حیدر قریشی کی ادبی خدمات کا جامع احاطہ کرنے کے لیے ان کی تما م تخلیقات ، تنقیدات اور تحقیقات کو مد نظر رکھنا ضرو ری ہے ۔،کیونکہ صر ف اِسی صورت میں اُن کے فکر ی نظام اور ادبی مقام کا تعین کیا جاسکتا ہے۔زیر نظر مقالے میں استخراجی اور استقرائی طریق ِکار کی مد د سے مطلوبہ نتا ئج تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
٭حیدرقریشی کی تحقیقی تصانیف کا تعارف
حیدر قریشی بنیاد ی طور پر یک موضوعی محقق ہیں کیو نکہ اُن کی تما م تر تحقیقات کا دائرہ کار صنف ماہیا تک محدود ہے ۔ اِس حوالے سے وہ اب تک پانچ کتابیں تصنیف کر چکے ہیں جس میں اس صنف کاآغاز و ارتقا اور دوسرے اہم مو ضوعات پر سیر حاصل تحقیقی مباحث شامل ہیں۔ اس صنف پران کی تحقیق نے اُردو ادب میں جہاں کئی پرانے سوالوں کے تشفی بخش جوابات مہیا کیے وہاں نئے سوال بھی اُٹھا ئے ہیں۔ ماہیے کے مو ضو ع پر لکھی جا نے والی یہ پانچوں کتابیں نئے اور تازہ حقائق منظر عام پر لاتی ہیں ،ان میں تنقیدی ،تشریحی اور توضیحی مطالعات معیاری تحقیق کا عمد ہ نمو نہ پیش کرتے ہیں۔کتابوں کی تفصیل ملاحظہ ہو:
(۱) اُردو میں ماہیا نگاری ( تحقیق و تنقید )
فرہا د پبلی کیشنز ، اسلام آباد ، ۱۹۹۷ء
(۲) اُردو میں ماہیے کی تحر یک
فرہا د پبلی کیشنز ، اسلام آباد ۱۹۹۹ء
(۳) اُردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما
معیار پبلی کیشنز دہلی ، ۱۹۹۹ء
(۴) اُردو ما ہیا
(یہ کتاب اپنی اولین شکل میں صرف انٹر نیٹ پر دستیاب تھی ، جسے بعد میں ماہیے کے کلیات میں شامل کر لیا گیا تھا)
( ۵) ماہیے کے مباحث
یہ کتاب بھی کلیات کا حصہ ہے ۔ الگ سے شائع نہیں ہوئی ۔
(۶) اردو ماہیا : تحقیق و تنقید ( کلیات)
اس کلیات میں اُردو ماہیے کی پانچوں کتابیں یکجا کر دی گئی ہیں۔ یہ کتاب الو قار پبلی کیشنز لا ہور نے ۲۰۱۰ء میں شائع کی تھی۔
حیدرقریشی کی ان پانچوں کتابوں میں جہاں تحقیقی مضامین و مقالات پڑھنے کو ملتے ہیں وہاں ان میں تنقیدی تحر یریں بھی شامل ہیں لیکن زیر نظر باب میں صرف تحقیقی کام سے غرض رکھی جائے گی کیونکہ ان کی تنقید ی خد مات کا احاطہ کرنے لیے الگ باب مختص کیا گیا ہے۔
(الف) حیدر قریشی کے تحقیقی موضوعات
حیدر قریشی کے ہاں نمائند ہ تحقیقی موضوعات درج ذیل ہیں :
(۱) ماہیے کا آغازو ارتقا
حیدر قریشی کی تمام تر تحقیقات کا مرکز و محور صنف ماہیا ہے وہ خود بھی ایک انٹر ویو میں اس جانب اشارہ کرتے ہو ئے کہتے ہیں:
’’ میں نرا پُرا تخلیقی آدمی ہوں ، تھوڑابہت تحقیقی کام کیا بھی ہے تو ماہیے کے بارے میں ‘‘ (۱)
یہ ’’تھو ڑا بہت ‘‘ کام پانچ کتابوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اس موضوع کو آگے بڑھانے سے پہلے صنف ماہیا کی تعریف پر نظر ڈالنا ضروری ہے ۔
ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’ اظہارِ محبت ( ماہی : محبوب) کے لیے تین مصرعوں پر مشتمل پنجابی اور سرائیکی کی مقبول صنف ِسخن اُردو میں بھی مستعمل ہے ۔ کسی زمانہ میں ،ماہیا لوگ ادب کا حصہ، اور ڈیڑ ھ مصر عوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اپنی اصلی صورت میں ما ہیا صر ف محبو ب کے لیے وقف تھا ۔ اور محبو ب کے حو الے سے ہی د ل کے معاملا ت کا بیان ہوتا تھا ،مگر اب ماہیا ہر نوع کے مو ضوعات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ (۲)
ڈاکٹر سلیم اختر نے اس کی ہیئت پر بھی روشنی ڈالی ہے:
’’ ڈیڑ ھ مصر عوں کے ماہیے میں پہلا مصر ع بالعموم مو ضوع سے غیر متعلق ہوتا تھا لیکن دوسرے مصرعے کے ساتھ مل کر مفہوم اُجاگر کرتا تھا مگر تین مصر عوں پر مشتمل ماہیے میں تینوں مصر عے ہی موضو ع سے متعلق ہو تے ہیں ‘‘ (۳)
یہ تعریف بڑی حد تک صنف ماہیا کے خد وخال واضح کرتی ہے تاہم اس کی بہتر اور کلی تفہیم کے لیے حیدر قریشی کی طرف رجوع لازمی ہے کیو نکہ وہ اس صنف کا اصل پس منظر سامنے لاتے ہو ئے کئی پو شید ہ گو شوں کو منور کر رہے ہیں ،اُنھوں نے لکھا ہے:
’’ ماہیا سرزمین پنجاب کا عوامی گیت ہے ۔ ماہیا کا لفظ ’’ماہی‘‘سے نکلا ہے لیکن یہ اُردو والا ماہی نہیں۔۔۔پنجابی میں بھینس کو مہیں کہتے ہیں۔بھنیس چرانے والے کو اسی نسبت سے ماہی کہا جاتا ہے۔ ‘‘(۴)
’’ماہی ‘‘کی مزید وضاحت کرتے ہو ئے وہ کہتے ہیں:
’’ جب محبت کے قصوں میں رانجھے اور مہینوال کو اپنے اپنے محبوب تک رسائی حاصل کر نے کیے لیے چرواہا بننا پڑا تو پھر ان کرداروں کی رومانوی کشش نے لفظ ماہی کو چرواہے کی سطح سے اُٹھا کر نہ صر ف ہیراور سوہنی کا محبوب بنایا دیا بلکہ ہر محبت کرنے والی مٹیا رکا محبو ب ماہی قرار پا یا ۔ اسی ماہی کے ساتھ اپنے پیار کے اظہار کے لیے ماہیا عوامی گیت بن کر سامنے آیا ۔ ‘‘(۵)
حید ر قریشی کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ماضی میں ماہیے کے لیے ’’بگڑو‘‘، ’’ اور ٹپا‘‘ کے نام بھی استعما ل ہو تے تھے۔ مگر ان کا چلن عام نہ ہو سکا اور فتہ فتہ ’’ ماہیا ‘‘ کا نام قبولِ عام کا درجہ حاصل کرتا چلا گیا ۔
ما ہیا پنجا بی تہذیب وثقافت کا زائیدہ ہے اور اس میں گہر ے فلسفیانہ اور فکر ی موضوعات کے برعکس جذبوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ پنجابی میں مایے کی جو روایت چلی آرہی ہے، اُس میں پیارو محبت کا اظہار عورت کی طرف سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن مرد کے اظہاریے بھی موجود ہیں۔ دورِ جد ید میں عورتوں کی نسبت مردوں نے اس صنف پر خصو صی توجہ صرف کی جس کی وجہ سے یہ صنف اپنی انفرادیت اور اہمیت منو انے میں کا میاب رہی ہے۔
صنف ماہیا کے ساتھ عورت کی جو وابستگی رہی ہے۔ اس ضمن میں حیدرقریشی نے اپنی تحقیقی کاوشوں کی بدولت کچھ نئے نکا ت کی طر ف ہماری توجہ مبذول کروائی ہے:
’’ ماہیا بظا ہر عورت کی زبان میں مرد سے محبت کا اظہار ہے ، اس حوالے سے ماہیے کو قدیم ہندوستانی گیت کے تنا ظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ غور کیا جا ئے تو یہ صوفی شعرا کا با لواسطہ اثر بھی محسو س ہوتا ہے کہ صوفیا نہ شاعری میں محبوب ہمیشہ مذکر کے صیغہ میں آیا ہے۔ ریختی سے بھی اس کے سِرے ملائے جا سکتے ہیں، کیوں کہ ریختی میں عورت کی زبان سے جذبات کا بے محابا اظہا ر کیا جا تا ہے۔‘‘ (۶)
عورت کی طرف سے کہے گئے ماہیوں کی دو پنجابی مثالیں ملا حظہ ہوں :
(الف ) منجی دھپے چھا نو یں ڈائی ہو ئی اے
غم ساہنوں سجنا ں دا
لو کا ں مر ض بنائی ہو ئی اے (۷)
(ترجمہ) میں نے چار پائی دھوپ چھا ؤں میں ڈال رکھی ہے ، مجھے اپنے محبوب کا غم ہے لیکن لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں بیما ر ہوں ۔
(ب) چٹے رنگ دا بدام ہو سی
جیند یا ں وی تیر ی آں
مو یا ں مٹی وی غلام ہو سی (۸)
(ترجمہ)سفید رنگ کا بادام ہو گا ، اور جب تک زندہ ہوں تمہا ری رہوں گی اور ا گر مر گئی تو میر ی مٹی بھی تمہاری غلام بن کر رہے گی ۔
ان دونوں ماہیوں میں عورت کا غیر مشروط جذبۂ محبت نہایت سادگی لیکن اپنی پوری تایثر کے ساتھ اظہار پاتا ہے یہی سادگی اور فطری اُسلوب ماہیے کا جو ہر ہے۔
حید رقریشی لکھتے ہیں:
’’ ماہیے میں پنجاب کے عوام کے جذبات ، احسا سات اور خواہشات تک کا خوبصورت اور براہِ راست اظہار ملتا ہے۔ عوام نے اپنی اُمنگوں ، آرزوں اور دعاؤں کو اس شاعری کے ذریعے سینہ بہ سینہ آگے بڑھا یا اور زند ہ رکھا۔ اسی لیے یہ عوامی گیت اپنی ظاہر ی صورت میں انفرادی ہو نے کے باوجود اپنی سوسائٹی کی ترجمانی کرتا ہے۔ ‘‘ (۹)
ماہیے کا ارتقائی سفر کئی وسیلوں سے گزرتا ہوادو ر جدید تک پہنچتا ہے،لیکن آج بھی اس میں قدیم مظاہر فطرت، معصومیت اور سادگی کا پر تو موجود ہے۔ یہ صنف اپنی شیر نی ، معنی آفرینی ، رنگینی اور نغمہ آفرینی کی بدولت اُردو زبان میں بھی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ ماہیوں کے مجمو عے جس تواتر سے سامنے آ رہے ہیں وہ بھی اس کی مقبو لیت کو ظاہر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ادبی رسائل و جرائد اور موسیقی کی بدولت بھی یہ صنف فطر ی نشوونما کی منازل طے کر رہی ہے۔
(۲) ما ہیے کے اصل اوزان کی دریافت
اُردو ادب کی کئی شعری اصنا ف ایسی ہیں جو اپنے مخصو ص اوزان کی وجہ سے ہی شنا خت حاصل کر تی ہیں ،مثلا ًرباعی ،
مثنو ی اورما ہیا وغیر ہ ۔ رباعی چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جبکہ قطعے کے بھی چار مصرعے ہو سکتے ہیں ۔اب اگر ان میں سے ربا عی کی شنا خت کرنا ہو تو اس کی مخصو ص بحروں اور اوزان کو بنیاد بنا کر فیصلہ کیا جا ئے گا،ورنہ اپنی ظاہری صورت میں دونوں ایک ہیں۔ مثنو ی بھی مخصو ص بحروں میں لکھی جاتی ہے۔ اُردو ادب میں ماہیا ، ثلا ثی اور ہائیکو تین تین مصرعوں میں لکھی جانے والی مختلف اصناف ہیں ، بظا ہر ان کی تحر یر ی ساخت میں کوئی نمایا ں فرق نہیں کیونکہ تینو ں عروضی آہنگ کی پابند ہیں البتہ ہر صنف کی جداگا نہ شناخت قائم کرنے کے لیے صرف وزن ہی کو بنیا د بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علا وہ کوئی دوسرا طریقہ موجود نہیں ہے۔
ماہیے کی اصل پنجابی ہے اور اُردو میں اس کا ورود ایک خو ش آئند امر ہے ۔ پنجابی زبان میں ماہیا اپنی خاص دھن میں گا یا جا تا رہا ہے۔ یہ مخصو ص دھن زمانۂ قدیم سے متوارث چلی آرہی ہے، ہر دور میں اسی دُھن کی پابندی گانے والوں کے فرائض میں شامل رہی ہے۔ یہی پنجابی ماہیا جب اُردو میں آیا تو اکثر شاعروں نے اپنی سہو لت اور پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے مختلف بحروں میں لکھنا شروع کردیا ۔ البتہ ابتدا میں چند ایک شاعروں نے پنجابی دھن کا احترام کرتے ہو ئے ماہیے کے اصلی اوزان میں بھی ماہیے لکھے ہیں لیکن تعجب ہے کہ یہ روایت آگے نہ چل سکی اور ماہیے کی صنف غفلت اور سہل انگاری کی بدولت عروضی اعتبار سے انتشار کا شکا ر ہوکر رہ گئی ۔ اس کا بڑا نقصان یہ سامنے آیا کہ ثلا ثی ، ہا ئیکو اور ماہیے کا باہمی فرق نظر وں سے اوجھل ہو گیا اور جس شاعر نے جو کہہ دیا وہی حرفِ آخر بن گیا ۔ حیدر قریشی نے صنف ِماہیا کے درست اوزان کے سلسلے میں جو راست قدم اٹھا یا تھا وہ رفتہ رفتہ ایک تحر یک کی صورت اختیار کر گیا اور بالا ٓخر وہ وقت آگیا جب حیدر قریشی کا پیش کردہ نقطۂ نظر درست تسلیم کرلیا گیا اور تا حال اس کی پابندی ضروری خیال کی جا تی ہے۔ ماہیے کے وزن پر حید رقریشی کی تحقیقات کا ا صل مو قف یہ ہے:
’’ میر امو قف ہے کہ ماہیا اصلا ًلوک گیت ہے جس کی اپنی مخصو ص دُھن ہے بس اسی دُھن میں ہی اس کا اصل وزن موجود ہے۔‘‘ (۱۰)
حیدر قریشی نے نہ صرف اصل وزن کی نشاندہی کی بلکہ خود بھی اسی وزن میں ماہیے لکھ کر اس صنف کی بنیادیں مضبوط کی ہیں ۔ ان کے نزدیک اُردو ماہیے کے درج ذیل ارکا ن پنجابی دُھن کے عین مطابق ہیں :
(ماہیا ) (وزن)
(۱) مستی سے بھر ی پپلی فعلن فعلن فعلن
الہر مٹیار یں فعلن فعلن فع
جب کھیل گیئں ککلی (۱۱) فعلن فعلن فعلن
(ب) تختی کو سکھا تے تھے مفعول مفا عیلن
خواب سہانے تھے فعل مفاعیلن
پر دل کو دکھا تے تھے (۱۲) مفعول فعا عیلن
(ج) کتنے بد نام ہو یے فعلن مفعو ل فعل
پیار میں تیر ے ہم فا ع مفا عیلن
پھر بھی ناکام ہو ئے (۱۳) فعلن مفعول فعل
(د) ناکامی سے ڈرتے ہو مفعول فعا عیلن
عشق بھی کرتے ہو فاع فعاعیلن
بد نامی سے ڈرتے ہو (۱۴) مفعو ل فعا عیلن
(ر) اس حا ل فقیر ی میں مفعو ل مفا عیلن
عمریں بیت گئیں فعلن فا ع فعل
زلفوں کی اسیر ی میں (۱۵) مفعو ل فعا عیلن
ان ماہیوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مصر ع ٔ ثانی میں ایک سبب کم ہے اور اس کی یہی خوبی اصل پہچان کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر تینوں مصرعوں کو مساوی اوزان میں لکھا جائے تو ہ ثلاثی بن جا ئے گی یا اسے سہ مصر عی نظم بھی کہا جا سکتا ہے۔ اُردو میں سہ مصر عی نظمیں لکھنے کا رواج عام ہے ہا ئیکو کا وزن ۵۔۷۔۵ ہے جبکہ ماہیا خواہ کسی بھی وزن میں ہو اس کے ارکا ن ۱۲۔۱۰۔۱۲ ہی رہیں گے ۔ اگر ان اوزان کی پابندی نہیں کی جا ئے گی تو پھر ثلا ثی ، ہائیکو اور ماہیے کا باہمی فرق ختم ہو جا ئے گا۔
شگفتہ الطا ف نے درست لکھا ہے:
’’ اُردو ماہیے پر عروضی اعتبار سے تنقید ی کا م کی ضرورت اس لیے بھی بہت ضرور ی ہے کہ یہ صنف بھی ہا ئیکو اور ثلا ثی کی طرح عمومی ساخت کے مطابق بظاہر تین مصر عوں کی ایک نظم ہے لیکن اس کا عر وضی اعتبار ہی اسے ثلا ثی اور جاپان سے درآمدہ صنف ہائیکو سے جدا قرار دیتا ہے۔ ‘‘(۱۶)
حیدر قریشی کی اولیت اس حوالے سے نہیں بنتی کہ اُنھوں نے سب سے پہلے ماہیے کے مذکور ہ بالا اوزان متعارف کرائے ،کیونکہ ان اوزان میں ہمت رائے شرما، حسر ت مو ہانی ، ساحر لدھیانوی اور قمر جلا ل آبادی پہلے ہی ماہیے لکھ چکے تھے ،حیدر قریشی کے تحقیقی کام کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اُنھوں نے ماہیے کے اصل اوزان پر اصرار کیا اور تاریخی شواہد کی روشنی میں دیگر اوزان کو مستر د کردیا ،ورنہ صورت ِ حال یہ بنی ہوئی تھی ہر شاعر اپنی سہ مصری نظموں کو ماہیا ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔حیدر قریشی نے اس صنف کو شناخت دلائی ہے۔
ماہیے کے وزن ، موضوع اور ہیئت پر حیدر قریشی کے ابتدائی مضامین اور مبا حثے ’’ادب لطیف ‘‘، ’’ تجد ید نو‘‘ اور’’ ابلاغ ‘‘میں دیکھے جاسکتے ہیں اس کے علاوہ اوراق ( لاہور) ، نیر نگ خیال ( راولپنڈی) صر یر ( کراچی ) بھنگڑا (گوجرانوالہ) ایوان اردو ( دہلی ) اور گلبن( انڈیا) میں ماہیے کے موضوع پر اُنھوں نے مسلسل اس موضوع پر لکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے دیگرادیبوں نے گرم جوشی سے اس بحث میں حصہ لینا شروع کردیا، کچھ عرصہ بعد یہ موضوع تحریک کی شکل اختیار کر گیا وراس تحر یک کے بانی اور پر جو ش لکھا ری حیدرقریشی قرار پاتے ہیں۔
شگفتہ الطاف رقمطر از ہیں :
’’ گذشتہ چند دہائیوں میں جو تحر یک اُردو ماہیے کے حوالے سے پروان چڑ ھی
ہے اس میں اُردو ماہیے کو فروغ دینے والوں میں ا ہم ترین اور نمایاں نام
حیدر قریشی کا ہے‘‘ (۱۷)
یہ تحر یک پاک و ہند کے ادبی رسائل کے علاوہ انٹر نیٹ پر موجود اردو جرائد اوریورپی ممالک سے نکلنے والے اردو رسائل میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ حید رقریشی نے جس تحر یک کی بنیاد ڈالی تھی وہ آخر کار کامیابی سے ہم کنا ر ہوئی اور ان کے پیش کردہ اوزان کو قبولِ عام کی سند ملنا شروع ہوگئی۔
عارف فرہا د کا تجزیہ ملا حظہ ہو :
’’ ۱۹۹۲ء میں حیدر قریشی نے نہ صرف مختلف ادبی پرچوں اور موقرادبی جرائدکے ذریعے ماہیے کے وزن پر ا ربابِ دانش کی توجہ مرکوز کی بلکہ اردو ماہیے کے اصل اوزان کی نشاندہی بھی کی ہے رفتہ رفتہ ان کا یہ اصلاحی عمل ایک اہم تحر یک کی شکل اختیار کر گیا اور آج لگ بھگ سو سے زائد شعرائے کرام درست اوزان میں ماہیے تخلیق کر رہے ہیں۔‘‘(۱۸)
ہر تحریک اپنے حاصل شدہ ثمرات ، نتا ئج اور اثرات سے پہچانی جاتی ہے ۔حیدرقریشی کی تحریک اپنے اثرات کے اعتبار سے خاصی ہمہ گیر اور دور رس نتائج کی حامل ہے اس تحر یک نے ایک عوامی گیت جو ہماری تہذیبی روایت کا مضبوط حصہ تھا ازسر نو زندہ کردیا۔
شگفتہ الطا ف کے بقول :
’’ یو ں لگتا ہے کہ حیدر قریشی اس عوامی صنف کو اردو زبان کی رنگت اوڑھے اسالیب اور نئے رنگ وآہنگ کے ساتھ عوام الناس میں پھو لتا پھلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘(۱۹)
حیدر قریشی کا موقف حق پر مبنی تھا اور منطقی طو رپر اسے رد کرنا محال تھا اس کے باوجود ابتدا میں ان کی خاصی مخالفت ہوئی ۔جن لوگوں کے پاس عقلی و نقلی دلا ئل نہیں تھے اُنھوں نے ذاتی اور شخصی تنقید کا سہارا لیا لیکن جلد ہی اِدھر اُدھربھا گ گئے۔ اگر اس مخلصانہ تنقید کو جمع کیا جا ئے تو اندازہ ہوگا کہ جنا ب قریشی کو کتنے سخت امتحانوں سے گزرنا پڑا تھا، جب کہ موجودہ صورتِ حال کے بارے میں اختر رضا سیلمی لکھتے ہیں:
’’ آج حیدر قریشی کے موقف کو اس قدر پذیرائی ملی چکی ہے کہ ماہیا نگار شعرا میں سے اسی (۸۰) فیصد سے زاہد شعرا نہ صرف ان کے ہم خیال ہیں بلکہ اُنھیں ماہیے میں بطو ر اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں۔ ‘‘ (۲۰)
حیدر قریشی کا ذوقِ تحقیق حقائق کی تلا ش و جستجو اور تفہیم وتحلیل کا ایک مثالی نمو نہ ہے، جو کئی حوالوں سے قابلِ تعریف اور قابل ِتقلید ہے ۔ اُنھوں نے حقائق کی باز یافت میں ہر ممکن ذریعے کو کام میں لا یا اور اُردو دنیا کو ماہیے کی فہم کا راست طریقہ سمجھا یا ۔
(۳ ) ماہیے کی تحر یر ی صورت کا مسئلہ
اُردو اور پنجابی ادب میں یہ مسئلہ عرصہ دراز تک نزاعی مبا حث کا موضوع بنا رہا کہ ماہیے کی اصل تحر یر ی صورت کیا ہے ؟ محققین کے پیش کردہ قیاسات اور مفروضات کے مطابق اس صنف کی مندرجہ ذیل تین تحریری صورتیں ممکن ہیں:
(۱) یک مصر عی ہیئت
نہروں میں نہا تے تھے، پاس کے مند ر سے ، پر شاد چراتے تھے ‘‘ (۲۱)
(ب) ڈیڑ ھ مصر عی ہیئت
نہر وں میں نہا تے تھے
پاس کے مند ر سے ،پر شاد چراتے تھے
(ج) سہ مصرعی ہیئت
نہر وں میں نہا تے تھے
پا س کے مند ر سے
پر شاد چراتے تھے
حیدر قریشی جہاں معر وضی حقائق کی بنیاد پر ماہیے کے اصل اوزان کو سامنے لائے وہاں اس کی تحر یر ی صورت اور ہیئت پر بھی قابل قد ر تحقیقات متعارف کرائی ہیں ۔ اس مسلے کی بہتر جانچ پڑ تا ل کی خاطر اُنھوں نے پاک وہند کے اردو اور پنجابی تخلیق کاروں اور ناقدین محققین کی آرا کو بھی اہمیت دی ہے۔ ماہیے کی تحر یر ی صورت متعین کرانے میں جن احباب نے اختلافی امو ر میں حصہ لیا، ان میں پروفیسر شارب ، تنویر بخاری ، امین خیال ، ڈاکٹر روشن لا ل اہوجا ، علامہ غلا م یعقوب ، اسلم جدون ، ڈاکٹر جما ل ہو شیار پوری اور شفقت تنو یر مرزا کے نام زیادہ اہم ہیں۔ حیدر قریشی کے ساتھ ادبی مباحث میں جن ادیبوں نے حصہ لیا اس میں اورنام بھی شامل ہیں لیکن بخوف طوالت اور اہمیت کے پیش نظر انھی ناموں پر اکتفا کیا گیا ہے۔
ماہیا اصل میں عوامی گیت یا لوک ادب کا حصہ ہے اور صد یوں تک یہ صرف گانے تک محدود رہا اسی لیے جب اسے تحر یر ی صورت میں محفو ظ کر نے کا مر حلہ آیا تو ہر شخص نے اپنی صوابدید کے مطابق اسے لکھنے کی کو شش کی ، اسی ذاتی پسند و نا پسند کی وجہ سے ماہیے کی تحر یر ی شکل اشکال و انتشار کر شکا ر ہوگئی۔
ابتدا میں جن پنجابی لکھا ریوں نے اسے محفوظ کرنے کی بنیاد رکھی وہ بھی اسے یک مصرعی ،ڈیڑ ھ مصر عی اور سہ مصر عی صورتوں میں لکھ لیتے تھے۔ اسی روایت کو اُردو والوں نے بھی اپنایا ، لہٰذا کسی ایک شکل پر کوئی واضح لائحہ عمل نہ طے پا سکا۔ حیدر قریشی نے اس ادبی تحقیق کا بیڑا ٹھا یا اور پاک وہند کے ادبی رسائل وجرائد میں اپنا نقطۂ نظر ممکنہ شواہد کی روشنی میں پیش کر دیا۔ اگر ان کے مو قف کا تجز یہ کیا جا ئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تدریجاً آگے بڑ ھتے رہے اور اپنے دلائل کی ہر اینٹ کو مضبو طی سے اُستوارکرتے رہے۔ اُن کی پہلی دلیل یہ ہے:
’’ ماہیا بنیادی طور پر لوک شاعری ہے ۔پنجا ب کے دیہات میں شادی بیاہ کے مواقع پر آج بھی ماہیے بڑے شوق سے گائے جاتے ہیں ،ماہیا کی اپنی ایک مخصو ص دھن ہے ۔ مسر ت نذیر کے گائے ہو ئے ماہیے ’’ چٹا ککڑ بنیر ے تے‘‘ اسی مخصو ص دھن میں گائے گئے ہیں۔ متعد د پاکستان اور بھا رتی فلموں میں بھی ماہیے بطور گیت گائے گئے ہیں (۲۲)
محولہ بالا اقتباس میں ماہیے کی جس مخصو ص دھن کا ذکر ملتا ہے۔ آگے چل کر یہی دھن اس صنف کی تحر یر ی صورت متعین کر نے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حید ر قریشی نے اپنے ایک اور مضمون ’’ ماہیا پابندِ نے ہے ‘‘ میں اسی اہم نکتے کو دہرایا ہے۔ و ہ لکھتے ہیں:
’’ ماہیا پنجابی لوک گیت ہے ۔ اس کی مخصو ص لے ہے اور ماہیا اپنی لے کا پابند ہے۔‘‘( ۲۳)
حید رقریشی اس خد شے کا اظہار بھی کرتے ہیں :
’’ ہیئت کو چور دروازہ بنا کر ماہیے کی لوک لے سے الگ نہ کیا جائے ۔‘‘ (۲۴)
ماہیے کی مخصو ص دھن اور لے والا مو قف اس اعتبار سے خا صا وزنی ہے کہ مصرعوں کی اصل مقدار کا تعین سانس کے ٹو ٹنے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ مو سیقی کے عام اُصول کے مطابق تقریباً ہر گلو کار ایک مصرع ایک سانس میں گاتا ہے اور مصر عِ اُولی عمو ماً دو مرتبہ گایا جاتا ہے اور کبھی کبھی ٹیپ کے مصر عے کی تکر ار بھی ہوتی ہے۔ یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا شادی بیا ہ میں جو ماہیے خواہ وہ مساوی الوزن ہوں یا مصر ع ثانی میں ایک سبب کم ، گائے جاتے ہیں، کیا گانے والا ایک ہی سانس میں پو را ماہیا گا کر فارغ ہو جاتاہے ؟ یا ڈھول اور تالیوں کی تھا پ پر ہر مصر عے کو الگ الگ کر کے دکھایا جاتاہے ؟ان سوالوں کے جواب میں اصل حقائق پوشیدہ ہیں۔
مزید یہ کہ آیا ماہیے کی تحر یر ی صورت کا تعلق یک مصر عی ، ڈیڑھ مصر عی یا سہ مصر عی ہیئت کے ساتھ ہے یا نہیں۔ اس قضیے کا فیصلہ کسی شخص کی ذاتی پسند اورنا پسند پر نہیں کیا سکتا بلکہ صرف معر وضی اور اُصو لی بنیا دوں پر کرنا ہوگا۔ اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ما ہیا اصل میں گائی جا نے والی صنف ہے،اور تحر یر سے اس کا بظا ہر کوئی رشتہ نہیں نکلتا ۔ جب اس کی تحر یر ی صورت پر بات ہوگی تو لا محالہ ہمیں اس کی دُھن اور لے کی جانب رجو ع کرنا ہو گا اور جو بات دُھن سے ثابت ہو گی وہی حتمی ہوگی ۔اس کے علاوہ باقی سب مفروضات کی ذیل میں آئے گا ۔ایسے مفر وضا ت جن کی بنیاد محض ذاتی سہولت اور ذاتی پسند پر اُستوار ہوتی ہے اور اُصولی مباحث سے اُن کا تعلق نہیں بنتا۔
ماہیے کی دُھن اور لے کوئی نئی چیز نہیں ہے اس روایت کو صدیوں سے نبھا یا جا ر ہا ہے۔ ہر مصر عے پر سانس کا ٹو ٹنا اور پھر نئے مصر ع کا پہلے مصر ع سے مل کر تاثرگہر ا کرنا ہماے عام مشاہد ے کی بات ہے یہی عام مشاہد ہ آگے چل کر اس کی تحر یر ی ہیئت کے نقوش متعین کرتا ہے۔
ماہیے کی تحریر ی اور صوتی ہیئت میں جو گہر ی منا سبت ہے اُسے بیان کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں بلکہ معمولی سی توجہ معاملے کو صاف کرسکتی ہے ۔آفتاب آمد دلیلِ آفتاب ۔ہر صنف اپنی تکنیک ، ہیئت ، ساخت یا صورت سے پہچانی جاتی ہے۔ جب دھن کی بنیاد پر اس کے تین مصر عوں کا جواز ثابت ہو جا تا ہے، تو پھر لا حاصل قیاس آرائیوں میں وقت ضا ئع نہیں کرنا چائیے ۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ماہیا ڈیڑ ھ مصر عی اور یک مصر عی ہیئت دونوں میں لکھا جا سکتا ہے،لیکن ان کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جسے کافی وشافی قرار دیا جا سکے۔ ڈاکٹر سلیم اختر اپنی تصنیف ’’تنقیدی اصطلا حات‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ تکنیک سے ہی صنف صورت پذیر ہو کر نام حاصل کرتی ہے۔( ۲۵)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تکنیک مخصو ص حد بند یوں کا نام ہے اوراس کی چا ر دیو اری کو قبولنے کے بعد ہی کوئی صنف اپنی منفرد شناخت قائم کرتی ہے۔ حید رقریشی اس با ت کا اعتراف کر تے ہیں کہ جب تک ماہیا کی تحر یر ی صورت واضح نہیں تھی تو ماہیے سے وابستہ اولین لوگ تینوں طرح سے ماہیے لکھ لیتے تھے اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔ وہ اس بات کا اضافہ بھی کرتے ہیں:
’’ بظاہر ان تینوں ہیئتو ں میں سے کوئی ہیئت بھی پنجاب کے دیہاتی عوام کی ایجا د نہیں ہے کیونکہ وہ ما ہیے لکھتے ہی نہیں تھے وہ تو صرف گاتے تھے۔ ‘‘(۲۶ )
اب یہ ماہیے جمع کرنے والوں کی غلطی تھی کہ وہ ماہیے کی زبانی روایت کو مکمل صحت کے ساتھ تحر یر ی شکل میں محفو ظ نہیں کرسکے اور بعد میں آنے والوں نے روایت و درایت کے تما م اُصول پسِ پشت ڈالتے ہوئے محض اندھی تقلید پر انحصار کیا ، جس کے باعث یہ صنف تحر یر ی حوالے سے اپنی شنا خت قائم کرنے میں غفلت کا شکار ہوگئی ۔ یہ حقیقت پیش ِنظر رہنا ضروری ہے کہ دورِ اول کے ماہیا نگاروں میں کہیں کہیں سہ مصر عی ماہیا لکھنے کا سراغ ملتا ہے لیکن یہ لاشعوری کا وش اپنے اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہی۔ سہ مصر عی ماہیے لکھنے کی روایت صرف اسی صورت میں آگے چل سکتی تھی جب تخلیق کار اور محققین حضرات دونوں شعوری ، منطقی اور تاریخی شعور کے ساتھ ماہیے کو فروغ دیتے ۔ یہ سعادت حیدر قریشی کے حصے میں آئی کہ اُنھوں نے اس صنف کے اوزان اور تحر یری ہیئت کو دریافت کرنے کے سلسلے میں جو فرہادی کاوشیں کیں وہ رفتہ رفتہ تحر یک کا درجہ حاصل کرگئیں اور لوگوں کو یقین آگیا کہ حید رقریشی کا موقف تاریخی اور منطقی حقا ئق کے عین مطابق ہے،باقی سب بتان ِ آزری۔
(۴) ماہیے کے موضوعات
ادب کی ہر صنف دوہر ی ہیئت کی حامل ہوتی ہے ۔ پہلی کا تعلق وجودی ہیئت کے ساتھ ہے اور دوسری کو ہم جو ہر ی یا صفتی ہیئت کہہ سکتے ہیں ۔ وجودی ہیئت ٹھو س ہوتی ہے۔ اسے دیکھا اور محسو س کیا جاسکتا ہے جبکہ جوہری ہیئت قدر ے تجر ید ی صفات کی حامل ہوتی ہے۔ اگر غور سے دیکھا جا ئے تو ہر ادبی صنف سے وابستہ ہر موضوع ، وجود اور جو ہر کے باہمی رشتوں کو بھی خوبصو رتی سے واضح کرتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہر صنف کچھ مخصو ص اور نمائندہ موضوعات کی بدولت جانی پہچانی جاتی ہے لیکن اپنے خصوص سے ہٹ کر دوسرے موضوعات کو بھی اپنے دامن میں سمیٹنے کی سعی کرتی ہے۔ ماہیے کے عمومی موضوعات کے حوالے سے ڈاکٹر سیلم اختر کی رائے یہ ہے:
’’ اپنی اصلی صورت میں ماہیا صر ف محبوب کے لیے وقف تھا اور محبوب کے حوالے سے ہی دل کے معاملات کا بیان ہوتا تھا مگر اب ماہیا ہر نوع کے موضوعات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ‘‘ (۲۷)
ماہیے کے بارے میں عمو می رائے یہی ہے کہ اس صنف کا خمیر چونکہ زرعی معاشرے سے اُٹھا ہے اور ماہیے کے اولین نمونوں میں اظہا رِ محبت بھی عورت کی جانب سے ملتا ہے لہٰذا بعد میں مردوں نے بھی اسے اظہارِ عشق کا وسیلہ بنا لیا تھا ۔
حید رقریشی کی تحقیقات نے اُردو ماہیوں کے موضوعات کو ذرا تفصیل سے دکھا یا ہے:
’’ ماہیے کا بنیادی مو ضو ع محبت ہے ۔ اس مو ضو ع کے تحت محبو ب کے حسن کی تعریف ، پیار کے اظہار اور اقرار ، محبت میں تکرار ، عہد وپیمانی ملن اور جدائی ، گلے شکو ے اور کھلی ڈُلی قسم کی چھیڑ چھاڑ کے مضامین آجاتے ہیں ۔ شادی بیاہ کے مختلف جذبات ، دیہاتی ماحول اور دھر تی سے وابستگی بھی ماہیے کے اہم مو ضو ع ہیں ۔‘‘ (۲۸)
آگے چل کر وہ مزید لکھتے ہیں:
’’ ان موضوعا ت کے علا وہ حمد ،نعت ، منقبت ،میلے ٹھیلے ،روزمرہ زندگی کے معاملات
اور زندگی کے مسائل بھی ماہیے میں بیان ہوتے رہے ہیں ۔‘‘(۲۹)
مو ضوعاتی تنو ع کی چند مثالیں ملا حظہ ہوں :
سلطان کھا رو ی کے دو ماہیے :
٭ گاگر میں پانی ہے
لفظ محبت کا
دنیا کی کہانی ہے
٭ ہے ناؤ روانی پہ
یا د تیر ی آئی
چاند آیا جوانی پہ (۳۰)
حیدر قریشی نے خود جو ماہیے تخلیق کیے اُن میں زندگی کے بے شما ر رویے اُبھرتے نظر آتے ہیں،اِن کامو ضو عاتی کینو س خاصا وسیع ہے ۔
چند مثالیں درج کی جاتی ہیں :
٭ ملنا ہو تو ملتے ہیں
پُھو ل محبت کے
پت جھڑ میں بھی کھلتے ہیں (۳۱)
٭ تو خا لق اعلیٰ ہے
جو ہر نام سے اور
ہر روپ سے بالا ہے (۳۲)
٭ لیپ ٹاپ تک آپہنچے
اپنے ہی کمرے میں
ہم آپ تک آپہنچے (۳۳)
٭ خوشیوں کی گھڑی آئی
آنکھ کے صحرا میں
یادوں کی جھڑ ی آئی (۳۴)
حیدر قریشی نے اُردو ماہیے میں جن اہم مو ضوعات کی نشاندہی کی ہے ان کو سامنے رکھتے ہو ئے درج ذیل موضوعات کی فہر ست بندی کی جاسکتی ہے:
(ا) حمدیہ
(۲) نعتیہ
(۳) منقبت
(۴) عشق ومحبت
(۵) دعائیہ اور فقیری مزاج کے ماہیے
(۶) رشتے ناتوں پر مشمل ماہیے
(۷) دھر تی سے محبت
(۸) ثقافتی مظاہر
(۹) مو سمو ں کے بدلتے رنگ
(۱۰) میلے ٹھیلے
(۱۱) شادی بیا ہ
(۱۲) جبر و نا انصافی
(۱۳) نفسیاتی کیفیات پر مشتمل ماہیے
(۱۴) جنسی خواہشات یا تجر بات پر مبنی ماہیے
(۱۵) مناظر فطر ت
ما ہیا اگر چہ تین مصر عوں کی ایک مختصر سی نظم ہے لیکن اس میں حیات و کائنات کے تما م چھو ٹے بڑے مو ضو عا ت
بآسانی سما سکتے ہیں۔ اس صنف کی یہی خوبی بقا کی ضمانت بنی ہے۔ حید رقریشی بڑے اعتماد سے یہ پیش بینی کرتے ہیں:
’’ مجھے امید ہے کہ آنے والے برسوں میں ماہیا اپنے خدوخال اور مزاج کو برقرا ر رکھتے ہو ئے اپنے موضوعات میں وسعت پیدا کر ے گا اور پنجاب کا یہ لو ک گیت اپنے رس اور مٹھاس کے باعث اردو شاعری کی ایک مقبول صنف قرار پائے گا۔‘‘(۳۵)
حیدرقریشی کے پیش کر دہ تحقیقی نتا ئج سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے،کہ ماہیا اپنے اتبدائی دور میں یک موضو عی وصف کا حامل رہا ہے لیکن رفتہ رفتہ اپنے ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد اب ہر قسم کے تہذیبی و ثقافتی موضوع کو جذب کر نے کے قابل ہو چکا ہے۔ ماہیا تخلیقی امکانات رکھتا ہے اور ہر عہد میں لوگوں کی پسند ید گی کا مظہر رہا ہے۔
(۵) ماہیے کے مزاج کا مسئلہ
اُردو ادب میں ہر شعری صنف اپنا مخصو ص مزاج رکھتی ہے۔ غزل،قصید ہ ، پابند نظم ،ا ٓزاد نظم ، مثنوی ،مرثیہ ، رباعی ، گیت ، شہر آشوب اور ریختی میں جہاں موضوعاتی وسعت اور تنو ع کے رنگ بکھر ے نظر آتے ہیں وہاں اِن اصناف کے بد لتے مزاج بھی دعوت ِفکر دیتے ہیں ۔ یہ موضوع خاصی دل چسپی اور وسعت کا حامل ہے اور سنجید ہ ناقدین اور محققین نے اس پر قابلِ قد ر تحر یر یں یادگار چھو ڑی ہیں ۔ڈاکٹر وزیر آغا اس موضوع کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’ اُردو شاعری کے مزاج سے آشنا ہونے کے لیے اس بر صغیر کے سارے ثقافتی اور تہذیبی پس منظر کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے یہ اس لیے کہ شعر کا مزاج دراصل دھر تی کے مزاج سے تشکیل پذیر ہو تا ہے۔ ‘‘( ۳۶)
ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک دھر تی کا یہ مزاج دو نمایاں رخ رکھتا ہے:
’’ ایک وہ جو اس کے بنیاد ی اوصاف سے عبارت ہے، جس میں اس کی باس ، ذائقہ خنکی یا گرمی ازخود مستقل ہوتی اور ہمیشہ قائم رہتی ہے دوسرا وہ رخ جو بیر ونی اثرات کے تحت اُبھرتا ہے اور دھرتی کے مزاج میں ایک نئی سطح کا اضافہ کردیتا ہے۔ کسی ملک کی شاعری نہ صرف دھرتی کے بنیادی اوصاف کی عکا سی ہوتی ہے، بلکہ باہر سے آئی ہوئی کروٹوں کو بھی خود میں سمو لیتی ہے۔ ‘‘(۳۷)
اُردو شاعری کے حوالے سے یہ جا مع رائے ہے۔یہ رائے جہاں ہر ادبی صنف کی فہم میں بنیادی معلومات فراہم کرتی ہے وہاں اُردو اصناف کے پس منظر ی مطالعے کو بھی اہمیت دیتی ہے، ماہیے پر بھی اس کا اطلاق ہو تا ہے ۔ حیدرقریشی نے صنف ِماہیا پر تنقیدی اور تحقیقی حوالے سے جو موضوعات متعارف کرائے ان میں ماہیے کے مزاج کو بطو ر خاص اُجا گر کیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک:
’’ وزن ماہیے کے لیے جسم کا اور مزاج اس کے لیے روح کا درجہ رکھتا ہے ۔‘‘ (۳۸)
حیدرقریشی ماہیے کو زرعی معاشرے کی پیداوار خیال کرتے ہوئے اس میں سادگی اور خالص جذبے کی گہر ائی دیکھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک رمز وایما اور ابہا م بھی خاص تخلیقی رکھ رکھاؤ کے ساتھ قابل ِقبول ہے اور عورت کی فطر ی محبت اور رومان کا انداز بھی ماہیے کی تشکیلی جہت کا لازمی جز و ہے ۔ ماہیے میں ا ِنھی عناصر کی موجودگی کے باعث حیدرقریشی کا وہ تجز یہ قابلِ غور ہے جس میں ماہیے کی وسعت پر روشنی ڈالی گئی ہے:
’’ اُردو شاعری کی تین بڑ ی روایات، گیت ، غزل اور نظم مجھے
ماہیے میں یک جا ہوتی دکھا ئی دے رہی ہیں۔‘‘ ( ۳۹)
ماہیے کی روایت اور تاریخی ارتقا کو سامنے رکھا جائے تو مذکورہ بیان میں سچائی صاف نظر آجاتی ہے۔ ماہیا واقعتا ایک پراسرار صنفِ سخن ہے ، کیونکہ اس میں تعقل ، تخیل ، مسرت اور صد اقت کی لہر یں بیک وقت مو جزن رہتی ہیں۔ فنی نقطہء نظر سے بھی اس میں توازن پایا جاتا ہے۔ماہیے میں جہاں گیت کی طرح شدید جذبات جلوہ دکھاتے ہیں وہاں غزل کی ایمائیت اور اختصار کے رنگ وآہنگ بھی خاصے نمایاں ہیں نیز آزاد نظم کی وسعت اور موضوعاتی پھیلا ؤ کا علا قہ بھی قاری کے فکر و نظر کو متحر ک کرتا ہے۔
ڈاکٹر انور سد ید ماہیے کے مزاج پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ سہ مصرعی اصناف سخن میں اردو ماہیا کو گذشتہ چند برسوں کے دوران اس لیے زیادہ اہمیت ملی کہ اس میں مقامی ثقافت کی باس نمایاں ہے دو م یہ صنف سخن لوک مزاج اور موسیقی طراز ہے تیسر ی بات یہ کہ اس میں گیت کی طرح عورت کی کو ک بھی زیادہ سنائی دیتی ہے۔ (۴۰)
ڈاکٹر انو ر سد ید نے اپنے اس بیان میں ماہیے کے فنی اور تخلیقی اظہار یے کو گیت سے منسوب کرکے حید رقریشی کے نقطہء نظر کو تقویت فراہم کی ہے۔ ہمارے ہا ں عمو ما ًیہ بات سننے میں آئی ہے کہ ماہیے کے پنجابی تخلیق کار چونکہ اس صنف کے مزاج کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں لہٰذا وہ عمدہ ماہیے تخلیق کر رہے ہیں ۔اس نو ع کے دعو ؤں میں جزوی سچائی تو بے شک موجود ہے لیکن اس کا اطلاق ہر کسی پرکر نا درست نہیں ہے۔ حیدر قریشی نے معروضی حقائق کے تنا ظر میں نہایت وضاحت کے ساتھ یہ لکھ دیا ہے:
’’ جہاں تک ماہیے کے مزاج کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں کوئی حتمی بات
کرنا اس لیے مشکل ہے کہ یہ زیادہ تر اپنے اپنے ذوق پر منحصر ہے۔
خود پنجابی میں ایسے ماہیے موجود ہیں جنہیں مزاج کی کس خاص حد
میں لانا مشکل ہے، مثلا:
با گے وچ دریاں نیں
اﷲ میاں پاس کرے
اَساں فیسا ں بھر یاں نیں۔‘‘(۴۱)
حیدر قریشی اپنے موقف کی وضاحت میں مزید لکھتے ہیں:
’’ حمد ، نعت، منقبت والے ماہیے اور زندگی کے تلخ مسائل والے پنجابی ماہیے بھی اس مزاج سے خاصے مختلف ہیں جو پنجابی ماہیے کی عمو می پہچان ہے۔‘‘ (۴۲)
حیدرقریشی نے کس کی دل آزاری کیے بغیر اور کسی شاعر کا نام لیے بغیر یہ اُصولی بات کہہ دی ہے کہ بہت سے پنجابی شعرا پنجاب کا ثقافتی ورثہ ذہین میں تازہ رکھنے کے باوجود ماہیے کے عمومی مزاج کو یکسر نظر انداز کر کے ماہیے لکھتے رہے ہیں اور دوسری جانب یہ صورت حال سا منے آتی ہے :
’’ غیر پنجا بی ہونے کے باوجود بعض ماہیے کہنے والے بھی ایسے ما ہیے کہہ سکتے ہیں جو بڑی حد تک پنجابی مزاج کے مطابق ہوں۔‘‘(۴۳)
اس تجز یے کے حوالے سے درج ذیل مثالیں ملا حظہ ہوں:
(الف) اَمواج کے دھاروں تک
اپنی کہانی ہے
طوفاں سے کناروں تک ( نذیر فتح پوری ) (۴۴)
(ب) لفظوں پہ نہ جابابا
عقل کی باتیں کیا
سن دل کی صدا بابا ( رشید اعجاز ، مہاراشڑ) (۴۵)
حیدرقریشی کا ذہن تحقیقی اور تجز یاتی ہے وہ اپنا ہر تحقیقی دعویٰ مستند دلیل کی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔ شگفتہ الطاف اُن کی خدمات سراہتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’ جہاں حیدر قریشی کی موزوں شعری طبیعت نے بہت سے خوبصورت ماہیے تخلیق کیے وہاں فکر ی اعتبار سے ماہیے کی ہیئت ، مزاج اور عروضی پیمانے پر نقد و نظر کاکام بھی کیا ہے۔ (۴۶)
حیدر قریشی کے تحقیقی کا م کی نوعیت اجتہادی ہے، اُن کی مسلسل مساعی ٔجمیلہ کی وجہ سے ماہیے کو اس کا اپنا مقام مل گیا ہے۔ شاعری کی تمدنی تاریخ میں ماہیے کا خاص مقام بنتا ہے لیکن منتشر مفر و ضات اور قیا س آرائیوں کی وجہ سے یہ خواب پریشان ہوگیاتھا۔ یہ بات بذات خود حیر ت انگیز ہے کہ صدیوں سے رائج صنف کے خد وخال واضح نہیں تھے اور جب اسے واضح کرنے کے لیے درست اقدامات کیے گئے تو یا رلوگوں نے ہر ممکن طریقے سے راستے میں روڑے اٹکانا شروع کردیئے ۔ حیدر قریشی نے تمام مشکلا ت کا دانش مندانہ مقابلہ کیا اور خلوص نیت کے ساتھ ماہیے کی وضاحت وصراحت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کا م میں ریاضت زیادہ تھی اور صلہ و ستائش کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔
اب وہ دن آچکا ہے کہ اُردو ادب میں ایک مو ہنی صنف اپنا مستقل وجودقائم کر چکی ہے۔ دور جد ید میں ماہیا کی مقبولیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُردو دنیا کے ادبی رسائل وجرائد میں اس کی شمولیت عام سی بات بن چکی ہے اور شعرا کے مجمو عے بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔حیدر قریشی ماہیے کو ترقی اور نشو ونما کی راہ پر گامز ن دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے:
’’ اُردو ماہیے کے معیا ر کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ماہیے کے دامن کو وسیع کر نے کے عمل میں رکاوٹ ڈالے بغیر ماہیے کے مزاج کو برقرار رکھنے کی مثبت تلقین ساتھ ساتھ جاری رہنی چاہیے۔‘‘(۴۷)
حیدر قریشی کی اسی رجائیت نے ما ہیے کی بنیادوں کو مضبوط بنایا ہے اگر وہ ابتدائی مشکلا ت سے گھبر ا کر اس مو ضوع سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے تو شاید ماہیے کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکتا جو آج اُردو دنیا میں اسے مل چکا ہے۔ فردِ واحد کی کاوشوں نے تحر یک کی صورت ڈھل کر ماہیے کی بجھتی شمع کو ازسر نو زندگی عطا کر دی ہے۔
حیدر قریشی ماہیے کے روشن مستقبل سے ہمیشہ پر اُمید رہے ہیں اُن کی مخلصا نہ کو ششوں کا فیضا ن ہے کہ آج ماہیے کو درست وزن اور اصل مزاج کی پابندی کے ساتھ لکھا جا تا ہے، اور اس صنف سے وابستہ تخلیق کاروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
حیدر قریشی لکھتے ہیں:
’’ وزن اور مزاج کو ملحوظ رکھتے ہو ئے ماہیے کے موضوعات میں تبدریج وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ الفاظ کے برتاؤ صورت ِحال خوش کن ہے۔‘‘ (۴۸)
جیسا کہ پہلے بھی بات ہو چکی ہے کہ ماہیے پر دوسری اصناف، مثلا غزل اور گیت کے اثرات بھی واضح ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماہیے کے مجموعی مزاج یا خدوخا ل ان اثرات سے کس حد تک متاثر ہوں گئے؟ حیدر قریشی نے اس اہم سوال کا جواب دینے کی سعی کی ہے۔ ان کے مطابق:
’’ نظم ، غزل اور گیت کے اثرات اردو ماہیے کے تشخص کو ختم نہیں کریں گے بلکہ اسے تازہ خون فراہم کریں گے۔ ان اثرات سے ماہیے کا مزاج مزید بہتر ہو گا۔ (۴۹)
گو یا مذکورہ بالا تینوں اصناف ماہیے کے فطر ی میلا نات میں مثبت کردار اد ا کر یں گے ۔ ماہیے کی اصل دل کشی یہی ہے کہ وہ اپنی اصل ہیئت ، اُسلوب اور مزاج کو برقرار رکھتے ہو ئے دیگر اصناف سے استفا دے کا عمل جاری رکھے ۔
حیدر قریشی کا یہ مشورہ بھی صائب ہے:
’’ ما ہیے کے مزاج کے نام پر اس کے موضو عات کو محدود کر کے اسے تکر ار کا شکا ر بنانے سے بہتر ہے کہ اس کے مو ضوعات میں وسعت پیدا کی جا ئے ۔ موضوعات میں وسعت کے باعث اگر بعض نئے تجر بے کچے رہ جائیں یا
ناما نوس لگیں تو اُنہیں اس لیے برداشت کر لینا چاہیے کہ آگے چل کر ان ادھور ے یا کچے تجر بات سے نئے اور کامیاب تجر بات کی راہیں نکلیں گی۔‘‘(۵۰)
انھی معتدل رویوں کے باعث ماہیے کی تحریک پروان چڑھی اور بالا ٓخر کامیابی سے ہم کنا ر ہوئی۔ اگرابتدا ہی میں ماہیے کے ارد گرد تقدس کی جھو ٹی چادر تان لی جاتی تو ابھی تک یہ صنف محدود سطح پر ہی فعال رہتی اور ممکن ہے اُردو زبان میں آتے ہی اپنی موت آپ مرجاتی۔ حیدر قریشی اس صنف کے با نی تو نہیں ہیں لیکن جب کبھی اور جہاں کہیں ماہیے کا ذکر چلتا ہے تو ان کی تحقیقات کا حوا لہ لازماً آتا ہے ،یہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ لوگوں نے اُن کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کر لیا ہے۔
(۶) اردو میں ماہیے کا اصل بانی
ڈاکٹر خلیق انجم نے ادبی محقق کے تین اہم فرائض بیان کیے ہیں :
’’ ا۔ نئے حقائق کی تلا ش
۲۔ حقا ئق کی تصدیق یا تردید
۳۔ حقائق کی تشریح وتعبیر ۔‘‘(۵۱)
ایک سنجید ہ اور ذمہ دار محقق ان فرائض کی ادائیگی کے بعد پوشیدہ ادبی خزانوں کی بازیافت کرتا ہے۔ تحقیق کا اصل کا م ہی سچائی کی تلا ش ہے۔ جو تحقیق داخلی اور خارجی حوالوں سے خود مکتفی ہو وہی قبولیت کا شرف حاصل کر تی ہے اور علم و ادب کے نئے نئے پہلو سامنے لاتی ہے۔ معرو ضیت اور حقیقت پسندی کی بد ولت تحقیقی اُمور کی قدر بڑ ھتی ہے۔ یہ تمہید ی سطور لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ حیدر قریشی کے خالص تحقیقی کا موں کو بھی اُنھی اُصول وضوابط کی روشنی میں پرکھا جا ئے تاکہ ان کی تحقیقی کا وشوں کی اصل قدروقیمت سامنے آسکے۔
اُردو ادب میں یہ مسئلہ خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اُردو زبان و ادب میں ماہیے کا آغاز سب سے پہلے کس نے کیا تھا؟ اس ضمن میں تین نام باربار سامنے آ رہے تھے، مثلاً قمر جلا ل آباد ی، چراغ حسن حسر ت اور ساحر ؔ لد ھیا نوی۔ حیدر قریشی کے ابتدائی مضا مین دیکھنے کے بعد انداز ہ ہوتا ہے کہ اپنی ابتدائی تحقیقات میں وہ خود بھی کسی واضح نتیجے تک نہیں پہنچ پائے تھے ،تاہم اُنھوں نے اپنی تحقیقات کا سلسلہ جاری رکھا اور تما م ضروری شواہد جمع کرنے کے بعد ایک بھر پور مضمون لکھا جس کاعنوان ہے’’ اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما ‘‘ یہ مضمون اُن کی کتاب ’’اردو ماہیے کی تحر یک‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے،بعدا زاں مضمون کا یہی عنوان ان کی تیسر ی کتاب کا سرِ عنوان بھی بن گیا تھا ۔ اُن کی اب تک پیش کی جانے والی تحقیق کے مطابق ہمت رائے شرما اُردو کے پہلے ما ہیا نگار ہیں ذیل میں اُن کے تحقیقی نتا ئج کو متعارف کرایا جا رہا ہے۔
حیدر قریشی ماہیے کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے جب اپنے تحقیقی نتائج مرتب کر رہے تھے تو انھوں نے فلم ’’ پھا گن ‘‘ میں چند ماہیے سنے جو پنجابی وزن کے عین مطابق تھے۔ اس فلم کے پروڈیو سر اُردو ادب کے معروف ادیب راجندر سنگھ بید ی تھے اور ماہیوں کی صدا بندی اس عہد کے مقبول گلو کاروں محمد رفیع اور آشا بھو نسلے نے کی تھی ۔ گائے جا نے والے تمام ماہیے قمر جلا ل آبادی کے لکھے ہوئے تھے۔ ان میں سے صرف دو ماہیے بطو ر مثال درج کیے جاتے ہیں:
(الف) تم روٹھ کے مت جانا
مجھ سے کیا شکو ہ
دیو انہ ہے دیو انہ (۵۲)
(ب) فرصت ہو تو آجا نا
اپنے ہی ہاتھوں سے
مری دنیا مٹا جا نا (۵۳)
ان جیسے اور ماہیوں کی بنیاد پر حیدرقریشی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ـ:
’’ اب تک کی معلومات کے مطابق یہ ماہیے اُردو کے سب سے پہلے ماہیے ہیں جو پنجابی ماہیے کے وزن پر پورے اُترتے ہیں اس لحاظ سے قمر جلا ل آباد ی اُردو کے سب سے پہلے ماہیا نگارقرار پاتے ہیں۔‘‘(۵۴)
کچھ عرصہ گزارنے کے بعد جب تازہ تاریخی شواہد اور حقائق منظر عام پرآنا شروع ہو ئے تو اُن کے محولہ بالا موقف میں بھی واضح تبدیلی آگئی ۔حیدر قریشی نے اپنی کتاب ’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘ کے پیش لفظ میں کھلے دل سے اپنی گزشتہ تحقیقی غلطی کا اعتراف کیا اور نیا مو قف ان الفاظ میں پیش کیا:
’’ اُردو ماہیے کی تحر یک ابھی ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے ،کل تک
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ صرف فلم’’ پھا گن ‘‘ اور نیا دور میں قمر جلا ل آبادی
اور ساحر لدھیا نوی نے اُردو ماہیے لکھے تھے ۔ لیکن اب تک یہ حقیقت
سامنے آچکی ہے کہ اُن سے پہلے ہمت رائے شرما اور قتیل شفائی
نے فلم ’’ خاموشی ‘‘(انڈیا) اور فلم ’’ حسرت ‘‘ ( پاکستا ن) میں
اُردو ماہیے پیش کیے ہیں۔ ‘‘(۵۵)
اپنی تحقیقی غلطی مان لینا معمولی بات نہیں ہے ۔ لیکن وہ جانتے ہیں:
’’ تحقیقی معاملا ت میں حقائق مقدس ہوتے ہیں۔‘‘ ( ۵۶)
اس تحقیقی رائے کو قا ئم کرنے میں اُنھیں جن نشیب و فراز سے گزرنا پڑ ا اُس کا مکمل بیان ’’ اُردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شر ما ‘‘ میں ملا حظہ کیا جا سکتا ہے ۔
پروفیسر آل احمد سرور نے ’’کو ہسا رجرنل‘‘ (انڈیا) کے شمارہ دسمبر ۱۹۹۷ میں ایک مضمون لکھا تھا اور اس میں حمید نسیم کی خود نو شت سوانح ’’ نا ممکن کی جستجو‘‘ کو بنیا د بنا کر حیدر قریشی کے اس دعو ے کو رد کرنے کی کو شش کی تھی کہ ہمت رائے شرما کو اُردو ماہیا نگاری میں اولیت کا درجہ حاصل ہے، ا س کے برعکس سرورؔ صاحب نے یہ بیان دیا کہ جنو ری ۱۹۳۶ء میں چراغ حسن حسر ت نے مشاعرے میں جو ماہیے سنا ئے تھے اس کی وجہ سے اولیت کا سہر ا حسرت ؔکے سرجا تا ہے۔ اس بحث کے دوران حیدر قریشی جرمنی میں تھے لیکن انھو ں نے جب سرورؔ صاحب کے بیان کو جانچنے کے لئے اصل ما ٓخذ تک رسائی حاصل کی تو معاملہ کچھ اور نکلا ۔ اصل صورت ِحال حیدر قریشی کی زبانی سنیئے:
’’ مضمون کی اشاعت کے بعد اب مجھے ’’ناممکن کی جستجو ‘‘ کے متعلقہ صفحات ملے ہیں تو اندازہ ہوا کہ آل احمد سرور صاحب کو سہو ہوا تھا، کیونکہ حمید نسیم نے اس میں حسرتؔ کے ثلا ثی قسم کے گیت کو ما ہیالکھا ہے۔ ‘‘( ۵۷)
حمید نسیم کا بیان یا دداشت پر مبنی تھااور وہ جس مشاعرے کا ذکر کر رہے تھے اس کا کوئی اور دستاویز ی ثبوت تاحال دستیاب نہیں ہو سکا تھا۔دوسرا اہم نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ چراغ حسن حسر ت کے ثلاثی کو غلطی سے ماہیا فرض کر لیا گیا ہے، البتہ حمید نسیم کے بیا ن سے یہ ضرور ثابت ہو جا تا ہے :
’’ حسر ت کے ثلا ثی اور ہمت رائے شرما کے ماہیوں کی تخلیق کا وقت
تقریباًایک سا ہی بنتا ہے۔ شرما جی کے ماہیے ۱۹۳۶ء میں چھپے تھے۔‘‘( ۵۸)
حیدر قریشی نے اپنے نئے مو قف کی وضا حت کے لیے مضامین و مقالات کا جو سلسلہ شروع کیاتھا اُس میں پاک و ہند کے علاوہ جرمنی کے رسائل میں بھی اُن کی تحر یر یں تواتر کے ساتھ چھتی رہی ہیں ۔ اہم رسا ئل و جرائد کے نام یہ ہیں ’’اوراق‘‘ ( لاہور ) ،’’ انشا‘‘ ( کلکتہ) ،’’ جدید ادب‘‘( جرمنی)’’ شعروسخن‘‘( مانسہر ہ ، پاکستا ن)’’ گل کد ہ‘‘ ( سہسوان ) ’’روزنامہ منصف ‘‘( حیدر آباد) اور ’’و یکلی صدائے پوٹھو ہار‘‘(راولپنڈ ی) وغیر ہ ۔
حیدر قریشی کی کتاب ’’اُردو ماہیے کے بانی ، ہمت رائے شرما‘‘ میں کل آٹھ مضا مین شامل ہیں جو وقتا ًفو قتاً ادبی رسائل میں چھپتے رہے اور پھر کتا بی صورت میں جمع کر دیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں دستا ویز ی تحقیق کی مد د سے اُنھوں نے اپنا نقطۂ نظر اتنا مضبوط بنا لیا ہے کہ اب سرِ دست اس پر اضافہ دشوار ہے۔ ممکن ہے مستقبل میں آنے والی کوئی نئی تحقیق اولیت کا یہ تاج کسی اور کے سر سجا د ے۔اس کتاب کے پہلے مضمون ’’ اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما ‘‘ میں اُنھوں نے شرماؔ صاحب کا تعارف اِن الفاظ میں کرایا ہے :
’’ ہمت رائے شر ما جی ممتا ز فلم میکر کیدار شرما کے چھو ٹے بھا ئی ہیں ۔ جنہوں نے اپنے زمانے کے کتنے ہی مقبول فنکاروں اور ممتاز ٹیک نی شنز (Technicions) کو متعارف کر ایا ۔ ہمت رائے شرما جی بھی فلمی دنیا سے وابستہ رہے ۔ نغمہ نگار ، کہانی کار ، آرٹ ڈائر یکٹر او ر ڈائر یکڑ تک اُن کا اپنا طویل فلمی کیر ئیر ہے۔‘‘ (۵۹)
شرما جی نے ۱۹۳۶ء میں ایک فلم ڈائر یکٹ کی تھی جس کا نام ’’خاموشی‘‘ اُنھوں نے نہ صر ف ماہیے خود تخلیق کیے بلکہ فلم میں خود گا نے کا بھی ایک منفر د ریکارڈ قائم کیا ۔ انڈ یا کے معر وف نقا د ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گا نوی نے ان کا ماہیا :
ایک با ر تو مل ساجن
آکر دیکھ ذرا
ٹو ٹا ہوا دل ساجن ( فلم : خاموشی )
جب سنا تو شرما ؔکی ماہیا نگاری پر مضمون لکھا جو سہ ما ہی ’’کو ہسا ر جرنل ‘‘ بھا گل پور ، شمار ہ اگست ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا اور اس میں شرما جی کو ماہیے کے اولین بنیاد گزاروں میں شامل کر کے تحقیقی مسئلے کو نیا زاویہ عطا کیا ، لیکن یہ تحقیق محض مفر وضات پر مبنی تھی اور وہ اس سلسلے میں کوئی واضح دلیل یا دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کر سکے تھے۔ یہ فریضہ بعد میں حیدر قریشی نے ادا کیا اور ایک تحقیقی مفروضے کو مضبو ط تحقیقی دلائل پر استوار کر کے دکھا دیا ۔
ہمت رائے شرما کی اولیت صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتی تھی جب یہ ثابت ہو جاتا کہ انھوں نے اپنی فلم ’’ خامو شی‘‘ میں جو ما ہیے پیش کیے ان کا عرصہ ء تحر یر ۱۹۳۶ء کا زمانہ بنتا ہے۔ اس ضمن میں حید رقریشی دو اہم حوالہ جا ت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کا ذکر ’’ اردو ما ہیے کے بانی ہمت رائے شر ما ‘‘ میں موجود ہے۔ پہلا حوالہ رئیس الدین فرید ی ، مد یر’’ روزنامہ ہند‘‘(کلکتہ )کا ہے جن کا مضمون ماہنامہ ’’انشا ‘‘ ( کلکتہ ) شمارہ اکتوبر ، نو مبر ۱۹۹۱ء میں طبع ہو ا تھا۔ اس مضمون میں اُنھوں نے جو کلید ی جملہ لکھا اس کی وجہ سے تحقیقی بحث کو راست سمت نصیب ہوئی۔ جملہ ملاحظہ ہو:
’’ ہمت رائے شر ما ۱۹۱۹ء میں پنجاب کے مردم خیز ضلع سیا لکو ٹ کے مشہور قصبے نارووال میں پیدا ہوئے۔ صر ف ۱۷ سال کی عمر میں ’’خاموشی‘‘ نامی فلم کے گیت لکھ ڈالے۔‘‘ (۶۰)
۱۹۸۴ء میں ہمت رائے شرما کا شعری مجمو عہ ’’ شہاب ِثاقب ‘‘ سامنے آتا ہے اس کے فلپ پر بقول حید رقریشی یہ رائے در ج تھی:
’’ ہمت رائے شرما ایک باکمال فنکار ہیں ۔۔۔۱۷ سال کی عمر میں فلم ’’خاموشی‘‘ کے گیت لکھے۔ ‘‘(۶۱)
مذکورہ بالا بیانات کی روشنی میں حیدر قریشی نے یہ منطقی نتیجہ اخذ کیا :
’’ ان دونوں شواہد کی روشنی میں جو خود ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ۱۹۱۹ء میں ۱۷ سال جمع کیے جائیں تو فلم ’’ خامو شی ‘‘ کے ماہیے لکھنے کا سال ۱۹۳۶ء ثابت ہے۔‘‘ (۶۲)
حیدرقریشی نے مفروضات کی جانچ پڑ تا ل کی خا طر تحقیقی عمل کے تمام تقاضے پورے کیے ہیں۔ ان کے پیش کر دہ شواہد ، دلا ئل اور نتائج سے صرف اسی صورت اختلاف ممکن ہے جب مستقبل میں کوئی ایسا شاعر دریافت ہو جا ئے جس نے ۱۹۳۶ء سے قبل اُردو زبان میں ماہیے کہے ہوں ۔ ورنہ اُصولی اور تحقیقی حوالوں کی روشنی میں موجودہ نتائج ہر اعتبار سے کا فی و شافی ہیں۔
محققین کا عمومی رویہ یہ ہوتا ہے کہ جب اُنھیں مطلوبہ شواہد مل جا ئیں تو وہ پھر مزید ثبوت حاصل کرنے کی سعی نہیں کرتے ۔ حیدرقریشی نے اپنی تحقیق مستحکم کرنے کے لیے فلم ’’ خاموشی ‘‘ کاوہ کتابچہ بھی ڈھو نڈ نکلا جس میں فلم ریلیز ہونے کازمانہ درج تھا۔ یہ کتابچہ شرما جی نے بڑی محنت سے تلاش کر کے اس کی فوٹو کاپی حیدرقریشی کو ارسال کی تھی، اس پر اُردو ، انگر یز ی اور ہندی زبانوں میں فلم کی پروڈکشن کے حوالے سے تمام ضروری معلومات لکھی ہوی تھی اس میں انگریز ی کی درج ذیل عبارت خاص اہمیت رکھتی ہے:
Producer under the banner of talwar productions ( under new managemant) May , 1936(63)
حیدرقریشی کی تحقیقی جستجونئے شواہد کی جمع آوری میں بڑی معاو ن ثابت ہوئی،مسلسل غور وفکر اور ما ہیے سے بے پنا ہ محبت کی بدولت اس اہم صنف پر ان کی آراء کو اب ساری اُردو دنیا میں قدر کی نگا ہ سے دیکھا جا تا ہے۔ اسماعیل گو ہر لکھتے ہیں:
’’ حیدرقریشی نے تخلیقی وتنقیدی دونوں لحاظ سے ماہیے کی تحر یک کو آگے بڑ ھانی
میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہ اپنے مؤ قف کو ہر فورم پر مضبوط ثابت کرنے کی
انفرادی کا وشوں کے ساتھ ساتھ اپنے مؤقف کے حامی ما ہیا نگاروں اور نقادوں
کو منظم رکھنے میں بھی بڑ ے سرگرم رہے ہیں۔ ‘‘(۶۴)
یہ بیان صداقت پر مبنی ہے ۔حیدرقریشی نے ماہیے کی تحر یک میں جو نمایاں کردار ادا کیا اس کی وجہ سے جہاں اُن کے نئے دوستوں میں اضافہ ہوا وہاں نئی دشمنی کے محاذ بھی کھل گئے لیکن حیدرقریشی نے کسی مقام پر ذاتی عناد کا رویہ نہیں دیکھا یا ۔ اگر کسی نے ذاتیات پر اُتر کر کوئی بات کہی بھی تو اس کا جواب ہر ممکنہ شائستگی سے دیا ہے ۔ماہیے کی تحر یک میں حیدرقریشی چوں کہ نمایاں حیثیت میں سامنے آئے تھے لہٰذا ہر کسی کا روئے سخن اُنھی کی جانب تھا۔ پروفیسر نذرخلیق اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’ اردو ماہیے کے بارے میں اب تک جتنے مباحث ہو چکے ہیں ، وہ مباحث اختلاف کو اُبھا رنے والے ہوں یا اتفاق رکھنے والے ہوں حیدرقریشی ان تمام مباحث میں مرکزی کردار رہے ہیں (۶۵)
حیدرقریشی نے اپنی مرکزی حیثیت کو محنت ، اُصول پسند ی اور اعلی تحقیقی روایات کی بدولت مستحکم بنالیا تھا۔
(۷) ماہیے کے فروغ میں خواتین کا حصہ
پروفیسر عبدالستار دلوی، محقق کے اوصاف پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ محقق کے کام کی ابتدا تجسس سے ہوتی ہے ۔پیچیدہ حالات اور انسانی زندگی میں رُونما ہونے والے مسائل کے بارے میں وہ ایک پُر تجسس اشتباہ کا احساس کر تا ہے۔ اس سے ایک ذہنی کش مکش پیدا ہوتی ہے، اسی مقام پر حالات کے متعلق ایک متعینہ نتیجے تک پہنچنے کی زبر دست ضرورت کا احسا س ہوتا ہے۔ اور یہی چیز اس کے لیے باعثِ تحریک بنتی ہے۔‘‘ (۶۶)
حیدرقریشی کی تحقیقات میں یہ مثبت عنا صر بدرجہ اتم موجودہیں۔ ماہیے کی تحر یک میں جہاں ان کا ذوق ِتکمیل خضرِ راہ کا فریضہ انجام دے رہا تھا وہاں اُن کی قوت ِاستدلال ، خود اعتمادی اور تو ضیحِ فکر، حقائق کی فراہمی میں ہمدرد معاون ثابت ہوئے۔ یہ ان کی ذہین فعالیت اور وسیع التطری کا منہ بو لتا ثبوت ہے کہ اُنھوں نے جہاں مرد ماہیا نگاروں کی تخلیقی کاوشوں کو متعارف کرایا ، وہاں خواتین کی ادبی خد مات کو بھی خراج تحسین پیش کیا ۔ وہ صنفِ ماہیا میں صنف ِنازک کے اہم قدیمی کردار کا تذکر ہ کرتے ہوئے بتا تے ہیں:
’’ پنجابی ثقافت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ما ہیے میں عورت کی آواز مرد کے مقابلے میں زیادہ اُبھر ی ہے اس کی دیگر وجوہات کے علا وہ ایک اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شادی بیاہ اور دوسری گھر یلو تقریبات میں رنگ جمانے کے لیے خواتین ماہیے گاتی ہیں اسی لیے پنجابی ماہیے میں عورت کی آواز زیادہ طاقتور محسو س ہوتی ہے۔‘‘ (۶۷)
آپ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں:
’’ ا ردو ماہیے کے فروغ میں ماہیا نگار خواتین کا قابل قد ر حصہ ہےـ۔‘‘ (۶۸)
خواتین ماہیا نگاروں کے حوالے سے حیدرقریشی کی تحقیقات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،یعنی اُنھوں نے ایک طرف تو تنقید نگار خواتین کو متعارف کرایا اور دوسری جا نب تخلیق کار خواتین کی کاوشوں کو بڑے ادبی حلقے تک پہنچایا۔ جن خواتین کے تنقیدی کام کو حیدر قریشی نے اہمیت دی اُن کے نام مع مضامین کچھ یوں ہیں۔(۱) شاہد ہ ناز ،’’ ماہیے کی بحث کا منظر نامہ ‘‘( مضمون) (۲) غزالہ طلعت ،’’ ماہیے کی ہیئت ا ور وزن‘‘ ( مضمون) (۳) ثر یا شہا ب ، گلبن کا ماہیا نمبر ( احمد آباد، انڈیا )، (۴) ڈاکٹر جمیلہ ہاشمی ،’’عالمی تنا ظر میں اردو ماہیے پر ایک طاہر انہ نظر‘‘ (۵) نصر ت یاسمین ،’’ ماہیا اُردو ماہیا اور ضمیر اظہر ‘‘،(۶) شگفتہ الطاف ، ’’حیدرقریشی کی ماہیا نگاری ‘‘(۷) صبا خورشید،’’ اُردو میں ماہیا نگاری‘‘ مذکورہ تمام لکھا ریوں کی تحر یریں کتابی صورت میں محفوظ ہو نے کے علاوہ پاک وہند کے اہم ادبی رسائل مثلاََ’’ اوراق‘‘ ،’’ صر یر‘‘ ،’’ گلبن ‘‘، ’’بھنگڑا‘‘ ،’’ قرطاس‘‘، ’’نیر نگ خیال‘‘ اور سہ ماہی’’ علم وفن‘‘ میں اشاعت پذیر ہوتی رہی ہیں۔
تخلیق کار خواتین کے زمرے میں دو طرح کی خواتین سامنے آتی ہیں یعنی کم لکھنے وا لی خواتین اور مسلسل لکھنے والی خواتین ۔ حیدرقریشی کی تحقیقی روش اور وسیع القلبی کی بدولت ان دونوں کا ذکر ملتا ہے: یہ مثال ملا حظہ ہو:
’’ میں ایسی چند شاعرات کے نام ضرور درج کر وں گا جنھوں نے تھو ڑے ماہیے کہے لیکن جتنے کہے اس سے ماہیے میں خوبصورت اضافہ ہی کیا ۔‘‘ (۶۹)
اس تقسیم کے تحت پاک و ہند کی درج ذیل خواتین کا ذکر اہم ہے۔
’’پر بھا ماتھر ، صابر ہ خاتون حنا، کا منی دیوی، انیتا مروند ی ، رقیہ منیر ، زبید ہ صبا
، عفرا قریشی ، نز ہت سمن ، انیلا سحر ، شگفتہ یا سمین غزل ، مصباح مرزا ، یاسمین مبارک ،
رخسانہ نور ، شاہد لطیف ، عظمیٰ ناز، فرحت نسیم ہاشمی ، کو ثر صدیقی اور نینا جوگن ۔‘‘(۷۰)
اگر حیدرقریشی ان خواتین کا ذکر نہ بھی کرتے تب بھی کچھ خاص فرق نہیں پڑ تا تھا لیکن ان کی تحقیقی دیانت داری اس بات کو گوارا نہ کر سکی کہ خواتین کے اس چھو ٹے گروہ کو بھی نظرانداز کردیا جا ئے۔
ایسی خواتین جو مسلسل ماہیے کے ساتھ منسلک رہیں، اُن کی تعداد بھی خاصی ہے لہٰذا صرف ضروری نام درج کرنے پر اکتفا جا ئے گا۔اس حوالے سے حیدرقریشی کی پیش کردہ تحقیقات کا خلا صہ درج ذیل ہے۔
ابتدائی ماہیا نگار خواتین میں غزالہ طلعت ، فرحت نواز اور منزہ اختر شاد ، اس کے بعد شاہدہ ناز ، صد ف جعفری اور بسمہ طاہر اُ بھرتی ہوئی ماہیا نگار نظر آتی ہیں ، ثریا شہا ب ، سلطا نہ مہر ، اور عذرا اصغر کی تخلیقی کاوشوں نے رنگ جمانا شروع کر دیا ۔ یاسمین سحر اور پر ذوق صنم نے اردو ماہیوں میں پنجابی ثقافت کو آمیز کرنے کا کامیاب تجر بہ کیاہے ۔شبہ طراز ، کو ثر بلوچ ،نازیہ رحمان ، اختر بانو ناز ، اور مطلوب بی بی نے ماہیے کی تحر یک آگے بڑ ھانے میں خاصی جد وجہد کی تھی۔ معروف افسانہ نگار اور ناول نگار بشری رحمن نے بیسیوں اُردو ماہیے لکھے۔ برطانیہ سے رضیہ اسماعیل ، سری نگر سے نسرین نقاش ،گوجرانوالہ ریحانہ سرور اور اسلام آباد سے ثروت محی الدین نے تواتر کے ساتھ ماہیے تخلیق کیے اور اپنے مجمو عے بھی مرتب کیے۔ جن خواتین نے ماہیے لکھنے کا سلسلہ کم یا ترک کردیا تھا اس کی وجہ ان کی گھر یلو مصروفیات ہو سکتی ہیں، بقول غزالہ طلعت:
شادی کے جھمیلے میں
شعروادب چُھو ٹا
بس ایک ہی ریلے میں (۷۱)
خواتین ماہیا نگاروں نے جن موضوعات سے تعرض کیا اس پر حیدرقریشی نے جامعیت سے بات کی ہے ان کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ خواتین نے اپنی پسند کے مطابق کچھ اس قسم کے مو ضوعات کو زیادہ برتا ہے: کراچی کے حالات ، بابری مسجد کی شہادت ، فرقہ پر ستی ، ملکی بدامنی ، مسلہ کشمیر ، ترقی پسندی ، ایٹمی جنگ کے خدشات ، شہر ی زندگی ،عشق و محبت،شادی بیاہ کے مسائل اورسماج کی بدلتی اقدار وغیر ہ ۔
چند مثالیں ملاحظہ ہو ں:
٭ ہم سب کو دُکھا یا ہے
تو ڑ کے مسجد کو
دل مندر ڈھایا ہے ( اختر بانو ناز ) (۷۲)
٭ دھر تی ہے چنا روں کی
ہو لی نہیں کھیلو
اس میں انگاروں کی ( شاہد ہ ناز) (۷۳)
٭آنکھوں میں ستارے تھے
تم نے کبھی سمجھا
جو من کے اشارے تھے ( نگار سجا د ظہیر ) (۷۴)
٭ بستی ہے کسانوں کی
پھو لی ہوئی سرسوں
اور فصل ہے دھانوں کی ( عذرا اصغر ) (۷۵)
٭ پازیب چھنکتی تھی
اس کی ہنسی تھی یا
کوئی دھنک چمکتی تھی ( فرحت نواز) (۷۶)
حیدرقریشی نے خواتین افسانہ نگاروں کے ہا ں موضوعاتی تنو ع دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے :
’’خواتین ماہیا نگاروں کے ہاں عصری حیثیت کتنی توانا ہے تاہم ماہیے کاوہ عمو می مزاج جو غنا یت سے لبر یز ہے خواتین ماہیا نگار اُس سے بھی بے خبر یا بے تعلق نہیں ہیں۔ جہاں سیاسی و سماجی شعور رکھنے والے ماہیوں میں ماہیا نگار خواتین کی ترقی پسند سوچ اپنا اثر دکھا تی ہے وہیں محبت کے مضمون سے جڑے ہوئے ماہیوں میں پنجابی لوک رس کا جادو متا ثر کرتا ‘‘(۷۷)
اگر غیر جانب داری سے دیکھا جا ئے تو خواتین کی تخلیقی اور تنقید ی کاوشوں کی بدولت ماہیے کی صنف راست سمت میں نشوونما پاتی رہی ہے۔ ماہیے کی روایت میں نئے اور اہم موضو عات کا داخلہ بھی خواتین کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔ حیدرقریشی نے اپنی تصانیف میں خواتین کی گراں قدر خد مات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے یہ ایک کامیاب محقق کی نشا نی بھی کہ وہ ہر قسم کے مواد کو سامنے رکھ کر نتائج مرتب کرے ، فکر و نظر کی یہی صفت معتبر تحقیق کا راستہ ہموار کرتی ہے۔
(۸) ماہیا اور ادبی رسائل
حیدرقریشی نے صنفِ ماہیا کی ترویج ، ترقی، نشوونما اور مقبولیت پر نظر رکھنے کے لے معا صر ادبی رسائل کو اپنی تحقیقات کا لازمی حصہ بنا یا ہے ۔ ماہیے پر ہونے والا تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی کا م کا بڑا ذریعہ ادبی رسائل وجرائد ہی تھے، اگر چہ جامعات میں اس موضوع پر کام ہو ر ہا تھا لیکن اس کی رفتارخاصی سُست تھی۔ حیدرقریشی نے اپنے مکاتیب اور مضامین و مقالات کی مدد سے ادبی مباحث کو آگے بڑھا یا ۔ اگر ماہیے کی تحر یک کے اولین دور پر نظر کی جا ئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ تقریبا ً۱۹۹۰ء میں شروع ہو گیا تھا اور اپنے عہدے کے معروف رسائل مثلا َ سہ ماہی’’ ابلا غ‘‘ ، ماہنامہ ’’تجدید نو‘‘ ، سہ ماہی’’ اوراق‘‘ ،ماہنامہ ’’صریر‘‘ ، ماہنامہ شاہین ( گوپن ہیگن )’’ تخلیق ‘‘، ’’ارتکاز‘‘ ،’ ’الفاظ‘‘ ، ’’ کو ہسار‘‘،’’ تیر نیم کش‘‘( مراد آباد) ،’’ جدید اسلوب‘‘،’’ کتاب نما‘‘( دہلی) ،’’ عوامی منشور‘‘ ،’’ اردو ادب‘‘،’’ اقدار‘‘ ( کراچی ) ، دو ماہی’’ گلبن‘‘ ( احمد آباد )’’ ادب لطیف ‘‘، ’’ایوان اردو‘‘ ( دہلی ) ، ماہنامہ’’ سخنور‘‘ ( کراچی ) اور سہ ماہی’’ اسباق‘‘ ( پونہ) وغیر ہ میں ا دبی معرکہ فکر و نظر کے نئے چراغ روشن کر رہا تھا۔ حیدرقریشی کی تصنیف ’’اُردو ماہیے کی تحر یک‘‘ میں کئی مضا مین ایسے ہیں جن میں معاصر ادبی رسائل کی خدمات کا ذکر کیا ہے،ا ور ماہیے کے فروغ میں ان کے مثبت کردار کو سراہا گیا ہے، اس نوع کی تمام تفصیلا ت کے لیے درج ذیل مضامین کا مطالعہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ تما م مضامین ’’اُردو ماہیے کی تحر یک‘‘ طبع ۱۹۹۹ء میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
۱۔ خط بنام ایڈیٹر تجدید نو ، لاہور
۲۔ اُردو ماہیا ۔۔۔۔کل اور آج
۳۔ خط بنام ، ایڈ یٹر ،ماہنامہ ، صریر ، کراچی
۴۔ اردو ماہیا ۱۹۹۷ء میں
۵۔ خط بنام ، ایڈ یٹر’’ اوراق‘‘ ، لاہور
۶۔ ایڈ یٹر ، ایوان اردو ، دہلی کے نام
۷۔ اردو ماہیا ۱۹۹۸ء میں
ان کے علاوہ ماہیے کے مبا حث ( مشمو لہ کلیات ) میں بھی چار ایسے کلید ی مضا مین موجود ہیں جن میں ادبی رسائل کا ذکر بار بار ملتا ہے۔ ان مضامین کے نام یہ ہیں :
۱۔ اُردو ماہیے کے د س سال
۲۔ ’’اوراق‘‘ اور ماہیا
۳۔ اُردو ماہیا ۱۹۹۹ء میں
۴۔ ’’نیر نگ خیال‘‘ کا ما ہیا نمبر
ان مضا مین میں تحقیق اور بحث مبا حثے کا رنگ ایک ساتھ نظر آتا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:
’’ سہ ماہی ’’اوراق‘‘ کے شمار ہ دسمبر ۱۹۹۰ء میں میر ے خط میں ممتاز عارف کے موقف کی بھر پور تائید کی گئی اور ساتھ ہی جملہ ’ ماہیا نگاروں ‘ کو یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ مل کر طے کر لیں کہ اُردو ماہیے کو اصل پنجابی ماہیے کی طرح رکھنا ہے یا اس کا حشر بھی ہائیکو جیسا کر انا ہے۔‘‘ (۷۸)
حیدرقریشی کے ان مضامین کا نمایاں پہلو اختصار، وضاحت اور قطعیت ہے، یہ مثال دیکھئے:
ماہیا نگاری کے مختلف رویوں میں پنجابی مزاج اور پنجابی لفظیات سے مزین اُردو ماہیے کہنے کا رویہ مقبول رہا تاہم پنجابی لفظیات سے ہٹ کر بھی بے حد عمدہ ماہیے کہے گئے پنجاب سے جغرافیائی لحاظ سے دور دراز کے علاقوں میں ایک طرف نامانوس قسم کے ماہیے سامنے آئے تو دوسری طرف بعض ماہیے حیرت انگیز طور پر ماہیے کی مانوس فضا لیے ہوئے تھے۔‘‘ (۷۹)
کسی ایک موضوع کے متعلقات کو معا صر اور ادبی رسائل میں تلا ش کرنا اور مطلوبہ مواد کو تحقیق و تنقید کی کسوٹی پر پرکھناآسان بات نہیں لیکن حیدرقریشی نہایت صبروضبط اور تما م تحقیقی آداب کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آگے بڑ ھتے چلے گئے ۔ رشید حسن خان نے معیاری تحقیق کے جو اصول وضع کیے حیدرقریشی کا تحقیقی کا م اس کا عملی ثبو ت ہے۔انھوں نے کہا تھا:
’’ تحقیق بے حد صبر آزما کا م ہے عجلت اور خفیف الحرکاتی اس کو
راس نہیں آتی اور بل ہو سی سے اسے بیر ہے۔‘‘ (۸۰)
تحقیق کے حقیقی مقاصد صرف اسی صورت میں سامنے آسکتے ہیں جب جمع شدہ مواد سے کوئی واضح اور منظقی نتیجہ بھی اخذ کیا جا ئے کیونکہ :
’’ جب تک محقق خام مواد سے کوئی نقطہ نظر نہ بنا سکے گا۔ اس وقت تک خام مواد بے کار ہے گا۔ ‘‘ (۸۱)
حیدرقریشی نے ادبی رسائل کے مندرجات کو بطو ر تحقیقی آلات استعمال کیا ہے اور دوسروں کا نقطۂ نظر سمجھنے کے علا وہ اپنا زاویۂ نظر بھی سامنے لایا ہے، ادبی رسائل نے ان کے مؤقف کو عام کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
(۹) حیدرقریشی کے مصاحبے اور تحقیقی زاویے
حیدرقریشی کی ادبی مصروفیات کا بڑ ا حصہ ماہیے کی تحقیق وتنقید پر صر ف ہو ا ہے اور اس ضمن میں جہاں نجی خطو ط ، مضامین ، مقالا ت اور کتابوں میں اظہا ر خیال کیا گیاوہاں مصاحبوں (Interviews) کے توسط سے بھی اپنے من پسند موضوع کے تانے بانے جوڑنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان تمام مصاحبوں کو ہم دو حصو ں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ حصہ اول میں وہ تمام مصاحبے شامل کیے جاسکتے ہیں جو براہِ راست حیدرقریشی سے لیے گئے تھے جبکہ حصہ دوم میں وہ مصاحبے آجاتے ہیں جو حیدر قریشی کے بارے میں ان کے قریبی احبا ب سے لیے گئے تھے۔ اس کی مکمل تفصیل کچھ یوں ہے:
(الف) حصہ اول: ( حیدرقریشی سے لیے گئے مصاحبے)
حیدرقریشی سے جن احباب نے انٹر ویوز لیے ان میں جو گند رپال ، ڈاکٹر صابر آفاقی ، سلطانہ مہر ، ثریا شہاب ،محمد وسیم انجم ، اختر رضا سلیمی ، جواز جعفری ،افتخار امام صدیقی اور نذر خلیق شامل ہیں۔
(ب) حصہ دوم: ( حیدرقریشی کے بارے میں ادبی احبا ب کے مصاحبے)
اس میں ڈاکٹر سعادت سعید ( انقرہ ، ترکی)پروفیسر فرحت نواز( رحیم یار خان) احمد سہیل ( امریکہ) خورشید اقبال(انڈیا ) رضیہ اسماعیل( برطانیہ) کاشف الہد یٰ ( امریکہ) اور محمد آصف خواجہ ( ڈنمارک) خصو صا ًقابلِ ذکر ہیں۔
حیدرقریشی کے قریبی دوست سعید شہاب نے ان تما م انٹر ویوز کو کتابی صورت میں بعنوان ’’حیدرقریشی سے لیے گئے انٹرویوز ‘‘ شائع کر دیا ہے۔ یہ کتاب نظامیہ آرٹ اکیڈ می ، ہا لینڈ ، ۲۰۰۴ء میں شا ئع کر دی تھی۔ ان انٹر ویوز میں سر راہے بہت سے ایسی باتیں آگئی ہیں جو گذشتہ تحقیقات کی یا تو تویثق کر تی ہیں یا نئے انداز سے روشنی ڈالتی ہیں مثلا ً،ڈاکٹر صابر آفاقی نے حیدرقریشی سے دورانِ گفتگو یہ سوال پو چھتے ہیں:
’’ اُردو ماہیے کے حوالے سے آپ اب سند کا مقام رکھتے ہیں ۔ اُردو ماہیے کی بعض خصو صیات بتائیں گے۔‘‘ (۸۲)
حیدرقریشی نے اس کے جواب میں دو اہم اور بلیغ اشارے کیے ہیں :
(الف) ایک اہم ترین خصو صیات ماہیے کی یہ ہے کہ یہ تخلیق کار کو خلا سے اُتار کر زمین پر لاتا ہے۔ ماہیے میں زندگی اور دھر تی سے گہر ی وابستگی ہے۔ پھر اس میں ژولید ہ ابہام گوئی کی قطعا ًکوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ (۸۳)
(ب) ’’ جب جد ید شاعری کے نام پر انتہا پسند تجر بوں کے ذریعے ہمارے انتہا پسند تخلیق کاروں نے شاعری کا رشتہ معنویت کی بجائے لا یعنیت سے جوڑ لیا تھا ، ادب دھر تی سے کٹ کر خلا میں معلق ہو گیا تھا۔ ایسے حالا ت میں ماہیے نے نہ صرف اپنی دھر تی کی اہمیت کا احسا س دلا یا ہے بلکہ بامعنی تخلیق کے لیے لفظ و معنی کے ہم رشتہ ہونے کی ضرورت کا احساس بھی دلا یا ہے۔‘‘ (۸۴)
حیدرقریشی ایک سچے اور کھرے محقق ہیں ۔ انھوں نے جہاں معروضی حوالے سے ماہیے کی نمایاں خصو صیات کو اُجا گر کیا وہاں عہد حاضر کی لایعنی ادبی اقدار پر بھی چو ٹ کی ہے ۔ وہ کسی شئے کی بے جا مد ح سرائی کے برعکس مثبت تخلیقی اور تحقیقی کاوشوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ وہ خود بھی ماہیے کے فروغ اور امکا نات پر مسلسل سوچ بچا ر کر رہے ہیں لہٰذا ان کی بات میں بڑا وزن محسوس ہوتا ہے۔ ماہیے کی شنا خت قائم کرنے کے لیے اُنھوں نے میں طویل جدوجہد ، لگن اور محنت کو مشعل راہ بنا یا ہے۔
محمد وسیم انجم کے انٹرویوز میں حیدرقریشی ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ اُردو ماہیے کو میر ی وجہ سے فائد ہ بھی ہوا اور نقصان بھی پہنچا ہے فائد ہ تویہی کہ ماہیا ایک تحر یک کی صورت اختیار کر گیا۔ نقصان یہ ہو ا کہ مجھ سے کسی کو کوئی ناراضگی تھی کوئی برہمی تھی تو اس کا بدلہ لینے کے لیے ماہیے کو زد پر رکھ لیا گیا ۔‘‘ (۸۵)
علمی اور ادبی مباحث میں اس نوع کے غیراخلاقی رویے دل آزادی کا باعث بنتے ہیں ،لیکن حاسید ین کی باتوں نے کبھی ان کے راستے میں رکاوٹ پیدا نہیں کی بلکہ وہ ہرقسم کی مخالفت سے بے نیاز اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے رہے ۔ انھی کاوشوں کی وجہ سے آج اُردو دنیا میں ماہیا اپنی اصلی شناخت کے ساتھ جلو ہ گر ہے ۔ سینکڑوں شعرائے کرام نے ماہیے کو اپنایا جس کا ثبوت ادبی رسائل میں بکھرا نظر آتا ہے۔ اب تو دوسری ادبی اصناف کی مانند ماہیے کے مکمل مجمو عے بھی تواتر سے اشاعت پذیر ہو کر اہلِ سخن سے داد وصول کر رہے ہیں۔
(۱۰) ماہیے کے سالا نہ تحقیقی جائزے
حید رقریشی ایک اَن تھک محقق ہیں اور وہ ماہیے کی نشوونما اور ارتقائی مراحل پر گہر ی نظر رکھے ہو ئے ہیں، اس ضمن میں وہ سالانہ جائزوں کے ذریعے صنف ِماہیے کے بدلتے رحجانات کا تجز یہ بھی پیش کر تے رہتے تھے۔ ان کے ایسے کئی مضامین اور جائزے شائع ہو چکے ہیں جس میں ماہیا کی عہد بہ عہد ترقی کا احوال ملتا ہے تاہم درج ذیل جائزے زیادہ اہمیت کے حا مل ہیں۔
۱۔ اُردو ماہیا ۱۹۹۶ء میں ( مشمولہ اُردو ما ہیے کی تحر یک)
۲۔ اُردو ماہیا ۱۹۹۷ء میں ( مشمولہ اُردو ما ہیے کی تحر یک)
۳۔ اُردو ماہیا ۱۹۹۸ء میں ( مشمولہ اُردو ما ہیے کی تحر یک)
۴۔ اُ ردو ماہیا ۱۹۹۹ء میں ( مشمولہ اُردو ما ہیے کے مبا حث)
۵۔ اُردو ماہیا کے دس سال ( مشمولہ اُردو ما ہیے کے مبا حث)
محولہ بالا سالانہ جائزوں میں ہر قسم کی اہم معلومات مل جا تی ہے۔ حید رقریشی نے یہ کو شش کی ہے کہ وہ صنف ماہیا کے حوالے سے ایسے تمام پہلوؤں کا احاطہ کریں جس کا فائد ہ نہ صرف نئے لکھنے والوں کو پہنچے بلکہ آنے والا محقق بھی ان اعدادو شمار سے استفادہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان جائزوں میں نئے لکھنے والوں کا ذکر، تازہ شعری مجموعوں کا احوال، ماہیے کے حوالے سے شعرا اور تقر یبا ت کی روداد ، نئے تجر بات و اسالیب ، ادبی رسائل و جرائد میں ماہیے کی پذیرائی ، ماہیے کے موضوع پر لکھے جانے والے تحقیقی اور تنقید ی مقا لات کا حوالہ ، اخبارات ، ریڈ یو اور ٹیلی ویژن پر ماہیے کی مقبو لیت اور آخر میں ماہیے کے مخالفین کا ذکرِ خیر غرض سبھی کچھ اس میں سبھی کچھ شامل ہوتا ہے وہ اپنے مضمون ’’ اُردو ماہیا ۱۹۹۶ء میں‘‘ یہ خوش سنا تے ہیں:
’’ ۱۹۹۶ء کا سال پہلے پانچ برسوں کے مقابلے میں اُردو ما ہیے کے لیے کئی
پہلوؤں سے زیادہ متحرک ، فعال اور اہم سال ثابت ہوا ․․․․․اس برس درست
وزن کی ماہیا نگاری کے فروغ کے ساتھ ماہیے کے مزاج کا مسئلہ نمایاں ہوا
بعض دوستوں نے بجا طور پر اس طرف توجہ مبذول کرائی۔‘‘ (۸۶)
اس مضمون میں نثار ترابی اور ارشد نعیم کے اُن رویوں کی مذمت بھی کی گئی ہے جس کی وجہ سے ماہیے کی بحث غلط سمیت میں گامزن ہوتی جارہی تھی۔ نئے ماہیے لکھنے والوں میں مشتاق احمد ، ذوالفقار احسن ، شاہد ہ ناز ، ڈاکٹر صابر آفاتی ، احمد حسین مجا ہد ،شوکت مہد ی ،قاضی اعجاز محور ، اجمل پاشا اور آل عمران کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا کہ یہ تمام شعرا درست وزن کے ساتھ ماہیے لکھ رہے ہیں۔ ادبی رسائل کے حوا لے سے بالخصوص’’ اوراق‘‘ ، ’’اقدار‘‘ ،’’ تخلیق ‘‘، ’’ارتکاز‘‘،’’ تجد ید نو‘‘ ،’’صریر ‘‘، ’’گلبن ‘‘،’’ تکمیل‘‘ اور’’ عوامی منشور‘‘ کا ذکر کیا ہے کیوں کہ ان کی بدولت ماہیے پر معیاری کام سامنے آنے لگا ہے۔ اس سا لا نہ جائز ے کے بعد وہ یہ نتیجہ اخذکرتے ہیں:
’’ اس مختصر سے جائز ے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کہ پنجا بی لوک گیت ماہیا اُردو ادب میں آکر اپنے وزن اور مزاج ،جسم اور روح کے ساتھ اُردو کی ایک نئی شعری صنف کے طو ر پر مسلسل مستحکم ہو رہا ہے ․․․․․مجھے اُمید ہے کہ اُردو ماہیا اپنے پنجابی خدوخال اور مزاج کے ساتھ نئے تخلیقی اظہار سے اُردو شاعری کے وقار میں اضا فے کا موجب بنے گا۔‘‘ (۸۷)
حیدرقریشی کا یہ رجائی نقطۂ نظر ہر جگہ فعال دکھا ئی دیتا ہے محولہ بالا اقتبا س میں ان کی رجا ئیت اور اُمید کا اندازغالب ہے بعد ازاں یہی انداز نئے سالا نہ جا ئز ے کا نقطہ آغاز بنتا ہے:
’’یہ ۱۹۹۷ء کا سال اردو ماہیے کے لیے استحکام کا سال ثابت ہوا ہے۔ شعرائے کرام نے اس نئی شعری صنف کو محبت کی نظر سے دیکھا اور اپنی اپنی تخلیقی صلا حیتوں کے مطا بق اس کے امکانات کو آزمایا، تحقیق و تنقید کے میدان میں اہم اور بنیاد ی نوعیت کے کام ہو ئے ۔‘‘ (۸۸)
حیدرقریشی کے ۱۹۹۷ ء کے جائز ے میں جہاں درجنو ں نئے نام سامنے آئے وہاں یہ اطلا ع بھی ملی ہے:
’’ اُردو ماہیے کے سلسلے میں انڈ یا میں بھا گلپور کے حلقہ ادب کے زیر اہتما م ماہیا مشا عرہ کیا گیا ۔ یہ مشاعر ہ بہار ایگر یکلچر کے آڈ یٹوریم میں ہوا جس میں ہندوستان کے متعد د ماہیا نگارو ں نے شرکت کی۔‘‘ (۸۹)
اسی مضمون کے توسط سے پتا چلتا ہے کہ ہند وستای فلم ’’ اف یہ محبت‘‘ میں وپن ہا نڈ ا نے اُردو ماہیے پیش کیے جبکہ پاکستانی فلم ’’ کانٹا‘‘ کے لیے شاعر نذیر قیصر نے ماہیے لکھے جو ترنم نا ز اور حا مد علی خان نے گا ئے تھے۔ حیدرقریشی کا ایک اور مضمون ’’ اردو ماہیا ۱۹۹۸ میں‘‘ اس حو الے سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس ایک سال میں ماہیے کی حیران کن پیش رفت سامنے آئی تھی۔ مضمون کے ابتدائیے میں ہی کامیابی اور کامرانی کی نو ید سنا ئی گئی ہے:
’’ یہ ۱۹۹۸ء کا سال اُردو ماہیے کے فروغ کے سلسلے میں گزشتہ تمام برسوں سے زیادہ اہم سال ثابت ہوا․․․․․۱۹۹۷ء تک ماہیا نگاروں کی تعداد ایک سو تک پہنچتی تھی۔ اس برس اس تعداد میں تقریبا ًدو گنا اضا فہ ہوا۔ (۹۰)
ماہیے کے معترضین کے حوا لے سے یہ دل چسپ جملہ ملا حظہ ہو:
’’ ماہیے کی مخالفت کے لحاظ سے بھی یہ سال خاصا اہم رہا ۔ مخالفین نے بہتان طرازی سے لے کر دار کُشی تک کے سارے حر بے آزما لیے۔‘‘ (۹۱)
حیدرقریشی نے مخالفین کی باتوں پر جوابی وار کرنے سے بہتر یہی سمجھا کہ اُنھیں ماہیے کی تیز رفتا ر ترقی اور مقبولیت سے آگا ہ کردیا جا ئے اس حوالے سے وہ ہمیں بتا تے ہیں:
’’ ریڈیو پاکستان راولپنڈی ، آکاش وانی بھا گلپور ، ریڈیو ڈوئچے ویلے اور افنر کنا ل ٹی وی چینل (جرمنی) پر اس برس اُردو ماہیے کا تھو ڑا بہت چر چا رہا۔ راولپنڈی ریڈ یو سے عارف فرہا د اور مسعود ہاشمی متحر ک رہے۔ راشد حمید کے ایک ریڈیائی انٹر و یو میں بھی ماہیے کا ذکر آیا۔ زی ٹی وی کے مقبول ترین ڈرامہ ، ’’ا مانت‘‘ کی سال بھر کی ساری قسطوں میں ماہیے کی خوبصورت دُھن سنائی دیتی رہی ۔‘‘(۹۲)
اُردو ماہیے کی بڑھتی مقبولیت کی ایک اور دلیل یہ پیش کی گئی کہ پاک وہند اور دیگر ممالک کے ادبی رسائل و جرائد او ر اخبارات میں پہلی مرتبہ اُردو ماہیے شائع کے گئے تھے۔ ان میں درج ذیل نام اہم ہیں:
’’ ماہنا مہ’’ کتاب نما ‘‘ (دہلی) ماہنامہ’’ شاعر‘‘( ممبئی ) ماہنا مہ’’ ایو ان اردو‘‘(دہلی) دو ماہی ’’پرواز‘‘،’’ ادب پٹیا لہ‘‘ ، روزنامہ’’ پاکستان ‘‘(لندن) ’’احساس نو‘‘ (لا ہور) اور ’’پاکستان لنک‘‘( امریکہ) ۔‘‘ (۹۳)
یہ سال اس حوالے سے مزید اہمیت اختیار کر جا تا ہے کہ:
’’ اس برس اُردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما جی نے سات زبانوں میں ماہیے کہے۔ ان میں اُردو، پنجابی ، بنگالی ، ہند ی ، گجر اتی ، مراٹھی اور فارسی شامل ہے۔‘‘(۹۴)
اُردو اور فارسی کی مثالیں پیشِ خد مت ہیں:
(الف) کچھ کر کے دکھا تی ہے۔
رحمت مو لا کی
جب جو ش میں آتی ہے
(ب) ایں محفلِ یاراں است
گلبن گل می کند
چہ فصل بہاراں است (۹۵)
حیدرقریشی نے ان سالانہ جائز وں میں جو معلو مات اور تازہ ترین اعداد و شما ر پیش کیے اگر ان سب کو ایک خاص ترتیب سے جمع کر لیا جا ئے تو ماہیے کی ادبی تاریخ اپنے تمام رنگوں کے ساتھ محفوط ہو سکتی ہے۔ ان سالانہ جائز وں میں جہاں حیدرقریشی کا تجز یاتی انداز سامنے آتا ہے وہاں ان کا طرزِ تحقیق بھی اپنی جھلک دکھا جا تا ہے۔ وہ اپنی ہر بات ٹھو س تحقیقی حوالوں سے کرتے ہیں۔ سالانہ جائزوں میں عموماً ایک تاثراتی سا انداز ہوتا ہے جو رسمیاتِ تحقیق کے بنیاد ی لو ازم سے بھی عاری ہوتا ہے لیکن حیدرقریشی کے تمام جا ئز ے تحقیقی آداب کے ساتھ پیش ہو ئے ہیں اور پڑھنے والوں پر گہر ے نقوش ثبت کرتے ہیں۔
پروفیسر نذ ر خلیق لکھتے ہیں:
’’حیدرقریشی اُردو ما ہیے کا ایک ایسا مستند نام ہے کہ کل کو ماہیا ادب
کامستقل حصہ بنے نہ بنے اس کے لیے حیدرقریشی کی خد مات ادب
کا مستقل حصہ رہیں گی۔‘‘ (۹۶)
اس بات کو مان لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ ماہیے کی صنف پر جن ناقدین اور محققین نے اصل سازی کا فریضہ انجام دیا اُن میں حیدر قریشی کا نام سر فہرست ہے اور اس حوالے سے اُن کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا جاتا رہے گا۔
(ب) حیدرقریشی کے محققانہ اوصاف
حیدرقریشی اگر چہ ڈاکٹر جمیل جالبی ، رشید حسن خان ، حافظ محمود شیرانی اور ڈاکٹر وحید قریشی کی طرح ثقہ بند محقق تو نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان کی تحقیقی تصانیف میں ایسے تمام اہم اوصاف نما یا ں ہیں جن کی توقع سنجیدہ محققین سے رکھی جاسکتی ہے، ذیل میں ان اِنھی محققانہ اوصاف پر اجمالاً بات ہوگی۔
(۱) توازن
حیدرقریشی ایک متوازن محقق ہیں ۔ جلد بازی یا عجلت سے وہ کو سوں دور رہتے ہیں ۔پاک وہند کے ادبی رسائل و جر ائد میں جب ماہیے کی تحر یک عروج پر پہنچی تو جہاں مو افقین کا ایک بڑا حلقہ اُن کے تحقیقی اور تنقید ی کا موں کو تحسین کی نظر سے دیکھ رہا تھا وہاں مخالفین کا ایک بڑ اگروہ اُن کی مخالفت پر کمر بستہ دکھا ئی دیتا ہے۔ حیدرقریشی نے آزمائش کی اس نازک گھڑی میں بھی تہذیب ، شائستگی اور توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور صرف تاریخی ، ادبی اور منظقی دلائل کی روشنی میں اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے رہے ۔ مخالفین کے ضمن میں ان کا شیوہ یہی رہا ہے:
’’ تحقیقی مطالعہ تب منصفانہ ہوتا ہے۔ جب فریقین کے مؤقف سا منے لا کر کوئی نتیجہ نکالاجا ئے، یک طر فہ مؤ قف پیش کر کے تحقیق کے تقاضے پورے نہیں ہو تے ۔‘‘ (۹۷)
یہ توازن اصل میں حیدرقریشی کے کرداری اور ذہنی پختگی کا غماز ہے۔ یہی توازن حق گوئی اور معر وضیت کو فروغ دیتا ہے۔
(۲) غیر جانب داری
محقق کے لیے غیر جانب داری پہلے شرط ہے۔حیدرقریشی کی تحقیقات میں یہ خوبی بد رجہ اتم موجود ہے ۔ ماہیے کی بحث میں جہاں پاک وہند کے نئے اور پرانے اُدبا شریک ہو ئے وہاں اُن کے قریبی احبا ب نے بھی اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ۔ دوستوں کی آرا نے اختلافی مباحث کو جنم دیا اور بات آگے بڑھتی چلی گئی ۔ حید رقریشی نے دوستوں کی تحقیقات میں موجود کمزوریوں اور کو تاہیوں کو برملا سامنے لا یا اور محض دوستی کی وجہ سے اپنے کسی تحقیقی مو قف پر سمجھو تہ نہیں کیا۔اُن کے لیے تحقیقی حقائق اہمیت رکھتے تھے لہٰذا کسی خاص جانب اُن کا جھکاؤ نظر نہیں آتا۔
(۳) معتدل تحقیقی روش
تحقیق میں حقائق اہم ہو تے ہیں او ر ہرمحقق اپنی ضرورت ، فہم ا، ستعداد اور دل چسپی کی بدولت حقائق کی بازیافت کر تا ہے۔ محقق کا ذہنی رویہ ہر قسم کے عقائد ، تو ہمات اور نظریات سے بچ کر اپنی اہمیت منواتا ہے۔ محقق کی ذاتی پسند اور نا پسند بھی اصل تحقیقی روش کو متاثر کر تی ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہو ئے اگر ہم حیدرقریشی کے درج ذیل بیانات پر توجہ کریں تو ان کی معتدل تحقیقی روش سامنے آجاتی ہے وہ لکھتے ہیں :
’’ علمی اورتحقیقی معاملا ت میں منا سب سنجید گی اختیار کر نا اور غیر ضروری تلخ کلامی سے بچنا بہتر ہوتا ہے۔ ‘ ‘ (۹۸)
تحقیقی روش کے حوالے سے ان کا یہ علمی رویہ لائق توجہ ہے:
’’ مجھے آج بھی کسی کج بحثی کی ضرورت نہیں ہے۔ ماہیے کے بارے میں اپنے بنیادی اور اُصو لی مو ٔقف کی سچائی کا مجھے پکا یقین ہے اس کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ میر ے لکھے میں بھی خامیاں ہو سکتی ہیں ۔ ان کی نشاند ہی کیجیے میں فراخ دلی سے غلطی تسلیم بھی کروں گا اور پوری وضاحت کے ساتھ درستی بھی کر لوں گا۔‘‘ (۹۹)
تحقیقی رویے کی ایک اور عمدہ مثال ملاحظہ ہو:
’’ میں ادب میں کسی قول اور نظریے کو حرفِ آخر نہیں سمجھتا۔ ماہیے کے سلسلے میں میرا یک مؤقف ہے جسے میں نے دلا ئل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ میرے دلا ئل کو ان سے بہتر دلا ئل کے ساتھ تو ڑا جا سکتا ہے۔ لیکن پتھر کے ساتھ نہیں۔‘‘ (۱۰۰)
اسے صحت مند تحقیقی رویہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ رویے تحقیقی مفر وضات اور نظر یات کو درست سمت پر گامزن رکھتے ہیں تحقیقی اُمور میں اگر محقق دیا نت اور صداقت کار ویہ پیدا نہ کر سکے تو اس کے مشاہد ات اور نتائج غلط فہمی کو ہوا دینے لگتے ہیں ۔حیدرقریشی نے ادب کے مادی فوائد کی خاطر خالص انسانی اور اخلاقی اقدار کو فرامو ش نہیں کیا۔
(۴) عروض سے واقفیت
حیدرقریشی نے ماہیے کی شنا خت ثابت کر نے کے لیے جہاں اس کی تحر یر ی ہیئت، مزاج ، مو ضوعات ، روایت اور نشوونما پر یا د گار تصانیف متعارف کر ائیں وہاں اس صنف کے عر وضی پہلو کو بھی بطو رِخاص نمایاں کیا۔ اُن کے مضامین ، خصوصاً’’ماہیے کے وزن کا مسئلہ‘‘ ، ’’ماہیے کے وزن اور مزاج کی بحث‘‘ ،’’ پنجابی لوک گیت‘‘ ، اور’’ ماہیے کی تحر یر ی شکل ‘‘ وغیر میں عروضی پیمانوں کو بنیاد بنا کر اس صنف کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں ۔ یہ عروضی واقفیت ان کے تحقیقی کاموں میں بڑی معاونت کرتی ہے۔ ماہیے کے وزن پر بحث کرتے ہو ئے وہ یہ تکنیکی نکتے بھی قاری کے سامنے رکھتے ہیں تا کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی معروضی رائے قائم کر سکے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:
’’ اُردو زبان میں زحافات کا تعین ہے جن حروف کو گرانے کی اجازت ہے اُن کی وضاحت موجود ہے لیکن پنجابی زبان میں ا یسا کوئی ضابطہ یا اُصو ل نہیں ہے ضرورت شعری کے مطابق اس کے حروف کو کھینچ کر لمبا بھی کر لیا جا تا ہے اور گرا کر مختصر بھی کر لیا جا تا ہے اس عمل کے دوران ملفو ظی یا غیر ملفو ظی حروف کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے۔ پنجا بی زبان میں اس رعا یت کا فائد ہ ماہیے میں بھی اُٹھا یا گیا ہے۔ (۱۰۱)
اسی عروضی واقفیت نے اُن کے مؤ قف کو پائیداری اور مضبو طی فراہم کی تھی۔ حیدرقریشی اگر ماہیے کی بحث میں عروضی دلا ئل بر وقت استعمال نہ کرتے تو پھر اس کی دوسری ہم شکل اصناف ،مثلاً ثلاثی اور ہا ئیکو کے درمیان فرق کرنا محا ل ہو جا تا اور ماہیے کی تحریک اور تمام متعلقہ علمی وادبی مباحث مغالطوں کا شکار ہو کر رہ جا تے ۔
(۵) حوالہ درج کر نے میں احتیا ط
حیدرقریشی اپنی تما م تحقیقات میں رسمیا تِ تحقیق کا شعوری سطح پر التزام کرتے ہیں۔ اگرچہ اُن کی ذاتی دل چسپی کا مرکز و محو ر تخلیقی ادب ہے تاہم تحقیق میں بھی وہ تمام اُصول و ضوابط کی پابندی لازم خیال کرتے ہیں ۔وہ خیا لی اور بے بنیاد باتوں پر دھیا ن نہیں دیتے بلکہ اپنی ہر بات اور نقطۂ نظر کو ضروری حوالوں کے ساتھ پیش کر نے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے ہاں حوالہ نگاری کا اہتمام خاصا سلجھا ہوا اور تحقیقی روایات کے عین مطابق ہے۔ ادبی مباحث کے دوران جہاں کہیں بھی حوالہ درج کرنے کی ضرورت پیش آئی وہاں حوالہ نقل کرنے کا پو را ضابطہ استعمال کیا جس میں مصنف کا نام، کتاب کا نام، سنِ اشاعت ، پبلشر اور صفحہ نمبرکا اندراج وضاحت کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ سالانہ جائزوں میں بھی حوالہ نگاری کا مکمل ضابطہ استعمال کرتے ہیں۔ موضوع زیرِ بحث کے خارجی اور داخلی شواہد کا اندراج بھی حوالوں کے ساتھ نظر آتا ہے،غرض اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ تواریخ اور سنین کا ذکر جہاں ضرور ی ہے وہاں اس کا حوالہ لازماً آناچائیے۔ ایک بحث کے دوران جب انھیں معروف موسیقی کار نوشا د کا خط ملا تو اس پر تاریخ درج نہیں تھی لیکن داخلی شہادت کی بنیاد پر وہ اس کی تاریخ متعین کرنے میں کا میاب ہو جاتے ہیں نوشاد کا خط ملنے کے بعد وہ لکھتے ہیں:
’’ اس خط پر نو شاد نے تاریخ درج نہیں کی لیکن لفافے پر باندرہ پوسٹ آفس کی مہر پر ۷ اپر یل ۱۹۹۸ء کی تاریخ آسانی سے پڑھی جاسکتی ہے ۔ (۱۰۲)
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانو ی کا ایک بیان درج کرنے کے بعد قوسین میں حوالہ اس طرح نقل کرتے ہیں۔
’’ حرف اول ، کتاب ’’ رم جھم رم جھم ‘‘ ص ۱۸ مطبوعہ ۱۹۹۶ء ناشر معیا ر پبلی کیشنز ، دہلی ۔‘‘(۱۰۳)
اس نو ع کی بیسیوں مثالیں نقل کی جاسکتی ہیں ۔حیدرقریشی دو ٹوک اور کھر ی بات کہنے کے عادی ہیں اسی لیے وہ اپنے جملہ دلا ئل ضروری حوالوں سے مزین کر کے ادبی عدالت میں پیش کر تے ہیں اور عمو ماً جیت بھی اُنھی کی ہوتی ہے۔
(۶) اپنی غلطی کا اعتراف
تحقیقی اور تنقید ی اُمو رمیں غلطی کا سر زدہو جانا عام سی بات ہے۔ سنجید ہ اور ذمہ دار لکھاری اپنی غلطی کی اصلاح کرتا ہے،جبکہ غیر ذمہ دار ادیب اپنی غلطیوں کی تاویل کرکے اُن پر دہ ڈالنے کی کوشش کرتاہے۔ کچھ ادیب اپنی غلطی کا اعتراف کرنا کسر شان سمجھتے ہیں ۔بہر حا ل کا مل تحقیق ادبی دیا نت کا تقاضا کر تی ہے۔
حیدرقریشی جس عر صے میں یہ غور وفکر کر رہے تھے اُردو زبان و ادب میں ماہیے کا بانی کون ہے ،اُس دوران وہ موجود تحقیقی وسائل کی بنیاد پر قمرجلا ل آبادی( یہ اُستاد قمر جلا لو ی سے مختلف شخصیت ہے) کو پہلا ماہیا نگار قرار دے رہے تھے ،لیکن نئی تحقیق سامنے آنے پر اُنھیں نے پر انا نظریہ ترک کرنا پڑا کیوں کہ نئے شواہد اب ہمت رائے شرما کو بانی ماہیا نگار ثابت کر رہے تھے۔ اس موضوع پر ان کی پوری کتاب بھی آچکی ہے اور تاحال شرما جی کو ہی بانی ماہیا نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس پس منظر کو ذہین میں رکھتے ہوئے حیدرقریشی کا یہ بیان ملا حظہ ہو:
’’ میں نے اپنے مضمون مطبو عہ ’’ صریر‘‘ دسمبر ۹۲ء میں قمر جلا ل آبادی کو ماہیا نگار لکھا تھا۔ اب ایک کرم فرمانے ’’اوراق‘‘ جنو ی ، فروری ،۹۸ء ، صفحہ ۲۷۲ پر اصرار کے ساتھ قمر جلا ل آبادی کو پہلا ماہیا نگار قرار دیا ہے، حالانکہ مجھے بھی مغالطہ ہوا تھا اور مذکورہ کر م فرما کو بھی مغالطہ ہوا ہے۔ تو کیامحض اس بنیاد پر کہ حیدرقریشی نے بھی اور اس کے مخالفین نے بھی قمر جلا ل آبادی کو پہلاماہیا نگار تسلیم کیا ہے۔ تو قمر جلا ل آبادی کوپہلا ماہیا نگار مان لیا جا ئے!‘‘ (۱۰۴)
یہ بیان پڑ ھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حیدر قریشی نے جو بات کہی تھی :
’’ تحقیقی معاملات میں حقائق مقد س ہوتے ہیں ۔‘‘
( ۱۰۵)
تو اس پر خود بھی عمل کر دکھایا ہے۔
(۷) دستاویز ی تحقیق سے استفاد ہ
سید جمیل احمدرضو ی ر قمطراز ہیں:
’’ تحقیق کے اس طریقے میں دستاویز ت اور یکا رڈ کا
استعما ل کیا جا تا اس لیے اس کو دستاویزی تحقیق کہتے ہیں۔ (۱۰۶)
اس طریقِ تحقیق کا دائر ہ خا صا وسیع ہے۔ اس میں ہر قسم کے، لفظی یا ہند سی مواد سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اخبارات سرکاری ریکارڈز،رسائل ، ، خطو ط ، سوانح عمر یاں،ذاتی ڈائریاں ، ، یا د د اشتیں ، تصا ویر ، متحر ک فلمیں ، تصو یر یں ،سکے ، مجسمے ،کتابچے ڈرائنگ کے نمو نے اور مخطو طا ت سے متعلقہ تحقیقی مواد اخذکیا جا سکتا ہے۔
حیدر قریشی کے ہاں دستاویزی طریق ِتحقیق حا وی نظر آتی ہے وہ ماہیے کی شنا خت دریافت کر نے کی خا طر خطو ط ، مائیکرو فلمیں ، اخبارات رسائل اور پرانے کتابچوں کو کلیدی اہمیت دیتے ہیں۔ ہمت رائے شرما کی فلم ’’ خاموشی‘‘ کا وہ کتابچہ جو ۱۹۳۶ء میں فلم کے ساتھ ہی شائع ہو کر بعد میں نایاب ہو گیا تھا، اس کی تلا ش میں حید رقریشی نے کئی ماہ صرف کر دیے تھے کیونکہ اُس دستاویز ی ثبو ت کی بدولت ہی وہ کوئی حتمی رائے قائم کر سکتے تھے۔ آخر یہ کتابچہ ہمت رائے شرما نے خود تلا ش کر کے انھیں جرمنی روانہ کردیا ۔ شرما جی ۲۱ دسمبر ۱۹۹۸ء کے تحر یر کر دہ خط میں حید رقریشی کو لکھتے ہیںـ:
’’ آج سے ساٹھ باسٹھ سال پرانی فلم’’ خامو شی ‘‘ کی Booklet جو پرانے گودام کے ایک سٹور سے پھٹی پرانی حالت میں مل گئی ہے۔ اس میں وہ سب کچھ درج ہے جس کی تلاش تھی یہ بے حد اہم اور نا یاب ہے۔ اسے حاصل کر نے کے لیے خاص آدمی کو کلکتے بھیجناپڑا۔‘‘(۱۰۷)
اس کتابچے کی مد د سے حیدرقریشی کو یہ رائے قائم کرنے میں آسانی ہو گئی تھی ۔
’’ فلم خامو شی ‘‘ کی بک لیٹ پر مئی ۱۹۳۶ء کا اندرا ج یہ ثابت کر تا ہے کہ ہمت رائے
شرما جی نے ۱۹۳۶ء میں پہلی بار اس فلم کے لیے اُردو ما ہیے لکھے۔‘‘(۱۰۸)
اُردو ماہیے کی تحر یک میں یہ حوالہ اصل میں برہان قاطع ثابت ہوا اور دستاویزی تحقیق نے ایک بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا تھا۔یہ محض ایک مثال ہے ورنہ اس طرح کی کئی اور مثالیں بآسانی پیش کی جاسکتی ہیں۔
(۸) مستقل مزاجی
حید رقریشی کے تحقیقی اوصاف میں مستقل مزاجی کا کردار اہم ہے۔ جب ماہیے کی تحر یک کا آغاز ہوا تو وہ پاکستان میں تھے لیکن جیسے ہی ان نزاعی مباحث نے طو ل پکڑا ، وہ ہجر ت کر کے جرمنی جا چکے تھے ،چنا نچہ ہر قسم کے ادبی مراکز سے دور ہو نے کے باعث مطلوبہ مواد تک رسائی خاصی مشکل ہو گئی تھی۔ ایسی آزمائشی صورت ِحال میں بذریعہ انٹر نیٹ اور فون ان کا رابطہ ادبی دنیا سے بحال ہوا اور رفتہ رفتہ ادبی رسائل و جرائد بھی ملنا شروع ہوگئے ۔ جرمنی میں بیٹھ کر اُنھوں نے جس ہمت ، لگن ، خلوص ، مستقل مزاجی اور تحقیقی دیانت سے ماہیے کی تحر یک چلا ئی وہ بذات خود ایک حیر ت انگیز کا رنامہ ہے۔ حید رقریشی نے پوری دل جمعی سے اپنے مؤقف کو واضح کر تے رہے اور تقر یباً ایک دہا ئی سے زیادہ کا عر صہ صرف اسی ایک مو ضوع کو نبھا تے رہے۔ اگر اُن میں مستقل مزاجی کی صفت نہ ہو تی تو وہ بہت جلد ہا ر مان کر منظر سے اوجھل ہو جاتے لیکن وہ وسائل کی کمی کے باوجود اس صنف کی شنا خت پر وہ بات کرتے رہے۔ ان کی مستقل مزاجی کی یہی صفت تحقیقی کامو ں میں خاصی معاون ثابت ہوئی اور وہ اطمینا ن سے اپنے مشن کو آگے بڑ ھاتے رہے۔
(۹) تجزیاتی اور وضا حتی اُسلوب
حیدرقریشی کی تما م تحقیقی تحریروں میں تجز یات اور تشر یحات کا عنصر نمایا ں ہے۔ یہ سائنسی اور وضاحتی اُسلوب ان کی تحقیقات میں قطعیت پید ا کر تا ہے صنف ماہیا پرا ن کا مؤ قف جہاں تاریخ کی روشنی میں استدلال قائم کرتا نظرآتا ہے وہاں مسائل کو استخراجی اور استقرائی طریقوں سے واضح کر نے کا عام رحجان بھی ملتا ہے۔ یہ مثال ملاحظہ ہو:
’’ ما ہیا بظاہر عورت کی زبان میں مرد سے محبت کا اظہار ہے۔ اس حوالے سے ماہیے کو قدیم ہندوستانی گیت کے تنا ظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ غور کیا جا ئے تو یہ صوفی شعرا کا بالواسطہ اثر بھی محسو س ہوتا ہے کہ صو فیا نہ شاعری میں محبوب ہمیشہ مذکر کے صیغہ میں آیا ہے ریختی سے بھی ا س کے سرے ملا ئے جا سکتے ہیں کہ ریختی میں عورت کی زبان سے جذبات کا بے محابا اظہار کیا جاتا ہے۔‘‘(۱۰۹)
تجزیے اور وضاحت کا اثر وہاں زیادہ نما یاں ہو جاتا ہے جہاں حیدرقریشی ماہیوں کی تشریح ، تعبیر اور تفیسر کا فریضہ انجام دیتے ہیں تحقیقی مقالات میں کئی مقام پر وضاحتی اُسلوب اپنا یا گیا ہے جس سے قاری کو سہو لت رہتی ہے۔
(۱۰) سادہ اُسلوب نگارش
حیدر قریشی کے تما م تحقیقی مضامین سادہ اُسلوب نگارش کا مظہر ہیں ۔جملے ساد ہ اوررواں ہیں ۔بھاری بھر کم الفاظ استعمال کر کے دوسروں پر اپنی علمیت کا رعب نہیں ڈالتے ۔ یہ سادہ اندازِ تحر یر پراثر اور پر شکوہ ہے۔ رشید حسن خان بھی ایسے تحقیقی اُسلوب کی تحسین کرتے ہیں :
’’ تحقیق کی زبان کو امکان کی حد تک آرائش اور مبالغے سے پاک ہو نا چائیے اور صفاتی الفاظ کے استعما ل میں بہت زیادہ احتیاط کرنا چاہیے۔‘‘(۰ا۱)
حیدر قریشی کے ہاں زبان کا یہی سلجھا ہوا اور محتاط انداز ملتا ہے۔ وہ بڑی سے بڑ ی بات ممکنہ سادگی کے ساتھ کہہ ڈالنے کا ہنر جانتے ہیں یہ انداز ملا حظہ ہو :
’’ جو ماہیا سہو لت کے ساتھ اپنے فطر ی بہاؤ میں ماہیے کی پنجابی
دھن پر گایا ، گنگنا یا جا سکتا ہے وہ ماہیا ہے جو اس معیا ر پر پورا نہیں
اُترتا وہ کلا سیکل موسیقی کا شاہکار تو ہو سکتا ہے، اعلیٰ ادبی فن پارہ
ہوسکتا ہے،لیکن ماہیا نہیں ہوسکتا۔ ‘‘(۱۱۱)
سادگی کی ایسی کئی روشن مثالیں اُن کی تحر یروں سے پیش کی جا سکتی ہیں یہاں بخوف ِ طوالت مزید مثالوں سے احتراز کیا گیا ہے۔حیدر قریشی نے اپنے تمام تحقیقی مضامین میں معیاری اُصولوں کی پاسداری کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ جواز جعفری ، حیدرقریشی سے انٹرویو ، مشمولہ حیدرقریشی سے لیے گئے انٹرویوز ، مرتبہ سعید شباب،
نظامیہ آرٹ اکیڈمی ،ایمسٹرڈیم ہالینڈ،۲۰۰۴ء،ص۹۷
۲۔ ڈاکٹر سلیم اختر ، تنقید ی اصطلاحا ت ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور ، ۲۰۱۱ء ، ص ۳۳۱ ، ۲۳۰
۳۔ ڈاکٹر سلیم اختر ، تنقید ی اصطلاحا ت ، ص ۲۳۰
۴۔ حیدرقریشی ،پنجابی لو ک گیت ․․․ ماہیا ( مضمون) مشمولہ اُردو میں ماہیا نگاری ،
فرہاد پبلی کیشنز اسلام آباد، ۱۹۹۷ء، ص ۴
۵۔ حیدرقریشی ، پنجابی لوک گیت ․․․ ماہیا ( مضمون) مشمو لہ اُردو میں ماہیا نگاری ، ص ۴
۶۔ پنجا بی لوک گیت ․․․ماہیا ، ص ۳۰
۷۔ پنجا بی لوک گیت ․․․ ماہیا ، ص ۳۰
۸۔ پنجا بی لوک گیت ․․․ماہیا ، ص ۳۰
۹۔ پنجا بی لوک گیت ․․․ ماہیا ، ص ۲۸
۱۰۔ حیدرقریشی ، ماہیے کے وزن کا مسئلہ ( مضمون) مشمولہ اُردو میں ماہیا نگاری ، ص ۱۴
۱۱۔ حیدرقریشی ، قفس کے اندر ( شعری کلیات ) عکا س انٹر نیشنل ، اسلام آباد ، ۲۰۱۳ء ص ۱۴۷
۱۲۔ حیدرقریشی ، قفس کے اندر ( شعری کلیات )ص ۱۴۷
۱۳۔ قفس کے اند ر ( شعری کلیات )ص ۱۳۸
۱۴۔ قفس کے اند ر ( شعری کلیات )ص ۱۳۸
۱۵۔ قفس کے اند ر ( شعری کلیات )ص ۱۳۸
۱۶۔ شگفتہ الطا ف ، حیدرقریشی کی ماہیا نگاری(مضمون) مشمولہ عکاس انٹر نیشنل ، اسلام آباد ۲۰۰۵ء ص ۶۰
۱۷۔ شگفتہ الطا ف ، حیدرقریشی کی ماہیا نگاری (مضمون) ص ۲۰
۱۸۔ عارف فر ہا د ، حیدرقریشی کی ماہیا نگاری ( مضمون) مشمولہ ، حیدرقریشی کی شاعری ،
مرتبہ ہر دے بھا نو پر تا پ ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی ، ۲۰۱۳ء ، ص۷۷
۱۹۔ شگفتہ الطا ف ، حیدرقریشی کی ما ہیا نگاری (مضمون) ص ۲۰
۲۰۔ اختر رضا سلیمی ، اُردو میں ماہیا نگاری اور حیدرقریشی( مضمون)
مشمو لہ حیدرقریشی کی ادبی خدمات مرتبہ ، پروفیسر نذرخلیق ،میاں محمد بخش پبلشرز ، خانپور ، ۲۰۰۳ء ، ص ۲۶۴
۲۱۔ افضل چو ہا ن ( ماہیے) مشمو لہ، عکا س انٹر نیشنل، اسلا م آباد شمارہ نمبر ۱۳ ، ۲۰۰۱ء مارچ، ص /۱۵۸۲۲۔ حیدرقریشی ، اردو میں ماہیا نگاری ( مضمون) مشمولہ اردو ماہیے کی تحر یک ، فرہا د پبلی کیشنز ، راولپنڈی ،
۱۹۹۹ء ، ص ۲۴
۲۳۔ حیدرقریشی ، ما ہیا پابند لے ہے ( مضمون) مشمو لہ اردو ما ہیے کی تحر یک ، ص ۹۴
۲۴۔ حیدرقریشی سے بذریعہ انٹر نیٹ انٹرویو ، از اختر رضا سلیمی ، مشمولہ حیدرقریشی سے لیے گئے انٹرویوز
،مرتبہ ، سعید شباب ، نظا میہ آرٹ اکیڈ می ، ہالینڈ ، ۲۰۰۴ء ص ۷۵
۲۵۔ ڈاکٹرسلیم اختر ، تنقید ی اصطلاحات ( توضیحی لغت) ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور ، ۲۰۱۱ء، ص ۹۳
۲۶۔ حیدرقریشی ، پنجابی لوک گیت ․․․ ماہیے کی تحر یر ی ہیت ( مضمون) ، مشمولہ اردو ماہیے کی تحر یک ،ص ۱۴۱
۲۷۔ تنقید ی اصطلاحات ( توضیحی لغت) ص ۲۳۱، ۲۳۰
۲۸۔ حیدرقریشی ،اردو ماہیے کے مو ضو عات ( مضمون) مشمو لہ ، اردو میں ماہیا نگاری ، ص ۷۸
۲۹۔ حیدرقریشی ،اردو ماہیے کے مو ضو عات ( مضمون) مشمو لہ ، اردو میں ماہیا نگاری ، ص ۷۸
۳۰۔ سلطان کھاروی ( ماہیے ) مشمو لہ ، سہ ما ہی تسطیر ، لاہو ر، مد یر نصیر احمد نا صر ، شمارہ ۱۸،
۳۱۔ قفس کے اند ر ،ص ۱۳۸
۳۲۔ قفس کے اند ر ، ص ۱۳۵
۳۳۔ قفس کے اندار ، ص ۱۵۲
۳۴۔ قفس کے اندر ، ص ۱۴۱
۳۵۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے مو ضو عات ، ص ۹۶
۳۶۔ ڈاکٹر وزیر آغا ، اردو شاعری کا مزاج ، مکتبہ ، عالیہ لا ہور ، ۱۹۸۷ ء ، ص ۱۷۱
۳۷۔ ڈاکٹر ، وزیر آغا ، اردو شاعری کا مزاج ، ص ۱۷۱
۳۸۔ حیدرقریشی ، اردو ما ہیا تحقیق وتنقید ،(کلیات) الوقار پبلی کیشنز ، لا ہور ، ۲۰۱۰ء، ص ۵۸
۳۹۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیا تحقیق وتنقید (کلیات) ،ص ۵۸
۴۰۔ ڈاکٹر انور سد ید ، سالانہ ادبی جائز ہ ۱۹۹۵ء ،مشمو لہ ، اردو ماہیا تحقیق و تنقید ، ص ۷۳ یہ جا ئز ہ سب سے پہلے ماہنا مہ ’’صریر‘‘ کراچی کے شمار ہ مارج ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا تھا۔ حیدرقریشی نے اسی کا اقتباس اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔
۴۱۔ اردو ماہیا تحقیق و تنقید (کلیات)ص ۷۹
۴۲۔ اردو ماہیا تحقیق و تنقید(کلیات) ص ۷۹
۴۳۔ اردو ماہیا تحقیق و تنقید(کلیات) ص ۸۱ ، ۸۰
۴۴۔ اردو ماہیا تحقیق و تنقید(کلیات) ص ۸۱
۴۵۔ اردو ماہیا تحقیق و تنقید (کلیات) ص ۸۱
۴۶۔ شگفتہ الطاف ، حیدرقریشی کی ماہیا نگاری ،ص ۲۰
۴۷۔ اردو میں ماہیا نگاری ( مضمون) مشمولہ اردو ماہیے کی تحر یک ، ص ۵۷
۴۸۔ اردو میں ماہیا نگاری( مضمون) مشمولہ اردو ماہیے کی تحر یک ، ص ۵۸
۴۹۔ اردو میں ماہیا نگاری( مضمون) مشمولہ اردو ماہیے کی تحر یک ، ص ۶۱
۵۰۔ اردو میں ماہیا نگاری ( مضمون) مشمولہ اردو ماہیے کی تحر یک ، ص ۸۷ ،۸۶
۵۱۔ ڈاکٹرخلیق انجم ، ادبی تحقیق اور حقا ئق ( مضمون) مشمولہ ، تحقیق شنا سی ، ترتیب و حواشی رفاقت علی شاہد ،
القمر انٹر پرائز ز ، لاہور ، ۲۰۰۳ ء ، ص ۷۳
۵۲۔ حیدرقریشی ، اردو میں ماہیا نگاری کی ابتدا( مضمون) مشمولہ اردو ماہیا تحقیق وتنقید ( کلیات) ص ۳۹
۵۳۔ حیدرقریشی ، اردو میں ماہیا نگاری کی ابتدا( مضمون) ، ص ۴۰
۵۴ ۔ حیدرقریشی ،اردو میں ماہیا نگاری کی ابتدا ، ص ۴۰
۵۵۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما ( پیش لفظ) ،
مشمو لہ اردو ماہیا تحقیق و تنقید ( کلیات)ص ، ۳۳۵
۵۶۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما ( پیش لفظ) ،
مشمو لہ اردو ماہیا تحقیق و تنقید (کلیات)ص۳۳۶
۵۷۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما ، ص ۳۳۶
۵۸۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما ، ص ۳۳۶
۵۹۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما، ص ۳۴۰
۶۰۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما ، ص ۳۴۲
۶۱۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما ، ص ، ۳۴۲
۶۲۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما ص ، ۳۴۳ ، ۳۴۲
۶۳۔ حیدرقریشی ، فلم خاموشی او ر تحقیق مزید(مضمون) مشمو لہ اُردو ماہیا تحقیق و تنقید ، ص ۳۵۲
۶۴۔ اسما عیل گوہر ، اُردو ماہیے کی تحر یک ، مشمو لہ حیدرقریشی کی ادبی خدمات( مضمون) ،
میاں محمد بخش پبلشر ز ،خا ن پور ، ۲۰۰۳ء، ص ۲۶۸
۶۵۔ نذر خلیق ، اُردو ماہیا اور حید رقریشی مشمو لہ ، عکا س انٹر نیشنل ( حید رقریشی نمبر) ،
شمارہ، ۲۰۰۵ء ،اسلا م آباد، ص ۷۹
۶۶۔ پروفیسر،عبدالستار دلوی ، تحقیقی عمل کے مراحل ( مضمون) ، مشمولہ اردو میں اصول تحقیق(جلد اول)
مرتبہ، ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش ، ورڈویژن پبلشر ز ، اسلام آباد، ۲۰۰۱ء، ص ۷۸
۶۷۔ حید ر قریشی ، ماہیے کے مبا حث ، مشمو لہ اردو ماہیا تحقیق و تنقید ، الوقار پبلی کیشنز ، لاہور ،۲۰۱۰ء،
ص ۴۷۳
۶۸۔ حید رقریشی ، ماہیے کے مباحث ، ص ۴۷۳
۶۹۔ حید رقریشی ، ماہیے کے مباحث ، ص ۴۷۳
۷۰۔ حید رقریشی ، ماہیے کے مباحث ، ص ۴۸۳
۷۱۔ ماہیے کے مباحث ، ص ۴۷۴
۷۲۔ ماہیے کے مبا حث ، ۴۷۶
۷۳۔ حید رقریشی ، ماہیے کے مباحث ، ص ۴۷۴
۷۴۔ حید رقریشی ، ماہیے کے مباحث ، ص ۴۷۷
۷۵۔ حید رقریشی ، ماہیے کے مباحث ، ص ۴۷۸
۷۶۔ حید رقریشی ، ماہیے کے مباحث ، ص ۴۸۰
۷۷۔ حید رقریشی ، ماہیے کے مباحث ،ص ۴۷۸
۷۸۔ حید رقریشی ، اوراق اور ماہیا ( مضمون) مشمولہ اردو ماہیا تحقیق وتنقید ( کلیات) ص ۴۸۹
۷۹۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیا ۱۹۹۹ء میں ( مضمون) مشمو لہ ، اردو ماہیا تحقیق و تنقید ، کلیات ، ص ۵۰۳
۸۰۔ رشید حسن خان ، ادبی تحقیق ، مسائل اور تجز یہ ، ایجو کیشنل بک ہاؤس ، علی گڑ ھ ، ۱۹۷۸ء ص ۷۷
۸۱۔ تبسم کاشمیر ی ،ادبی تحقیق کے اصول مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد ، ۱۹۹۲ء ص ۱۴
۸۲۔ حید رقریشی سے لیے گئے انٹرویوز ، ص ۳۰
۸۳۔ حید رقریشی سے لیے گئے انٹرویوز ، ص ۳۰
۸۴۔ حید رقریشی سے لیے گئے انٹرویوز ، ص ۳۰
۸۵۔ محمد وسیم انجم ، حیدرقریشی سے ایک مکا لمہ ( مصاحبہ) مشمو لہ حیدرقریشی سے لیے گئے انٹرویوز ،
ص ۲۴، ۲۳
۸۶۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیا ۱۹۹۶ء میں(مضمون) مشمولہ اردو ماہیا ، تحقیق وتنقید ص ۲۴۱
۸۷۔ اردو ماہیا ۱۹۹۶ء میں(مضمون) ص ۲۴۴
۸۸۔ حیدرقریشی ،ا ررو ماہیا ۱۹۹۷ء (مضمون) میں مشمولہ اردو ماہیا تحقیق و تنقید ، ص ۲۵۲
۸۹۔ حیدرقریشی اردو ماہیا ، ۱۹۹۷ء میں(مضمون) ص ۲۵۵
۹۰۔ حیدرقریشی اردو ماہیا ۱۹۹۸ء میں (مضمون) مشمولہ اردو ماہیا تحقیق وتنقید ، ص ۳۱۲
۹۱۔ حیدرقریشی اردو ما ہیا ، ۱۹۹۸ء میں(مضمون) ، ص ۳۱۴
۹۲۔ حیدرقریشی اردو ما ہیا ، ۱۹۹۸ء میں(مضمون) ص ۳۱۵
۹۳۔ حیدرقریشی اردو ما ہیا ، ۱۹۹۸ء میں(مضمون) ، ص ۳۱۷
۹۴۔ حیدرقریشی اردو ما ہیا ، ۱۹۹۸ء میں(مضمون) ص ۳۱۶ ، ۳۱۵
۹۵۔ حیدرقریشی اردو ما ہیا ، ۱۹۹۸ء میں(مضمون )ص ۳۱۶
۹۶۔ پروفیسرنذر خلیق ، اردو ماہیا اور حیدرقریشی مشمولہ ، عکا س ( حیدرقریشی نمبر) ، ص ۸۳
۹۷۔ حیدرقریشی ، ماہیے کے وزن اور مزاج کی بحث مشمولہ ، اردو ماہیا تحقیق و تنقید ، ص ۷۵
۹۸۔ حیدرقریشی، اردو میں ماہیا نگاری ، مشمولہ ، اردو ماہیا تحقیق و تنقید ، ص ۱۶
۹۹۔ حیدرقریشی، اردو میں ماہیا نگاری ، مشمولہ ، اردو ماہیا تحقیق و تنقید ، ص ۱۷
۱۰۰۔ حید رقریشی (ابتدا ئیہ) مشمولہ ،اردو میں ما ہیا نگاری ، ص ۲۵
۱۰۱۔ حید رقریشی (ابتدا ئیہ) مشمولہ ،اردو میں ما ہیا نگاری ، ص ۳۴
۱۰۲۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ، ہمت رائے شرما فلم، خا مو شی اور تحقیق مزید (مضمون)
مشمولہ اردو ماہیاتحقیق وتنقید ، ص ۳۵۰
۱۰۳۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ، ہمت رائے شرما( مضمون) مشمولہ اردو ماہیا تحقیق وتنقید ، ص ۳۴۱
۱۰۴۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ، ہمت رائے شرما( مضمون) مشمولہ اردو ماہیا تحقیق وتنقید ، ص ۳۴۵
۱۰۵۔ حیدرقریشی ، اردو ماہیے کے بانی ، ہمت رائے شرما( مضمون) مشمولہ اردو ماہیا تحقیق وتنقید ،ص ۳۳۶
۱۰۶۔ جمیل احمد رضوی ، لا ئبر یر ی سائنس اور اصول تحقیق ، مقتدر ہ قومی زبان اسلام آباد ، ۱۹۸۷ء ، ص ۱۱۹
۱۰۷۔ حیدرقریشی فلم ’’ خاموشی‘‘ اور تحقیق مزید ( مضمون) ص ۳۵۱
۱۰۸۔ حیدرقریشی فلم ’’ خامو شی‘‘ اور تحقیق مزید ( مضمون) ص ۳۵۲
۱۰۹۔ حیدرقریشی ، پنجابی لوک گیت ․․․ ماہیا ( مضمون) مشمولہ ،ا ردو ماہیا تحقیق وتنقید ، ص ۳۰
۱۱۰۔ رشید حسن خان ، ادبی ،تحقیق مسائل اور تجزیہ ص ۱۴
۱۱۱۔ اُردو ما ہیے کے بانی ہمت رائے شرما ص ۳۴۵