حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ایک انتہائی معزز، صوفی اور عالمانہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد عبدالاحد خود پیر طریقت تھے جو روحانی وعلمی فیوض کی تحصیل کے لیے قطبِ عالم حضرت شیخ عبدالقدوس کے زیر تربیت رہے۔ انھوں نے حضرت عبدالاحد کو بتایا کہ آپ کی پیشانی میں ایک ولی کامل کا نور جلوہ گر ہے۔ عبدالقدوس وفات پا گئے تو انھوں نے راہِ سلوک کی منازل اُن کے فرزند حضرت رکن الدین کے ذریعے طے کیں اورانھیں خرقۂ خلافت قادریہ چشتیہ عطا ہوا۔ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے انھیں بہت محبت تھی اور یہی نصیحت انھوں نے اپنے فرزندِ ارجمند حضرت مجدد الف ثانی کو اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے بارے میں کی۔ والد ماجد کو حضرت شاہ کمال کیتھلی نے بشارت دی تھی کہ آپ کے ہاں فرزند پیدا ہوگا جو افضل اولیاء امت ہوگا اور ا س کےنورِ ہدایت سے شرک و بدعت کی تاریکی دور ہو گی اور دین اسلام کی روشنی کو فروغ حاصل ہوگا۔
حضرت امام ربانی شیخ احمد سرہندی کی ولادتِ با سعادت ۹۷۱ھ کو ہوئی۔ پیدائڈ کے وقت ہی آپ کی ولایت کے آثار ہویدا تھے۔ آپ عام بچوں کی طرح کبھی نہیں روئے بلکہ مسکراتے رہتے تھے، نہ ناپاک ہوتے۔ حضرت شاہ کمال کیتھلی کی دعا سے سلسلۂ قادر کے تمام اوصاف و انعامات ان کی ذاتِ والا صفات تک پہنچ گئے۔ آپ نے قلیل مدت میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ تحصیل علم کے لیے آپ نے پہلے والدِ بزرگوار اورپھر سیالکوٹ میں ملاّ کمال کشمیری جو دینی علوم میں ایک متبحر عالم تھے، سے مستفید و مستیز ہوئے۔ حضرت مجدد کے ہمدرسوں میں ملاّعبدالحکیم سیالکوٹی جو بعد میں سیالکوٹ دانش گاہ کے مہتممِ اعلیٰ مقرر ہوئے ایک یگانۂ روزگار عالم تھے اور حضرت مجدد کے ہاتھوں پر بیعت تھے، انھوں ہی نے حضرت مجدد کی ذاتِ والاصفات کے مطابق ‘‘مجدد الف ثانی’’ کا خطاب دیا، جو اصل نام پر سبقت لے گیا۔ دوسرے ہمدرس نواب سعد اللہ خان وزیر اعظم شاہجہان تھے۔ اولیں تعلیم کے بعد جب حضرت مجدد الف ثانی، حضرت خواجہ باقی اللہ کے ہاں زیرِ تربیت رہے اورخلعتِ خلافت سے سرفراز ہوئے تو سرہند میں مقیم ہو کر تربیتِ طالبین و ہدایت سالکین میں مصروف ہو گئے ۔
حضرت مجدد الف ثانی کے کمال کے اعتراف کے طورپر حضرت باقی اللہ اپنے دوسرے مریدوں کے ساتھ آپ کے حلقۂ ارادت میں بیٹھے تو نہایت تعیم و ادب ملحوظِ خاطر رکھتے، آپ کی طرف پشت نہ کرتے۔
حضرت غوثِ اعظم نے اپنا خرقہ اپنے جانشین سیّد تاج الدین کو اس وصیت کے ساتھ تفویض کیا کہ جب حضرت مجدد الف ثانی کا ظہورہواتوانھیں پہنچا دیا جائے۔ چنانچہ یہ خرقہ امانت کے طورپر اگلی نسل تک پہنچتا رہا اور بالآخر حضرت مجدد کے ظہور پر آپ کے ہم عصر شاہ سکندر خرقہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساتھ ہی خاندانِ عالیہ قادریہ کی خلافت بھی آپ کو پہنچائی۔
۱۰۲۳ہجری شب برات کو آپ نے اپنے خلفاء اورمریدین سے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک ۶۳ برس تھی ، میری بھی اس سال ۶۳ برس ہو جائے گی اورمیں خالقِ حقیقی سے جا ملوں گا۔ آپ نے حاضرین کو کتاب اللہ اور سنتِ رسول ﷺکی مکمل اتباع کرتے رہنے کی تلقین کی اور اس کے بعد یہ آفتابِ ہدایت ۱۰۲۳ہجری کو غروب ہو گیا۔
جب آپ نے سرہند میں عملی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت شہنشاہ اکبر کی نام نہاد اسلامی حکومت کے باوجود ہند اکثریت نہ صرف تجارت، سیاست، معیشت اور انتظامی شعبوں پر مسلط تھی بلکہ انھوں نے اپنے مذہبی عقائد کو بھی برتری دے رکھی تھی اور اسلام کی روح اوہام، بے عملی اورمذہب سے بے اعتنائی کے پردوں تلے چھپ چکی تھی۔ خود شہنشاہ اکبر آفتاب کی پرستش کرتا تھا، ہندوانہ لباس پہنتا، ماتھے پر قشقہ لگاتا اور زنّار پہنتاتھا۔ صبح جھورکے میں بیٹھ کر رعایا کو درش دیتااور سجدہ کراتا، جو عبادت سمجھی جاتی۔ شادی بھی ہندو رانی سے کی تھی، گائے کے ذبیحہ کی سخت سزا تھی اورشراب اورجوا عام تھے۔ غرضیکہ حکومت ہندوؤں کی کھلی سرپرستی کرتی تھی اوراکبرکے دینِ الٰہی کے ملحدانہ مرکبات سے اسلام کو مذہبی اور سیاسی طورپر زوال کی طرف دھکیلا جا رہا تھا۔ توحید و رسالت سے بیگانگی ظاہر ہوتی تھی اور قرآن حکیم، سنت و حدیث کو بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا۔ علماء سو کی بڑی تعداد حکومت کی ہمنوائی اور خوشنودی کے لیے مسلمانوں کو مذہب سے دور لے جا رہی تھی۔ ہندو اکثریت آئے دن مسلمانوں پر ظلم ڈھاتی، مساجدوں کو مندروں میں تبدیل کرتی اور مسلمانوں عورتوں کو اٹھا لیا جاتا۔
ایسے تاریکہ اورحوصلہ شکن حالات میں حضرت مجدد نے کتاب و سنت کی برتری قائم کرنے اور احیائے اسلام کے لیے زبردست جدوجہد کا آغاز کیا۔ اپنے خلفا ء و مریدین ِ باصفا سے رابطے کیے جو سلطنت کے ہر حصے میں موجود تھے۔ حضرت مجدد اپنے کفرشکن، ایمان افروز مکتوبات جو معارف و حقائق اور رموز و اسرارِ الٰہی کا ایسا بے نظیر گنج گرانمایہ ہیں اوران م یں دین متین کے بارے میں ایسے جواہر پارے اورموتی بکھرے ہوئے ہیں، جس کی مثال نہیں ملتی اور ان معارف و حقائق نے جس طرح باطل قوتوں کو شکست دی توزمانے کے بڑے بڑے علماء راسخین و مشائخِ کرام نے تصدیق کی کہ آپ نے ‘‘مجدد الف ثانی’’ کے منصب کا پورا حق ادا کر دیا۔ ان حقائق سے یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ امام ربانی کے وقت دوقوموں کے مذہبی، سیاسی اورمعاشرتی اختلافات ہو چکے تھے جو بعد میں ‘‘دوقومی نظریہ’’ کے تحت تحریک پاکستان کا سبب بنے۔
حضرت مجدد الف ثانی کے کچھ ایمان افروز ارشادات نقل کیے جاتے ہیں :
• آنحضرت ﷺ کی محبت مجھ پر اس طرح غالب ہے کہ میں حق تعالیٰ کو صرف اس واسطے پیار کرتاہوں کہ وہ محمدﷺ کا رب ہے۔
• محت ذاتی فنا کی علامت ہے اور فنا سے مراد ماسوائے اللہ کا فراموش ہو جانا ہے۔
• انسان خدا تعالیٰ کا بندہ اس وقت ہوتا ہے جب ما سوائے اللہ کی گرفتاری اور بندگی سے پورے طور پر خلاصی پا لے۔
• علماء کے لیے دنیا کی محبت اور رغبت ان کے پُر جمال چہرے کا بدنما داغ ہے۔
• شریعت، دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کی ضامن ہے۔ طریقت در حقیقت شریعت کی خادم ہے۔
• موت ایک پُل ہے جو ایک دوست کو دوسرے سے ملاتا ہے۔
• شریعت اورحقیقت ایک دوسرے کا عین ہیں۔
• شیطان خدا کے کرم پر مغرور کرکے سستی میں ڈالتا اور اس کی عفو کا بہانہ بنا کر گناہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
• گناہِ صغیرہ پر اصرار کرنا کبیرہ تک پہنچا دیتا ہے اورکبرہ پر اصرار کرنا کفر تک لے جاتا ہے۔
• اللہ کے حکم کی تعمیل کرنا اورخلق خدا پر شفقت کرنا آخرت کی نجات کے دو بڑے رکن ہیں۔
• انسان جب تک مرضِ قلبی میں مبتلا رہتا ہے کوئی عبادت واطاعت اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
• جس نے اپنی آنکھ پر قابو نہ پایا دل بھی اس کے قابو میں نہیں۔
• یہ کس قدر بڑی نعمت ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندے کو جوانی میں توبہ کی توفیق عطا کرے اور اس پر استقامت بخشے۔
• منازلِ سلوک طے کرنا کا مقصود ایمانِ حقیقی کا حاصل ہونا جو نفسِ مطمئنہ ہونے سے وابستہ ہے۔
• علامءی سوء دین کے چور ہیں، ان کا مقصود ہمہ تن یہ ہے کہ خلقِ خدا کے نزدیک مرتبہ و ریاست و بزرگی حاصل ہو جائے۔
• عاقبت کی بہتری ذکرِ کثیر سے وابستہ ہے۔
• واسطے اور وسیلے جس قدر زیادہ ہوں گے اسی قدر راستہ زیادہ نزدیک اور روشن ہوگا۔
• اولیائے کامل اور انبیائے مرسل کی ہدایت حقیقت ہے اور دونوں کی نہایت شریعت ہے۔
• نوافل کا ادا کرنا ظلّی قرب بخشتا ہے اور فرائض کا ادا کرنا قربِ اصلی۔
• نمازی جو نماز کی حقیقت سے آگاہ ہے نماز ادا کرتے وقت عالم دنیا سے نکل کر عالمِ آخرت میں داخل ہو جاتا ہے۔
• اللہ تعالیٰ کسی چیز میں حلول نہیں کرتا نہ ہی کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے۔ حق تعالیٰ کسی چیز سے متحد نہیں۔
• ‘‘اناالحق’’ کے معنی یہ نہیں کہ میں حق ہوں بلکہ یہ کہ مَیں نہیں ہوں حق موجود ہے۔
• نبوت کی حقیقت عقل کی حقیقت سے بالا تر ہے۔
• کوئی ولی کسی نبہ کے درجہ تک نہیں پہنچتا بلکہ ولی کا سر ہمیشہ نبی کے قدموں کے نیچے ہوتا ہے۔
• جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے تو اس سے گناہ سرزد نہیں ہوتا ۔ اولیاء اللہ گناہوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
• عمل کی سستی ا ورغفلت پر مغفرت کی امید ہے لیکن اعتقادی سستی میں مغفرت کی گنجائش نہیں۔
• تسبیح و تہلیل کا ثواب ماں باپ بھائیوں استادوں کو بخشنا بہتر ہے، اس میں اپنا بھی نفع ہے۔ عجب نہیں کہ دوسرے کے طفیل قبول کر لیں۔
• خلافت کی دولت انسان کے علاوہ کسی کو میسر نہیں۔
• ولایت کا اظہار واجب نہیں بلکہ اس کا چھپانا اورپوشیدہ رکھنا بہتر ہے۔
• دنیا میں جس قدر محنت ہے، آخرت میں اس سے کئی گنامسرت ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی کا ہندوستان کے بزرگانِ دین اورمفکرین اسلام میں نہایت بلند مقام ہے۔ آپ نے اکبر اورجہانگیر کے عہد میں تجدیدِ دین کا فریضہ سرانجام دیا اوران جلیل القدر شہنشاہوں کے رعب و جلال کی کوئی پر واہ نہ کی۔ اسی وجہ سے آپ کو ‘‘مجدد’’ کا لقب دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہر صدی میں یاک مجدد ہوتا ہے جو دین کی آلودگیوں سے پاک کرتا اور صحیح دین کی روشنی پھیلتا ہے۔ مگرایک مجدد ایک ہزار سال کے بعد آتا ہے جس کا مرتبہ صدی والے مجدد سے بہت بلند ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کو ‘‘مجدد الف ثانی’’ کہا جاتا ہے کہ آپ ہجری سن کے دوسرے ہزار سال کے مجدد تھے۔
حضرت مجدد الف ثانی نے جب تبلیغ دین کا کام شروع کیا تو اکبر کے ملحدانہ دین الٰہی کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ نے دینِ الٰہی کے خلاف نہایت مؤثر پرچار شروع کیا۔ جب جہانگیر بادشاہ بنا تو اپ کو دربار میں بلایا۔ حضرت نے درباری قواعد کے مطابق سجدہ تعظیمی نہ کیا۔ جس پر جہانگیر نے برافروختہ ہو کر آپ کو سزا کے طورپر قلعہ گوالیار میں قید کردیا۔ جہانگیر کے بہت سے امراء، وزراء اورجرنیل حضرت کی بیعت میں آ چکے تھے، آپ کے قید کیے جانے پر انھوں نے بغاوت کر دی۔ جن میں ایک جرنیل مہابت خان بھی تھا۔ جہانگیر، مہابت خان کی بغاوت کو دبانے کے لیے روانہ ہوا مگر اس نے جہانگیر، آصف خان اورنور جہاں کو قیدی بنا لیا۔ اس پر حضرت مجدد نے اپنے مرید جرنیلوں اور امراء کو لکھا کہ :
مجھے سلطنت کی ہوس نہیں، نہ میں تمھارے فتنہ و فساد کو پسند کرتاہوں۔ میں نے قید و بند کی تکلیف اٹھائی تو وہ اورکام کے لیے ہے، وہ پورا ہو جائے گا تو میں خود بخود تمھاری کوشش کے بغیر ہی قید سے رہا ہو جاؤں گا ۔ یہ فساد میرے کام کے لیے رکاوٹ ہے۔ بہتر ہے کہ تم بغاوت سے باز آ جاؤ اور فوراًاپنے بادشاہ کی اطاعت قبول کر لو، میں بھی ان شاء اللہ قید سے جلد آزاد ہو جاؤں گا۔
مہابت خان نے یہ ہدایت ملنے پر بادشاہ کو رہا کر دیا اور آدابِ شاہی بجا لایا۔ اس کے بعد جہانگیر آپ کا معتقد ہوگیا اور اپ کی خواہش کے مطابق امورِ شرعیہ رائج کرنے کے لیے اقدام کیے ۔جہانگیر کے بعد شاہجہان بھی آپ کا بے حد احترام کرتا تھاآپ کی بیعت کی۔
علامہ اقبال کو حضرت مجدد کی یہ دلیری پسند آئی کہ کس طرح جبروطاقت کے آگے حضرت مجدد الف ثانی نے خودی کی حفاظت کا سبق دیا۔ انھوں نے اپنی نظم ‘‘پنجاب کے پیرزادوں سے’’ میں آپ کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار
علامہ اقبال نے شیخ الاکبر ابن عربی کے ‘‘فلسفہ وحدت الوجود’’ کی مخالفت کی تھی۔ جس کی بنیاد یہ تھی کہ فلسفہ مسلمانوں میں بے عملی کو جنم دیتا ہے۔ حضرت مجدد بھی ابن عربی کے ‘‘فلسفہ وحدت الوجود’’ کو دینی تعلیمات کے خلاف تصور کرتے تھے۔ اقبال کے زمانہ کے سیاسی و سماجی حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ وہ عمل اورجدوجہد کی تلقین کریں۔ انھوں نے وجودی فلسفے کو اس کے خلاف سمجھا تو اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔
امام ربانی کے زمانے میں وجودی فلسفے کے پیروکار زیادہ تر اس کے ملحدانہ پہلو کو ابھار رہے تھے۔ اکبر نے دینِ الٰہی کا تصور پیش کیا تھا۔ وہ دربار میں حاضر ہونے والوں سے سجدہ کراتا تھا۔ وجودی فلسفہ کے تحت یہ عمل اس طرح جائز تھا کہ جب ہر شے میں خدا ہے تو سجدہ غیرِ خدا کے سامنے بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ امام ربانی کو اس قسم کے حالات ومشکلات سے دو چار ہونا پڑا۔ لوگ وجودی فلسفہ اور صوفیاء خام کی دینی اعمال میں غفلت کے تحت شریعت کی پابندیوں سے خود کو آزاد کرنے کے مرتکب ہو رہے تھے۔ شریعت کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئی تھی اور دین کا مقصود شریعت کے علاوہ کچھ اور خیال کرتے تھےؤ چنانچہ انھوں نے ابن عربی کے فلسفہ کو اس بے راہ روی کا ذمہ دار قرار دیا۔ انھوں نے اس ضمن اپنا نظریہ پیش کیا جسے ‘‘وحدت الشہود’’ کہا جاتا ہے۔ وہ ‘‘وحدت الوجود’’ سے ‘‘وحدت الشہود’’ تک کے سفر میں عرصۂ دراز کے غور و فکر ذہنی و قلبی کشمکش میں مبتلا رہے اور بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کشف کے ذریعے حقیقت منکشف ہو گئی ۔ اگرچہ انھوں نے وجودی مسلک کو بالکل غلط قرار نہیں دیا، اسے صرف راستے کی ایک عارضی منزل سمجھا اورکہا کہ وحدت الوجود کی انتہا ‘‘سکر’’ یعنی جذب و فنا پر ہوتی ہے جب کہ وحدت الشہود کی انتہا ‘‘صحو’’ یعنی ہوش مندی اور عمل پر ہوتی ہے۔ صحو یقینا سکر سے بہتر ہے کیونکہ وہ شریعت اور عمل کی طرف مائل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے ابن عربی کے برخلافت نبوت کو ولایت پر ترجیح دی کیونکہ نبی صاحبِ شریعت ہوتا ہے جب کہ ولی اس سے محروم ہوتا ہے۔
حضرت امام ربانی نے حسین بن منصور حلاج کے قول ‘‘انا الحق’’ کا مفہوم سُکر کے لحاظ سے کیا ہے کہ غلبۂ حال میں ما سوا حق تعالیٰ کے ہر شے ان کی نظر سے پوشیدہ تھی۔ انھوں نے حق سبحانہ کے سوا کسی شے کو ثابت اورموجود نہ جانا تو ‘‘اناالحق’’ کے الفاظ ان سے صادر ہو گئے۔ حالانکہ اس وقت ان کی اپنی ذات موجود تھی ۔
مگر اقبال نے اس کی تشریح صحو کے لحاظ سے کی ہے اور کا یہ مطلب لیا ہے کہ منصور حلاّج کہہ رہا تھا کہ میرا وجود حق ہے یعنی یہ ایک حقیقت ہے کہ اسے فنا نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال اپنے ایک خطبہ میں کہتے ہیں :
آنحضرت ﷺکے اس ارشاد کے مطابق کہ جب انسان نے اپنے اندر اخلاقِ الٰہیہ پیدا کرکے مذہبی مشاہدات اور واردات کی طرف قدم بڑھایا تو اس تقرب و ایصال کی ترجمانی ‘‘انا الحق’’ یا ‘‘انا الدھر’’ جیسے اقوال میں ہوئی۔ لہٰذا اسلامی تصوف کے اعلیٰ مراتب میں اتحاد و قرب الٰہی سے یہ مقصود نہیں تھا کہ انسان کی متناہی خودی خدا تعالیٰ کی لامتناہی خودی میں جذب ہو کر اپنی ہستی کو فنا کر دے بلکہ یہ کہ لا متناہی خودی کے آغوش محبت میں آ جائے۔
مگر حضرت مجدد اس سے متفق نہیں ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذاتِ واحد، بے مثال و یکتا ہے اور انسان کے اندر سمانے یا حلول کرنے کے امکانات سے باہر ہے۔ نہ ہی انسان اس کی صفات کو حاصل کر سکتا ہے۔ انسان جب انتہائی کمال حاصل کر لے تو بھی اس مقام پر اپنے مولیٰ کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں پاتااوراس کا محتاج رہتا ہے۔ مگرحضرت اقبال کہتے ہیں کہ انسان راہِ سلوک میں ترقی کے انتہائی مراحل طے کرلیتا ہے تو اپنے اندر خدائی صفات پیدا کر لیتا ہے یعنی :
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفرین کار کُشا کار ساز
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی
البتہ مقام ِ بندگی کے حصول میں علامہ محمد اقبال اورحضرت مجدد کے نظریات میں اتفاق ہے اور دونوں بندہ ہونے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ حضرت مجدد فرماتے ہیں کہ پیدائشِ انسانی سے مقصود بندہ ہونے کا حق ادا کرنا ہے۔ اگر بندے کو راہِ حیات میں عشق و محبت عطا کر دیا گیا ہے تو اس کا مقصود یہ ہے کہ بندہ حق تعالیٰ کے ما سوا سے ہر طرح کا تعلق قطع کر لے تاکہ مقام ِ عبدیت حاصل کر سکے۔ مراتبِ ولایت کی انتہا مقامِ عبدیت ہے۔ ولایت کے درجات میں مقام ِ عبدیت سے اوپر کوئی مقام نہیں۔
علامہ محمد اقبال نے بھی عشق و محبت کو انسانی خودی کےبلند کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے جو مقامِ عبدیت پر پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے ۔ کیونکہ مقامِ عبدیت نہایت بلند مقام ہے۔ اس ضمن میں وہ فرماتے ہیں :
متاعِ بے بہا ہے درد وسوز آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی
حضرت مجدد کے مطابق رسول اکرمﷺنے مقامِ عبدیت کو پالیا تھا اوروہ عام انسانوں کی طرح نہ تھے بلکہ وہ عبدیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائزہونے کے علاوہ اس سے بھی آگے نبوت کی روشنی سے منور تھے۔ علامہ محمد اقبال نے منصور حلاج کی ز بانی ‘‘عبد’’ اور ‘‘عبدہٗ’’کی تشریح میں بے مثال نظم لکھی ہے۔ جس میں سے دو اشعار ملاحظہ ہوں:
عبدہٗ دہر است و دہر از عبدہٗ
ماہمہ رنگیم اُو بے رنگ و بُواست
کس سرّ عبدہٗ آگاہ نیست
عبدہٗ جز سرِّ اِلاّ اللہ نیست
اس نظم میں ‘‘عبد’’ عام انسان اور ‘‘عبدہٗ’’ سے رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس مراد ہے۔ نظم میں انتہائی عقیدت و محبت میں حضورﷺکی شان میں ماورائیت کا تاثر ملتا ہے، جس کا جھکاؤ ابن عربی کی جانب محسوس ہوتا ہے۔ یہاں حضرت مجدد اور ابن عربی کے نظریات میں فرق معلوم کرنے کے لیے ‘‘وحدت الوجد’’ اور ‘‘وحدت الشہود’’ کی اصطلاحوں کا مطلب واضح طورپر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مجدد کے نزدیک توحید دو طرح کی ہے:
(۱)توحید شہود (۲) توحید وجودی
توحیدِ شہودی ایک ذات کو دیکھنا ہے یعنی سالک کا مشہود یا مرکزِ نظر صرف ایک ہی ذات ہو۔ توحیدِ وجودی اس ذات کو موجود جاننا ہے اور اس کے غیر کو معدوم خیال کرنے کے باوجود مظاہرِ کائنات کو ایک جاننا ہے۔
پس توحیدِ وجودی بمنزلہ ‘‘علم الیقین’’ ہے اور توحید شہودی ‘‘عین القین’’ ہے۔ اس مسئلہ کو انھوں نے اس طرح مثال سے واضح کیا ہے ۔ کہ ایک شخص کو وجودِ آفتاب کا یقین ہو اور اس یقین کے ساتھ وہ ستاروں کو معدوم نہ جانے کیونکہ آفتاب کے آگے اگرچہ ستارے نظر نہیں آئیں گے لیکن اُسے یہ یقین ہے کہ ستارے موجود ہیں مگرنورِ آفتاب کے آگے مغلوب ہیں۔ چنانچہ یہ شخص اس جماعت یا فرد کو درست نہیں جانتا جو ستاروں کی نفی کر رہی ہے۔ یعنی وحیدِ وجودی جو ایک ذاتِ تعالیٰ کے ماسوا نفی پر مبنی ہے ، عقل و شرع کے خلاف ہے۔ توحید شہودی کے مطابق ستاروں کو نہ دیکھ سکنا خلاف عقل نہیں کیونکہ یہ غلبۂ آفتاب کے حوالے سے ضعیف بصارت کی بناء پر ہے۔ لیکن اگر دیکھنے والے کی آنکھ تجلیاتِ الٰہی و نورِ ایمانی سے روشن ہو تو وہ عین آفتاب کے آگے بھی ستاروں کو دیکھے گی اور یہ ‘‘حق الیقین’’ کا مرتبہ ہے۔
علامہ محمد اقبال ، حضرت مجدد کے اس نظرئیے سے اتفاق کرتے ہیں کہ انسان کی آخری منزل یہ ہے کہ وہ آفتاب کے سامنے اپنے وجود کو قائم رکھ سکے اور اپنے اندر آفتاب کے نور کو اس طرح پیدا کر لے کہ اسے بظاہر معدوم ستاروں کا وجود نظر آنے لگے۔ علامہ اقبال چاہتے ہیں کہ انسان خود کو ختم نہ کرے، نہ کسی کی ذات میں جذب ہو خواہ وہ کتنی ہی برتر ہی کیوں نہ ہو۔ بعض صوفیاء نے کہا ہے کہ خدا سمندر ہے اور انسان قطرہ اور وہ سمندر یعنی خدا میں مل کر اپنی ہستی کو فناکرکے سمندر بن جاتا ہے۔ بقول غالب:
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ‘‘ہے’’ نہیں ہے
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالمِ تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
مگر یہ بات علامہ اقبال کو منطور نہیں وہ اپنے چھٹے خطبے میں حضرت مجدد کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ انھوں نے ‘‘اناالحق’’ کی بجائے ‘‘اناالموجود’’ کہا تھا۔ گویا انھوں نے عبدیت کی حقیقت کو سمجھا اور اعلیٰ عبدیت ہی پر اپنے فلسفۂ خودی کی بنیاد رکھی۔ عبدیت کے بارے میں وہ فرماتے ہیں :
اِک تو ہے حق اس جہاں میں
باقی ہے نمودِ سیمیائی
علامہ محمد اقبال نے واقعۂ معراج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح حضورﷺ اللہ کے سامنے اپنے وجود اور خودی کو برقرار رکھ سکے ایسے ہی ہمیں رکھنا چاہیے۔ خودی کا نصب العین صرف یہ نہیں کہ وہ کچھ دیکھ سکے بلکہ یہ کہ کچھ بن کر دکھائے اور اسی مقصد کے لیے کوشش اسے موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں ‘‘اناالموجود’’ کہہ سکے اوراپنی اصلیت اور اساس کو پالے۔
حضر ت مجدد نے اپنے بیان میں توحید وجودی کو ‘‘سکر’’ اور توحیدِ شہودی کو ‘‘صحو’’ کہا ہے۔ [مکتوبات امام ربانی، دفتر اول، حصہ دوم، ترجمہ محمد سید احمد،ص ۲۶۹، ناشرمدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی]دراصل ابن عربی نے جس مقام کو ولایت کہا ہے، حضرت مجدد نے اسے صرف عارضی منزل قرار دیا ہے۔ ابن عربی کے نزدیک ولایت، نبوت سے افضل ہے۔ کیونکہ ولایت کا رخ خدا کی طرف ہے اور نبوت کا مخلوق کی طرف وہ نبی کو بھی اس لیے سب سے اعلیٰ سمجھتے ہیں کہ وہ ولایت میں اعلیٰ ترین مقام رکھتا ہے۔ مگر حضرت مجدد الف ثانی نبوت کی ولایت سے اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ولایت سکر یعنی حالتِ جذب و محویت ہے اور وہ صرف اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے۔ حضرت مجدد کے مطابق نبوت کا رخ فیضانِ ہدایت کے لیے صرف مخلوق کی طرف نہیں بلکہ مخلوق کی طرف توجہ کے باوجود حق تعالیٰ کی طرف توجہ موجود رہتی ہے، اس کا باطن خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے اور ظاہر مخلوق کے ساتھ۔ یہ حقیقت ہے کہ انبیاء علیہم السلام تمام موجودات سے افضل ہیں خواہ وہ نبی کی ولا یت ہو یا ولی ولایت۔ تو ثابت ہوا کہ صحو، سکر سے افضل ہے۔ علومِ شرعیہ کا منبع مرتبۂ نبوت ہے جو سراسر صحو یا عمل ہے۔ پس تقلید کے لائق اہل صحو ہیں، اہل سکر نہیں۔
صاحبانِ سکر کائنات اور اس میں تمام موجودات کو ‘‘ہمہ اوست’’ مانتے ہیںؤ مگر حضرت مجدد ‘‘ہمہ اوست’’ کے مقابلہ میں ‘‘ہمہ از اوست’’ کی ترکیب استعمال کرکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اشیاء، اللہ سے الگ وجود رکھتی ہیں اور وہ اس کی مخلوق ہیں۔ مگر حضرت اقبال ،‘‘ہمہ اوست’’ یا ‘‘ہمہ از اوست’’ کے مقابلہ میں خدا کو لامتناہی خودی اورانسان کو متناہی خودی، خدا کو قرآن اور انسان کوسیپارہ ، خدا کو سمندر اور انسان کو گوہر کی مثال سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مادی کائنات ادنیٰ خودیوں کی بستی ہے، ہر شے کی اپنی حیثیت و اساس کے مطابق الگ الگ خودی ہے۔ ان کے نزدیک انسان ا ورکائنات کی تخلیق سے ایک ہی چیز سے ہوئی ہے اور وہ ‘‘امر’’ ہے۔
خودی اقبال کے پیغمبرانہ کلام و پیام میں خودی کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ نظام کائنات میں انسان کے لیے عبدہٗ کا مقام ِ تکمیل خودی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ شارحین اقبال نے خودی کو خدا کی لامتناہی خودی اور بندے کی شان خودی کے درمیان براہ راست تقرب کا رشتہ پیدا کر دیا ہے اور خودی کو تخلیق کائنات کا منبع قرار دیا ہے۔ جیسے ڈاکٹر ملک حسن اکتر نے زیرنظر تحریر میں کہا ہے۔ جسے آپ کے نزدیک امر ہونا چاہیے۔ (کن فیکون) راقم کو خدا تعالیٰ کی ذات کو لامتناہی خودی اور بندے دیگر مخلوقات کی متناہی خودی کی مثال کہیں نظر نہیں آتی۔ تاہم خالق و مخلوق کا تاثر ملتا ہے۔ خودی تسخیر کائنات و تقرب خالق کائنات کے درمیان رابطہ کا ذریعہ لگتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے:
خودی سے اس طلسم رگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل
یہی ہے تیرے لیے اب اصلاح کار کی راہ
خودی کے لیے امر یا جولفظ مناسب سمجھیں بدل لیں۔اپنی مشہور نظم ‘‘ساقی نامہ ’’ میں انھوں نے انسان اورکائنات میں موجود اشیاء کی نہایت دلپذیر انداز میں وضاحت کی ہے کہ ہر چیز کی اصل خودی ہے:
خودی کیا ہے؟ رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے؟ بیداریِ کائنات
خودہ جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
اندھیرے اجالے میں ہے تا بناک
من و تو میں پیدا من و تو سے پاک
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
سُبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر
خودی شیرِ مولا جہاں اس کا قید
زمیں اس کی صید آسمان اس کا صَید
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تیری شوخی فکر و کردار کا
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
حضرت مجدد الف ثانی دنیا کو وہم اور شر کی پیداوار سمجھتے ہیں اور اسے زہرِ قاتل اور بے کارساماں کہتے ہیں کہ دنیا بظاہر شیریں اور صورت میں تازہ پرکشش دکھائی دیتی ہے مگر در حقیقت زہرِ قاتل اور بے کار شے ہے ، اس میں گرفتارہونا مضر اور نقصان دہ ہے۔ دنیا کی نظر میں مقبول شے درحقیقت ذلیل و خوار چیز ہے، اس پر فدا ہونے والا سمجھ یا دیوانہ ہے، یہ ملمع کی ہوئی معمولی دھات اورشکر ملے ہوئے زہر کی مانند ہے۔ مگر حضرتِ اقبال ، حضرت مجدد کے خیال سے متفق نہیں، ان کے نزدیک دنیا وہم ہے نہ زہر قاتل اور نہ بے کارساماں۔ وہ اسے کارآمد چیز سمجھ کر اسے قابو میں لانا چاہتے ہیں اور اس کی تسخیر کا درس دیتے ہیں۔ علامہ اقبال جسم اور دنیا دونوں کو شر نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ بدن روح کا حاصل جمع ہے وہ اسے نظر انداز نہیں کرتے بلکہ بدن کو فتح کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔
حضرت مجدد کے زمانے میں ایک اسلامی حکومت موجود تھی لہٰذا ان کا کام صرف یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو دین کی طرف راغب کریں اور دنیاوی لذتوں سے دور رکھیں کہ وہ ان میں کھو کر کمزور نہ پڑ جائیں۔ علامہ اقبال کے زمانے میں حکومت مسلمانوں سے چھن چکی تھی۔ لہٰذا وہ بھی مسلمانوں کی بھلائی چاہتے تھے مگر دنیا میں ترقی کے راستے پر انھیں مصروف بھی رکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عمل اورحرکت پر بڑا زوردیا ہے تاکہ غیر مسلم غلامی سے نجات حاصل کر سکیں۔ اس طرح کے عمل کی حضرت مجدد الف ثانی کے زمانے میں ضرورت نہ تھی ۔ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب ان کے معتقد مریدوں، امراء اور جرنیلوں نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کی تو حضرت مجدد نے انھیں ایساکرنے سے منع کرکے بادشاہ کی اطاعت اختیار کرنے کا حکم دیا۔
حضرت مجدد اور جہانگر کے اس واقعے پر ذہن ائمہ کرام امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام حنبل، امام باقر اور امام جعفر صادق رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف جاتا ہے جو دین اور معاشرتی مسائل کو سب سے بہتر سمجھنے والے تھے، ان کے وقت خلفاءِ عباسیہ کی نہایت جابرانہ شخصی حکومت تھی۔ تاہم مذکورہ ائمہ کرام خلفاء وقت کے خلاف شرع ناجائز افعال و احکام کے خلاف بلا خوف آواز بلند کرتے اوران کی ناراضگی پر قید و بند اور جسمانی اذیتیں بھی برداشت کیں مگر ملک کے امن، ترقی اور اجتماعی مفاد کی خاطر اپنے لاکھوں پیروکاروں کو حکومت کے خلاف کبھی فساد، بغاوت یا شورش پر آمادہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس طرح ہمارے دونوں عظیم رہنما علامہ اقبال اور قائد اعظم بھی تھے جنھوں نے انتھک کوششوں سے آزاد ملک حاصل کیا۔ قائد اعظم نے اپنی طویل جدوجہد کے دوران کانگریس اور انگریز حکمرانوں اورمخالفین کو ہمیشہ مدبرانہ ٹھوس دلائل سے قائل کیا اور احتجاجی ، متشدد ، جذباتی جلد باز مسلم لیڈروں کی فساد اور بدامنی پیدا کرنے والی سیاست کے برعکس کامیاب رہے۔
حضرت مجدد فرماتے ہیں :
مصائب میں اگرچہ بڑی ایذا اور تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے لیکن ان میں بڑے کرامت اور بہتری کی امید ہوتی ہے۔ اس جہان کا بہتر سامان حزن و اندوہ ہے اور اس دستر خوان کی خوشگوار نعمت مصیب و اَلم ہیں۔ ان شکر پاروں پر داروئے تلخ کا رقیق غلاف چڑھا ہوا ہے۔
علامہ اقبال بھی درد واَلم کو پسند کرتے ہیں اور ا سے نعمت قرار دیتے ہیں مگر وہ دردو اَلم تک فکر،آرزو، جستجو اورجدوجہد کے راستے سے ہوتے ہوئے پہنچتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان مشکلات اور سختی جھیل کر اپنی خودی پہچان سکتا ہے اور تسخیرِ کائنات کا جو کام اس نے اپنے ذمہ لیا ہے ، اس کی راہ میں عشق کے کئی امتحان اور مقاما ت آہ و فعاں آتے رہتے ہیں جو اس کے عزم تسخیر اور مستحکم کرتے ہیں۔
حضرت مجدد چونکہ زندگی میں درد و الم کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، اس لیے وہ عشق کے معاملے میں بھی وصال کی بجائے فراق کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس معاملے میں اقبال بھی ان کے ہمنوا ہیں اور زندگی کی تڑپ اور حرکت کو فراق کا ہی مرہون منت سمجھتے ہیں۔ وصال چونکہ حرکت و عمل ختم کر دیتا ہے اورجستجو و تلاش بھی، اس لیے اقبال اس بارے میں فرماتے ہیں:
عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذتِ طلب
گرمیِ آرزو فراق، شورش ہائے و ہُو فراق
موج کی جستجو فراق، قطرے کی آبرو فراق
‘‘قطرے کی آبرو فراق’’ حضرت مجدد نے ‘‘وصال’’ کی نسبت ‘‘فراق’’ کو اچھا کہا ہے۔ اقبال کو اپ کا نظریۂ فراق پسند تھا۔ اقبال اپنے ایک خط بنام خواجہ حسن نظامی میں لکھتے ہیں کہ :‘‘میرے نزدیک جدائی کی طلبِ صادق کی تکلیف اور تڑپ عین اسلام ہے اور وصل و ملاپ کی خواہش کیونکہ ملاٌ وہم اور قرب نظر ، رہبانیت اور ایرانی نظریۂ تصوف کی طرف ہے۔ آپ و یاد ہوگا کہ آپ نے مجھے ‘‘سرّالوصال’’ کا خطاب دیا تھا تو میں نے لکھا تھا کہ مجھے ‘‘سرّ الفراق’’ کہا جائے، اس وقت میرے ذہن میں یہی امتیاز تھا جو حضرت مجدد نے بیان کیا ہے، علامہ اقبال کے دل میں حضرت مجدد کی بڑی قدر و منزلت تھی اور آپ کا نام ہر جگہ ادب و احترام سے لیا ہے۔ اگر بعض مقامات پر ان سے اختلاف بھی کیا ہے۔ اقبال نے اپنے فکر کی بنیاد حضرت مجدد کے افکار پر رکھی۔ بقول مولانا غلام رسول مہر، اقبال نے حضرت مجدد کے ارشادات و مضمرات کے متعلق سب سے پہلے اندرون اور بیرون ملک اپنے لیکچرز م یں ان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔اقبال کو جس تصوف سے دلی لگاؤ تھا وہ حضرت مجدد کی فکر کے مطابق ہے اس کی اصل عجمی نہیں حجازی تھی جسے اقبال ‘‘اخلاص فی العمل’’ بھی کہتے ہیں، حضرت مجدد کے ساتھ عقیدت میں وہ فرماتے ہیں
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
حضرت اقبال اور حضرت مجدد الف ثانی میں ایک مشترک بات یہ بھی ہے کہ دونوں کے والد گرامی وجود ی مسلک پر تھے۔ حضرت مجدد نے فلسفۂ وحدت الوجود کی اوّل اوّل موافقت کے بعد مخلافت کی جو دراصل اس کے ضرر رساں اثر کی وجہ سے تھی جو امتِ مسلمہ کو بے عملی کی طرف مائل کر رہی تھی۔ اقبال اور شیخ مجدد دونوں کو ابن عربی کے بلند علمی مقام سے بخوبی آگاہی تھی اوران کی نیک نیتی کی بھی۔ اس لیے انھوں نے ‘‘وحدت الوجود’’ اور ‘‘وحدت الشہود’’ میں اشتراک کے پہلو تلاش کر لیے اور دونوں کو درست سمجھنے لگے۔ اگرچہ علامہ اقبال نے وجودی فلسفہ کے منفی اور انفعالی اثرات کو ملت کے لیے ہمیشہ مضر سمجھا جو کہ وجودی صوفیاء کی سہل پسندی، جذب و مستی اور تصوف کی غلط تاویلات سے رائج ہو گیا ہے۔ علامہ اقبال کے مطابق اگر ابن عربی کو ‘‘سرّ الوصال’’ اورحضرت مجدد الف ثانی کو ‘‘سرّ الفراق’’ کہا جائے توان کے ‘‘فسلفۂ وحدت الوجود’’ اور ‘‘وحدت الشہود’’ کا امتیاز نمایاں ہو جاتا ہے۔
علامہ اقبال اور حضرت مجدد دونوں طبقہ علماء کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ شریعت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور بعض صوفیاء چونکہ شریعت کو اہمیت نہیں دیتے اور شرعی احکام کی پابندی نہیں کرتے اس لیے ان کے نزدیک ان کی پیروی جائز نہیں۔ ان پر اس وقت سُکر کی حالت طاری ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت مجدد طریقت کو شریعت کا خادم کہتے ہیں اورلکھتے ہیں کہ شریعت کے تین چزو ہیں۔ علم ، عمل اور اخلاص… جب تک یہ تینوچ جزو نہ پائے جائیں، شریعت مکمل و متصدقہ نہیں ہوتی۔ جب شریعت کی صحیح تعمیل ہوگئی تو حق سبحانہ کی رضا حاصل ہو جاتی ہے جو تمام دنیوی اور اخروی سعادتوں سے اعلیٰ اور فائق ہے۔ ایسا کوئی مقصود ومطلوب نہیں جو شریعت سے الگ ہو اور انسان کو اس کی طلب اور محتاجی ہو۔ طریقت اور حقیقت جن کی بنا ء پر صوفیاء کرام ممتاز ہیں، دونوں شریعت کی خادم ہیں۔
علامہ اقبال نے ابن عربی کے حوالے سے ختمِ نبوت کے بارے میں غلط فہمی دور کرکے ایک بہت بڑی دینی خدمت سرانجام دی ہے جس کا سرسری ذکر کرنا مناسب ہوگا۔
قادیانیوں نے ابن عربی کے نظریات کی غلط تاویل کرکے مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے ثبوت کے طورپر استعمال کیا تو علامہ اقبال نے ابن عربی کے ںظریات کی وضاحت کرکے انھیں اسلام کے مطابق ثابت کیا اور قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔
ابن عربی کا نظریہ تھا کہ ایک مسلمان ولی کا اپنے روحانی ارتقاء کے دوران شعورِ نبوت تک پہنچنا ممکن ہے۔ علامہ اقبال نے کہا یہ نقطۂ نظر درست بھی ہو تو اسے ذاتی تجربہ کہا جاسکتا ہے جس کی کوئی اجتماعی حیثیت نہیں، نہ ہی کوئی اپنے تجربہ کی بنا پر دعویٰ نبوت کرکے کوئی نتظیم یا امت بنا سکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو اپنی باطل نبوت کے انکار پر اسلام کا منکر ٹھہرا سکتا ہے۔ علامہ اقبال کو اس بات کا قطعی یقین تھا کہ ابن عربی کا حضورﷺکے خاتم النبین ہونے پر تمام دوسرے مسلمانوں کی طرح اٹل ایمان ہے۔ اگر انھیں کشف کے ذریعے نظر آ جاتا کہ ہندوستان میں ان کی تحریر کی آڑ لے کر نبوت کا ردّ کیا جائے گا توہ یقینا مسلمانانِ عالم کو ایسے غدارانِ اسلام کے بارے میں متنبہ کر دیتے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ابن عربی، حضرت مجدد اور علامہ اقبال تینوں شریعت کی پاندی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ تینوں کے مقاصد گو یکساں ہیں مگر طریقِ کار کے سلسلہ میں کہیں کہیں ان کا راستہ دوسرے سے مختلف ہو گیا