکم کوئی صحیح اندازہ ہی ہوجاتا۔ یہی غنیمت تھا کہ رتولی کا نام معلوم ہے۔ وہاں جانے کی کوشش کی جاسکتی ہے لیکن… لیکن خان صاحب کے بغیر کیا کروں گا۔ کیا کہوں گا کسی سے، کسے تلاش کروں گا۔ کیا یہ سب ممکن ہے۔ آہ! کیا یہ سب ممکن ہے۔ پھر دل میں ایک خیال ابھرا۔ خان صاحب کے گھر کا جائزہ تو لیا جائے، ہوسکتا ہے وہاں کوئی ایسی نشاندہی ہوجائے، جس سے کچھ اور تفصیلات معلوم ہوں۔ یہ خیال اچانک ہی دل میں پیدا ہوا تھا اور اتنی شدت اختیار کرگیا تھا کہ دل بے اختیار خان صاحب کے مکان میں داخل ہونے کو چاہنے لگا… وہاں سے ہٹا تو بزرگ بولے۔
’’ارے نہیں… نہیں میاں! ایسے کیسے جاسکتے ہو۔ گنے کا رس منگواتا ہوں تمہارے لیے، دو گلاس پیو، دل ٹھنڈا ہوجائے گا۔ بڑی بُری خبر سنائی ہم نے تمہیں لیکن تعجب ہے پانچ ساڑھے پانچ مہینے ہوگئے اس واقعہ کو تو… تم نے خبر ہی نہ لی۔ آخر ان سے تمہارا کیا رشتہ تھا۔‘‘ ان باتونی بزرگ کو بڑی مشکل سے ٹالا۔ گنے کے رس سے معذرت کی۔ جھوٹ بولنا پڑا تھا اس سلسلے میں۔ انہوں نے چائے کی پیشکش بھی کردی۔ لیکن بس جان چھڑا کر وہاں سے ہٹا تھا۔ دل پر ایک بار پھر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ یہ احساس دل سے دور نہیں ہورہا تھا کہ چاند خان جیسا مخلص آدمی میری وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوا۔ مکان کے قریب پہنچا۔ سامنے سے گزرا، بغلی سمت آگیا، دوسرے مکانات میں گھرا ہوا تھا یہ مکان۔ البتہ چھ مکان آگے جاکر راستہ دوسری جانب مڑ جاتا تھا اور یہاں سے خان صاحب کے مکان کے احاطے کے پچھلے حصے میں پہنچا جاسکتا تھا جسے میں نے دیکھا ہوا تھا… پتلی سی گلی تھی اور غیر آباد رہتی تھی۔ پھر احاطے کی دیواریں بھی اتنی اونچی نہیں تھیں کہ انہیں عبور نہ کیا جاسکتا۔ ویسے احاطے کے پچھلے حصے میں ایک چھوٹا دروازہ بھی تھا لیکن وہ بھی شاید اندر ہی سے بند تھا۔ ادھر ادھر دیکھا اور یہ جائزہ لینے کے بعد کہ کوئی میری جانب متوجہ نہیں ہے، احاطے کی دیوار پر چڑھ کر اندر کود گیا۔ جگہ جگہ گھاس اگی ہوئی تھی۔ کافی بڑی بڑی ہوگئی تھی۔ رات کی رانی کے پودے مرجھا گئے تھے۔ خان صاحب کو پھلواری لگانے کا شوق تھا۔ عقبی حصے میں طرح طرح کے گملے رکھے ہوئے تھے۔ سب کے سب اسی طرح تھے لیکن مرجھائے ہوئے! مکان پر ہولناک ویرانی برس رہی تھی۔
اس وقت جب میں یہاں تھا، خان صاحب کی موجودگی میں یہ مکان بڑا پررونق رہتا تھا۔ ان کے شاگرد ہنسی مذاق کرتے رہتے تھے، قہقہوں کی آوازیں ابھرتی رہتی تھیں۔ خان صاحب کا انداز ان کے لیے بڑا مشفقانہ ہوتا تھا۔ اب یہ ساری چیزیں موجود نہیں تھیں اور ایک عجیب سی ویرانی ہر شے پر چھائی ہوئی تھی۔ آگے بڑھا اور اندرونی حصے میں داخل ہوگیا۔ مکان کا سارا سامان غالباً نکال لیا گیا تھا اور اب وہ خالی پڑا ہوا تھا۔ خان صاحب کے کمرے میں داخل ہوا… وسیع و عریض کمرہ، کونے میں بچھا ہوا تخت، ایک جانب پڑی ہوئی مسہری، یہ چیزیں موجود تھیں۔ مسہری پر البتہ بستر نہیں تھا۔ دیواریں ننگی کردی گئی تھیں۔ خان صاحب جگہ جگہ نظر آرہے تھے۔ ہر سرسراہٹ پر یہ احساس ہوتا تھا کہ اب کوئی آواز سنائی دے گی لیکن کچھ نہیں تھا۔ جو تصور لے کر اس گھر میں داخل ہوا تھا، یہاں آتے ہی سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ بھلا اس ویران کھنڈر میں اب مجھے کیا مل سکے گا۔ کسی نے کچھ نہیں چھوڑا تھا۔ گردن جھٹکی۔ مایوسی نے دل میں گھر کرلیا تھا۔ بھوریا چرن ابھی تک مجھ پر حاوی تھا۔ جو کچھ اس نے کہا تھا، وہ کر دکھایا تھا۔ کہا تھا کم بخت نے کہ سکون سے نہیں جینے دے گا۔ سکون تو خیر کیا ہی ملتا، جینا بھی اتنا مشکل ہوگیا تھا کہ ناقابل بیان ہے۔ وہ کمرہ یاد آیا جس میں خان صاحب نے مجھے ٹھہرایا تھا اور جو ایک رات عجب ہولناک حادثے کا شکار ہوا تھا، قدم اس جانب اٹھ گئے اور میں اس کمرے کے سامنے پہنچ گیا۔ بالکل ویسا ہی تھا۔ دروازے، کھڑکیاں غائب، تھوڑے تھوڑے سے ٹکڑے دیواروں میں پھنسے ہوئے، کیسی ہولناک کہانی تھی اس رات کی…‘‘
میں کمرے میں داخل ہوگیا اور چند قدم آگے بڑھا ہی تھا کہ دفعتاً ایک بار پھر میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ دل کے کسی گوشے میں یہ تصور نہیں تھا کہ بھوریا چرن یہاں نظر آجائے گا۔ وہ اپنے منحوس وجود کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگائے، پائوں پھیلائے بیٹھا مجھے گھور رہا تھا۔ وہی بڑی بڑی آنکھیں، وہی ہولناک شکل، میں سکتے کے سے عالم میں اسے گھورتا رہ گیا۔ ایک لمحے کے لیے احساس ہوا تھا کہ کہیں یہ میرا وہم تو نہیں ہے لیکن دوسرے لمحے اس کی آواز سنائی دی۔
’’آجا… آجا… تیرا ہی انتظار کررہے تھے ہم، کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
میں اس کی آواز پہچانتا تھا۔ صورت تو میری نگاہوں کے سامنے ہی تھی۔ کچھ دیر تک تو منہ سے آواز ہی نہ نکل سکی لیکن پھر سارے بدن میں چنگاریاں سی بھر گئیں۔ میں نے غرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’اور اب یہ تیرا مسکن ہے بھوریا چرن…‘‘ جواب میں اس نے قہقہہ لگایا اور بولا۔ ’’تھوکتے بھی نہیں ہیں ایسی گندی جگہوں پر، محل دومحلے کھڑے ہوئے ہیں ہمارے لیے، یہی تو کمی ہے تیرے اندر بالک! سمجھا ہی نہیں تو نے ہمیں، پہچانا ہی نہیں… ارے پاپی! ہم تو خود چل کر تیرے پاس نہیں گئے تھے، خود ہی تیرا من ہم سے ملنے کو چاہا تھا۔ بات کی تھی تو نے ہم سے، ہم نے تو ساری سچائی سے تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو ہمارا کام کردے، ہم تیرا کام کردیں گے۔ تجھ پر ہی مصیبت ٹوٹی تھی۔ کون سا ایسا دھرماتما تھا تو، تھوڑا سا کام کردیتا ہمارا… ہمیں وہ شکتی حاصل ہوجاتی جس کے لیے ہم برسوں سے کوششیں کررہے ہیں اور اس کا تھوڑا سا حصہ تجھے مل جاتا… مگر وہ تھوڑا سا حصہ بھی اتنا ہوتا کہ تیرے پُرکھوں نے بھی خواب میں نہ دیکھا ہوتا۔ لیکن تو بھی… تو بھی عجب ہے۔ ساری رسی جل گئی، پر بل ہیں کہ کھلتے ہی نہیں۔ اب بھی سمے ہے۔ ارے ہم نے تو تجھ سے کہہ دیا تھا کہ اب بھی سمے ہے، مان لے ہماری بات، چھوٹا سا کام ہے اور صلہ جو ملے گا تجھے بس کیا کہیں اس کے بارے میں تجھے، کیا کہہ سکتے ہیں تجھ سے…!‘‘
میں نے ایک گہری سانس لی اور گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’اتنا کھو چکا ہوں بھوریا چرن کہ اب کھونے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ بس ایک جذبہ ہے میرے سینے میں… وہ یہ کہ وہ گندا کام نہیں کروں گا جو تو چاہتا ہے۔ اس جذبے کو نہیں کھوئوں گا بھوریا چرن۔ یہ جذبہ میرا ایمان بن چکا ہے۔ یہ جذبہ اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا، چاہے کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑ جائے۔ تو زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتا ہے کتے! میری جان ہی لے سکتا ہے نا مجھ سے، مجھے اس جان سے بھلا کیا دلچسپی ہوسکتی ہے جو بالکل ہی بے جان ہے۔ کوئی مقصد نہیں ہے میری زندگی کا، کچھ نہیں رہا میرے پاس۔‘‘ بھوریا چرن کے ہنسنے کی آواز میرے کانوں میں ابھری۔ پھر اس نے کہا۔ ’’جان لیتا تو کب کی لے سکتا تھا۔ بہت مان ہے تجھے اپنے ایمان پر، بہت جذبے ہیں تیرے سینے میں، ارے پگلے! جان تو میں نے کسی کی بھی نہیں لی۔ تیرے ماتا، پتا جیتے ہیں، تیری بہن زندہ ہے، تیرا بھائی جسے تو نے سمندر پار بھگا دیا، جی رہا ہے اور تو بھی جیتا ہی رہا ہے۔ ریل کا حادثہ ہوا تھا، ارے خود تھوڑی ہوا تھا۔ انجن اتار پھینکا تھا ہم نے پٹری سے، پٹری ہی توڑ دی تھی۔ وہ سورما جو تیرے ساتھ تھا، بہت بڑا بنتا تھا۔ تعویذ گلے میں ڈالے رہتا تھا۔ ٹھیک ہے ہم اس تعویذ کی وجہ سے اس کے پاس نہیں جاسکتے تھے مگر ریل کے پاس تو جاسکتے تھے۔ کیسی رہی…؟‘‘
میں خونی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ یہ طے ہوجانے کے بعد کہ ریل کے حادثے میں اس کا ہاتھ تھا، ستر آدمی مرے تھے صرف میری وجہ سے اور لاتعداد زخمی ہوئے تھے، میرا جنون عروج پر پہنچ گیا۔ میں نے دیوانگی کے عالم میں اس پر چھلانگ لگا دی۔ یہ کتا اگر میرے ہاتھ آجائے تو اپنے دانتوں سے اس کا نرخرہ ادھیڑ ڈالوں گا۔ نہیں چھوڑوں گا اسے، نہیں چھوڑوں گا۔
خاصی اونچی چھلانگ تھی اور ایک لمحہ گزرنے والا تھا کہ میں اس پر جا پڑتا… لیکن… لیکن… میرے اور اس کے درمیان نجانے کیا چیز حائل ہوگئی، نجانے وہ کیا تھا۔ میں خلاء میں ہی معلق رہ گیا… میں نے ہاتھ، پائوں مارے تو میرے ہاتھ، پائوں جیسے کسی لیس دار چیز میں جکڑتے چلے گئے۔ تب میں نے اس لیس دار چیز کو دیکھا۔ موٹی رسی کی مانند بے رنگ جالے تھے۔ مکڑی کے جالے، لیس دار بدن سے چپک جانے والے…! اتنے مضبوط کہ انہوں نے میرے جسم کا پورا بوجھ سنبھال لیا تھا۔
میں ان لیس دار جالوں سے لٹک کر بے بس ہوگیا۔ جتنے ہاتھ، پائوں چلائے، اتنے ہی یہ جالے مجھ سے لپٹتے چلے گئے اور پھر یہ کیفیت ہوگئی کہ میں جنبش بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ہاں! بھوریا چرن مجھے نظر آرہا تھا۔ وہ اسی طرح پائوں پھیلائے مجھ سے بے تعلق بیٹھا ہوا تھا۔ یہ گھنائونے لیس دار جالے چھت سے لے کر زمین تک پھیلے ہوئے تھے اور بے رنگ ہونے کی وجہ سے میں نے انہیں نہیں دیکھا تھا۔ پھر ان جالوں پر کوئی شے متحرک نظر آئی۔ اس تحریک سے میرا بدن بھی جالوں میں لپٹا ہل رہا تھا۔ آہ! یہ مکڑیاں تھیں۔ دس گیارہ مکڑیاں جو ان جالوں پر نمودار ہوئی تھیں اور اپنی پیلی بدنما آنکھوں سے مجھے گھورتی ہوئی مختلف سمتوں سے چلتی ہوئی میری سمت بڑھ رہی تھیں۔ ان کا حجم کوئی ایک بالشت ہوگا۔ میں ان کے پورے جسم کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ بھوریا چرن نے کہا۔
’’یہ میرے بیر ہیں‘‘ میری حفاظت کرتے ہیں۔ میں جاگ رہا ہوں یا سو رہا ہوں، یہ میرے لیے جاگتے رہتے ہیں۔ تم ایسا کبھی مت سوچنا۔ میرا کبھی کچھ نہ بگڑے گا، تمہیں نقصان ہوجائے گا۔ اگر ہاتھی بھی میری طرف بڑھے تو یہ جالے اسے لپیٹ لیں اور وہ ہل نہ پائے۔ یہ بیر اسے آنکھ جھپکے چٹ کرجائیں۔ یہ کالا جادو ہے بالک! کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ مگر کیا کروں تیرے بھاگ ہی خراب ہیں۔ دھرم دھرم کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ ارے شکتی ہی دھرم ہے۔ مایا شکتی ہو یا کایا شکتی! اس کے بناء کچھ نہیں ہوتا۔ کیا دے گا تیرا دھرم تجھے۔ کیا بگاڑ لے گا تیرا دھرم میرا…! میرا گیان مہان ہے۔‘‘
’’چاند خان پر تیرا جادو کیوں نہ چلا، ان کا کچھ کیوں نہ بگاڑ لیا تو نے! اس تعویذ کے پاس جاتے ہوئے تیری جان کیوں نکلتی تھی بھوریا چرن…‘‘ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا اور وہ مکروہ ہنسی ہنس پڑا۔
’’وہ کہاں جیتا ہے۔ ساٹھ، ستر اور لے مرا اپنے ساتھ۔‘‘ اس نے کہا۔
’’مجھے اس مزار پر جانے دو۔ پھر تیری شکتی دیکھوں۔‘‘
’’خطرناک راستے بند کرنا بھی عقلمندی ہے اور عقل بھی ایک شکتی ہوتی ہے بائولے! اب بھی مان لے میری، چھوٹا سا کام ہے، بہت چھوٹا سا اس کے بدلے تجھے جو کچھ ملے گا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ پھاگن دوار پہنچا دے مجھے بس ایک بار، ایک ہی بھاونا ہے من میں! بدلے میں بتا دے کیا چاہیے۔ جیون بھر کا سکھ، شانتی، دھن، دولت کے ڈھیر، سنسار جھکا دوں گا تیرے چرنوں میں۔ جو مانگے گا دوں گا بول کے تو دیکھ۔‘‘
’’بھوریا چرن! اتنا کچھ ہے تیرے قبضے میں…؟‘‘ میں نے کہا۔
’’اس سے بھی زیادہ بالک! اس سے بھی زیادہ۔ بھوریا چرن نے جیون بھر کیا کیا ہے۔ ساری عمر گیان لینے میں بتائی ہے۔ بڑے بڑے رشی منیوں کے چرنوں کی دھول پھانکی ہے اور اب سمے آگیا ہے۔ سمے آگیا ہے کہ…‘‘ وہ کسی خوش آئند خیال میں کھو گیا پھر چونک کر بولا۔ ’’ہٹو رے۔ ہٹو اس کے پاس سے… آجا بچہ نیچے اتر آ…!‘‘ اور اچانک میں جالے کی گرفت سے آزاد ہوگیا۔ مکڑیاں واپس چلی گئی تھیں۔
’’بھوریا چرن! اتنا کچھ ہے تیرے قبضے میں اور تو سیڑھیاں چڑھ کر پیر پھاگن کے مزار تک نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے تجھے کسی اور کا سہارا چاہیے۔‘‘ میں نے طنزیہ کہا اور اس کا چہرہ آگ ہوگیا۔
’’یہ تیرے سوچنے کی بات نہیں ہے۔‘‘
’’ہے بھوریا چرن! تیرا علم گندا ہے۔ سفلی ہے۔ ناپائیدار ہے اور وہ ایک پاک بزرگ کا مزار ہے۔ میں نہیں جانتا کہ تو وہاں کیوں جانا چاہتا ہے لیکن ایک بات ضرور جانتا ہوں تیرا ناپاک وجود اس پاک جگہ نہیں جانا چاہیے۔ کم ازکم میں اس کا ذریعہ نہیں بنوں گا۔ ہم مقدس جگہوں کا احترام اپنی زندگی سے زیادہ کرتے ہیں۔‘‘ وہ طیش کے عالم میں کھڑا ہوگیا۔ ’’ہے رے کتے کی پونچھ! ارے تیری ٹیڑھ تو ہم ایسے نکالیں گے کہ یاد رکھے گا۔ جا مر۔ بھاگ جا یہاں سے۔ اپنی ضد کے مزے چکھ! ٹھیک ہوگا، خود ٹھیک ہوگا۔‘‘
’’اللہ مالک ہے۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔‘‘ میں نے کہا اور بھوریا چرن دندناتا ہوا وہاں سے باہر نکل گیا۔ میرے بدن میں سنسنی پھیلی ہوئی تھی، دماغ جھنجھنا رہا تھا۔ اب اس خالی مکان میں رکنا بیکار تھا۔ ماضی کیسا بھی رہا ہو، ایک بات مجھے اب خاص طور سے محسوس ہورہی تھی وہ یہ کہ مصیبت میں پڑ کر، حالات سے اکتا کر میں نے ایک آدھ بار ضرور سوچا تھا کہ کب تک ان حالات کا مقابلہ کروں۔ اگر اس ناپاک سادھو کا کام کر ہی دوں تو کیا حرج ہے۔ میں تو وجہ بھی نہیں جانتا۔ یہ بھی نہیں معلوم مجھے کہ بھوریا چرن کو اس عمل سے کیا فائدہ حاصل ہوگا لیکن سب کچھ سوچنے کے باوجود جب کبھی اس کا سامنا ہوتا اور وہ مجھے دھمکیاں دے کر اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کہتا تو میرا ایمان تازہ ہوجاتا تھا اور میرا دل کسی طور اس بات کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا کہ میں اس کی اس ناپاک خواہش کی تکمیل کردوں، نجانے اس کے پس پردہ کیا ہے… بہرحال میں واپس پلٹا، دیوار پر چڑھ کر دوسری طرف کود گیا اور پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس علاقے ہی سے باہر نکل آیا۔ چاند خان صاحب کے لیے دل بری طرح دکھ رہا تھا۔ بیچارے بالآخر اسی عذاب کا شکار ہوگئے تھے جس عذاب کا شکار حکیم سعداللہ ہوئے تھے۔ تعویذ کی وجہ سے فوری طور پر تو بھوریا چرن، چاند خان صاحب کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا لیکن ریل کا حادثہ ایک ایسا کام تھا جس سے اس کے مقصد کی تکمیل ہوگئی تھی اور معمول کے مطابق کوئی ایسا شخص اس راز سے واقف نہیں رہ سکا تھا جس سے بھوریا چرن کا براہ راست واسطہ ہو اور پھر خان صاحب نے تو میری مشکل حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ خدا ان کی مغفرت کرے، اپنی نیکیوں کا شکار ہوگئے تھے۔ آہ! انہوں نے بہت احسانات کیے تھے ہم پر، کم ازکم انہوں نے میرے بھائی کو ایسی مشکل سے نکال دیا تھا اور اس کی جان بچ گئی تھی، ورنہ مجھے ایک عظیم صدمے سے دوچار ہونا پڑتا۔ بہن، ماں، باپ اور ماموں ریاض کا خیال آتا تو دل اس طرح سینے میں پھڑپھڑانے لگتا کہ بیان نہیں کرسکتا ہوں، آنکھیں ہر ذی روح کا جائزہ لینے لگتیں اور یہ دل چاہتا کہ ان میں سے کوئی میرا اپنا ہو، اچانک ہی مجھے ماموں ریاض نظر آجائیں یا میرے والد
نظر آجائیں۔ دوڑ کر ان سے لپٹ جائوں، سب کے بارے میں پوچھوں تاکہ دل کو سکون ہو، یہ تو پتا چل جائے کہ وہ کس حالت میں ہیں۔ کہیں سے کچھ نہیں معلوم ہورہا تھا ان کے بارے میں، کیسا جدا ہوا تھا میں ان سے، لیکن خیر دیکھنا یہ تھا کہ یہ عذاب کب تک میری زندگی پر نازل رہے گا۔ آخر ایک نہ ایک دن تو میری شنوائی بھی ہوگی۔ انتظار کروں گا اور اگر موت بھی آگئی تو سوچوں گا کہ یہ ان گناہوں کا کفارہ تھا جو میں نے کیے۔ بہرطور غلط نہیں تھا، میں نے بھی تو انسانیت سے دور کی باتیں سوچی تھیں۔ پھنس گیا تھا اس جنجال میں! یہ میری تقدیر ہے مگر اب کروں کیا…
بے شک واقعات کو کئی مہینے گزر گئے تھے، پانچ چھ مہینے میرا تحفظ ہوا تھا اور میں خطرات سے دور رہا تھا۔ پانچ چھ مہینے میرے لیے فائدہ مند بھی ثابت ہوئے تھے، نجانے کہاں کہاں جاتا اور نجانے کب پولیس کے ہاتھ لگ جاتا، لیکن یہ خطرہ ابھی تو دور نہیں ہوا تھا۔ میرے کیس کی فائل عارضی طور پر بند ضرور ہوگئی ہوگی لیکن ہندوستان بھر کی پولیس کو اس قاتل کی تلاش ضرور ہوگی جس نے بہت سارے قتل کیے۔ جیل توڑی، سنتری کو ہلاک کیا۔ ایسے مجرم کو آسانی سے نظرانداز تو نہیں کیا جاسکتا۔ بے چارے شاہ صاحب جنہوں نے میرا ساتھ دیا تھا، جو کچھ بھی کرسکتے تھے، کیا تھا۔ خود بھی سوچتے ہوں گے کہ میں کیسا آدمی تھا۔ ریحانہ بیگم، سرفراز وہ سارے ہی لوگ یقیناً اس سوچ کا شکار ہوں گے بلکہ ہوسکتا ہے مجھ سے تھوڑی سی قربت کی بناء پر ان پر بھی کوئی مشکل وقت آگیا ہو۔ پوچھ گچھ تو ہوتی ہوگی ان سے اور ہوسکتا ہے پولیس باقاعدہ ان کی نگرانی کرتی ہو۔ کون کون میری وجہ سے مشکل کا شکار ہوگا، کچھ نہیں کہہ سکتا تھا اور اب یہ بے چاری رما رانی تھیں جنہوں نے مجھے پانچ چھ مہینے اپنے ساتھ رکھا تھا اپنے بیٹے کی حیثیت سے اور جو کہتی تھیں کہ یہ بہت بری جگہ ہے اور میں ہوش میں آکر یہاں سے چلا جائوں گا۔ میں وہاں سے نکلنا ضرور چاہتا تھا لیکن یہ سوچ کر نہیں کہ وہ کوئی بری جگہ ہے۔ مجھ سے برا اس وقت اس روئے زمین پر کون تھا بلکہ یہ احساس تھا مجھے کہ کہیں ان کی اس چھ مہینے کی خدمت کا صلہ میں انہیں ان کی تباہی کی شکل میں نہ دوں۔ میرے منحوس قدم جہاں بھی پہنچیں گے، وہاں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ جہاں تک بھوریا چرن پر طنز کا معاملہ تھا، میں نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔ وہ اپنی تمام تر قوتوں کے باوجود ایک بزرگ کے مزار تک کا فاصلہ نہیں طے کرسکتا تھا، لیکن اتنا میں ضرور جانتا تھا کہ باقی جو کچھ وہ کرسکتا ہے، ضرور کرے گا۔
انہی سوچوں میں گم آگے بڑھتا رہا۔ ایک سڑک سے گزر رہا تھا۔ اس خوف کا احساس بھی تھا کہ کہیں پولیس کی نگاہ مجھ پر نہ پڑ جائے، دفعتاً ہی ایک گاڑی کی آواز سنائی دی۔ گاڑی میرے قریب سے گزر رہی تھی۔ سست ہوئی اور پھر رک گئی۔ میں نے غور بھی نہیں کیا تھا لیکن ابھی چند لمحات بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک شخص میرے پاس پہنچ گیا اور اس نے کہا۔’’رتن جی…‘‘ میں نے چونک کر اسے دیکھا، بالکل اجنبی چہرہ تھا۔ میں سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا تو اس نے انگلی سے گاڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
’’وہ بلاتی ہیں…‘‘ میں نے گاڑی کی طرف دیکھا۔ پچھلی کھڑکی سے شکنتا کا چہرہ جھانک رہا تھا۔ وہی چہرہ جسے میں نے دیکھا تھا اور اس کے بعد کشنا کے عتاب کا شکار ہوا تھا۔ ایک لمحے کے لیے جھجک پیدا ہوئی لیکن پھر اچانک ہی دل میں یہ خیال آیا کہ دیکھا تو جائے یہ شکنتا کا کیا معاملہ ہے۔ آگے بڑھ کر قریب پہنچ گیا۔ شکنتا پچھلی سیٹ پر تھوڑا سا پیچھے کھسک گئی اور اس نے مسکراتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔ میں نے کھڑکی سے صرف اس کا چہرہ دیکھا تھا، لباس نہیں دیکھا تھا۔ بہرطور میں جھجکتا ہوا اس کے قریب بیٹھ گیا اور بیٹھنے کے بعد میں نے اس کا لباس دیکھا۔ سفید شلوار، سفید قمیض میں ملبوس تھی۔ بال ایک خاص انداز میں بنائے ہوئے تھے۔ گھٹنوں پر کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ اس نے ڈرائیور سے کہا۔ ’’چلو…‘‘ ڈرائیور وہی آدمی تھا جو مجھے بلا کر لایا تھا۔ اس نے اپنی جگہ بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ میں سکتے کے سے عالم میں تھا۔ شکنتا نے مسکراتی ہوئی نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک شوخ سی چمک تھی۔ درحقیقت اس کے چہرے پر بھرپور نگاہ ڈالنے کی جرأت مجھے ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ پہلی بار اسے نیند سے جاگ کر دیکھا تھا۔ نجانے کیا لگتی تھی وہ! دوسری بار ہلکی سی جھلک دیکھی تھی اور دل میں یہ احساس پیدا ہوا تھا کہ وہ لاکھوں میں ایک ہے۔ اتنے خوبصورت چہرے کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ بس! اس کے چہرے کی تفصیل میں جانا خواہ مخواہ ذہن کی بربادی ہے لیکن اب اس کے قریب آکر میں اس سے یہ معلوم کرنے کی ہمت نہیں پا رہا تھا کہ میرا اور اس کا کیا معاملہ ہے۔
’’گردھاری جی! ایسے پتھرائے ہوئے کیوں بیٹھے ہو۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں…؟‘‘ میں نے چونک کر اس کی صورت دیکھی اور گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا…
’’گگ… گردھاری… نن… نہیں… مم… میرا…‘‘ وہ بے اختیار ہنس پڑی اور پھر بولی۔
’’بس مٹی کے مادھو ہو میرے! تمہیں اس سنسار میں آنے کی کیا ضرورت تھی…؟‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی، ہونٹوں پر خودبخود مسکراہٹ آگئی۔ جی چاہا کہ کہوں کہ واقعی اس دنیا میں میرا وجود سب سے زیادہ بے قیمت ہے مگر کاش! میں اپنی مرضی سے اس دنیا میں نہ آنے کا اعلان کرسکتا۔ گاڑی زیادہ دور نہیں گئی۔ ایک پتلی سی گلی میں مڑی اور گلی کے آخری سرے پر بنے ہوئے مکان کے سامنے جا رکی۔ اچھا خاصا مکان تھا۔ چھوٹی چھوٹی سرخ اینٹوں سے بنا ہوا بڑا سا دروازہ تھا جس سے گاڑی اندر داخل ہوسکتی تھی سو ایسا ہی ہوا۔ ایک گیراج نما جگہ گاڑی رک گئی اور شکنتا دوسری طرف کا دروازہ کھول کر نیچے اتر گئی۔ میں ساکت بیٹھا رہا تو وہ ہنستی ہوئی دوسری سمت آئی اور اس نے میرا دروازہ کھول دیا۔ پھر بولی۔
’’تشریف لایئے مہاراج! داسی آپ کی سیوا کرنا چاہتی ہے۔‘‘ میں گھبرائے ہوئے انداز میں نیچے اتر گیا۔ ڈرائیور اپنی سیٹ پر خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ شکنتا نے میرا ہاتھ پکڑا اور تین سیڑھیاں عبور کرکے پیتل کی کیلوں لگے دروازے کے پاس پہنچ گئی جس کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا۔ دروازے سے اندر داخل ہوئے تو پتھروں ہی کے فرش کی ایک ڈیوڑھی نظر آئی اور اس کے دوسرے دروازے سے باہر نکلے تو بڑا سا صحن تھا جس کے دونوں سمت درخت جھول رہے تھے۔ آگے ایک وسیع و عریض دالان تھا اور دالان کے تین سمت کمروں کے دروازے، سامنے والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ شکنتا مجھے ساتھ لیے ہوئے اسی دروازے سے اندر داخل ہوگئی۔ بہت قیمتی قالین بچھا ہوا تھا۔ صوفے پڑے ہوئے تھے، میزیں تھیں اور بہت سا خوبصورت آرائش کا سامان، اس نے چھت میں لگا ہوا پنکھا چلا دیا اور مجھ سے بولی…
’’پدھاریے۔‘‘ میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس نے ساتھ لائی ہوئی کتابیں ایک طرف رکھیں اور پھر میرے سامنے بیٹھ کر مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگی۔ پھر بولی۔
’’یہاں آکر حیرت نہیں ہوئی۔‘‘ میں نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تو کہنے لگی۔
’’دیکھو میرے سامنے تم یہ مٹی کے مادھو مت بنے رہا کرو اور کون سی زبان سے کہوں تم سے، بائولے ہوگے کسی اور کے لیے، میرے لیے تم بائولے مت رہا کرو۔ اچھی طرح جانتی ہوں تمہیں۔‘‘
’’شش… شکنتا، شکنتا جی! میں… میں…‘‘
’’جی… جی آگے کہئے؟‘‘
’’کیا کہوں…؟‘‘
’’اچھا! یہ بتائو کیا پیو گے؟‘‘
’’کک… کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ میرے گھر آئے ہو۔‘‘ وہ ہنسی اور پھر بولی۔
’’مانتے ہو نا اسے میرا گھر…‘‘
’’پتا نہیں۔‘‘ میں آنکھیں بند کرکے گردن ہلاتا ہوا بولا اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی پھر اس نے کہا۔
’’ہاں! یہ میرا اصل گھر ہے۔ ٹھہرو تمہیں شربت تو پلا ہی دوں۔ مجھے بھی زیادہ دیر یہاں نہیں رکنا، ابھی آئی۔‘‘ وہ اٹھی اور دروازے سے باہر نکل گئی۔ یہ سب کچھ بھی بے حد پُراسرار تھا، عقل میں نہ آنے والا، شکنتا تو اس بازار کی لڑکی تھی اور رما رانی کے کوٹھے کے سامنے والے کوٹھے میں رہتی تھی۔ پھر یہ گھر یہ تعلیمی لباس، یہ کتابیں، ڈرائیور… یہ سب کچھ کیا ہے۔ آہ! جتنے پراسرار واقعات ہیں، میری ہی تقدیر میں لکھے ہوئے ہیں۔ نجانے یہ کیا نیا کھیل ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا لیکن شکنتا کے بارے میں جاننے کی خواہش بھی رکھتا تھا۔ ویسے بھی اس کے اندر ایک انوکھی کشش کا احساس ہوتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر کے بعد واپس آگئی۔ ہاتھوں میں ٹرے اٹھائے ہوئے تھی جس میں شربت کے دو گلاس رکھے ہوئے تھے۔ اس نے ایک گلاس میرے سامنے رکھ دیا۔
’’حیران بیٹھے ہو۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔
’’تم کون ہو شکنتا…؟‘‘
’’لوگ مجھے شکنتا کہتے ہیں، لیکن میں رتن کی رتنا ہوں۔ بہت بار جی چاہا کہ تمہیں یہاں لائوں مگر گوپال جی گوپیوں کے بیچ سے نکلتے ہی نہیں۔ یہ آج کہاں بھٹک گئے تھے۔‘‘
’’میں…؟‘‘
’’تو اور کون…؟ ایک بات کہوں رتن جی۔‘‘
’’کہو۔‘‘
’’سپنا، موہنی اور سونیا بھی یہی کہتی ہیں اور میں بھی۔ تم پاگل نہیں ہو، پاگل بنے ہوئے ہو اور جانے کسے پاگل بنانے کے لیے۔ مجھے نہیں بتائو گے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’تم نے یہ روپ دھارن کیوں کیا ہے؟‘‘
’’اس سے پہلے تمہیں کچھ بتانا ہوگا شکنتا۔‘‘ میں نے لہجہ بدل کر کہا اور وہ چونک پڑی۔ غالباً اسے میرا یہ بدلا ہوا لہجہ عجیب لگا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت نظر آنے لگی، پھر اس نے سنبھل کر کہا۔ ’’کیسی بات، کون سی بات۔‘‘
’’تم مجھے کب سے جانتی ہو؟‘‘
’’نجانے کب سے، شاید اس سے بھی پہلے سے، جب تم مجھے رما رانی کے ہاں نظر آئے تھے۔ یقین کرو رتن! جب میں نے تمہیں وہاں دیکھا تو لگا جیسے میرا کوئی سامنے والے گھر میں پہنچ گیا ہو، تم مجھے اس گھر کے لگے ہی نہ تھے۔ رادھا سے پوچھا تو رادھا نے بتایا کہ رما جی یاترا کو گئی تھیں، وہاں کسی مندر کے پاس تم انہیں مل گئے اور وہ تمہیں ساتھ لے آئیں۔ رادھا کی بات من کو جچی نہیں تھی، پر تم اپنے ہو کر اجنبی اجنبی سے لگے۔ سب لوگ کہتے تھے تم بائولے ہو، پر میرا من کبھی نہ مانا۔ رتن بھگوان کی سوگند تم اتنے اپنے لگے ہو کہ کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہوں کہ میرا تم سے پچھلے جنموں کا کوئی ناتا ہے۔‘‘
’’یہ جگہ جہاں تم اس وقت ہو اور شکنتا تمہارا یہ روپ…؟‘‘
’’ہاں! تمہیں حیرت ہوئی ہوگی۔ اس کے پیچھے ایک چھوٹی سی کہانی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’رتن! جہاں تم رہتے ہو، وہاں کی باتیں اب تو سب کی سب جان گئے ہوگے۔ بڑی عجیب سی جگہ ہے وہ، میری ماں بملا وتی بہت سخت ہیں۔ میرے پتا جی کا نام مجھے کبھی نہیں بتایا گیا۔ سنا ہے کہ بہت بڑے آدمی ہیں۔ بملا وتی سے اب ان کا کوئی رشتہ نہیں رہا۔ مگر انہیں یہ معلوم تھا کہ میں ان کی اولاد ہوں۔ انہوں نے مجھے ساتھ لے جانا چاہا تو میری ماں بملا وتی نے صاف انکار کردیا۔ بات بہت آگے بڑھی اور بہت سے جھگڑے بیچ میں آئے، پھر طے یہ ہوا کہ میں اپنی ماں کے ساتھ ہی رہوں گی مگر ناچ گانے کا کام نہیں کروں گی۔ میرے پتا نے میرا خرچ سنبھال لیا، مجھے یہ گھر دیا اور میری پڑھائی کا بندبست کیا۔ یہ بات میری ماں اور پتا کے بیچ طے ہوگئی تھی کہ میرے پتا کبھی اپنا نام سامنے نہیں لائیں گے اور مجھے کبھی میری ماں سے دور نہیں کریں گے۔ ماں نے آج تک مجھے میرے پتا کا نام نہیں بتایا۔ میں نے چونکہ اپنے پتا کو دیکھا بھی نہیں ہے اس لیے میرے من میں ان کی کوئی تصویر نہیں ابھرتی۔ اپنے گھر سے میں پہلے یہاں آتی ہوں۔ کپڑے بدلتی ہوں۔ پہلے اسکول جاتی تھی، اب کالج جاتی ہوں۔ کالج میں کوئی نہیں جانتا کہ میری اصلیت کیا ہے۔ کبھی کبھی کالج کی سہیلیاں میرے پیچھے پڑتی ہیں تو میں انہیں یہاں لے آتی ہوں۔ ماں کو پہلے بتا دیتی ہوں اور وہ ماں بن کر میری سہیلیوں کا سواگت کرتی ہیں۔ سارے کام ایسے ہی چل رہے ہیں۔ کالج سے واپسی پر میں یہیں آتی ہوں، لباس بدلتی ہوں اور پھر ماں کے پاس پہنچ جاتی ہوں۔ پتا نہیں آگے میرے ماتا اور پتا کے بیچ کیا منصوبہ ہے مگر یہ بات طے ہے کہ میری ماں مجھے ناچ گانے کے دھندے سے نہیں لگائے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے پتا کبھی میرے سامنے آکر میرے سر پر ہاتھ رکھ دیں۔ رتن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تمہارا رما رانی سے کوئی سمبندھ نہیں ہے۔ رتن میں نے ہمیشہ تمہیں اپنے سپنوں میں بسایا ہے۔ سوگند کھا چکی ہوں کہ اس سے پہلے بھی تم میرے سپنوں میں تھے جب تم رما رانی کے پاس نہیں آئے تھے۔ مانو یا نہ مانو! بات کہانیوں جیسی ہے، پر ہے۔ اور میں کسی بھی قیمت پر تمہارا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی اور کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘
میں حیرانی سے اسے دیکھتا رہا۔ اس کی کہانی انوکھی تھی، بڑی عجیب مگر ایسا بھی ہوتا ہوگا۔ مجھے اب اتنی واقفیت تو نہیں تھی اس ماحول اور اس دنیا کے بارے میں، شربت کا گلاس میں نے خالی کردیا اور پھر بولا۔ ’’اب اٹھو گی نہیں یہاں سے شکنتا…؟‘‘
’’ابھی نہیں۔‘‘
’’دیر ہوگئی تو تمہاری ماں پریشان نہ ہوگی؟‘‘
’’جو ہوتا ہے ہونے دو۔ بڑی مشکل سے تو یہ موقع ملا ہے، مجھے تم اکیلے ہاتھ لگے۔ جب بھی ملتے ہو، کوئی نہ کوئی سر پر سوار ہوتا ہے اور پھر وہ کشنا، اسے تو میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ آفت کی پڑیا ہے اور تم سے پریم کرتی ہے۔ مگر اس کا پریم میرے پریم جیسا نہیں ہے۔ اس کی ماں رما رانی تمہیں اپنے بیٹے جیسا مانتی ہے۔ اس طرح تم اس کے بھائی ہوئے مگر یہاں رشتے نہیں ہوتے اور پھر منہ بولے رشتے… ان کا تو کوئی بھائو ہی نہیں۔ رتن سمے تھوڑا ہے، تم سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ رتن دیکھو میرا تمہارا جیون بھر کا سمبندھ ہوسکتا ہے۔ ہم تم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ تم وہاں کے نہیں ہو جہاں رہتے ہو اور میں… میں نے تو تمہیں اپنے بارے میں بتا ہی دیا۔ میرے پتا نے جو کچھ کیا ہے، میرے لیے کیا ہے، اس سے تمہیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ میں کوٹھے والی کبھی نہ بنوں گی اور جب پتا جی میرے سر پر ہاتھ رکھیں گے تو… تو میں انہیں تمہارے بارے میں بتا دوں گی۔ ان سے کہہ دوں گی کہ اگر وہ مجھے عزت کی زندگی دینا چاہتے ہیں تو رتن کو میرا جیون ساتھی بنا دیں۔ نہیں تو میرے لیے کوٹھا بھلا ہے۔ شرط لگا دوں گی ان پر۔ اور وہی ہوگا جو میں چاہوں گی۔‘‘ وہ مجھے دیکھنے لگی۔
چلو شکنتا! چلیں یہاں سے۔‘‘
’’رتن! تم مجھے اپنے بارے میں نہیں بتائو گے۔‘‘
’’کیا بتائوں شکنتا! کیا بتائوں تمہیں اپنے بارے میں۔‘‘
’’تم کون ہو…؟‘‘
’’ایک سوال میں تم سے ہی کرتا ہوں شکنتا!‘‘
’’کیا۔‘‘
’’اگر مجھے اپنے بارے میں کچھ معلوم ہوتا تو… تو میں یہاں کیوں ہوتا۔ کون اپنا گھر چھوڑ کر ایسی جگہ رہتا۔‘‘
’’تم… تم پاگل تو نہیں ہو۔‘‘
’’میں پاگل ہوگیا تھا شکنتا! اب نہیں ہوں۔ مجھے ہوش ضرور آگیا ہے مگر یہ یاد نہیں کہ میں کون ہوں۔ میرا گھر کہاں ہے۔ میرے ماتا پتا کون ہیں۔ میں اپنی کھوج میں ہوں شکنتا! ان لوگوں کو اپنے ہوش کے بارے میں بتانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ کیا ملے گا اس سے بلکہ یہ ممکن ہے یہ جگہ بھی چھن جائے۔ میرے پاس تو کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ہے، کہاں جائوں گا میں۔‘‘ میری آواز بھرا گئی۔ شکنتا مجھے حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے میری باتوں پر یقین کرلیا تھا۔
’’بھگوان کرے تمہیں سب کچھ یاد آجائے مگر خود کو اکیلا کیوں سمجھتے ہو، میں جو ہوں۔ سنو! میں روز کالج جاتی ہوں۔ یہیں سے جاتی ہوں، یہیں واپس آتی ہوں، تم روز یہاں آجایا کرو۔ ہم کچھ وقت ساتھ گزاریں گے اور پھر وہاں جاکر تم مجھ سے اجنبی ہوجایا کرو۔ اس طرح میرے من کو شانتی رہے گی اور کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔‘‘
’’خطرہ پیدا ہوجائے گا شکنتا! تمہارے لیے بھی اور میرے لیے بھی۔ ہاں کبھی کبھی ہم مل لیا کریں گے۔ میں خود یہاں آجایا کروں گا!‘‘
’’جیسے تمہاری مرضی۔‘‘ شکنتا نے کہا۔
’’میں چلوں۔‘‘
’’ہاں جائو۔ میں کچھ دیر کے بعد جائوں گی تاکہ کسی کو شبہ نہ ہوجائے۔‘‘ اس نے مجھے بڑی چاہت سے رخصت کیا تھا۔ میرے دل پر بڑے بوجھ تھے۔ انوکھی کہانیوں کے بوجھ، انوکھے واقعات کے بوجھ، خان صاحب کی موت، ریل کا حادثہ، منحوس بھوریا چرن سے ملاقات، اس کے الفاظ، اس کے کام کے سلسلے میں اپنی استقامت! یہ ساری باتیں ذہن منتشر کررہی تھیں اور پھر شکنتا! انوکھی کہانی تھی اس کی۔
واپس آگیا۔ کوئی اور نئی بات نہ ہوئی۔ شام ہوگئی، ماحول بدل گیا، رشتے بدل گئے، چہرے بدل گئے۔ مہمانوں کے لیے ہار لینے نکلا تھا،ہار لے کر واپس آرہا تھا کہ ساری جان آنکھوں میں سمٹ آئی، جو دیکھا ناقابل یقین تھا۔ کیا میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں درست ہے۔ کیا یہ ماموں ریاض ہی ہیں؟
آنکھیں دھوکا نہیں دے رہی تھیں۔ یہ ان صورتوں میں سے ایک صورت تھی جو آنکھوں کی حسرت بن چکی تھیں۔ ماموں ریاض ہمارے ماموں ہی نہیں دوست بھی تھے۔ اتنا اچھا وقت گزرتا تھا ان کے ساتھ کہ اب یاد بھی کرتا تو یقین نہیں آتا تھا۔ مگر وہ تنہا نہیں تھے۔ ان کے ساتھ تین اور آدمی بھی تھے۔ ایک لمبے تڑنگے نوابوں جیسے حلیے کے صاحب، باریک ململ کا کڑھا ہوا کُرتا پہنے، سلک کی شیروانی جس کے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ دودھ جیسا سفید رنگ، تلوار کٹ سیاہ مونچھیں، سر پر کالی ترچھی ٹوپی، چوڑی دار پاجامہ، لوفر شوز جن کی ’’چررچرر‘‘ شور کے باوجود سنائی دے رہی تھی۔ ہونٹوں پر پان کی دھڑی جمی ہوئی۔ دوسرے دو بھی کسی حد تک ایسے ہی لباس میں ملبوس تھے البتہ ماموں ریاض شلوار قمیض پہنے ہوئے صاف ستھرے نظر آرہے تھے مگر ان صاحب کے ساتھ چلتے ہوئے ان کا انداز بھی مودبانہ نظر آتا تھا۔
دل نے پورا یقین کرلیا کہ یہ ماموں ریاض ہی ہیں۔ بدن میں پھریری سی آئی۔ پائوں آگے بڑھے۔ جی چاہا دوڑ کر لپٹ جائوں۔ اتنا روئوں کہ آنکھیں آنسوئوں کے ساتھ بہہ جائیں مگر عقل نے روکا۔ اپنے بارے میں کچھ اندازہ ہے مسعود، ہاتھوں میں پھولوں کے ہار کے پُڑے دبے ہوئے ہیں۔ ایک بری جگہ رہتا ہے، حرام کی کمائی پر جی رہا ہے۔ کیا لگ رہا ہے اس کا علم ہے اور پھر… اس کے بعد کیا ہوگا وہی سب کچھ نا جس سے بچنا چاہتا ہے۔ آہ! مگر ماموں کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ پتا تو لگے کہ وہ شکتی پور میں کب آئے۔ امی اور ابا کہاں ہیں، سب کیسے ہیں۔ انہیں محمود کے بارے میں بتائوں، نہ جانے امی اور ابا کا کیا حال ہوگا۔
’’رتنا…!‘‘ کسی نے مجھے پکارا اور میں چونک پڑا۔ گھوم کر دیکھا مالتی تھی… ’’یہاں کھڑے سو رہے ہو۔ وہاں رما رانی انتظار کر رہی ہیں تمہارا۔‘‘
’’مالتی! تم یہ ہار لے جائو۔ مجھے کچھ کام ہے۔‘‘
’’ارے لے کر جائو دوڑتے ہوئے میں دوسرے کام سے جارہی ہوں!‘‘ مالتی نے کہا اور گردن جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔ میں رک کر ان لوگوں کو دیکھتا رہا۔ وہ سامنے والے کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ یہ اطمینان ہوگیا کہ وہ لوگ بملاوتی کے مہمان ہیں۔ پہلے ہار دے آئوں اس کے بعد آجائوں گا اور پھر کچھ سوچوں گا۔ تیزی سے آگے بڑھا اوپر پہنچا تو شریر کشنا نظر آئی۔ زرق برق جوڑے میں ملبوس سرخی پائوڈر سے سجی ہوئی، آنکھوں میں کاجل کے ڈورے سجے ہوئے تھے۔
’’گجرے لائے ہو…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں! اس میں ہیں۔ یہ سنبھالو مجھے کچھ کام ہے۔‘‘ میں نے اسے پُڑے دینے کی کوشش کی اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔
’’مجھے بھی کام ہے۔ میرے ساتھ آئو۔‘‘
’’کشنا! لے لو جلدی سے بڑا نقصان ہوجائے گا۔‘‘ میں نے عاجزی سے کہا۔
’’نہ رتن جی! آئو نا مجھے بھی کام ہے تم سے۔ مالتی نہیں ہے ورنہ تمہیں تکلیف نہ دیتی۔‘‘ وہ واپس مڑ گئی۔ رما رانی، رادھا اور لکشمی ہال کمرے میں تھیں جہاں طبلے کی تھاپ اور سارنگی کے ساتھ گھنگھرو چھنک رہے تھے۔ مجبوراً میں کشنا کے ساتھ کمرے میں داخل ہوگیا۔ کشنا نے پُڑے کھولے، گجرے نکالے اور پھر موتیا کے پھولوں کا ایک ہار مجھے دے کر بولی۔ ’’اسے میرے بالوں میں سجائو۔‘‘
’’کشنا! میں…؟‘‘ میں نے پھر خوشامد کی۔
’’باندھو رتن۔ پھول لگانے سے تم پتی نہیں بن جائو گے میرے۔ چلو لگائو۔‘‘ مجھے اندازہ تھا کہ وہ مجھے ایسے نہیں چھوڑے گی، مجبوراً اس کے بالوں میں پھول سجائے، اس نے کلائیوں کے گجرے اٹھا کر مجھے دیے۔ ’’انہیں میرے ہاتھوں میں سجائو۔‘‘
’’تم مجھ پر ظلم کررہی ہو کشنا…!‘‘
’’تم نے بھی تو ہم پر ظلم کررکھا ہے نہ جانے کب سے۔ باندھو بھئی دیر ہورہی ہے۔‘‘ خاصی دیر لگی، اس سے پیچھا چھڑا کر میں پھر نیچے بھاگا۔ پوری گلی میں نظر دوڑائی۔ وہ لوگ نظر نہیں آرہے تھے۔ اطمینان ہوا کہ وہ بملاوتی یعنی شکنتا کے کوٹھے پر ہیں۔ اب کیا کروں۔ کیا اوپر چلا جائوں۔ مگر پھر… پھر کیا کروں گا۔ ماموں کے سامنے اس طرح نہیں جانا چاہتا تھا۔ نہ جانے کیا ہوجائے۔ ذرا بھی کسی کو اندازہ ہوگیا میرے بارے میں تو شاید اس بار پولیس مجھے گرفتار کرنے کی زحمت بھی نہ کرے گی۔ دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی، کیونکہ اب میں صرف دو آدمیوں کا قاتل نہیں تھا بلکہ پولیس کے دو افراد بھی میرے ہاتھوں مارے جا چکے تھے۔ وہ تو شکر تھا کہ پاگل کی حیثیت سے نجانے کیسے یہاں وقت گزارتا رہا تھا اور کسی کو پتا نہیں چل سکا تھا، ابھی تک تو محفوظ تھا لیکن کمینہ صفت بھوریا چرن کی ایک ہلکی جنبش مجھے پھر مصیبتوں میں گرفتار کرسکتی تھی، اس کا خوف تو لمحہ لمحہ رہتا تھا۔ میرے ساتھ جو بھی ہوگا عذاب میں گرفتار ہوجائے گا۔ نجانے بے چارے ماموں ریاض کیا کررہے ہیں اور کس طرح یہ لوگ اپنے آپ کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ ماموں ریاض کی جو جھلک دیکھی تھی، اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ بہت زیادہ بے کسی کا شکار نہیں ہیں۔ مگر کہاں ہیں، کیا کررہے ہیں۔ شکتی پور میں کیسے آنا ہوا، کیا یہیں رہتے ہیں۔ یہ ساری باتیں ذہن کے پردوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ فیصلہ کیا کہ جب وہ نیچے اتریں گے تو ان کا پیچھا کروں گا، یہ دیکھنے کی کوشش کروں گا کہ کہاں رہتے ہیں۔ بعد میں یہ سوچا جائے گا کہ کیا قدم اٹھانا ہے اس بات پر ذرا دل جم گیا تھا۔
بہت دیر تک پوری گلی کے چکر لگاتا رہا۔ یہاں جو کچھ ہوتا تھا، اب میری نگاہوں سے اوجھل نہیں تھا۔ ان لوگوں کے فوری طور پر نیچے آنے کا امکان نہیں تھا، اگر رقص کی محفل میں جم گئے تو رات کے بارہ ہی بجیں گے۔ کچھ بھی ہوجائے میرے لیے اس سے زیادہ قیمتی کام اور کیا ہوسکتا تھا، فتح محمد پنواڑی کی دکان پر رک گیا اور دکان کے قریب لگے ہوئے بجلی کے کھمبے کے نیچے جو ایک سیمنٹ کا تھڑا سا بنا ہوا ہوتا ہے، اس پر بیٹھ گیا۔ فتح محمد کے ہاتھ برق رفتاری سے چل رہے تھے اور وہ پانوں کے انبار لگائے جارہا تھا۔ گاہک آتے، فتح محمد ان سے طرح طرح کی باتیں کرتا اور پانوں کی گلوریاں بنا کر انہیں پیش کردیتا۔ اس کی چرب زبانی سننے کے قابل تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے گاہکوں کا توڑا ہوا تو اس نے مجھے دیکھا اور بولا۔
’’بھئی رتن لال جی! آج یہاں کیسے بیٹھے ہو، اداس اداس سے۔ جھگڑا ہوگیا کیا گھر میں کسی سے…؟‘‘ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن جب اس نے بات کی تو جواب دینا بھی ضروری تھا۔ میں نے پھیکی سی ہنسی ہنس کر کہا… ’’میرا کس سے جھگڑا ہوگا بھائی فتو…؟‘‘
’’ہو بھی سکتا ہے، ویسے ایک بات اپنی کھوپڑی میں ایسی اٹکی ہے کہ کھوپڑی کا بھوسہ نکل گیا ہے، سوچ رہے تھے کہ تم سے پوچھیں گے جب بھی ہاتھ لگو گے ضرور پوچھیں گے…‘‘
’’کیا بھائی فتو…‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یار! اس دن جب تم ہم سے باتیں کررہے تھے تو تمہارے منہ سے اچانک میرے خدا نکلا تھا، یہ کیا چکر ہے تم تو ہندو ہو نا…؟‘‘
میں حیران رہ گیا، میرے فرشتوں کو بھی گمان نہیں تھا کہ ایسی کوئی بات ہوگئی ہے۔ یقینا ہوا ہوگا ایسا ہی مگر کیا جواب دوں اس کو، خواہ مخواہ ہنس پڑا۔
’’فتح محمد، بہت زیادہ گہرائیوں میں نہیں جاتے۔ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا پردے میں رہنا ہی اچھا ہوتا ہے۔‘‘
’’لو اور سنو! اماں کیا ہم کسی سے کہنے جارہے ہیں۔ یار نہیں ہو ہمارے بس ذرا یہ بتا دو کہ تمہارے منہ سے بھگوان بھگوان کیوں نہ نکلا…؟‘‘
’’بتا دیں گے فتح محمد، کبھی فرصت کے وقت بتا دیں گے۔‘‘
’’لو گھنٹہ بھر سے یہاں بیٹھے ہوئے ہو فرصت نہیں ہے تمہیں، اماں کیا کسی کا انتظار کررہے ہو…!‘‘
’’ہاں یہی سمجھ لو…‘‘
’’کس کا…؟‘‘ فتح محمد نے کہا۔ شکر تھا کہ کچھ گاہک اس کی دکان پر آگئے، میں اسے جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔ وہ گاہکوں میں الجھا تو میں آہستہ سے اس کی دکان پر سے اٹھ گیا اور اس کے بعد وہاں سے کافی دور چلا گیا۔ میری نگاہیں کوٹھے پر لگی ہوئی تھیں۔ وقت گزرتا رہا۔ بیٹھے بیٹھے اور گھومتے گھومتے پورا بدن تھک گیا تھا۔ اچانک ہی مالتی مجھے تلاش کرتی ہوئی پہنچ گئی۔
’’اے تم نے تو مار ہی ڈالا رتن لال جی! کہاں چلے گئے تھے ارے چلو رما رانی بلا رہی ہیں۔‘‘
’’کیا کام ہے…‘‘ میں نے جھلائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’لو تم بھی مجھے ہی ڈانٹ رہے ہو، ادھر سے بھی ڈانٹ پڑ رہی ہے اور ادھر سے بھی۔ اب کام تو تمہیں رما رانی ہی بتائیں گی۔ ہم کیا بتائیں۔‘‘
’’تم چلو میں آرہا ہوں…‘‘
’’ساتھ چلو، یہی کہا ہے انہوں نے۔‘‘ میں دانت پیستا ہوا مالتی کے ساتھ واپس چل پڑا۔ بہتر یہ تھا کہ کسی ایسی جگہ روپوش ہوتا جہاں سے کوئی مجھے دیکھ نہ پاتا، خواہ مخواہ یہ لوگ ذہن خراب کررہے ہیں۔ گھر واپس پہنچا تو رما رانی نے ایک کام میرے سپرد کردیا۔ میں بھلا ان سے کیا کہتا، کوئی دس پندرہ منٹ مصروف رہنا پڑا تھا اور اس کے بعد جیسے ہی کام ختم ہوا، میں مالتی سے کہہ کر وہاں سے نکل بھاگا، تھوڑی دیر کے بعد پھر میں ایک ایسی جگہ کھڑا انتظار کررہا تھا، جہاں سے بملاوتی کے کوٹھے کا دروازہ صاف نظر آتا تھا۔ بارہ بج گئے، سازوآواز کا کھیل ختم ہوگیا اور مہمان اتر اتر کر گلی سے باہر کھڑے ہوئے تانگوں کی جانب بڑھ گئے۔ کچھ کی اپنی موٹریں تھیں اور کچھ تانگوں وغیرہ میں آئے تھے، باقی پیدل ہی چل پڑے تھے… لیکن بملا وتی کے زینے سے وہ لوگ نیچے نہ اترے۔ میرا دل دھک سے ہوکر رہ گیا۔ بملا وتی کے کوٹھے سے دوسرے بہت سے مہمان نیچے اترے تھے، پتا نہیں وہ لوگ کہاں غائب ہوگئے تھے۔ کچھ اور وقت گزرا تو میری پریشانی انتہا کو پہنچ گئی اور اب میں اپنے قدم نہیں روک سکا تھا… یہ کیا ہوا۔ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اندر پہنچا۔ سارا ساز و سامان سمٹ رہا تھا۔ ایک ہی انداز ہوتا تھا ان کوٹھوں پر زندگی کے آغاز کا… اور اختتام کا… بملا وتی نے مجھے دیکھا۔ ان کے ساتھ کچھ اور لڑکیاں بھی تھیں، مجھے دیکھ کر عجیب سے انداز میں مسکرائیں۔ شکنتا موجود نہیں تھی۔ بملا وتی نے نرمی سے کہا۔
’’ارے رتنا تو… آآ… کسی کام سے آیا ہے کیا؟‘‘
’’نن… نہیں وہ بملا جی… بملا جی…!‘‘
’’ارے یہ بملا جی کیا ہوتی ہے بھئی، چاچی جی کہتا تھا تو مجھے آج بملا جی کیسے کہہ رہا ہے۔ بھول گیا اسے، ارے رتنا! میں تیری چاچی ہوں چاچی! سمجھا…؟‘‘
’’ہاں چاچی! وہ کچھ کام تھا آپ سے…؟‘‘
’’رما رانی نے بھیجا ہے کیا…؟‘‘
’’نن… نہیں! میں خود آیا ہوں۔‘‘
’’تو اندر آ ایسے اجنبیوں کی طرح باہر کیوں کھڑا ہوا ہے۔ آ بیٹھ بڑی دیر میںآیا، کیا بات ہے…؟‘‘
’’کچھ معلوم کرنے آیا ہوں بملا جی!‘‘
’’پھر بملا جی…!‘‘
’’نن… نہیں میرا مطلب ہے چاچی جی!‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’کیا معلوم کرنے آیا ہے اور آج یہ تو کیسا بہکا بہکا سا ہے… چل چھوڑ کیا معلوم کرنے آیا ہے؟‘‘
’’وہ چار مہمان ایک ساتھ آئے تھے ان کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’چار مہمان!‘‘ بملا وتی نے ذہن پر زور دے کر کہا اور پھر ہنس پڑی۔ پھر بولی۔ ’’یہاں تو چارچار کرکے بہت سے مہمان آئے تھے۔‘‘
’’نہیں وہ ایک صاحب، تلوار مارکہ مونچھیں تھیں ان کی، کالی ٹوپی پہنے ہوئے تھے، کرتا شیروانی اور… اور…!‘‘
’’اوہو اچھا سمجھ گئی ہاں کہیں باہر سے آئے ہوئے تھے شاید مرادآباد سے!‘‘ بملا وتی نے کہا۔
’’کب چلے گئے۔‘‘
’’وہ تو بہت دیر پہلے اٹھ گئے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بیٹھے تھے، کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے ہوں گے۔ مگر تھے کوئی رئیس قسم کے آدمی۔‘‘
’’نام نہیں پتا ان کا…‘‘
’’پوچھا تھا نام، نہیں بتایا، کہنے لگے مسافر ہیں، ناموں میں کیا رکھا ہے، بس فن کے قدردان ہیں، فن دیکھنے آئے تھے۔ شکنتا کو بہت کچھ دیا ہے انہوں نے، اچھے صاحب حیثیت معلوم ہوتے تھے۔‘‘
’’یہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ مرادآباد کے ہیں؟‘‘
’’بس یونہی انہوں نے خود ہی بتایا تھا، کہنے لگے کہ مرادآباد سے آئے ہیں آپ کی دھوم سن کر۔ ہم نے نام پوچھا مگر بتایا نہیں۔‘‘
’’اوہ…! وہ ان کے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔‘‘
’’ہاں سب ان کے مصاحب معلوم ہوتے تھے ۔ اچھے خاصے نواب وغیرہ لگتے تھے، رئیس آدمی تھے۔‘‘
’’کیا وہ میرا مطلب ہے کہ واپس مرادآباد چلے گئے۔‘‘
’’لے، مجھے کیا معلوم، مگر تجھے ان کی کھوج کیوں لگی ہوئی ہے؟‘‘ بملا وتی نے کہا۔
’’نہیں چاچی جی! بس ایسے ہی عجیب سے لوگ تھے۔ نجانے کیوں جانے پہچانے سے لگ رہے تھے۔ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ کون ہیں۔‘‘ بملا وتی نے گہری نظروں سے مجھے دیکھا اور بولی۔
’’لے مجھے کیا معلوم تھا، پتا چل جاتا تو نام پتا بھی پوچھ لیتی ان کا… اب اتنا تجھے تو پتا ہی ہے یہاں نجانے کون کون آتا ہے، بڑے بڑے تیس مار خان ہوتے ہیں ان میں، مگر ہمیں ان کی تیس مارخانی سے کیا لینا، ہمیں تو بس اتنا ہی کام ہوتا ہے ان سے جتنی ضرورت ہو۔ آ بیٹھ کچھ کھائے پیے گا؟‘‘
’’نہیں چاچی! بہت بہت شکریہ۔‘‘ میں نے مایوسی سے کہا۔ دل رو رہا تھا۔ یقینا ان دونوں لمحات میں سے کوئی لمحہ ان کے جانے کا ہوسکتا تھا جب مجھے گھر واپس جانا پڑا تھا، سب ہی پر غصہ آرہا تھا۔ کشنا نے مجھے پھولوں میں الجھا لیا تھا اور مالتی مجھے بلانے آگئی تھی۔ آہ بہت ہی برا ہوا، بہت ہی برا… بری طرح نڈھال ہوگیا تھا، دل پر ایک عجیب سا بوجھ لیے واپس آیا اور اپنے کمرے میں آکر پڑ رہا۔ یہ تو بہت برا ہوا، کیا ماموں ریاض بھی ان کے ساتھ مرادآباد سے آئے تھے۔ مرادآباد… مرادآباد…! لیکن وہ فوراً ہی مرادآباد چلے تو نہیں گئے ہوں گے۔ شکتی پور میں نجانے کہاں ٹھہرے ہوں گے۔ بہرحال شکتی پور بھی اتنی چھوٹی جگہ نہیں تھی کہ میں ایک ایک گھر میں جھانک کر انہیں تلاش کرسکتا۔ آہ میری بدنصیبی! میری بدنصیبی نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ اگر ہمت کرکے ماموں ریاض سے مل ہی لیتا تو کیا ہوجاتا، جو ہونا ہے وہ تو ہر قیمت پر ہی ہوگا۔ ایک بار پھر وہ میرے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ جی چاہا کہ دیوانہ وار باہر نکل جائوں۔ گلی گلی، کوچے کوچے میں ماموں ریاض… ماموں ریاض پکارتا پھروں، لیکن اس سے کیا ہوگا۔ شکتی پور میں زیادہ اچھے ہوٹل تو نہیں تھے، لیکن وہ نواب قسم کے آدمی تھے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ہوٹل ہی میں ٹھہرے ہوں۔ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہ فیصلہ کیا کہ ہوٹلوں کے چکر لگائوں، لگا کر معلوم کروں، لیکن نام پتا بھی تو معلوم نہیں تھا۔ دیوانگی ہی ہوتی… دیوانگی ہی تھی میری… میں… میں ماموں ریاض کو پھر سے کھو بیٹھا تھا۔
لیکن ماموں ریاض! آخر وہ یہاں کیسے آئے… وہ تو ان چکروں میں کبھی نہیں تھے۔ یہ اندازہ تو ضرور ہورہا تھا مجھے کہ وہ شوقین صاحب جو عجیب سا حلیہ بنائے ہوئے تھے۔ ماموں ریاض کو لائے ہوں گے اپنے ساتھ، ورنہ ماموں ریاض تو بڑے نیک فطرت آدمی تھے لیکن وہ مجبور کیسے ہوگئے۔ بہت سی باتیں تھیں جو ذہن میں چکرا رہی تھیں، لیکن جواب کسی بات کا نہیں مل رہا تھا۔ بڑا دکھ ہوا تھا مجھے اپنی اس حماقت پر! زیادہ سے زیادہ یہ تو کیا جاسکتا تھا کہ ماموں ریاض کا پیچھا کرکے ان کے ٹھکانے کا پتا لگا لیا جاتا اور پھر ان سے ملتا…
دل میرے مختلف سوالات کے جواب خود ہی دے رہا تھا۔ ہوسکتا ہے ماموں ریاض سے ملنے کے بعد صورتحال کچھ اور زیادہ پریشان کن ہوجاتی۔ وہ مجھے نہ چھوڑتے، گھر جاتے، امی اور ابا کے پاس لے جاتے اور… اور پھر میں ان کے ساتھ رہتا اور وہ مصیبتوں کا شکار ہوجاتے۔ آہ! جو کچھ ہوا بہتر ہی ہوا، میں نے ٹھنڈی سانس لے کر سوچا… ماں باپ کو بہن بھائی کو یاد کرکے آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ یہ آنسو نہ جانے کب تک تکیہ بھگوتے رہے تھے اور بھیگے ہوئے تکیے پر رخسار رکھ کر سو گیا۔ آنسوئوں کی ٹھنڈک خواب آور بن گئی تھی۔ صبح دل بڑا بوجھل تھا۔ آنکھ تو نہ جانے کب کھل گئی تھی مگر اٹھنے کو جی نہیں چاہا۔ بہت دیر تک اس طرح لیٹا رہا پھر مالتی اندر گھس آئی تھی۔ ’’آج اٹھنا نہیں ہے کیا رتن جی! مسافر سو سو کوس نکل گئے اور ہمارے رتن جی ابھی بستر پر ہی لیٹے ہیں۔‘‘
’’جاگا ہوا ہوں مالتی!‘‘
’’بھوجن لگا دیں کیا۔‘‘
’’سب نے ناشتہ کرلیا۔‘‘
’’لو ناشتے کی بات کرتے ہو۔ رما رانی تو اب بھرنسوڑہ بھی پہنچ گئی ہوں گی، دوپہر بعد واپس آجائیں گی۔‘‘
’’چاجی جی بھرنسوڑہ گئی ہیں؟‘‘
’’ہاں لکشمی بٹیا کو لے کر استاد جی کے ساتھ گئی ہیں، اٹھ جائو اب بہت دیر ہوگئی ہے۔‘‘
’’رادھا اور کشنا کہاں ہیں؟‘‘
’’رادھا رانی بازار گئی ہیں، کشنا کے پاس مولسری آئی ہے۔‘‘
’’تم ناشتہ یہیں لے آئو مالتی! میں منہ ہاتھ دھو لیتا ہوں۔‘‘ اٹھ گیا، ناشتہ کیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کرنا چاہیے، کچھ نہ سوچ پایا تھا کہ کشنا اندر گھس آئی مگر اس وقت اس کے چہرے پر شوخی نہیں تھی، آنکھوں میں پانی بھرا تھا ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ آہستہ سے بولی۔
’’رتن!‘‘
’’ہوں!‘‘
’’رات کو شکنتا کے پاس گئے تھے۔‘‘
’’نہیں… نہیں تو۔‘‘
’’جھوٹ مت بولو۔ بتائو گئے تھے۔ بتائو تم ان کے کوٹھے گئے تھے۔‘‘
’’ہاں مگر شکنتا کے پاس نہیں۔‘‘
’’تم سمجھتے ہو سب بے وقوف ہیں۔ مولسری بتا رہی تھی کہ گئے تو تم شکنتا کے پاس تھے لیکن بملا جی سامنے آئیں تو تم نے بہانے بنانے شروع کردیے کہ کسی کے بارے میں معلوم کرنے آئے ہو۔ تم سمجھتے ہو تمہارے بہانے چل گئے اور وہ شکنتا خوب بگڑی ہے صبح سے کہ تم اس کے پاس آئے تھے تو اسے بتایا کیوں نہیں گیا۔ جانتے ہو مولسری کیا کہہ رہی تھی۔‘‘
میں جانتا تھا کہ مولسری، شکنتا کی بہن اور بملا وتی کی بیٹی تھی اور اس وقت موجود تھی جب میں وہاں گیا تھا۔ میں نے کچھ نہ کہا اور خاموشی سے کشنا کو دیکھتا رہا۔
’’کہہ رہی تھی رتن جی بنے ہوئے پاگل ہیں۔ وہ یہاں بس ایسے ہی خود کو پاگل بتاتے رہتے ہیں اور کہہ رہی تھی… کہہ رہی تھی…؟‘‘
’’اور کیا کہہ رہی تھی…‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تم وہاں گئے ہی کیوں۔ پریم کرتے ہو شکنتا سے… جانتے ہو وہ کیا ہے، بہت بڑے آدمی کی بیٹی ہے کچھ بھی نہیں ملے گا تمہیں اس سے مفت میں مارے جائو گے۔ وہ تمہیں بے وقوف بنا رہی ہے اور تم بن رہے ہو۔ ہم سب کی گردنیں جھکا رہے ہو۔ کیا رکھا ہے اس میں، چتر زمانے بھر کی۔ رتن! میں بھی تمہیں چاہتی ہوں۔ میں بھی تو تم سے پریم کرتی ہوں۔ اتنی بری ہوں میں… بولو اتنی بری ہوں۔ انسان تو ہوں۔ کوٹھے پر پیدا ہوگئی ہوں تو کیا ہے۔ ایک بار کہہ کر دیکھو، سنسار چھوڑ دوں گی تمہارے لیے۔ آج مجھے بتا دو کیا کمی ہے مجھ میں۔ آج مجھے بتا دو رتن…‘‘ وہ سسکنے لگی۔ دلی رنج ہوا تھا مجھے۔ یہ ہنستی کھیلتی لڑکی ہنستی ہی اچھی لگتی تھی۔ میں نے جلدی سے کہا۔
’’کشنا! یہ کیا کہہ رہی ہو تم… رو نہیں کشنا! سنو۔ جو میں کہہ رہا ہوں سنو۔ سنو کشنا، رونا چھوڑ دو۔ میری بات سنو۔ کشنا! رمارانی میرے لیے ماں جیسی ہیں۔ انہوں نے مجھے ایسے وقت میں سہارا دیا ہے جب میں نہیں جانتا کہ ان کا سہارا نہ ہوتا تو میرا کیا ہوتا۔ ان کی قسم کھاتا ہوں میں، تمہاری قسم کھاتا ہوں کشنا کہ مجھے شکنتا سے پریم نہیں ہے۔ اس کے دل میں جو کچھ بھی ہو، میرے دل میں کچھ نہیں ہے۔ شاید تمہیں پتا ہو کشنا! میں جھوٹ نہیں بولتا۔ جو کہہ رہا ہوں سچ ہے۔ رات کو میں وہاں گیا تھا اور کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں معلوم کرنے جنہیں میں نے گلی میں دیکھا تھا۔ وہ مجھے کچھ جانے پہچانے لگے تھے۔ پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ کون ہیں۔ اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں کشنا! مگر ابھی رہنے دو۔ ایک بار پھر تمہاری قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے دل میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
کشنا اتنی خوش ہوئی میری بات سے کہ ناقابل بیان ہے۔ اس نے کہا۔ ’’بس! اب مجھے کوئی چنتا نہیں ہے۔ اب سب ٹھیک ہے۔ ہونہہ، اپسرا رانی خود کو نہ جانے کیا سمجھتی تھیں۔‘‘ بات ختم ہوگئی، معصوم سی کشنا کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔
لیکن بہت سی باتوں کی تصدیق ہوگئی تھی۔ کشنا کے دل میں میرے لیے کچھ اور تصور تھا۔ میرے اپنے ہی رشتے نہیں مل رہے تھے، نئے رشتے کیا قائم کرتا حالانکہ رما رانی نے مجھے بیٹا کہا تھا اور اس رشتے سے کشنا میری بہن ہوتی تھی مگر اس جگہ رشتے نہیں تھے، یہاں کی دنیا تو کچھ اور ہی ہے۔ مگر کیا میں…کیا میں اس دنیا میں گزارہ کرسکتا ہوں۔ کیا یہ سب کچھ درست ہے۔ کیا اسی طرح ایک محفوظ جگہ پا کر میں وقت گزارتا رہوں۔ کیا یہی زندگی ہے۔کیا کروں آہ کیا کروں۔
کشنا چلی گئی تھی۔ شکنتا کی طرف سے مطمئن ہوکر اس کے دل کو اطمینان ہوگیا تھا مگر میں بے سکون تھا۔ مجھے کسی پل سکون نہیں تھا۔ میں کیا کروں۔ ماموں ریاض ایک بار پھر یاد آئے۔ اور کچھ ہوتا نہ ہوتا ان سے ملاقات ہوجاتی تو ماں باپ اور بہن کی خیریت ہی معلوم ہوجاتی۔ اتنا سکون تو ہوجاتا۔ ان کے ساتھ نہ جاتا ان کی کوئی بات نہ مانتا مگر دل کو قرار تو مل جاتا۔ اس بے قراری سے کیسے نجات پائوں۔ بملا وتی کے کچھ الفاظ یاد آئے۔ کوئی رئیس معلوم ہوتے تھے۔ شکنتا کو بہت کچھ دے گئے ہیں۔ شکنتا ہی کو کیوں۔ ان کا شکنتا سے کیا تعلق۔ وہاں مولسری بھی تھی۔ گیتا بھی تھی۔ یہ دونوں بھی بملا وتی کی بیٹیاں تھیں۔ ہوسکتا ہے شکنتا کو ان رئیس کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ اوہ… ہوسکتا ہے۔ یہ خیال دل میں جڑ پکڑ گیا۔ وقت معلوم کیا۔ کچھ دیر کے بعد شکنتا اپنے کالج سے وہاں پہنچے گی جہاں وہ مجھے لے گئی تھی اگر وہاں پہنچ جائوں تو وہ مل جائے گی۔ اس نے تو مجھ سے روز وہاں آنے کے لیے کہا تھا۔ میں نے ہی منع کردیا تھا۔ جلدی جلدی تیار ہوکر باہر نکل آیا۔ نیچے بے رونقی پھیلی ہوئی تھی، یہاں تو شام کو زندگی بیدار ہوتی تھی۔ سورج ڈھلے دکانوں کی صفائی ہوتی، گلی میں چھڑکائو ہوتا اور جوں جوں اندھیرا اترتا، گلی روشن ہوتی جاتی تھی۔
میں تیز قدموں سے چل پڑا۔ طویل فاصلہ تھا۔ یہاں سے ایک تانگے
نے بالآخر مجھے وہاں پہنچا دیا جہاں وہ مکان واقع تھا۔ تانگے والے کو پیسے دے کر آگے بڑھا اور اس مکان کے سامنے پہنچ گیا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ شکنتا اندر موجود ہے۔ میں جھجکتا ہوا اندر داخل ہوا۔ شکنتا کی گاڑی بھی نظر آگئی۔ سکون ہوا کہ وقت پر آگیا ہوں۔ مگر یہاں کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ مجھے کسی حد تک علم تھا کہ یہاں کوئی باقاعدہ نہیں رہتا۔ پیتل کی کیلوں والے دروازے کا پٹ حسب معمول کھلا ہوا تھا۔ میں اندر داخل ہوگیا۔ ڈیوڑھی سے صحن میں پہنچا، مکان کا پراسرار سناٹا بے حد عجیب لگ رہا تھا۔ دل کو خوف کا احساس ہوا۔ میں نے ہمت کرکے آواز دی۔
’’شکنتا جی… شکنتا جی! کیا آپ موجود ہیں…؟‘‘ سامنے والا دروازہ فوراً کھلا اور ایک اجنبی شکل نظر آئی۔ یہ بھی ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ کالی ساڑھی میں ملبوس غزالی آنکھوں والی جن میں مسکراہٹ تھی۔
’’آیئے… اندر آجایئے۔‘‘ اس نے مترنم آواز میں کہا۔
’’شش… شکنتا دیوی ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں ہیں آیئے نا۔‘‘ اور میں صحن عبور کرکے دالان اور پھر اس کمرے میں داخل ہوگیا جس میں شکنتا مجھے پہلے دن لے گئی تھی۔ یہاں چار لڑکیاں اور تھیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں آج یہاں آگیا کہ جانے یہ لڑکیاں کون ہیں۔
’’کہاں ہیں شکنتا…؟‘‘
’’آتی ہے… آپ بیٹھیے تو۔‘‘
’’آپ کون ہیں۔‘‘
’’سکھیاں ہیں اس کی۔‘‘
’’اوہ! کالج سے آئی ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں!‘‘ وہ ہنس پڑیں۔ میں بری طرح جھینپ رہا تھا۔ نہ جانے کیا سوچ رہی ہوں گی یہ میرے بارے میں۔
’’بیٹھیے نا…‘‘ ان میں سے ایک لڑکی میرے بالکل قریب آگئی اور اس نے میری طرف ہاتھ بڑھائے تو میں بوکھلا کر جلدی سے بیٹھ گیا۔
’’شکنتا سے کہہ دیں رتن آیا ہے۔‘‘
’’انمول رتن۔‘‘ وہ لڑکی شرارت سے بولی۔
’’نہیں صرف رتن!‘‘ میں نے بوکھلاہٹ میں کہا۔
’’آپ صرف تو نہیں ہیں۔‘‘ اس نے بدستور شرارت سے کہا۔
’’کہہ دے نا…! پریشان ہورہے ہیں۔‘‘ ایک لڑکی نے دوسری سے کہا۔
’’اچھا کہے دیتے ہیں۔‘‘ وہ مجھے دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی۔ میں احمقوں کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔ نگاہیں قالین پر جمی ہوئی تھیں۔ شکنتا کسی دوسرے کمرے میں تھی۔ مجھے احساس تھا کہ وہ ساری شریر لڑکیاں مجھے گھور رہی ہیں۔ بڑی بوکھلاہٹ محسوس کررہا تھا مگر کیا کرتا اب آہی گیا تھا۔ شکنتا کو میرے آنے کی خبر تو تھی نہیں، اپنی کالج کی سہیلیوں کو ساتھ لے آئی ہوگی۔ کچھ دیر کے بعد وہ لڑکی واپس آگئی۔ اس کے ہاتھوں میں ایک خوبصورت تھالی تھی جس میں چاندی کے گلاس رکھے ہوئے تھے۔ چاندی کا ایک صراحی نما جگ بھی تھا۔
’’ابھی آتی ہیں وہ۔ آپ بیٹھیں۔‘‘ لڑکی نے کہا۔
’’کچھ مصروف ہیں۔‘‘ میں نے گھبراہٹ میں کہا۔
’’ہاں کپڑے بدل رہی ہیں۔‘‘
’’میں پھر آجائوں گا۔‘‘ میں نے کھڑے ہوکر کہا۔
’’ارے نہیں… نہیں آپ بیٹھیے تو… لیجیے یہ شربت پئیں۔‘‘ لڑکی نے جگ کا مشروب گلاس میں انڈیل کر مجھے دیا۔
’’نہیں… شکریہ۔‘‘
’’ارے واہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے پیجئے…‘‘ اس نے مشروب کا گلاس میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ ہلکا گلابی رنگ کا شربت تھا مگر اس کے نچلے حصے میں کوئی گاڑھی سی سرخ شے بیٹھی ہوئی تھی۔ خوش رنگ ہونے کے باوجود اس سے ہلکا ہلکا تعفن اٹھ رہا تھا۔ میری ناک نے سڑے ہوئے خون کی بو محسوس کی اور دفعتاً میرا دل دھک سے ہوگیا۔ مجھے کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا تھا۔ میری چھٹی حس نے مجھے بتایا کہ یہ سب کچھ… کچھ اور ہے۔ میں نے وحشت زدہ نگاہوں سے انہیں دیکھا۔ سب شرارت سے مسکرا رہی تھیں۔
’’یہ کیا مذاق ہے۔ میں پھر آئوں گا۔ شکنتا سے کہہ دیں۔‘‘ میں بے اختیار کھڑا ہوگیا۔ مگر اس وقت شکنتا اندر داخل ہوگئی۔ غیر معمولی لباس پہنا ہوا تھا اس نے، بہت ہی زرق برق جھلملاتا ہوا اور بہت حسین میک اَپ کیا ہوا تھا۔ لباس ایسا تھا کہ میری آنکھیں جھک گئیں۔
’’ارے کیا ہوا۔‘‘ اس کی آواز ابھری۔
’’شکنتا… میں پھر آئوں گا۔‘‘
’’کیوں آخر… ضرور تم نے شرارت کی ہوگی۔ رتن! یہ میری سکھیاں ہیں بڑی نٹ کھٹ۔ اگر انہوں نے کوئی بری بات کی ہے تو میں معافی چاہتی ہوں۔‘‘ شکنتا نے کہا۔
’’تو … ہم نے کیا کیا ہے۔ کیوں رتن جی! بتایئے ہم نے کیا کیا ہے۔‘‘ دو لڑکیاں بیک وقت بولیں۔
’’نہیں… نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ بس میں پھر آئوں گا۔‘‘
’’ایسے نہیں جانے دوں گی۔ بیٹھو۔‘‘ شکنتا بولی۔
’’دراصل میں تمہارے پاس کچھ معلوم کرنے آیا تھا۔ پھر آئوں گا اس وقت میرا جانا بہتر ہے۔‘‘
’’نہیں رتن۔ ایسے نہیں جانے دوں گی۔ ارے تم شکل کیا دیکھ رہی ہو۔ چلو گانا شروع کرو… رتن جی آئے ہیں۔ چلو سنا نہیں تم نے…‘‘ وہ سب متحرک ہوگئیں، اس سے پہلے میں نے اس کمرے میں وہ ساز نہیں دیکھے تھے۔ ستار، سارنگی، طبلہ سب کچھ موجود تھا۔ لڑکیوں نے ساز سنبھال لیے۔ میرا دل سینے میں اینٹھ رہا تھا، یہ سب کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ فضا میں ستار کی آواز ابھری اور پھر ساز ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہونے لگے۔ ایک عجیب سی طلسمی فضا پیدا ہوگئی، ان آوازوں میں ذہن کو معطل کرنے کی صلاحیت تھی۔ ماحول پر ایک نشہ آور کیفیت پیدا ہونے لگی۔ ذہن جیسے سونے لگا۔ ہاتھ پائوں مضمحل سے ہوتے جارہے تھے۔ انہوں نے ہوشربا آواز میں ایک انوکھا نغمہ شروع کردیا تھا جس کے بول سمجھ میں نہیں آرہے تھے لیکن آواز کا مد و جزر حواس گم کررہا تھا، آنکھیں جیسے بند ہونے لگی تھیں۔ شکنتا نے مشروب کا گلاس میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
’’لو پیئو…‘‘ اس نے مدہوش کن لہجے میں کہا۔
’’کیا ہے یہ…‘‘
’’امرت… پیو گے تو امر ہوجائو گے۔‘‘ وہ سرگوشی کے لہجے میں بولی۔ گلاس میرے ہاتھ میں آگیا۔ اور میرا ہاتھ ہونٹوں کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک ناک پر اسی ناگوار بو کا بھبکا لگا۔ سڑے ہوئے خون کی بو… اور سوتے ہوئے ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا۔ ایکدم یوں محسوس ہوا جیسے ہاتھ کو کرنٹ لگا ہو۔ میرے حلق سے چیخ نکل گئی۔ گلاس میرے ہاتھ سے نکل کر فضا میں بلند ہوگیا اور اس میں لبالب بھرا ہوا مشروب چھینٹوں کی شکل میں منتشر ہوگیا۔ یہ ساری چھینٹیں ان شوخ لڑکیوں کو بھگو گئیں۔ ایک دم ساز بند ہوگئے۔ آوازیں گم ہوگئیں، ماحول پر ہولناک سناٹا چھا گیا۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے دیکھ رہا تھا۔ میری آنکھوں نے سامنے کا منظر دیکھا۔ جونہی ان لڑکیوں کے جسم پر مشروب کی چھینٹیں پڑیں، ان کی ہیئت بدلنے لگی۔ ان کے ہاتھوں سے ساز چھوٹ گئے اور پھر ان کے جسم عجیب سے انداز میں بل کھانے لگے۔ ہاتھ اور پائوں مڑنے لگے، گردنیں ٹیڑھی ہونے لگیں۔ ان کے جسموں کو بری طرح جھٹکے لگ رہے تھے اور وہ مختصر ہوتے جارہے تھے۔ پھر وہ سر گھٹنوں میں لے کر مزید سکڑنے لگیں۔ جسم کے کپڑوں کے رنگ ماند پڑتے جارہے تھے۔ کوئی دو منٹ تک یہ کیفیت مسلسل جاری رہی اور پھر وہ بڑی بڑی مکڑیوں میں تبدیل ہوگئیں اور سوکھے سوکھے ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے مکروہ انداز میں چلتی ہوئی اندرونی دروازے میں گم ہوگئیں۔ پھر اچانک شکنتا اپنی جگہ سے اٹھی اور میری نگاہیں اس کی طرف اٹھ گئیں مگر وہ شکنتا کہاں تھی لباس وہی تھا مگر چہرہ…! یہ منحوس میرے لیے اجنبی نہیں تھا۔ آہ! یہ بھوریا چرن تھا۔ اس کی بھیانک پیلی آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔ اس نے منہ سے کچھ کہا۔ ایک لمحے مجھے گھورتا رہا۔ پھر ایک جھٹکے سے مڑا، اس کا زرق برق لباس لہریں لے رہا تھا اور اس کے قدم بھی اسی دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے جس میں وہ مکڑیاں داخل ہوئی تھیں۔ پھر وہ بھی اسی دروازے سے اندر چلا گیا۔ وسیع کمرے میں بھیانک سناٹا پھیل گیا۔ میرے اعصاب چٹخ رہے تھے۔ یہ ہولناک کھیل معمولی نہیں تھا۔ دل کی حرکت بند ہوجاتی اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا۔ مگر عادی ہوگیا تھا۔ ان چیزوں کا عادی ہوگیا تھا۔ اس کے باوجود کچھ دیر اعضا کو جنبش نہ دے سکا۔ میں یہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا اس ہولناک خالی مکان میں دم گھٹ رہا تھا لیکن ہاتھ پائوں میں جیسے جان ہی نہ رہی تھی۔ کافی دیر کے بعد یہ کیفیت دور ہوئی اور میں اٹھ کھڑا ہوا۔ مکان سے باہر نکلا، گلی میں آیا اور پھر بھاری بھاری قدموں سے چلتا ہوا گلی کے سرے کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ مجھے انسانی خون پلانا چاہتا تھا۔ سڑا ہوا انسانی خون! جس میں اس نے ایک خوش رنگ مشروب شامل کردیا تھا۔ مگر کیوں…؟ اس سے اسے کیا حاصل ہوتا۔ کیا ماحول، کیا سماں پیدا کیا تھا اس نے۔ میں تو طلسمی جال میں پھنس ہی گیا تھا۔ پتا نہیں کیسے بچ گیا۔ پیدل چلتا رہا۔ کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کدھر جارہا ہوں۔ ہوش درست ہوئے تو خود کو روشن گلی میں ہی پایا۔ اسی وقت شکنتا کی چھوٹی بہن پاروتی نظر آئی جو دوڑتی میری طرف آرہی تھی۔
’’رتن بھیا… رتن بھیا!‘‘ اس نے ہانپتے ہوئے کہا اور میں رک کر اسے دیکھنے لگا۔
’’دیدی بلاتی ہے۔‘‘ اس نے انگلی سے کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ میری نگاہیں اس طرف اٹھ گئیں۔ کھڑکی میں شکنتا کھڑی تھی، مجھ سے نظریں ملیں تو اس نے ہاتھ سے مجھے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ شکنتا کے اس دوسرے ٹھکانے پر جو کچھ میں نے دیکھا تھا، اس سے یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ وہاں بھوریا چرن نے اپنا جال بچھایا تھا اور شکنتا سرے سے وہاں موجود ہی نہیں تھی۔ میں شکنتا کے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ پاروتی میرے پیچھے پیچھے آرہی تھی، پتا نہیں بملاوتی گھر پر موجود تھیں یا نہیں… کیونکہ وہاں مجھے کوئی نظر نہیں آیا تھا۔ شکنتا البتہ کمرے کے دروازے میں آکھڑی ہوئی تھی، میں قریب پہنچا تو اس نے پاروتی سے کہا۔
’’تو جا پاروتی، کھیل۔‘‘ اور پھر اس نے مجھے اندر کمرے میں آنے کا اشارہ کیا۔ میں اندر جاکر بیٹھ گیا۔ وہ مسکرا کر مجھے دیکھتے ہوئے بولی۔
’’کہاں دھوپ میں مارے مارے پھر رہے ہو۔ گال دیکھو ٹماٹر کی طرح سرخ ہورہے ہیں۔ شربت لائوں…؟‘‘
’’نہیں…‘‘ میں نے سہم کر کہا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ایک شربت سے نمٹ کر آرہا تھا۔
’’کہاں گئے تھے دوپہر میں…؟‘‘
’’بس ایسے ہی، تم کالج نہیں گئیں؟‘‘
’’تین دن کی چھٹی ہے، ہڑتال ہوگئی ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’سب لوگ کہاں گئے؟‘‘
’’سو رہے ہیں اپنے اپنے کمروں میں۔ یہاں دن میں کون جاگتا ہے۔‘‘
’’تم جاگ رہی تھیں…؟‘‘
’’ہاں… تمہارے پیروں کی چاپ سن لی تھی۔ پتا چل گیا کہ ہمارے راج کمار رتن آرہے ہیں۔ کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو سچ ہی نکلا اور پارو کو دوڑا دیا۔ کیسی رہی…؟‘‘
میں جواب میں مسکرا بھی نہیں سکا تھا۔ کیا بتاتا اسے کہ کیسی رہی۔ پھر میں نے کہا۔
’’شکنتا! میں خود بھی تم سے ملنا چاہتا تھا ایک بات معلوم کرنی ہے تم سے!‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’پچھلی رات کچھ لوگ تمہارے گھر آئے تھے جن میں ایک صاحب تلوار مارکہ مونچھوں والے تھے، کالی ٹوپی، شیروانی اور کرتا پہنے ہوئے۔ بڑے شوق سے سنا ہے انہوں نے تمہیں، کچھ دیا بھی ہے، کچھ معلوم ہے کہ کیا نام ہے ان کا…؟‘‘
’’مرادآباد کے پاندان۔‘‘ شکنتا نے کہا اور کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’بس اتنا ہی نام پتا چلا ان کا، کہنے لگے کہ نام سے کیا لینا ہے۔ تماشبین ہیں کچھ سننے آئے ہیں۔ من تو چاہا کہ انہیں خوب بہت سی گالیاں سنائوں، پر ماتا جی کا خیال تھا، آنکھیں دکھائے جارہی تھیں مجھے! ارے ہاں بس دیکھ لیا تھا مجھے جان کو آگئے، بلا کر چھوڑا، حالانکہ مولسری اور دوسری لڑکیاں گا رہی تھیں، مگر مرادآبادی پاندان نے مجھے دیکھ جو لیا تھا۔ ماں نے بتایا کہ میں نے ابھی ناچنا گانا شروع نہیں کیا ہے، سیکھ رہی ہوں تو ایڈوانس دے کر چلے گئے۔ گھر والی کی گردن سے نیکلس اتار لائے ہوں گے، میری گردن میں ڈال گئے اور کہہ گئے کہ جب میں گانا شروع کروں گی تو میری آواز کی لے پر کھنچے چلے آئیں گے۔ ایسے بائولے اکثر آتے رہتے ہیں، مگر تمہیں ان کے بارے میں معلوم کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟‘‘
’’بس ایسے ہی، کچھ اور پتا نہیں چلا ان کا…؟‘‘
’’کس کی جوتی کو پڑی تھی جو پتا چلاتا۔ مگر تمہیں کیوں کھوج ہوئی؟ سمجھی! میری وجہ سے… ہے نا…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا اور شکنتا سنجیدہ ہوگئی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے رتن! بس کچھ دن ہی جاتے ہیں، جب میں یہ جگہ چھوڑ دوں گی۔ بملا وتی جی پریشان ہیں، ہیرا جو نکل رہا ہے ان کے ہاتھ سے، مگر میرے پتا جی انہیں میرے وزن کے برابر ہیرے تول کر دے دیں گے۔ کہہ دیا ہے انہوں نے بملا وتی جی سے اور پھر رتن! ایک نئی مثال قائم ہوجائے گی، اس جگہ پیدا ہونے والی کوئی لڑکی شریفوں کی دنیا میں پہنچ جائے گی۔ ناک بھوں چڑھانے والوں کے منہ سیدھے ہوکر رہ جائیں گے۔ لوگ اس جگہ کو اندھا کنواں کہتے ہیں، جس میں کوئی بھی کہیں سے آکر گر تو سکتا ہے نکل کر روشنی کی دنیا میں نہیں جاسکتا، میں تو ہر طرح سے خوش نصیب ہوں کہ باہر بھی جائوں گی اور میرے من کا سکھ بھی مجھے مل جائے گا۔‘‘ اس نے محبت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا اور اس کی اس آرزو نے مجھے دکھی کردیا۔ کم ازکم اس مسئلے میں وہ خوش نصیب نہیں ہے کیونکہ جسے اس نے اپنے من کا سکھ سمجھا ہے، وہ کانٹوں بھری سیج ہے، اس کی اپنی زندگی میں کوئی سکھ نہیں ہے وہ کسی کا کیا سکھ بن سکتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ اس سے کہنا بیکار تھا، کچھ دیر اس کے پاس رکا، اس کی باتیں سنتا رہا اور پھر وہاں سے چلا آیا۔ روشن گلی کا تاریک دن ہر گھر پر مسلط تھا۔ رما رانی شاید واپس آچکی تھیں، مجھے کوئی بھی نہ ملا اور میں نے اپنے کمرے میں آکر دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ بستر پر سیدھا سیدھا لیٹ گیا اور دماغ میں واقعات کا طوفان میل چل پڑا۔ اب تو رونے کو بھی جی نہیں چاہتا تھا، اتنا رو چکا تھا کہ آنسو بے مقصد ہوگئے تھے۔ ماموں ریاض کے بارے میں کچھ معلوم ہونے کی آخری آس بھی ٹوٹ گئی تھی۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ معمول میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ شام ہوئی رات ہوگئی لیکن اب میری قوت برداشت جواب دے گئی تھی۔ اس سے زیادہ یہاں رکنا ممکن نہیں تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ کسی سے رشتہ قائم ہوجائے، کسی سے ٹوٹ جائے لیکن بھوریا چرن مجھے نہیں چھوڑے گا، کہیں نہیں چھوڑے گا۔ وہ ہر جگہ پہنچ سکتا ہے۔ مجھے اپنے کام پر آمادہ کرنے کے لیے وہ ہر گرُ آزما سکتا ہے۔ یہاں بہت سے لوگ تھے۔ ہر ایک کا اپنا معاملہ تھا۔ کسی کو بھی میری وجہ سے نقصان پہنچ سکتا تھا۔ البتہ ایک اندازہ میں بارہا لگا چکا تھا۔ بھوریا چرن نے اب تک صرف ان لوگوں کو صفحۂ ہستی سے مٹایا تھا جو میری کہانی سے یا اس سے واقف ہوتے تھے یا جو میرے اس مسئلے کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ ہوتے تھے۔ جن لوگوں کو اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوتا تھا، وہ محفوظ رہتے تھے۔ پھر بھی خطرہ تو رہتا ہے، یہاں مجھے بہت سی پریشانیاں تھیں۔ ضمیر اس ماحول کو برداشت نہیں کررہا تھا۔ یہ لوگ کچھ بھی تھے، میرے حق میں برے نہیں تھے۔ اگر میری وجہ سے انہیں نقصان پہنچا تو کچھ نہیں کرسکوں گا ان کے لیے۔ شکنتا اور کشنا کا معاملہ تھا، پولیس تھی، نہ جانے کیا کیا تھا… یہاں سے اب نکل جانا چاہیے۔ آخری فیصلہ کرلیا، بہت وقت گزرا تھا یہاں، عالم بے ہوشی میں اور اب عالم ہوش میں رما دیوی کے احسانات بھی تھے مجھ پر۔ جانے سے پہلے ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری تھا۔ ایک کاغذ اور قلم تلاش کیا میں نے اور لکھنے بیٹھ گیا۔ میں نے لکھا۔
رما رانی جی!
بڑے فخر سے، بڑے مان سے میں آپ کو ماتا جی کہہ سکتا ہوں۔ اس دن آپ نے کہا تھا کہ میں ہوش میں آئوں گا تو اس جگہ کو برا سمجھوں گا اور یہاں سے چلا جائوں گا۔ میں اس وقت ہوش میں آچکا تھا۔ سب کچھ جان چکا تھا۔ سب کچھ سمجھ چکا تھا۔ رما جی! اس دنیا کو میں نے بہت زیادہ نہیں دیکھا۔ جتنا دیکھا ہے، وہ مجھے بتاتا ہے کہ ماں کسی شکل میں ہو، ماں ہوتی ہے۔ میرا مسئلہ کچھ اور ہے۔ میں ایک مسلمان لڑکا ہوں اور اپنی غلط کاریوں کے عذاب سے گزر رہا ہوں۔ میں جہاں جاتا ہوں، وہاں میری نحوست میرے سرپرستوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ کئی بار کا تجربہ ہے اور میں اپنی اس گھر میں اپنی نحوستیں نہیں چھوڑنا چاہتا، اس لیے یہ گھر چھوڑ رہا ہوں۔ اگر میں ان نحوستوں کو شکست دے سکا تو ایک بار عقیدت کے پھول لے کر آپ کے گھر ضرور آئوں گا اور آپ کو بھری محفل میں ماں کہہ کر پکاروں گا، کیونکہ آپ اس قابل ہیں کہ آپ کو ماں کہا جائے۔
آپ کا بدنصیب…رتن!
یہ کاغذ تہہ کرکے تکیے پر رکھا، باہر نکلا تو مالتی نظر آئی۔ میں نے اسے روکا۔
’’مالتی! کچھ پیسے ہیں تمہارے پاس…؟‘‘
’’کتنے رتن جی…؟‘‘
’’دوچار سو۔‘‘
’’یہ دو سو ہیں اور لادوں؟‘‘
’’نہیں! بس کافی ہیں۔‘‘ میں نے کہا اور پیسے جیب میں ڈال کر باہر نکل آیا۔ بہت افسردہ تھا۔ دنیا کے لیے یہ بہت بری جگہ تھی لیکن مجھے یہاں بہت پیار ملا تھا، بڑی اپنائیت ملی تھی۔ دل دکھ رہا تھا اس جگہ کو چھوڑتے ہوئے۔ سیدھا ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا اور جو پہلی ٹرین آئی، اس میں بیٹھ گیا۔ یہ معلوم کیے بغیر کہ یہ کہاں جارہی ہے۔
ریل میں طرح طرح کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ہمیشہ ہی ہوتے تھے۔ یہ میرا پہلا سفر تو نہیں تھا۔ یہ سب مجھ سے کتنے مختلف ہیں۔ بیشک ان کے ساتھ مسائل ہوں گے لیکن مجھ سے مختلف۔ یہ ان کا حل تو پا سکتے ہیں۔ میری مشکل کا کوئی حل تو دُور دُور تک نہیں ہے۔ میرے ذہن میں تو کوئی راستہ ہی نہیں آتا۔ نہ جانے میری انتہا کیا ہے؟ اب تو درد ہی دوا بنتا جا رہا تھا۔ اتنی مشکلیں آ گئی تھیں زندگی میں کہ آنے والی کسی مشکل کا خوف باقی نہیں رہ گیا تھا۔ ہاں اتنا ضرور کر سکتا تھا کہ کسی اور کو اپنی مشکل کا شکار نہ ہونے دوں اور یہ کر رہا تھا میں۔ ان مشکلات میں جینا سیکھ رہا تھا۔ مگر ان محبتوں کا کیا کرتا جو دِل کے ہر گوشے میں جاگزیں تھیں۔ ان پیاروں کو کیسے بھول سکتا تھا جن کے ساتھ ہوش کی صبح ہوئی تھی۔ سچی بات ہے کہ اب تو زندگی سے دلچسپی بھی نہیں رہ گئی تھی۔ مجھ پر بہت سے مقدمے قائم تھے۔ ہو سکتا ہے اب تو مجھ پر کوئی انعام بھی رکھ دیا گیا ہو، گرفتار ہو جائوں تو کچھ برا بھی نہ ہوگا مگر وہ منحوس مجھے مرنے تو دے۔
آنکھوں میں غنودگی سی آ گئی۔ شاید کچھ نیند کے جھونکے بھی آئے تھے، قریب بیٹھے ہوئے اُدھیڑ عمر شخص نے ہمدردی سے ایک طرف سرکتے ہوئے کہا۔
’’نیند آوت رہے بیرا۔ لو لیٹ جائو۔ سو جائو۔ ہم جاگت رہیں۔‘‘
’’نہیں بابا جی۔ شکریہ آپ کوتکلیف ہوگی۔‘‘
’’نا پوت نا۔ کاہے کی تکلیف سفر ہے کتنا، کٹ جاوے گا لیٹ جائو۔‘‘
’’آپ مجھ سے باتیں کریں باباجی، چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا اس لیے نیند کے جھونکے آنے لگے۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’تمہاری مرضی!‘‘
’’آپ کہاں جا رہے ہیں بابا جی…‘‘
’’بیکانیر، ہماری بٹیا کی سسرال ہے، ہُواں اُسے لینے جاوے ہیں!‘‘
’’کہاں کے رہنے والے ہیں۔‘‘
’’گائوں ہمار رتولی رہے۔ سقّے کا کام کریں ہیں ہُواں۔ بیس گھر لگا رکھے ہیں، مولا گزر کرا دیوے ہے۔‘‘ معمر شخص نے کہا مگر اس کے الفاظ میرے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ رتولی کا نام میرے لیے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ میں نے کسی قدر بے صبری سے پوچھا۔
’’آپ رتولی کے رہنے والے ہیں؟‘‘
’’ہاں بیرا کیوں۔‘‘
’’کیا نام ہے آپ کا۔‘‘
’’امام بخش۔‘‘
’’بابا امام بخش آپ تو وہاں رہنے والے سب لوگوں کو جانتے ہوں گے؟‘‘
’’وہاں پُرکھوں سے آباد ہیں۔ اب نئی نگری بس گئی ہے، ہُواں کچھ نئے لوگ آباد ہوئے ہیں۔‘‘
’’وہاں ایک بہت نیک بزرگ رہتے تھے۔ بڑے سچے اور دیندار آدمی تھے میں ان کا نام بھول گیا ہوں۔‘‘
’’پُرانے آباد تھے؟‘‘
’’ہاں! بہت پرانے۔‘‘ میں نے اُمید بھرے لہجے میں کہا۔
’’بڑے اچھے اچھے منوئی آباد ہیں ہُواں۔ ابراہیم نانا ہیں، حمید اللہ خان ہیں، علیم الدین خان مرحوم تھے، گلاب علی تھے، بے چارے ہندو مسلمانوں کے جھگڑے میں مارے گئے۔‘‘
دماغ میں چھناکہ سا ہوا۔ ایک نام شناسا تھا سو فیصدی چاند خان نے یہی نام لیا تھا۔ علیم الدین خان آہ یہی نام تھا۔ میں نے بے اختیار کہا۔ ہاں علیم الدین خان، علیم الدین خان۔‘‘
’’فوت ہوگئے بے چارے دمہ دَم لے کر ٹلا، دَمے کے مریض تھے اور پھر عمر بھی اسّی سال ہوگئی تھی۔‘‘
’’انتقال ہوگیا ان کا؟‘‘ میں نے ڈوبتی آواز میں پوچھا۔
’’لو۔ آج کی بات ہے؟ سات آٹھ سال ہوگئے کوئی رشتے دار تھے تمہارے؟‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا، عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی، روشنی اندھیرا، روشنی اندھیرا یہی ہوا تھا آج تک۔
’’وہاں، وہاں ایک پرانی مسجد تھی جس میں کسی نامعلوم بزرگ کا مزار تھا۔‘‘ بالآخر میں نے کہا۔
’’اسی پر تو جھگڑا چلا تھا۔ کم ذات ہریا لال نے سرکار سے آٹھ بیگھہ زمین خریدی تھی اور پرانی مسجد کی زمین بھی اسی زمین کے بیچ آ گئی تھی۔ ہریا لال وہاں آبادی کرنا چاہتا تھا سو اس نے مسجد پر بھی نظر ڈالی اور مسلمان اُٹھ کھڑے ہوئے بس بھیّا لٹھ چلے، سر کھلے، چھ آدمی مارے گئے۔ چار مسلمان دو ہندو، پولیس آگئی۔ جھگڑا بہت بڑھا پھر مقدمہ چلا اور فیصلہ ہریا لال کے حق میں ہوگیا۔ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس، سرکار بھی انہی کی۔ وکیلوں نے کہا کہ مسجد پرانی ہے اور مسلمان اسے استعمال بھی نہیں کرتے، اس لیے ہریا لال کو اجازت دے دی جائے کہ وہ اپنی زمینوں کو استعمال کرے، فیصلہ ہوگیا تھا مگر مسلمان کافی عرصے تک ڈٹے رہے اور جب بھی ہریا لال نے مسجد کی طرف ہاتھ بڑھائے مسلمان سر پر کفن باندھ کر آگئے۔ خوب پکڑ دھکڑ رہی آدھی بستی تو ایسے خالی ہوگئی تھی۔ پھر ایک بزرگ کو خواب میں بشارت ہوئی پرانی مسجد کے مزار کے بزرگ نے کہا کہ زمین اللہ کی ہے ہم خود یہاں سے ہٹے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ بزرگ کی بات سب نے مانی اور ہریا لال نے اپنا کام کر دکھایا، سو اب اس جگہ نئی نگری آباد ہوگئی ہے۔ سارے ہندو ہی آ کر آباد ہوئے ہیں ہُواں، یہ ہے وہاں کی بات۔ پر علیم الدین خان صاحب کا تو سات آٹھ سال پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا۔‘‘
میں خاموشی سے یہ سب کچھ سنتا رہا۔ میرے دل میں ایک عجیب سی ہوک اُٹھ رہی تھی۔ یہی ہو رہا ہے۔ شروع سے یہی ہو رہا ہے بھوریا چرن ہر راستہ روک لیتا، تقدیر اگر کبھی کچھ سامنے لاتی بھی تو بھوریا چرن کھیل ہی ختم کر دیتا، کیا اس کمبخت کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ وہ سب سے بڑا گیانی تو نہیں ہے۔ اس سے بڑے بھی ہوں گے۔ سفلی علوم کے ماہر اور بھی بہت سے ہوں گے۔ کیا ان سب کو ایسی ہی قوتیں حاصل ہوتی ہیں۔ بھوریا چرن ایک انسان ہی ہے اور کالے جادو کا ماہر ہے۔ اسے اتنی بڑی قوت کیسے حاصل ہوگئی اور اگر اس سے زیادہ طاقت والے سفلی علوم کے ماہر ہیں تو کیا انہیں بھوریا چرن کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا یا پھر اس کے سامنے ایسی قوتیں لے آئی جائیں جو مذہب سے تعلق رکھتی ہوں، بھلا کالے جادو کا ایک ماہر قرآنی علوم کے سامنے کیسے ٹک سکتا ہے۔ اگر کسی بزرگ کی نظر واقعی ہو جائے مجھ پر تو کیا میری کشتی پار نہیں لگ جائے گی۔ یہ خیال دِل میں عجیب سے احساسات پیدا کرنے لگا۔ بیچارہ امام بخش سادہ نگاہوں سے میرا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’رتولی گئے ہو بھیا کبھی؟‘‘
’’نہیں بابا جی میں کبھی نہیں گیا۔‘‘
’’تو پھر علیم الدین خان کے بارے میں کیسے جانتے ہو؟‘‘
’’بس ایسے ہی نام سنا تھا کسی سے اور اس مزار کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا جہاں سے لوگوں کو بڑا فیض ملتا تھا۔‘‘
’’ارے ان کی کیا پوچھو ہو، رتولی سنبھالے ہوئے تھے جو پہنچ جاتا مراد پوری ہو جاتی تھی۔‘‘
’’یقیناً بابا جی یقیناً، ویسے بابا جی اور بھی ایسے مزار ہوں گے جہاں مرادیں پوری ہو جاتی ہوں گی۔‘‘
’’لو بھیا بھلا بزرگوں سے دُنیا خالی ہوگئی کیا؟ ارے ایک سے ایک پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
’’آپ کو کسی ایسی جگہ کا پتا معلوم ہے، کوئی ایسے بزرگ جن کا بڑا نام ہو۔‘‘
’’کوئی کمی ہے ان کی، دلی جائو نظام الدین اولیاؒ، اجمیر جائو خواجہ صاحبؒ، کلیر شریف جائو صابرؒ اور پھر ہزاروں خدا کے نیک بندے ہر جگہ موجود ہیں بھیا کوئی منت ہے تمہاری؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا بابا امام بخش مجھے دیکھتے رہے۔ شاید سوچ رہے تھے کہ میں انہیں اپنی منت کے بارے میں بتائوں گا اور پھر جب میں کچھ نہ بولا تو خود بھی خاموش ہوگئے۔
سفر جاری رہا اور میں سوچ میں گم ہوگیا، حالات نے زندگی سے اتنا بیزار کر دیا تھا کہ اب مجھے کوئی خوف نہیں رہا تھا۔ پولیس مجھے تلاش کرے، گرفتار کرے تو میں صرف ایک درخواست کروں اس سے، اپنے جرائم کا اعتراف کر کے کہوں کہ مجھے فوراً گولی مار دی جائے، مہلت نہ دی جائے ورنہ کچھ اور جرم میرے نام سے منسوب ہو جائیں گے جو میرے نہ ہوں گے۔ پھر سوچا کہ اب میں خود اپنے درد کا درماں تلاش نہیں کرسکوں گا۔ کوئی مزار مل جائے وہیں پڑا رہوں گا اور خدا کے ان نیک بندوں سے کہوں گا کہ میرے لیے خدا سے دُعا کریں کہ وہ مجھے اس عذاب سے نجات دے اب یہی کرنا چاہیے مجھے۔
سفر جاری رہا، نہ جانے کب سو گیا۔ دن کی روشنی میں آنکھ کھلی تھی، گرمی لگ رہی تھی، ریل کے پنکھے نجانے کیوں بند ہوگئے تھے۔ بابا امام بخش بھی موجود نہیں تھے، ہو سکتا ہے ان کا اسٹیشن آ گیا ہو، ریل کے پہیے رگڑ رہے تھے، شاید بریکیں لگ رہی تھیں۔
کوئی اسٹیشن آرہا تھا۔ کھڑکی سے باہر خالی خالی عمارتیں نظر آ رہی تھیں۔ میں انہیں دیکھنے لگا۔ سانسی کا اسٹیشن تھا، پتھر کی سل پر یہ نام لکھا ہوا پڑھا تھا۔ ٹرین رُک گئی لیکن بمشکل دو منٹ پھر وسل ہوئی ایک جھٹکا لگا اور ٹرین رینگنے لگی۔ میری نظریں کھڑکی سے باہر پلیٹ فارم پر جمی ہوئی تھیں جہاں اِکّا دُکّا لوگ نظر آ رہے تھے۔ آگے والے ڈبوں سے اس اسٹیشن پر اُترے ہوئے لوگ ابھی اپنا سامان ہی سنبھال رہے تھے۔ پلیٹ فارم کے انتہائی سرے سے میرا ڈبہ گزرا تو میں نے ایک برقع پوش عورت کو دیکھا جو شاید تنہا تھی اس نے ایک وزنی ٹوکری سنبھالی ہوئی تھی جو اچانک نیچے گر گئی۔ ٹوکری چٹائی کی بنی ہوئی تھی اور اس کا ہینڈل ٹوٹ گیا تھا۔ کچھ سامان نیچے گرا تو عورت نے گھبرا کر اپنے برقع کا نقاب اُلٹ دیا اور اچانک بجلی سی چمک گئی۔ یہ سارا کھیل ایک لمحے کا تھا۔ میرے ڈبے نے پلیٹ فارم کا آخری سرا چھوڑ دیا۔ ٹرین رفتار پکڑنے لگی مگر اس اُلٹے ہوئے نقاب سے جو چہرہ نمودار ہوا تھا اس نے میرے پورے وجود کو لرزا دیا۔ وہ میری شمسہ تھی… میری چھوٹی بہن۔ آہ اپنے خون کو نہ پہچانتا، شمسہ کو نہ پہچانتا؟ کچھ لمحے تو حواس ہی معطل رہے۔ سوچنے سمجھنے کی قوتیں مفلوج ہوگئیں۔ مگر پھر ایک دَم ہوش سا آ گیا۔ میں دیوانہ وار اپنی جگہ سے اُٹھا، ممکن تھا کہ چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دیتا مگر ہاتھ زنجیر پر جا پڑا تھا اور ذہن نے ساتھ بھی دیا تھا۔ چنانچہ پوری قوت سے کھینچ دی، لوگ چونک کر میری اضطراری حرکتوں کو دیکھنے لگے۔ کسی نے کچھ کہا بھی تھا مگر میں دروازے پر پہنچ گیا اور آدھا نیچے لٹک گیا۔ لوگ چیخنے لگے تھے مگر کسی کے الفاظ میری سمجھ میں نہیں آ رہے تھے، ٹرین کی رفتار فوراً ہی مدھم ہونے لگی اور پھر بس وہ اتنی مدھم ہوئی کہ مجھے زمین نظر آنے لگی تو میں نے چھلانگ لگا دی۔ پلیٹ فارم کافی دُور رہ گیا تھا پیچھے کیا ہوا مجھے کچھ نہیں معلوم تھا۔ بس میں بے تحاشہ پلیٹ فارم کی طرف بھاگ رہا تھا۔ شمسہ، آہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے۔ وہ ٹرین میں تنہا کہاں سے آئی تھی۔ شمسہ میری بہن شمسہ۔ پیروں میں پنکھے لگ گئے خاصا فاصلہ تھا مگر میں نے برق رفتاری سے طے کرلیا اور پلیٹ فارم پر پہنچ گیا۔ سانس بری طرح پھول رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا پھیل رہا تھا۔ مگر میں آنکھیں پھاڑے شمسہ کو تلاش کر رہا تھا۔ وہ اب پلیٹ فارم پر نظر نہیں آ رہی تھی۔ یقیناً اپنا سامان سنبھال کر باہر نکل گئی ہوگی چنانچہ میں اسٹیشن سے باہر جانے والے راستے کی طرف بڑھ گیا۔ ٹکٹ چیکر اپنی جگہ سے ہٹ چکا تھا۔ میں باہر نکل آیا۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ بہت کم لوگ نظر آ رہے تھے۔ میں نے ہر طرف نظریں دوڑائیں مگر شمسہ نظر نہیں آئی۔ کچھ فاصلے پر دو تانگے کھڑے ہوئے تھے۔ ایک آگے تھا اور دُوسرا اس سے کچھ پیچھے، تانگے والا نیچے کھڑا گھوڑے کے شانے سہلا رہا تھا۔ میں اس کے قریب پہنچ گیا۔
’’ابھی، ابھی یہاں تم نے کسی لڑکی کو دیکھا ہے۔‘‘ میں نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پوچھا اور تانگے والا منہ پھاڑ کر مجھے دیکھنے لگا۔ ’’ایک لڑکی برقع پہنے ہوئے تھی۔ ہاتھ میں ٹوکری تھی۔‘‘ میں نے پھر کہا۔
’’ہاں جی۔‘‘ تانگے والا بولا۔
’’کہاں گئی۔ کدھر گئی؟‘‘ میں نے پھر کہا۔
’’ہمارے کو کیا معلوم جی۔‘‘
’’اوہ تم کہہ رہے تھے تم نے اُسے دیکھا ہے۔‘‘
’’دیکھا تو ہے جی مگر وہ کدھر گئی، ہمیں کیا معلوم۔‘‘
’’پیدل گئی ہے؟‘‘ میرا سانس بحال ہوتا جا رہا تھا۔
’’نہیں جی سجّو کے تانگے میں گئی ہے۔‘‘
’’اوہو تو یہ کہو۔ چلو تم بھی چلو، میں اس کے تانگے پر چڑھ گیا۔‘‘ اور تانگے والا حیرانی سے مجھے دیکھنے لگا۔ ’’عجیب بے وقوف آدمی ہو چلتے ہو یا میں تمہارا تانگہ لے جائوں۔‘‘ میں نے دانت پیس کر کہا۔
’’ارے نہیں جی مگر جائو گئے کہاں۔‘‘ وہ اُچک کر تانگے پر چڑھ گیا اور اس نے گھوڑے کی لگامیں سنبھال لیں۔
’’آگے بڑھو!‘‘ میں نے غرّا کر کہا اور تانگے والا گھوڑے کو ٹخٹخانے لگا، سڑک پتلی تھی، ناہموار تھی، سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی تھی جو زیادہ تر جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی اور ان پر جگہ جگہ گھوڑوں کی لید نظر آ رہی تھی۔ دو رویہ دُکانیں اور عمارتیں نظر آ رہی تھیں، بھدّی ، بدنما اور پلاستر سے محروم مگر دُور دُور تک سناٹا تھا اور آگے جانے والا تانگہ ابھی تک نظر نہیں آیا تھا۔ میں نے تانگے والے کے شانے پر ہاتھ رکھا اور وہ اُچھل پڑا، میرے رویے اور انداز سے وہ کچھ خوفزدہ ہوگیا تھا۔
’’کیا بات ہے جی۔‘‘ اس نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’معاف کرنا دوست، وہ برقع پوش لڑکی میری بہن ہے، مجھ سے بچھڑ گئی ہے اور بہت دن کے بعد مجھے نظر آئی ہے۔ اس لیے میں پریشان ہوگیا ہوں۔ ذرا تانگے کی رفتار تیز کر کے سجّو کے تانگے کو پکڑو جتنے پیسے مانگو گے دوں گا۔‘‘
’’اچھا جی۔‘‘ اس نے ایک طرف اُڑسا ہوا سونٹا نکال لیا اور پھر گھوڑے کو ہدایات دینے لگا۔
’’یہ سڑک سیدھی گئی ہے؟‘‘
’’چوراہے تک جی۔‘‘
’’اوہ ذرا جلدی چلو کہیں وہ دُور نہ نکل جائے۔‘‘ میں نے بے چینی سے کہا اور تانگے والے نے پھر گھوڑے سے گفتگو شروع کر دی مگر گھوڑے سے اس کے تعلقات زیادہ بہتر نہیں معلوم ہوتے تھے۔ اس لیے گھوڑا اس سے تعاون نہیں کر رہا تھا۔ ہم چوراہے پر پہنچ گئے اور تانگے والے نے ایک جائز سوال کر دیا۔
’’اب کدھر چلوں جی؟‘‘ میں کیا جواب دیتا بس آنکھیں پھاڑنے لگا۔ تانگے والے نے خود ہی یہ مشکل حل کر دی۔ ’’وہ جا رہا ہے سجّو کا تانگہ۔‘‘ میں اُچھل پڑا۔
’’کہاں؟‘‘
’’وہ اُدھر گیا ہے، دُور ہے۔‘‘
’’تو چلو نا۔ کہیں اوجھل نہ ہو جائے۔‘‘ میں نے کہا اور تانگے والے نے گھوڑے کو چابک لگانے شروع کر دیے۔ خدا خدا کر کے میں نے بھی سجّو کا تانگہ دیکھا، وہ بھی اس لیے کہ اس کی رفتار ہی سست ہوگئی تھی۔ پھر ہم اُس تک اُس وقت پہنچے جب وہ رُک گیا۔ برقع پوش لڑکی کی ایک جھلک میں نے دیکھی۔ وہ ایک مکان کے دروازے سے اندر داخل ہوگئی تھی، میں گہری سانس لے کر نیچے اُتر گیا۔ تانگے والے کو میں نے ایک نوٹ دیا تو وہ بولا۔
’’چُھٹّے نہیں ہیں جی۔‘‘
’’بھائی خدا کے واسطے جان چھوڑو۔‘‘ میں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا اور آگے بڑھ گیا۔ شمسہ اس سامنے والے مکان کے دروازے سے اندر داخل ہوئی تھی اور اسی دروازے کے دُوسری طرف۔ اس کے دُوسری طرف یقینا میرے ماں باپ ہوں گے۔ آہ آنکھیں ترس گئی تھیں ان کی صورتوں کو اب تو ان کے چہرے بھی دُھندلا گئے تھے۔ شمسہ، میری رُوح، ماموں ریاض، امی، ابا یہ بے چارے میری وجہ سے کس طرح دربدر ہوئے ہیں، سانسی ہے اس شہر کا نام، ہمارا یہاں سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا تھا، نہ جانے کن حالات کے تحت انہوں نے اِدھر کا رُخ کیا ہوگا اور وہ مجھ سے زیادہ دُور نہیں تھے۔ کیسے جائوں گا ان کے سامنے، کیا ہوگا وہاں جا کر۔ کیسے بلکیں گے وہ۔ قدم من من بھر کے ہو رہے تھے، بدن ڈھلا جارہا تھا۔ میں خود ان سے دُور بھاگتا رہا تھا مگر صرف یہ سوچ کر کہ میں ایک مجرم ہوں، قاتل ہوں اور منحوس ہوں، بھوریا چرن مردود کی توجہ ان کی طرف نہ ہونے پائے، وہ اس سے بچ رہیں اور اب اب میں ان کے سامنے جائوں تو تو کیا وہ مجھ سے سب کچھ نہ پوچھیں گے۔ بتانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ میں نے جسے بھوریا چرن کے بارے میں بتایا وہ بچ نہ سکا۔ کتنا مشکل ہو جائے گا ان کے سوالات سے بچنا۔ اور ان کے پاس رُکنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، ان سے ملوں گا، دل ہلکا کروں گا، بس اتنا کہوں گا ان سے کہ وہ میرے لیے دُعا کریں۔ خدا سے میری مشکل دُور کرنے کے لیے گڑگڑائیں، میں اس عذاب سے نکلا تو ان کی خدمت کروں گا ورنہ وہ مجھے صبر کرلیں، ہاں محمود کی خیریت انہیں ضرور بتا دوں گا۔ ماموں ریاض کے بارے میں پوچھوں گا کہ وہ کس کے ساتھ شکتی پور گئے تھے۔
یہ سارے خیالات ان چند قدموں کا فاصلہ طے کرتے ہوئے دل میں آئے تھے۔ عجیب تشنجی کیفیت ہو رہی تھی۔ نہ جانے کس طرح دروازے کی زنجیر بجائی۔ ایک بار، دوسری بار، تیسری بار پھر دوسری طرف کچھ آہٹیں سنائی دیں، زنجیر ہلی اور میری رُوح آنکھوں میں آ گئی۔ اب ابا کا چہرہ نظر آئے گا۔ امی ہوں گی، یا شمسہ! مگر وہ دروازہ کھلا تو ان میں سے ایک چہرہ بھی آنکھوں کے سامنے نہیں تھا۔ وہ ایک باریش بزرگ تھے۔ لمبی سفید داڑھی سفید کپڑے چہرے پر نرمی تھی۔
’’جی میاں کس سے ملنا ہے؟‘‘ انہوں نے نرم لہجے میں پوچھا۔
’’وہ… وہ۔ محفوظ، محفوظ…‘‘
’’میاں یہاں ہم رہتے ہیں۔ نیاز اللہ ہے ہمارا نام یہاں کوئی محفوظ نہیں رہتے۔‘‘
’’امی شمسہ۔‘‘ میری آواز رُندھ گئی تھی اور نیاز اللہ چونک کر مجھے دیکھنے لگے تھے۔ کچھ عجیب سا انداز تھا ان کا جیسے میری کیفیت پر غور کر رہے ہوں۔ میرے چہرے پر مایوسی کی گہری تہیں چڑھ گئی تھیں۔ آنسو تھے کہ آنکھوں میں اُمڈے آ رہے تھے۔ حلق بند بند سا ہوا جا رہا تھا۔ سارے تصورات چکنا چور ہوگئے تھے۔ یہ چند قدم کا فاصلہ تو میں نے خوابوں کے محل بنا کر طے کیا تھا، دِل نے یقین کرلیا تھا کہ ماں باپ کا چہرہ نگاہوں کے سامنے ہوگا مگر یہ سب کچھ…
’’کہاں سے آئے ہیں میاں، سانسی کے رہنے والے ہیں یا کہیں باہر سے آئے ہیں؟ بزرگ نیاز اللہ نے بدستور نرم لہجے میں پوچھا اور میں ایک بار پھر چونک پڑا، اگر میرے ماں باپ اس گھر میں نہیں رہتے تو شمسہ یہاں کہاں سے آئی… میں نے بزرگ کے عقب میں اندر جھانکتے ہوئے کہا۔
’’جناب یہاں ابھی میری بہن آئی ہے۔ شمسہ ہے اس کا نام، سیاہ برقع اوڑھے ہوئے تھی، ہاتھ میں چٹائی کی بنی ایک ٹوکری تھی، وہ میری بچھڑی ہوئی بہن ہے، ریلوے اسٹیشن پر میں نے اسے دیکھا لیکن ریل دُور نکل چکی تھی۔ میں نے زنجیر کھینچ کر ریل روکی اور نیچے کود پڑا۔ جب ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو وہ تانگے میں بیٹھ کر چل پڑی تھی اور بمشکل تمام میں دُوسرے تانگے میں اس کا پیچھا کرتا ہوا یہاں تک آیا ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے آپ کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
نیاز اللہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ’’تمہاری بہن شمسہ؟‘‘
’’جی۔ جی وہ ابھی ابھی برقع میں ملبوس۔‘‘
’’مگر وہ تو میری بیٹی عزیزہ ہے۔ اپنی خالہ کے ہاں گئی تھی، ایک ماہ کے بعد وہاں سے واپس آئی ہے۔ ہو سکتا ہے تمہیں غلط فہمی ہوئی ہو، اچھا یوں کرو آئو ذرا اندر آئو، آ جائو… آ جائو… جھجکنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ میں ہچکچایا تو نیاز اللہ صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور دروازے سے اندر لے گئے۔
چھوٹا سا صحن تھا اس کے بعد برآمدہ جس کے اندر تین کمروں کے دروازے اور نجانے کیا کیا۔ برآمدے میں ایک
تخت پڑا ہوا تھا جس پر دری اور سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ ایک طرف چوکی بچھی ہوئی تھی جس پر جائے نماز تہہ کی ہوئی رکھی ہوئی تھی۔ جائے نماز پر ہزاری تسبیح رکھی ہوئی تھی، بزرگ مجھے برآمدے میں لے آئے اور تخت پر بیٹھنے کا اشارہ کیا پھر انہوں نے آواز لگائی۔
’’عزیزہ بیٹی، عزیزہ ذرا باہر آئو…‘‘
’’آئی ابا جان، کپڑے بدل رہی ہوں۔‘‘ جواب ملا۔ بزرگ خود بھی مجھ سے کچھ فاصلے پر تخت پر بیٹھ گئے۔ وہ بدستور میرا جائزہ لے رہے تھے اور میرے چہرے پر بکھرے حزن و ملال سے متاثر معلوم ہوتے تھے۔ پھر انہوں نے کہا۔ ’’میاں کہاں سے آ رہے تھے؟‘‘
’’شکتی پور سے۔‘‘
’’اوہو اچھا مگر تمہاری بہن کیسے بچھڑ گئی تم سے؟‘‘
ابھی ان کا سوال ختم ہی ہوا تھا کہ درمیانی دروازے سے ایک لڑکی اندر داخل ہوئی۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس اچھے خدوخال، عمر تقریباً چھبیس ستائیس سال مگر یہ چہرہ شمسہ کا نہیں تھا، خدوخال بھی نہیں ملتے تھے پھر نجانے کیا ہوا تھا مجھے، اس کے چہرے پر شمسہ کا دھوکا کیوں ہوا تھا، آہ کچھ غلطی ہوگئی۔ یقیناً کوئی غلطی ہوگئی میں نے تو شمسہ ہی کو دیکھا تھا۔ ہو سکتا ہے اس بے وقوف تانگے والے نے… مگر نہیں لڑکی مجھے دیکھ کر ایک دَم ٹھٹک گئی، اس نے واپس دروازے کے اندر جانا چاہا لیکن نیاز اللہ صاحب کی آواز اُبھری۔
’’آ جائو بیٹی آ جائو۔‘‘ لڑکی ٹھٹکتی ہوئی برآمدے میں آ گئی، میری نگاہیں جھک گئی تھیں، نیاز اللہ صاحب مسکرا کر بولے۔
’’میاں فیصلہ کرو یہ تمہاری شمسہ ہے یا ہماری عزیزہ؟‘‘ میں جلدی سے تخت سے نیچے اُتر گیا اور شرمندہ لہجے میں بولا۔ ’’میں بے حد شرمسار ہوں، انتہائی معافی چاہتا ہوں، مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔‘‘
’’ارے تو اُٹھ کر کیوں کھڑے ہوگئے بھئی ہماری عزیزہ اگر تمہاری بہن شمسہ بن جائے تو ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘
’’کیا بات ہے ابا میاں کون ہیں یہ؟‘‘
’’اسٹیشن سے تمہارا پیچھا کرتے ہوئے آئے ہیں بلکہ تمہاری وجہ سے یہ اپنا سفر کھوٹا کر چکے ہیں۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں ابا میاں۔‘‘
’’اسٹیشن پر آپ برقع اوڑھے ہوئے تھیں۔ آپ کے ہاتھ میں ایک ٹوکری تھی جس کا ایک ہینڈل ٹوٹ گیا تھا، کیا ایسا ہوا تھا؟‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا۔
’’جی ہاں ایسا ہوا تھا۔‘‘ لڑکی نے کہا اور میرے دل میں اُمید کی آخری شمع بھی بجھ گئی۔ یہ خیال آیا تھا ایک لمحے کے لیے کہ تانگے والے کی غلط رہنمائی سے میں یہاں آ گیا، ہو سکتا ہے شمسہ کسی اور سمت نکل گئی ہو مگر ٹوکری کے واقعہ کا اعتراف اس بات کی ضمانت تھا کہ میری آنکھوں نے ہی دھوکا کھایا۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور نیاز اللہ صاحب چونک کر ادھر دیکھنے لگے۔ پھر بولے۔
’’پتہ نہیں کون ہے میں دیکھتا ہوں۔‘‘ لڑکی حیران سی کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ ویسے ہی کیا کم حماقت ہوئی تھی کہ مزید یہاں رُکتا، نیاز اللہ کے پیچھے پیچھے ہی دروازے تک آیا، دروازہ کھلا تو سامنے ہی اس تانگے والے کی شکل نظر آئی جس کے مریل گھوڑے نے بمشکل تمام یہاں تک پہنچایا تھا۔ تانگے والا میری شکل دیکھتے ہی بولا۔
’’نوٹ تڑا لائے ہیں جی آپ کا، پھوٹے پیسے لے لیں۔‘‘ نیاز اللہ چونک کر مجھے دیکھنے لگے۔ تانگے والے کی بات ایسی تھی کہ مجھے ہنسی آ جاتی مگر تقدیر میں تو آنسو ہی آنسو لکھے ہوئے تھے ہنس نہ پایا اور تانگے والے سے کہا۔ ’’بھائی میں نے تم سے پھوٹے پیسے واپس تو نہیں مانگے تھے۔‘‘
’’ایں۔ تانگے والا حیرت سے بولا مگر نوٹ تو جی آپ نے ہمیں دس روپے کا دیا تھا اور یہاں تک کا بنتا ہے سوا روپیہ، باقی پیسے کا ہم کیا کریں۔‘‘ تانگے والا معصومیت سے بولا۔ نیازاللہ صاحب نے میری طرف دیکھا، پھر ہاتھ بڑھا کر تانگے والے سے پیسے لے لیے اور تانگے والا اطمینان سے واپس مڑ گیا۔ نیاز اللہ صاحب ہنستے ہوئے مڑے اور پیسے میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے۔
’’یہ تو اپنا رزق اللہ ہی سے مانگتے ہیں۔ میاں کسی انسان سے بخشش لینے کی عادت ہی نہیں انہیں۔ مگر یہ تم تیار کہاں کے لیے ہو رہے ہو؟‘‘
’’جی میں جانا چاہتا ہوں اور ایک بار پھر آپ سے معافی مانگ رہا ہوں۔ آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میری اس حرکت سے ناراض ہو جاتا لیکن آپ نے… خدا آپ کو اس کا اَجر دے۔‘‘
’’ساری باتیں ٹھیک ہیں مگر آپ تشریف کہاں لے جا رہے ہیں۔ آیئے اب آپ ہمیں ایسا گیا گزرا بھی نہ سمجھیں کہ ہم آپ کو ایک پیالی چائے بھی نہ پلا سکیں اور جہاں تک بات رہی آپ کی غلط فہمی کی تو میاں غلط فہمی انسانوں ہی کو ہوتی ہے۔ اس میں برائی کی کیا بات ہے بلکہ ہمیں تو افسوس ہے کہ آپ کا نقصان ہوا۔ نجانے کہاں تک کا ٹکٹ ہوگا، یہاں اُترنا پڑ گیا اب واپس جائو گے تو نیا ٹکٹ لینا پڑے گا؟‘‘
میں نے جلدی سے جیب سے ٹکٹ نکال کر نیاز اللہ صاحب کے سامنے کر دیا تا کہ اپنی سنائی ہوئی کہانی کی تصدیق کردوں۔ نیاز اللہ صاحب نے ایک بار پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے واپس لا کر تخت پر بٹھا دیا۔ لڑکی ابھی تک اپنی جگہ کھڑی ہوئی تھی۔ نیازاللہ نے اس سے کہا۔
’’عزیزہ بیٹی۔ تھکی ہوئی تو ہوگی لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہمیں ناشتہ کرائے بغیر تمہیں نیند نہیں آئے گی اور پھر اب تو ہمارے مہمان بھی آئے ہیں۔ چنانچہ ہو جائے ذرا جلدی سے تیاری، انڈے نعمت خانے میں رکھے ہیں اور تمہارے ہاتھوں کے بے مثال پراٹھے۔ میاں نامعلوم مزہ نہ آ جائے تو ہمارا ذمہ… اَماں بیٹھو تکلّف پر تکلّف کیے جا رہے ہو۔ میاں لکھنؤ کے ہو کیا۔ بیٹھو بھائی بیٹھو کم از کم اپنا نام تو بتا دو۔‘‘
کچھ ایسا عجیب لہجہ تھا ان کا، ایسی اپنائیت اور محبت تھی کہ حلق میں پھنسا ہوا گولا پھوٹ بہا اور نجانے کس طرح آنسوئوں کے ساتھ سسکیاں اُبل پڑیں، عزیزہ جو دروازے کی جانب مڑنے ہی والی تھی ٹھٹک کر رُک گئی۔ نیازاللہ بھی حیران رہ گئے تھے مگر میں کیا کرتا۔ نجانے کیوں میں نے اس لڑکی کو شمسہ کے رُوپ میں دیکھا تھا اور میرا وجود تہہ و بالا ہو کر رہ گیا تھا۔ پھر نجانے دل میں کیا کیا آس لیے اس دروازے تک کا فاصلہ طے کیا تھا، برسوں کے بچھڑے ہوئوں کو دیکھنے کی آس بندھی تھی لیکن۔
نیازاللہ اور عزیزہ مجھے تعجب سے دیکھتے رہے۔ ان کے سامنے اس طرح روتے ہوئے سخت شرمندگی ہو رہی تھی، لیکن بند ٹوٹ گیا تھا بہائو روکے نہ رُک رہا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا۔ پھر بھی برداشت نہ ہو سکا تو تیزی سے دروازے کی طرف دوڑ پڑا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ نیاز اللہ کی آوازیں سنائی دی تھیں، یقیناً روک رہے ہوں گے مگر میں نہ رُکا اور ان کے گھر سے بہت دُور نکل آیا۔ اس عالم میں سڑکوں پر بھاگنا بڑا عجیب سا تھا، خود کو سنبھالنا بے حد ضروری۔ سامنے ہی بڑ کا ایک درخت نظر آیا جس کا تنا بے حد چوڑا تھا، اس کی آڑ میں رُک گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا ویسے بھی سانسی بہت بڑی جگہ نہیں تھی۔ آبادی بھی بہت زیادہ نہیں تھی۔ چنانچہ اس وقت بھی آس پاس لوگ نظر نہیں آئے اور یہاں مجھے کافی سکون ملا۔
درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا، آنسو خشک کیے۔ بھوریا چرن کے خلاف دِل میں جو نفرت تھی وہ انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ کیا کروں اس کمبخت کا کیا کروں، ہمیشہ ایسی چوٹ دیتا ہے کہ دل سینے سے باہر نکل آئے۔ یقینی طور پر وہ بھی میرا نظری دھوکہ تھا۔ میں نجانے کون سے بہتر راستے کی سمت سفر کر رہا تھا، ہو سکتا تھا ادھر میری منزل ہو اور پھر رتولی کے اس سقّے نے جو کچھ مجھے بتایا تھا وہ بھی میرے لیے باعث دلچسپی تھا، لیکن بھوریا چرن کمبخت مجھ پر بھرپور نگاہیں رکھے ہوئے تھا اور کہیں بھی میری دال گلنے نہیں دے رہا تھا۔ وہ لڑکی شمسہ کی شکل میں دِکھا کر اس نے مجھے ریل سے نیچے اُتار دیا تھا۔ خیر بھوریا چرن ایک وقت تو ایسا آئے گا جب میں تجھ پر حاوی ہو جائوں گا، جو خیال تیرے دِل میں ہے اس کی تکمیل نہ کرنے کو تو میں نے اپنا ایمان بنا لیا ہے اور اس ایمان کو زندگی سے زیادہ قیمتی قرار دے دیا ہے۔ دیکھوں گا اس جدوجہد میں زندگی کب اور کس طرح چلی جاتی ہے لیکن پیر پھاگن کے مقدس مزار کی بے عزتی یا بے حرمتی اپنے پورے خاندان کی زندگی کی قیمت پر بھی نہیں کروں گا۔ ہاں بھوریا چرن میں ایسا کبھی نہیں کروں گا… تو بھی دیکھنا کہ تیرا واسطہ ایک مسلمان سے پڑا ہے۔
دِل میں نجانے کیا کیا تصورات آتے رہے۔ شہر میں رونق ہوتی چلی گئی، اب زیادہ لوگ آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔ پہلے تو یہ سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی غلط تانگے کا تعاقب کر بیٹھا ہوں لیکن جب نیاز اللہ صاحب کی بیٹی نے ٹوکری گرنے کے واقعہ کو بھی تسلیم کرلیا تو اس کے بعد کوئی شک نہیں رہ گیا اور اب یہاں شمسہ کی تلاش بے کار ہی تھی، بہت دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔ اس کے بعد سانسی شہر کا جائزہ لینے کے بارے میں سوچا اور وہاں سے چل پڑا، بس یونہی نجانے کہاں مارا مارا پھرتا رہا کوئی تصور ذہن میں نہیں تھا، کھانے پینے کا بھی کچھ ہوش نہیں تھا۔ دِل تھا کہ مسلسل رو رہا تھا۔ دوپہر ہوگئی اور سورج عروج پر پہنچ گیا۔ گرمی کافی تھی، میں ایک درخت کے سائے میں جا بیٹھا۔ صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا، بیٹھا ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ اب یہاں رُکنا بے کار ہے۔ ریلوے اسٹیشن جائوں اپنا حلیہ دُرست کروں اور سانسی سے کہیں اور چل پڑوں… کہاں… مراد آباد کا سفر بھی کیا جا سکتا ہے۔ باقاعدہ معلومات حاصل کرنے کے بعد وہاں ممکن ہے ان صاحب کے بارے میں کچھ معلوم ہو جائے اور ان سے ماموں ریاض کے بارے میں۔ اب تو کوئی جگہ ایسی نہیں رہی تھی جہاں اعتماد کے ساتھ جا سکتا اور اپنے ماں باپ کو تلاش کر سکتا۔ کتنی عجیب و غریب بات تھی میں نے خود ہی انہیں چھوڑا تھا، ان سے دُور ہوگیا تھا۔ میں ان کی مشکلات میں ساتھ نہیں دے سکا تھا اور اب… اب میری آرزو تھی کہ وہ ایک بار مجھے نظر آ جائیں۔ اس کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں تھا میری زندگی میں، نہ سہی لیکن بہرحال جینا تو ہے۔ وقت کچھ اور گزرا تھا کہ میں نے کسی کے قدموں کی آہٹ سنی۔ کوئی میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ چونک کر دیکھا تو نیازاللہ صاحب تھے، بڑی سنجیدہ نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے، میں گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔
’’آپ؟‘‘ میں نے حیران لہجے میں کہا۔
’’ہاں میاں ہم ہی ہیں۔‘‘ نیازاللہ صاحب عجیب سے انداز میں بولے۔
میں انہیں دیکھتا رہا۔ وہ دوبارہ بولے۔ ’’کسی کو اس طرح ذلیل کرنا خلاف انسانیت ہے اور خلاف مذہب بھی۔ ہم نے تھوڑی سی میزبانی کرنا چاہی تھی مگر تم نے ہمیں اس قابل نہیں سمجھا۔ وجہ جان سکتے ہیں؟‘‘
’’نہیں جناب میں آپ کو ذلیل نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘‘
’’مسلمان ہو؟‘‘
’’ الحمد للہ۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تو پھر گناہ کیا ہے تم نے، اس کا کفارہ ضرور ادا کرو؟‘‘
’’میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں نیازاللہ صاحب۔‘‘
’’ان الفاظ سے کفارہ اَدا نہیں ہوتا۔ اُٹھو ہمارے ساتھ چلو، ہمیں شرف میزبانی بخشو، جب جی چاہے، جہاں چاہے جانا ہم بھلا راستہ کیوں روکیں گے۔‘‘
’’خدا آپ کو زمانے کی آفتوں سے محفوظ رکھے نیازاللہ صاحب، میں نہایت منحوس انسان ہوں۔ انتہائی سبز قدم جہاں میرے قدم رُکتے ہیں وہاں مصیبتوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔‘‘
’’خوب میاں یہ نحوست وغیرہ ہندوئوں کا عقیدہ ہے، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ اپنی مخلوق سے بہت پیار کرتا ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں، وہ کسی کو منحوس بنا سکتا ہے۔ خیر چھوڑو کیا ہم ایک بار پھر اپنے غریب خانے پر چلنے کی درخواست کر سکتے ہیں۔‘‘
’’جو حکم!‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ رستے میں نیازاللہ نے کہا۔
’’نام ابھی تک نہیں جانتے تمہارا…‘‘
’’مسعود ہے میرا نام۔‘‘
’’ماشاء اللہ۔‘‘ وہ بولے اور خاموش ہوگئے، فاصلہ طے ہوا، اندر عزیزہ موجود تھی مجھے دیکھ کر بڑے خلوص سے مسکرا دی۔
’’آپ لے آئے انہیں ابا جان، میں ان سے ناراض ہوں۔‘‘
’’کیوں بھئی…؟‘‘
’’یہ مجھے بہن سمجھ کر میرے پیچھے آئے تھے لیکن مجھے دیکھ کر انہوں نے مجھے بہن نہیں تسلیم کیا۔ اتنی بری ہوں میں؟‘‘
’’انہی سے پوچھ لو، مسعود ہے ان کا نام۔‘‘
’’بول ہی نہیں رہی میں ان سے، یہ خود جواب دیں۔‘‘ عزیزہ نے کہا۔
’’جی جناب، کیا فرماتے ہیں۔‘‘ نیاز اللہ بولے۔
’’ذمے دار آپ لوگ ہیں۔ میرا قصور نہ ہوگا، جس نے مجھ سے خلوص برتا، جس کے دل میں میرا پیارا پیدا ہوا وہ تباہ و برباد ہوگیا۔ یہاں تک کہ میرے گھر والے بھی۔ شمسہ میری بہن ہے وہ سب مجھ سے بچھڑ گئے ہیں۔ میری ماں، میرے باپ، میرے ماموں سب میری نحوست کا شکار ہوگئے۔ آپ کو بہن کی شکل میں دیکھا کچھ نظری دھوکہ ہوگیا تھا۔ آپ کے پیچھے بہت سے ارمان لے کر آیا، یہ خیال تھا میرا کہ اب ماں باپ بھی نظر آ جائیں گے مگر…‘‘
’’مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی بہن نہ نکلی، بہن جیسی تو ہو سکتی ہوں، جہاں تک آپ کے منحوس ہونے کا تعلق ہے تو میرا ایمان پختہ ہے، خدا اپنے بندوں کو منحوس نہیں بناتا اس لیے آپ ہماری فکر نہ کریں۔‘‘
’’آہ کاش۔ کاش…‘‘
’’آپ کو علم ہے کہ ابا میاں سارا دن آپ کے پیچھے پھرتے رہے ہیں۔‘‘
’’ایں؟‘‘ میں چونک پڑا۔
’’ہاں مسعود میاں آج ہم بھی جاسوس بن گئے تمہارا تعاقب کرتے رہے، یہ دیکھتے رہے کہ تم کہاں کہاں جاتے ہو اور جب تھک گئے تو تمہارے سامنے پہنچ کر تم سے یہاں آنے کی درخواست کر ڈالی۔‘‘
’’جس نے بھی مجھ سے اتنا پیار برتا ہے وہ مشکلات کا شکار ہوگیا ہے۔ آپ بھی وہی سب کچھ کررہے ہیں۔ خدا آپ کو محفوظ رکھے۔‘‘
’’یہ معاملہ ہمارا اور خدا کا ہے، اسے ہمارے اور اس کے درمیان رہنے دو اور تم غسل کر لو، جائو بھئی ہم نے آج ناشتہ تک نہیں کیا۔‘‘
’’صبح کو میری صورت جو دیکھ لی تھی۔‘‘ میں ہنس پڑا۔
’’میں نے بھی دیکھی تھی مگر میں ناشتہ بھی کر چکی ہوں اور دوپہر کا کھانا بھی کھایا ہے میں نے۔ جایئے وہ غسل خانہ ہے۔‘‘ عزیزہ نے کہا اور میں گردن جھٹک کر غسل خانے کی طرف چل پڑا، میری سسکیوں سے متاثر ہوگئے ہیں بے چارے۔ مگر میں کسی قیمت پر ان کے ہاں پڑائو نہیں ڈالوں گا، میں نے فیصلہ کیا تھا۔
کھانا کھایا اور پھر دونوں باپ بیٹی گھیر کر بیٹھ گئے۔ نیاز اللہ بولے۔
’’پہلے ہمارے بارے میں سن لو۔ ہمارا نام نیازاللہ ولد ضمیر اللہ ہے۔
سانسی ہی میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ گو ہم نے آدھا ہندوستان دیکھا ہوا ہے لیکن قیام یہیں رہا۔ ہمارے والد ضمیراللہ صاحب کے پاس کچھ زمینیں تھیں جن سے کفالت ہوا کرتی تھی۔ بعد میں وہ زمینیں ہمیں منتقل ہوگئیں اور ہم ان کی دیکھ بھال کرنے لگے پھر والد صاحب اور والدہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے اکلوتے تھے جس کی وجہ سے تنہا رہ گئے پر خود ہی کچھ بزرگوں کی کرم فرمائی سے شادی وغیرہ کا سلسلہ ہوا، شادی ہوگئی مگر اہلیہ بہت عرصے تک ہمارا ساتھ نہ دے سکیں اور اپنی ایک نشانی چھوڑ کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ ہم نے اپنی تمام تر محبتیں اپنی بیٹی عزیزہ کو سونپ دیں اور ہم باپ بیٹی زندگی گزارنے لگے… لیکن بیٹیوں کا ساتھ کچا ہوتا ہے، عزیزہ بیٹی کی شادی کی ہم نے اور بالکل ہی تنہا رہ گئے۔ تقدیر نے عزیزہ کے شوہر کو بھی زندگی کی مہلت نہیں دی اور وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ عزیزہ صرف چھ ماہ سہاگن رہ کر بیوہ ہوگئیں اور اس کے بعد انہوں نے دُوسری شادی کرنے سے انکار کردیا۔ ہم نے بھی ڈھلتی ہوئی عمر کے پیش نگاہ زمینیں فروخت کر دیں اور کچھ ایسی جائداد خرید لی جس سے کرایہ وغیرہ حاصل ہو سکے۔ سو اب یہاں یہ چھوٹا سا گھر ہے ہم باپ بیٹی ہیں اور یاد اللہ ہے بس اس کے علاوہ زندگی کا کوئی اور مصرف نہیں۔ اس سے تمہیں یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ہماری زندگی کیا ہے۔
اس کے بعد ہم یہ حق رکھتے ہیں کہ تم سے تمہارے بارے میں پوچھیں۔ یہ بے بسی یہ یاسیت تم پر کیوں طاری ہے، دیکھو میاں گریز نہ کرنا تمہیں اندازہ ہے کہ انسان ہی انسان کا دوست بھی ہوتا ہے اور دُشمن بھی لیکن ہمیں دوستوں میں تصور کرو۔ باقی رہا جہاں تک تمہارے وہم کا تعلق۔ تو ہو سکتا ہے تمہارے تجربات تمہیں یہ احساس دلاتے ہوں۔ ہمارا مسئلہ ذرا مختلف ہے، ہاں البتہ تمہیں ایک آزادی ضرور دی جاتی ہے وہ یہ کہ اگر کچھ بتانے سے خود تمہیں نقصان پہنچے تو پھر ہم تمہیں مجبور نہیں کریں گے لیکن خواہش مند ہیں اس بات کے کہ تم ہمیں اپنے بارے میں بتائو کہ چراغ سے چراغ جلتے ہیں۔ ہو سکتا ہے تمہاری مشکل کا کوئی حل ہمارے پاس ہو، اس بات سے انکار نہ کرنا کہ قدرت پریشانیوں کو دُور کرنے کے لیے راستے متعین کرتی ہے اور ان راستوں سے گریز کا مطلب ہے کہ پریشانیوں کو خود پر نازل رکھا جائے۔‘‘
میں اس مخلص شخص کا چہرہ دیکھتا رہا۔ الفاظ تو سمجھ میں آنے والے تھے لیکن میرے تجربات کچھ اور ہی کہتے تھے۔ دیر تک خاموش رہا۔ عزیزہ نے کہا۔
’’ابا میاں یہ ہمیں اس قابل نہیں سمجھتے۔ آپ انہیں مجبور نہ کریں، کتنی کوششیں کر چکے ہیں آپ، انہوں نے ہمیں اپنا سمجھ کر نہ دیا، رہنے دیں ابا میاں، ہمارا فرض ہے کہ ان کی خدمت کریں اور جب تک یہ یہاں رہنا مناسب سمجھیں ان کی خاطر مدارات کریں، غیر واقعی کبھی اپنے نہیں ہوتے۔‘‘
میں نے عزیزہ کی طرف دیکھا اور آہستہ سے بولا۔ ’’عزیزہ بہن آپ براہ کرم ایسی باتیں نہ کریں۔ میں تو محبتوں کو ترسا ہوا انسان ہوں۔ میں تو اپنے بھرے پرے گھر سے محروم ہو چکا ہوں، میں کسی سے گریز کیا کروں گا، ہاں یہ میرا تجربہ ہے کہ جس نے بھی مجھ سے محبت کا اظہار کیا، مصیبت کا شکار ہوا، اگر آپ مصیبتیں خریدنا چاہتی ہیں تو مجھے اپنی زبان کھولنے پر اعتراض نہیں۔‘‘
’’ہاں میاں ہم سے بات کرو، ہم مصیبتیں خریدنا چاہتے ہیں۔‘‘ نیاز اللہ بولے۔
’’تو پھر مختصراً میری کہانی یہ ہے کہ اچھے بھلے گھر کا فرد تھا۔ دماغ میں خناس پیدا ہوا، تن آسانیاں اپنا لیں اور ہاتھ پائوں ہلائے بغیر دولت کے حصول کا خواہاں ہوگیا۔ اس سلسلے میں کچھ ایسے راستے اپنانا چاہے جو ناجائز تھے۔ ایسے لوگوں کی تلاش میں سرگرداں ہوگیا جو جنتر منتر سے دولت کے حصول کا ذریعہ پیدا کر دیتے ہیں اور ایک ایسے شیطان کے جال میں پھنس گیا جس نے مجھے کچھ ایسے کاموں کے لیے مجبور کیا جو میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا تھا، اس کے عتاب کا شکار ہوا اور مصیبتوں میں گرفتار ہوتا چلا گیا۔ والدین چھن گئے، خود دربدر ہوا، سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا اور اس کے بعد سے مارا مارا پھر رہا ہوں۔ اب نہ ماں باپ کا پتہ ہے، نہ بہن بھائیوں کا اکیلا ہوں اور زندگی کی صعوبتوں میں گرفتار… نیاز اللہ صاحب نے میرے ان مختصر الفاظ پر غور کیا، مجھے دیکھتے رہے پھر بولے۔
’’ذرا ہاتھ آگے بڑھائو۔‘‘ میں نے اپنا سیدھا ہاتھ آگے بڑھا دیا تو انہوں نے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر میری ہتھیلیوں کو سونگھا، دیر تک سونگھتے رہے اور پھر ٹھنڈی سانس لے کر بولے۔
’’اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ سفلی عمل کے زیر اثر ہو۔‘‘ میں نے انہیں جس قدر مختصر تفصیل بتائی تھی وہ ایک طرح سے میرے لیے یوں اطمینان بخش تھی کہ اس میں بھوریا چرن کا براہ راست تذکرہ اور اس کے عمل کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں تھی اور یہ میں نے اس لیے کیا تھا کہ نیاز اللہ صاحب کو کوئی نقصان نہ پہنچے، لیکن نیاز اللہ صاحب نے صحیح تجزیہ کیا تھا، میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’ہو سکتا ہے۔‘‘
’’یہ کالا جادو ناپاک چیز ہے اور اس کے کرنے والے کمبخت انوکھی قوتیں حاصل کرلیتے ہیں۔ بعض اوقات اگر کوئی چھوٹا موٹا عامل اس کا توڑ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو خود بھی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس لیے عام قسم کے لوگ جو کاروباری طور پر یہ سب کچھ نہیں کرتے اس چکر میں نہیں پڑتے۔ البتہ تم نے یہ تو سنا ہوگا کہ زہر کا تریاق، زہر ہی میں ہوتا ہے اور لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ اس کے مصداق ایک بات فوری طور پر میرے ذہن میں آئی ہے، اب دیکھو نا تم نے کم از کم کچھ حقیقتیں بتائیں تو میرے ذہن میں بھی کچھ خیال آیا۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہاری اس سلسلے میں مدد کر کر سکتا ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے سوالیہ نگاہوں سے نیاز اللہ کو دیکھا اور نیاز اللہ صاحب مسکرا دیئے پھر کہنے لگے۔
’’رامانندی میرا بچپن کا دوست ہے، دُوسری کلاس سے ہائی اسکول تک ہم نے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اس کے اور میرے راستے مختلف ہوگئے، نجانے کہاں کہاں مارا مار پھرا، پورے سولہ سال کے بعد واپس آیا تو پائوں زمین پر ہی نہیں تھے، جوگی بنا ہوا تھا۔ گھر والے پہلے ہی اس سے مایوس تھے۔ جو باقی رشتہ دار تھے جب وہ اس سے ملے تو وہ ان کے کام کا نہیں رہا تھا لیکن دوستی نہیں بھول سکا اور مجھ سے ویسے ہی ملتا رہا۔ کمبخت نے نجانے کیا کیا جنتر منتر سیکھ لیے ہیں۔ بڑے چکر چلاتا رہتا ہے۔ مالی حیثیت انتہائی مستحکم ہے لیکن ویرانوں میں بسیرا کر رکھا ہے اور وہیں مستقل رہائش کرلی ہے۔ بڑا گیانی بنتا ہے اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس سے ملائوں۔ ہو سکتا ہے وہ تمہارے کام آ جائے۔‘‘
’’کیا وہ سفلی علوم کا توڑ جانتا ہے؟‘‘
’’بھئی نجانے کیا کیا توڑ پھوڑ کرتا رہتا ہے وہ باقاعدہ سادھو بن گیا ہے مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ بلاوجہ لوٹتا نہیں، کچھ جانتا ہے بلکہ یہ کہو کہ بہت کچھ جانتا ہے۔ ہم چونکہ ہم مذہب بھی نہیں ہیں اور پھر ظاہر ہے میرا کوئی راستہ کبھی ایسا نہیں رہا۔ لیکن اس سے جب بھی میری ملاقات ہوتی ہے بڑی محبت سے ملتا ہے۔ میرا خیال ہے صرف ایک میں ہوں جسے وہ اپنا دوست اپنا شناسا مانتا ہے۔ سیکڑوں بار پیشکش کر چکا ہے کہ اگر مجھے کوئی مشکل ہو تو اسے بتائوں، مگر تم خود سمجھتے ہو کہ اس سے کسی مشکل کا حل مانگنا یوں سمجھ لو کہ بہت کچھ کھونے کے مترادف ہے، لیکن تمہارا مسئلہ بالکل مختلف ہے مسعود میاں، میری مانو تو اس سے مل لو۔ ہم اس سے مشورہ کرلیتے ہیں کم از کم تمہیں جو مشکل درپیش ہے اس کا کوئی حل تو دریافت ہو۔‘‘
میں سوچ میں ڈوب گیا یہ بالکل ایک نئی سوچ تھی، نیا انداز تھا۔ اب تک اس سلسلے میں جو تھوڑی بہت کارروائی ہوئی تھی وہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوئی تھی جو میرے ہم مذہب تھے لیکن نیاز اللہ صاحب نے ایک نیا راستہ دکھایا تھا یعنی زہر کا توڑ زہر ہی سے ہو سکتا ہے وہ شخص جس کا نام رامانندی ہے بقول نیاز اللہ کے ان کی دوستی کے ناتے کوئی ایسا طریقہ کار بتا دے جس سے میں بھوریا چرن سے محفوظ ہو جائوں لیکن اس شخص کے سامنے مجھے زبان کھولنا ہوگی، بہرحال یہ بھی کر کے دیکھ لیا جائے میں نے سوچا اور نیازاللہ صاحب سے رضامندی کا اظہار کر دیا۔
اس رات میرے دِل میں خوف کا کوئی احساس نہیں تھا۔ دِل میں سوچا ضرور تھا کہ عموماً ایک ہی بات ہوتی ہے۔ اگر میری بہتری کی کوئی راہ نکلنے لگتی ہے تو بھوریا چرن اپنا عمل شروع کر دیتا ہے اور میرے راستے روک دیتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں تھیں۔ ممکن ہے اس بار بھی ایسا ہی ہو، ہوتا ہے تو ہو جائے۔ میں نے تو نیازاللہ سے منع کیا تھا۔ آخر کیا کروں۔ دُنیا سے کنارہ کشی بھی تو نہیں ہو پاتی۔
حالات کچھ بھی ہوں وقت تو کسی طرح گزارنا ہی ہے۔ میں تو یہاں نہیں رُکنا چاہتا تھا مگر یہ لوگ ہی جذباتی ہوگئے۔ رات کو کئی بار آنکھ کھلی، چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں، چھت پر مکڑیاں تلاش کیں مگر کچھ نہیں ملا۔ صبح کو نیازاللہ صاحب نے جگایا تھا۔
’’اُٹھو مسعود میاں، پونے گیارہ بج گئے ہیں۔‘‘
’’پونے گیارہ؟‘‘ میں اُچھل پڑا۔
’’ہاں بڑی گہری نیند سوئے تھے، جگانے کو جی نہ چاہا۔ مگر اب بہت وقت ہو چکا ہے۔‘‘
’’معافی چاہتا ہوں۔‘‘ میں بوکھلایا ہوا سا اُٹھ گیا۔ کسی کے گھر میں اتنی دیر تک سونا غیر مناسب بات تھی۔ جلدی جلدی منہ ہاتھ دھویا، عزیزہ نے ناشتہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’اب یہ بتا دیجیے کہ دوپہر کا کھانا کس وقت پیش کیا جائے؟‘‘
’’میں شرمندہ ہوں۔ واقعی بہت دیر سو گیا۔‘‘
’’شرمندہ ہونے کے سلسلے میں آپ بے حد فراخ دل واقع ہوئے ہیں مگر میرا یہ سوال آپ کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں تھا۔ دُوسری بات یہ کہ آپ کیا کھانا پسند کریں گے؟‘‘
’’جو بھی ممکن ہو۔‘‘
’’آپ کی اپنی کوئی پسند؟‘‘
’’بھول گیا۔‘‘ میں نے جواب دیا اور عزیزہ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر مجھے گھورنے لگی، پھر بولی۔
’’ٹھیک ہے۔ اس بارے میں بھی آپ سے بات کرنی ہوگی۔‘‘
ساڑھے بارہ بجے نیازاللہ صاحب میرے پاس آ گئے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں چلنے کے لیے تیار ہوں؟
’’جی!‘‘ میں نے مختصراً جواب دیا۔ نیازاللہ میرے ساتھ باہر نکل آئے۔ انہوں نے ایک تانگے والے کو روک کر پوچھا۔
’’کہو میاں داتا رام سوامی مٹھ چلو گے؟‘‘
’’منع کریں گے میاں جی سے بھلی کہی۔‘‘ تانگے والے نے پُر اخلاق لہجے میں کہا اور ہم دونوں تانگے میں بیٹھ گئے۔
’’شہر سے باہر کا علاقہ ہے، صرف وہی لوگ جاتے ہیں جنہیں رامانندی کے پاس جانا ہو، اس کا استھان سوامی مٹھ کہلاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ تو اس سے نفرت کرتے ہیں خاص طور سے پڑھے لکھے لوگ جن میں بے شمار ہندو شامل ہیں۔ مسلمان تو خیر اس کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ گندے علوم کرتا ہے۔ ویسے لوگ اس سے ڈرتے بھی ہیں۔ مجھ پر نکتہ چینی ہوتی رہتی ہے کیونکہ بہت سوں کو علم ہے کہ میں اس سے کبھی کبھی ملتا رہتا ہوں مگر کیا کروں بچپن کا دوست ہے۔ بچپن کی معصوم یادوں کا ساتھی، مجھ سے بہت مخلص ہے اور کبھی اس نے میرے دینی معاملات میں مداخلت نہیں کی بلکہ…‘‘ نیازاللہ صاحب اچانک خاموش ہوگئے، میں سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگا وہ گردن ہلا کر بولے۔ ’’ایک واقعہ یاد آ گیا تھا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بس زمینوں کا معاملہ تھا۔ ایک بنیا تھا مدن کشوری، کچھ نیت خراب ہوگئی تھی اس کی ہماری زمین کے ایک حصے پر، مقدمہ دائر کیا اور اپنا حق جتایا۔ ہم ایسی باتوں کے قائل نہیں تھے، اس سے ملے اسے سمجھایا کہ بددیانتی نہ کرے مگر احمق شخص نہ مانا، خاصی رقمیں کھلا کر اس نے کچھ سرکاری اہلکاروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ہمیں کوڑی کوڑی کو محتاج کر دے گا۔ اس کے علاوہ ہمارے حق میں گواہی دینے والوں کے ساتھ غنڈہ گردی بھی کی۔ ہم تو بخدا خاموش ہوگئے تھے مگر کسی نے راما نندی کو پوری کہانی سنا دی۔ اس نے بھی سنا ہے کہ پہلے تو مدن کشوری کو سمجھایا مگر وہ نہ مانا تو…‘‘
’’تو…؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’برا کیا راما نندی نے۔ دیوالی کی رات کو ہانڈی اُڑائی اور مدن کشوری مر گیا۔ آہستہ آہستہ اس کا سارا گھر تباہ ہوگیا۔ خدا گواہ ہے کہ ہمارے فرشتوں کو بھی اس کی کارروائی کا علم نہیں تھا ورنہ ہم اسے روکتے۔ پھر بھی ہم نے اس زمین کو اپنے تصرف میں نہ لیا بلکہ اسے ایک خیراتی ادارے کے حوالے کر کے اس سے دست کش ہوگئے۔‘‘
’’یہ ہانڈی اُڑانا کیا ہوتا ہے؟‘‘میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’گندے علم ہی کا ایک حصہ ہے۔ سفلی علم کے ماہر جادو کرتے ہیں اور کوری ہانڈیوں میں نہ جانے کیا الم غلم بھر کر اپنے دشمن کی طرف روانہ کرتے ہیں۔ ہانڈی دشمن کے گھر جا گرتی ہے اور وہ جادو کے زیرِ اثر آ کر مر جاتا ہے۔ گویا یہ جادو کے میزائل ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘ نیاز اللہ نے بتایا۔
تانگہ درختوں کے درمیان ایک کچی سڑک پر ہچکولے کھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ درختوں کے بعد کھیتوں کا سلسلہ تاحد نگاہ چلا گیا تھا۔ محنت کش کسان زمین سے سودا کر رہے تھے۔ زندگی رواں دواں تھی اور میں اس نئے مسئلے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ فاصلہ کافی تھا بالآخر طے ہوگیا۔ سامنے لکھوری اینٹوں سے بنی عمارتوں کے کچھ کھنڈرات نظر آ رہے تھے۔ دُور ہی سے ہیبت ناک نظر آتے تھے۔ ایک عجیب سی ویرانی برس رہی تھی۔ وہاں کچھ لوگ بھی نظر آ رہے تھے۔ گھوڑا اچانک رُک گیا اور داتا رام نے کہا۔
’’یہیں اُترنا پڑے گا میاں جی۔‘‘
’’آگے نہیں لے جائو گے داتا رام۔‘‘ نیازاللہ صاحب نے پوچھا۔
’’یہ سسرا جناور آگے نا جائے گا، ڈرے ہے، جناور کی آنکھ ہم سے آگے دیکھ لیوے ہے میاں جی، کھال اُتار دو اس کی آگے نا جائے گا!‘‘
’’چلو کوئی بات نہیں ہے لو یہ پیسے رکھ لو، رکو گے، ہمیں واپس بھی جانا ہے۔‘‘
’’جیسی میاں جی کی مرضی پیسوں کی کیا ہے بعد میں دے دیں۔‘‘
’’نہیں رکھ لو۔ انتظار کرنا چاہے کتنی دیر ہو جائے جتنے پیسے مانگو گے دوں گا۔‘‘
’’میاں جی کی باتیں جب بھی کہی غیروں جیسی کہی۔ ہم رُکے ہیں میاں جی تم جائو۔‘‘ تانگے والے نے کہا اور ہم دونوں آگے بڑھ گئے نیاز اللہ صاحب بولے۔
’’سانسی میں زیادہ تعداد اچھے لوگوں کی ہے۔ بُرے بس نمک کے برابر ہیں آئو، ذرا سنبھل کر چلنا یہاں سانپ ہوتے ہیں خیال رکھنا۔‘‘ مجھے جھرجھری سی آ گئی تھی سانپوں سے بچپن سے ہی ڈرتا تھا مگر اب تو تجربہ ہی مختلف تھا۔ ایک اژدھا نہ جانے کب سے مجھ سے لپٹا ہوا تھا اور اس نے میرے سارے وجود کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔ ہم ویران راستے عبور کرتے ہوئے کھنڈرات کے پاس پہنچ گئے۔ کچھ فاصلے پر ایک جوہڑ نظر آ رہا تھا جس کے کنارے کچھ لوگ آسن مارے بیٹھے ہوئے تھے۔
’’یہ لوگ جاپ کر رہے ہیں۔کچھ اس کے چیلے ہوں گے کچھ ضرورت مند، ایسے لوگ عموماً یہاں رہتے ہیں۔‘‘ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہم آگے بڑھ کر کھنڈرات میں داخل ہوگئے، جگہ جگہ ٹوٹی دیواریں، اینٹوں کے ڈھیر، کہیں کہیں جلی ہوئی راکھ کے انبار۔ ایک عجیب ماحول تھا۔ ویرانی تھی کہ منہ سے بول رہی تھی۔ خودرو درخت اینٹوں کے ڈھیر سے ہی نکل پڑے تھے لیکن ان کی شاخوں پر خاموشی تھی۔ ایک گول دروازے سے گزر کر ہم ایک راہداری میں آ گئے اور یہاں ایک دُبلے پتلے ننگ دھڑنگ آدمی کو نیازاللہ صاحب نے آواز دے کر روکا۔ وہ قریب آ گیا تھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’رامانندی کہاں ہیں؟‘‘
’’اندر ہیں۔‘‘
’’ذرا انہیں بتائو نیازاللہ آیا ہے۔ ہم یہاں انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ وہ شخص خاموشی سے راہداری میں سیدھا چلا گیا، نیازاللہ صاحب وہیں رُک گئے تھے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک مضبوط بدن کا لمبا تڑنگا آدمی جس کا صرف زیریں بدن ڈھکا ہوا تھا، گلے میں ریٹھوں کی لمبی مالا پڑی ہوئی تھی، کسرتی بازوئوں پر کوڑیوں کے حلقے بندھے ہوئے تھے، سر اور داڑھی کے بال بڑھے ہوئے اور نہایت غلیظ نظر آ رہے تھے، تیزی سے آتا نظر آیا۔ اس کے پیچھے وہی سوکھا آدمی دوڑ رہا تھا۔ قریب آ کر اس شخص نے سرد لہجے میں کہا۔
’’آئو نیازاللہ… آئو۔‘‘ وہ واپس مڑا عجیب سا انداز تھا۔ نیازاللہ صاحب نے مجھے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا اور ہم چل پڑے، کوئی دس قدم آگے بڑھ کر اچانک وہ شخص ٹھٹھک گیا، اس نے مڑ کر مجھے دیکھا اس کی بڑی اور کالی آنکھوں میں بے پناہ چمک تھی، تیکھاپن تھا، ایک لمحے وہ مجھے دیکھتا رہا پھر آگے بڑھ گیا۔ میری سمجھ میں اس کے سوا کچھ نہیں آیا تھا کہ وہ ایک پُراسرار اور خطرناک آدمی ہے۔ جس جگہ سے ہم اندر داخل ہوئے تھے وہ کوئی دروازہ نہیں تھا بلکہ ایک دیوار میں سوراخ کر کے اندر جانے کا راستہ بنایا گیا تھا، ناہموار اینٹوں کے درمیان سے سنبھل کر نکلنا پڑا تھا اور جس جگہ ہم پہنچے تھے وہ اس پورے کھنڈر سے زیادہ عجیب تھی، بہت بڑا ہال نما کمرہ جس کی چھت بے حد اُونچی تھی اس میں درمیان میں ایک ٹوٹا پھوٹا فانوس لٹک رہا تھا جس میں چند شمعیں روشن تھیں مگر ان کی روشنی ناکافی تھی اور ہال کے بیشتر حصے تاریک تھے، جگہ جگہ مرگ چھانے بچھے ہوئے تھے۔ ایک جگہ بہت سی اینٹیں چبوترے کی شکل میں چنی ہوئی تھیں اور ان پر بھی ایک مرگ چھانہ بچھا ہوا تھا، پاس ہی ایک کمنڈل رکھا تھا، قوی ہیکل شخص نے ایک دری نکالی اور اسے ہمارے لیے زمین پر بچھا دیا۔
’’یہاں بیٹھو نیازاللہ۔ یہ پاک صاف ہے اور زمین تو ہوتی ہی پاک ہے۔‘‘ وہ بولا اور ہنس دیا۔
’’میرے سامنے ہوش قائم رکھا کرو رامانندی!‘‘ نیازاللہ غصیلے لہجے میں بولے۔
’’اچھا بھائی گوشت خور، بگڑتا کیوں ہے بیٹھ جائو۔ یہ بچہ کون ہے؟‘‘
’’میرا بھتیجا سمجھ لو۔‘‘ نیازاللہ نے کہا اور مجھے دری پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود بھی بیٹھ گئے۔ رامانندی نے ایک مرگ چھانہ ہمارے سامنے سے گھسیٹ لیا اور خود اس پر بیٹھ گیا۔ نیازاللہ ہنس پڑے اور میری طرف رُخ کرکے بولے۔
’’وہ چبوترہ دیکھ رہے ہو مسعود میاں۔ مہاراج ادھیراج کا استھان ہے۔ راج مہاراجے آ جائیں نیچے بیٹھیں گے اور مہاراج اس استھان پر، میرے سامنے ایک بار اُوپر بیٹھ گئے تھے میں نے ڈاڑھی پکڑ کر نیچے گھسیٹ لیا بس اس دن سے مہاراج ہوش میں آ گئے ہیں۔‘‘
’’کیا کرتا مسعود میاں یہ گوشت خور اس دن میری ڈاڑھی کے بہت سے بال اُکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گیا تھا، بس اس دن سے میں اس کے بس میں ہوں۔‘‘
’’اسی دن سے۔‘‘ نیازاللہ نے طنزیہ کہا۔
’’نا بھائی نا اس سے بھی پہلے سے ارے کیا کرتے، بھینس کی پیٹھ پر بیٹھ کر پوکھر میں ننگے نہائے تھے۔ مگر یہ مسلیٰ بہت چالاک ہے۔ ہم بیمار ہوئے تو ہمیں دھوکے سے بکری کی یخنی پلا دی۔ دھرم فشٹ کر دیا ہمارا اور خود ہمارے منگوائے ہوئے پھل بھی نہیں کھاتا۔ چلو بھتیجے چھوڑو تم کسی لمبے پھیر میں پڑے ہوئے ہو۔‘‘
’’اسی کے لیے تمہارے پاس آیا ہوں نندو، تم سے طویل مشورہ کرنا ہے۔‘‘ نیازاللہ بولے۔
’’ہاں ہاں ضرور!‘‘ رامانندی نے کہا۔
’’تم نے کون سے پھیر کا ذکر کیا ہے؟‘‘
’’وہ ہماری بات ہے اسے جانے دو۔ مسعود میاں تم سنائو کیا قصہ ہے؟ ہمیں معلوم ہے کہ نیازاللہ کا کوئی بھائی بہن نہیں تھا مگر پھر بھی اتنا کافی ہے کہ اس نے تمہیں بھتیجا کہا۔ اس لیے تم ہمارے بھی بھتیجے ہوئے جو کچھ تم نیازاللہ کو بتا سکتے ہو وہ ہمیں بھی…‘‘ رامانندی نے جملہ اَدھورا چھوڑ دیا۔
ہال نما کمرے کے ایک تاریک گوشے میں کچھ کھڑکھڑاہٹ ہوئی تھی۔ چار مدھم مدھم روشنیاں متحرک تھیں اور آگے بڑھتی آ رہی تھیں، ذرا سی دیر میں وہ عیاں ہوگئیں لیکن انہیں دیکھ کر میں سہم گیا۔ وہ انسانی کھوپڑیاں تھیں جن کی ویران آنکھیں روشن تھیں اور وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھیں۔ بڑا پُراسرار اور ہیبت ناک منظر تھا، دونوں کھوپڑیاں آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہوئی ہمارے سامنے آ گئیں۔ نیازاللہ بھی منہ کھولے انہیں دیکھ رہے تھے۔ رامانندی نے بھیانک آواز میں کہا۔
’’ست بھدوئیا… ماترن تھا۔ نہ وجئی ماہوترا۔‘‘ دونوں کھوپڑیاں رُک گئیں، سامنے کی سمت سے بلند ہوئیں اور پھر سیدھی ہو کر متحرک ہوگئیں، رامانندی قہقہہ مار کر ہنس پڑا تھا۔ پھر وہ بولا۔ ’’سسرو چاچا کو بھی نا پہچانو ہو، ابے یہ تمہارے پھیر میں نا آئے گا!‘‘
نیازاللہ نے تعجب سے راما نندی کو دیکھا تو وہ اور زور سے ہنسا! پھر بولا۔ ’’معاف کرنا نیازاللہ یہ سسرے ڈیوٹی پر ہیں ان کا یہی کام ہے۔‘‘
میں خود بھی ششدر تھا۔ رامانندی کے الفاظ اور اس کی ہنسی میری سمجھ میں نہیں آئی تھی، رامانندی نے ہاتھ آگے بڑھا کر ایک کھوپڑی اُٹھا لی۔ کھوپڑی کے نیچے کالے رنگ کا ایک خوب موٹا سا چوہا موجود تھا جو کھوپڑی کے اپنے اُوپر سے ہٹتے ہی اُچھل کر دوڑ پڑا تھا جبکہ دُوسری کھوپڑی اسی مخصوص انداز میں آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہوئی ہال نما کمرے کے دوسرے تاریک حصے کی جانب جا رہی تھی۔ رامانندی نے پھر ایک قہقہہ لگایا اور بولا۔ ’’ارے بھائی اپنا سامان تو لیتا جا، غالباً یہ الفاظ چوہے سے ہی کہے گئے تھے مگر چوہا واپس نہیں آیا اور رامانندی نے گردن جھٹک کر کھوپڑی ایک طرف رکھ دی، نیازاللہ تعجب سے بولے۔
’’یہ کیا ہے رامانندی۔‘‘
’’سنسار باسیوں پر رُعب ڈالنے کے لیے دو سرونٹ…‘‘
’’مطلب…؟‘‘ نیازاللہ نے بدستور تعجب سے پوچھا؟
’’ارے یار نیازاللہ، یہاں بڑے بڑے گدھے آتے ہیں، بات بعد میں بتائیں گے پہلے جائزہ لیں گے کہ رامانندی جی کتنے پانی میں ہیں اور یہ کھوپڑیاں انہیں پانی کا چڑھائو بتا دیتی ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی انہیں یقین ہو جائے ہے کہ رامانندی جی کام کے آدمی ہیں۔‘‘
’’مگر تمہیں اس شعبدہ گری کی کیا ضرورت ہے، تم نے تو ویسے ہی بہت کچھ سیکھ لیا ہے؟‘‘
رامانندی مسکرا دیا پھر بولا۔ ’’لمبی کہانی ہے جو کچھ کرنا ہوتا ہے بعد میں کرنا ہوتا ہے پہلے آدمی پر رُعب ڈالنا پڑتا ہے اور اس کے لیے میں نے ایسے ہی بہت سے ملازم رکھ چھوڑے ہیں جو اپنی ڈیوٹیاں کرتے رہتے ہیں۔‘‘
بات میری بھی سمجھ میں آگئی تھی۔ دو موٹے تازے چوہوں کو انسانی کھوپڑیاں پہنا دی گئی تھیں اور ان کھوپڑیوں کی آنکھوں میں شاید فاسفورس کوٹیڈ کوئی چیز لگا دی گئی تھی جو اندھیرے میں ایک مخصوص انداز میں چمکتی تھی۔ میرے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔ رامانندی بولا۔
’’ان بے وقوف نوکروں نے بات بیچ سے کاٹ دی۔ چلو نیازاللہ اپنے بھتیجے سے کہو کہ اب پوری بات ’الف‘ سے شروع کرے اور ’ ے‘ تک ہمیں بتا دے۔‘‘ نیازاللہ نے کہا۔
’’مسعود میاں یہ آدمی کام کا ہے مگر اس کے مسائل بھی بہرحال مسائل ہیں، تم اس کی شعبدہ گری پر توجہ مت دینا۔‘‘
میں ان تمام باتوں سے خوب محظوظ ہوا تھا مگر پھر سنجیدہ ہو کر میں نے کہا۔ ’’راما نندی جی میں نہایت سنجیدگی سے آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی کہانی سناتے ہوئے میں ایک خوف کا شکار ہوں۔ میں نے مختصراً چچا نیازاللہ صاحب کو اپنی داستان سنا دی ہے لیکن اس کا بہت سا حصہ میں نے انہیں نہیں بتایا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روزِ اوّل ہی سے میں نے جسے اپنے بارے میں سب کچھ بتایا وہ یقینی موت کا شکار ہوگیا، میں اپنے کئی پیاروں کو کھو چکا ہوں اور اب اس قدر دہشت زدہ ہوں کہ کسی کے سامنے یہ کہانی نہیں بیان کر سکتا، مجھے نیازاللہ صاحب کی زندگی کا خطرہ ہے، آپ کی زندگی کا خطرہ ہے، مجھ پر تو جو بیت رہی ہے سو بیت ہی رہی ہے۔‘‘ رامانندی چند لمحات سوچتا رہا پھر اس نے کہا۔
’’بھتیجے جس جگہ تم بیٹھے ہو وہاں ہمارا راج پاٹ ہے۔ کوئی آواز یہاں سے باہر نہیں جا سکتی اور کوئی مہاگرو یہاں اندر نہیں آسکتا کتنا ہی بڑا گیانی ہو، اپنی اپنی حد ہوتی ہے۔ یہاں جو کچھ تم کہو گے محفوظ رہے گا اور کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، ہمارا وعدہ ہے تم سے۔‘‘
نیازاللہ صاحب غصیلے لہجے میں بولے۔
’’اور تم مسلسل ہماری توہین کیے جارہے ہو۔ میاں زندگی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور وقت جو کچھ بھی پیش کرے وہ اللہ کا حکم۔ نہ اس کے حکم میں کوئی ردوبدل ہو سکتا ہے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی کی زندگی کا اختتام ہو سکتا ہے تم ہمارے ایمان میں رخنہ ڈالنے کی کوشش نہ کرو، یہ سارے معاملات رامانندی سمجھتا ہے اسے بتائو اور میرے سامنے بتائو۔ میں اپنی بربادی کا خود ذمہ دار ہوں گا۔‘‘ میں نے ایک گہری سانس لی اور بولا۔
’’ٹھیک ہے آپ کا حکم مان رہا ہوں رامانندی جی۔ مختصراً میں نے نیازاللہ صاحب کو اپنی بربادی کی داستان بتائی ہے لیکن دوبارہ بتا رہا ہوں، میں نے ایک اچھے شریف خاندان میں جنم لیا تھا، میرے والد محفوظ احمد صاحب ایک نیک اور دیندار آدمی تھے مگر میں بچپن ہی سے غلط صحبتوں کا شکار ہوگیا اور آسان ذرائع سے دولت کے حصول کی کوششوں میں مصروف رہا۔ مجھے کسی ایسے عامل کی تلاش تھی جو مجھے ان کوششوں میں مدد دے تب مجھے بھوریا چرن ملا اور اس نے میرا کام کرنے کا وعدہ کیا لیکن اس کے صلے میں اس نے بھی مجھ سے ایک کام کرنے کی شرط رکھی۔ میں نے رامانندی کو پیر پھاگن کے مزار کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد کے واقعات سنائے کہ میرے گھر پر کیا بیتی، بعد میں حکیم سعداللہ کے ساتھ کیا ہوا، لاک اَپ اور جیل میں مجھ پر کیا گزری، بے چارے چاند خان کس طرح موت کے گھاٹ اُترے۔ منحوس بھوریا چرن کیسی کیسی شکلوں میں مجھ پر نازل رہا اور اس نے زندگی کس طرح مجھ پر تلخ کر دی، میرے ماں باپ کیسے دربدر ہوئے اور میں کس طرح نیازاللہ صاحب کے پاس پہنچا۔ رامانندی اور نیازاللہ صاحب بڑی دلچسپی سے یہ ساری داستان سن رہے
تھے۔ اس وقت نیازاللہ صاحب کو میرے رونے اور سسکنے کی اصل داستان معلوم ہوئی تھی اور وہ بہت متاثر نظر آ رہے تھے۔ رامانندی نے آنکھیں بند کرلیں دیر تک خاموش رہا، سوچتا رہا پھر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کی آنکھیں کبوتر کے خون کے خون کی مانند سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ عجیب سی کشمکش کے عالم میں مجھے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے کہا۔
’’اب تم کیا چاہتے ہو مسعود میاں؟‘‘
’’میں کیا چاہوں گا رامانندی جی، میرا خاندان بکھر چکا ہے ماں باپ اور بہن بھائی نجانے کہاں بھٹک رہے ہیں اور میں جن حالات سے گزر رہا ہوں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ پولیس الگ میری تلاش میں ہوگی۔ میں کبھی یہ ثابت نہیں کر سکوں گا کہ میں ان بے گناہ انسانوں کا قاتل نہیں ہوں۔ ان سارے حالات میں میری سوچ کیا ہو سکتی ہے میں خود نہیں جانتا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ اگر اور کچھ نہ ہو سکے تو صرف ایک کام ہو جائے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ رامانندی نے پوچھا۔
’’میرے ماں باپ، ماموں اور بھائی بہن اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیں اور باعزت زندگی بسر کریں۔ زیادہ سے زیادہ مجھے اپنے جرم میں پھانسی کی سزا ہو جائے… اگر ان لوگوں کو ایک باعزت زندگی مل سکے تو میں اس کے لیے ہزار بار موت قبول کر سکتا ہوں، بس اتنا ہو جائے کہ بھوریا چرن میرے اہل خاندان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔‘‘
’’کیا تمہارے دل میں کبھی یہ بات آئی کہ تم بھوریا چرن کا وہ کام کر دو۔‘‘ راما نندی نے پوچھا۔
’’بس اس وقت جب میں پہلی بار اس کے کام کے لیے پیر پھاگن کے مزار کی سیڑھیاں طے کر رہا تھا لیکن جب میں اُوپر نہ پہنچ سکا اور میں نے وہ ہوشربا منظر دیکھا کہ پیر پھاگن کا مزار بلند سے بلند ہوگیا اور میرے نیچے زمین دُور ہوگئی تو میرا ذہن بدل گیا اور اس کے بعد سے آج تک میں کسی بھی قیمت پر یہ کام کرنے کو تیار نہیں ہوا اور نہ مرتے وقت تک اس کا یہ کام کروں گا۔‘‘
رامانندی پھر کسی سوچ میں ڈُوب گیا اور بہت دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔ پھر اس نے نیازاللہ صاحب سے کہا۔
’’نیاز معاملہ بڑا گمبھیر ہے، میں بہت کچھ سمجھ چکا ہوں۔ وہ پاپی شنکھا ہے اور شنکھا کالے جادو کے بہت بڑے ماہر ہوتے ہیں۔ شاید تمہیں یہ علم ہو کہ سفلی علم رکھنے والے جو جنتر منتر پڑھتے ہیں ان کے لیے انہیں بہت سے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان مرحلوں کی ایک بڑی تفصیل ہے۔ شنکھا پانچویں درجے کا گیانی ہوتا ہے اور اس علم کے کل آٹھ درجے ہیں۔ آٹھواں درجہ کسی کو نہیں مل سکا، بڑے سے بڑے جادو کا ماہر چھٹے درجے تک پہنچا مگر اس کے بعد وہ جی نہ سکا۔ ساتویں درجے پر صرف ایک گیانی پہنچا تھا مگر وہ پتھر بن گیا اور زمین کی گہرائیوں میں اُتر گیا کیونکہ زمین اس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکی تھی۔ شنکھا بھیروں پرم ہوتا ہے اور بھیروں اس کے سارے کام کرتا ہے۔ مہاراج بھوریا چرن بھیروں پرم ہیں، بھیروں کا نشان مکڑی ہوتا ہے۔‘‘
’’بھیروں کیا ہے؟‘‘ نیازاللہ نے پوچھا۔
’’چھوڑو نیاز یہ کالے علم ہیں۔ تمہاری زبان گندی ہو جائے گی۔‘‘
’’اور تیری زبان جو گندی ہے۔‘‘
’’میرا تو دھرم ہی دُوسرا ہے۔‘‘
’’تیرے دھرم کے لوگ بھی تو سارے تیرے جیسے نہیں ہوتے۔‘‘
’’مانتا ہوں مگر اس بے چارے کے من کی بات جتنی میں سمجھ سکا ہوں اتنی تم نہیں سمجھے ہوگے نیازاللہ۔‘‘
’’مثلاً؟‘‘