سروت اس وقت لان میں بیٹھی تھیں جب وہ تیزی سے اندر سے نکلی تھی۔ وہ ہسپتال سے آکر کچھ دیر لان میں بیٹھنے کی عادی تھیں ۔
” کہیں جا رہی ہو حیا ؟ ”
” جی ۔ انصاف لینے جا رہی ہوں ” ۔ وہ مضبوط لہجے میں بولی تھی۔
” یہ اچانک تمہے خیال کیسے آیا ” وہ حیرانگی سے پوچھنے لگیں ۔
” خیال تو بہت پہلے سے تھا بس خود کو تیار کر رہی تھی۔ ” اسکے لہجے میں کرب سا شامل تھا۔
” ہوں ” سروت نے گہری سانس لی اور بولیں ۔
” میں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں ۔انصاف کی تلاش سے لے کر انصاف کے حصول تک ۔ ” وہ اس طرح کہتی ہوئی حیا کو اپنی ماں جیسی لگیں تھیں ۔
” مجھے چلنا چاہیے ۔ ” وہ آنکھ کا کنارہ صاف کرتے ہوئے مین گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
سروت وہیں کرسی پر بیٹھیں اسکے لیے دعا کرنے لگیں ۔
دو سال پہلے وہ انہیں ملی تھی۔ ہسپتال کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ۔ سڑک پر بے ہوش پڑی تھی۔ وہ اسے ہسپتال لے کر گئیں ۔ علاج کرواکر اسے اپنے گھر ہی لے آئیں ۔ اسکا اصل نام کیا تھا وہ نہیں جانتی تھیں ۔ وہ خود سے ہی اسے حیا بولنے لگیں تھیں جو کہ ان کی اپنی بیٹی کا نام تھا ۔جو بچپن میں کینسر سے مر گئی تھی۔ حیا نے خود بھی اعتراض نہیں کیا تھا۔
اسکے ساتھ کیا ہوا تھا یہ بھی سروت نے کبھی نہیں پوچھا تھا۔ وہ اگر چاہے گی تو خود بتا دیگی۔ وہ خود سے پوچھ کر اسے تکلیف نہیں دینا چاہتی تھیں۔
مگر یہ بات تو ضرور جانتی تھیں کہ حیا کا گناہ گار جو بھی تھا وہ اسکے دل کے بہت قریب تھا ۔
□□□
سیمل صبح سے کھانے کی تیاری کرنے میں لگی ہوئی تھی ۔ آج تایا ابا اور تائی امی نے آنا تھا ۔ ابا جاتے ہوئے تاکید کر گئے تھے وہ سب کچھ اپنے ہاتھ سے بنائے ۔ نور بابا کی آج کچن سے چھٹی تھی ۔ وہ بازار سے دڑائنگ روم میں سجانے کے لیے پھول لینے گئے تو سنی بھی ان کے ساتھ ہی ہو لیا ۔
شام کو سب لوگ گھر پر موجود تھے۔ تایا ابا اور تائی امی ابا کے ساتھ باہر لان میں بیٹھے تھے ۔ کھانا کھالیا گیا تھا اور سیمل کے ہاتھ کی خوب تعریف بھی کی گئی تھی۔
” بلکل فرزانہ جیسا زائقہ ہے میری بچی کے ہاتھ میں۔” تایا ابا نے سر پر ہاتھ پھیڑتے ہوئے اسکی ماں کا زکر کیا تھا ۔
کھانا کھا کر بڑے سب لوگ لان میں بیٹھ گئے۔موسم اچھا تھا اسلیے باہر بیٹھنے کو ترجیح دی گئی تھی۔
سیمل نور بابا کے ساتھ کچن سمیٹنے میں لگی تھی۔
” بھائی صاحب آج ہم ایک خاص مقصد کے لیے آئیں ہیں ” زہرہ بیگم نے بل آخر اصل مدعا اٹھایا۔
” ہم آج آپ سے اسامہ کے لیے سیمل کا رشتہ مانگنے آئیں ہیں۔ ”
” ہاں کمال یہ ہم سب کی خواہش ہے کہ سیمل بیٹی ہمارے گھر کی بہو بنے ۔ اب بس تمہارے فیصلے کا انتظار ہے ۔” جمال صاحب نے بھی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فیصلہ بھائی کے ہاتھ دیا ۔
” مجھے آخر کیا اعتراض ہوگا ۔ میری بیٹی میرے بھائی کے گھر جائے گی بہو بن کر اور مجھے کیا چاہیے ۔ سیمل کے لیے اسامہ سے بہتر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ۔ ” بڑوں کے درمیان معاملہ طے پاگیا تھا مگر کسی نے یہ نا سوچا تھا کہ سیمل کیا چاہتی ہے ۔ وہ اس رشتے پر راضی بھی ہوگی کہ نہیں یا وہ کہیں کسی اور سے تو محبت نہیں کرتی۔۔۔۔۔؟
□□□
چار سال پہلے۔۔۔۔!
وہ جگہ گہما گہمی سے بھری ہوئی تھی۔ بہت سی لڑکیاں زرق برق لباس پہنے ادھر سے ادھر گھوم رہیں تھیں ۔ گلی سے ٹھورا اندر جاکر ہی پھولوں کی بے شمار دکانیں تھیں جہاں گاہکوں کا رش سا تھا ۔ رات کے گیارہ بجے بھی اس جگہ دن جیسی رونک تھی بلکہ دن میں بھی ایسی رونک نا ہوتی ہوگی ۔
” چلو شاباش لڑکیوں جلدی جلدی ہاتھ چلو۔ آج کا پروگرام بہت خاص ہے۔ آج تو مہمانوں کو یہاں سے خوش کر کے بیجھنا ہے ۔” نگینہ نے تالی پیٹیتے ہوئے جوش سے کہا ۔کئی لڑکیاں مختلف کاموں میں جتیں اندر باہر آتی جاتی کھلکھلا رہیں تھی۔
جشن شروع ہو چکا تھا ۔ مہمان آ چکے تھے۔ رقس و موسیقی کی محفل جاری تھی۔ نگینہ نے دیکھا کہ تمام
لوگ ہی محفل سے سرور اٹھا رہے ہیں سوائے ایک شخص کے جو محفل سے بیزار سا لگتا تھا ۔ اسنے اشارہ کیا تو رقس کرنے والی نے رقس مزید تیز کر دیا ۔
وہ آدمی وہاں بیٹھا پہلے تو بوریت سے رقس دیکھتا رہا ۔ پھر اٹھا اور اوپر سیڑیوں کی جانب قدم بڑھائے ۔
” ناجانے کیا جادو ہے اس رینا کے پاس جو آتا ہے اسکے پاس ہی جاتا ہے۔ ایک آتا ہے وہ امیر زادہ ، رینا کے دیوانے ہوئے بیٹھے ہیں سارے۔ ” نگینہ نے ہاتھ جھلاتے ہوئے ساتھ بیٹھی پمو سے کہا ۔
محفل ختم ہو چکی تھی۔ رقس کرنے والی آرام کو جا چکی تھی۔ سارے پھول اور نوٹ سمیٹ لیے گئے تھے۔
” اے پمو ۔ زرا جاکر اوپر دیکھ تو وہ ابھی تک نیچے نہیں آیا ۔ ” نگینہ کو فکر ہوئی تو پمو کو اوپر بگھایا ۔
” نگینہ باجی ۔۔۔۔۔۔! ” اوپر سے پمو کی چیخ سنائی دی ۔
نگینہ ہائے ہائے کرتی ہوئی اوپر پہنچی ۔ کمرے میں پہلا قدم رکھتے ہی اسکے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ رینا زمین پر پڑی ہوئی تھی۔ اسکے بائیں پہلو سے خون نکل رہا تھا۔ رنگ ایک دم زرد ہوچکا تھا۔ ٹھورے فاصلے پر پستول پڑا تھا ۔
” یہ مر گئی نگینہ باجی ۔ وہ آدمی رینا کو مار گیا۔ ” پمو ایک دم اپنے حواس میں ائی تھی۔
” پولیس کو کال کر پمو ” شل لہجے کے ساتھ بولی تھی نگینہ ۔
رینا کی نعش کو اٹھا لیا گیا تھا۔ نگینہ برآمدے میں بیٹھی انسپیکٹر کو ساری تفصیل بتا رہی تھی۔ وہ رینا کے قاتل کا حلیہ بتانے لگی جس میں سب سےتوجہ طلب چیز اسکی نیلی بے زار آنکھیں تھیں۔
□□□
” مارو اسکو”
“”ایک زانی کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے”
” اسکی وہ حالت کرو ۔اسکی نسلیں بھی یاد کریں”
” شرم نا آئی تجھے ایک معصوم بچی کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے تھے۔ ”
اور بھی کئی آوازیں تھیں ۔بد دعائیں اور لعنتیں بھی ساتھ ساتھ ہی ۔
تمام آوازیں اسکے زہن پر ہٹھورے کی طرح برس رہی تھیں ۔وہ اپنے ہاتھ آگے کرتا لوگوں کی مار سے بچنے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ زیادہ تھے وہ اکیلا تھا۔ وہ طاقت ور تھے وہ کمزور تھا۔
اچانک کسی نے اسکے سر پر لکڑی دے ماری۔ لکڑی میں لگی کیل پیشانی پر گہرا چیڑا ڈال گئی۔ ” آہ !”
سارا جسم ٹوٹ رہا تھا۔ سر میں الگ درد تھا۔ وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا ۔ نیچے گرتے ہوئے آنکھیں بند ہونے سے پہلے جو آخری چیز اسنے دیکھی تھی وہ سیاہ گہری آنکھیں تھیں ۔۔۔۔۔!
اسکی آنکھیں ایک جٹھکے سے کھلی تھیں ۔ وہ اپنے بیڈ روم تھا۔ وہ خواب ایک بار پھر اسکا سکون برباد کر گیا تھا۔ تیرا سال پہلے کا وہ واقعہ آج بھی تازہ لگتا تھا۔ اسنے خشک ہوتے ہونٹ پر زبان پھیڑی اور پیر بیڈ سے اتارے۔ جسم میں عجیب سی درد اٹھی تھی۔ جیسے یہ سب کچھ تیرا سال پہلے نہیں ابھی ہوا تھا۔ وہ سیدھا باٹھ روم میں گیا۔ نلکا کھولا اور تیزی سے منہ پر پانی ڈالنے لگا ۔ کچھ دیر بعد وہ اپنے حواس میں آچکا تھا۔ گہری سانسیں لیتے ہوئے وہ آئینے میں خود کو دیکھنے لگا۔ اپنے عکس میں اسے ایک اور عکس نظر آیا۔ گہری سیاہ آنکھیں نظر آئیں جو خود میں اسکے لیے بے تحاشہ نفرت لیے ہوئے تھیں ۔
□□□
” آوچ ” مایا وعدے کے مطابق سیمل کے گھر آئی تھی۔ اور سنی کو دیکھتے ہی پیار سے اسکا گال مڑوڑا تھا۔ جو شاید زیادہ زور سے ہوگیا تھا۔ سنی بعد میں اپنا گال سہلاتا ہوا مایا کو گھورنے لگا۔ وہ تھا ہی ایسا موٹے بھرے ہوئے گالوں والا جسے دیکھ کر ہر کوئی پیار کرے ۔ وہ شکول و صورت سے پٹھان لگتا تھا۔
” سیمل اگلے ویک تم فری ہو ” مایا نے کافی کے کپ سے سپ لگاتے ہوئے پوچھا۔
” ہاں فری ہوں”
” نیکسٹ ویک مجھے ایک شادی میں جانا ہے۔ امی اکیلے نہیں جانے دے رہی ہیں۔ تم چلو گی میرے ساتھ۔؟ ”
” ہاں ضرور مگر کس کی شادی ہے۔؟ ” سیمل نے پوچھا۔
” وہ دراصل ایک وکیل ہے۔ حمزہ شجاعت ۔ ہماری فیملی میں اسکا بہت ملنا جلنا ہے۔ اسی کی شادی ہے اور اتفاق سے ان ہی دنوں میں ہماری فیملی میں بھی ایک شادی ہے ۔ فیملی کی شادی امپوڑٹینڈ ہے۔ امی تو وہاں خانے کا ہی کہہ رہیں ہیں۔ سب لوگ وہاں جا رہے ہیں مگر مجھے حمزہ کی شادی اٹینڈ کرنی ہے۔ یو نو مسز شجاعت خود گھر آئیں تھیں کاڑد دینے اور بہت اصرار کر رہیں تھیں۔” مایا نے تفصیل سے بتایا۔
سیمل نے اثبات میں سر ہلایا۔ اسے مایا کی بتائی گئی کچھ تفصیل غیر ضروری لگی۔
” میں بھی چلوں گا ساتھ۔” سنی چہک کر بولا تھا۔
” نہیں تمہے تو گھر میں بند کرکے جاوں گی۔ ” سیمل نے مذاقا کہا تو وہ منہ چڑاتا ہوا بولا
” تم کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتی ۔ ابا کیا کہتے ہیں مجھے تمھاری اور تمہے میری حفاظت کرنی ہے۔”
سیمل اچھی طرح سے جانتی تھی ابا نے یہ بات کیوں کی تھی۔ اس بات کو کرنے کے پیچھے اسکی اپنی ضد ہی تو تھی۔
” میں تمھارے لیے چاکلیٹ لائی ہوں ” مایا سنی سے بات کرنے لگی اور سیمل پھر سے کہیں کھو گئی۔ ہر بار کوئی نا کوئی بات یا چیز اسے اسکا ماضی یاد دلا دیتا تھا۔ وہ جتنا کوشش کرتی بھولنے کی اتنا اسے یاد کر وایا جاتا تھا۔ اور اس یاد میں کسی کی نفرت بھی شامل تھی۔ اور کیوں نا ہو ۔ وہ ضرور اس سے نفرت کرتا ہوگا ۔ وہ تو اسکا نام سن کر بھی نفرت سے بھر جاتا ہوگا ۔ اسکی اپنی ضد اور غلطی کی سزا اسے ملی تھی۔ وہ جو رہنے آیا تھا اسکے گھر اور پھر کہیں چلا گیا تھا ۔ اسے چھوڑ کر ۔اپنی یادیں چھوڑ کر ۔ اپنے سے جڑی کچھ چیزیں چھوڑ کر جن میں لانج کی دیوار پر لگی تصویر اور بائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنی انگوٹھی شامل تھی۔ وہ اس وقت سب کچھ سوچتے ہوئے انگوٹھی ہی دیکھ رہی تھی۔ وہ اس وقت موسی جہانگیر کو سوچ رہی تھی۔
□□□
رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ رمین بیٹے کو کمرے میں سلاکر ایک ملازمہ نگرانی پر بیٹھا کر باہر نکلی۔
بی جان سو چکی تھیں۔ وہ خاموشی سے مین گیٹ سے باہر نکلی۔ ڈرائیور گاڑی کے ساتھ انتظار میں کھڑا تھا۔ جلدی سے اندر بیٹھی اور ڈرائیور کو چلنے کو کہا۔
کچھ دیر بعد گاڑی ایک کشادہ سڑک کے ایک طرف کھڑی تھی۔
سڑک کے دوسری طرف ایک تنگ گلی تھی۔ گاڑی سے دیکھنے پر پھول کی ایک دکان کا کنارا نظر آتا تھا۔
وہ خود کو کسی طرح قابو رکھ کر وہاں بیٹھی رہی۔
دفعتا اسی گلی سے داود نکلتا ہوا دکھائی دیا ۔ اور رمین سر سے پیر تک سلگ کر رہ گئی ۔ یہ ازیت ناک تھا ۔اس کا شوہر رات دیر تک طوئفوں کے اڈے پر ۔ہاں داود حمدانی عیاش پسند تھا ۔ وہ رمین کو نا پسند کرتا تھا مگر وہ اب مزید برداشت نہیں کرے گی۔ اسے اپنے اور اپنے بیٹے کے لیے کچھ کرنا تھا۔ اسے اب داود حمدانی کے سامنے کمزور نہیں پڑنا تھا۔
□□□
داود گھر آتے ہی سٹیڈی میں چلا آیا تھا۔ مگر وہاں رمین پہلے سے ہی اسکے انتظار میں بیٹھی تھی۔
وہ کرسی پر بیٹھی گلہ آمیز نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“تم سوئی نہیں ابھی تک ” وہ بک شیلف کی طرف بڑھتے ہوئے بولا ۔ رمین کو لگا وہ نظریں چرا رہا ہے۔
” زندگی میں سکون نا ہو تو نیند کہاں آتی ہے۔” اسکے لہجے میں تپش تھی۔
” تم کہاں سے آئے ہو اس وقت ” پہلی بار وہ داود سے تفتیش کر رہی تھی۔ پہلی بار وہ داود سے ایسے سوال کر رہی تھی۔ پہلی بار اپنی برداشت سے آگے بڑھی تھی۔
” میں پابند نہیں ہوں تمہے بتانے کا ” اسکا سوال پہلے تو داود کو ٹھٹکا گیا مگر پھر ترش لہجے میں بولا۔
” کیسے بتاو گے ۔ اپنے منہ سے اپنی بیوی کو کیسے بتاو گے کہ تم طوائفوں کے کوٹھے پر جاتے ہو۔ ” رمین سر جھٹک کر تنزیہ بولی تھی۔
داود نے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔ گردن میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔ تنی ہوئی رگوں کے ساتھ رمین کی طرف بڑھا
” تم اپنی اوقات سے بڑھ رہی ہو ” وہ تقریبا دھاڑا تھا۔
” اور تم۔!” وہ شکوہ کناہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔
” کبھی تم نے مجھے بیوی کی حیثیت نہیں دی ۔ مجھ سے اچھا سلوک نہیں رکھا ۔ ٹھیک ہے مجھے سب منظور ہے مگر میں اپنے بیٹے کے لیے یہ سب برداشت نہیں کر سکتی ۔ میں یہ نہیں چاہتی لوگ اسےجج کریں اسکے باپ کے کردار پر ” داود کی تنی رگیں مزید تنی۔
” لوگ اسے یہ کہیں تمھارا باپ کوٹھوں پر جاتا تھا ۔لوگ اسے بھی ایسا سمجھیں گے۔ کیسے سنے گا وہ یہ سب باتیں ۔اپنے لیے نا سہی ۔میرے لیے نہیں مگر ‘ جانی ‘ کے لیے تو تم کر سکتے ہو ” رامین کے لہجے میں التجاء در آئی تھی۔
داود پہلے تو تیز تنفر کے ساتھ اسے دیکھتا رہا ہھر بولا تو لہجے میں زمانے بھر کی تلخی شامل تھی۔
“اچھا مدعا اٹھایا ہے تم نے ۔ بہت ظلم کرتا ہوں نا تم پر ۔ میں بہت جلد تمہے اس سے آزاد کر دوں گا ۔ اور رہی میرے بیٹے کی بات تو کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے وہ داود حمدانی ( انگلی سے سینے پر دستک دی) کے بیٹے کو جج کرے ۔”
دانت چبا چبا کر کہتا وہ شل سی ہوئی رمین کو وہیں چھوڑ کر باہر نکل گیا ۔
رمین کافی دیر تک سکتے کی حالت میں بیٹھی رہی ۔ کیا وہ اسے اشارتا اسے چھوڑ دینے کا کہہ گیا تھا ۔ کیا واقعی۔۔۔!
اور اس سے آگے اسکا زہن معوف ہونے لگا ۔
□□□
وہ دونوں کلاس لے کر گراونڈ میں آئی ہی تھیں کہ موسم نے ایک دم سے پلٹا کھایا ۔ کالے بادلوں کا راج ہوا اور وہ کسی ظالم حاکم کی طرح برسنے لگے ۔
سب ہی سٹودنٹ تیزی سے بلڈنگ کی طرف بھاگے۔ مگر پھر بھی کافی بھیگ گئے تھے۔
کاریڈور میں کھڑے ہوکر بارش کا نظارہ کرنا کافی من بھاتا لگ رہا تھا۔
” کافی ! سردی لگ جائے گی تمہے ۔پی لو ” یوسف کی آواز ابھری تھی اچانک سے ۔اسکی مخاطب مایا تھی۔
” مجھے نہیں ضرورت ۔ تم خود ہی پیو۔”
” اف ایک تو تم لڑکیاں ایٹیٹیوڈ بڑا دکھا تی ہو ۔ میں پہلی بار کسی کو کافی آفر کر رہا ہوں اور یو سی کی اوفرز خاص لوگوں کے لیے ہی ہوتیں ہیں۔” وہ فخر سے جتاتےہوئے بولا تھا ۔
” میں خود اپنے لیے لے سکتی ہوں۔” وہ زبردستی مسکرائی اور اسکی آفر ٹھکرادی۔
” کینٹین میں ختم ہوگئی ہے ۔ یہ آخری کپ تھا۔ بارش شروع ہوتے ہی سب کافی پر ٹوٹ پڑے تھے ۔ لیکن تم نے خود ہی اتنی اچھی آفر ٹھکرادی ہے”
اسنے کافی کا کپ نیچے سائڈ پر رکھا اور سیٹی بجاتے ہوئے گرونڈ کی طرف بڑھ گیا ۔
تیز بارش ہو رہی تھی اور وہ مزے سے سارے گراونڈ کا چکر لگا رہا تھا۔ کبھی کبھی جوش سے چھلانگ بھی لگاتا۔
” پاگل ہو تم سب ” دفعتا کاریڈور کے آگے رکا اور وہاں کھڑے سٹودنٹس کو مخاطب کرتے ہوئے بولا ۔
” بارش انجوائے ہی نہیں کرنی آتی ۔ بارش کو دور سے دیکھ کر تکتے نہیں ہیں بلکے اس کے قطروں سے کھیلتے ہیں ۔”
” اور ایسے تم سب کا اندر بھاگ جانا اور دور سے دیکھ کر تکنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے تم سب ڈرپوک ہو ۔” وہ اکسانے والے لہجے میں بولا۔
” کسے ڈرپوک کہہ رہے ہو ” عدیل نکل کر باہر آیا۔ اسکی اور یوسف کی بنتی نہیں تھی۔ وہ اوباش قسم کا لڑکا تھا۔
” تم ہے اور کسے ۔” یوسف مزید اسے چڑانے والے انداز میں بولا ۔
آگے سے عدیل ہر چیز کا لحاظ بلائے خاطر رکھتے ہوئے اسے برا بھلا کہنے لگا جس میں گالیاں بھی شامل تھیں ۔
عدیل اور یوسف کی لڑائی یونی میں ہونے والے دلچسپ واقعوں میں سے ایک ہوتی تھی۔
کافی دیر تک وہ اسے سناتا رہا پھر تھک کر چپ ہوگیا۔ یوسف کوئی اثر لیے بنا پرسکون سا کھڑا تھا۔ یہ بات عدیل کو مزید چڑا رہی تھی۔
” کیا یہاں کوئی ہے جو عدیل کی زبان سمجھتا ہے تو اسے جواب دے دے ۔” کاریڈور کی طرف گردن دائیں سے بائیں گھماتے ہوئے معصومیت سے پوچھا۔
” کیونکہ۔ایسی نازیبا زبان میں ، میں نے اسخی طرح پی۔ایچ۔ڈی نہیں کر رکھی۔” اب کے وہ افسوس سے بولا تھا ۔
” مگر آپ لوگ اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ یہ آپ کی یونی کا واحد لڑکا ہے جسے یہ زبان آتی ہے ۔ نزیبا ہے مگر پھر بھی ہمت دیکھو اسکی ۔ ٹیلنٹ ہے نا اور بلکل بھی گھبرایا نہیں اپنا ٹیلنٹ ہمیں دکھاتے ہوئے۔”
” کلیپ ” زور سے بولتے ہوئے اسنے تالیں پیٹنا شروع کیں ۔ اسکی تالی کی آواز میں ایک آواز شامل ہوئی ۔ وہ سیمل تھی۔
” ہمیں مل کر اس خطرناک ٹیلنٹ کو سپورٹ کرنا چاہیے کیوں ” تالیاں بجاتے ہوئے وہ سب کی رائے لینے لگی۔
دوسرا تیسرا چوتھا اور پھر کئی سٹودنٹس تالیاں بجاتے ہوئے آگے آئے ۔ وہ سب ہی وہ تھے جن سے عدیل پنگا لے چکا تھا۔ آج سب کو موقع مل گیا تھا ۔
وہ خود سب کو آگ لگا کر بڑے مزے سے باہر نکل آیا تھا۔
یونی کے باقی بچے بھی اکھٹے ہو گئے تھے۔ سب باہر گراونڈ میں تھے اور وہ تینوں اندر کینٹین میں بیٹھے ہوئے تھے۔
“تمہاری دوست ٹھوری عجیب نہیں ہے ۔ ایسے بات کرتی ہے جیسے کھا جائے گی ۔ میں کون سا اسکا پیسا لے کر بھاگ گیا ہوں ” کن اکھیوں سے وہ مایا کو دیکھتے ہوئے سیمل سے بولا تھا ۔
” وہ اس لیے کہ اسے لڑکوں سے بات کرنا پسند نہیں ہے۔ ” سیمل نے ہنسی دبائی۔
” واہ پھر تو اپنے شوہر سے بھی بات نہیں کرو گی ۔ ” آبرو اچکاتے ہوئے طنزا بولا ۔
” میں جس سے بھی بات کروں آپ ٹینشن نا لیں۔ اور کیوں پڑے رہتے ہیں آپ ہر وقت ہمارے پیچھے ۔ یہاں کرنے کو اور بھی کام ہیں اور بھی لوگ ہیں بات کرنے کو ۔ کوئی خاص قسم کا مسئلہ ہے آپ کو۔ ” مایا تیز لہجے میں بولی تو وہ ” سوری کرتا ہوا اٹھ کر چلا گیا ۔
” تم کیوں اسکے پیچھے پڑ گئی ہو مایا”
پیچھے میں نہیں وہ پڑا ہے ۔ اچھا چھوڑو اسے تم کہہ رہی تھی کہ بعد میں بتاو گی تم کیوں پریشان ہو۔ ” مایا نے جیسے یوسف پر لعنت بھیج کر کہا تھا ۔
” اس بات کا تقلق اس رنگ سے ہے۔ ” کہتے ہوئے اسنے اپنا ہاتھ دیکھا مگر ۔۔ یہ کیا ۔
” سیمل کی آنکھیں پٹھی، سانس رکا۔ گویا جام ہی نکل گئی۔
انگوٹھی ندارد تھی۔
” میری رنگ وہ یہاں نہیں ہے ۔۔۔ ہائے اللہ ۔۔۔ کہاں گئی۔ ۔۔۔۔ میں کیسے اسے کھو سکتی ہوں۔۔۔۔ پلیز ڈھونڈو اسے ۔۔۔۔ رنگ نا ملی تو میں مر جاوں گی۔۔۔ میں زندہ نہیں رہ سکوں گی ۔۔۔۔۔ پلیز میری رنگ لادو مجھے ۔۔۔” وہ حواس باختہ سی ہوئی ہاتھ پاوں پھلا کر کہہ رہی تھی جیسے انگوٹھی نہیں متاع جان گم گیا ہو اور سیمل کے لیے وہ متاع جان ہی تھی۔
” ریلکس ہو جاو ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔”
” نہیں مجھے سکون نہیں آئے گا جب تک مل نا جائے ۔میری دھڑکن چلتی تھی اس سے۔ ۔۔۔میری جان نکل جائے گی ” وہ ایک دم بہت جذباتی ہونے لگی تھی۔ وہ اکثر ہو جایا کرتی تھی۔
دونوں رنگ کو تقریبا یونی کے ہر کونے میں تلاش کرنے لگی تھی۔
مایا لائبریری کے باہر دیکھ رہی تھی جب اسے کونے میں یوسف کھڑا نظر آیا ۔
اسکے ہاتھ میں کوئی چمکیلی چیز تھی جسے وہ اچھال رہا تھا ۔
” اوہ تو چور بھی ہو تم ” وہ اسکے پاس بہنچ کر تنک کر بولی۔
” چوری نہیں کی زمین پر گری ملی تھی۔” اسے مایا کی بات کا افسوس ہوا تھا۔
” تو زمین سے ملی تھی تو کیا آپ کی ملکیت ہو گئی۔ سیمل کتنا پریشان ہو رہی ہے۔ انداذہ ہے! کیسے ہوگا۔ ( سر جھٹکا ) آپ کا تو کام ہی پریشان کرنا ہے۔”
” اچھا میں آتا دینے تو تم نے ہی کہنا تھا ‘ کیوں پیچھے پڑے رہتے ہو ۔ کوئی خاص مسئلہ ہے کیا ” منہ بنا کر کہتے ہوئے یوسف نے اسکی ہی کہی بات دھرائی ۔
” انگوٹھی دو ” کوفت سے کہتے ہوئے مایا نے رنگ جھپٹنی چاہی مگر وہ تیزی سے اپنی مٹھی میں دبا گیا۔
” رنگ لینی ہے تو میری بات ماننی پڑے گی۔ اس اڈریس پر آو اور رنگ لے جاو” ایک چھوٹی سی چٹ اسکے ہاتھ میں تھمائی اور سیٹی بجاتے ہوئے چلا گیا۔
مایا پیر پٹختی اسے دیکھتی رہ گئی۔ پوری یونی میں اسکے ہاتھ ہی لگنا تھا رنگ کو۔ لیکن سیمل کی خاطر اسے جانا پڑے گا ۔۔ شاید وہ اپنے گھر کا اڈریس دے کر گیا تھا۔
” رنگ یوسف کے پاس ہے ۔ میں لادوں تمہے ۔ دونٹ وری” مایا نے بعد میں سیمل کو تسلی دے دی تھی۔
□□□
” موسی اب ہمارے ساتھ ہی رہے گا نا ۔ پہلے بھی آپ کی بھابھیوں کی وجہ سے مجھے اسے بوڑدنگ بیجھنا پڑا تھا۔ ” ناہید نے آفس کے لیے تیار ہوتے شوہر سے پوچھا تھا۔
” تمھاری بہن ہے فرزانہ ۔ اسے وہاں بیجھ دو ” دوتوک بات کرکے وہ باہر نکل گئے۔
□□□
مایا نے جب اس گھر کی گھنٹی بجائی تو اندر سے ایک طوطے کے بولنے کی آواز آئی ” خوش آمدید”
دروازہ کھلا اور شاہانہ سکندر سامنے آئیں ۔
” مجھے یوسف سے ملنا ہے ”
” وہ اوپر اپنے کمرے میں ہے۔ ” وہ خوش دلی سے کہتے ہوئے سائد پر ہوئیں ۔ نیلی آنکھوں اور ترکش نکوش کے ساتھ وہ ایک با وقار خاتون لگ رہی تھیں۔
مایا کو اوپر جاتے ہوئے حیرانی ہوئی مسز سکندر نے اسکے بارے میں دریافت کیوں نہیں کیا ۔ شاید وہ پہلے سے جانتی تھیں وہ آئے گی۔
کمرے کا دروازہ بجایا مگر اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔ وہ دروازہ دھکیل کر اندر چلی آئی تبھی وہ باتھ روم سے باہر نکلا ٹراوزد میں ملبوس ۔ شرٹ ندارد۔ بال گیلے ۔ منہ سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
دونوں پہلے تو آنکھیں پھاڑے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے پھر مایا ایک دم حجل کھاکر دروازے کی طرف مڑی مگر ۔۔
دروازے کے ساتھ رکھے گلدان سے اسکے پاوں میں ٹھوکر لگی۔ ” آہ”
” تم تھیک تو ہو ” یوسف ایک دم سے اسکے پاس آیا۔
” دور رہو”
” دکھاو مجھے ”
” ہاتھ مت لگاو۔ اف!”
وہ اٹھا اور دراز سے فرسٹ اید باکس نکال لایا۔
” مجھے یہ لگانے دو ” وہ ایک دم بہت فکر مند نظر آنے لگا تھا۔ نرم ہاتھ سے اسکے پاوں پر کریم ملنے لگا ۔
” کچھ دیر میں تھیک ہو جائے گا ۔” ہاتھ ٹشو سے صاف کرتے ہوئے پیچھے ہوا۔
” تم نے جان پوچھ کر رکھا ہے یہ یہاں تاکہ مجھے ٹھوکر لگے۔”
” درد تو نہیں ہورہا ہے تمہے ”
” ہاں ہو رہا ہے۔ لیکن تمہے کونسا احساس ہوگا۔”
” اچھا کیسے ہوگا مجھے احساس ”
” جب تمہے بھی چوٹ لگے ایسی ہی” تکلیف میں بولتے ہوئے مایا کو یہ علم نا تھا اسکی بات سچ ثابت ہو جائے گی۔
” یہ لو ” یوسف نے رنگ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔ وہ کچھ دسٹرب سا لگ رہا تھا۔
کچھ دیر بعد مایا کے جانے کے بعد اسنے وہ گلدان اٹھایا اور اسے دسٹ بین میں ڈال دیا۔ اسے وہ چیز اپنے گھر یا آس پاس رکھنی ہی نہیں تھی جو مایا کو تکلیف دے۔
یوسف سکندر شاہ کو مایا اعوان سے محبت ہوگئی تھی۔ اسے اسکی سبز آنکھوں سے محبت ہوگئی تھی۔ اسنے دیکھا تھا کسی کو محبت میں ٹرپتے ہوئے ۔ اسے اب یہ تجربہ خود بھی کرنا تھا۔
□□□
چار سال بعد ۔۔۔۔
حیا حمزہ شجاعت کے آفس میں بیٹھی تھی۔ حمزہ اسکی ساری بات سن کر کچھ سوچتے ہوئے اسکی شکل دیکھ رہا تھا۔ وہ ویسی نہیں لگ رہی تھی جیسے پہلے تھی۔
” کیا تم واقعی یہ کیس کرنا چاہتی ہو” ۔ یہ بات کوئی تیسری بار پوچھ رہا تھا۔
” ہاں اور میں نے یہ فیصلہ بری مشکل سے کیا ہے ۔ مجھے مجبور نا کریں میں اسے واپس لوں۔”
” لیکن تم نے بہت دیر کردی ہے ۔ تقریبا تین سال پہلے کے حادثے کا کیس تم اب کر رہی ہو ”
” اسی لیے آپ کے پاس آئی ہوں۔ ”
میں کیا کر سکتا ہوں ” اس نے استہزائیہ سر جھٹکا ۔ ” میں تو خود اپنے لیے کچھ نا کر سکا ۔ ” حمزہ کو اس وقت بری طرح سے عائشہ یاد آئی تھی۔ عائشہ جو اسے چھوڑ گئی تھی ۔ اس سے دور ہوگئی تھی ۔۔۔۔
” میں جانتی ہوں یہ مشکل ہے مگر پلیز” وہ جیسے حمزہ کو نہیں خود کو کہہ رہی تھی۔ دل پر پتھر رکھ کر جو فیصلہ کیا تھا ۔
” ہوں ! میں کرتا ہوں تمہارا کیس سٹیڈی ہے۔ ” حمزہ نے اسے یقین دلایا تھا
” اگر میں کبھی بھی تمہے تکلیف دوں تو چاہے جو سزا دینی ہو دے دینا مجھے قبول ہوگی۔” ماضی سے ایک آواز اسکے زہن میں گونجی تھی۔
” تمہاری دی ہوئی تکلیف سے زیادہ مجھے تمہے سزا دینے کی تکلیف ہوگی”
اسنے تکلیف سے سوچا تھا۔
□□□
” یہ کیسے ہوا ” وہ دونوں اس وقت ایک رسٹورنٹ میں بیٹھے تھے جب سیمل نے یوسف سے پوچھا ۔اس کا اشارہ اسکی ٹوتی ہوئی ٹانگ کی طرف تھا۔
” یہ تو بس ایک ایکسیڈنٹ تھا معمولی سا ” وہ ایسے بولا جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔
” معمولی سا ” سیمل نا سر جھٹکا ۔
” تم اپنی سناو ”
” میں کیسی ہو سکتی ہوں ۔ بس انتظار ہی انتظار ہے درد بھرا ۔ تمہے کچھ معلوم ہے موسی کہاں ہے۔” وہ بے تابی سے بولی تھی۔
” مجھے کیسے پتا ہو” وہ لا علم بنا ۔
” تمہے پتا ہے ۔ تمہے شروع سے پتا تھا تم جان پوچھ کر انجان بنے رہے ”
” کاش مجھے پتا ہوتا ” ۔ (میں خود اتنے عرصے سے اسے دیکھنے کو ترس گیا ہوں ۔ میں نے اپنی بیوقوفی میں اپنا دوست کھو دیا ہے )۔ وہ استہزائیہ انداز میں بولا ۔ لہجے میں دھیڑوں افسوس شامل تھا۔
” میری خاطر تم اسے تلاش کرو۔” وہ منت کرنے لگی تھی۔
” وہ تمھارے سامنے تھا ۔ کیا تم نے پہچانا نہیں تھا اسے ۔”
” کہاں کب ” وہ حیرت سے بولی تھی۔
” عائشے اور حمزہ کی شادی میں ”
اور سیمل کا دماغ ایک دم سے شادی کے فنکشن میں پہنچ گیا ۔
موسی وہاں تھا ۔ اس دن شادی میں موجود تھا ۔ مگر اسے کیوں نا ملا ۔ ملتا بھی کیسے ۔ نفرت جو اتنی شدید ہوگی۔
لیکن وہ خود کیوں نا اس کی موجودگی جان سکی ۔ یہ آخر کیسی محبت تھی۔
گھر تک وہ ان ہی سوچوں میں گھری آئی تھی۔
□□□
” تم سے بات کرنی ہے ” گھر آتے ہی ابا نے اس سے کہا تھا ۔
” جی ” وہ کمرے میں آتے ہوئے بولی ۔
” بیٹھو” کمال صاحب کھڑکی کا پاس کھڑے تھے ۔ سیمل کو بیٹھنے کا کہا ۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں غرق بیڈ پر بیٹھی۔ ابا کہہ رہے تھے۔
” بھائی صاحب نے تمھارا رشتہ مانگا ہے اسامہ کے لیے۔ مجھے کوئی اعترض نہیں ہے ۔ امید ہے تمہے بھی نہیں ہوگا۔
آخر ماں باپ اولاد کے لیے صحیح فیصلہ کرتے ہیں۔” مڑے اور بیڈ پر بیٹھی سیمل پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ جس بات کا ڈر تھا ۔وہی ہوا۔
اسکا چہرا زرد ہورہا تھا۔ بے یقینی۔ عجیب تکلیف دہ سی کیفیت تھی۔
کمال صاحب نے سیمل کی شادی کرنے کا فیصلہ اسکو تکلیف سے نکالنے کے لیے کیا تھا۔ وہ مزید اسے تڑپتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ آخر باپ جو تھے۔ انہیں امید تھی اسامہ ضرور اسکی تکلیف کم کردے گا ۔ اسامہ کا ساتھ اسکے لیے اچھا ہوگا ۔
مگر جو سوچا جائے ویسا کب ہوتا ہے ۔
یہ سب فیصلے تو قسمت کرتی ہے ۔ اور قسمت مہربان ہوا کرتی ہے مگر کچھ امتحان لے کر
□□□
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...