فن شاعری کو جو کمال بال جبریل کی نظموں میں وسیع پیمانے پر ظاہر ہوا ہے اس کے نمونے ضرب کلیم میں چھوٹے پیمانے پر نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہ اب شاعر کا تخیل پیکر تراشی سے زیادہ نکتہ سنجی کی طرف مائل ہو گیا ہے ‘ مگر آہنگ نغمہ میں فرق واقع نہیںہوا ٹھوس سے ٹھوس نکتوں کے اظہار میں بھی الفاظ و تراکیب کا ترنم قائم رہتا ہے اور نکتوں کو دلپذیر بنانے میں معاون ہوتا ہے۔ اقبال اب زیادہ تر ایجاز کا اعجاز دکھاتے ہیں اور بہت ہی مختصر سانچوں میں پیچیدہ سے پیچیدہ مواد کو سمیٹ کر نگینہ سا بنا دیتے ہیں یہ صورت فن کاری ضرب کلیم کی نظموں کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے ہی سے واضح ہو جاتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ فکر و خیال کے گویا لاتعداد موضوعات پر چھوٹی چھوٹی نظمیں درج ہیں اور ’’تعلم و تربیت‘‘ ’’عورت‘‘ ’’ادبیات‘‘ ’’فنون لطیفہ‘‘ اور ’’سیاسیات مشرق و مغرب ‘‘ جیسے عنوات کے تحت با ضابطہ ابواب مرتب کیے گئے ہیں بہرحال اعلیٰ فکری متانت کے اس اہتمام کے ساتھ شاعرانہ فن کاری کا التزام میں ہے۔
ضرب کلیم کی فن کاری کا اندازہ نواب سر حمید اللہ خاں‘ فرماں روائے بھوپال کے نام کتاب کے انتساب کے انتساب میں کیے ہوئے فارسی اشعار ہی سے ہونے لگتا ہے۔ اس میں شاعر نے امم ایشیا کی داستان خونی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے کلام کو سرمایہ بہار قرار دیا ہے اور ایک فارسی مصرعے کے حوالے سے اپنا آپ کو شاخ اپنے کلام کو گل اور جس کے نام انتساب کیا ہے ا س کی شخصیت کو دست کہا ہے اس کے فوراً بعد ناظریں سے خطاب اس طرح ہے:
جب تک نہ زندگی کے حقائق پر ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ
یہ روردست و ضربت کاری کا ہے مقام
میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ
خون دل و جگر سے ہے سرمایہ حیات
فطرت ‘ لہو ترنگ ہے غافل نہ جل ترنگ
٭٭٭
کتاب کا موضوع یقینا زندگی کے حقائق ہیں اور شاعر اپنے کلام سے زور دست و ضربت کاری کا کام لینا چاہتا ہے ۔ اور عصر حاضڑ یا عرصہ حیات کو میدان جنگ قرار دیتے ہوئے نوائے چنگ طلب کرنے سے اپنے قارئین کو منع کرتا ہے‘ لیکن اتنی سنگین باتیں بھی اس نے زجاج اور سنگ کے پیکروں کا تقابل کرتے ہوئے اور میدان جنگ و نوائے چنگ کا تضاد بتاتے ہوئے کہی ہیں اور میں اپنے نظریہ شعر ہی کو قطریہ زندگی بنا دیا ہے:
خون دل و جگر سے ہے سرمایہ حیات
جسم اور اس کے ظاہری اعضا کی بجائے دل و جگر‘ خون کا ذکر کر کے شاعر نے پوری زندگی کو‘ اس کی تمام سنگینی کے باوصف ‘ شاری کا لطیف پیکر عطا کر دیا ہے یقینا ٹھوس سے ٹھوس بلکہ کرخت سے کرخت حقائق کی تعبیر کا یہ انداز شاعرانہ ہے جس میں کوئی کمی آخری مصرعے کے لہو ترنگ جل ترنگ سے نہیں ہوتی‘ اس لیے کہ جل ترنگ اگر موسیقی کا کوئی آلہ کار ہے تو اس کے مقابلے میں شاعر نے بھی لہو ترنگ کے نام سے موسیقی کا ہی ایک دوسرا آلہ وضع کیا ہے اور ترنگ کا نغمہ اس جدید آلے میں اسی طرح ہے جس طرح قدیم آلے میں پایا جاتا ہے فرق بس یہ ہے کہ قدیم آلہ اگر اس کے اندر پانی ڈالنے اور اس کو خاص طرح چلانے سے بجتا ہے تو جدید آلہ اس کے اندر خون انڈیلنے اور س کو گردش دینے سے بجے گا اور یہ جون اسی دل و جگر کا ہو گا جس کا ذکر پہلے مصرع میں آ چکا ہے ۔ اس طرح سنگ ضڑبت کاری میدان جنگ اور خون کی تصویریں بالقصد پیش کر کے شاعر نے اپنے مجوزہ موضوع سخن کے مطابق ان حالات و حقائق پر روشنی ڈالی ہے ۔ جس کے پس منظر میں اور جن سے مقابلہ کرنے کے لیے شاعر کو نواسنجی کری ہے لیکن وہ بہرحال ایک فن کار ہے‘ ایک شاعر ہے لہٰذا تصورات اس کے سامنے شاعرانہ رنگ و آہنگ میں ابھرتے ہیں اور جس طرح وہ ابھرتے ہیں اسی طرح وہ رقم بھی کرتاہے ۔ اور اپنے فن کارانہ منصب و اسلوب سے کبھی غافل نہیںہوتا۔ چنانچہ شاعری تو شاعری زندگی بھی اس کے تخیل میں خون جگر و دل سے عبارت ہے اور جل ترنگ کو چھوڑ کر وہ بھی لہو ترنگ ہی بجاتا ہے یعنی نغمہ آفرینی ہر حال میں اس کا مقصود و طریق ہے۔ (اس سیاق و سباق میں جل ترنگ تفریح کی علامت ہے اور لہو ترنگ ریاض دل و جاں کی تفریح کے مظاہر جو بھی ہوں شاعری ریاض دل و جاں کا نغمہ خاص ہے) بس اس کے نغمے کی نوعیت اور اس کی پیش کش کا اندازہ منفرد اور عام تصور ہم بانگ دراسے بال جبریل تک غزل کے ساتھ ساتھ نظم قطعہ وار رباعی سبھی اصناف شعری میں دیکھتے رہے ہیں۔ اب وہی کمالات‘ زور دست‘ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ ضرب کلیم میں بھی نظر آتے ہیں تمہید بھی کم شاعرانہ نہیں:
تڑپ رہے ہیں فضا ہائے نیلگوں کے لیے
وہ پرشکستہ کہ صحن سرا میں تھے خورسند
اس آغاز کتاب کا یہ شاعرانہ انداز دیکھیے:
صبح
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیںمعلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
یہ کتاب کے باب اول اسلام اور مسلمان کی ابتدا ہے فن کے نقطہ نظر سے لائق توجہ امر یہ ہے کہ صرف چار مصرعوں میں طلوع اسلام کی حسین پر اثر اور پر خیال نقش گری کر دی گئی۔ اس مقصد کے لیے صبح کا عنوان اور طلوع کا استعارہ اختیار کیا گیا ہے اور بڑی خوب صورتی سے اسے بندہ مومن کی اذان سے منسوب کر دیا گیا ہے پہلے مصرعے میں سحر کو فردا و امروز کی فرسودگیوں میں تقسیم کر کے اس کے سرچشمہ طلوع کے متعلق استفہام دوسرے مصرعے میں ایک ابہام اور تجسس پیدا کرتا ہے۔ پھر تیسرے مصرعے میں سب سے پہلے لرزتا ہے شبستان وجود ‘ کی انتہائی شاعرانہ تصویر کشی کر کے چوتھے اور آخری مصرعے میں بندہ مومن کی اذان کا ذکر اس لطیف انداز سے ہوتا ہے کہ صرف لطف بیان مفہوم کو بالکل علامتی بنا دیتا ہے۔ اور بندہ مومن کے ساتھ ساتھ اس کی اذاں ایک آفاقی پیکر میں ڈھل کر طلوع سحر کی دلیل بن جاتی ہے۔ اس لیے کہ اس شبستان وجود میں کائناتی سطح پر اجالاپھیلتا ہے ۔ ایسا اجالا کہ گردش ایام میں تاریکی شب بھی اس کی روشنی پر پردہ نہیں ڈال سکتی مطلب یہ ہے کہ صبح تو روز ہوتی ہے اور ہر دور اور ماحول میں ہوتی ہے مگر ہر صبح پیام نو نہیں لاتی‘ فردا اور امروزکا حساب ایک فرسودہ سی چیز ہے جس میں کوئی تازگی نہیں۔ لہٰذا تازگی اور روشنی کا پیام لانے والی صبح کوئی اور ہے اور عالم وجود کی تاریکیاں صرف اسی صبح سے لرزہ براندام ہیں جو اگر واقع ہو جائے تو عصر حاضر کا پھیلتا اوربڑھتا ہوا اندھیرا دور ہو جائے گا اور کیا رات ‘ کیا دن‘ کیا گزرا ہواکل اور کیا آنے والا کل‘ ہر وقت اور ہر لمحہ روشنی ہی روشنی کا عمل ہو‘ ایسی مستقل و محیط صبح آفتاب کے طلوع و غروب سے نہیں بندہ مومن کی اذاں سے نمودار ہوتی ہے ۔ جب قضائے بسیط میں اللہ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور کائنات و حیات میں اس کی کبریائی قائم ہو جاتی ہے تو شعور ی و عملی طور پر سماج اس کی کبریائی کے نور میں صراط مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے اور افراد صفیں باندھ کر رب دو جہاں کے حضور عبادت گزاری کے لیے بیدار ہو جاتے ہیں اور تیار ہونے لگتے ہیں۔ صبح عام اور خاص صبح کا فرق صرف یہ سحر اور وہ سحر کے اشارات سے متعارف کرایا گیا ہے اس طرح کم سے کم اور سادہ سے سادہ الفاظ و تصاویر کے ذریعے‘ لیکن ایک پرزور آہنگ نغمہ کے ساتھ‘ شاعر نے ایک دقیق و وسیع موضوع کو بہت ہی لطیف و مختصر اسلوب سے واضح کر دیا ہے۔
یہی انداز سخن لا الہ الا اللہ کے عنوان کی کتاب کی دوسری نظم کا ہے۔ جو شروع سے آخر تک معانی کی بے پناہ وسعت و ثروت کے باوجود ایک گل نغمہ ہے اور خواہ اس کے خالص اسلامی تصورات سے کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف اگر وہ ایک بار اسے تعصبات سے خالی ہو کر پڑھ لے تو بار بار گنگنانے پر مجبور ہے:
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
معراج
چوتھی نظم ’’معراج‘‘ بھی ایک اسلامی واقعہ تاریخ کے متعلق ہے:
دے ولولہ شوق جسے لذت پرواز
کر سکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج
مشکل نہیں یاران چمن معرکہ باز
پرسوز اگر ہو نفس سینہ دراج
ناوک ہے مسلماں کا ہدف اس کا ہے ثریا
ہے سراسر پردہ جان نکتہ معراج
تو معنی و انجم نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مدو جزر ابھی چاند کا محتاج
ہر شعر کسی استعارے یا تلمیح کے ذریعے ترسیل خیال کرتا ہے ذرہ کا مقابلہ ’’مہ و سر‘‘ سے ہے اور اس کا تصور ولولہ شوق اور لذت پرواز پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد دراج کو ایک پرسوز نفس سینہ کے ذریعے معرکہ باز پر ابھارا جاتا ہے۔ پھر مسلماں کو ناوک سے تشبیہہ دے کر اس کا ہدف ثریا کو مقرر کیا جاتا ہے۔ آخر میں قرآن حکیم کی سورۃ نجم کی آیات معراج کی طرف اشارہ کر کے چاند کی روشنی سے سطرح دریا پر مدوجزر کے سائنسی انکشاف کا معنی خیز ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ سب تصویریں مل کرمعراج کے تصور کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کے دل میں انسان کے آخری نقطہ عروج سدرۃ المنتہیٰ… کی طرف پرواز کرنے کا حوصلہ و ولولہ ابھارتی ہیں‘ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ معانی کی یہ تاثیر الفاظ و تراکیب کی فن کارانہ ترتیب اور مجموعی طور سے نظم کی تنظیم ہئیت پر مبنی ہے‘ ورنہ یہی باتیں اگر نثر میں یا غیر فن کارانہ طور پر کہی جائیں تو نہ کوئی نغمہ ابھرے گا نہ ولولہ پیدا ہو گا۔
باب اول اسلام و مسلمان میں بے حد اہم اسلامی موضوعات پر بہتیری چھوٹی چھوٹی نظمیں ہیں‘ جو اپنے اختصار کے باوجود بھرپور ہیں اوراجتماعی تصورات کی متانت کے ساتھ ساتھ شعری لطافت و نفاست بھی رکھتی ہیں۔ ان میں چند جو فنی طور پر زیادہ دلچسپ اور کامیاب یہ ہیں۔
علم و عشق‘ تصوف‘ فلسفہ‘ کافر و مومن‘ مومن ‘ مدنیت اسلام‘ تسلیم و رضا‘ نکتہ توحید‘ مرد مسلمان
٭٭٭
علم و عشق
علم و عشق معارف و حقائق کا ایک سرور انگیز غنائیہ ہے:
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندہ تخمین و ظن ! کرم کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور علم سراپا حجاب
عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات
علم مقام صفات عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال ‘ عشق ہے پنہاں جواب
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحب تاج و نگین
عشق مکان و مکیں‘ عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں اور یقیں فتح یاب
شرح محبت میں ہے عشرت منزل حرام
شورش طوفان حلال‘ لذت ساحل حرام
عشق پہ تجلی حلال ‘ عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب‘ عشق ہے ام الکتاب
علم وعشق کا یہ موازنہ ایک ذہنی معرکہ ہے جو مکالمے کے مضمرات رکھتا ہے اور ایک حد تک نکتہ مقابل نکتہ کی موسیقی ہے ۔ آخری بند کی تصویروں طوفان ساحل بجلی حاصل‘ ابن الکتاب ام الکتاب۔ کو چھوڑ کر بیشتر اشعار نظم صرف تصورات کا نغمہ پیش کرتے ہیں ارو منتخب اور پر معنی الفاظ و تراکیب کی نشست و بندش وہ آہنگ ترتیب دیتی ہے جس سے خیالات موسیقی کی لہروں پر رقص کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس تکنیک میں ہر مربع کا آخری مصرع مستزاد کی طرح بند کے مفہوم کی توسیع و تعیین کرتا ہے۔ سبھی بند ارتقائے خیال کی رو میں ایک دوسرے سے پیوستہ نظر آتے ہیں نظم کا والہانہ پن صرف نکات فطر کی سرمستی و رعنائی سے پیدا ہوتا یہ۔ یہ شاعر کی دلسوزی اور اس کا تخیل کی دلکشی کا کرشمہ ہے۔ گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج ہونے کی شاعرانہ مثال اقبال سے بڑھ کر کسی نے دنیائے ادب میں قائم نہ کی ہے۔ وہ انگریزی کے مابعد الطبعی شعرا Metaphysical Poets سے بدرجہا زیادہ شدت سے اپنے افکار کو محسوس کرتے ہیں اور اسی شدت احساس کو اپنی زبردست فن کاری سے نغمہ فن میں ڈھال دیتے ہیں۔
مرد مسلمان
کچھ ایسا ہی غنائیہ مرد مسلمان بھی ہے:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہار و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہ جبریل امیں بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفت سورہ رحمن
بنتے ہیں مری کارگہ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان
یہ اقبال کی ایک مثالی سخصیت کی کردار نگاری ہے اور اس کی تشکیل میں فلسفہ و دینیات کے تصورات سے کام لیا گیا ہے ۔ مگر انہیں علامات و استعارات کے پیکروں میں ڈھال کر رنگین و زیں بنا دیا گیا ہے۔ الفاظ و تراکیب کی بندش حسب معمول سرود آفریں ہے نئی آن نئی شان کا ترادف گفتار و کردار کی مماثلت قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت کی ہم آہنگی بخار اور بدخشاں کے ساتھ جبریل امیں وہ بندہ خاکی کا تقابل قاری و قرآن کا مقابلہ ‘ دنیا و قیامت کی مقاربت اور میزان کی تکرار ‘ شبنم و طوفاں کا توازن سرود ازلی کا سورہ رحمن سے تشابہ کا رگہ فکر کے انجم سے مقدر کے ستارے کی شناخت بڑی خیال انگیز تصاویر ہیں۔
اب ایک ایسی نظم بھی ملاحظہ کیجیے جس میں تصاویر کا رنگ اور آہنگ کا ترنم کم سے کم ہے اور سارا زور صرف ایک تہذیبی تخیل کی نقاشی پر دیا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے محض چند منتخب الفاظ اور معنی خیز تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے اور اپنی تصاویر و تراکیب میں چند پیکر تراش لیے گئے ہیں۔ یہ الفاظ و تراکیب اور پیکر مل کر ایک فنی ہئیت تخلیق کرتے ہیں جس کے ارتقائے خیال میں ہر مصرع اور ہر شعر دوسرے مصرعے اور شعر سے مربوط ہے:
مدنیت اسلام
بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں
طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب
یگانہ اور مثال زمانہ گونا گوں
نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بے زاری
نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں
حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی
یہ زندگی ہے ‘ نہیں ہے طلسم افلاطوں
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال
عجم اس کا حسن طبیعت‘ عرب کا سوز دروں
اس نظم کے معانی بہت دقیق ہیں‘ ایک ایک مصرعے بلکہ ایک ایک فقرہ پوری پوری تاریخ کا عطر ہے اور مدنیت بمعنی تہذیب جیسے وسیع و پیچیدہ عمرانی موضوع اور اس موضوع کی نسبت سے اسلام جیسے آفاقی نظریہ حیات کی پہنائیوں‘ تہوں اور بلندیوں کو فقط پانچ اور دس مصرعوں میں سمیٹ لیا ہے لیکن بیان معانی اتنا لطیف ہے کہ تاریخ و تہذیب اور دینیات و اخلاقیات کے گراں قدر اشارات محاورے کی طرح سلیس دوراں عبارت میں تحلیل کر دیے گئے ہیں واقعہ ہے کہ دبازت مفہوم اور نفاست اظہار میں یہ نظم ‘ اپنے پیمانے پر اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے اشعار میں اقبا کی فکر اور ان کے فن کا آب زلال قطرہ قطرہ ٹپکتا نظر آتا ہے۔
پہلا مصرع ایک سیدھا سا سوال ہے اور بالکل سامنے کی بات کے بارے میں ایک ہے بجائے خود یہ کہ ایک چونکا دینے والی بات ہے اور اس سے ایک ڈرامائی تجسس پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا مصرع صرف د و معمولی اور معروف ترکیبوں کے ذریعے پوری تہذیبی زندگی کی ایک جامع کردار نگاری کرتا ہے اور یہی بات اپنے سیاق و سباق میں ایک اور خاص طریق ادا کے سبب ان ترکیبوں کو بہت ہی معمولی اور زرخیز اور پرخیال بنا دیتی ہے۔ اندیشہ اور جنوں کے الفاظ ارد و اور فارسی میں عقل و عشق کے مترادفات ہیں۔ شاعر نے ان میں ہر ایک لفظ کے ساتھ تکمیل کے مفہوم کی اضافت لگا کر یہ معنی پیدا کیا ہے کہ اسلام صرف عقل یا صرف عشق کی سادگی نیز انتہا پسندی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ وہ ایک مرکب ہے عقل و عشق دونوں کا اور دونوں کے درجہ ہائے کمال کا یعنی اسلامی تہذیب انتہا پسندیوں کے درمیان حد درجے کا توازن پیدا کرتی ہے۔ اور اس کا نقطہ اعتدال ہی نقطہ کمال بھی ہے۔ ایک طرف ایمان اتنا محکم کہ اللہ اور رسول اللہؐ کے ہر فرمان پر بلا چون و چرا یقین اور دوسری طرف تدبر اتنا زبردست کہ ارشاد قرآنی کے مطابق انفس و آفاق کی ساری نشانیوں کا مشاہدہ و مطالعہ اور پوری تاریخ انسانی سے عبرت پذیری۔
دوسرا شعر اسلام کی ابدیت اور امت مسلمہ کے لازوال ہونے کی نہایت حسین تعبیر ہے اور ایک معلوم و معروف مظہر فطرت کی تصویر پر مبنی ہے۔ لیکن مخصوص الفاظ اور ان کی نشست پھر دوسرے مصرعے کی شرح تصویر پر پورے شعر کے مفہوم میں ایک تازگی و طرفگی پیدا کرتی ہے ملت اسلامیہ خدا کے آخری پیغمبر کی حامل ہے اور اس کی شریعت دین کامل ہے ۔ لہٰذ ا گردش ایام کی کوئی کروٹ اس کو فنا نہیں کر سکتی۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اس کی تاریخ میں نشیب و فراز بالکل قدرتی طور پر آئیں اور یہ اسی طرح ہے جیسے آفتاب کبھی کہیں طلوع اور کبھی کہیں غروب ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ایک افق پر غروب بھی حقیقت دوسرے افق پر طلوع ہے۔ چنانچہ وہ غروب گویا کبھی نہیںہوتا۔ صرف اس کے طلوع کے آفاق بدلتے رہتے ہیں اور وہ آسمان وجود کی وسعتوں میں کسی نہ کسی مصلعے پر ہمیشہ چمکتا رہتا ہے ۔ تبدیلی آفاق کے ساتھ یہ مدام تابانی خود زمانے کی شان ہے۔ جس میں انقلابات ہوتے رہتے ہیں‘ کبھی ماضی‘ کبھی حال‘ کبھی مستقبل‘ کبھی اچھا وقت کبھی برا وقت لیکن اس گردش ایام میں بھی زمانہ یکساں رفتار سے چلتا رہتا ہے۔ اس میں رکاوٹ کبھی نہیں آتی وہ کہیں بند نہیں ہوتا۔ یہ زندگی کی رنگا رنگی ہے جو ایک بنیادی رنگینی پر مبنی ہے ۔ حیات کے رنگ بدلتے رہتے ہیں مگر بے رنگی کبھی نہیں ہوتی۔ آج ایک رنگ ہے کل دوسرا رنگ ہے مگر کوئی رنگ ہے ضرور‘ اس لیے کہ زندگی کا ظہور ہر رنگ میں ہوتا ہے اس طرح عرصہ حیات میں اور انقلابات زمانہ کے درمیان گونا گوں کے ساتھ ساتھ یگانگی بھی قائم ہے۔ ایک حقیقت ابدی کا یہ تنوع ہی اس کے تسلسل پر دلالت کرتا ہے اور مدنیت اسلام کی تاریخ اسی حقیقت کی آئینہ دار ہے۔
تیسرا شعر جدت و قدامت کے درمیان اسلام کے توازن پر روشنی ڈالتا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک طرف عہد قدیم کے اوہام و خرافات کے فسانہ و فسوں کی نفی کی گئی ہے اور دوسری طرف دور جدید کی حیا سے بے زادی کی گئی ہے اس لیے کہ عصر حاضر نے جہاں اقلیت کے زور پر قدیم اساطیر کی حماقتوں سے اپنی بے زاری کا اعلان کیا ہے وہیں عقلیت کے غلو میں تمام ان آداب و اخلاق سے بھی انکار کر دیا ہے ۔ جو انسانی شرافت و متانت کے غلو میں تمام ان آداب و اخلاق سے بھھی انکار کر دیا ہے جو انسانی شرافت و متانت کے ضامن تھے اور اس طرح ایک نئی شرارت کا آغاز کیا ہے جس کے سبب خاندانی رشتوں کا تقدس تک غارت ہو رہا ہے۔ اسلامی تہذیب اس افراط و تفریط سے پاک ہے اس میں روشن خیالی کے ساتھ حیا داری بھی ہے اور حکمت کے ساتھ مروت بھی اس طرز بیان سے فسانہ و فسوں عہد قدیم کی غیر پسندیدہ علامت بن جاتے ہیں اور حیا سے بے زاری عصر حاضڑ کی ناپسندیدہ علامت اس طرح گویا دونوں ادوار کے کرداروں کی بنیادی صفات کا انتخاب کر کے ان کو ان ادوار کی تہذیبی خصوصیات کا پیکر بنا دیا گیا ہے۔ یہ فکری ارتکاز کے ساتھ ساتھ فنی ایجاز بھی ہے۔
تین شعروں میں مدنیت اسلام کے عقل و عشق ‘ طلوع و غروب شوخی کردار اور احساس تقدس کے درمیان اعتدال و توازن کی شاعرانہ و مفکرانہ ترجمانی کے بعد چوتھے شعر میں تینوں بنیادی نکات کا خلاصہ و نتیجہ پیش کیا جاتا ہے اور پہلے مصرعے میں ایک جامع بات کہہ دی جاتی ہے کہ جدنیت اسلام کی بنیاد حقائق ابدی پر ہے پھر دوسرے مصرع میں اسی بات کی توثیق و تشریح یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ یہ مدنیت زندگی ہے‘ کوئی ‘ طلسم افلاطون نہیں۔ بس یہ تین الفاظ و تراکیب جہان معنی کی کلید ہیں‘ ان پر جتنا زیادہ غور کیا جائے گا اور انہیں اوپر کے اشعار سے بننے والے سیاق و سباق میں رکھ کر بھی دیکھا جائے گا تو ان الفاظ و تراکیب کے مضمرات اپنی تمام وسعتوں اور تہوں کے ساتھ واضح ہوتے جائیں گے۔ حقائق ابدی ہی زندگی کے ضامن ہیں اور یہ حقائق خالق زندگی کے بنائے ہوئے ہیں اور بتائے ہوئے ہیں‘ کسی انسان کی محدود نظر کے تیار کردہ طلسمات خیال نہیں ہیں‘ جیسا کہ محاورے اور ضرب المثل میں‘ طلسم افلاطون ہے جسے غیر عملی اور دوراز کار باتوں ک مفہوم میں طنز کے طو ر پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ شان حقائق ابدی ہی کی زندگی کی ہے کہ اس میں عشق کی حد تک ایمان کے ساتھ ساتھ فکر و خرد کی بھی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اور اس مرکب حیات کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔ صرف اس کے احوال بدلتے رہتے ہیں۔ زمانے کے ہر نشیب و فراز میں یہ مرکب اپنی کوئی نہ کوئی شان‘ کبھی جلال و قوت کی اور کبھی جمال و لطافت کی‘ دکھاتا ہی رہتا ہے اور ہر حال میں اپنے وقار و متانت کو قائم رکھتا ہے۔ روشن خیالی کے ساتھ ہی شریفانہ اخلاق کی پیروی کرتا ہے۔
مدنیت اسلام کی تعریف و تشریح کے بعد آخری شعرمیں اس مدنیت کی آفاقی ترکیب کے جمال و کمال کی نشاندہی کے لیے نہایت دل آویز اور بصیرت افرو زپیکر تراشے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو مدنیت کے ان عناصر ترکیبی کو جن کا ذکر قبل کیا گیا‘ روح القدس کا ذوق جمال‘ قرار دے کر ان کے منزل من اللہ ہونے کی ایک انتہائی شاعرانہ تعبیر کی گئی۔ مدنیت اسلام کے عناصر دراصل اس وحی سے تشکیل پائے ہیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسل پر نازل ہوئی اور جس فرشتے کے ذریعے نازل ہوئی وہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جنہیں روح القدس کہا جاتا ہے۔ اول تو جبرئیل کے علم کی جگہ روح القدس کے لقب کا استعمال شعریت سے معمور ہے۔ دوسرے وحی کو ذوق جمال کہہ کر مذہب کی جمالیاتی قدر پر زور دیا گیا ہے جو اہل مذہب کے نزدیک ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے وحی الٰہی کو روح القدس کا ذوق جمال کہنے میں ازروئے حقیقت کوئی مضائقہ نہیں خود قرآن نے بارہا وحی کا فاعل حضرت جبرئیل کو قرار دیا ہے۔ گرچہ حسب موقع واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ وحی وہ بحکم الٰہی کرتے تھے اور وہ کتاب اللہ کے اوراق یا نکات پر مشتمل تھی۔ جس کی رسولؐ تک ترسیل میں فرشتے کی حیثیت صرف قاصد اور وسیلے کی ھتی بہرحال آخری شعر کے مصرع اول میں روح القدس کا ذوق جمال کے بیان کی تفصیل دوسرے مصرعے میں اس طرح کی جات ہے کہ اس ذوق جمال کے دو بنیادی عوامل ہیں‘ ایک عجم کا حسن طبیعت دوسرا عرب کا سوز دروں ان عوامل میں ایک کا تعلق ظاہر کی جسمانی نفاست سے ہے اور دوسرے کا باطن کے روحانی لطافت سے۔ اس طرح اسلامی تہذیب کو حسن ظاہر اور حسن باطن کا جامع قرار دے کر اس کے متوازن کردار کی تکمیل کر دی گیء ہے ۔ یہ تکمیل جن لفظوں میں کی گی ہے وہ بہت معنی خیز ہیں عجمی نفاست کو حسن طبیعت‘ اور عربی لطافت کو سوز دروں کہا گیا ہے۔ ایک طرف جمال ہے اور دوسری طرف جلال اور ایک نقطہ کمال ہے جس طرح عقل و عشق کے ادغام میں ہم نظم کے آغاز پر دیکھ چکے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو حسن اور سوز میں عقل اور عشق کی کارفرمائی نظر آئے گی نفاست ایک سلیقہ چاہتی ہے۔ جو عقل کی دین ہے اور لطافت اصلاً ایک جذبہ دل ہے جس کا سرچشمہ عشق ہے لیکن حسن و خرد اور جنون سے وابستہ ہو ئے بھی ان سے اک ذرا مختلف ہیں خرد اور جنون ذہن و قلب کی کیفیات ہیں جبکہ حسن و سوز ان کیفیات کے عملی رویے ہیں۔ اب غور کرنا چاہیے کہ مدنیت اسلام کے عربی الاصل ہونے کے باوصف اس میں ایک عجمی عنصر کا بھی اقرار کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل اسلامی تہذیب کی موجودہ شکل کی تاریخی تعبیر ہے۔ اصلاً یہ تہذیب و فکر و ایمان کا ایک معتدل مرکب ہے۔ جس کی تشکیل ابتداً حجاز ہی میں ہوئی جو اس کا سرچشمہ اور مرکز ہے ۔ لیکن بہت جلد اپنی تاریخ کے دور اول ہی میں یہ تہذیب حجاز سے آگے بڑھ کر شام و عراق و فارس و ہندو چین نیز ممالک مغرب تک پھیل گئی ۔ اور عرب سے طلوع ہونے والا تمدن صدیوں تک عجم کی وسعتوں میں پروان چڑھتا ہے۔ لہٰذا اقبال مدنیت اسلام کا ایک جامع تاریخی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں جس کا جواز خود عنوان نظم اور موضوع تخلیق میں مضمر ہے یہ موضوع ظاہر ہے کہ عقیدہ اسلامی کا نہیں ہے تہذیب اسلامی کا ہے لہٰذا اس میں ایمانیات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اصول کے ساتھ ساتھ اعمال تصورات کے ساتھ ساتھ ترقیات بھی شامل ہیں‘ اور شاعر اس پورے مرکب کو روح القدس کا ذوق جمال کہتا ہے۔ یہ شاعر بھی ہے اور دانش وری بھی جس کا جامع مفہوم یہ ہے کہ اپنی منزل من اللہ بنیادوں پر ملت اسلامیہ نے اقصائے عالم میں جتنی بھی ذہنی و اخلاقی اور مادری و روحانی ترقیات کی ہیں وہ سب مدنیت اسلام ہیں اس تشریح سے اقبال کی فکر میں اساسیت Fundamentalism کے ہمراہ تازگی خیال کا بھی بین ثبوت ملتا ہے اور یہی توازن و ترکیب ہے جو اقبال کے فن کی فوقیت اور آفاقیات کی ضامن ہے چنانچہ خود ان کے کلام میں عجم کے حسن طبیعت پر مبنی استعارات و علائم کے ساتھ ساتھ عرب کے سوز دروں پر مبنی آہنگ نغمہ بھی ہے ۔ اور دونوں کے میل تال سے ایک ولولہ انگیز طلسم شاعری مرتب ہوتا ہے جو ثقیل اور دقیق افکار کی متانت کو فن لطافت میں تبدیل کر دیتا ہے۔
تعلیم و تربیت کے باب میں چھوٹی سی صرف دو اشعار کی قطعہ نما نظم ہے۔
مصلحین مشرق
میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے
کہ بزم خاوراںمیں لے کے آئے سائگیں خالی
نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے حبیب و دامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی
ساقیان سامری فن ایک جہان معنی کا دروازہ کھولنے والی ترکیب ہے۔ اول تو اس تصویر میں مشرق کو مے کدہ بمقابلہ مدرستہ مغرب علامتی طور پر فرض کر کے ساقیان کا پیکر تراشا گیا ہے‘ دوسرے ان ساقیوں کو بھی سامری فن بتا کر ان کی جادوگری کے کھوکھلے پن کی طرف ایک تاریخی اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ تمہید تھی دوسرے مصرعے میں پیش کیے جانے والے نکتہ خیال کی ہے جو یہ ہے کہ مشرق کے مے کدے میں پرانی شراب بھی نہیں ہے۔ اس خیال کی صورت گری مصرع اول کے استعارہ کا معاملہ ہے لہٰذا بزم کا استعمال بجائے رزم کے اور اس کے برخلاف بے کدے کے مفہوم میں کیا گیا ہے۔ جس کی توضیح و توثیق‘ سائگیں بمعنی جام کے استعمال سے ہوتی ہے خاوراں اور سائگیں کے قدیم و متروکج الفاظ جن کا استعمال عام اظہار خیال میں شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ مشرق کی قدامت کی تصویر کشی کے لیے بہت ہی موزوں اور موثر ہیں۔ پہلے شعر میں اس طرح ایک نکتہ خیال کے اظہار کی ایمائی ابتدا کر کے دوسرے شعر میں پورے خیال کو صاف صاف اور پر زور طریقے پر بڑی قطعیت لیکن انتہائی خیال انگیز نفاست کے ساتھ‘ ایک نئی تصویر کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ جن بادلوں کے اندر پرانی بجلیاں بھی نہیں ہیں ان سے نئی بجلیوں کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے یہ بڑا چبھتا ہوا سوا ل ہے اور قاری کے ذہن پر تازیانے لگا کر اسے اپنے احوال کی جستجو اور حقائق کے تجسس پر مجبور کرتا ہے۔ جس سے یہ توقع بھی کی جا سکتی ہے کہ قاری کو عبرت ہو گی اور وہ بصیرت پیدا کر ے گی۔ جو عمل کا پیش خیمہ بنے گی۔ اس طرح ایک نصیحت کا ابلاغ شعریت کے وفور کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ یہ ایمائیت اقبال کے تخیل کو پارہ فن بتاتی ہے ا س طرز بیان میں نفاست اظہار وضاحت خیال پر پردہ ڈالتی ہے بلکہ اس کو زیادہ روشن کرتی ہے بادل کے لیے جیب و دامن اور آستیں کی تفصیل ایک مجرد تخیل کی بڑی محسوس قسم کی تجسیم کرتی ہے۔ اور اجزائے خیال کو اععضا میں تبدیل کر کے ایک متحرک جسم کی شکل دے دیتی ہے۔