حید ر قریشی کی تخلیقی جہت کا ذکر انشائیہ نگاری کے بغیر نامکمل ہے۔ ان کے انشائیے مختلف ادوار میں معاصرادبی رسائل وجرائد میں اشاعت پذیر ہوتے رہے اور بعدازاں تمام انشائیے’’ عمر لاحاصل کا حاصل ‘‘(شعری اور نثری کلیات) میں یکجا نظر آتے ہیں۔ بحث کو مزید آگے بڑھانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انشائیہ کی تعریف ، اصطلاح اور حد دو پر بات کر لی جائے تا کہ موضوع ِ زیر ِ بحث کے تمام مقامات روشن ہوتے چلے جائیں۔
٭ انشائیے کا آغاز
ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا ہے:
’’ جدید تنقید میں غالباً انشائیہ وہ واحد صنف ادب ہے جس کے بارے میں بڑے نزاعی نظریات اور جذباتی مقالات لکھے جاتے ہیں۔ اس کی تعریف اور آغاز دونوں پر لے دے ہوتی رہی ہے۔‘‘ (۱۰۵)
یہ رائے حقا ئق پر مبنی ہے۔ آج سے تقریباََ نصف صدی قبل جب ڈاکٹر وزیر آغا اور اُن کے قریبی رفقا نے اپنی بعض مخصوص تحر یروں کو انشا ئیہ کہنا شروع کیا تو بحث و منا ظرے کا ایک طوفا ن اٹھ کھڑ ا ہواتھا اور خوابِ جوانی کی مانند انشائیے کی بھی نت نئی تعبیر یں سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس قضیے کی اصل وجہ یہ تھی کہ کچھ ناقدین انشائیہ کی اصطلا ح کو مضمون کے ساتھ خلط ملط کر رہے تھے اور دبستان سرگودھا کے تخلیق کار اور ناقد ین ومحققین اس صنف کو مضمون اور مقالہ نگاری سے الگ صنف ثابت کر رہے تھے ۔ اگر ان تمام نزاعی امو ر پر نظر کی جا ئے تو یہ اندزاہ لگانا مشکل نہیں کہ انشائیہ جیسی نئی صنف پر بات کرتے ہو ئے عدل وانصاف اور معروض حقائق و شواہد کو پس پشت ڈال کر محض جذباتی تنقیدیں لکھی جاتی رہی ہیں ۔ اس کا سب سے بڑ ا نقصان یہ ہوا کہ انشائیہ کو اردو ادب میں قدم جمانے میں خاصی تاخیر ہوگئی۔
جدید عہد میں انشا ئیے کی صنف پر نظر ڈالی جائے تو علم ہوتا ہے کہ تما م تر رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود اس صنف نے اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا ہے اور ڈاکٹر وزیر آغا کی زیرِ تربیت انشائیہ نگاری پر کام کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد فعال ہوگئی ہے۔
٭ انشائیہ کی تعریف
ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول:
’’ انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اُسلوب کی تازہ کاری کا مظاہر ہ کرتے ہو ئے اشیا ء یا مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدارسے ایک قدم باہر آکر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے کامیاب ہو جا تا ہے۔‘‘ (۱۰۶)
یہ تعریف منطقی اعتبار سے جامع و مانع ہے اورا نشائیہ کے تمام اوصاف کو محیط ہے ۔ انشائیہ کا اسلوب شگفتہ اور غیر رسمی ہو تا ہے اور طنز و مزاح کے عناصر اگر خاص اعتدال سے شامل ہوں تو اس کی تا ثیر میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اس صنف کے لیے طنز و مزاح کی کوئی لازمی شرط نہیں ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا اس حوالے سے روشنی فراہم کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’ دراصل اُسلوب کی شگفتگی یا اس میں طنز ومزاح کی آمیز ش کو انشائیہ کیلئے ناگزیر قرار دینا کسی صورت میں بھی مستحسن نہیں ہے۔ انشائیہ میں طنز کی کاٹ یا مزاح کی پھلجھڑی کا در آنا انشائیہ نگار کے خا ص مو ڈ یا مزاح کا ر ہین منت ہوتا ہے۔‘‘ (۱۰۷)
انشائیے کے موضوعات عمو ما ہلکے پھلکے ہوتے ہیں اور انشائیہ نگار اپنے زورِ تخیل اور شخصی زاویہء نظر اختیار کرتے ہوئے موضوع کے ایسے پوشیدہ گو شے بے نقاب کرتا چلا جا تا ہے جو اَب تک نظروں سے اوجھل تھے۔ انشائیہ نگار کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ اپنے چنید ہ موضوع کو معمولی یا غیر معمولی بنانے کی صلا حیت رکھتا ہو۔
عام مضمون کے برعکس انشائیہ میں منطقی ترتیب کا فقدان ہوتا ہے اور اصلاح پسندی یا کسی خاص نقطۂ نظر کا پر چار کرنا اس صنف میں معیوب سمجھا جا تا ہے۔ انشائیہ نگاروں کے ضمن میں جواختلافی مباحث منظر عام پر آئے اگراُ ن کا غیر جانب داری سے محاکمہ کیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اکثر ناقدین انشائیہ کو مضمون ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل قرار دیتے ہیں اور مضمون نگاری کے جملے اوصاف کو انشائیے میں بھی متحرک دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔بدیں سبب سرسید احمد خان کی ایسی تحر یروں کو انشائیہ کہا جانے لگا جس میں پندونصائح اور مقصدیت کے عناصرحاوی تھے۔
اکبر حمیدی اس صنف کے دیگر وصفی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ انشائیہ نگار نئے عہد کی نئی زندگی کے نئے نئے رخ نئے انسان کے اظہار ی
تقاضوں کا دور تک ساتھ دیتا ہے۔‘‘ ( ۱۰۸)
انشائیہ کے فنی اور فکری اوصاف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغاز لکھتے ہیں:
’’ا نشائیہ ایک ایسی غیر افسانوی صنف نثر ہے جو قاری کو بیک وقت لطف اندوزی ، جسمانی تسکین اور جمالیا تی حظ مہیا کرنے پر قادر ہے اس لیے میں اسے امتزاجی صنف کا نام دیتا ہو ں جس میں کہانی کا مزہ ، شعر کی لطافت اور سفر نامے کا فکر ی تحرک یکجا ہو گئے ہیں۔‘‘(۱۰۹)
مسرت کاحصو ل انشائیہ نگاری کا وہ اہم مقصد ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے انشائیہ نگار کے پیش نظررہتا ہے اور خیالات کی تعمیر و تشکیل میں اپنا جلوہ دکھا جاتا ہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو مونتین(Montaine ) کی پیر وی کا عمل آج بھی جارہی ہے۔
٭ حیدر قریشی کے انشائیوں کا تعارف
حیدر قریشی کے کلیات میں کل دس انشائیے شامل ہیں اور اس کتاب کا نام’’ فاصلے قربتیں ‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ کتاب طباعت کے مراحل سے گزررہی ہے اور جلد منظر عام پر آجا ئے گی۔
اپنی موجود شکل میں یہ کتاب کلیات کا حصہ ہے۔
٭ انشائیوں کا عنوان :
۱۔ خاموشی
۲۔ نقاب
۳۔ وگ
۴۔ فاصلے ، قربتیں
۵۔ بڑھا پے کی حمایت میں
۶۔ اطاعت گزاری
۷۔ یہ خیر و شر کے سلسلے
۸۔ چشم ِتصور
۹۔ اپنا اپنا سچ
۱۰۔ تجر بہ اور تجر بہ کاری
انشائیہ نگاری میں عنوان کی اہمیت دوسری اصناف کی نسبت قدرے زیادہ ہے۔ انشائیہ نگاری اور تحلیل نفسی میں یہ نکتہ قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے کہ دونوں میں کسی ایک عنوان کے گرد سوچوں کا پورا ہالہ تیار کر نا ہوتا ہے اور خیالات کا ربطہ یا بے ربطی دونوں کا اپنااپنا جواز ہے اور ہر ایک کی اہمیت مسلمہ ہے ۔اُردو ، انگریزی اور فرانسیسی انشائیہ نگاروں نے عنوانات کا چناؤ زندگی کے از حد عمومی پہلوؤں سے کیا ہے مثلا بٹن ، کمرہ ،کھڑکی ، سٹرک ، ایک درخت ، صدائے بازگشت ،اُداسی، آئینہ ، کرسی ،روشنی اور دیوار وغیر ہ۔
حیدر قریشی نے انشائیہ نگاری کے تمام اہم لوازم کو ملحوظ رکھتے ہو ئے اس صنف پر توجہ دی ہے ۔ ان کے انشائیے جہاں اور بہت سے تکنیکی اور فکر ی اوصاف کے حامل ہیں وہاں اس بات کی گواہی بھی دیتے ہیں کہ وہ انشائیے کے مرکزی اور ضمنی وقوعات کے ردو قبول کا سلجھا ہوا شعور بھی رکھتے ہیں ۔ اُن کے انشائیے اختصار اور جا معیت کے اصول پر تخلیقی سفر طے کرتے ہیں ۔ مسائل کو علامت اور استعارے کی صورت میں متشکل کرنا اُن کا کمال ہے۔ ذیل میں ان کی انشائی صفات پر تجزیاتی مطالعات پیش کیے جاتے ہیں۔
( ۱ ) انشائیے کا ابتدائی شعر
حیدرقریشی نے اپنے ہر افسانے اور انشائیے کا آغاز ایک شعر سے کیا ہے، اس کا منطقی جواز یہی ہے کہ ہر شعر مرکز ی موضوع پر مبنی ہے اور مو ضوع زیر بحث کی بہت سی اَن کہی باتیں شعر کی زبانی بیان ہوجاتی ہیں۔ یہ تما م اشعار طبع زادہیں اور موضوع کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاََ انشائیہ’’ نقاب ‘‘ کاآغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
حیدر ؔبھید جہاں کے جیسے خواب کے اندر خواب
ایک نقاب اگر الٹیں تو آگے اور نقاب (۱۱۰)
یہ انشائیہ پڑھ چکنے کے بعد قاری محسوس کرنے لگتا ہے کہ جیسے حیدر قریشی نے اسی شعری مضمون کو پھیلا کر انشائیہ بنا دیا ہے یا انشائیہ کے موضوع کو سمیٹ کر شعر میں بند کردیا ہے۔
انشائیہ ’’ وگ ‘‘ کا ابتدائیہ دیکھئے :
یہ بال و پر تو چلو آگئے نئے حیدر ؔ
بلا سے پہلے سے وہ خال اور خدنہ رہے (۱۱۱)
انشائیہ ’’ یہ خیر و شر کے سلسلے‘‘ کا شعر ملاحظہ ہو:
خیراور شر کی آمیز ش او ر آویز ش سے نکھر یں بھول اور توبہ کرتے سارے سانس بسر ہو جا ئیں (۱۱۲)
غرض ہر شعر پیش کر دہ صورتِ حال کا جامع مرقع ہے۔
(۲) تفکر کے عناصر
ڈاکٹر نا صر عباس نیر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
’’ انشائیہ انسان کی ذہنی اور تہذیبی ترقی کے ایک مر حلے پر نمودار ہوتا ہے۔‘‘ ( ۱۱۳)
یہی ذہنی اور تہذیبی ترقی انشائیے میں فکر یات کے ایسے عناصر پیدا کرتی ہے جن کا مطالعہ حیات وکائنات کی تقسیم میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ حیدر قریشی کے انشائیوں میں فکر ی اکائیاں دھیمے سروں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں ۔ اگر کہیں تخلیقی رو میں سروں کی آواز اُونچی ہو نے لگے تو انشائیہ نگار شعوری کا وش سے اُنھیں پھر سے دھیما بنا دیتا ہے۔ چند مثالیں ملا حظہ ہوں، انشائیہ ’’ اطاعت گزاری‘‘ میں کہتے ہیں:
’’ اطاعت گزاری کا جو ہر نہ صرف بغاوت ، سرکشی اور انحراف کے جذبات کو ختم کرتا ہے۔ بلکہ انسانی ذہن کو زیادہ سوچنے کے عمل س روک کر اسے بہت سی مشکلات سے بھی نجات بخش دیتا ہے۔ زیادہ سوچنے والے لوگ یعنی آزادنہ طورپر غوروفکر کر نے والے لوگ ، جب سوچتے ہیں تو بُرے بھلے میں حدِ فاصل قائم کرکے تعصب اور آویز ش کو ہو ادینے لگتے ہیں۔ ‘‘ (۱۱۴)
ا س طرح کے فکر ی تصورات اور تجر یا ت کا اپنا سیاق وسباق بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ اپنے سیا ق سے ہٹ کر بھی سماجی المیے کی ترجمانی کررہے ہیں ۔اقتباس میں موجود تما م الفاظ سادہ و سہل نظر آتے ہیں لیکن ان میں فکر ی پیچید گی موجود ہے جو قاری کی توجہ چاہتی ہے۔ اگرچہ انشائیے کا مقصد تلخ آگاہی نہیں ہوتا اور نہ پڑھنے والوں کو کسی ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر نا ہے۔ اب یہ انشائیہ نگار کا کمال ہے کہ وہ اس صنف اور موضوع کے اندر چھپے ابعاد اور جہات کو کبھی سنجید گی کبھی خوشی اور کبھی مسرت کے پیرائے میں کھو لتا چلا جاتا ہے اور قاری اس تخلیقی بہاؤ میں بہتا چلا جا تا ہے۔
انشائیہ ’’فاصلے ، قربتیں‘‘ کا یہ جملہ خاص توجہ کا متقاضی ہے:
’’ قربت کی انتہا سے فاصلہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح فاصلے کی انتہا قربت
کو جنم دیتی ہے یہ کوئی فلسفہ نہیں حقیقت ہے‘ ‘ ( ۱۱۵)
’’ تجر بہ اور تجربہ کاری ‘‘ ایک ایسا انشائیہ ہے جس میں حید رقریشی نے ’’تجربہ‘‘ کو ایجابی اور’’ تجر بہ کاری‘‘ کو سبلی اوصاف کے ساتھ منسوب کیا ہے اور اپنے اس مو قف کو منطقی استدلال سے مزین کر دیا ہے۔ یہ جملے لائق توجہ ہیں:
(ا) ’’ تجربہ کاری کا یہ اُصول ہے کہ جو چیز اپنے مطلب اور فائد ے
کے مطابق ہے وہی سچائی ہے باقی سب جھو ٹ ہے‘‘ ( ۱۱۶)
(ب) ’’تجربہ کاری کا ہنر جاننے والوں کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اپنے
واجبی علم کی خامیوں کو چھپا کر بڑی مہا رت کے ساتھ اپنے علم کا اظہار کریں گے۔ ‘‘ (۱۱۷)
(ج)’’ زندگی کے تجر بات زندگی کو معصوما نہ حیر ت سے دیکھنے اور پھر اس کی
جستجو کے سفر سے عبارت ہیں ۔ یہ حیرت اور جستجو اجتماعی نوعیت کی ہے ،
کیونکہ اس سے پوری انسانیت فیض یاب ہوتی ہے‘‘ (۱۱۸)
حیدر قریشی کے انشائیوں میں فکر یات کا ایک پورا نظام فعال ہے ، اس نظام کا مرکز ومحور اخلاقیات پر استوار ہے جس میں ایک طرف تونا م نہاد پاکبازوں کو ہدف تنقید بنایا جا تا ہے اور دوسری جانب سماجی رویوں میں چھپے کذب وافترا اور منافقت کا پردہ چا ک کیا جا تا ہے لیکن تنقید کا یہ عمل صنف انشائیہ کے مزاج کو متاثر نہیں ہونے دیتا۔
(۳) اُصول اخذ کرنے کی صلا حیت
حیدر قریشی کے انشائیوں میں سچی ، کھر ی اور جرات مندانہ باتوں کا سلسلہ در سلسلہ بیان ملتا ہے۔ یہ بیان قاری کے تجر بات میں خو شگوار اضافہ کرتا ہے اور اسے کئی مقامات پرچونکاتا بھی ہے ۔’’فاصلے قربتیں‘‘ میں شامل تمام انشائیوں میں ایک نمایاں وصف یہ سامنے آتا ہے کہ حیدر قریشی نے جن حالات وواقعات کو موضوع بنایا پھراُنھی میں سے مخصو ص نتائج اور اُصول اخذکرتے ہیں یہ اُصول وہ ثمرات ہیں جو قاری کی فکر ی اور جمالیاتی تربیت کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں:
۱۔ ’’ اگر ہر شئے بے نقا ب ہوتی تو کسی شے میں کوئی جاذبیت نہ رہتی۔ ‘‘ (۱۱۹)
۲۔ ’’ ہر سچ میں کچھ نہ کچھ جھوٹ اور ہر جھو ٹ میں کچھ نہ کچھ سچ ضرور ہوتا ہے ۔ ‘‘ (۱۲۰)
۳۔ ’’ ہر کسی کا اپنااپنا سچ ہے اور ہر کسی کو اپنے اپنے سچ کی حفاظت کرنی چائیے
نظریاتی سچ کی حفاظت نظریات پرعمل پیرا ہونے سے ہوتی ہے۔ ‘‘ (۱۲۱)
۴۔ ’’ یہ وہ تجر بہ کاری ہے جو اپنی عیاری کو مومنانہ حکمت اور دوسروں کی
دفاعی حکمت کو بھی مکاری قرار دیتی ہے‘‘ (۱۲۲)
(۴) سماجیات پر نظر
حیدرقریشی نے اپنے تقریباً تمام انشائیوں میں زندگی سے حاصل ہو نے والے تجربات اور مشاہدات کو بہ اندازِ دگر پیش کیا ہے یہ تجربات و مشاہدات اگرچہ انفرادی سطح سے اُٹھتے ہیں لیکن فنی چابکدستی اور انشائی تخلیقی عمل کی بدولت اجتماعی رنگوں سے ما لا مال ہیں ۔ کچھ رنگ ملاحظہ ہوں:
(ا) ’’ یہ ڈپلومیٹس ( امریکی ) دنیا بھر میں جمہوریت کے نفاذ کے علمبردار ہیں لیکن
اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے بعض ملکوں میں نہ صرف بادشاہت کو
تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ جہاں اپنا فائدہ نظر آئے وہاں جمہوریت کا خاتمہ
کرکے فوجی آمریت بھی مسلط کردیتے ہیں‘‘(۱۲۳)
(ب) ’’ اصولاًکسی کو اپنی خوبصورتی کے ثبوت کے لیے دوسروں کی بدصورتی
کو نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں ہو نی چائیے ‘‘ (۱۲۴)
(ج) ’’ سچے اطاعت گزار کا کمال یہ ہے کہ جو سانحہ اس کے اپنے گروہ کے ساتھ پیش آئی
اُسے تو وہ خدا کی طرف سے آزمائش اورامتحان قرار دیتا ہے لیکن اگر ویسا ہی سانحہ
بلکہ اس سے بھی کم تر کسی دوسرے گروہ کوپیش آئے تو پورے ایمانی جو ش و خروش
کے ساتھ سے عذاب ِالہٰی سے تعبیر کرتا ہے‘‘ (۱۲۵)
حیدر قریشی نے خود کو عالمی سطح پر بھی با خبر رکھا ہوا ہے اور اُن کی شخصیت کا یہ پہلو جہاں اُن کی باقی اصناف پر خوش گوار اثرات مرتب کر رہا ہے وہاں انشائیوں میں بھی اس کی جھلکیاں دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہیں۔مذکورہ بالا مثالوں میں عمرانی شعور اسی صفت کا زائیدہ ہے۔
(۵) سائنسی عناصر
حیدر قریشی سائنسی علوم کے حوالے سے طبیعیات میں خاص دل چسپی رکھتے ہیں اور اس شوق کی وجہ ڈاکٹر وزیر آغا کی دوستی قرار دی جاسکتی ہے۔ آغا صاحب کے اکثر قریبی دوست اسی مشترک شوق کے اسیر ہیں ۔ حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں اس شوق کا اظہار کیا ہے مثلا ً اُن کاانشائیہ ’’ چشمِ تصور ‘‘ ایٹم کے جد ید تصورات پر روشی ڈالتا نظر آتا ہے ۔ اُنھو ں نے ایٹم کی اندرونی ساخت پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے :
(ا) ’’ پہلے پہل کہا گیا کہ ایٹم مادے کا بلڈنگ بلاک ہے بعد میں اسی ایٹم کی
چالیس سے زائد پارٹیکلز دریافت ہو گئے۔ بات Quarks تک پہنچی مگر پھر اس کے
بھی مزید چھ کلرز سامنے آگے۔Quarks سے ’’ ہیڈ رونز ‘‘ بنتے ہیں‘‘ (۱۲۶)
(ب) ’’ سائنس ابھی تک چھوٹی کائنات یعنی ایٹم کا کوئی انت تلاش نہیں کر سکی ۔‘‘ ( ۱۲۷)
حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں سائنسی مسائل سے اُس وقت تعرض کیا جب وہ تخلیقِ کا ئنات پر غوروفکر کررہے تھے۔ اس دوران وہ لا شعوری طور پر تخلیق اورایٹم کے باہمی تعلق پر سوچنے لگ گئے۔ اُنھوں نے نظام ِشمسی اور کائنات کے دیگر مظاہر کو بلیک ہو لز کے تنا ظر میں بھی سمجھنے کی سعی کی ہے۔
حیدر قریشی کاچشم تصور اگر ایک طرف سائنس کے جد ید ترین نظریات سے روشنی حاصل کرتا ہے تو دوسری جانب جن ، دیو ، پریاں اور اُڑن کھٹولے اُن کے تخیلات کو مہمیز لگاتے ہیں ۔ وہ ایک اور انشائیے ’’ فاصلے ، قربیتیں ‘‘ میں جب تخلیقی امکانات کو زیر بحث لاتے ہیں تو Big Bang ، پارٹیکل اور اینٹی پارٹیکل کے تصورات کو بھی اپنے موضوع میں سمو تے چلے جاتے ہیں۔ یہ تما م سائنسی حوالہ جات محض سائنسی معلومات فراہم نہیں کررہے بلکہ کائنات کے اَسرار ور موز کو تخیل کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے زمین ہموار کرتے ہیں۔ ناصر عباس نئیر نے جوبات انشائی اُسلوب کے حوالے سے کی تھی یہ اس کی عملی صورت ہے ۔ انھوں نے کہا تھا:
’’ انشائیہ نگار اُسلوب کی تازہ کاری کا مظاہر ہ کرتا ہے مراد یہ کہ وہ روایتی اور مروجہ اُسلوبِ اظہار کے لیے نئے امکانات و سراغ لگاتا ہے۔‘‘ (۱۲۸)
سائنسی موضوعات عموماً اپنی خشکی اور معروضی صفات کی بنا پر ادب میں مشکل سے ہی جگہ بنا پاتے ہیں لیکن حید ر قریشی جیسے پختہ کار انشائیہ نگار اپنے جاندار تخیل کی بدولت ان میں تازگی پیدا کردیتے ہیں۔
(۶) ادبی مشاہد ات ور تجر بات
حیدر قریشی کی زندگی کا بڑ احصہ ادبی مصروفیات کے تابع ہے لہٰذا اُن کی تحریروں میں اس کا ذکر آجانا خلافِ توقع نہیں ہے۔ اُنھوں نے اپنے انشائیوں میں کچھ مقامات پر تلخ ادبی تجربات کا تذکر ہ کو مل سروں میں کیا ہے۔
ایک جگہ کہتے ہیں:
’’ دبینر نقاب جب کسی معقول انسان کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ عاشق زار بن کرمحلے کے شرفا کے لیے متعدد مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن جب یہی نقاب کسی ادیب کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ بے سرو پا نظمیں یا مضمو ن نما خط قسم کی چیز یں لکھ کر اپنے آپ میں ایک مسئلہ بن جاتا ہے، شاہد نفسیاتی مسئلہ !‘‘( ۱۲۹)
انشائیہ’’ وگ ‘‘ میں جب بہروپ بدلنے والوں کا ذکر آتا ہے تو حید ر قریشی کا قلم خود بخود ادب کی جانب مڑ جاتا ہے:
’’ ادب میں بھی ایسی کئی بہر وپیئے پا ئے جاتے ہیں ۔کسی مال دار ادیب سے دو لا کھ روپے کھا کر اسے ۲۵ ہزار روپے کا انعام دلا نے والے ، منا سب حق الخدمت کے طو ر پر کسی لُولے لنگڑے افسانے کو دورِ حاضر کا ممتاز ترین افسانہ قرار دینے والے۔‘‘ (۱۳۰)
ایسے ادبی مسائل و عوارض کا پس منظر چا ہے کچھ بھی ہو حید رقریشی ان میں عمومیت کا رنگ بھر کر یارانِ نکتہ داں کوصلاحِ عام کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ اِن واقعات وتجزیات کی شمولیت کا ایک حسن یہ ہے کہ اصل موضوع کی مرکزیت کس مقام پر متا ثر نہیں ہوتی اور حیدر قریشی انشائیے کی مرکزیت کو قائم رکھتے ہوئے اِدھر اُدھرکی بہت سی باتیں ایسی کرجاتے ہیں جو بادی النظر میں اصل موضوع سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں لیکن اصل موضوع کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ یہ انشائی اُسلوب ہی کا وصف ہے کہ اس میں موضوع کی وسعت حسب ِضرورت بڑھائی یا کم کی جاسکتی ہے۔ بقول حید ر قریشی:
جو پھو نک دیں تو قیامت ہی اک اُٹھا ئے گا
چھپا ہو ا کوئی ایٹم کا صُور خاک میں ہے (۱۳۱)
ّ(۷) نفسیا ت ، مشاہد ہء باطن اور اخلا قیات
انسانی نفسیات اور مشاہد ہء باطن سے حیدر قریشی کو جو غیر معمولی دلچسپی ہے اس کا اندازہ یاد نگاری ، خاکہ نگا ری، افسانہ نگاری اور انشائیہ نگار ی سے بآسانی ہو جا تا ہے۔ چند مثالیں دیکھے:
’’ بچپن میں ہم جوانوں کو دیکھ کر جوان ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن جوان ہوتے ہی بچپن کو یاد کرنا شروع کردیتے ہیں اس کے برعکس جوانی میں ہم آنے والے بڑ ھاپے کے تصور سے ہی خوف کھاتے ہیں ،لیکن بڑھاپا آتے ہی ہم پر فکر و دانش کے ایسے انوار برستے ہیں کہ نہ صرف بڑھاپے سے سارا خوف دور ہوجاتا ہے بلکہ ہماری زندگی میں ہی بڑ ھا پا ہمیں بچپن اور جوانی ہمارے بیٹوں اور پوتوں کی صور توں میں دکھا دیتا ہے۔‘‘ (۱۳۲)
٭نفسیاتی ژرف بینی کی یہ مثال بھی دیکھئے :
’’ انسانی چہر ہ بجائے خود ایک نقاب ہے جس میں سے کبھی کبھی اس کے اندر کا حیوان جھا نکتا ہوا نظر بھی آجاتا ہے ۔ اندر کا فرشتہ تو اکثر چہر ے پر ہی ملتا ہے۔ کون ہے جو کسی دوسرے انسان کو پوری طرح جاننے کا دعوی کرسکے۔‘‘(۱۳۳)
٭مشاہد ہء باطن کی مثال ملا حظہ ہو
’’ اطاعت گزاری ، فرمابرداری اور وفا شعاری ایک ہی حقیقت کے مختلف چہر ے ہیں
اطاعت کا مادہ انسانی نفس کو سنگسار کر کے اس کی روح اور ذہن کو ہر طرح سے سبکسار کر
دیتا ہے ، گو یا اطاعت سے مراحل ِتصوف کا آغاز ہو تا ہے اور کمالِ اطاعت تک وہ
کامل صوفی بن جاتاہے ۔‘‘ (۱۳۴)
حیدر قریشی کا تخلیقی و جدا ن سماج ، افراد ، وقوعات ، حوادث اور انسانی مظاہر کے باطن میں چھپے اَسرار ڈھونڈ نکا لتا ہے،جو عام نظر سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ حیدر قریشی کے انشائیوں میں اخلاقیات کا عنصر خاصا نمایا ں ہے اور بعض اوقات وہ ناصح کا روپ بھی دھار لیتے ہیں،یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ ایک اچھے مرد کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی بیوی پر قناعت کرے ۔ دوسروں کی بیویوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کی بجا ئے اپنے اور اپنی بیوی کے مشترکہ تخلیقی عمل میں مگن رہے اور اس طرح زندگی میں اضافہ کر کے زندگی کی جنت کا نظارہ کرتا رہے ۔‘‘ (۱۳۵)
گو ان کے ہاں پندو نصائح والی گہری سنجیدگی تو نہیں پیدا ہوتی لیکن دبے لفظوں میں وہ کوئی نہ کوئی ایسا اخلاقی نکتہ ضرور بیان کرتے ہیں جو قاری کی فکر ی تربیت کا سبب بنتا ہے۔ حیدرقریشی قاری کے بنیاد ی عقائد کو مد نظر رکھتے ہوئے عمومی نکتوں پر بات کرتے ہیں تاکہ ہر شخص حسب ِتوفیق ان سے مستفید ہو سکے۔ عقائد اور نظریا ت کا ہر نظام عمرانی شعور سے پوری طرح منسلک ہوتا ہے اور اس کی نشوونما اور ارتقاء کا سلسلہ اس وقت مزید مستحکم ہو جاتا ہے جب حیدر قریشی جیسا قلم کار اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
حیدر قریشی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا :
’’ میر ی انشائیہ نگاری میں ڈاکٹر وزیر آغا کا بہت بڑ ا حصہ ہے با قی
انشائیہ نگاروں میں غلام جیلانی اصغر، ڈاکٹر انور سد ید ، مشتاق قمر اور
اکبر حمیدی مجھے اچھے لگتے ہیں شاید ان کے اثرات بھی میرے انشائیوں
میں ملتے ہیں ۔‘‘ (۱۳۶)
حیدر قریشی کا یہ اعتراف خاص اہمیت رکھتا ہے اور ان کے اثرات کا کھو ج بھی بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔اُنھوں نے جن شخصیات کا حوالہ دیا ہے ان میں سے تین پروہ خا کے بھی لکھ چکے ہیں جو ’’میر ی محبتیں‘‘ کے حصہ دوم میں بعنوان’’ عہد ساز شخصیت ‘‘( ڈاکٹر وزیر آغا)’’ ایک ادھورا خا کہ‘‘ ( غلا م جیلا نی اصغر) اور’’ بلند قامت ادیب ‘‘( اکبر حمید ی) دیکھے جا سکتے ہیں ۔ دبستان ِسرگودھا کے یہ تینوں ادیب انشائیہ نگاری کے حوالے سے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں ۔ حیدر قریشی نے ڈاکٹر وزیر آغا والے خاکے میں ایک بار پھر اس بات کا اعتراف کیا :
’’ وزیر آغا نے انشائیے لکھنے کا شو ق پیدا کیا ۔‘‘(۱۳۷)
اور اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ حیدر قریشی کی زیادہ ملا قاتیں اور مکتوبی رابطے وزیر آغا سے رہے اور آغا صاحب صنفِ انشائیہ کے بارے میں جو بصیرت افروز نظریات رکھتے تھے وہ مجمو عی صورت میں ان کے لیے بھی قابل قبول تھے۔
’’ فاصلے قربتیں‘‘ میں موجود انشائیے جہاں اِن مقتدر شخصیات کے اثرات کو ظاہر کر تے ہیں وہا ں حید ر قریشی کی تخلیقی
صلا حیت اور سلیقہ شعاری کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نئیر نے لکھا تھا:
’’ انشائیہ نگار اُسلوب کی تازہ کاری کا مظا ہر ہ کرتا ہے مراد یہ ہے کہ وہ
روایتی اور مروجہ اُسلوب ِاظہار کے نئے امکانات کا سراغ لگا تا ہے
کثرت استعمال سے جو تراکیب محاورے ، استعارے اپنی چمک دمک کھو
چکے ہیں اُنہیں نئے سیاق و سباق میں پیش کرتا ہے اور اس عمل میں وہ روایت
کو نئی سطح تفو یض کر نے کی انشائی ٹیکنک کے تابع رہتا ہے ۔ اگر وہ اُسلوب کی
تازگی کو بروئے کار نہ لا سکے تواس کاا نشائی تخلیقی عمل سے گزرنا مشتبہ قرار پائے گا ۔‘‘ (۱۳۸)
حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں مذکورہ بالا تما م شرائط کا التزام بطریقِ احسن کیا ہے ،اور ویسے بھی ان کا تعلق انشائیہ نگاروں کے اس دبستان کے ساتھ ہے جن کا شمار انشائیہ نگاری کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے ۔ یہ اُنھی کی تربیت کا فیض ہے کہ آج حیدر قریشی کا شمار اُردو ادب کے اہم انشائیہ نگارروں میں ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کے انشائیوں میں تخلیقی ذہانت نظر آتی ہے جو انشائیے کا اصل جو ہر ہے فکر ونظر کی تازہ لہروں نے ان کا اِنشائی حسن برقرار رکھا ہے ، عام باتوں سے فلسفیانہ نکات کا استخراج اور معمو لی شئے کو غیر معمولی بنا نا ان کے اُسلوب کا کمال ہے جو ہر کسی کو ارزانی نہیں ہوتا۔ حیدر قریشی کے انشائیے تخیل اور خیال افروزی کا خوبصورت امتزاج ہیں۔