’’سونے کا انتظام میں نے دوسرے کمرے میں کیا تھا۔ فریحہ کو بھی بتانا ضروری سمجھا تھا…محسوس نہ کرنا فریحہ یہ ضروری ہے۔‘‘
’’تم نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے دوسروں کے سامنے رسوا نہیں کرو گے۔‘‘
’’ہاں فریحہ، میں آپ کو رسوا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’جیسی تمہاری مرضی۔‘‘ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
دوسرا اور پھر تیسرا دن گزر گیا۔ حالات کسی قدر قابو میں آگئے تھے۔ بڑی کوششوں سے مجھے یہاں کے حالات معلوم ہوئے تھے۔ یہ رحمان صاحب کا گھرانہ تھا جن کا وسیع کاروبار وغیرہ تھا۔ دو بیٹے شاکر اور عامر تھے۔ چار بیٹیاں تھیں جن میں فریحہ سب سے بڑی تھی۔ اس کی شادی سرفراز سے ہوئی تھی جو دنیا میں تنہا تھا، چنانچہ اسے گھر داماد بنا لیا گیا۔ خودسر اور سرکش مزاج نوجوان تھا، کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ فطرتاً انتہاپسند تھا، فریحہ بھی خود پسندی کا شکار تھی، چنانچہ دونوں میں اختلاف تھا۔ پھر ایک دن رحمان صاحب نے طلب کر کے فریحہ کی شکایت پر برا بھلا کہا۔ فریحہ بھی باپ کے ساتھ تھی۔ سرفراز خاموشی سے گھر چھوڑ کر چلا گیا اور پھر واپس نہیں آیا۔ بعد میں فریحہ کو اپنی زیادتی کا احساس ہوا۔ رحمان صاحب بھی پشیمان تھے کہ بیٹی کا گھر بگڑ گیا۔ پھر اچانک رحمان صاحب پر دل کا دورہ پڑا اور وہ جانبر نہ ہوسکے، یہ کہانی تھی سرفراز کی۔
میں نے اس کی تصویریں دیکھیں اور ششدر رہ گیا۔ ایسا انوکھا ہم شکل شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ وہ لوگ کافی حد تک اس سلسلے میں بے قصور تھے۔ اصولی طور پر مجھے یہاں سے خاموشی سے نکل جانا چاہئے تھا، مگر یہاں میری بزدلی مجھے روک رہی تھی۔ اول تو میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا، لباس بھی ان لوگوں کا دیا ہوا تھا۔ لباس تک سلامت نہیں تھا، اس عالم میں کیا فیصلہ کرتا، پھر باہر کا ہولناک ماحول! جس دن سے اس گھر میں داخل ہوا تھا، باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کروں، کئی بار نیت میں خرابی آئی تھی، مگر ضمیر زندہ تھا میں اپنے لئے اس خاندان کو فنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ البتہ اس الجھن میں تھا کہ اس ڈرامے کو کتنا طویل کیا جاسکتا ہے۔ فریحہ نے مجھے طرح طرح سے رجھانے کی کوشش کی تھی، مگر میں نے خود کو سنبھالے رکھا تھا۔ پھر ایک ڈراپ سین ہوگیا۔ شام کے پانچ بجے تھے، باہر لان پر چائے کا بندوبست ہو رہا تھا کہ ایک کار اور اس کے پیچھے ایک پولیس جیپ اندر داخل ہوگئی۔ سب چونک کر ادھر دیکھنے لگے تھے، اس وقت سب ہی باہر موجود تھے۔ جیپ سے جس شخص کو ہتھکڑیوں سمیت اتارا گیا اسے دیکھ کر میرا دل اچھل پڑا تھا۔ نہایت خراب حلیے میں وہ سرفراز تھا۔ سب دم بخود رہ گئے تھے میں بھی اپنی جگہ ساکت تھا۔ کار سے ایک عمر رسیدہ صاحب نیچے اترے اور نانا جان کے قریب پہنچ گئے۔
’’اخاہ… حامد حسین صاحب، آپ بھی یہاں موجود ہیں۔‘‘
’’ہاں بچی کا اصرار تھا کچھ دن کے لئے آیا ہوں مگر… یہ سب، یہ سب۔‘‘
نانا جان بولے۔
’’بڑا پریشان کن مرحلہ ہے۔ ذرا انہیں دیکھئے یہ کون ہیں۔‘‘ اتنی دیر میں تمام لوگ اس سرفراز کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ میرے قدم اپنی جگہ جمے ہوئے تھے، دل اندر سے چیخ رہا تھا، بھاگ جا قیامت آگئی ہے۔ بھاگ… فوراً بھاگ… مگر میں نہ بھاگ سکا۔
’’چچی جان، میں سرفراز ہوں۔‘‘ سرفراز مظلوم لہجے میں بولا۔ ساتھ کھڑے پولیس افسر نے اس کے منہ پر الٹا ہاتھ رسید کردیا۔
’’تم سے بولنے کے لئے منع کیا گیا تھا۔‘‘
’’آپ بھی یہاں آ جایئے شاہ صاحب۔‘‘ نووارد نے کار کی طرف رخ کر کے کہا اور اس میں سے ایک اور صاحب نیچے اتر آئے۔ سادہ لباس میں تھے مگر حلیے سے پولیس افسر معلوم ہو رہے تھے۔ نووارد نے کہا۔ ’’یہ محکمۂ پولیس کے بہت بڑے افسر ہیں، میرے پرانے ساتھی۔ محکمۂ پولیس نے اس شخص کو گرفتار کیا ہے اور پولیس کا خیال ہے کہ یہ ایک خطرناک قاتل ہے، جسے سزائے موت ہوگئی تھی لیکن یہ تختہ دار سے فرار ہوگیا۔ پولیس کے پاس اس کا مکمل ریکارڈ موجود ہے جبکہ اس شخص نے یہ بات تسلیم نہیں کی اور اعلیٰ پولیس افسران سے کہا کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے، وہ رحمان عظیم کا داماد ہے جو عامل پور کے رئیس ہیں۔ بات شاہ صاحب کے علم میں آئی اور چونکہ شاہ صاحب یہ بات جانتے ہیں کہ میں عامل پور کا رہنے والا ہوں اور مرحوم رحمان میرے دوست تھے، چنانچہ انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ میں بٹیا کی شادی کے وقت میں موجود نہیں تھا، اس لئے اسے پہچانتا نہیں تھا۔ مرحوم رحمان کا حوالہ ایسا نہیں تھا کہ میں اس بات کو نظرانداز کردیتا، چنانچہ میں نے شاہ صاحب سے درخواست کی کہ وہ میری مدد کریں اور وہ اپنے رسک پر صرف میری وجہ سے اس خطرناک مجرم کو لے کر یہاں آئے ہیں۔ اب آپ فیصلہ کریں۔‘‘
سب پر سکتہ طاری تھا اور میں خود بھی بت بنا کھڑا تھا۔ میرے اندر شدید کشمکش جاری تھی۔
’’چچی جان اس وقت پرانی رنجشوں کو ذہن میں نہ لائیں۔ میں موت کے دہانے پر ہوں۔ میری زندگی بچا لیں فریحہ… فریحہ مجھے معاف کردو، مجھے بچائو۔‘‘
اچانک ہی میرے ذہن میں شیشہ سا ٹوٹ گیا۔ ایک عجب سا جذبہ دل میں ابھرا اور اندر ہی اندر سارے فیصلے ہوگئے۔ میں ایک دم آگے بڑھ آیا، تب پہلی بار مجھے دیکھا گیا اور اب ان لوگوں پر حیرت کے دورے پڑے۔ شاہ صاحب اور رحمان صاحب کے دوست بھی دنگ رہ گئے تھے اور اصل سرفراز بھی، سب پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا۔
’’وہ سچ کہتا ہے شاہ صاحب، جس کے دھوکے میں اسے پکڑا گیا ہے وہ میں ہوں۔ قدرت نے نہ جانے کیوں ہم دونوں کو ایک ہی شکل دے دی ہے۔ اسے چھوڑ دیں، تختہ دار سے مفرور قاتل میں ہوں۔‘‘ شدید سنسنی پھیل گئی تھی سرفراز کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔ شاہ صاحب بہرحال پولیس والے تھے فوراً سنبھل گئے۔ انہوں نے ساتھ آئے ہوئے پولیس والوں کو اشارہ کیا اور وہ میرے گرد آکھڑے ہوئے۔ شاہ صاحب نے کہا۔
’’تم پورے ہوش و حواس کے ساتھ یہ اعتراف کر رہے ہو؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’جی شاہ صاحب بے ہوشی کے عالم میں تو اور ہی باتیں کی جاتی ہیں، اس بے چارے کو چھوڑ دیجئے۔ یہ خوش نصیب ہے، اپنے ساتھ بہت سے ہمدرد رکھتا ہے۔ میرا کیا ہے، مجھے تو موت نے گھیرا ہی ہوا ہے اور میں اس سے کہیں بھی فرار حاصل نہیں کرسکتا۔ کیوں اس بے چارے کے ہاتھوں میں آپ نے ہتھکڑیاں ڈال رکھی ہیں، یہ سرفراز ہے، جس مجرم کی آپ کو تلاش ہے وہ میں ہوں… اور میرا نام مسعود ہے۔‘‘
شاہ صاحب کے ساتھ جو صاحب آئے ہوئے تھے اور جن کے بارے میں بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ سول جج ہیں، حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے، انہوں نے بڑبڑاتے ہوئے چچی جان سے کہا۔
’’یہ کیا قصہ ہے بھابی صاحبہ…‘‘ لیکن چچی جان کے منہ سے کوئی آواز نہ نکل سکی تھی۔ فریحہ دم بخود تھی، تمام ہی لوگ ابھی تک برے احوال میں تھے، شاہ صاحب نے کہا۔
’’عجیب بات ہے، عجیب بات ہے، دونوں ایک ہی شکل کے مالک ہیں اور یہ کہتا ہے کہ اصل مجرم یہی ہے اور درحقیقت ہمیں مسعود ہی کی تلاش تھی، اگر آپ لوگ مناسب سمجھیں تو تھوڑی دیر کے لئے اندر چلیں، ذرا تفصیلی گفتگو ہو جائے۔ آیئے مسعود صاحب۔‘‘ شاہ صاحب نے خاصے مہذب لہجے میں کہا اور میں نے شانے ہلا دیئے۔ پولیس والے مجھے گھیرے میں لئے ہوئے تھے لیکن میں تو خود ہی گھیرے میں آگیا تھا، انہیں خود بھی اس کا احساس تھا۔ اگر میں چاہتا تو اس وقت بآسانی اپنے ہم شکل کو پھنسا سکتا تھا، کیونکہ اس وقت میں ایک مہذب گھرانے کی پناہ میں تھا لیکن بس ضمیر کے کھیل ایسے ہی ہوتے ہیں، میری کچلی ہوئی شخصیت کسی اور گھرانے کو برباد نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میری آرزو تھی کہ سب آباد رہیں۔ میں برباد ہوگیا ہوں تو اپنی بربادی کے اثرات دوسروں پر نہ پڑنے دوں۔ ہم سب اندر آگئے۔ شاہ صاحب نے ایک جگہ بیٹھنے کے بعد مجھ سے پوچھا۔
’’مگر مسعود صاحب، اگر آپ درحقیقت وہی ہیں، میرا مطلب ہے تختہ دار سے فرار ہونے والے قاتل ہیں، تو آپ نے اس گھر میں پناہ کیسے لی، آپ کو سرفراز کے بارے میں علم کیسے ہوگیا۔ میں نے بیگم صاحبہ اور فریحہ کی طرف دیکھا، عامر اور شاکر بھی تھے اور نانا جان بھی، پھر میں نے آہستہ سے کہا۔
’’بس اسے لالچ سمجھ لیجئے، میں اس گھر میں پناہ لینے اور اس گھر کی دولت بٹورنے آیا تھا لیکن حق حق ہی ہوتا ہے۔ سرفراز یہ ہیں اور میرا نام مسعود ہی ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کچھ پوائنٹ نوٹ کئے۔ سرفراز کے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں کھول دی گئیں اور یہ ہتھکڑیاں میرے ہاتھوں میں منتقل کردی گئیں۔ سب ہی میرے سلسلے میں متاثر نظر آ رہے تھے، شاہ صاحب نے فوراً پوچھ لیا۔
’’مگر مسعود صاحب آپ کو تو ایک بہترین پناہ گاہ حاصل ہوئی تھی، اگر آپ یہ تسلیم کرلیتے کہ آپ مسعود نہیں ہیں اور یہ شخص بہروپیا، تو میرا خیال ہے فیصلہ کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، آپ نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو کیوں گرفتاری کے لئے پیش کردیا؟‘‘
’’چھوڑیئے شاہ صاحب، یہ کہانیاں مختلف ہیں، اب آپ صرف وہ قانونی فرائض انجام دیجئے جو آپ کو انجام دینے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں بے شک بہرحال آپ نے ایک اچھا تاثر چھوڑا ہے ہم پر، اس لئے بدترین مجرم ہونے کے باوجود ہم آپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر مجبور ہیں۔ براہ کرم کوئی ایسی کوشش نہ کیجئے جس سے ہمارے ہاتھ آپ کو نقصان پہنچ جائے، ٹھیک ہے اب ہمیں اجازت دیجئے، آپ اگر چلنا پسند فرمائیں تو چلیں ورنہ آپ یہاں رکئے، ہم انہیں لے کر چلتے ہیں۔ شاہ صاحب نے جج صاحب سے کہا اور جج صاحب بولے۔
’’ہاں مجھے تو ابھی کچھ وقت رکنا ہوگا، آپ بھی شاہ صاحب اگر…‘‘
’’نہیں جناب، کسی خاطر مدارات کی گنجائش نہیں ہے۔ میں اپنی ڈیوٹی پر ہوں۔‘‘ شاہ صاحب مجھے وہاں سے لے چلنے کے لئے تیار ہوگئے۔ میں نے بیگم صاحبہ سے کہا۔
’’چچی جان آپ کو بخوبی یہ اندازہ ہے کہ میں نے یہ وقت یہاں کیسے گزارا ہے، فریحہ صاحبہ اس وقت کی گواہی دیں گی کہ میں نے یہاں جو نمک کھایا ہے وہ حرام نہیں کیا اور ہر چیز کا احترام کیا ہے۔ سرفراز صاحب آپ کو نئی زندگی مبارک ہو، چند الفاظ میں آپ سے بھی کہنا چاہتا ہوں، بے شک میں آپ کا ہم شکل ہوں اور چند روز میں نے بھی یہاں گزارے ہیں، لیکن فریحہ صاحبہ کو میں نے ان کی غلط فہمی کے باوجود اپنے دل میں ایک سگی بہن کا درجہ دیا ہے اور خدا کا شکر ہے اس تصور کو نبھایا ہے۔ میری ایک چھوٹی بہن ہے اور آپ سے دعائوں کا طالب ہوں کہ خدا اسے آبرومند رکھے۔ چچی جان میرا پرانا لباس مل سکتا ہے؟ چچی جان بری طرح رو پڑی تھیں۔ یہاں موجود ہر شخص جانتا تھا کہ میں نے یہاں کیسے وقت گزارا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ میں نے ایک لمحہ ان کی اس غلط فہمی سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ شاہ صاحب نے رسمی کارروائیاں کیں اور مجھے لے کر چل پڑے۔ میں بہت بڑا مجرم تھا جو کچھ میں نے کیا تھا معمولی بات نہیں تھی۔ کھلبلی مچ گئی تھی، بہت سے لوگوں کو تو صورت حال بھی معلوم نہیں تھی۔ مجھے لاک اپ میں ہی رکھا گیا، مگر میرے لئے سخت پہرہ لگایا گیا تھا۔ البتہ شاہ صاحب مجھ سے بہت متاثر تھے، میرا کیس بے حد انوکھا تھا، میں سزائے موت کا مجرم تھا، تختہ دار سے پھانسی دینے والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل آیا تھا۔ قانون کے لئے بھی بے شمار الجھنیں تھیں۔ مجھے فوری پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی، کیونکہ اس سزا کا وقت ختم ہوگیا تھا۔ ہاں مجھ پر ازسر نو مقدمہ ضرور چلایا جاسکتا تھا، یہ تحقیق کرنی تھی کہ میرے فرار کے عوامل کیا تھے۔ اس سازش میں کون شریک تھا۔ سازش کیسے ہوئی۔ وغیرہ وغیرہ اور اس کے لئے تیاریاں ہونے لگیں۔ پولیس ہیڈکوارٹر کے لاک اپ میں مجھے بالکل الگ تھلگ رکھا گیا تھا۔ ایک ایس آئی اور دو کانسٹیبلوں کی مجھ پر مسلسل ڈیوٹی لگائی گئی تھی اور شاید انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ میرا ہر طرح خیال رکھیں۔ مجھے ہر سہولت دی جائے اور وہ لوگ عمل کر رہے تھے، عمدہ کھانا ضرورت کی ہر چیز۔ شاہ صاحب خود مجھ سے ملے۔
’’کہو مسعود کیا حال ہے؟‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ٹھیک ہوں شاہ صاحب۔‘‘
’’جیل کی نسبت یہاں تمہیں آرام ہوگا لیکن یہ عارضی ہے، اس کے بعد جیل جانا ہوگا۔‘‘
’’کیا فرق پڑتا ہے شاہ صاحب۔‘‘
’’میرے لئے کوئی خدمت بتائو۔ کوئی ضرورت، کوئی بات۔‘‘
’’آپ کا بے حد شکریہ۔ ایک خیال دل میں ہے۔ پتہ نہیں آپ میری یہ مشکل حل کر پائیں گے یا نہیں۔‘‘
’’کہو کیا بات ہے۔‘‘
’’جب مجھے پھانسی دی گئی تھی شاہ صاحب تو میرے اہل خاندان میری لاش لینے آئے تھے۔ ظاہر ہے انہیں وہ لاش نہیں ملی ہوگی۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ان سے کیا کہا گیا۔ اس کے علاوہ میری خواہش ہے کہ اب انہیں میرے بارے میں کوئی اطلاع نہ دی جائے۔ انہیں دوبارہ اس کیس میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر آپ یہ کام کردیں تو میں آپ کا بڑا احسان مانوں گا۔‘‘ شاہ صاحب سوچ میں پڑ گئے پھر بولے۔
’’بہت مشکل کام ہے، میں ایک دو دن میں تمہیں اس بارے میں بتائوں گا۔ ویسے اطمینان رکھو اس بارے میں پوری رپورٹ تمہیں دے دوں گا۔‘‘
’’بے حد شکریہ شاہ صاحب۔‘‘ وہ چلے گئے اور میں ٹھنڈی سانس لے کر لاک اپ کے ایک گوشے میں جا بیٹھا۔ کیا سوچتا، کیا کرتا۔ سب کچھ بیکار تھا۔ ہاں ایک خوشی ضرور تھی کہ کم از کم اس خاندان کو میں نے کسی المیے سے دوچار نہیں کیا، اس احساس سے دل کو سکون ملتا تھا۔
اس رات مجھے کھانا پیش کیا گیا۔ عمدہ قسم کی بریانی تھی۔ بھوک لگ رہی تھی، میں نے ہاتھ دھو کر کھانے کا آغاز کیا۔ بریانی کی پلیٹ میں چاولوں کے ساتھ مرغ کا گوشت نظر آ رہا تھا۔ میں نے ایک بڑا ٹکڑا باہر نکالا، عجیب سی ساخت تھی اس کی، لیکن جونہی وہ چاولوں سے برآمد ہوا اچانک میں نے اسے کلبلاتے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ میری انگلیوں کی گرفت سے نکل کر میری کلائی پر چڑھ گیا۔ تب میں ٰنے اسے دہشت بھری نظروں سے دیکھا۔ وہ گوشت کا ٹکڑا نہیں تھا بلکہ، بلکہ ربر جیسا انسانی مجسمہ تھا۔ چلتا پھرتا متحرک مجسمہ۔ اس نے میری کلائی پر دوڑ لگائی اور کندھے پر آگیا۔
دہشت سے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ میں بیشک بدترین حالات کا شکار تھا۔ لیکن انسان تو تھا۔ بدروحوں کے درمیان تو نہیں رہا تھا۔ یہ سب کچھ ہمیشہ تو نہیں دیکھا تھا۔ بدن میں سرد لہریں دوڑ رہی تھیں۔ حواس معطل ہوئے جارہے تھے۔ میرے حلق سے چیخیں نکل گئیں۔ میں نے پھریری لے کر اسے شانے سے جھٹکنے کی کوشش کی لیکن اس نے میرا کان پکڑ لیا اور اس طرح گرنے سے محفوظ رہا۔ اس کی انگلیاں ننھے ننھے کانٹوں کی طرح میرے کان میں چبھ رہی تھیں پھر اس کی منحوس آواز ابھری۔
’’مرے کیوں جارہے ہو میاں جی…! ہماری تمہاری تو پکی دوستی ہے۔ اب ہم سے گھبرایا نہ کرو۔‘‘
’’نیچے اتر مردود! میں تجھے مار ڈالوں گا۔‘‘ میں نے دہشت سے بھنچی ہوئی آواز میں کہا۔
’’ارے… رے… رے! اچھل کود کرو گے تو سنتری تمہیں پاگل سمجھیں گے اور پاگلوں کو پاگل خانے میں رکھ کر مار لگائی جائے ہے۔ بات کرنے آئے ہیں تم سے… آرام سے بیٹھو، بات کرو…! سمجھ میں آیا یا نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔ اس کا کہنا درست تھا۔ میری چیخوں کی آواز سن کر باہر پہرہ دینے والا سنتری سلاخوں کے سامنے آکھڑا ہوا اور مجھے گھورنے لگا۔ پھر بولا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ کیا بتاتا میں اسے اور بتاتا بھی تو وہ کیا کر پاتا۔ میں خاموش رہا۔ ’’کھانا کھا لو، کچھ اور تو نہیں چاہیے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا اور وہ آگے بڑھ گیا۔ میرے کان میں قہقہہ ابھرا تھا۔ پھر اس نے میرا کان چھوڑ دیا اور اچھل کر میرے سر پر چڑھ گیا۔ وہاں سے زمین پر کود گیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا میرے سامنے آگیا۔ آپ تصور کریں ایک مختصر ترین انسان میرے سامنے تھا۔ مجھ سے باتیں کررہا تھا اور میں اس کی حقیقت جانتا تھا۔
’’ہاں میاں جی! عقل ٹھکانے آئی؟‘‘
’’کیوں میرے پیچھے پڑ گیا ہے شیطان! میں نے تیرا کیا بگاڑا ہے۔‘‘ میں نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ارے سب کچھ تو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے، سارے کام ادھورے رہ گئے ہیں ہمارے۔ تو اگر ہمارا کام کردے تو ہمیں بہت بڑی شکتی حاصل ہوجائے گی۔ سنسار میں سب کچھ کرنے کے قابل ہوجائیں گے ہم! ہمارے سارے دشمن پانی بھریں گے ہمارے سامنے، تو نے ہمیں باندھ کر رکھ دیا ہے۔‘‘
’’تم کسی اور سے بھی تو یہ کام لے سکتے ہو۔‘‘
’’یہ بات تیری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہمارے لیے بھی تو ایک ہی ہے، دوسرا کوئی ہوتا تو کچھ سوچتے۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
’’کہا نا تجھ سے، بات تیری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ تو خود ہمارے پاس آیا تھا، ہم تو تیرے پاس نا پہنچے تھے۔ جاپ کیا تھا ہم نے سو دن کا اور سوویں دن ہمارے پاس جسے آنا تھا، وہی ہمارے کام کا تھا۔ جیون میں ایک ہی جاپ کیا جاوے ہے، دوسرا نہیں! ہم بھی تجھ سے بندھے ہوئے ہیں پاپی!‘‘
’’مگر میں تمہارا یہ کام نہیں کرسکتا…‘‘
’’کرنا تو تجھے ہوگا للو! کام ہی تیرا ہے۔ آج نہیں تو کل کرے گا، کل نہیں پرسوں اور ہم تجھے سمجھائے دیتے ہیں، بیکار ضد کر رہا ہے۔ ہماری تیری دوستی پکی ہوجائے گی۔ ہمیں مہان شکتیاں حاصل ہوجائیں گی اور وہ تیرے کام بھی آئیں گی۔ سنسار میں جو تو چاہے گا۔ ہم کریں گے تیرے ! تو یہی چاہتا تھا ناکہ دولت تیرے قدموں میں ڈھیر ہوجائے، تو جو چاہے سو کرسکے۔ ریس کورس میں… گھوڑے تیرے اشارے پر دوڑیں، تو جسے دیکھے وہ تیرا ہوجائے۔ ایسا ہی ہوگا للو! سوچ لے۔ محل بنا دیں گے تیرے۔ سونے، چاندی کے ڈھیر لگا دیں گے تیرے سامنے۔ بیکار کی ضد کررہا ہے۔ پورے سنسار میں تو اکیلا دھرماتما ہے کیا، لوگوں کو دیکھ، چار پیسے کے لیے دوسرے کا گلا آسانی سے کاٹ دیتے ہیں، وہ گناہ نہیں کرتے کیا؟ تو ہمارا کام نہیں کرتا نہ کر، سڑ سڑکر مر جائے گا۔ کچھ دن کے بعد تیرے اپنے بھی تجھے بھول جائیں گے۔ کوئی نام لیوا نہ ہوگا تیرا۔ کیا ملے گا تجھے، بول کیا ملے گا؟‘‘
میرے پاس اس کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔ ’’یہ نہیں سوچا تو نے۔‘‘
’’تیرا کوئی نام ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بھوریا چرن ہے ہمارا نام۔ پر تجھے نام سے کیا؟‘‘
’’مجھے سوچنے کے لیے وقت دے بھوریا چرن۔ کچھ وقت چاہیے مجھے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، وقت لے لے۔ سوچیو اور ہمیں آواز دے لیجیو۔ جب بھی آواز دے گا، ہم آجائیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے بھوریا چرن! مجھے موقع دے، میں سوچنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور اس نے گردن ہلا دی۔
دنیا کا عجیب ترین انسان میرے سامنے تھا۔ کچھ دیر وہ وہاں رکا اور پھر اس نے میری طرف ہاتھ ہلایا اور سلاخوں دار دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ یہ سلاخیں کسی عام انسان کا راستہ روک سکتی تھیں، شیطان کا نہیں۔ وہ ان کے درمیان سے آرام سے نکلتا ہوا آگے بڑھا اور پھر میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ میرا دل چاہا کہ بھاگ کر اسے دیکھوں۔ کاش وہ کسی کی نگاہوں میں آجائے اور اسے پکڑ لیا جائے، کچھ ہوجائے اس کے ساتھ! لیکن خود ہی اپنے خیال پر ہنسی آگئی۔ اگر کسی نے اسے دیکھ ہی لیا تو دہشت سے چیخیں مارتا ہوا بھاگ جائے گا۔ اس کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔ وہ جب بالکل دور چلا گیا تو میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ بدن بری طرح نڈھال ہوگیا تھا… میں زمین پر لیٹ گیا۔ سامنے ہی بریانی کی پلیٹ رکھی ہوئی تھی، لیکن اب وہ میرے لیے ناپاک ترین تھی۔ وہ کم بخت پلیٹ میں گوشت کی جگہ چھپا ہوا تھا۔ سارے چاول غلیظ کر دیے تھے اس نے! بھلا اب ان چاولوں کا ایک دانہ بھی کھایا جاسکتا تھا، کراہت آرہی تھی مجھے اس پلیٹ سے۔ سنتری تھوڑی دیر کے بعد پھر میرے سامنے آکر رکا اور کہنے لگا۔
’’کیا بات ہے، کھانا نہیں کھایا تم نے…؟‘‘
’’کچھ طبیعت خراب ہے بھائی! کسی سے کہہ کر یہ چاول یہاں سے اٹھوا لو۔‘‘ میں نے عاجزی سے کہا اور میری یہ عاجزی سنتری کو نرم کرنے کا باعث بن گئی۔ وہ میرے قریب رکا اور بولا۔ ’’کیا بات ہے، کیسی طبیعت ہے؟‘‘
’’بدن ٹوٹ رہا ہے…‘‘
سنتری چند لمحات کے بعد واپس چلا گیا پھر دو آدمی آئے اور چاول اٹھا کر لے گئے۔ اس سے زیادہ میرے جیسے کسی انسان کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں کی جاسکتی تھی۔ درحقیقت بھوریا چرن کے جانے کے بعد میں اپنا تجزیہ کرنے لگا۔ خود مجھے کیا ہوگیا ہے۔ میرے عقیدے میں کبھی بھی ایسی پختگی نہیں تھی۔ میں تو ایک بدکار انسان تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خاندان اچھا تھا۔ ماں، باپ، بہن، بھائی نیک فطرت تسلیم کیے جاتے تھے۔ صرف میں ہی تھا جس نے اپنے خاندان کو بدنما بنا دیا تھا۔ لیکن میری یہ بدنمائی کہاں گم ہوگئی۔ میرے ذہن میں یہ عقیدہ کیوں جاگا ہے۔ پیر پھاگن کا مزار بے شک میرے بھی قابل احترام تھا۔ بہت بار گیا تھا ان کے مزار پر حاضری دینے، فاتحہ پڑھنے، لیکن یہ صرف روایت کے طور پر کیا تھا میں نے! عقیدت اور احترام کا کوئی ایسا جذبہ نہیں پل رہا تھا میرے سینے میں جس کی بنا پر میں اپنا مستقبل یا زندگی دائو پر لگا دیتا۔ یہ جذبہ میرے سینے میں پہلے سے نہیں تھا بلکہ اب پیدا ہوگیا تھا۔ نجانے کیوں… نجانے کیوں میں اس سے اتنی ضد کررہا تھا۔ اگر اس سے تعاون کرکے اس کے کہنے کے مطابق پیر پھاگن کے مزار پر حاضری کی کوشش جاری رکھی جاتی تو ہوسکتا ہے کامیابی ہی حاصل ہوجاتی… اور اگر یہ کوشش ناکام ہی ہوجاتی تو پھر وہ شیطان اسے میرا قصور نہیں قرار دے سکتا تھا۔ میں بھی تو اس سے یہ کہہ سکتا تھا کہ اس کی شکتی، اس کی قوت پیر پھاگن کے مقابلے میں ناکام رہی ہے۔ بھلا میں کیا کرسکتا ہوں اور یہ خیال نجانے کیوں میرے ذہن میں جڑ پکڑنے لگا تھا کہ اگر ایسی ہی کوئی بات ہے اور میں اس شیطان کے پتلے کو وہاں لے جانے میں ناکام رہتا ہوں تو پھر وہ مجھ سے کیا کہہ سکے گا، لیکن دوسرے ہی لمحے میرے ذہن میں ایک اور خیال ابھرا… اگر اس میں کامیاب ہوگیا تو کیا میں ایک گناہ عظیم کا مرتکب نہیں ہوں گا، ایک ناپاک روح کو ایک مقدس جگہ پہنچانے کا باعث نہیں بن جائوں گا؟ ٹھیک ہے مجھے گندی قوتیں حاصل ہو بھی گئیں تو کیا وہ میرے لیے کار آمد ہوسکیں گی۔ کیا مجھ سے میرا دین، میرا ایمان نہیں چھن جائے گا۔‘‘ نجانے کیوں دل و دماغ میں شدید کشمکش ہونے لگی اور مجھے ایک خوشگوار سا احساس ہوا۔ گویا مجھ جیسے بدطینت انسان کے سینے میں ایمان کا جذبہ موجود ہے اور یہ خوشی بڑھتی چلی گئی۔ مجھے اپنا وجود ہلکا ہلکا محسوس ہونے لگا۔ یوں لگا جیسے اس تصور نے میرے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہو۔ اس سے پہلے تو کبھی ایسی نیک باتوں پر غور بھی نہیں کیا تھا… لیکن آج نجانے کہاں سے بہت سے اقوال یاد آرہے تھے۔ ’’نیکیوں کے راستے مصیبتوں اور پریشانیوں سے گزرتے ہیں لیکن ان کا اختتام خوشگوار ہوتا ہے جبکہ بدی کے راستے بہت خوبصورت ہوتے ہیں لیکن تباہی کے گہرے غاروں پر جاکر ختم ہوتے ہیں۔ اگر مجھے اپنی بدنما زندگی میں کوئی نیک کام کرنے کا موقع ملا ہے تو میں اسے ہاتھ سے کیوں گنوائوں۔ اپنے آپ کو امتحان میں کیوں نہ ڈال دوں۔ شاید یہی میری برائیوں کا کفارہ ہوجائے۔‘‘ ہرگز نہیں، مردودشیطان بھوریا چرن! تیرا کام تو میں کبھی نہیں کروں گا چاہے اس کے لیے مجھے کیسی ہی مشکلات سے کیوں نہ گزرنا پڑے… دل میں یہ عزم جاگا تو نجانے کہاں سے نئی نئی قوتیں بیدار ہوگئیں۔ دل و دماغ سے وہ بوجھل پن ختم ہوگیا اور میں اپنے آپ کو خاصا خوشگوار کیفیت میں محسوس کرنے لگا۔ عجیب عجیب سے خیالات ذہن میں آرہے تھے۔ ماں، باپ، ماموں ریاض، بہن، بھائی…! بڑا خوبصورت خاندان تھا۔ ہر طرح کی خوشیوں کے گہوارے ہلکورے لیتا ہوا۔ صرف اور صرف میں ہی تھا جس نے اس خاندان کی بہتری کی جانب کوئی توجہ نہیں دی تھی، لیکن… لیکن اب… اب نجانے وہ بے چارے کس حال میں ہوں۔ جانتا تھا کہ ماں غموں سے چُور ہوگی، باپ کی کمر دہری ہوگئی ہوگی۔ بہن، بھائی سہمے ہوئے ہوں گے۔ ماموں ریاض کو تو میں بارہا دیکھ ہی چکا تھا۔ بے چارے ڈھل کر رہ گئے تھے، حالانکہ کتنے خوش مزاج تھے۔ یہ سوچیں دل و دماغ سے گزرتی رہیں اور پھر ذہن پر ایک آہنی تہہ آپڑی۔ غالباً یہ نیند تھی جس نے مجھے تمام احساسات سے بے نیاز کردیا تھا۔دوسرا دن حسب معمول تھا۔ صبح کا ناشتہ میں نے رغبت سے کرلیا تھا۔ کسی اور نے مجھ سے کوئی ملاقات نہیں کی تھی، لیکن دوپہر کو ساڑھے بارہ بجے کے قریب میری ملاقات آئی اور مجھے کچھ لوگوں کے سامنے پہنچا دیا گیا۔ فریحہ، ریحانہ بیگم اور سرفراز تھے… ان سب کی آنکھوں میں میرے لیے رحم اور ہمدردی کے آثار تھے۔ ریحانہ بیگم کی آنکھیں تو آنسوئوں سے بھیگ رہی تھیں، فریحہ مجھے عجیب سی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی اور اور سرفراز صاحب بھی متاثر نظر آرہے تھے۔ وہ میرے قریب آگئے اور میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولے۔’’تمہارا نام مسعود ہے نا…؟‘‘’’جی سرفراز صاحب۔‘‘’’مسعود صاحب! بات بڑی عجیب سی ہے۔ کسی سے کہا جائے تو لوگ ہنسنے اور مسکرانے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے لیکن میرے دل میں آپ کا احترام فرشتوں جیسا ہے۔ بلاشبہ زمین پر نیک لوگ ہی امتحانات سے گزرتے ہیں۔ پتا نہیں کیوں آپ پر یہ برا وقت آپڑا ہے، لیکن آپ نے اس برے وقت میں بھی مجھ پر جو احسان کیا ہے، میں اسے مرتے وقت تک نہیں بھول سکوں گا۔ آپ نے ہم دونوں میاں، بیوی کا مستقبل بچایا ہے اور اس سلسلے میں آپ نے جو اقدامات کیے ہیں، بلاشبہ کسی انسان کے لیے وہ ممکن نہیں ہوسکتے تھے۔ آپ نے میری بیوی کی عزت محفوظ رکھی اس کے لیے تو میں آپ کو صرف دعائیں ہی دے سکتا ہوں کہ خداوند عالم آپ کے خاندان کے ایک ایک فرد کی عزت کا تحفظ کرے۔ دوسری بات یہ ہے مسعود صاحب کہ آپ بالکل بے فکر رہیں۔ ہم لوگ آپ کے لیے مصروف عمل ہوگئے ہیں اور ہم نے آپ کے لیے جو فیصلے کیے ہیں، ان سے آپ کو آگاہ کردینا ضروری ہے تاکہ آپ مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ یوں سمجھ لیں کہ ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے بلکہ انتہائی حد تک آپ کے لیے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم روپیہ پانی کی طرح بہا دیں گے اور ہر قیمت پر آپ کو آزاد کرا کر دم لیں گے۔‘‘فریحہ نے گردن خم کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے آپ کو اپنے دل میں اپنا بھائی تسلیم کیا ہے مسعود صاحب! آپ میری عزت کے محافظ ہیں۔ میں اتنی ناشکری نہیں ہوں کہ آپ کو بھول جائوں۔ ہم سب آپ کیلئے کوششیں کریں گے۔‘‘ ریحانہ بیگم کہنے لگیں۔’’مسعود بیٹے! اپنے اہل خاندان کا پتا بتائو، ہم ان سے مل کر ان کی مشکلات کا حل بھی تلاش کریں گے۔‘‘ میں نے ریحانہ بیگم سے کہا۔’’نہیں آنٹی! آپ یہ سب نہ کریں۔ میرے بارے میں مناسب سمجھیں تو آپ شاہ صاحب سے ساری تفصیلات معلوم کریں۔ آپ کو علم ہوجائے گا کہ میرے خاندان کا مجھ سے دور رہنا کس قدر ضروری ہے۔ وہ لوگ بہرطور مجھے صبر کرلیں گے لیکن میری وجہ سے اگر وہ مشکلات کا شکار ہوئے تو میں خود کو معاف نہیں کرسکوں گا۔‘‘’’ہم جان کی بازی لگا دیں گے، تم فکر مت کرو۔ ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں۔ شاہ صاحب سے بات کرلیں گے ہم اور ہاں یہ بتائو، تمہارے لیے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو فوراً بتا دو…؟‘‘’’میری دعائیں ہیں کہ آپ سب لوگ خوش رہیں۔ میں جس عذاب کا شکار ہوا ہوں، اس سے مجھے نکالنا آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ بس ہوسکے تو میرے لیے دعائیں کردیں۔‘‘’’خیر! یہ تمہارا اپنا خیال ہے۔ ہم کچھ کرنے کے بعد ہی تمہارے پاس واپس آئیں گے۔ آرام سے رہو اور اگر ہوسکے تو اللہ کے بعد ہم پر اعتبار کرلو، ہم تمہارے لیے یقینی طور پر سب کچھ کریں گے جو ہمارے بس میں ہوگا۔‘‘وہ لوگ چلے گئے اور میں ان اچھے لوگوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ بھلا میں نے کیا کیا تھا۔ میں تو اپنے ہی عذاب میں گرفتار تھا اور کیا ضروری تھا کہ وہاں اگر میں سرفراز کی حیثیت قبول کر بھی لیتا تو ان ساری مصیبتوں سے محفوظ رہ جاتا۔ ناممکن ہی تھا، ایک طرح سے ناممکن ہی تھا کیونکہ بھوریا چرن مجھے ضرور تلاش کرلیتا۔’’پتا نہیں وہ کم بخت تھا کیا چیز…! کالے جادو کا ماہر یا کوئی گندی اور خبیث روح! اس کی قوتیں تو بے پناہ تھیں۔ جو شکلیں وہ اختیار کرلیتا تھا، وہ عام قوتوں والے لوگ تو نہیں اختیار کرسکتے تھے پھر وہ کون سی ایسی طاقت حاصل کرنا چاہتا تھا جو اسے امر کردے۔ پیر پھاگن کے مزار پر پہنچنے کی آرزو اسے کیوں تھی۔ ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دو مختلف چیزیں تھیں۔ ایک طرف ایک نیک اور مقدس انسان کا مزار اور دوسری طرف یہ غلیظ سادھو، جو کالا علم جانتا تھا۔ اپنے بارے میں تو میں پہلے ہی فیصلہ کرچکا تھا کہ دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے، مجھے کم ازکم یہ گندا کام نہیں کرنا ہے۔ زندگی ایک بار ختم ہونی ہے اور اس کے لیے کوئی بھی وقت متعین ہوسکتا ہے۔ پھر ایسی موت کیوں مرا جائے جس سے مرنے کے بعد روح بھی بے سکون رہے۔ زندگی بے سکونی میں گزر جائے تو کوئی بات نہیں، روح کا سکون تو ابدی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے اس فیصلے سے میں کافی حد تک مطمئن تھا۔ چند روز مزید یہاں رہنا پڑا اور پھر ایک دن جیل کی گاڑی آئی اور مجھے اس میں بٹھا کر جیل پہنچا دیا گیا۔ گویا جیل دوسرے شہر کی تھی لیکن جیلوں سے مختلف نہیں تھی۔ یہاں بھی غالباً میرے بارے میں رپورٹ دے دی گئی تھی کہ میں نے جیل میں بھی ایک قیدی کو قتل کردیا تھا چنانچہ جیلر صاحب نے جو بہت سخت انسان معلوم ہوتے تھے، پہلے تو مجھے کچھ نصیحتیں کیں اور کہا کہ وہ ذرا مختلف قسم کے آدمی ہیں۔ میرے ہاتھ پائوں بآسانی توڑ دیں گے اور مجھے اس قابل نہیں چھوڑیں گے کہ میں کسی کو نقصان پہنچا سکوں لیکن بہتر طریقہ یہی ہے کہ میں انسانوں کی مانند یہاں رہ کر اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کروں۔ میں نے گردن جھکا کر جیلر صاحب سے کہا تھا کہ انہیں مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی…ان دنوں میرے دل میں ایک شدید آرزو بیدار ہورہی تھی وہ یہ کہ کالے جادو کا توڑ بھی تو ہوتا ہے۔ قرآنی آیات، اللہ کا کلام ہر قسم کے جادو کو ختم کرنے کی قوتیں رکھتا ہے۔ اگر مجھے کوئی ایسا علم آجائے کہ میں بھوریا چرن کو خود سے دور رکھ سکوں تو یہ میرے لیے بہت بہتر ہوگا۔ خود تو زندگی میں کچھ نہیں کیا تھا حالانکہ والدین نے بہت کچھ پڑھانے کی کوشش کی تھی اور دین سے واقف کرانے کے لیے بھی کارروائیاں کی تھیں مگر مجھ پر بچپن ہی سے شیطان سوار تھا اور میں نے ان کے کہے کو کبھی نہیں مانا تھا۔ آج اس بات کا شدید افسوس تھا۔ اپنے طور پر ہی کچھ نہ کچھ تو کرتا ہی، چاہے باہر سے کسی کی مدد نہ ملتی لیکن اس سے محروم تھا۔ یہ محرومی بعض اوقات بڑا دل دکھاتی تھی۔ جیل آنے کے تیسرے دن شاہ صاحب میرے پاس پہنچے۔ پولیس کی وردی میں تھے۔ ویسے یہ اپنے طور پر ہی بہت اچھے انسان تھے اور غالباً دوسرے کردار سے بہت متاثر ہوگئے تھے۔ مجھ سے سلام، دعا کی اور کہنے لگے۔’’جج صاحب بھی تم سے ملنا چاہتے تھے، کسی وقت آئیں گے تمہارے پاس، تمہارے بارے میں بہت سی باتیں ہوئی تھیں ان سے ویسے تم نے جو ذمہ داری میرے سپرد کی تھی، میں نے اسے پورا کیا ہے لیکن تمہارے لیے کچھ افسوسناک اطلاعات ہیں۔‘‘میرا دل مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔ میں نے عجیب سی نگاہوں سے شاہ صاحب کو دیکھا اور بمشکل تمام کہا۔’’کیا اطلاعات ہیں شاہ صاحب! جلدی بتایئے، خدارا جلدی بتایئے…‘‘’’وہاں تمہارے اہل خاندان محفوظ نہیں رہے اور وہ بھی مصیبتوں کا شکار ہوگئے…‘‘میں نے دونوں ہاتھ دل پر رکھ لیے اور دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔’’کیا ہوا، کیا بات ہوگئی…؟‘‘’’تمہارے سلسلے میں اہل محلہ تمہارے گھرانے سے کافی بددل ہوگئے تھے۔ وہ آوازے کسا کرتے تھے اور برا بھلا کہا کرتے تھے کیونکہ جو واقعات وہاں پیش آئے ہیں اور جن واقعات کے بارے میں مجھے معلومات حاصل ہوئی ہیں، وہ میرے لیے بھی عجیب ہیں۔ بہر طور میں تمہیں بتا رہا تھا کہ اہل محلہ سے تمہارے ماموں اور بھائی کا جھگڑا ہوا۔ تمہارے بھائی نے ایک نوجوان کو چاقو مار دیا اور وہ نوجوان ہلاک ہوگیا۔ تمہارا بھائی فرار ہوگیا اور تمہارے خاندان کو اہل محلہ نے وہاں سے نکال دیا اور تمہارے گھر میں آگ لگا دی۔‘‘میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔ میں نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’تو محمود بھی قاتل بن گیا۔ وہ معصوم سا بچہ جس نے زندگی میں ہنسنے کھیلنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا۔ کیا وہ قاتل کی حیثیت سے گرفتار ہوگیا…؟‘‘’’نہیں! وہ مفرور ہے اور پولیس اسے تلاش کررہی ہے۔‘‘’’اور میرے والدین، میری ماں، بہن، ماموں…‘‘’’وہ لاپتا ہیں۔ انہوں نے کسی کو نہیں بتایا کہ وہ کہاں جارہے ہیں۔ پولیس نے بعد میں ان سے رابطے کی کوشش کی لیکن وہ پولیس کو دستیاب نہیں ہوسکے۔ اخبار میں بھی ان کے بارے میں اشتہار شائع کیا گیا کہ وہ پولیس سے رابطہ قائم کریں لیکن پولیس سے ان کا کوئی رابطہ قائم نہیں ہوسکا۔‘‘میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ میں نے تو یہی سوچ کر ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کی تھی کہ کہیں میری نحوست ان لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے لیکن… لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ…وہ براہ راست میری نحوست کا شکار ہوگئے تھے۔ آہ! میں کتنا بدنصیب ہوں، کتنا بدنصیب ہوں میں! اب نجانے کیا حال ہوگا ان کا… ایک بیٹے سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن… لیکن محمود… آہ میرا محمود! میں درحقیقت اپنے بھائی، بہن کو اپنی زندگی ہی کی طرح چاہتا تھا۔ کتنا بڑا مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹا ہے میرے گھر والوں پر میری وجہ سے… شاہ صاحب میرا چہرہ دیکھ رہے تھے، کہنے لگے۔’’دیکھو میاں! بدقسمتی جب آتی ہے تو پوچھتی نہیں کہ آگے کیا ہوگا۔ لیکن بالآخر ایسی قوتیں بھی ہیں جو انسان کو اپنی پناہ میں لے لیتی ہیں تو سارے مشکل مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔ تمہارا کیس میں خود دیکھ رہا ہوں اور بڑا عجیب محسوس ہورہا ہے مجھے۔ اس سلسلے میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں تم سے مسعود! بددل نہ ہونا، وقت کا انتظار کرنا، دیکھو! تقدیر نے تمہیں پھانسی سے بچا لیا ہے جبکہ دنیا تمہاری موت کا یقین کرچکی تھی۔
لیکن تم نے جو کچھ کہا ہے دوسرے لوگ اس پر یقین کریں یا نہ مجھے کچھ کچھ اس پر یقین آتا جارہا ہے خاص طور سے ان تحقیقات کے بعد… میں یہ نہیں کہتا کہ قانون میں تمہارے لیے کوئی لچک پیدا ہوسکتی ہے، تمہارا مقدمہ ازسرنو تیار ہورہا ہے اور سرکاری وکیل اس سلسلے میں فیصلے کررہے ہیں کہ اب تمہارے لیے کیا کیا جائے۔ لیکن میں ذاتی طور پر کوشش کروں گا کہ تمہیں جس حد تک رعایتیں مل سکتی ہیں، ملیں۔ اس کے علاوہ میرا تم سے ذاتی طور پر وعدہ بھی ہے کہ میں تمہارے والدین کو ذاتی طور پر تلاش کروں گا۔ اگر انہیں قانون کے ہاتھوں کوئی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوا تو کم ازکم میں اس کا ذریعہ نہیں بنوں گا…‘‘
’’شاہ صاحب! میں ابھی تو نہیں، اگر وقت ملا تو پھر کسی وقت آپ کو اپنی روداد غم سنائوں گا۔ آج تک میں نے اپنی یہ کہانی کبھی کسی کو اس لیے نہیں سنائی کہ لوگ مذاق اڑانے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کا حقیقتوں سے دور کا واسطہ بھی نظر نہیں آئے گا لیکن… لیکن میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے۔ شاہ صاحب! میں آپ سے یہ بھی مدد مانگوں گا کہ میری اس سلسلے میں روحانی رہنمائی کی جائے۔‘‘
’’میرے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے لیکن تم اطمینان رکھو۔ میں تمہارے معاملے میں براہ راست ملوث ہوچکا ہوں اور تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
’’شکریئے کے الفاظ کے علاوہ مجھ جیسے نادار شخص کے پاس اور کیا ہوسکتا ہے شاہ صاحب!‘‘
’’میرا نام امتیاز عالم شاہ ہے۔ اگر کبھی کسی مسئلے میں میری ضرورت پیش آئے تو کسی سے کہہ دینا۔ ویسے میں جیلر صاحب سے بھی تمہارے سلسلے میں کچھ سفارشیں کروں گا۔ کم ازکم تمہیں کوئی ایسی تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی جس سے تم بددلی کا شکار ہو۔ اچھا! اب میں چلتا ہوں۔‘‘ شاہ صاحب چلے گئے۔ لیکن میرے لیے آنسوئوں اور آہوں کے سوا اور کچھ نہیں چھوڑ گئے تھے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روئوں۔ کیا ہورہا ہے یہ سب کچھ، کیا کیا ہوتا رہے گا، کوئی امید ہے بہتری کی۔ کچھ ہوسکتا ہے میرے لیے، کوئی کچھ کرسکتا ہے؟ اس شیطان کے ساتھ کوئی تعاون کیا جاسکتا ہے کیا؟ اس کی ناپاک خواہش کی تکمیل کیا مجھ سے ممکن ہے۔
مجھے عدالت میں پیش کیا گیا۔ کمرۂ عدالت کے باہر میں نے ریحانہ بیگم اور سرفراز کو دیکھا۔ ان کے ساتھ بیرسٹر اشتیاق اور فاضلی بھی تھے جنہوں نے مجھ سے وکالت نامے پر دستخط کرائے اور بولے۔
’’مجھ سے کچھ دیر سے رابطہ قائم کیا گیا۔ تم سے تمہارے کیس کے بارے میں بہت کچھ پوچھنا ہے مگر کوئی بات نہیں۔ آج مقدمے کی سماعت نہیں ہوگی، میں تاریخ لے لوں گا۔‘‘
میں نے شکرگزار نگاہوں سے ریحانہ بیگم کو دیکھا اور آنسو بھرے لہجے میں بولا۔
’’بیگم صاحبہ! آپ میرے لیے یہ زحمت کیوں کررہی ہیں؟‘‘
’’ایسی باتیں کیوں کرتے ہو مسعود…؟‘‘
’’ضروری ہے بیگم صاحبہ! خدا کے لیے یہ سب کچھ نہ کریں، مجھے میری تقدیر پر چھوڑ دیں۔ میرے سلسلے میں یہ سب کچھ آپ کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔ خدا نہ کرے آپ کسی مصیبت میں گرفتار ہوں۔‘‘
’’تمہاری شرافت نے ہمیں خرید لیا ہے مسعود، ہم تمہارے مقروض ہیں، ہمیں ادائیگی کرنے دو۔‘‘
’’بیگم صاحبہ! میری ایک اور مشکل ہے۔ وہ میری زندگی سے زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ اگر آپ انسانیت کے رشتے کچھ کرنا چاہتی ہیں تو اس سلسلے میں کچھ کردیجئے۔‘‘
’’ہاں! بتائو۔‘‘
’’میرے والدین میری وجہ سے دربدر ہوئے ہیں۔ ڈی ایس پی امتیاز عالم شاہ صاحب کو اس بارے میں سب کچھ معلوم ہے۔ اگر ان کا پتا مل جائے تو انہیں سہارا دیں۔ میرے اوپر بہت بڑا احسان ہوگا۔‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آگئے، آواز رندھ گئی۔
ریحانہ بیگم کی آنکھیں بھی نمناک ہوگئی تھیں پھر انہوں نے آہستہ سے کہا۔ ’’تم مجھے ان کے بارے میں تفصیل بتا دو مسعود! اطمینان رکھو، میں ان کا پورا پورا خیال رکھوں گی…‘‘
’’امتیاز عالم صاحب سب کچھ جانتے ہیں، آپ انہی سے معلومات کرلیجئے۔ ویسے بھی اس وقت سب کچھ بتانا ممکن نہیں ہے۔‘‘ سرفراز نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ ہم خود یہ سب کام کرلیں گے، تم مطمئن رہو اور اپنی طرف سے بھی پریشان نہ ہونا۔ ہم انتہائی حد تک کوشش کریں گے۔ ہمت سے کام لینا، باقی جو خدا کا حکم ہوگا، وہی ہوگا۔‘‘
مجھے واپس جیل لے آیا گیا۔ دوسرے دن نئے بیرسٹر صاحب سرفراز کے ساتھ جیل پہنچے۔ مجھ سے کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اور میں نے انہیں تمام تفصیلات بتا دیں۔ سرفراز بھی حیران تھا۔ غالباً اسے پہلی بار اس ساری کہانی کا علم ہوا تھا۔ وہ ناقابل یقین سی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا لیکن اس نے میری باتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا، بس خاموش رہا تھا۔ اشتیاق احمد صاحب نے تفصیلات مکمل کیں۔ ویسے بھی وہ میری فائل حاصل کرچکے تھے جو ان کے پاس موجود تھی۔ بڑے قانون دانوں میں شمار ہوتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے مجھے اطمینان دلایا اور کہا کہ وہ کوئی ترکیب نکالیں گے جس سے میری یہ مصیبت ٹل سکے۔
وہ لوگ چلے گئے۔ میرے لیے روشنی کی کوئی کرن نہیں تھی۔ یہ بے چارے اپنے طور پر کوششیں تو کرسکتے تھے، لیکن جس شیطان سے میرا واسطہ تھا، اس کی چالیں انسانی چالیں نہیں تھیں اور اس کے سفلی علوم کے مقابلے میں ان نیک لوگوں کی کوششیں بے اثر ہی تھیں… ہاں! ان لوگوں کے ذریعے اگر میرے اہل خاندان کو کچھ سہارا مل جائے تو میرے لیے یہی کافی تھا۔
اپنی طرف سے تو میں مایوس ہوچکا تھا لیکن کبھی کبھی دل و دماغ میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔ بھوریا چرن کم بخت کہہ کر گیا تھا کہ جب بھی میں اسے آواز دوں گا، وہ میرے پاس آجائے گا اور آواز دینے کا مطلب یہ ہے کہ میں اس کے مکروہ فعل کے لیے آمادہ ہوچکا ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ اپنے اندر کا یہ جذبہ خود میری سمجھ سے باہر تھا۔ جن مشکل ترین حالات میں بسر کررہا تھا، ان سے گھبرا کر تو دنیا کا مکروہ سے مکروہ ترین کام بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن نجانے کیوں بھوریا چرن کی بات ماننے کے لیے اندر سے آمادگی ہی نہیں پیدا ہوتی تھی۔ یہ بات خود میری اپنی سمجھ سے باہر تھی۔ آخر ان برے حالات میں جبکہ میں اپنے لیے نہ سہی ماں، باپ کے لیے بری طرح پریشان تھا، میں بھوریا چرن کی بات ماننے کے لیے کیوں نہیں تیار ہورہا تھا جبکہ میرے لیے اور کوئی سہارا بھی نہیں تھا۔
وقت گزرتا رہا اور میں اپنی عجیب و غریب کیفیات کا شکار رہا۔ پھر غالباً کچھ ہوا تھا شہر میں! بے شمار لوگ قیدیوں کی حیثیت سے جیل لائے جارہے تھے۔ غالباً کوئی سیاسی ہنگامہ تھا جس کی وجہ سے بڑی افراتفری نظر آرہی تھی اور جیلیں بھرتی جارہی تھیں۔
پھر ایک شام ہم لوگوں کو تیار کیا جانے لگا۔ قیدیوں کو ہتھکڑیوں کے علاوہ بیڑیاں بھی پہنا دی گئیں اور انہیں ایک جگہ جمع کیا جانے لگا۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ بعد میں مجھے دوسروں سے پتا چلا کہ ہمیں کسی اور جیل میں منتقل کیا جارہا ہے اور یہ فیصلہ ان سیاسی ہنگاموں کی وجہ سے ہے جن سے جیلوں میں نفری بڑھتی جارہی ہے۔ کئی گاڑیاں ہمیں لے کر چل پڑی تھیں۔ کہاں جارہے ہیں، کہاں تک سفر کرنا ہے، کچھ معلوم نہیں تھا۔ دوسرے قیدیوں کی طرح میں بھی خاموشی سے سر جھکائے گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا۔ جیلوں سے کیا فرق پڑتا ہے، صرف جگہ بدل جاتی ہے۔ قیدی تو قیدی ہی ہے۔ چنانچہ اس بارے میں کیا تردد ہوسکتا تھا۔ البتہ سفر کافی طویل تھا اور بری طرح بھری ہوئی گاڑی میں اتنے لمبے سفر سے جوڑ جوڑ دکھ گیا تھا۔ بالآخر منزل آگئی اور قیدی نیچے اترنے لگے۔
نئی جیل کسی گرم علاقے میں تھی اور صحیح معنوں میں جیل تھی۔ کوٹھریاں انتہائی بوسیدہ، دیواریں ٹوٹے پھوٹے پلستر سے آراستہ، فرش میں جگہ جگہ سوراخ جن میں حشرات الارض کا بسیرا تھا۔ اسی لحاظ سے یہاں کا عملہ تھا۔ سخت بدمزاج لوگ یقینی طور پر ایسے موسم کے ستائے ہوئے، کبھی سیدھے منہ بات نہیں کرتے تھے۔ باہر کا علاقہ سبزے سے خالی تھا۔ سیاہ ڈنٹھلوں والی بدنما جھاڑیاں البتہ وہاں نظر آتی تھیں۔ مچھروں اور دوسرے حشرات الارض نے زندگی حرام کردی۔ نہ رات کو سکون کی نیند نصیب ہوتی تھی، نہ دن کو چین تھا۔ صبرآزما وقت گزرتا گیا۔ اس دوران کسی سے رابطہ نہیں ہوسکا تھا۔ ہفتہ، مہینہ اور پھر تقریباً تین ماہ گزر گئے۔ زندگی سب کچھ جھیل لیتی ہے۔ جہاں ایک دن زندہ رہنے کا تصور نہ کیا جاسکے، وہاں تین ماہ گزر چکے تھے اور زندہ تھا اور مجھ سے پہلے کے لوگ سالہاسال سے جی رہے تھے۔ ہاں! طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہوگیا تھا۔ ہر چیز کو نفرت سے دیکھنے کی عادت ہوگئی تھی۔ جھلستے دن، جھلستی راتوں میں زندگی آگے بڑھتی رہی۔ وسیع و عریض جیل کے چپے چپے سے واقف ہوگیا تھا۔ اب نہ گھر والے یاد آتے تھے، نہ باہر کی رنگین دنیا سے کوئی دلچسپی تھی۔ بھوریا چرن بھی غائب تھا۔ کسی شکل میں وہ نہیں نظر آیا تھا۔ اس کے تصور کے ساتھ ہی منہ سے گالیاں ابل پڑتی تھیں۔ بڑی تبدیلی محسوس ہوتی تھی خود میں۔ پھر ایک دن جیل کے مغربی کونے میں کیاریاں سنبھال رہا تھا کہ بیرونی دروازے سے ایک بڑا ٹرک اندر داخل ہوا۔ اس ٹرک میں قیدی لائے اور لے جائے جاتے تھے۔ ہمیں ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ ٹرک سے قیدی اتارے جانے لگے۔ منظر چونکہ بالکل سامنے تھا، اس بے دھیانی کے انداز میں قیدیوں کو اترتے دیکھتا رہا۔ لیکن ایک قیدی کو دیکھ کر میں لرز گیا۔ وہ میرا چھوٹا بھائی محمود تھا جو ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ میرے ہاتھ، پائوں بے جان سے ہوگئے، آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا۔ میں نے آنکھیں مل مل کر اسے دیکھا۔ آہ! بینائی دھوکا نہیں دے رہی تھی۔ یہ میرا بھائی ہی تھا۔ میرا چھوٹا بھائی! بھلا اپنے خون کو نہیں پہچان سکتا تھا۔ محمود کو نہیں پہچان سکتا تھا، اپنے محمود کو… میرا محمود! منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی مگر سارا وجود مجسم آواز بن گیا تھا۔ قیدیوں کو آگے لے جایا گیا اور میری نگاہیں ان کا تعاقب کرتی رہیں۔ وہ بیرک آٹھ کی طرف جارہے تھے۔ یہی میری بیرک تھی۔ سپاہی قریب آکر رک گیا اور اس نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’آرام ہورہا ہے…؟‘‘
’’نہیں.. نہیں صاحب!‘‘ میں فوراً ہوش میں آگیا۔ کام کرنے لگا مگر اندر سے جو کیفیت ہورہی تھی، میرا دل جانتا تھا۔ محمود گرفتار ہوگیا۔ شاہ صاحب مجھے بتا چکے تھے کہ محمود کے ہاتھوں بھی قتل ہوگیا ہے، وہ بھی قاتل ہے اور نہ جانے اسے کیا سزا ملی ہے۔ دل سینہ توڑ کر نکلا آرہا تھا۔ نہ جانے دن کیسا گزرا، کچھ اندازہ نہیں ہوسکا تھا۔ رات کو بیرک میں آگیا۔ کھانا بھی نہ کھایا گیا۔ میرے ساتھی رئیس خان نے پوچھا۔
’’کیا بات ہے مسعود! طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’کھانا کیوں نہیں کھایا؟‘‘
’’دل نہیں چاہا رئیس صاحب!‘‘
’’دل…؟ یہاں بھی دل ساتھ لائے ہو بھیّے…!‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور میں بھی مسکرایا۔
’’نئے قیدی آئے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں! آتے جاتے رہتے ہیں۔‘‘
’’کونسی کوٹھریوں میں رکھے گئے ہیں؟‘‘
’’تقسیم ہوگئے ہیں۔‘‘
’’کچھ ادھر بھی تو لائے گئے ہیں۔‘‘
’’ہاں! وہ تین کوٹھریاں بھری نظر آرہی ہیں۔‘‘ رئیس خان نے ایک طرف اشارہ کرکے کہا اور میری نظریں ادھر کا طواف کرنے لگیں۔ انہی میں سے کسی میں محمود موجود تھا۔ محمود جسے ساری کہانیاں معلوم ہوں گی۔ امی کے بارے میں، ابو کے بارے میں، میری بہن کے بارے میں..! دل تڑپ رہا تھا۔ بیرک میں خاموشی طاری ہوگئی بس کبھی کبھی سنتری کے بوٹوں کی آواز سنائی دیتی اور اس کے پائوں نظر آجاتے۔ اس کے سوا کوئی آواز نہیں تھی۔ دل میں خیال آیا۔ کیا محمود سزائے موت کا مجرم ہے۔ قتل کے نتیجے میں اس کی توقع تو کی جاسکتی تھی۔ اسے کیا سزا دی گئی ہے؟ کیا میں ہمیشہ کے لیے اپنے بھائی سے محروم ہوجائوں گا؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا کیوں نہیں سمجھتی کہ یہ مجرموں کا گھرانہ نہیں ہے۔ ہم مصیبت زدہ لوگ ہیں، ہمارے ساتھ یہ سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ ہم پر رحم کیا جائے، ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔ کیوں نہیں سمجھتی دنیا! کیا یہ کبھی نہ سمجھ پائیں گے کہ یہ سب کچھ ایک شیطان کا کیا دھرا ہے؟ ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ شیطان مجھے ایک گندے کام پر اکسانا چاہتا ہے۔ وہ ایک مقدس مزار کی بے حرمتی کرانا چاہتا ہے میرے ہاتھوں! اپنے کالے جادو کو مکمل کرنے کے لیے وہ میرا سہارا طلب کررہا ہے اور میں اپنے عقیدے کے مطابق اس گندی کوشش میں اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ میرے ساتھ رحم کیوں نہیں کیا جاتا۔ یہ سب اس شیطان کے آلۂ کار کیوں بن گئے ہیں۔ یہ میرا ساتھ کیوں نہیں دیتے اور اگر میں شیطنیت پر اتر آئوں تو پھر یہ روتے، چیختے پھریں گے۔ کیوں نہیں سوچا جاتا میرے بارے میں، کیوں نہیں کرتے یہ کچھ میرے لیے … سب اس شیطان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ آج اگر میں برائی کے راستے اپنا لوں، اپنے دین کے راستے چھوڑ کر اس شیطان بھوریا چرن کا ساتھی بن جائوں تو پھر یہ سب میرے تلوے چاٹیں گے۔ شیطنیت کا راج کیوں قائم ہونے دیا جارہا ہے، کیوں اکسایا جارہا ہے مجھے، اگر محمود کو پھانسی ہوگئی، اگر وہ سزا پا گیا تو میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پائوں گا۔ سن لو میری بات! اگر تم نے مجھ سے میرا بھائی چھین لیا تو میں تم سے تمہاری زندگی چھین لوں گا۔ آخر میں بھی انسان ہوں، میرے بھی جذبات ہیں۔ میں بھی غلط راستوں پر نکل سکتا ہوں۔ روکو مجھے غلط راستوں پر جانے سے… لیکن یہ دل کی خاموش چیخیں تھیں جنہیں سننے والا کوئی نہ تھا۔ اس روئے زمین پر کوئی نہیں سنے گا میری بات! مجھے اپنی بات سنانی پڑے گی۔ ان لوگوں کو عمل کرکے دکھانا پڑے گا۔ جذبات کے یہ بول ان کے کانوں تک نہیں پہنچیں گے، کبھی نہیں پہنچیں گے۔ عمل چاہیے عمل… آہ! ورنہ میں محمود کو ہمیشہ روتا رہ جائوں گا۔ اتنی بے بسی اچھی نہیں ہے۔ مجھے محمود کے لیے کچھ کرنا ہوگا، کچھ کرنا ہوگا۔
دل میں لہریں اٹھنے لگیں۔ ہاتھ، پائوں میں اکڑن سی پیدا ہوگئی۔ رئیس خان گہری نیند سو رہا تھا۔ کم بخت کو پتا نہیں یہ نعمت کہاں سے مل گئی تھی۔ وہ سو جاتا تھا تو اگر اس کے جسم کا کوئی حصہ بھی کاٹ دیا جاتا تو شاید اسے صبح ہی کو اس کا پتا چلتا۔ اتنی گہری نیند سوتا تھا وہ… آنکھوں کی نمی خشک ہوگئی تھی، ایک جلن سی پیدا ہوگئی تھی ان آنکھوں میں… دماغ میں بھی کچھ سیاہ سے دھبے ابھر آئے تھے جو محسوس ہورہے تھے۔ میں پوری سنجیدگی سے سوچ رہا تھا کہ اپنے لیے میں کچھ نہیں کرسکا لیکن بھائی کے لیے مجھے کچھ کرنا ہوگا۔ دماغ اس وقت عجیب سی کیفیت کا حامل ہوگیا تھا چنانچہ سازشیں جنم پانے لگیں اور جب صبح کی روشنی نمودار ہوئی تو میرے ذہن میں پورا پروگرام بن چکا تھا۔ اس وقت میرے وجود میں ایک نیا انسان جاگ اٹھا تھا اور میں کم ازکم اسے بھوریا چرن نہیں کہہ سکتا تھا۔ میں راستے متعین کرتا رہا، فیصلے کرتا رہا اور میں نے اپنے وجود کے بارے میں کسی کو پتا نہیں چلنے دیا۔ آج میں ایک زیادہ ذہین اور خودمختار انسان تھا۔ کسی قسم کی بے کسی اور بے بسی کا کوئی احساس میرے ذہن میں نہیں تھا۔ رات کو معمول کے مطابق بیرک میں آگیا، کھانا وغیرہ بھی کھا لیا تھا۔ رئیس خان نے تبصرہ بھی کیا تھا مجھ پر کہ کل کی نسبت آج میری کیفیت بالکل درست ہے اور میں نے قہقہہ لگا کر اس سے کہا تھا کہ بیماری روزانہ تو نہیں ہوتی۔ دن کی روشنی میں… میں نے محمود کو دیکھا تھا اور اس بیرک کو بھی جس میں اسے رکھا گیا تھا۔ ہر احساس، ہر خطرے سے بے نیاز ہوکر میں نے اپنے منصوبے پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
وقت آہستہ آہستہ گزرتا رہا، بیرکوں میں سناٹے پھیلتے چلے گئے، سنتری ڈیوٹی پر آگیا اور جیل کی دنیا خاموش ہوگئی۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس سناٹے میں ہزاروں آوازیں پوشیدہ ہیں، نجانے کتنے جاگ رہے ہوں گے، نہ جانے کتنے رو رہے ہوں گے لیکن یہ رونا بے آواز ہوتا تھا، ان کے صرف دل روتے تھے۔ جیل کا اندرونی حصہ تاریک تھا لیکن باہر روشنی تھی۔ رات کی ڈیوٹی والا سنتری بدستور بیرک میں گشت کررہا تھا اور میں اب اپنے کام کے لیے تیار تھا۔ سنتری کے قدموں کی آواز مجھے اپنی کوٹھری کی طرف آتی ہوئی محسوس ہوئی تو میں ڈراما کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ میں نے اپنے دانتوں سے اپنی کلائی کاٹ لی اور اس سے خون بہنے لگا۔ تب ہی میں اپنی جگہ سے کھسکتا ہوا سلاخوں والے دروازے کی نزدیک لیٹ گیا اور میرے حلق سے اذیت ناک کراہیں نکلنے لگیں۔ البتہ میں نے اتنا شور نہیں کیا کہ دوسرے قیدی بھی سن لیں۔ تدبیر کارگر ہوئی۔ سنتری میرے پاس آکر رک گیا۔
’’کیا ہوا؟ کیا بات ہے…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کسی جانور نے کاٹ لیا ہے۔ سانپ لگتا تھا، اسی سوراخ میں جاگھسا ہے۔‘‘ میں نے ایک سوراخ کی طرف اشارہ کیا اور کلائی اس کے سامنے کردی۔ کلائی سے بہتے ہوئے خون اور میری گھٹی گھٹی آواز نے اس کے دل میں ہمدردی جگا دی اور اس نے جلدی سے چابی نکال کر تالا کھول دیا۔ غلطی کی تھی اس نے، یہاں انسانیت کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ قیمت اسے بھی ادا کرنی پڑی۔ جونہی اس نے میرے زخم کو چہرے کے قریب کیا، میں نے اس کی گردن دبوچ لی۔ وہ گھبرا گیا مگر بیکار تھا۔ میں نے پوری قوت صرف کردی اور اسے منہ سے آواز نکالنے کا موقع بھی نہیں دیا۔ پتا نہیں بے چارہ مر گیا تھا یا صرف بے ہوش تھا۔ میں نے اسے بے سدھ پا کر آہستہ سے اپنی جگہ لٹا دیا اور پھر اس کے پاس موجود چابیوں کا گچھا قبضے میں کرلیا۔ باہر نکل کر میں نے تالا بند کیا اور آگے بڑھ گیا۔
دوسرا سنتری اپنا چکر پورا کرکے اسی طرف آرہا تھا۔ میں نے بیرک کے موڑ پر اس کا استقبال کیا۔ جونہی وہ موڑ گھوما، میرا طاقتور گھونسہ اس کی ناک پر پڑا اور ناک کی چوٹ بہت سے مسئلے حل کردیتی ہے۔ میں نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اسے گرنے نہ دیا۔ وہی گُر میں نے اس پر بھی آزمایا تھا جس سے پہلے سنتری کو سنبھالا تھا۔ جب مجھے اس کے بے حس و حرکت ہوجانے کا یقین ہوگیا تو میں نے اسے ایک تاریک جگہ لٹا دیا۔ تقدیر شاید اس وقت میری طرف سے بے نیاز تھی۔ کیونکہ میں اپنی اس پہلی کوشش میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اس کے بعد مجھے محمود کی کوٹھری تلاش کرنے میں دقت نہیں ہوئی۔ میں چابیوں کے گچھے کی تمام چابیاں آزمانے لگا اور ایک چابی نے اس کوٹھری کا دروازہ کھول دیا۔ اندر چار قیدی تھے جن میں ایک محمود تھا۔ وہ زمین پر آرام سے سو رہا تھا۔ میں نے اسے دیکھا۔ دل میں پیار کے بہت سے پھول کھل اٹھے لیکن یہ عمل کا وقت تھا۔ ابھی بہت مشکل مراحل تھے۔ میں اس کے قریب بیٹھ گیا۔ پھر میں نے اس کے کان کے قریب ہونٹ لے جاکر سرگوشی کی۔ ’’محمود… جاگو… محمود… محمود…‘‘ اس کے بدن میں جنبش ہوئی تو میں نے پھر سرگوشی کی۔ محمود… جاگو… وہ اچھل پڑا۔ میں نے پھرتی سے اس کا منہ بھینچ لیا تھا۔ اس نے میری کلائی پر ہاتھ ڈال دیا۔ کافی مضبوط گرفت تھی۔ ایک مکمل مردانہ گرفت جو میرے ہاتھ کو منہ سے ہٹا سکتی تھی۔ میں نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی۔ میرے الفاظ اس کی سماعت نے محسوس کرلیے، اس نے انہیں سمجھ لیا جس کا اندازہ اس کی گرفت کے ڈھیلے پڑ جانے سے ہوا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے پھر کہا۔
’’ہوشیار ہوجائو محمود! یہ نہ سوچو میں یہاں کیسے آگیا۔ یہ سب بعد میں معلوم ہوجائے گا تمہیں۔ خود کو سنبھالو، پوری طرح ہوشیار ہوجائو۔ ہمیں جیل سے فرار ہونا ہے۔ کیا تم جاگ گئے ہو۔‘‘
اس نے گردن ہلا دی اور میں نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹا لیا۔ وہ پھرتی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے اسے ہاتھ کا سہارا دے کر کھڑا کیا۔ اس نے ایک نگاہ اپنے قریب سوئے ہوئے قیدیوں پر ڈالی اور دوسری کھلے دروازے پر! پھر وہ گردن جھٹکنے لگا۔
’’آئو…‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑکر دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا اور وہ بے آواز چلتا ہوا کوٹھری سے باہر نکل آیا۔ اب وہ پوری طرح مستعد نظر آرہا تھا۔ باہر اس نے کچھ فاصلے پر پڑے ہوئے دوسرے سنتری کو دیکھا اور تیزی سے آگے بڑھ کر اس کی رائفل اٹھا لی، ساتھ ہی کارتوسوں کی پیٹی بھی۔ یہ میں نے نہ کیا تھا، نہ سوچا تھا، مگر اس سلسلے میں وہ مجھ سے آگے نظر آرہا تھا… پھر ہم دونوں بے آواز، قیدیوں کی کوٹھریوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے بیرک کے دروازے کی طرف بڑھنے لگے جس کے دوسری طرف موت بھی تھی اور زندگی بھی…!
جیل سے فرار اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا ہم نے سمجھا تھا، لیکن میرے لیے نہ زندگی اتنی دلکش تھی نہ موت، یہ بھی نہیں کہتا کہ جینا نہیں چاہتا تھا۔ کون نہیں جینا چاہتا۔ بس جو بیت رہی تھی اس نے زندگی کو عذاب بنا دیا تھا۔ ہاں اپنے بھائی کی زندگی کی خاطر میں ہزار بار مرنے کے لیے تیار تھا۔ اُس نے ابھی اس دُنیا میں دیکھا ہی کیا تھا، جو کچھ ہوا تھا میری وجہ سے ہوا تھا۔ میں زندگی سے محروم ہو جائوں مگر میرا محمود…!
’’لائو یہ رائفل مجھے دے دو۔‘‘ میں نے سرگوشی کی۔
’’نہیں بھائی جان، اسے میرے پاس رہنے دیں۔‘‘ اس نے فوراً جواب دیا۔ اس کے انداز میں بڑی پختگی تھی۔ جس پر مجھے حیرت ہوئی تھی۔ بیرک کے باہر بھی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ہم بیرک کی دیوار سے لگے آگے بڑھنے لگے۔ سرچ ٹاور پر سنتری مستعد تھے۔ سرچ لائٹ گھوم رہی تھی۔ کئی بار ہم اس کی زَد میں آتے آتے بچے۔ ایک جگہ دیوار تعمیر ہو رہی تھی۔ مجھے یہ بات یاد آگئی اور میں نے ادھر ہی کا رُخ کیا۔ میں نے تقدیر ہی کا سہارا لیا تھا۔ اگر محمود کو نہ دیکھتا تو شاید فرار کا تصور بھی نہ کر پاتا، لیکن اب صرف میری ایک ہی آرزو تھی کہ محمود کو لے کر جیل سے نکل جائوں۔ صحیح معنوں میں تو میں نے اب جرم کیا تھا یعنی دو سنتریوں کو زخمی کر کے اور یہ جرم اپنے بھائی کی محبت میں کیا تھا، ورنہ ایسا کبھی نہ کرتا۔ ٹوٹی دیوار کے قریب بھی ایک سنتری کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی مگر وہ سو گیا تھا۔ ہم نے اسے دیکھ لیا مگر اس سے پہلے کہ میں کوئی فیصلہ کروں محمود نے عمل بھی کر ڈالا۔ اس نے سوتے ہوئے سنتری کو دبوچ لیا تھا۔ کچھ دھینگا مشتی ہوئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ محمود نے دوسرے سنتری کی رائفل مجھے دے کر کہا۔
’’اسے سنبھالیے بھائی جان!‘‘ میں نے رائفل پکڑ لی۔ بس کچھ تقدیر ہی کا فیصلہ تھا کہ ہم اس ٹوٹی دیوار کے سہارے باہر نکل آئے، حالانکہ یہ سب کچھ ممکن نہیں تھا۔ لیکن وقت ہماری مدد کر رہا تھا۔ جیل سے باہر آ کر یقین نہیں آ رہا تھا۔ تاحدِ نگاہ گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کچھ دُور تک ہمیں بہت محتاط ہو کر دوڑنا پڑا اور جب جیل کے ٹاور کی روشنی غائب ہوگئی تو ہم نے اطمینان کا سانس لیا، اب آبادی کی روشنیاں زیادہ دُور نہیں تھیں۔
میں نے محمود کو آواز دی تو وہ رُک گیا۔ ’’تھک گئے بھائی جان۔‘‘
’’بالکل نہیں۔ مگر شہر میں داخل ہونا خطرناک ہوگا، ہمارے جسم پر قیدیوں کا لباس ہے۔‘‘
’’شہر میں تو داخل ہونا پڑے گا۔ وہیں کچھ بندوبست ہو سکتا ہے۔‘‘ محمود نے کہا اور پھر بولا۔ ’’آیئے دیکھتے ہیں۔‘‘ میں آگے بڑھ گیا۔ وہ مجھ سے کہیں زیادہ مستعد
نظر آ رہا تھا۔ رائفل اس نے اس طرح سنبھالی ہوئی تھی جیسے ضرورت پڑنے پر اسے بے دریغ استعمال کرے گا۔ اس کی نگاہیں دُور دُور تک کا جائزہ لے رہی تھیں۔ ہم شہر میں داخل ہو گئے اور تاریک راستوں کا سہارا لیتے ہوئے بالآخر ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جسے رہائشی علاقہ کہا جا سکتا تھا۔ ایک بنگلے کے سامنے محمود رُک گیا۔ اس نے چاروں طرف کا جائزہ لے کر کہا۔
’’آپ یہاں رُکیں بھائی جان! ہوشیار رہیں اوّل تو میں کسی ہنگامے کا موقع نہیں دوں گا مگر کچھ ہو جائے تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کیا کرنا مناسب ہوگا۔‘‘
’’مگر محمود…؟‘‘
’’صرف لباس کے حصول کی کوشش کروں گا اور کچھ نہیں، آپ فکر نہ کریں۔‘‘ میں بنگلے کے سامنے ایک درخت کے پاس پہنچ گیا، تاریکی کے باوجود محمود کی حرکات کا جائزہ لے سکتا تھا۔ اس کے ہر کام میں بڑی مہارت کا احساس ہوتا تھا۔ اس مختصر وقت میں اسے سب کچھ کیسے آ گیا۔ وہ بنگلے میں داخل ہو کر نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور میں نے گردن اُٹھا کر درخت کو دیکھا۔ اس کی پھیلی ہوئی شاخوں تک پہنچنا مشکل نہیں تھا۔ وہاں سے میں بنگلے کے احاطے کے اندر دیکھ سکتا تھا، چنانچہ میں فوراً درخت پر چڑھ گیا۔ بنگلہ اندر سے تاریک تھا۔ مجھے کچھ نظر نہ آ سکا اور میں تاریکی میں آنکھیں پھاڑ رہا تھا۔ پھر میرے کانوں میں کچھ مدھم مدھم چیخوں کی آوازیں اُبھریں اور میں نے رائفل سنبھال لی لیکن چیخیں دوبارہ نہ سنائی دی تھیں۔ کوئی دو منٹ کے بعد بنگلے میں کچھ روشنی نظر آئی۔ یہ روشنی کسی کھڑکی کے شیشوں سے جھلکی تھی۔ میرا دل دھاڑ دھاڑ کر رہا تھا۔ جان آنکھوں میں سمٹی آ رہی تھی۔ بدن پر ہلکی ہلکی لرزش طاری تھی۔ نہ جانے اندر کیا ہو رہا ہے، نہ جانے محمود…
وقت کس طرح گزرا کوئی احساس نہ ہو سکا، مجھ پر لرزہ طاری رہا۔ پھر میں نے ایک سایہ بنگلے سے برآمد ہوتے دیکھا۔ کوئی صحیح اندازہ نہیں ہو سکا تھا۔ وہ باقاعدہ گیٹ کھول کر باہر آیا اور میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ محمود ہی تھا مگر شلوار قمیض میں ملبوس، اب اس کے ہاتھ میں رائفل کے بجائے ایک سوٹ کیس تھا جسے سنبھالے وہ باہر آیا اور پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ میں پھرتی سے درخت سے نیچے کود آیا تھا۔ محمود نے مجھے دیکھ لیا اور تیزی سے میرے قریب آ گیا۔ اس نے بغل سے ایک بنڈل نکال کر مجھے دیتے ہوئے کہا۔ ’’درخت کی آڑ میں جا کر لباس تبدیل کرلیں یہ آپ کیلئے بالکل درست ہوگا۔‘‘
’’اوہ ،کیا بنگلے کے مکین…‘‘
’’نہیں، ان کا خطرہ نہیں ہے۔‘‘ باتوں کا وقت نہیں تھا۔ میں نے فوراً لباس تبدیل کرلیا۔ اس دوران محمود نے سوٹ کیس سے پشاوری چپل نکال لی تھیں۔ ’’انہیں پہن کر دیکھیے خدا کرے یہ آپ کے پیروں میں آ جائیں، بس کام چل جائے بعد میں بندوبست ہو جائے گا۔‘‘ میں نے چپلیں پہنیں بالکل ٹھیک آئی تھیں۔ محمود ہنس پڑا۔ ’’یوں لگتا ہے جیسے وہاں ہمارے ہی دو بھائی اور موجود ہیں۔ ان کے جسم اور پائوں ہمارے جیسے ہیں۔‘‘
’’چوری کرنی پڑی محمود؟‘‘ میں نے تاسف سے کہا اور محمود ہنس پڑا۔
’’نہیں۔ میں نے ان سے درخواست کی تھی۔‘‘
’’کسی کو نقصان تو نہیں پہنچا؟‘‘
’’صرف اتنا کہ انہیں صبح تک بندھے پڑے رہنا پڑے گا۔ منہ میں کپڑا ٹھنسا ہوا ہے مگر ناک سے سانس لیتے رہیں گے۔ صبح کوئی نہ کوئی انہیں کھول دے گا۔‘‘ محمود نے جواب دیا۔
’’تمہاری رائفل۔‘‘
’’وہیں چھوڑ دی۔ آپ بھی پھینک دیں، بیکار ہیں اب یہ ہمارے لیے، اب ہم شریف لوگ ہیں۔‘‘
’’یہ سوٹ کیس ساتھ رکھو گے۔‘‘
’’ضروری ہے۔ آئیے، ریلوے اسٹیشن تک پیدل ہی چلنا پڑے گا۔ خدا کرے ابھی جیل میں ہمارے فرار کا اندازہ نہ ہوا ہو اور ہمیں یہاں سے نکل جانے کا موقع مل جائے۔ ہم دونوں چل پڑے، ابھی تک تو تقدیر نے ساتھ دیا تھا اور مجھے حیرت ہو رہی تھی کیونکہ میں اپنی خوش بختی سے تو بالکل مایوس تھا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ابھی محمود کے بخت بالکل تاریک نہ ہوئے ہوں اور اس کی تقدیر سے میرا بھی کام چل رہا ہو۔ ریلوے اسٹیشن پہنچے لیکن ہمیں ٹرین کوئی سوا پانچ بجے ملی تھی اور یہ وقت جیسے گزرا ہے اللہ جانتا تھا۔ آنکھیں وحشت زدہ تھیں۔ محمود نے ٹرین کے بارے میں معلومات حاصل کر کے دو ٹکٹ خرید لیے تھے۔ ٹرین صرف دو منٹ یہاں رُکی اور ہم اس میں سوار ہوگئے۔ پورے کمپارٹمنٹ میں ایک بھی شخص جاگتا نہیں ملا۔ ہمیں آسانی سے بیٹھنے کی جگہ بھی مل گئی تھی۔ طویل ترین جدوجہد کے بعد ان لمحات کو سکون کے لمحات کہا جا سکتا تھا۔ میں نے کہا۔
’’محمود بنگلے کے مکینوں نے تمہاری صورت دیکھ لی تھی؟‘‘
’’چھپانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ بھائی جان! ہمارے بارے میں تحقیقات کرنے والوں کو ہمارے سارے پروگرام کی تفصیل تو پتا چل جائے گی۔ ان کے پاس ہمارے فنگر پرنٹس بھی موجود ہیں، اس لیے ہر احتیاط بیکار تھی۔ ہم جیل سے فرار ہوئے، شہر میں داخل ہوئے، بنگلے میں چوری کی اور فرار ہوگئے۔ ہاں اصل احتیاط اب شروع ہوگی۔ میں نے لمبے سفر کا ٹکٹ خریدا ہے مگر دن کو نو بجے کے قریب قریب جو اسٹیشن آئے گا ہم وہاں اُتر جائیں گے، اگر کوئی بہتر جگہ ہوئی تو کچھ قیام کریں گے ورنہ کسی اور ذریعہ سے آگے بڑھ جائیں گے۔‘‘ اس کا کہنا درست تھا، میں خاموش ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ بولا۔
’’کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر لیں بھائی جان۔‘‘
’’اوہ! نہیں میں راتوں کو جاگنے کا عادی ہوگیا ہوں۔ تم سو جائو محمود، اطمینان سے سو جائو میں جاگ رہا ہوں۔‘‘
’’تب میں سو رہا ہوں۔‘‘ اس نے کہا اور تھوڑا سا کھسک کر آنکھیں بند کرلیں۔ وہ چند لمحات میں سو گیا، یہ اس کی ہمیشہ کی عادت تھی، وہ اسی طرح سو جاتا تھا کہ بستر پر لیٹا اور سو گیا۔ بعض اوقات یقین نہیں آتا اور ہم اس کے سونے کو مکر سمجھتے تھے۔ میں محبت بھری نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگا۔ ماضی میرے سامنے سے گزرنے لگا۔ اس کے چہرے کی معصومیت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا تھا۔ وہی نیند کے عالم میں کھل جانے والے ہونٹ اور ان سے جھانکتے ہوئے دو دانت۔ بالکل ایسا ہی دہانہ شمسہ کا تھا، شمسہ میری بہن… آنکھوں کی کوریں بھیگ گئیں، کیا ہوگیا تھا یہ سب کچھ۔ کیسے منتشر ہوگئے تھے ہم سب۔ کیسے بے کل ہوگئے تھے میری وجہ سے۔ سب کچھ میری وجہ سے ہوا تھا۔ میں تو مجرمانہ ذہنیت کا حامل تھا۔ ابتدا ہی سے میرے لچھن بگڑے ہوئے تھے۔ مگر محمود… اس نے اس مختصر وقت میں جس مہارت کا ثبوت دیا تھا وہ ناقابل یقین تھی۔ میں نے تو بس اتنا ہی کیا تھا کہ بیرک کے سنتریوں پر قابو پا لیا تھا۔ یہ سب کچھ بھی جوش محبت میں بیدار ہو جانے والے طوفانی جذبات کا نتیجہ تھا۔ عام حالات میں یہ سب کچھ نہیں کر سکتا تھا مگر محمود کا ہر قدم ٹھوس تھا، کہیں بھی وہ خوف کا شکار نہیں ہوا تھا۔ حالانکہ اس نے بھی جذبات میں آ کر جرم کیا تھا مگر اس کے بعد محمود کی کہانی تاریکی میں تھی۔ یہ مہارت اسے کیسے حاصل ہوئی۔ اسے ماں باپ کے بارے میں کیا معلوم ہے۔ دل میں لاکھوں سوالات مچل اُٹھے مگر وہ سو رہا تھا، اچھا ہے تھوڑی سی نیند لے لے۔ میں اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں نے اپنے ہمسفروں کو دیکھا، ان میں بظاہر کوئی مشکوک شخصیت نظر نہیں آتی تھی جس سے خطرہ محسوس کیا جاتا۔ اُجالا پھوٹنے لگا لیکن وہ صرف اُجالا تھا، دن اور رات کا عمل، اس کا میری تقدیر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ساڑھے سات بجے ہوں گے جب ٹرین ایک جانے پہچانے نام کے اسٹیشن پر رُکی۔ بڑا شہر تھا، میں نے بے اختیار محمود کو جگا دیا اور اسے اس اسٹیشن کے بارے میں بتایا۔
’’آیئے۔‘‘ اس نے کہا۔ غالباً اسے بھی اس جگہ کی افادیت کا احساس ہو گیا تھا۔ ہم اسٹیشن سے باہر نکل آئے۔
’’محمود۔‘‘ میں نے اسے آواز دی۔
’’پیسوں کا کیا کریں؟‘‘
’’پیسے کافی ہیں بھائی جان۔ کوئی پندرہ ہزار روپے۔‘‘
’’ایں۔‘‘ میں چونک پڑا۔
’’مجبوری تھی بھائی جان۔ یہ بندوبست بھی وہیں سے ہوا۔ میرا مطلب ہے اس بنگلے سے کرنا پڑا۔ آپ یقین کریں ان کے پاس کوئی ساٹھ ہزار روپے کی مالیت کے زیورات بھی تھے مگر میں نے وہ انہیں واپس کر دیے۔ پیسے مجبوری تھے ورنہ ٹرین کے ٹکٹ ہی کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا۔‘‘ میں ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہوگیا۔ میرے قدموں میں لرزش تھی مگر محمود مجھ سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ ہم نے ٹیکسی کو اشارہ کیا اور اس میں بیٹھ گئے۔ محمود نے ڈرائیور کو کسی عمدہ سے ہوٹل میں چلنے کے لیے کہا تھا۔ہوٹل درمیانہ سا تھا مگر ہمارے لیے بے حد مناسب۔ کمرہ بھی کشادہ تھا۔ ڈبل بستر لگا ہوا تھا۔ ملحقہ غسلخانہ تھا، پہلے میں نے غسل کیا اور یوں لگا جیسے نئی زندگی حاصل ہوئی، اس کے بعد محمود غسل خانے میں داخل ہوگیا، اس دوران میں نے ویٹر سے ناشتہ لانے کے لیے کہہ دیا تھا۔ دل و دماغ بند بند سے تھے۔ ہر لمحہ یہ احساس ہو رہا تھا کہ ہمیں صرف چند لمحات کی مہلت ملی ہے۔ اس کے بعد پھر وہی تنگ و تاریک کوٹھریاں، عدالت اور آخری فیصلہ جسے ہماری موت پر ختم ہونا تھا۔ یہ عارضی لمحات ہمیں صرف دُنیا کو دیکھنے کے لیے حاصل ہوئے ہیں۔ محمود کو جیسے کوئی احساس ہی نہیں تھا۔ ناشتہ دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہوگیا۔
’’میری پسند کا آملیٹ، ہری مرچوں والا۔‘‘ اس نے آملیٹ پر جھپٹتے ہوئے کہا۔ میں خود بھی اس کے ساتھ شریک ہوگیا تھا۔ ہم نے خوب ڈٹ کر ناشتہ کیا۔ محمود کی نیت کا تو مجھے اندازہ نہیں، لیکن میرے دل میں ایک عجیب سی حسرت پیدا ہو رہی تھی، یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی کچھ دیر کے بعد آ کر کہے گا۔
’’بس اُٹھو۔ وقت ختم…‘‘
’’اب آپ آرام سے سو جائیے۔‘‘ محمود نے کہا۔
’’نہیں محمود۔ مجھے نیند نہیں آ رہی۔‘‘
’’بیمار ہو جائیں گے رات بھر کے جاگے اور تھکے ہوئے ہیں۔‘‘
’’تمہیں نیند آ رہی ہے؟‘‘
’’آ تو نہیں رہی، بستر پر لیٹوں گا تو آ جائے گی!‘‘
’’ابھی بیٹھو محمود۔ میں تم سے باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ پتا نہیں جاگنے کے بعد کیا ہو۔ پتا نہیں۔‘‘ محمود کے چہرے پر ایک دم غم آلود کیفیت طاری ہوگئی وہ مجھے دیکھنے لگا۔ پھر بولا۔
’’آپ خوفزدہ ہیں بھائی جان۔‘‘
’’ہاں محمود۔‘‘
’’مگر میرے خیال میں ہمیں ابھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ جادوگر نہیں ہیں کہ جادو کے زور سے پتا لگا لیں گے۔‘‘
’’میرے لیے کچھ دیر جاگ محمود۔‘‘
’’زندگی بھر جاگنے کے لیے تیار ہوں بھائی جان۔ میں تو بس آپ کے دل سے خوف دُور کرنا چاہتا ہوں۔ آپ دیکھ لیجئے مجھے بالکل خوف نہیں ہے، حالانکہ میں بھی قتل کا مجرم ہوں۔ میرے لیے سزائے موت کی پیش گوئی کر دی گئی ہے۔‘‘
’’خدا نہ کرے۔‘‘ میں نے تڑپ کر کہا۔ محمود نے ایک ایک پیالی چائے اور بنائی اور پھر بولا۔ ’’آیئے باتیں کریں۔‘‘
’’مجھے تمام صورت حال بتائو۔‘‘
’’ٹھیک ہے اس وقت سے شروع کرتا ہوں جب آپ گرفتار ہوگئے تھے۔ سب پریشان تھے، میں نے پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ ہماری صرف ایک آرزو تھی آپ کی زندگی بچ جائے۔ ابو کا فیصلہ تھا کہ اپنے تن کے کپڑے تک فروخت کر دیں گے آپ کی زندگی بچانے کے لیے۔ پاس پڑوس کے لوگ ہم سے نفرت کرنے لگے تھے۔ وہ ہم پر آپ کا نام لے کر آواز کستے تھے۔ لیکن فیصلہ کرلیا گیا کہ کان بند کر لیے جائیں۔ ہم پر برا وقت ہے اس کے ٹلنے کا انتظار کیا جائے۔ چنانچہ ہم خاموش رہے۔ پھر وہ منحوس وقت آ گیا جب… محمود خاموش ہوگیا۔ ہم مرجھا گئے تھے، ہم زندگی سے دُور چلے گئے تھے۔ میں ان لمحات کے بارے میں اس سے زیادہ آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا۔ آپ کی جدائی کا وقت آ گیا، ہم آپ کی لاش لینے پہنچے مگر ہم سے کہا گیا کہ لاش ابھی نہیں دی جا سکتی۔ خاصی بھاگ دوڑ کی ہم نے مگر وہاں کچھ عجیب انداز تھا۔ ماموں ریاض نے تو اسی وقت کہا تھا کہ کچھ ہوگیا ہے، کوئی ایسی ان ہونی ہوئی جس کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ امی تو سجدے میں چلی گئی تھیں، رات کو تین بجے تصدیق ہوگئی۔ پولیس نے چاروں طرف سے ہمارے گھر کا محاصرہ کرلیا، تب بڑے بڑے پولیس افسر اندر داخل ہوئے، چپے چپے کی تلاشی لی گئی، بہت منت سماجت کرنے پر ایک بڑے افسر نے بتایا کہ آپ کو پھانسی نہیں دی جا سکی، عین وقت پر آپ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ہم لوگ ایک بار پھر زندہ ہوگئے تھے مگر اب نئی مصیبت کا آغاز ہوگیا تھا، پولیس ہمارے ملنے جلنے کی بھی نگرانی کرتی تھی۔ کوئی کہیں جاتا، اس کا پیچھا کیا جاتا۔ تقریباً ایک درجن چھاپے پڑے ہمارے گھر۔ آپ کو شکور خان یاد ہوگا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ دکاندار لطیف کا بیٹا۔‘‘
’’ہاں مجھے یاد ہے۔‘‘
’’غنڈہ سمجھتا تھا اپنے آپ کو۔ اکثر آواز کستا رہتا تھا، اس دن ماموں ریاض بازار گئے تھے۔ اس نے ماموں ریاض پر آواز کسی تو وہ رُک گئے۔ انہوں نے نرمی ہی سے کہا تھا کہ بھائی کسی پر برا وقت آئے تو اس کا مذاق نہیں اُڑانا چاہیے۔ لطیف خان بھی بول پڑا۔ نہ جانے کیا کیا کہا ماموں سے۔ وہ گھر واپس آئے، ہاکی لے کر گئے اور لطیف خان کا سر کھول دیا۔ میں ماموں کے پیچھے دوڑا تھا۔ لطیف خان تو زخمی ہوگیا مگر شکور نے ماموں پر حملہ کر دیا۔ پاس ہی سبزی فروش کھڑا تھا، میں نے اس کے ٹھیلے سے چھری اُٹھائی اور شکور کے سینے میں اُتار دی، بھگدڑ مچ گئی۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ صورت حال بگڑ گئی ہے میں نے ماموں کے کان میں کہا۔
’’ماموں میں ڈاک بنگلے میں ملوں گا۔ موقع ملے تو مجھے صورتحال بتائیے۔‘‘ اور اس کے بعد میں وہاں سے نکل لیا۔ پانچ دن میں ڈاک بنگلے میں چھپا رہا۔ چھٹی رات کو ماموں آ گئے۔ بڑی احتیاط سے آئے تھے اور کچھ خاص انتظامات کر کے آئے تھے۔ شکور مرگیا تھا، ماموں گرفتار ہوگئے تھے مگر ان کی ضمانت ہوگئی تھی۔ پولیس میری تلاش میں تھی۔ ماموں نے کہا ہم گھر چھوڑ رہے ہیں، پہلے ناظم پور جائیں گے اس کے بعد کہیں اور جانے کا فیصلہ کریں گے۔ ایک مہینے کے بعد میں ناظم پور میں شفیق خالو کے ہاں ان سے مل لوں اور اس وقت بس سے نکل جائوں، وہ میرے پیسوں وغیرہ کا انتظام کر کے آئے تھے۔ چند جوڑے کپڑے بھی لائے تھے، چنانچہ میں نے ان کی ہدایت پر عمل کیا اور بس میں بیٹھ کر وہاں سے چل پڑا۔ بس فریدپور جا رہی تھی مگر میں جیسے ہی فریدپور اُترا پولیس میرے پیچھے لگ گئی۔ شاید فریدپور اطلاع دے دی گئی تھی اور میری تصویریں بھی بھیج دی گئی تھیں۔ پولیس کو چکمہ دے کر میں وہاں سے بھاگا اور ریلوے اسٹیشن پہنچ کر ریل میں بیٹھ گیا۔ ریل میں مجھے چاند خان مل گئے۔‘‘
’’کون چاند خان!‘‘
’’کوئی شناسا نہیں تھے وہیں شناسائی ہوئی۔ بہت اچھے انسان تھے پورا گروہ تھا ان کا۔‘‘
’’گروہ!‘‘
’’ہاں جیب تراشوں کا گروہ۔‘‘
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...