” کہاں لے آئی ہو یار ۔؟” حارث نے جھنجھلا کر پوچھا ۔ وہ دونوں اس وقت محل سے کافی دور واقع ایک جنگل میں پہنچ چکے تھے ۔ رات کا وقت تھا اور چاندنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی ۔
” شش ۔۔۔ ہم یہاں نسناس سے ملنے آے ہیں ۔” سیما نے جھاڑی کی اوٹ سے سامنے نظر آتی جھیل کو دیکھا ۔
” یا اللہ کون ہے یہ نسناس ۔۔۔؟ پچھلے کئی گھنٹوں سے میرا دس کلو وزن اور دو لیٹر خون کم ہو گیا سوچ سوچ کر کہ آخر یہ ہے کیا بلا ۔” حارث چونکہ سیما کے ساتھ تھا اور یہی احساس اسے کافی ہونے کے سبب وہ پھر سے پرانا ہنستا کھیلتا حارث بن چکا تھا ۔ اس کی بات پر سیما خود بھی ہنس پڑی اور مڑ کر اسے دیکھا ۔
” ہم نارائن تک پہنچنا چاہتے ہیں تو نسناس سے ملنا ضروری ہے تاکہ وہ ہمیں آسان طریقہ بتا دے ۔ ”
” اوہ اب سمجھا ۔”
حارث نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے سامنے جھیل کو دیکھا جہاں اسے کئی ایک جل پری اچھلتی ہوئیں نظر آئیں ۔
” مرمیڈ ۔۔” وہ حیرت سے بے ہوش ہونے کے قریب تھا ۔
” کیا ۔؟” سیما نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔
” یہ یہ ۔۔۔ جل پری ۔۔۔ پریاں سچ میں ہوتی ہیں ۔؟” اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔
” پریاں واقعی اپنا وجود رکھتی ہیں لیکن ان میں بعض اچھی ہوتی ہیں اور بعض بری ۔۔۔ کیا تمہیں نہیں پتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زوجہء پاک بلقیس رضی اللہ عنہا پریوں پر حکومت کرتی تھیں ۔؟” سیما نے پوچھا تو حارث کا سر خود بخود نفی میں ہل گیا ۔
” تفسیر پڑھنا اس میں ہے ۔۔۔ اور رہیں یہ بنت البحر یعنی تمہاری زبان میں جل پری تو ہاں اس کا بھی وجود ہوتا ہے لیکن تمہارے وقتوں میں یہ اب ناپید بھی ہو گئیں اور ان کی بچی کچی نسل ایسی جگہ منتقل ہو گئی جہاں انسانی وجود نہ ہو ۔” سیما جھاڑی کی اوٹ سے انہیں دیکھتی گویا ہوئی ۔
” کیوں ۔؟”
” کیوں کہ تم انسان انہیں پہلے اپنے قریب کرتے ہو انہیں تکلیف دیتے ہو پھر واپس سمندر میں چھوڑ دیتے ہو اس لئے یہ انسانوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں اور ایسی جگہ ان کی نسل منتقل ہو گئی جہاں تم انسان نہ جا سکو ۔”
( حیاة الحیوان میں ان کا ذکر ہے ۔)
” اچھا ۔۔” حارث کو جیسے مایوسی ہوئی ۔ اچانک ہی تمام بنت البحر جیسے گھبرا گئیں اور تیزی سے غوطہ لگاتی ہوئیں پانی میں روپوش ہو گئیں ۔
” انہیں کیا ہوا ۔؟” حارث نے سوال کیا ۔
” پتا نہیں میں دیکھتی ہوں ۔۔” سیما اتنا کہہ کر جھاڑی کے باہر آنا ہی چاہتی تھی کہ اچانک ایک جانب سے کسی کی آہٹ سنائی دی جیسے کوئی بڑا سا جانور چلا آ رہا ہو ۔ سیما فورا پیچھے ہوئی تو دیکھا کہ ایک عجیب سی مخلوق کنارے پر چل رہی تھی ۔
” شیخ الیہودی ۔” سیما نے زیر لب کہا ۔ ” یہ شیخ الیہودی ہے ۔ ابو حامد اندلسی اور قزوینی نے اپنی کتاب عجائب المخلوقات میں لکھا ہے کہ ان کا چہرہ انسان جیسا اور بقیہ جسم مینڈک جیسا ہوتا ہے ان کی داڑھی سفید اور قد بچھڑے کی طرح ہوتا ہے یہ مینڈک کی طرح کودتے ہیں اور اگر پانی میں چلے جائیں تو اپنی رفتار کے اتنے تیز ہیں کہ کوئی جہاز ان کا پیچھا نہیں کر سکتا ۔” ( حیاة الحیوان جلد دوم صفحہ 281 ) سیما بتا رہی تھی اور حارث حیرتمیں ڈوبتا جا رہا تھا اسے ایسی ایسی چیزیں دیکھنے ملیں گی کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ کچھ دیر بعد جب شیخ الیہودی ادھر ادھر کود کود کر آگے چلا گیا تو سیما حارث کے ساتھ آہستگی سے جھاڑیوں کے باہر آئی ۔
” اب ہمیں نسناس سے ملنا ہے چلو جلدی آو وہ دوسرے کنارے پر ہوں گے ۔”
” پلیز پہلے بتا دو کہ آخر یہ دکھتے کیسے ہیں ۔؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ایسی عجیب و غریب چیزیں دیکھ دیکھ کر فوت ہو جاؤں ۔” حارث نے کہا تو سیما نے اسے فورا ٹوکا ۔
” اللہ نہ کرے ۔۔۔ کیسی باتیں کرتے ہو ۔” اس کے چہرے پر ہلکی سی ناراضگی کے اثرات ظاہر ہوئے ۔ حارث کے دل کو انجان سی خوشی ہوئی اور چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
” اہم اہم ۔۔۔ رو رو کے پکارو گے ، زرا مر تو جانے دو ۔” اس نے سیما کو اور چھیڑا ۔
” حارث کے بچے میں تمہارا گلا دبا دوں گی اگر اب کوئی فضول بات کی ۔” سیما نے غصّے سے کہا لیکن اگلے ہی لمحے اس کے لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے ۔” آہاں ۔۔۔ صحیح اب میں تمہیں نسناس کے متعلق کچھ نہیں بتاؤں گی ۔” اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی ۔
” اوئے نہیں ۔۔۔ رکو ۔۔۔ سنو تو صحیح ۔۔۔” حارث اس کے پیچھے لپکا رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور وہ دونوں اب دوسرے کنارے پہنچ چکے تھے ۔
” یہ انسانوں جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن ایک آنکھ ایک پیر والے ۔” سیما اسے بتا رہی تھی ۔” یہ چھلانگ لگا لگا کر چلتے ہیں ،باتیں بھی کرتے ہیں اور بعض لوگ ان کا شکار بھی کرتے ہیں لیکن ان سے کمزور انسان کو دور رہنا چاہئے کیوں کہ اگر یہ قابو پا لیں تو انسان کو مر ڈالتے ہیں ۔”
” کیا یہ پانی میں رہتے ہیں ۔؟” حارث نے سوال کیا ۔
” ہاں ۔۔ پانی اور خشکی دونوں جگہ پر ۔۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ لوگ ختم ہو گئے اور اب صرف نسناس رہ گئے ۔ پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے ۔ کہا کہ نسناس ایسی مخلوق ہے جو انسانوں جیسی ہے مگر انسان نہیں ۔
یہ بھی روایت ملتی ہے کہ شاید یہ قوم عاد ہے جن کی شکل مسخ کر دی گئی واللہ اعلم ۔” ( بحوالہ حیاة الحیوان )
” یا میرے مولا ۔۔” حارث اتنا ہی کہہ پایا ۔ ابھی زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ نسناس وہاں سے گزرتے ہوئے دکھائی دئے ۔ حارث نے دیکھا کہ وہ آدھے انسان نما مخلوق اپنے ایک ایک پاؤں پر کودتے ہوئے اپنی مطلوبہ جگہ آ جا رہے تھے ۔ سیما نے حارث کو دیکھا ۔
” چلیں ۔”
” آ ۔۔ ہاں ۔”
وہ دونوں جب نسناس کے پاس آے تو سارے نسناس نے پہلے تو انہیں گھور کر دیکھا پھر ان کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے قریب آنے لگے ۔
” میں جن زادی سیما ہوں ۔۔۔ اور تم لوگ جانتے ہو کہ جن سے مقابلہ کرنا تمہارے بس کی بات نہیں ۔ ” اتنا کہہ کر سیما نے اپنا حقیقی روپ اختیار کر لیا ۔ سارے نسناس اپنی جگہ ساکت ہو گئے ۔
” کون ہو کیا چاہتی ہو ۔؟” ایک بوڑھے نسناس نے آگے آکر کہا ۔
” جادوگر نارائن سے واقف ہو ۔؟ دیکھو مجھے علم ہے کہ تم لوگ اس سے واقف ہو کیوں کہ وہ یہاں اکثر آتا ہے جادو کرنے کرانے ۔” سیما نے کہا ۔
” تم ہم سے کیوں پوچھ رہی ہو ۔؟”
” کیوں ۔؟ کیا تم لوگ نہیں چاہتے کہ اس کے شر سے تمہیں بھی نجات ملے ۔؟ کئی مرتبہ اس نے تم لوگوں کا شکار بھی کیا ہے ناں ۔؟ ” سیما کے کہنے پر ان کے چہروں پر موجود تاثرات سخت ہو گئے ۔
” دیکھو ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں تمہاری مدد چاہتے ہیں کیوں کہ اسے انسانی طریقے پر قتل نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔ ورنہ اس کا جسم مر جائے گا اور روح جسم کی قید سے آزاد ہو کر اور طاقت ور بن جائے گی ۔” سیما نے انہیں خاموش دیکھ کر کہا ۔ نسناس نے ان کا گھیرا توڑ دیا اور کچھ دور جا کر آپس میں باتیں کرنے لگے ۔ جب وہ واپس آے تو ان میں موجود سب سے بوڑھے نسناس نے کہا ۔
” ہم تمہاری مدد کریں گے ۔”
***
” یا اللہ کیا مصیبت ہے ۔ پہلے صوفی صاحب نے مجھے یہاں بھیجا ، پھر ہم اس مینڈک نما انسان ، جل پری اور آدھے انسان سے ملے پھر اب واپس ان کھنڈرات میں آ گئے ۔ جنگل میں تو سبزہ تھا ہوائیں تھیں اور یہاں ۔۔۔۔” حارث نے اپنے بازو سے نادیدہ سی دھول جھاڑی ۔” یہاں صرف دھول ہے ، پرانی چیزیں اور کہیں کہیں تابوت بھی ۔” نسناس نے انہیں بتایا کہ اگر وہ لوگ نارائن کو مارنا چاہتے ہیں تو وہاں سے کافی دور واقع ایک پرانی مندر میں موجود لاش کے سینے میں وہ خنجر اتارنا ہوگا جسے شاہ بلوط کے پتوں کے رس سے دھویا گیا ہو ۔ خنجر تو انہوں نے حاصل کر لیا لیکن مسئلہ تھا اس لاش تک پہنچنا کیوں کہ اس مندر میں پہنچ کر آگے انہیں ایک راستہ سا نظر آیا جو کسی برف کے صحرا میں جاتا تھا ۔ سیما نے حارث کو دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا اور آگے بڑھ گئی ۔ جب وہ چلتے ہوئے کافی دور آ گئے تو انہیں بیچ صحرا میں ایک تابوت دکھائی دیا لیکن یہ کیا ۔۔۔۔۔ اس تابوت کے پاس ایک عجیب سی مخلوق موجود تھی ۔ جو زمین پر تابوت سے لگ کر لیٹی ہوئی تھی یہ مخلوق ظاہری طور پر تو انسان جیسی تھی لیکن اس میں ہڈی نہیں تھی ۔
” اوہ مائی گاڈ ۔” حارث کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا ۔ ” اب یہ کیا چیز ہے ۔؟”
” الشق ۔” سیما نے سامنے دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔ ” اسے ضرور نارائن نے تابوت کی حفاظت کے لئے رکھ چھوڑا ہو گا ۔”
کہتے ہیں علقمہ بن صفوان بن امیہ ایک رات کسی سفر پر نکلے راستے میں شق سے ملاقات ہو گئی انہوں نے کہا کہ اے شق تو ایسے سے لڑنے کا ارادہ کرتا ہے جو تجھ سے لڑنا نہیں چاہتا تو شق نے جواب دیا کہ آؤ زرا دو دو ہاتھ کر لیں ۔ دونوں لڑ پڑے لیکن شق آخر میں مردہ ہو کر گر پڑا ۔ کہتے ہیں کہ شق اور سطیح عرب کے دو مشہور کاہن تھے اور ان کی پیدایش اس دن ہوئی جس دن عمرو بن عامر کی بیوی تعریفہ کاہنہ کی موت ہوئی ۔ ( حیاة الحیوان جلد دوم صفحہ 275 )
” سیما ہمیں جلد ہی کچھ کرنا ہوگا ۔۔۔ اس وقت میں داسو کی پیدائش ہونے والی ہے اور اس سے قبل کہ نارائن اس تک پہنچے ہمیں خنجر اس لاش کے سینے میں گھونپنا ہوگا ۔” حارث پریشان تھا ۔
” فکر مت کرو ۔” اتنا کہہ کر وہ آگے آنے ہی لگی تھی کہ شق نے دور سے ہی پکارا ۔
” اپنی زندگی عزیز ہے تو لوٹ جاؤ ۔”
” ہم یہاں صرف اپنا ادھورا کام مکمّل کرنے آے ہیں ۔” سیما حارث کے آگے کھڑی ہوئی اور اپنے ہاتھ پیچھے کر لئے ۔ حارث نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا جسے وہ حارث کی سمت کر رہی تھی ۔ حارث نے خنجر لے کر خاموشی سے اپنے کوٹ میں چھپا لیا ۔” ہمیں تم سے کوئی لینا دینا نہیں ۔۔۔ ہم صرف لاش تک آنا چاہتے ہیں ۔”
” لاش ۔۔۔” شق ہنس پڑا ۔” میں شیطان کی جنس سے ہوں پاکباز جن زادی ۔۔۔ تم بھی جانتی ہو اور میں بھی کہ یہ لاش نہیں بلکہ نارائن کا حقیقی جسم ہے ۔” سیما نے کوئی جواب نہ دیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی ۔ جب شق نے اسے آگے آتے دیکھا تو جانے کیا پڑھ کر فضا میں پھونکا کہ آگے کے چند سانپ برف پر تیزی سے چلتے ان کی طرف بڑھنے لگے ۔ سیما نے جھک کر تھوڑی سی برف اٹھائی اور کچھ پڑھ کر ان سانپوں کی طرف اچھالا تو وہ جل کر ہوا میں تحلیل ہو گئے ۔
” رن ۔” سیما نے حارث سے کہا اور خود بھی تیزی سے فضا میں اپنے پاؤں معلق کئے شق کی طرف بڑھی ۔ اس سے قبل کہ شق اور کوئی عمل کرتا سیما نے اسے جا پکڑا ۔ چونکہ شق کی ہڈی نہیں تھی اس لئے اسے ہلنے میں دشواری ہوئی ۔ اس کی ساری طاقت عمل ہی تھی جس کا اب اسے موقع نہیں مل رہا تھا ۔ سیما کسی خونخوار درندے کی طرح اسے اپنے لمبے لمبے ناخن سے نوچ رہی تھی ۔ فضا میں شق کی چیخیں بلند ہوئیں اور اس کا مکروہ وجود ہمیشہ کے لئے ساکت ہو گیا ۔ اتنی دیر میں حارث تابوت کھول چکا تھا ۔ برف کے صحرا میں موجود پرانے لوہے کے تابوت کے اندر بھی برف تھی اور نارائن کا جسم سفید پڑ رہا تھا ۔
” وقت بہت کم ہے حارث جلدی کرو ۔” سیما نے حارث کو اشارہ کیا ۔ حارث نے خنجر ہاتھ میں پکڑا اور پوری قوت سے اسے نارائن کے سینے میں پیوست کر دیا ۔ خنجر کا جسم میں جانا تھا کہ نارائن کی آنکھیں کھل گئیں وہ چیخ کر اٹھ گیا ۔ حارث اور سیما فورا پیچھے ہوئے ۔ نارائن کے جسم سے آگ کے شعلے بلند ہونے لگے اور رفتہ رفتہ پورا تابوت جلتے ہوئے راکھ ہونے لگا ۔ دھویں سے ان کی آنکھ جلنے لگی تو انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں جب کچھ دیر بعد حارث اور سیما نے اپنی آنکھیں کھولیں تو وہاں نہ برف کا صحرا تھا اور نہ ہی تابوت ، یہاں تک کہ شق کی لاش اور مندر بھی نہیں تھا ۔ وہ لوگ اسی جنگل میں کھڑے تھے جہاں انہیں نسناس ملے تھے ۔
” داسو سے ملنے سے پہلے ہی ہم نے نارائن کو مار ڈالا ۔” حارث خوشی سے گویا ہوا ۔
” ہاں حارث اور داسو کی پیدایش سے قبل ہم نے نارائن کو مار ڈالا جس کے سبب اب داسو کے جادو کا زور ٹوٹ گیا وہ تمہارے وقت میں بھی اب بے اثر ہو گیا ۔” سیما نے جواب دیا ۔
” مطلب ۔۔۔ مطلب اب کوئی دشواری نہیں ، نہ داسو نہ ہی داسو کا جادو ۔۔۔ کچھ بھی نہیں ۔” حارث نے پوچھا ۔
” بالکل ٹھیک ۔” وہ آگے چلنے لگی ۔ اس کے چہرے پر ایک اداسی تھی ۔ حارث خوش تھا کہ اب اس کہ دوستوں کی جان ہمیشہ کے لئے ان برائیوں سے محفوظ ہو گئی ۔ جب کچھ دیر بعد وہ لوگ چلتے ہوئے بیچ جنگل میں آے تو سیما نے اسے روک کر آسمان کی طرف دیکھا ۔ سورج طلوع ہونے والا تھا اور چاند غروب ہونا چاہتا تھا ۔ ایک ہی آسمان پر دو مختلف وجود ساتھ کتنے اچھے لگ رہے تھے جب حارث کی نظر سیما پر پڑی جو زیر لب پڑھنے میں مصروف تھی ۔
” تم کیا کر رہی ہو ۔؟” وہ حیران ہوا ۔
” تمہارا کام یہاں ختم ہو گیا حارث ۔۔۔ تمہیں واپس جانا ہوگا ۔” سیما کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی ۔ حارث جیسے شاک کی کیفیت میں آ گیا ۔
” میں واپس نہیں جانا چاہتا ۔” اس نے سیما کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ سیما نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اپنے دوسرے ہاتھ سے اشارہ کیا تو ایک روشنی سی حارث کے گرد نمودار ہونے لگی ۔
” نہیں نہیں ۔۔۔ پلیز روکو اسے میں نہیں جانا چاہتا ۔” وہ چیخ اٹھا ۔
” تم یہاں نہیں رک سکتے ، نظام عالم کو درہم برہم مت کرو ۔ ہم آسمانی احکام نہیں توڑ سکتے ۔”
” سیما ۔۔۔” حارث نے یاسیت سے اسے دیکھا ۔” تو تم میرے وقت میں آ جاؤ ۔” وہ جانتا تھا کہ نہ وہ یہاں رک سکتا ہے اور نہ سیما اس کے وقت میں آ سکتی ہے لیکن پھر بھی اس کی چاہ زبان پر آ گئی ۔
” الوداع حارث ۔۔۔ کاش ہم تمہارے وقت کا حصّہ ہوتے ۔” حارث نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی جسے وہ اپنی مسکراہٹ سے جھوٹا ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی ۔ حارث کی نظروں کے سامنے سفید روشنی اور چمکدار ہوتی گئی نتیجتا اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ واپس آ چکا تھا ۔ مہمت نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا ہوا تھا ۔ اس نے آنکھیں کھول کر مہمت کو دیکھا پھر گھڑی کو ۔۔۔ یہاں ابھی بھی وہی وقت تھا جو سیما کے وقت میں جانے سے قبل اس نے دیکھا تھا ۔۔۔۔ کیا یہاں کے ایک سیکنڈ میں وہ وہاں کے اتنے وقت گزار آیا تھا ۔؟
” تمہیں اتنی جلدی ہوش آ گیا ۔؟ دو سیکنڈ بھی نہیں ہوئے تمہیں بیہوش ہوئے اور تم اتنی جلدی ہوش میں آ گئے ۔؟” مہمت نے پریشان سا ہو کر حارث سے پوچھا لیکن وہ کچھ کہنے سننے لائق ہی کب رہا تھا ۔ اس نے مقابل بیٹھے صوفی صاحب کو دیکھا جنہوں نے اسے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔
” یار ٹھیک تو ہو ناں ۔؟” مہمت پوچھ رہا تھا مگر وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے کمرے کے باہر چلا گیا ۔
” صوفی صاحب ۔۔۔ آپ ہی کچھ کہئے ۔؟” مہمت نے پوچھا ۔
” تم لوگ ہر قسم کے جادو اثرات وغیرہ سے آزاد ہو چکے ہو ، کل سب میرے پاس اسی وقت آنا ۔” صوفی صاحب نے اتنا کہہ کر انہیں رخصت کر دیا ۔
***
اگلے دن وہ سب صوفی صاحب کے پاس جمع تھے ۔ صوفی صاحب نے حارث کو تمام واقعات بتانے کو کہا ، جب وہ کہہ چکا تو سب کے چہروں اور اداسی تھی ۔ کلیم نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا ۔ صوفی صاحب گویا ہوئے ۔
” جو لکھا ہوتا ہے وہ کبھی نہیں ٹلتا ، اس لئے افسوس کی بجاۓ سب تم لوگ سیما کی خواہشات کا احترام کرو ۔ وہ ایک اچھی نیک جن تھی اس لئے تم لوگوں کو آسانی ہو گئی سوچو اگر کسی غلط ہاتھ میں جاتے تو کیا ہوتا ۔؟ اور رہی بات جادو کی ۔۔۔ تو وہ سحر ٹوٹ چکا ہے جو تم لوگوں کو تنگ کرتا ، لیکن نماز کی پابندی کرو تمہیں زرا بھی علم نہیں کہ نماز کتنی کی دشواری سے انسان کو بچا لیتی ہے ،نیک عمل کرو یہ صدقہ ہوتے ہیں اور صدقہ تو ایک بار موت کو بھی ٹال دیتا ہے ۔ اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ اور حارث یہ چیز میں تمہیں خاص طور پر کہہ رہا ہوں کہ اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ ۔۔۔۔ دیکھو وہاں تم لوگوں کے اہل خانہ ہیں اپنے رشتے داروں سے حسن سلوک کرنا بھی نیکی اور صدقے کا کام ہے ۔ جاؤ یہاں سے چلے جاؤ ۔” صوفی صاحب نے نہ صرف انہیں گھر سے بلکہ اس جگہ سے بھی جانے کا حکم دے دیا ۔ حارث کے لئے یہ بہت مشکل امر تھا لیکن وہ مجبور ہو گیا ۔ صوفی صاحب جانتے تھے کہ اگر وہ یہاں رہا تو سیما کو بھولنے میں دشواری ہو گی اس لئے انہوں نے سب کو واپس بھیج دیا ۔
***
کچھ مہینے بعد :
ہلکے گلابی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہم رنگ حجاب کئے وہ فون کان سے لگا کر کچھ کہتی تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی سامنے سے آتے حارث سے ٹکرا گئی ۔
” اوہ آئی ریئلی سوری ۔” حارث نے جھک کر زمین پر سے اس کا گرا ہوا پرس اٹھا کر دیا تو مقابل پر نظر پڑتے ہی سن سا ہو کر رہ گیا ۔ یہ وہی تھی سیما ۔۔۔ ہوبہو اسی کی کاپی ۔۔۔
” نہیں غلطی میری بھی تھی مجھے دیکھ کر چلنا چاہئے تھا ۔” وہ معذرت کرتی آگے بڑھ گئی ۔ حارث نے اس کی کار کا نمبر نوٹ کیا اور اگلے ہی دن اسے پتا چل گیا کہ وہ رابعہ نامی لڑکی جو سیما کی ہم شکل تھی اس کے ڈیڈ کے دوست کی بیٹی تھی اور کسی کام سے آفس آئی ہوئی تھی ۔ حارث کے سامنے وہی چہرہ تھا جس کے ساتھ وہ اتنا وقت گزار آیا تھا ۔ اس نے ایک فیصلہ کیا اور خود اپنی ماما کو اس سے آگاہ کرنے چلا گیا ۔
” اوہ گاڈ تمہیں کیسے پتا چلا کہ ہم نے اسے تمہارے لئے سوچا ہے ۔؟” اس کی مام خوشی سے چیختے ہوئے کھڑی ہو گئیں ۔
” وہاٹ ۔۔۔؟” حارث کو حیرت ہوئی ۔
” وہاٹ نہیں وہاٹ آ گریٹ سرپرائز ۔۔۔ یعنی تمہارے پاپا اسے پہلے ہی تمہارے لئے پسند کر چکے ہیں ۔” ماما نے اسے بتایا ۔
” اوہ ۔۔” وہ اتنا ہی کہہ سکا ۔ کمرے میں آکر وہ کافی دیر سر پکڑے بیٹھا رہا ۔ زندگی میں اتنی عجیب و غریب حقیقتیں دیکھیں کہ اب حیران ہونا اس نے چھوڑ ہی دیا تھا ۔ کچھ عرصے بعد اس کی رابعہ سے شادی ہو گئی ۔ فنکشن میں اس نے سبھی کو مدعو کیا تھا خاص کر کے جنوں کی وہ جماعت جو اس کے ساتھ رہ چکی تھی ۔ بس کمی تھی تو سیما کی ۔۔۔۔
” یہ بالکل سیما کی کاپی ہے ناں ۔؟” عفرا نے عالیہ سے کہا ۔
” ایک پل کو تو میں بھی حیران ہو گئی تھی کہ سیما کہاں سے آ گئی ۔” نفیسہ نے بھی گفتگو میں اپنا حصّہ ڈالا ۔
” اور شاید ایک جیسی صورت ہونے کی بنا پر ہی حارث نے شادی کی ۔” عالیہ نے پر سوچ انداز میں کہتے ہوئے شربت کا پانچواں گلاس اٹھایا ۔
” یہ آدم زادوں کی شادی ہے عالیہ ۔” عفرا نے اسے گھورا ۔” اتنا نہ کھاؤ پیو کہ انہیں شک ہونے لگے ۔” اس طرح ٹوکے جانے پر جہاں عالیہ شرمندہ ہوئی وہیں نفیسہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا ۔ اتنے میں حارث ان کے پاس آکر گویا ہوا ۔
” پیاری دوستوں آپ لوگوں کے لئے کھانا اوپر فلور پر ہے چلو ۔”
” لیکن صوفی صاحب ۔؟” عالیہ نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے روکتے ہوئے کہا ۔
” صوفی صاحب پہلے ہی جا چکے ہیں ۔” وہ اتنا کہہ کر انہیں اوپری منزل پر ایک بند کمرے میں لے آیا جہاں چند ایک دیگیں رکھی ہوئیں تھیں اور ان سے کھانوں کی خوشبو اٹھ رہی تھی ۔
” یہ آپ لوگوں کے لئے کیوں کہ ایک پلیٹ کھانا شاید آپ کے لئے کافی نہیں ہوتا ۔” حارث مسکرا کر بولا تو عالیہ ہنس پڑی ۔
” صحیح اللہ تمہیں نیک بیوی دے ۔”
” بیوی تو مل گئی ۔۔۔ بلکہ جیسا سوچا ویسی مل گئی ۔”
” ارے ہاں یہ تمہاری رابعہ ہماری سیما سے ملتی ہے ناں ۔؟ ” عفرا نے پوچھا تو اس نے صوفی صاحب کی طرف اشارہ کیا ۔
” ان سے پوچھو ۔”
” وہ رابعہ ہی ہے بس ہم نے اسے تھوڑا اور خوبصورت بنا کر چہرہ سیما جیسا کر دیا ۔” پھر وہ حارث کی طرف متوجہ ہوئے ۔” تمہاری بیوی سیرت کی بہت نیک ہے حارث ۔۔ صرف شکل کی بنا پر اس سے محبت نہ کرنا کیوں کہ اصل محبت روح سے ہوتی ہے ۔ ” حارث نے ان کی باتیں سنیں اور پھر چلا گیا ۔
” لیکن آپ نے ایسا کیوں کیا ۔؟ کیا یہ اس لڑکی کے ساتھ زیادتی نہیں ۔؟” نفیسہ نے پریشان ہو کر پوچھا ۔
” حارث تمام عمر یوں ہی گزار دیتا اور ہم اصلاح نہ کرتے تو زیادتی ہوتی ۔” صوفی صاحب نے اسے دیکھا ۔” وہ لڑکی رابعہ اچھی طبیعت کی ہے جلد ہی حارث سیما کو بھول جائے گا ۔”
وہ سب خاموش ہو گئے لیکن کچھ عرصے بعد وہی ہوا جو صوفی صاحب نے کہا تھا کہ حارث رابعہ کے لئے مخلص ہو گیا ایسا نہیں تھا کہ سیما اسے یاد نہ رہی بس اب احساسات بدل گئے تھے ۔ افسوس کی جگہ اب وہ سیما کے لئے دعا کیا کرتا تھا ۔ ایک اچھی دوست ، اچھی یاد اور اچھا ماضی ۔۔۔
اپنے حال کے ساتھ جینا بھی ایک آرٹ ہے اور اپنے مستقبل کو روشن کر لینے سے بہتر کچھ نہیں اور یہ بات تو ہم سبھی جانتے ہیں ۔۔۔
put Allah first and you never be last.
***
تمام شد