حید رقریشی کی ادبی شنا خت کا ایک بڑ احوالہ ما ہیا نگار ی ہے ۔ اس صنف کے ساتھ ان کا تعلق تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی سطح پر قائم ہے۔ نو ے کی دہا ئی میں اُنھوں نے صنف ماہیا کی تفہیم اور تحقیق و تنقید کے ضمن میں جن علمی مبا حث کو اٹھا یا اس نے بالا آخر ایک تحر یک کی شکل اختیار کر لی تھی، جس کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے۔ مقالے کے زیر نظر حصے میں ما ہیا نگاری کی صرف اس جہت پر بات ہوگی جس کا تعلق حیدر قریشی کے تخلیقی عمل کے ساتھ ہے۔ ان کی تحقیقی اور تنقید ی کا وشوں کا ذکر اپنے مقا م پر آئے گا۔
٭حید رقریشی کے مطبو عہ ماہیے
حید رقریشی کے مطبو عہ ماہیوں کی دو صورتیں ہمارے سامنے ہیں، اولا ً ماہیوں کے الگ مجمو عے، ،ثانیاً غزل او رنظم کے مجموعوں میں ماہیوں کی شمولیت ، ان تمام کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(الف) محبت کے پھو ل( ماہیے )
نایاب پبلی کیشنز ، خانپو ر ، طبع ۱۹۹۶ء
(ب) عمر گریز اں ( غزلیں ، نظمیں ، ماہیے )
تجد ید اشاعت گھر ، لاہور ، طبع ۱۹۹۶ء
(ج) درد سمند ر ( غزلیں ، نظمیں ، ماہیے)
’’درد سمند ر‘‘ ( غزلیں ، نظمیں ، ماہیے) الگ کتابی صورت میں شائع نہیں ہو ابلکہ حیدر قریشی نے اسے اپنے مجمو عہ ء نظم ونثر بعنوان’’ عمر لا حاصل کا حا صل ‘‘ میں شامل کیا تھا ۔ یہ کلیات ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی نے ۲۰۰۹ء میں شائع کیا تھا۔ اس کلیات میں پانچ شعری اور چھے نثر ی مجموعے جمع کر دئیے گئے ہیں ۔ حیدر قریشی کا تما م شعری اور نثر ی سرما یہ مع کلیات انٹر نیٹ پر بھی موجود ہے۔
(د) قفس کے اند ر( چھے شعری مجموعوں کا مجموعہ)
ا س کلیا ت میں وہ تمام ماہیے بھی شامل ہیں جو پہلے دوسرے مجموعوں میں شائع ہو چکے تھے ۔ یہ کلیات عکاس انٹر نیشنل اسلا م آبا د اور نایاب پبلی کیشنز ، خانپو ر کے باہمی اشتراک سے ۲۰۱۳ء میں منظرِعام پر آتا تھا۔
(ر) زندگی ( غزل ، نظم ، ماہیا)
یہ انٹر نیٹ ایڈیشن ہے اور اس کا مطالعہ کرنے کے لیے www.haider-qureshi.blogspot.de پر کلک کرنا ہوگا۔ اس میں تقریباً وہی کلا م طبع ہو ا ہے جو پہلے مجموعوں میں موجود ہے ،کچھ پرانا کلا م بھی یہاں پڑ ھا جا سکتا ہے۔ حیدر قریشی کے تما م ماہیے قارئین کو بآسانی دستیاب ہیں۔
(الف) فکر ی محاسن
اُردو ادب میں ماہیا کی صنف اپنے اختصار اور تاثیر کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ اگر چہ مختصر سہ مصرعی اظہا ر یہ ہے تاہم اس میں زندگی کے بے شمار فکر ی رویے اپنی جگہ بنا تے چلے جاتے ہیں ۔ حیدر قریشی کے ماہیوں میں فکر ی عنا صر خاصی تعداد میں موجو د ہیں لیکن یہاں ان کی نمائندہ فکر پر روشنی ڈالی جا ئے گی۔
(۱) حضرت محمد ؐ سے عقیدت اور محبت
سرورِ کو نین ؐ اور فخر موجود ات حضرت محمد ؐکے ذاتِ اقدس پر دنیا کی ہر زبان میں لکھنے کا سلسلہ تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ اُردو زبان و ادب میں بھی آپؐ کی سیر ت ، بصیرت اور حکمت واعجاز کی مد حت سرائی کی طویل روایت موجو د ہے۔ حق بات تو یہ ہے کہ آپ کی توصیف کر نے والا جہاں اپنی عقیدت کا ا ظہار کرتا ہے،وہاں اپنی فلاح کا متلا شی بھی ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کی شاعری میں نعتیہ ماہیوں کا اپنا ایک خاص انداز ہے جو قاری کے دل ودماغ پر گہر ے اثرات ثبت کرتا ہے۔ درج ذیل ماہیوں میں یہ رنگ بخوبی ملا حظہ کیا جاسکتا ہے۔ اِن ماہیوں میں شاعر کے جذبات ، احساسات اور خیالات عشق محمد ؐمیں ڈوبے نظر آتے ہیں۔
( ا) پھیلے تھے اُجا لے سے
کملیؐ والے کے
پر نور حوالے سے (۱۶۲)
(ب) سب صبحوں کا تاج ہوئی
رحمت عالمؐ کو
جس شب معراج ہوئی (۱۶۳)
(ج) نکلی ہے یہ دل سے دعا
فیض محمدؐ سے
رب زدنی علما (۱۶۴)
ان نعتیہ ماہیوں میں حضور اکرمؐ کی مدحت تواپنی جگہ روشن ہے اس کے پس پردہ شاعر کی عقیدت اور خلوص بھی موجزن ہے۔
(۲) خانہ خدا میں حاضر ی کی کیفیت
حیدر قریشی کو ۱۹۹۶ء میں عمرے کی اور ۲۰۰۳ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ یہ دونوں سفر نامے’’ سوئے حجاز‘‘ کے نام سے سرور اکادمی ، جر منی نے ۲۰۰۴ء میں یکجا صورت میں شائع کر دئیے تھے۔ خانۂ خدا میں وہ جن روحانی کیفیات سے سرشار ہو ئے اس کا ذکر ’’ سوئے حجاز‘‘ کے علا وہ غزلوں اور ماہیوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
(الف) کثرت کی زبانی ہیں
کعبہ کی دیو اریں
وحدت کی نشانی ہیں (۱۶۵)
(ب) کس نو ر کا درشن تھا
سامنا ہو تے ہی
روشن مراتن من تھا (۱۶۶)
(ج) پو چھو نہ مزہ ہم سے
پیاس بجھا ئی تھی
جب بئر زم زم سے (۱۶۷)
تیسر ے ماہیے کے آخر ی مصرعے میں بئر کا لفظ آیاہے ،حیدر قریشی نے کلیات میں اس کی وضاحت کرتے ہو ئے لکھا ہے ۔ ’’ عربی میں کنویں کو بئر کہتے ہیں۔ یعنی زم زم کا کنو اں ‘‘( کلیات: ص ۱۵۷) یہ ماہیے دین اسلام کی مرکزیت اور فرد کی روحانی کیفیت کو اُجا گر کرتے ہیں۔
(۳) حضرت علی ؓ کے فرمودات سے اکتساب
حیدر قریشی ایک وسیع المطالعہ ادیب ہیں اُن کی تخلیقی اور تنقید ی تحریروں میں علمی نکات کسی نہ کسی حوالے سے اپنی جھلک دکھا جا تے ہیں۔ درج ذیل ماہیوں میں اُنھوں نے حضرت علیؓ کے اقوال سے استفادہ کرتے ہو ئے فکر و نظر کی تطہیر کا فریضہ انجام دیا ہے:
الف) اﷲ کو جان لیا
جس نے بھی اپنے
من کو پہچان لیا (۱۶۸)
(ب) اب سمجھ میں آیا ہے
علم کے نقطے کو
جہلا نے بڑھا یا ہے (۱۶۹)
حیدر قریشی نے اس حوالے سے اور بھی ماہیے لکھے ہیں لیکن بخوف طوالت انھی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
(۴) صوفیا ئے کرام سے نیاز مند ی:
حیدر قریشی کو صوفیا ئے کرام سے خاص لگاؤ ہے اس کا اظہار ان کے افسانوں ، شاعری اور نجی خط وکتابت سے بھی ہو تا ہے اس حوالے سے صرف دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
(الف) گو خاک پہ رہتے ہیں
لیکن دیکھو تو
افلاک پہ رہتے ہیں ( ۱۷۰)
(ب) اُلجھے جو فقیروں سے
یوں سمجھو اُلجھے
اپنی تقدیروں سے (۱۷۱)
شگفتہ الطا ف نے حیدر قریشی کے ماہیوں میں موجود موضو عات پر بات کر تے ہو ئے لکھا ہے:
’’ حیدر قریشی کے ماہیوں میں کائنات کی خوبصورتی کھلی کتاب کی طرح
موجود ہے اور ہر نظر اس میں سے اپنی پسند کے منظر نامے کو ڈھونڈ سکتی
ہے۔ اُن کی نگاہ کے مختلف زاویے اس کے ماہیوں میں موجود ہیں ، کہیں
وہ کائنات میں موجود حسن کا مطالعہ کرتا ہے اور کہیں اپنے فن میں بسی
حسن و محبت کو الفاظ کی جامہ گیر ی میں ملفو ف کیے ہو تے دکھا ئی دیتا ہے۔‘‘ (۱۷۲)
حیدر قریشی کی ماہیا نگاری واردات قلبی اور تاریخی صداقتوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔
(۵) بچپن اور اہل خانہ کا ذکر
حیدر قریشی نے زندگی کے لمحات کو امر کرنے کی خاطر اپنے بچپن اور اہل خانہ کو یاد نگاری کے ذریعے محفوظ کر دیا ہے۔ ان کی کتاب’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘ اپنی موضوعات کو تفصیلاََ بیان کرتی ہے ۔ شاعری میں غزل میں کہیں کہیں ایسے حوالے نظر آجاتے ہیں لیکن ماہیے میں یادوں کا یہ سمند ر رواں دواں بہتا چلا جاتا ہے۔
(الف) بچپن کے خز انے میں
کتنے زمانے تھے
اسی ایک زمانے میں (۱۷۳)
(ب) دن تو وہی اچھے تھے
جب اسکو ل کے ہم
چھو ٹے سے بچے تھے (۱۷۴)
اپنے بیٹوں پر حیدر قریشی کا ماہیاملاحظہ ہو:
(ج) دریا کی روانی ہے
اب مرے بیٹوں میں
مر ی گزری جوانی ہے (۱۷۵)
زوجہ کے حوالے سے:
(د) اک روح کا قصہ ہے
میر ے بدن ہی کا
جو گم شدہ حصہ ہے (۱۷۶)
اہل خانہ کے حوالے سے ان کے ماہیے خاندان کے تقریبا ًتمام اہم افراد پر مشتمل ہیں حتیٰ کہ نواسے اور نواسیوں کا ذکر بھی شامل ہے۔ ان ماہیوں میں خلوص ، محبت اور قربت کی فراوانی نظر آتی ہے۔
(۶) مظاہر فطرت سے دل چسپی
حیدر قریشی کے ماہیوں میں مظاہر فطر ت کے حوالے سے خاص دل چسپی نظر آتی ہے۔ اُن کی آنکھ جہاں کوئی اچھا منظر دیکھتی ہے، اُسے بعدا زاں احتیاط سے صفحہ ء قرطاس پر منتقل بھی کردیتی ہے۔ چند مثالیں قابل توجہ ہیں:
(الف) کھیتوں کے کنا رے ہیں
دور تلک پھیلے
فصلوں کے نظارے ہیں (۱۷۷)
(ب) پودے جو کپاس کے ہیں
منظر پھو لوں کے
خوشیوں کی آس کے ہیں (۱۷۸)
(ج) شیشم کی قطاریں ہیں
لو کے تھپیڑوں میں
راحت کی بہاریں ہیں (۱۷۹)
فطرت پسند ی کے عنا صر ان کے ماہیوں میں اس قدر نمایاں ہیں کہ ہر صفحے پر ایک دو مثالیں بآسانی مل جاتی ہیں۔
(۷) سماجی روایا ت کا شعور
حیدر قریشی نے اپنے ماہیوں میں سماجیات کے جیتے جا گتے تجر بات اور مشاہدات کو نہایت سلیقے سے پیش کرکے کہ اس صنف کے موصنو عاتی امکانات کو وسعت دی ہے۔ رخصتی کا یہ منظر ملا حظہ ہو:
(الف) یہی رسم ِزمانہ ہے
بابل کے گھر کو
اب چھو ڑ کے جانا ہے (۱۸۰)
(ب) بارات کا منظر ہے
خوشیوں کا مو سم
برسات کا منظر ہے (۱۸۱)
روایتی کھیلوں پر بھی ان کی گہر ی نظر ہے :
(ج) کچھ یادیں اُترتی ہیں
بکھر ی ٹھیکریاں
’’ پٹھو ‘‘ کی سنورتی ہیں (۱۸۲)
(د) جب کھیلنے ’’کھو ‘‘ بیٹھے
دیکھ کے اک ساتھی
ہم اس کے ہو بیٹھے (۱۸۳)
(ر) چاہت کی گواہی کا
کھیل لڑکپن کا
تھا ’’چور سپا ہی ‘‘ کا (کلیات:ص۱۵۳)
ماہیا اصلاََ ثقافتی اقدار کی بنیادوں پر اُستوار ہوتا ہے۔ حیدر قریشی نے اس صنف کے اصل تشخص کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے تجربات ماہیے میں پیش کیے ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی لکھتے ہیں:
’’ حیدر قریشی ماہیے کی نغمانی ہیئت کو واضح اور اس کے ثقافتی رنگ کو نمایاں کر کے محبت کے پھو ل پر دل میں مہکنے کی دعا کرتے ہیں۔ (۱۸۴)
خصو صاً پنجاب کی ثقافت کا عکس اُن کے ہاں زیادہ نمایا ں ہے۔ حیدر قریشی نے پنجابی ثقافت کو اُردو زبان کے توسط سے دیکھنے اور دکھانے کی جو سعی کی اس کی وجہ سے صنف ماہیا کا مو صنو عاتی کینوس وسعت پذیر ی کی طرف مائل دکھا ئی دیتا ہے۔
ّ(۸) لوک داستانوں کا ذکر :
علاقائی ثقافت کاایک نمایاں حوالہ لوک داستانیں ہیں ،حیدر قریشی نے اس ثقافتی مظہر پر خصو صی توجہ صر ف کرتے ہوئے اہم داستانوں کو ماہیوں میں محفو ظ کر دیا ہے:
الف) اک دیو کا ہے پا لا
ایک خزانے پر
اک سانپ ہے رکھو لا (۱۸۵)
(ب) گھبرا کے یا پھر ڈر کے
مڑ کے اگر دیکھا
ہو جا ؤ گے پتھر کے (۱۸۶)
(ج) پُنو ں تھا کہ بادل تھا
آنکھ میں سسیؔ کی
صحرا کوئی جل تھل تھا (۱۸۷)
(د) اک بنسی نشانی تھی
کرشن ؔکنہیا اور
رادھا ؔکی کہا نی تھی (۱۸۸)
(ر) اَن ہو نے کام ہوئے
سیتا ؔکے ہاتھوں
پتھر بھی رام ہو ئے (۱۸۹)
اس نو ع کے ماہیے پڑ ھ کر احسا س ہوتا ہے کہ حیدر قریشی اس صنف پر مجتہدانہ دسترس رکھتے ہیں ۔ اُن کا طرزِ فکر ماہیے میں چھپے امکانات ڈھونڈنکا لتا ہے۔
(۹) عمر گریزاں کا احسا س
وقت اور عمر کے مسائل پر حیدر قریشی کاغو روفکر اُن کی تخلیقات میں کسی نہ کسی طور پر موجود رہتا ہے۔ ماہیے میں یہ دونوں مسائل قدرے نئے زاویوں کے ساتھ جلو ہ گرہو ئے ہیں۔
صرف ایک نمائندہ مثال پرا کتفا کیا جاتا ہے۔
٭ دوپہر جو انی تھی
پل میں بیت گئی
پھر شام سہانی تھی (۱۹۰)
حیدر قریشی کے ہاں فکری موضوعات کا دائر ہ خاصا وسیع ہے اور اُن کا کلی احا طہ کر نے کے لیے کئی دفتر درکا ر ہوں گے تا ہم نمائند ہ مثالوں پر بات کر دی گئی ہے، اب ان کے فنی محاسن پر توجہ کی جاتی ہے۔
(ب) اُسلو بیاتی اور فنی محاسن
حیدر قریشی کے ما ہیے جہاں فکر ی محاسن سے مزین ہیں وہاں فنی اوصاف کے باعث جذبہ اور تصور کی تجسیم بھی کر رہے ہیں ۔ فکر و فن کا یہ امتزاجی عمل خیال کی شیر ازہ بندی میں حسن و جما ل کے رنگ پیدا کرتا ہے۔ ان فنی محاسن کا مطالعہ اصل میں شاعر کے ذہنی اُفق اور جو دت ِطبع کا مطالعہ بھی ہے ۔ ذیل میں نمائندہ فنی اوصاف پر بات کی جائے گی۔
(۱لف) محاکات نگاری
محا کات سے مراد لفظی تصویر کشی ہے۔ یہ وصف نظم و نثر میں مشترک ہے ۔ حیدر قریشی نے اپنے ماہیوں میں محاکات نگاری کے ایسے عمدہ نمونے مہیا کیے ہیں جو پڑھنے والوں کی نگاہ میں متحرک ہو جاتے ہیں ، سو ہنی دھرتی یا وطن کے حوالے سے دو ماہیے لائق توجہ ہیں:
(الف) خوشبو احساس اس کا
رنگت سرخ ، سفید
اور سبز لبا س اس کا (۱۹۱)
(ب) مکھ دھرتی کا نورانی
جھو مر پیڑ اس کے
کھیت اس کی ہیں پیشانی (۱۹۲)
یہ ماہیا ملاحظہ ہو جس میں صوتی اثرات بھی شامل ہیں :
(ج) پھر رقص میں بادل ہے
چھم چھم بجنے لگی
پھر بوند وں کی پائل ہے (۱۹۳)
محاکات کی دیگر مثالوں میں حیدر قریشی نے اردگرد کے ماحول اور خصو صاً فطر ی مناظر کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
(۲) ماہیے کے اوزان
ماہیا اصل میں پنجابی سے اُردو میں آیا ہے اور اسے سہ مصرعی ترتیب یا ہیت میں لکھا جاتا ہے۔ ماضی میں شعرائے کرام نے ثلا ثی اور ہائیکو کے اوزان میں ماہیے لکھے جس کی وجہ سے ماہیے کی اپنی شناخت گم ہو کر رہ گئی تھی۔ حیدر قریشی نے اس صنف کے اوزان اور مزاج کی وضاحت کے لیے جو تحقیقی اورتنقید ی مضامین لکھے تھے، وہ بالآخر ایک تحر یک کی شکل اختیار کرگئے جس کا فائد ہ یہ ہوا کہ اب اُردو ادب میں ماہیے کو دوسر ی تمام اصناف سے الگ سمجھا جاتا ہے اور اسے مخصوص اوزان کی مد د سے لکھا جار ہا ہے۔ حیدر قریشی نے ماہیے کو اپنا اصل مقام دلانے میں کلید ی اور تاریخی کا رنامہ انجام دیا ہے۔
حیدر قریشی نے اُردو ماہیوں میں پنجابی اوزان کی پابندی کرنے پر زور دیا ہے ماضی میں ساحرؔ لدھیا نوی اور قمر جلا ل آبادی نے بھی اسی روایت کی پیر و ی کی ہے۔ حیدر قریشی نے اپنی ماہیوں میں جن اوزان کو برتا ہے اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
الف) مو لا کی عنایت تھی
اپنے مقدر میں
جرمن کی ولایت تھی (۱۹۴)
ارکا ن :
مفعول مفاعیلن
فاع مفاعیلن
مفعول مفاعیلن
(ب) کیا لطف رہا ئی کا
دل جب سہ نہ سکے
دکھ تیر ی جدائی کا (۱۹۵)
ارکان :
مفعول مفاعیلن
فعلن فاع فعل
مفعول مفاعیلن
محو لہ بالا اوزان کا تنو ع پنجابی ماہیے کے مطابق ہے ۔حیدر قریشی نے شاعری کے متنو ع اوزان استعما ل کر کے ثابت کیا ہے کہ پنجابی ماہیے کی ہر صورت میں قائم رکھی جا سکتی ہے۔
(۳) لسانی شعور
صنف ماہیا کا ثقافتی پس منظر یہ واضح کر تا ہے کہ اس صنف نے فطری ماحول میں پرورش پائی ہے روزمرہ بولی جانے والی زبان کی سادگی ماہیے میں اپنی جھلک دکھا جا تی ہے۔ حیدر قریشی نے اپنے اُردو ماہیوں میں کئی ایسے الفاظ نہایت سہو لت کے ساتھ استعمال کیے جو عوامی محل ِاستعمال تو رکھتے ہیں لیکن ادبی زمرے میں نہیں آتے تھے۔ یہ ان کا لسانی شعور ہے کہ اصل زبان کی چاشنی اور سادگی کو قائم رکھا ہے۔ یہ مثالیں ملاحظہ ہوں:
(الف) تقدیر ہی پھوٹ گئی
’’ پینگ ‘‘ چڑ ھا لی جب
تو رسی ٹو ٹ گئی (۱۹۶)
’’پینگ‘‘ کا لفظ گاؤں میں عام استعمال ہوتا ہے،ماہیے میں اس کا استعمال خوب صورتی پیدا کر رہاہے۔
(ب) دکھ درد سے ہاروں کے
دیکھتے آکے کبھی
حال اپنے ’’ بماروں‘‘ (۱۹۷)
’’بیماروں ‘‘کی جگہ خالص پنجابی تلفظ ’’ بماروں‘‘ کو ترجیح دی گئی ہے جو ایک خاص ثقافتی پس منظر رکھتا ہے اور ماہیے کی اصل فضا کا لطف بڑھاتا ہے۔ ان کے دیگر ماہیوں میں ’’چن ماہی‘‘ ،’’ یادوں کے بنیرے‘‘ ،’’ جانگلی‘‘ ،’’ اشٹاپو‘‘ اور’’ کو کلا‘‘ جیسے خوبصورت پنجا بی الفاظ اپنی پوری معنو یت کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔
(۴) سراپا نگاری
حیدر قریشی کے ماہیوں میں سراپا نگاری کے عنا صر عمدہ تشبیہات کی مد د سے جاذب ِتوجہ ہیں ۔ اُنھوں نے تشبیہہ کے استعمال میں بھی عوامی بولی اورگاؤں کی سادگی کو برقرار رکھا ہے:
(الف) ہونٹ اس کے اناری ہیں
گال ہیں اس کے یا
د و سیب قند ھا ری ہیں (۱۹۸)
(ب) اُن آنکھوں کی مغروری
ہو ش اُڑا ڈالے
وہ شربتِ انگوری (۱۹۹)
ا س موضوع کی کئی مثالیں موجود ہیں ، بخوف طوالت انھی پر اکتفا جاتا ہے۔
(۵) جد تِ ادا
جدت ادا سے مراد یہ ہے کہ فرسودہ اور پامال مضا مین کو نئے انداز سے بیا ن کر نا یا نئے نئے مضامین تلا شنا ۔ حیدر قریشی کے ہاں جدت ِادا کی دوسری صورت عام ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہو :
(الف) سب ہی مجھے پیارے ہیں
پو تے ، نواسے سب
دل کے سی پارے ہیں (۲۰۰)
(ب) جب پوتی ہوئی ماہمؔ
باہم رشتے بھی
کچھ اور ہو ئے باہم (۲۰۱)
حیدر قریشی نے جد ت ِاد ا کے عمومی اُصولوں کی پاسداری کی ہے اور معنی آفرینی کے ساتھ ساتھ سادگی کو بھی برقرار رکھا ہے۔
(۶) مجاز کی صورتیں
شاعری میں معنی اور احساس کی ترسیل و تفہیم کی خاطر مجاز کے علا قے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک اچھا شاعرمجاز کی مدد سے ابلاغ و اظہار میں حائل رکاوٹیں دور کرتا چلا جاتا ہے۔ مجاز کا ہر علا قہ کسی نہ کسی حوالے سے استعارے کے ساتھ بھی جڑا ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کے ماہیوں میں مجاز کی حسب ِذیل صورتیں توجہ طلب ہیں :
(الف) یو رپ کا نگینہ ہے
اُبھر اہوا دیکھو
اس دھر تی کا سینہ ہے (۲۰۲)
حیدر قریشی نے یہ ماہیا جرمنی کے حوالے سے کہا ہے۔ اور مصر ع اولیٰ میں ’’ نگینہ‘‘ کا لفظ بطور مجاز’’ جرمنی ‘‘کے لیے استعمال ہوا ہے، یہ مثال ملا حظہ ہو :
(ب) سرسبز سماں ہوگا
جل گئے خواب اگر
آنکھوں میں دھواں ہوگا (۲۰۳)
آخر ی مصرعے میں لفظ ــ’’ دھو اں ‘‘ مجاز کی صور ت اپنے معنی ادا کر رہا ہے۔ اس طرح کی مثالیں مزید بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
(۷) خیال بندی
شاعری کی نوعیت علمیاتی اور وجو دیاتی ہوتی ہیں اس میں خیال بندی کا رشتہ علمیاتی سطحو ں پر مشتمل ہوتا ہے۔ خیا ل بندی میں شعری مضامین اور مضمون آفرینی کے تما م مظاہر شامل ہیں۔ کسی خاص تصورکو شعریت کے دائروں میں بندکر نا ہی شاعر کا اصل کمال ہے۔ حیدر قریشی کے ہاں خیا ل بندی کی درج ذیل صورتیں نظرآتی ہیں:
(الف) قصو ں کا بہانہ تھا
دو جے حوالوں سے
دکھ اپنا سنا نا تھا (۲۰۴)
(ب) جب خامشی بولتی ہے
گر ہیں محبت کی
آنکھوں سے کھو لتی ہے (۲۰۵)
(ج) دُھن کتنی ہی پکی ہو
پیار نہیں چلتا
جب یا رہی شکی ہو (۲۰۶)
ان ماہیوں میں خیال بندی کا اہتما م بہت واضح اور متا ثر کن ہے۔
(۸) تخیل
سید عابد علی عابد کا کہنا ہے:
’’ تخیل شعور کی معراجی صورت ہے اور شاعر انہی معنوں میں صاحب ِشعو ر ہوتا ہے۔‘‘( ۲۰۷)
شاعری میں فکر و نظر کے تقریبا ًتمام تشکیلی عنا صر تخیل کی مد دے اپنا جادو جگاتے ہیں،تخیل کی وجہ سے شاعر اور نثر نگاروں کو اَن دیکھی دنیاؤں کی سیر کا موقع ملتا ہے۔ حیدر قریشی کی غزل ، نظم اور ماہیا میں تخیل کی اُڑان دید نی ہے۔ یہ مثالیں ملاحظہ ہوں:
(الف) اَن دیکھے جہانوں تک
دل نے پہنچنا ہے
چاہت کے خزانوں تک (۲۰۸)
(ب) کوئی وہم یا جادو تھا
رنگ ہَوا،اُس کا
جسم اُس کا خوشبو تھا (۲۰۹)
حیدر قریشی کے تخیل میں اَن دیکھے جہانوں کا مکا لمہ بھی ہے اور محبو ب کی پیکر تراشی اور زاویے بھی۔ ان کا حرکی تخیل تمثال ہا ئے خیال پیدا کر تا ہے اور مجازی معنو ں میں وسعت اور گہر ائی پیدا کرتا ہے۔ مجا ز کے نئے رنگ تخیل سے جِلاپاتے ہیں ۔ حیدر قریشی کے ماہیوں میں تخیل کے رنگ نکتہ آفرینی کا نیا جہان پیدا کرتے ہیں۔
(۹) مکا لماتی انداز
حیدر قریشی نے اپنے ماہیوں میں جہاں اور نئے تجر بات کیے وہاں اس صنف میں مکا لماتی رنگ دکھا نے کا کامیاب تجربہ بھی کیا ہے ۔ مثالیں دیکھئے :
مرد: کتنے بد نام ہو ئے
پیار میں تیر ے ہم
پھر بھی ناکا م ہو ئے
عورت: ناکامی سے ڈرتے ہو
عشق بھی کرتے ہو
بدنا می سے ڈرتے ہو
مر د: اس حال فقیری میں
عمریں بیت گئیں
زلفوں کی اسیر ی میں
عورت: زلفوں سے رہا ہو جا
رب تیر ی خیر کرے
جاہم سے جدا ہو جا (۲۱۰)
حیدر قریشی کے تما م ماہیوں کا ایک اپنا خاص سیا ق و سبا ق ہے اور علامت کے تلازمات اتنے گہر ے ، متنوع اور واضح مفاہیم کے حامل ہیں کہ قاری کو دوران مطالعہ بار با ر خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ جد ید ماہیے فنی ، فکر ی اور اُسلوبیاتی حوالے سے لائق تحسین ہیں۔