’’ لینن خدا کے حضور میں‘‘ ایک دلچسپ اور فکر انگیز تخلیق ہے، یہ ایک کردار اور اس کے یکطرفہ مکالمے کی تمثیل ہے۔ نوعیت نظم کے لحاظ سے ابتدا میں ایک مناسب موضوع تمہدی ہے جس میں متعلقہ کردار اور کے ماحول کا پس منظر بڑی خوبصورتی سے مرتب ہوتا ہے:
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
محرم نہیں فطرت کے سرد و ازلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
اس قسم کے اشعار کے بعد اصل مکالمہ شروع ہوتا ہے اور موجودہ سیاست و معیشت نیز معاشیات کے سوالات پیش کیے جاتے ہیں، جن میں خاص کر سامراج، سرمایہ داری، میکانکی صنعت و حرفت، بے روح سائنس، بے دینی اور بد اخلاقی پر تنقید ہے اور مغربی تمدن و تہذیب کی اندرونی کمزوری کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ چند جھلکیاں اس سیر حاصل تبصرے کی یہ ہیں:
مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
مسجد سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
آخری دو شعروں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ لینن کے نہیں اقبال کے خیالات ہیں۔ لیکن یہی بات بعض دوسرے اشعار بلکہ پورے طرز کلام اور انداز فکر کے متعلق، جن کا اظہار نظم میں ہوا ہے، بہ آسانی کہی جا سکتی ہے، اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ اقبال نے لینن کو خدا کے حضور کھڑا کر دیا ہے اور اس کی تقریر آخرت میں ہو رہی ہے، جب دنیا کے تمام حقائق پر پڑے ہوئے پردے اٹھ چکے ہیں، سب سے بڑھ کر نگاہ پر پڑا ہوا پردہ ہٹ چکا ہے، لہٰذا نگاہ روشن اور حقائق آشکار ہیں، بلاشبہہ یہ اقبال کی نظر ہے جو واقعات نظم کو ایسے زاویے سے دیکھ رہی ہے کہ سب چیزوں کی اصلیت عیاں ہو گئی ہے اور اصلیت کا تصور بھی اس زاویہ نظر کا آفریدہ ہے۔ لیکن شاعری اور تمثیل دونوں میں فن کار کا ہی نقطہ نظر ہر حال میں کام کرتا ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا لینن کے ملفوظات اس کے ماحول اور موقف سے گہرا تعلق نہیں رکھتے؟ اس سوال کا تعاقب اور اس کے جواب کا تجسس واضح کرتا ہے کہ لینن کی پوری گفتگو اس کے زمانے اور نظریے کے لحاظ سے بالکل حقیقت پسندانہ ہے، فرق بس یہ ہے کہ اشتراکی لینن عالم آخرت میں پہنچ کر، جہاں سے اس کی آواز آ رہی ہے، مشرف بہ اسلام ہو گیا ہے:
اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات
اسی شعر سے نظم کا آغاز ہوتا ہے اور کردار کی ساری گفتگو اسی مفروضے پر مبنی ہے کہ حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات، بعد کے دو اشعار بھی تمہید مکالمہ ہی میں اسی حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں:
آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات
ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تو خالق اعصار و نگار ندۂ آفات
آگے چل کر یہ سوال بھی کم حقیقت افروز نہیں:
وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود؟
وہ آدم خاکی کہ جو ہے یزر سماوات؟
واقعہ یہ ہے کہ اقبال نے لینن کی کردار نگاری بڑی ہمدردی کے ساتھ کی ہے اور اس کی تاریخی شخصیت کو بہت ہی اچھی روشنی میں پیش کیا ہے، نظم کا ماحصل یہ ہے کہ لینن نے مغربی سامراج کے لادین استبداد و استحصال کے خلاف جو بغاوت کی وہ بالکل بجا تھی اور اس نے وقت کی ایک اہم ضرورت پوری کی لیکن ایک انسان ہونے کے سبب اس کے ذہن کی کچھ حدود تھیں، چنانچہ وہ اپنے ماحول سے آگے نہ دیکھ سکا بلکہ ماحول کے خلاف رد عمل میں اتنا محو رہا کہ اس نے کسی مثبت تصور پر غور ہی نہیں کیا اور ساری عمر اپنے معاشرے کے نقائص کی نفی میں لگا رہا، کلیسا، سامراج اور سرمایہ داری۔۔۔۔ مغرب کے مذہبی، سیاسی اور معاشی اداروں نے مل کر لینن کو اپنے سماج سے مایوس کر دیا اور اس نے پوری شدت، غلو اور انتہا پسندی کے ساتھ اس میں انقلاب کا بیڑہ اٹھایا۔ لینن کا پورا مکالمہ اسی انقلابی موقف سے ہے اور بالکل مطابق کردار ہے، نظم کے آخری دو شعر اسی لینن کے بالکل موزوں اور مناسب حال اقوال ہیں:
تو قادر دعا دل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات
آخری شعر میں روز مکافات کی دہائی اور پہلے شعر میں قادر و عادل کا خطاب منصوبہ نظم اور ارتقائے خیالی کے اعتبار سے کسی طنز پر نہیں، ایک حقیقت پر مبنی ہے، اس لیے کہ لینن کو روز مکافات کا یقین ہے اور وہ قانون مکافات کا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، چنانچہ محولہ بالا دونوں اشعار سے قبل وہ پیش گوئی سی کرتا ہے:
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
ایک سیاسی نظم میں شاعری کی جتنی تصویریں اور ترنم کی جتنی تانیں جمع ہو گئی ہیں تفکر کو تخلیق بنانے کے لیے کافی ہیں، کردار نگاری میں حقیقت پسندی، مکالمہ نگاری میں نکتہ وردی، مناسب تمہید، مربوط ارتقا، موزوں خاتمہ۔۔۔۔۔ سب اجزا مل کر ایک کل کمی ترتیب کرتے ہیں۔ اس کل کی نتیجہ خیز تشکیل میں موضوع کی مکمل آگاہی کے ساتھ کردار کے لیے ہمدردی بھی ایک موثر رول ادا کرتی ہے۔
’’ نپولین کے مزار پر‘‘ اور مسولینی جیسی نظمیں بھی وقت کی نمایاں شخصیتوں اور ان سے وابستہ تصورات و واقعات کی بہت موثر نقاشی کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں فن کا یہ نکتہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اقبال کسی موضوع کو اس کی حدود ہی میں لیتے ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی اس کے حالات کے لحاظ سے کرتے ہیں، مثلاً مسولینی پر بال جبریل کی نظم زمانہ تخلیق تک کے قائد اطالیہ کی تصویر کشی کرتی ہے، جبکہ ضرب کلیم میں مسولینی اور ابی سینیا جیسی تخلیقات مغرب کے دوسرے جباروں کے درمیان ابھرنے والے آمر اطالیہ اور اس کے سامراجی عزائم کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ یہ ایک مفکر کی انصاف پسندی کے ساتھ ہی ایک فن کار کی حقیقت پسندی بھی ہے۔ اس عدل و حق پر مبنی فن کاری کی جمالیات کے یہ جلوے دیکھئے:
راز ہے راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز
جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز
جوش کردار سے شمشیر سکندر کا طلوع
کوہ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز
(نپولین کے مزار پر)
٭٭٭
یہ محبت کی حرارت، یہ تمنا، یہ نمود
فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیر حجاب
نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے
زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب
فیض یہ کس کی نظر کا ہے؟ کرامت کس کی ہے؟
وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب!
(مسولینی)
طارق کی دعا
شخصیات کی شاعرانہ کردار نگاری اور ان کے مخصوص افکار کو فنی پیکروں میں ڈھالنا اقبال کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ اس قسم کی شخصی نظموں سے اقبال کی شاعری میں تمثیل کے عناصر کا سراغ ملتا ہے اور ان کی قوت تمثیل نگاری کا اندازہ ہوتا ہے۔ سلطان ٹیپو کی وصیت ’’ ضرب کلیم‘‘ کی طرح ’’ طارق کی دعا‘‘ بھی ایک ایسی ہی نظم ہے، جس کی شاعری اور فن کاری اقبال کے خاص افکار کے باوصف ہر صاحب ذوق کے لئے لائق مطالعہ ہے:
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
وہ نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
وہ عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خون عرب سے
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں، اذان سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں
کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے
اس نظم کو پڑھتے وقت ہرگز نہ بھولنا چاہیے کہ یہ ایک اہم تاریخی مرحلے پر ایک تاریخ ساز کا ملفوظ ہے۔ یہ دعا ’’ اندلس کے میدان جنگ میں‘‘ کی گئی تھی جب اسلام پہلی بار مشرق کی حدود سے آگے بڑھ کر مغرب کی طرف فاتحانہ بڑھ رہا تھا اور اسلامی تصور کے تحت ایک عالمی اوربین الاقوامی حکومت کی داغ بیل پڑ رہی تھی، لہٰذا اس انقلابی موقع پر اسلام کے بہترین سپاہی نے گویا پوری دنیا کے سامنے اسلامی نظریہ حیات کا ایک نغمہ پیش کیا۔ بلاشبہ یہ ایک رجز ہے، لیکن غیر اسلامی تصورات کے تحت دنیا کی ساری جنگوں کے رجزوں سے یکسر مختلف ہے۔ یہ نکتہ نظم کے اس لہجے اور آہنگ سے بھی نمایاں ہے جو سراسر مناجات کا ہے اور اس میں لڑائی کی گھن گرج کی بجائے ایک دینی شعور اور شاعرانہ احساس کا سوز و گداز ہے۔ اندلس اقبال کا مجوب موضوع ہے جس پر ایک مستقل نظم ’’ ہسپانیہ‘‘ کے عنوان سے زیر نظر نظم سے قبل اور متصل اس طرح درج ہے گویا ’’ طارق کی دعا‘‘ کا پس منظر اور تمہدی ہے پھر ہسپانیہ سے قبل و متصل ’’ عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت‘‘ کی حسین دل آویز شاعری ہے اور اس سے بھی پہلے قید خانہ میں معتمد کی فریاد کے عنوان سے ہسپانیہ کے ایک علاقے اشبیلیہ کے ایک مفتوح بادشاہ کے حسرت انگیز احساسات ہیں، اور سب سے پہلے، سب سے بڑھ کر ’’ مسجد قرطبہ‘‘ (مع تمہدی دعا) کی بے مثال شاعری اور بے نظیر فن کاری ہے۔ مسجد قرطبہ میں لکھی گئی اقبال کی دعا اور’’ اندلس کے میدان جنگ میں‘‘ کی گئی’’ طارق کی دعا‘‘ کا موازنہ فنی اعتبار سے کیا جائے تو بحیثیت فن کار اقبال کی بے خطا حیات اور زبردست جمالیات کا کمال نظر آئے گا۔ اقبال کی دعا ایک مفکر، عارف اور شاعر کا اظہار خیال ہے اور طارق کی دعا ایک مجاہد، سپاہی اور فاتح کا بیان ہے، اور دونوں اپنی اپنی جگہ کامیاب ، دلکش اور خیال آفریں ہیں۔
اذان
کرداروں کے خاکے اور مواقع کے مرقعے کے علاوہ اقبال ایک پورا تخیل مطلقاً تمثیلی انداز میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ تمثیل کے ختم ہوتے ہی تفکر کی ایک دنیا آباد ہو جاتی ہے اور بزم خیال بصیرت افروز نقوش سے آراستہ ہونے لگتی ہے۔ بشرطیکہ قاری کو موضوع سے ہمدردی ہو یا کم از کم وہ موضوع کا تصور کرنے کی صلاحیت اور فن سے فن کے لیے بھی لطف لینے کا ذوق جمال رکھتا ہو۔ ملاحظہ ہو یہ نظم:
اک رات ستاروں سے کہا نجم سحر نے
آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟
کہنے لگا مریخ، اوافہم ہے تقدیر
ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فنے کو سزاوار
زہرہ نے کہا اور کوئی بات نہیں کیا؟
اس کرمک شب کور سے کیا ہم کو سروکار؟
بولامہ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی
تم شب کو نمودار ہو، وہ دن کو نمودار
واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار
ناگاہ فضا بانگ اذاں سے ہوئی لبریز
وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دل کہسار
(اذان)
بداہتہً اس حسین پارہ فن میں ’’ اذاں‘‘ ایک علامت ہے بیداری انساں کی، اس کی بیدار بختی کی گرچہ محاورے میں یہ ایک اسلامی شعار بلکہ عبادت کی اصطلاح ہے، اور اس میں شک نہیں کہ بندگی کا مفہوم انسان کی علامتی بیداری میں بھی مضمر ہے، بہرحال دیکھنا یہ چاہیے کہ اس بندگی و بیداری کا شاعرانہ مفہوم کیا ہے اور اسے کس فنکارانہ اسلوب سے پیش کیا گیا ہے۔ افلاک میں زمین کی مخلوق کے متعلق مکالمہ ہو رہا ہے، رات کا وقت ہے اور رات اپنی تاریکی کی انتہا پر پہنچ کر سحر کے قریب پہنچ چکی ہے، چنانچہ ستارہ صبح چمک رہا ہے نجم سحر دوسرے ستاروں سے ایک معنی خیز سوال کرتا ہے:
آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟
اس سوال کا محل و موقع بہت موزوں ہے، رات آدمی کے لیے سونے کا وقت ہے اور تاروں کے لیے چمکنے کا، لیکن ستارے گویا انجان بن کر یا تعصب کے زیر اثر شب کے وقت آدم کی بیداری کا سوال اٹھاتے ہیں اور ان کا استفہام انکار کا پہلو لیے ہوئے ہے، لہٰذا مریخ اس انکار بیداری آدم کو فرض کر کے بیان دیتا ہے کہ ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزا وار ژہرہ ایک قدیم آگے بڑھ کر انسان کو کرمک شب کور قرار دیتی ہے۔ لیکن مہ کامل ستاروں کی اس رقیبانہ مذمت آدم میں شریک نہیں ہوتا، شاید اس لیے کہ طوف خریم خاکی اس کی قدیم خو ہے، لہٰذا وہ آدم خاکی کے احوال سے واقف ہے۔ چنانچہ وہ اپنے خیال میں عدل و توازن کی یہ بات کرتا ہے کہ انسان بھی ایک ستارہ ہی ہے مگر اس کا دائرہ تابانی افلاک نہیں اور اس کا وقت بیداری شب نہیں، وہ اپنی زمین پر ڈن کو نمودار ہوتا ہے اس لیے کہ قدرت نے اس کے لیے ایسا ہی نظام عمل تجویز کیا ہے۔ بہرحال مہ کامل فرض کی نشاندہی سے آگے بڑھ کر جس کی ادائیگی انسان کرتا ہے، فضل کی طرف اشارہ کرتا ہے اور گرچہ اس کی گفتگو ستاروں سے ہو رہی ہے، مگر ایک لطیف انداز سے اب اس کی بات کا رخ انسان کی طرف ہو جاتا ہے جو محفل گفتگو میں حاضر نہیں ہے۔ لیکن مہ کامل کی دعوت بالغیب اسی کے لیے ہے، وہ کہتا ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی عظیم تجلی کے انوار خفتہ ہیں کہ ا گر وہ لذت بیداری شب سے واقف ہو جائے، تو اس کی تابانی کے سامنے افلاک کے تمام ستاروں کی درخشانی ماند پڑ جائے، خواہ وہ ثابت ہوں یا سیار، یعنی انسان ایک خاک پر اسرار ہے، بظاہر پستیوں میں گرا اور غفلتوں میں پڑا ہوا لیکن اصلاً افلاک کے بلند ترین ستارے، ثریا سے بھی بلند تر۔
یہاں مکالمہ نجوم اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے اور تمثیل کا تجسس اپنی انتہا پر اس ڈرامائی فضا میں:
ناگاہ فضا بانگ اذاں سے ہوئی لب ریز
یہ گویا ستاروں کو بالخصوص مہ کامل کی دعوت کا آدم کی طرف سے جواب ہے، شاید جب افلاک کے ستارے انسان کو سویا ہوا سمجھ رہے تھے تو بنی نوع انسان کے نمائندہ عابدان شب زندہ دار شک سحر گاہی سے وضو کر رہے تھے اور ابھی ستاروں کی انسان کی گراں خوبی پر تقریر ختم ہوئی تھی کہ کسی عابد شب زندہ دار نے بانگ اذاں بلند کر کے شب تاریک کی گراں خوابی کا پردہ چاک کر دیا اور پوری فضا کو بیداری و روشنی کا پیام دیا۔ اس کا مطلب یہ کہ نوع انسان میں ابھی اس نور ازل کا احساس باقی ہے جو اس کے وجود کے اندر مضمر ہے اور کچھ آگاہ بشر عصر حاضر کی شب تاریک کو سحر کرنے کا حوصلہ دکھائیں تو اذان سحر اور صلواۃ فجر کا ایک پورا نظام حیات حقیقی و علامتی دونوں طور پر آج بھی موجود ہے، اس تمثیل میں مہ کامل کا کردار ایک زبردست علامت ہے اور اس کے پیکر کمال سے ذہن کمال ارتقا کی طرف بہ آسانی منتقل ہوتا ہے،
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
جبریل و ابلیس
’’ جبریل و ابلیس‘‘ ایک اور تمثیلی نظم ہے جس کے مکالمات ابلیس کی ایک فلسفیانہ کردار شاعرانہ استعارات میں پیش کرتے ہیں۔ سابق معلم الملکوت کی ایک ملاقات روح القدس سے ہوتی ہے۔ حضرت جبرئیل اپنے دیرینہ رفیق سے اس کے لیے میدان عمل کے متعلق سوال کرتے ہیں:
ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو؟
ابلیس دنیا کی بڑی جامع اور دل کش تصویر کشی کرتا ہے:
سوز و ساز و در و دواغ و جستجو و آرزو
سوال و جواب کے یہ دو مصرعے مل کر ایک شعر، ایک آواز، ایک مفہوم پیدا کرتے ہیں وہ یہ کہ جہان رنگ و بو کی رونق سوز و ساز و درو داغ و جستجو و آرزو سے ہے، جو عالم بے کاخ و کو کی یکسائی و خموشی سے بالکل مختلف ہے،شائد جبرئیل کا مصرع ایک طنز ہے لیکن ابلیس کا مصرع طنز کو توصیف میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ کرداروں اور ان کے مکالموں کا لطیف و پر معنی فرق ہے۔ اس تمہیدی مزاج پرسی کے بعد جبریل ابلیس کے ساتھ ہمدردی کے طور پر اسے توبہ و اصلاح کا راستہ دکھانے کی ایک کوشش کرتے ہیں، جو روح القدس کے آفاقی کردار کے عین مطابق ہے:
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو؟
یہ سن کر ابلیس کی رگ شیطنت پھڑک اٹھتی ہے اور وہ بڑے غرور کے ساتھ جواب دیتا ہے:
آہ اے جبریل تو واقف نہیں اس راز سے
کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر مرا سبو
اب یہاں میری گذر ممکن نہیں، ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو
جس کی نو میدی سے ہو سوز درون کائنات
اس کے حق میں تقنطو اچھا ہے یا لا تقنطوا
یہاں ابلیس ایک ماہر نفسیات، ایک ماہر عمرانیات اور ایک فلسفی کی حیثیتوں کا مجموعہ بن کر ظاہر ہوتا ہے، یہ اس کے مشہور زمانہ علم و عقل کے مطابق ہے۔ جبریل ابلیس کی منطق کا جواب منطق سے نہیں دیتے، اس لیے کہ بخلاف ابلیس کے وہ سراپا عرفان ہیں، وحی الٰہی کے قاصد ہیں، حقائق کا براہ راست مشاہدہ کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ صرف آبروئے ملکوتیت کا حوالہ و واسطہ دے کر ایک بار پھر ابلیس کو توبہ کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ حجت تمام اور حق نصیحت ادا ہو جائے:
کھو دیے انکار سے تو نے مقامات بلند
چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو؟
ابلیس کی آتش وجود بھڑک اٹھتی ہے اور وہ نہایت سرکشی اور شیخی کے ساتھ یہ متکبرانہ جواب دیتا ہے:
ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تار و پو
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے؟ مکیں کہ تو؟
میرے طوفان یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟
میں کھٹکھتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو
بلاشبہ یہ غضب کی شاعری اور معرکے کی فلسفہ طرازی ہے، ساتھ ہی بڑی زبردست خطابت ہے۔ چند الفاظ میں کائنات کی علامت شر نے اپنے آفاقی کردار کی ایک موثر نقش گری کر دی ہو۔ کیا ابلیس کے اس رومانی جواب میں انسان کی عام یا شاعری کی خاص رومانیت کے اشارات بھی ہیں؟ کیا ہم ابلیس کے کردار میں اپنے لیے ایک انرونی کشش پاتے ہیں؟ کیا شاعر ابلیس کے احساسات میں شریک ہے؟ کیا ابلیس کائنات میں نمود و ترقی، سعی و جدوجہد اور سخت کوشی و رنگینی کا سرچشمہ ہے؟ کیا وہ خداوند عالم کا حریف ہے؟
یہ سوالات نظم کے بیانات و مضمرات سے اپنے آپ پیدا ہوتے ہیں اور بجائے خود واضح کرتے ہیں کہ نظم بہت ہی کامیاب، پر اثر اور پر خیال ہے۔ جہاں تک ان سوالوں کے جواب کا تعلق ہے، کسی دوسرے کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں، اقبال نے خود ہی محی الدین ابن عربی کے تصور پر مبنی ضرب کلیم کی ایک نظم میں یہ جواب دے دیا ہے:
تقدیر
(ابلیس و یزداں)
ابلیس
اے خدائے کن فکاں مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر
آہ! وہ زندانی نزدیک و دور و دیر و زود
حرف استکبار، تیرے سامنے ممکن نہ تھا
ہاں مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود
یزداں
کب کھلا تجھ پر یہ راز؟ انکار سے پہلے کہ بعد؟
ابلیس
بعد اے تیری تجلی سے کمالات وجود!
یزداں
(فرشتوں کی طرف دیکھ کر)
پشتی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے
کہتا ہے تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود
دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام
ظالم اپنے شعلہ سوزاں کو خود کہتا ہے دود!
ابلیس کے موضوع پر اقبال کی سب سے ہم تخلیق ارمغان حجاز میں ابلیس کی مجلس شوریٰ ہے جس میں شر کی یہ کائناتی علامت اپنی پوری طاقت و جلال کے ساتھ مع اپنے رفقا کے نمودار ہوتی ہے اور عصر حاضر کے مروجہ نظریات کو اپنا ہی فتنہ قرار دیتی ہے، لیکن نظریہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے لرزہ بر اندام ہے، لہٰذا اقبال کا ابلیس ملٹن کے شیطان کی طرح کسی ناقابل شکست طاقت کا نام نہیں، صرف قوت شر کے مجسمے کا نام ہے جس کا آغاز و انجام دونوں ہی اس کی تمام شہ زوریوں اور فتنہ پردازیوں کے باوجود، شکست و مایوسی ہے، اس لیے کہ وہ در حقیقت ’’ پستی فطرت‘‘ کی ایک تاریخی علامت ہے، گرچہ اس کا احساس کمتری اسے برتری کے مظاہرے پر مجبور کرتا ہے۔ اس طرح ابلیس کے کردار کی شوکت دراصل اس کا نفسیاتی مرض ہے لہٰذا اس کی کردار نگاری بھی اس نفسیاتی نکتے پر مبنی ہے۔ یہ فنی حقیقت پسندی لازماً جبریل و ابلیس میں ابلیس کی وہ مرقع نگاری کراتی ہے جس کا مشاہدہ ہم کر چکے ہیں۔ لیکن بال جبریل اورضرب کلیم کے ابلیسوں کی تصویر، ایک دوسری سے مختلف نظر آتی ہے، بہ نظر غور دیکھا جائے تو اس کا سبب فن تمثیل کا یہ اصولی نکتہ اور معاملہ ہے کہ پہلی نظم میں ابلیس کی ساری شیخی جبریل کے مقابلے میں ہے جنہیں وہ اگر اپنے سے کم تر نہیں توزیادہ سے زیادہ اپنے برابر سمجھتا ہے، جبکہ دوسری نظم میں استکبار کی بجائے انکسار خداوند عالم کے روبرو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی نظم میں در حقیقت متکلم ابلیس ہے اور جبریل مخاطب ہیں، لیکن دوسری نظم میں ابلیس مخاطب ہے اور یزداں متکلم اسی لیے بال جبریل کی نظم کا تکلم شعریت سے لبریز ہے مگر ضرب کلیم کی نظم کا تکلم صرف ایک حکیمانہ خطاب ہے جو ایک تمثیلی نظم کے شاعرانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ بات یہی ہے کہ پہلی نظم میں اصل آواز ابلیس کی ہے جس کی رومانیت شعر بداماں ہے جب کہ دوسری نظم میں اصل آواز خدا کی ہے جس کی الوہیت مظہر حکمت ہے۔
روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے
اردو میں اقبال کی بہترین تمثیلی نظم محولہ بالا عنوان سے لکھی گئی ہے۔ عالم تصور کے برخلاف، یہ نظم در حقیقت دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں ’’ فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘‘:
عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی
سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے، لیکن
تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی
جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے
ہزار ہوش سے خوش تر تری شکر خوابی
گراں بہا ہے ترا گریہ سحر گاہی
اسی سے ہے ترے نخل کہن کی شادابی
تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر
کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی
٭٭٭
یہ فرشتوں کی وہی پر وقار اور نغمہ ریز آواز ہے جو ہم ’’ فرشتوں کا گیت‘‘ میں سن چکے ہیں۔۔۔۔ خاکی، سیمابی، کوکہی، مہتابی، شکر خوابی گریہ سحر گاہی، شادابی اور مضرابی جیسے الفاظ پر معنی خیالات کے لیے پر شوکت پیکروں کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہر خیال ایک جہان معنی ہے اور بشریت کے مضمرات ملکوتی زبان میں آشکار کرتا ہے۔ انسان ایک جان بے قرار ہے، اس لیے کہ جنت سے رخصت اور مرکز تجلی سے جدا ہو کر وہ ایک طویل ساعت فراق سے دو چار ہے، چنانچہ اسے خاکی کی بجائے سیمابی کہنا چاہیے اور گرچہ اس کا پتلا خاک سے بنا ہے مگر جو روح اس کے اندر پھونکی گئی ہے اس نے اس کی فطرت کو چاند تاروں کی طرح درخشاں بنایا ہے لہٰذا اسے اپنی فطرت کا عرفان پیدا کرنا چاہیے اور یہ عرفان اگر خواب میں بھی نصیب ہو جائے، تو ایسا خواب اس بیداری سے بہتر ہے جس میں حقیقت سے غفلت ہی غفلت نظر آتی ہے، بہرحال بیداری کا تقاضا شب زندہ داری ہے اور فراق محبوب میں جو گریہ سحر گاہی ہوتا ہے وہ انسان کے شجر حیات کو ہر دور میں سیراب کرتا اور شاداب رکھتا ہے، انسان کی آواز راز حیات کی صدا ہے۔ اس لیے کہ ساز انسانیت پر قدرت الٰہی کی طرف سے ضرب نغمہ لگائی گئی ہے۔
ان میں کوئی ایک نکتہ بھی ایسا نہیں ہے جو کسی استعاراتی پیکر کے بغیر پیش کیا گیا ہو۔ اس طرح ہر نکتہ شاعری کی ایک تصویر ہے اور سب نکتوں کی تصویریں مل کر ایک قماش نغمہ کے اجزائے ترکیبی کی طرح حرکت کرتی ہیں۔ یہ حرکت بندش الفاظ اور چشتی تراکیب سے انتخاب ردیف تک ایک سلسلہ ترنم ہے۔ یہ ملکوتی سرود جنت سے رخصت ہوتے وقت آدم کے لیے ایک ولولہ خیز تحفہ ہے جو اس کی دنئی میں اسے ایک نیا فردوس آباد کرنے کا حوصلہ عطا کرے گا۔
زمزمہ ملائکہ کے بعد نغمہ زمینی بھی کم سرور آفریں حوصلہ خیز اور ولولہ انگیز نہیں۔ دیکھیے کس والہانہ انداز سے ’’ روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔‘‘
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ!
ایام جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ!
بے تاب نہ ہو، معرکہ بیم و رجا دیکھ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
٭٭٭
مخمس کے یہ پہلے دو بند اس دنیا کی حسین ترین تصویر کشتی کرتے ہیں جو آدم کا نیا وطن ہے۔ اس تصویر میں زمین سے آسمان تک پورے آفاق کے نظارے ہیں، زمین، فلک، فضا، مشرق، سورج، بادل، کوہ، صحرا، سمندر، ہوا، ایک ایک لفظ ایک ایک پیکر ہے اور سب پیکر مل کر مظاہر فطرت کی دل کش نقش گری کرتے ہیں، سورج مشرق سے ابھر رہا ہے، بادل تصرف میں ہے، گنبد افلاک دنیا پر محیط ہے، فضائیں خاموش کھڑی کسی کا انتظار کر رہی ہیں، کوہسار روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں، صحرا تپ رہے ہیں، سمندر موجیں مار رہا ہے، ہوائیں چل رہی ہیں، گھٹائیں چھا رہی ہیں۔۔۔۔ اور آدم فلک سے زمین کی طرف اترتا ہوا اپنی نئی منزل سے قریب ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے قدم سطح زمین پر پہنچ جاتے ہیں، لیکن وہ بے تاب ہے ایک اجنبی ماحول میں پریشان ہے، کچھ کھو کر آیا ہے اور کھویا کھویا ہے۔ لہٰذا روح ارض اپنی سحر انگیز آواز کے ساتھ آدم کو صبر امید اور حوصلہ دلاتی ہے، اسے اپنے خزانے دکھاتی ہے، اپنی رعنائیوں کی طرف متوجہ کرتی ہے، اس کی قوتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کا کام اور مقام بتاتی ہے اس پر جوش پر معنی اور پر اثر استقبال میں یکایک حسن و جمال اور ذوق و شوق کی برقی رو سی دوڑنے لگتی ہے جب خلا کی رقاصہ اپنی عشوہ طرازیوں اور نغمہ آفرینیوں کے درمیان اول یہ نکتہ اٹھاتی ہے کہ فردوس گمشدہ اور جلوۂ الٰہی سے محروم ہو کر گرچہ دنیائے ارضی میں آدم کو ایام جدائی کے ستم دیکھنے ہیں، مگر جلوۂ محبوب کی جھلک بھی اس کو نظر آ سکتی ہے، بشرطیکہ وہ اپنی نگاہوں کو اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا، دیکھنے کا عادی بنا لے اور مظاہر فطرت کی اہمیت کو سمجھے، اس لیے کہ اب فطرت تک وہ مظاہر کے پردے چیر کر ہی پہنچ سکتا ہے۔ محبوب کی نقاب پوشی اور نقاب کے اندر سے جلوہ افروزی عشق اور شاعری دونوں کا حسین ترین تصور ہے جس کی دل آویزی، ایام جدائی کی جفاؤں کو گوارا ہی نہیں، خوشگوار بنانے کے لئے کافی ہے۔ ابھی پہلے بند میں اٹھائے ہوئے اس نکتہ جمال کی رعنائیاں اپنا طلسم پھیلا رہی تھیں کہ دوسرے بند میں مغینہ ارض نے ایک شوخ نکتہ اور اٹھا دیا۔ فردوس گمشدہ میں آدم جلوۂ الٰہی کے بعد صرف فرشتوں کی ادائیں دیکھ رہا تھا لیکن آئینہ ایام میں وہ خود اپنی ادا دیکھ سکتا ہے، کائنات کے ذرے ذرے پر آدم کی ایک ایک حرکت کا عکس پڑے گا اور افق تا افق اس کے افعال کا نقش بیٹھے گا، لہٰذا دوسروں کا جلوہ دیکھنے والا اب اپنا ہی جلوہ دیکھے گا۔ بجائے خود یہ جمال خویشتن ایک نشاط انگیز احساس پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حسن ازل کا جلوہ بے پردہ، جن پردوں میں چھپا ہے ان میں مظاہر آفاق کے ساتھ مظہر نفس بھی ہے، لہٰذا اپنی ادا دیکھتے دیکھتے کسی اور کی ادا بھی نظر آ سکتی ہے، حقیقت منتظر لباس مجاز میں ظاہر ہو سکتی ہے، اپنی ادا محبوب ازل کا جلوۂ با پردہ ثابت ہو سکتی ہے، معرفت نفس معرفت رب کا زینہ بن سکتی ہے۔ اس طرح حسن آفاق میں جمال انفس کے اشارے کر کے نظم کے تیسرے بند سے اسی جمال کی نقش آرائی شروع ہوتی ہے:
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر، اثر آہ رسا دیکھ!
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!
نفس انسانی میں ذہن کا بحر تخیل بھی ہے اور قلب کی آہواں کے شرارے بھی اور یہ دونوں پیکر ہیں انسانی ادراک اور احساس کے ان جمالیاتی پیکروں کے باعث وجود آدم میں اتنی کشش پیدا ہو جائے گی کہ ایک طرف گردوں کے ستارے، اسے دور سے دیکھیں گے اور دوسری طرف زمانہ اس کی آنکھوں کے اشارے سمجھے گا، انسان اس طرح روئے ارض پر ایک پیکر جمال، ایک مرکز نگاہ بن کر رہے گا۔ بشرطیکہ وہ تعمیر خودی کرے اپنے آپ کو پہچانے اپنے رب کو پہچانے، اپنے منبع اور اپنی منزل کو سمجھے اوراپنی اندرونی قوتوں اور فطری صلاحیتوں سے کام لے۔ اس کام کے لیے سارا سامان قدرت نے آدم کو دے رکھا ہے وجود آدم کائنات کی وسعتوں میں ایک شرر ہی کیوں نہ ہو، ا کے اندر خورشید جہاں تاب کی ضو پوشیدہ ہے، لہٰذا اسے فردوس گشتہ کی زیادہ فکر نہیں کرنی چاہئے۔ جنت تو اس کے اپنے خون جگر میں پنہاں ہے چنانچہ اسے اپنے ہنر سے اب اک تازہ جہاں آباد کرنا اور بخشی ہوئی جنت کی بجائے اپنی جنت آپ پیدا کرنی ہے، عمل سے زندگی جنت بن سکتی ہے۔ یہ سب کچھ، کوشش پیہم سے ہی ممکن ہے جو پیکر گل کو معمار جہاں بنا سکتی ہے۔ یہ حسین تصورات حسین تصاویر میں بروئے اظہار آئے ہیں۔ خورشید جہاں تاب، تازہ جہاں، فردوس، خون جگر اور پیکر گل معنی آفریں الفاظ و تراکیب ہیں یہ الفاظ و تراکیب اپنے حروف و اصوات اور بندش و ترتیب کے لحاظ سے نغمات ہی نغمات ہیں۔
آخری بند کائنات میں انسان کے مقام کی نشان دہی کرتا ہے:
نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنس محبت کا خریدار ازل سے
تو پیر صنم خانہ اسرار ازل سے
محنت کش و خونریز و کم آزار ازل سے
ہے راکب تقدیر جہاں تیری رصنا دیکھ
انسان کی فطرت کو ’’ عود‘‘ سے تشبیہہ دی گئی ہے اور اسے ازل سے نالندہ بتایا گیا ہے اس لیے کہ انسان روز ازل سے ہی بازار کائنات میں جنس محبت کا خریدار ہے یہ وہی ایام جدائی کے ستم والی بات ہے جس سے نظم شروع ہوئی تھی اور اب خاتمے پر اس کی تکرار مضمون تخلیق کو ایک مربوط ارتقائے خیال کر کے بعد منطقی نتیجے پر پہنچا رہی ہے۔ آدم نے خلافت ارض کی امانت الٰہی کا بار اپنے شوق سے اور ایک جذبہ عشق کے تحت اٹھایا ہے، چنانچہ اس نے گویا جنت دے کر محبت خریدی اور باغ عدن کے عیش کو چھوڑ کر دنیا کے دار المحن میں آ گیا، لہٰذا تخلیق کے وقت ہی سے وہ محبوب حقیقی سے جدا ہو گیا اور کار جہاں میں مشغول ہو کر فراق کے دن گزار رہا ہے جس جلوۂ حسن کو اس کی نگاہ عشق کبھی بے پردہ دیکھتی ہے، اب اسے پردوں میں چھپا، دیکھ کر دیدار کے لیے فریاد کر رہی ہے۔ دیدار و وصال ہو گا کہ نہیں؟ ایک کھلا سوال ہے اور ایک معینہ مدت تک اس کا جواب ملنے والا نہیں، چنانچہ پہلا بند دل عاشق میں بپا ایک حسین معرکہ بیم و رجا، پرختم ہوا تھا اور اب آخری بند اشارہ کرتا ہے کہ اس معرکے کی ابتدا میں روح ارضی نے آدم کو، بے تاب نہ ہو، کی جو تلقین کی تھی تاکہ حسن و عشق کی حیات افروز کش مکش شروع ہو جائے، وہ تلقین قبول ہو گی ہی اس لیے کہ فراق اور اس کا نالہ و فریاد انسان کی سرشت ہے اور اس نے عشق میں اسی کا سودا کیا ہے۔ یہ بات بڑی پر اسرار ہے، جب انسان نے خود ہی بار امانت اٹھا کر محبت میں فراق کا سودا کیا ہے تو اب فراق میں اتنی بے تابی اور آہ و زاری کیوں؟ آدمی واقعی ایک پر اسرار مخلوق ہے، لیکن جس کائنات میں وہ آباد ہے وہ بھی ایک صنم خانہ اسرار ہی ہے لہٰذا واقعہ یہ ہے کہ انسان ہی ازل سے پیر صنم خانہ اسرار ہے۔ چنانچہ اس کی پر اسرار طبیعت کا کمال دیکھئے کہ ایک عاشق کی طرح معصوم و کم آزار اور فریضہ محبت کی ادائیگی میں محنت کش ہونے کے ساتھ ساتھ خوں ریز بھی ہے، اپان خون پسینے کی طرح بہاتا ہے اور وہ دوسروں کا خون بھی، اگر ضروری ہو جائے تو حق و عدل کے لیے بہا سکتا ہے۔
امانت کی ادائیگی کے لیے یہ محنت، محبت کی یہ کش مکش، کار دنیا کی یہ سخت کوشی انسان کی فضیلت، شاد کامی اور فتح مندی کے باعث ہو گی، گرچہ وہ راضی بہ رضائے الٰہی ہے مگر اس نے منشاء مشیت کے تحت اپنے آپ کو اس درجہ حکام الٰہی کا پابند بنا لیا ہے کہ اس کی تدبیر اور خدا کی تقدیر میں کوئی فرق و فاصلہ باقی نہ رہ گیا ہے اور محب و محبوب کی رضائے باہم کا نتیجہ یہ ہے کہ بندہ محبت کی رضا خدائے محبوب کی کائنات میں راکب تقدیر جہاں ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس طرح ملائکہ نے جن توقعات کے ساتھ آدم کو جنت سے رخصت کیا تھا اور روح زمین نے جن آرزوؤں کے ساتھ آدم کا استقبال کیا تھا وہ سب پوری ہوں گی اور ہونے لگی ہیں۔
یہ نظم تخیلات و تصاویر کی ایک شاخ زریں اور اول تا آخر اسما و افعال کا ایک نغمہ رنگیں ہے۔ اس تمثیل میں مکالمہ و منظر باہم پیوستہ ہیں، آسمان و زمین کی آوازیں ہم آہنگ ہیں۔ نوامیس فطرت کا یہ ارتباط کائنات کے سب سے اہم وجود، آدم کے لیے ہے، گرچہ وہ اس پورے تماشے میں بالکل خاموش ہے، اس لیے کہ اس کا ہی رخ زیبا تماشا گاہ عالم ہے وہ ایک نونہال ہستی ہے، گرچہ اس کی اصلیت اور مقدور کردار، پیر صنم خانہ اسرار کا ہے، لہٰذا وہ ملائکہ کے آغوش سے نکلتا ہے تو زمین اسے اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔ اور دونوں مل کر اسے لوریاں سناتے اور اس کی عظمت کے گیت گاتے ہیں۔ گرچہ پیر صنم خانہ اسرار کی طرح ایام جدائی بھی عہد جوانی کے غماز ہیں، مگر ظاہر ہے کہ گہوارہ ارتقاء میں ابھی انسان کا عہد طفولیت ہی ہے اور وہ پہلی بار زمین پر قدم رکھ رہا ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ موقع نظم عالم انسانیت کے نقطہ آغاز کے باوجود ایام کی تعین کا نہیں، امکانات کی نشاندہی کا ہے چنانچہ نظم کا سارا زور اسی نشاندہی پر صرف ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کائنات میں طلوع انسانیت پر اس سے بہتر نظم نہ تو کلام اقبال میں ہے نہ پوری دنیائے شاعری میں۔