ان چھوٹی چھوٹی خوبصورت، سڈول اور سجل نظموں میں اقبال نے بنیادی رومانی موضوعات پر ان خیالات و احساسات کا اظہار کیا ہے، فکر و فن کے لحاظ سے ان کا موازنہ اگر بائرن شیلی اور کیٹس جیسے خالص رومانی اور حسن پرست شعراء کی چھوٹی نظموں کے ساتھ کیا جائے تو مجموعی طور پر اقبال کے ذہن کی رسائی اور فن کی پختگی کا شدید تر احساس ہو گا اور معلوم ہو گا کہ اقبال کی ابتدا میں بھی جو رسوخ و بلوغ تھا اس سے بہتیرے اہم رومانی شعرا بہرہ ور نہ تھے۔ جہاں تک ان شعراء کی بڑی نظموں کا تعلق ہے ان میں بھی تخیل کی خام رومانیت اپنی جگہ ہے، جبکہ ہیئت کا سانچہ، شاید ان کی پریشانی فکر کے سبب، پارہ پارہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ بانگ درا کی سطح پر بھی جس کی بلندیوں کا ذکر ابھی باقی ہے، یہ رومانی شعراء اقبال کے مقالے میں نہیں آتے۔ کولرج کی رومانیت میں صوفیت کی جو لہر نظر آتی ہے وہ اول تو زیادہ تر دیکھنے والوں کی نگاہ پر کولرج کے تنقیدی افکار کا عکس ہے، دوسری پریشانی فکر کولرج کے یہاں بھی ہے اور دو نظموں:
Qubla Khan, Ancient Mariner
کے سوا اس کے یہاں شاعری کی کوئی بڑی کوشش نظر نہیں آتی پھر ان نظموں میں بھی Ancient Mariner تو بس ایک پر اسرار داستان ہے جبکہ Qubla khan صرف ایک پارچہ تخلیق ہے، نامکمل اور ناقص ورڈس ورتھ ضرور ایک پختہ فکر استاد فن ہے اور اس کی تخلیقات کا حجم بھی بہت بڑا ہے، تصور بھی اونچا اور گہرا ہے۔ لیکن فطرت سے اس کے شغف کی انتہا پسندی اس کے دائرۂ شاعری کو بہت محدود کر دیتی ہے اور اس دائرے میں بھی ایک محدود موضوع کے بیان اور طرز بیان کی تکرار و طوالت خستگی و فرسودگی پیدا کرتی ہے، چنانچہ اسی باب میں آئندہ ہم اقبال کے پہلے مجموعہ کلام کی جن بڑی نظموں پر تنقید کرنے والے ہیں۔ وہ ورڈس ورتھ کے دائرہ فن اور حدود شاعری سے آگے کی چیزیں ہیں۔
میرے خیال میں بانگ درا میں اقبال کی بڑی نظمیں چھ ہیں جن کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
’’ تصویر درد، شمع اور شاعر اور جواب شکوہ، خضر راہ، طلوع اسلام‘‘
یہ انتخاب میں نے فن ہی کے نقطہ نظر سے کیا ہے اور ان لوگوں سے میرا شدید اختلاف ہے جو ان سب یا ان میں سے چند کو فنی اعتبار سے اہمیت نہیں دیتے۔ میری رائے میں اول تو اقبال کے فن شاعری کے ارتقا میں یہ نظمیں دور اول کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں اور شاعر کے فن کی بلند تر منزلوں کا نشان ان نظموں کا سراغ گم کر کے نہیں مل سکتا۔ دوسرے یہ کہ اپنی اپنی جگہ یہ نصف درجن بڑی نظمیں تقریباً ڈیڑھ سو چھوٹی نظموں کی فن پیمائیوں سے حاصل کی ہوئی، ایک کوہستان شاعری کی چوٹیاں ہیں۔ چنانچہ فن شاعری کے جو چھوٹے چھوٹے تجربات دوسری نظموں میں بکھرے اور پھیلے ہوئے ہیں، وہ ان تخلیقات میں سمٹ کر مرتکز ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ان کا مطالعہ و تجزیہ شاعری اور اقبال کی شاعری کی ترقیات کو سمجھنے کے لئے دلچسپی اور فائدے سے خالی نہ ہو گا۔
تصویر درد
(حب وطن)
اس نظم کا موضوع حب وطن ہے اسی موضوع پر اس سے قبل ایک چھوٹی سی نظم ’’ صدائے درد‘‘ ملتی ہے:
جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے
سر زمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے
بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب
جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں
لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں
اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں
دانہ خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں
حسن ہو کیا خود نما، جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو
ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں
کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے
بالکل یہی احساسات و جذبات ’’ تصویر درد‘‘ میں بھی زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اور ایک وسیع پیمانے پر ادا ہوتے ہیں یعنی جو گل تر فکر و فن کا بڑی نظم میں کھلا ہے۔ اسی کا غنچہ یہ چھوٹی نظم ہے۔ ترتیب فہرست میں ’’ صدائے درد‘‘ نمبر16ہے اور تصویر درد نمبر34اس کے علاوہ پہلی نظم ’’ ہمالہ‘‘ میں بھی زیر نظر موضوع کے ارتعاشات پائے جاتے ہیں، خاص کر شروع کے دو بندوں اور آخری بند میں۔ انیسویں نظم ’’ ایک آرزو‘‘ کا خاتمہ بھی متعلقہ موضوع کے اشارات پر ہوتا ہے اور صدائے درد ایک صدائے درا بنتی نظر آتی ہے، تیسویں نظم ’’ سید کی لوح تربت‘‘ کے حسب ذیل اشعار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں:
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جواب نہ آئیں ان افسانوں کو نہ چھیڑ
٭٭٭
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے
یہی تخیل انیسویں نظم ’’ شاعر‘‘ کا ہے:
قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صفت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
محفل نظم حکومت، چہرۂ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نواہے دیدۂ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
٭٭٭
یہ اقبال کے فن کی ایک قابل ذکر اور خیال انگیز خصوصیت ہے کہ جب کبھی وہ کوئی بڑی تخلیق پیش کرتے ہیں تو اس سے اقبال اس تخلیق کے موضوع کے مختلف اجزاء چند چھوٹی چھوٹی نظموں میں بروئے اظہارآ چکے ہوتے ہیں اور اس کے بعد بھی تخلیق کی بازگشت چند اور چھوٹی نظموں میں سنائی دیتی ہے۔ اس طرح فن کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے جو اپنے رنگ و آہنگ کے نغموں سے گونجتی رہتی ہے۔ گویا اقبال کے نغمات ایک موسیقی کے راگ ہیں۔ واقعی اقبال کی شاعری اپنا ایک مستقل اور وسیع نظام فن رکھتی ہے جس کو ملحوظ رکھے بغیر اس کے مختلف اجزاء کو بالکل الگ الگ کر کے دیکھنا قوس قزح کے رنگوں کو بکھیر دینا ہے۔ پھر بنیادی اور کلی نظام کے تحت چھوٹے چھوٹے نظام مختلف موضوعات کے ہیں جن کے اپنے اپنے اجزا ہیں اس طرح ایک نظام سیارگاں کی کیفیت رونما ہوتی ہے۔
٭٭٭
اسی نظام کا ایک سیارہ حب وطن ہے جس کا سب سے بڑا مظہر ’’ تصویر درد‘‘ ہے آٹھ بندوں کی اس نظم میں انہتر اشعار ہیں، مختلف بندوں میں اشعار کی تعداد مختلف ہے کسی میں سات، کسی میں آٹھ، کسی میں نو، کسی میں دس، کسی میں بارہ اور سب ترکیب نہ ہیں۔ پہلے بند میں اس ’’ دستور زباں بندی‘‘ کا بیان ہے جو دنیا کے احوال نے انسان پر عائد کر دیا ہے۔ یہ گویا عنوان نظم میں ’’ تصویر‘‘ کے تصور کی تشریح اور اس کی بے زبانی کی توضیح ہے، اگرچہ اس سے زبان حال کا اشارہ بھی ملتا ہے۔ پھر جن پیکروں سے ’’ تصویر‘‘ کے نقوش آراستہ ہوئے ہیں وہ اسے تصویر درد ثابت کرتے ہیں۔ بند کے آخر میں ٹیپ کا شعر فارسی ہے اور واوین میں دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی دوسرے شاعر یا دوسری تخلیق کا حوالہ ہے اور حوالے کے اس شعر کا مفہوم ما قبل کے تمام اشعار کا خلاصہ پیش کرتا ہے۔ گویا بند کے باقی اشعار ٹیپ کے شعر کی تظمین کرتے ہیں۔ اس قسم کی تظمین اقبال کی متعدد نظموں میں پائی جاتی ہے اور بہت ہی چست و موزوں اور معنی آفریں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعر کی تضمین کی گئی ہے، خواہ وہ معنوی ہو یا لفظی، گرچہ زیادہ تر معنوی ہے، وہ خاص اسی موقعے کے لیے کہا گیا تھا جس پر اس کا استعمال اقبال نے کیا ہے، اس مبصرانہ و فن کارانہ معنوی تضمین سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال کا مطالعہ فن اور احساس شعریت بہت ہی وسیع و عمیق ہے اور وہ ماضی کے اساتذہ فن کے بڑے ادا شناس ہیں جبکہ اپنے فن کے تقاضوں سے بھی پوری طرح آشنا ہیں اور ان کی انفرادیت اتنی مستحکم ہے کہ تمام روایات کو اپنے فن میں جذب کر کے ایک نئی زندگی اور تابندگی دے سکتی ہے۔ فارسی کے اساتذہ سخن کا یہ تخلیقی استعمال یقینا اقبال کی شاعری کی ثروت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ بہرحال اس تمہیدی بند میں اپنے تخیل کی ترسیل کے لیے شاعر نے ایسی حسین تصویریں پیش کی ہیں:
اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
بند کی ٹیپ میں شاعر نے دنیا کو ایک ’’ حسرت سرا‘‘ بتایا ہے جس میں وہ ایک ’’ خروش بے نفس‘‘ رکھتا ہے ۔ یہ دونوں پیکر ’’ تصویر درد‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہیں۔
دوسرا بند پہلے ہی شعر سے قبل کے بند خاص کر اس کی ٹیپ کے اندر سے نکلتا ہوا معلوم ہوتا ہے، شاعر بتاتا ہے کہ انسان ’’ ریاض دہر‘‘ میں نا آشنائے بزم عشرت اور محروم مسرت ہے، لیکن تصویر درد کے تصور کو اس طرح آگے بڑھا کر، وہ تمہید کے بعد اپنے موضوع کی طرف آنے کے لیے دوسرے ہی بند میں ایک راستہ نکالتا ہے اور تسلسل بیان کو برقرار رکھتے ہوئے یہ خیال پیش کرتا ہے کہ تمام محرومیوں اور نارسائیوں کے باوجود:
یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا
سراپا نور ہو جس کی حقیقت، میں وہ ظلمت ہوں
پھر اس معنی خیز تصور کو ایک نہایت حسین اور پر خیال تصویر سے آراستہ کیا گیا ہے:
خزینہ ہوں، چھپایا مجھ کو مشت خاک صحرا نے
کسی کو کیا خبر ہے میں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں؟
کائنات میں انسان کے اس کے گم شدہ مقام کا سراغ دے دینے کے بعد شاعر خود انسانیت کا ترجمان بن جاتا ہے تاکہ اب موضوع پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے وہ بالکل تیار ہو جائے اور اس سلسلے میں اس کی حیثیت واضح ہو جائے۔ چنانچہ بند ٹیپ کے اس شعر پر ختم ہوتا ہے:
مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ آنکھوں کے سامنے آتا ہے
یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ایک ملک کی صورت حال پر تبصرہ کرنے کے لیے شاعر نے ایک آفاقی تمہید سے کام لیا ہے اور اس میں انسان اور فن کار کا مقام واضح کیا ہے۔
اگلے بند میں پچھلے بند کی ٹیپ کے شعر کی دو شعروں میں تفصیل کر کے ہندوستنا سے اپنا پر درد خطاب شروع کر دیتا ہے:
رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستان مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
نظم کے اس طویل ترین بند میں اہل ہندوستان کو آنے والی تباہی سے خبردار کر کے سنبھلنے کا مشورہ دیا گیا ہے اور ایک بار پھر اس مقصد کے لیے خیالات کی ترسیل فطرت سے ماخوذ معروضی مترادف کے ذریعے کی گئی ہے:
نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑا اس باغ میں گل چیں
تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنا دل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
شاعر مظالم اور جبر و استبداد کے خلاف روح ہندوستان کو فریاد کرنے کی تلقین کرتا ہے اور خاص کر دو نکتے اہل وطن کے سامنے رکھتا ہے۔ اول یہ کہ وہ زمانے کی رفتار کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں، دوسرے یہ کہ فعال بنیں:
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
٭٭٭
یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے
جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے
ہم وطنوں کو اس تنبیہہ و تلقین کے بعد شاعر بحیثیت محب وطن اپنے عزم کا اظہار کرتا ہے اس طرح تیسرے بند کی ٹیپ میں جو لائحہ عمل شاعر نے اہل وطن کے سامنے رکھا تھا اب چوتھے بند میں اس پر خود بھی اپنے مخصوص دائرے میں عمل پیرا ہونے کے محکم ارادے کا ذکر کرتاہے:
جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے
تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا
چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو شکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
شمع و چراغاں غنچہ و چمن اور دانہ و تسبیح کی تصویریں، شاعر کے شیریں جذبات کو حسین لباس فن میں پیش کرتی ہیں۔ بہرحال جس کام کا بیڑا شاعر نے اٹھایا ہے اس کے لیے اپنی خاص استعداد سے وہ آگاہ ہے اور اس آگہی کے اعلان پر بند ختم ہوتا ہے:
جو ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے
زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے
اگلا بند اس مقام آگہی سے ایک عبرت خیز اعلان پر شروع ہوتا ہے:
کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے
گزاری عمر پستی میں مثال نقش پا تو نے
اب جو تخاطب تمام ہندوستانیوں سے تھا اس کا رخ اس تخاطب کے تسلسل میں ایک حصہ قوم کے طور پر مسلمانوں کی طرف ہوتا ہے اور ان کو اہل ملک کے ساتھ اتحاد و رواداری کی تلقین کی جاتی ہے تاکہ وہ آگے بڑھ کر وطن کی آزادی و اصلاح اور انقلاب حال کی تحریک میں ایک آزاد ذہن اور صاف قلب کے ساتھ شریک ہوں اور اس طرح اپنے کلمہ توحید کا تقاضا پورا کریں:
تعصب چھوڑنا داں! دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے
٭٭٭
زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل
بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے
اس کے بعد مسلسل تین بندوں میں ملک کی بہتری کے لئے محبت کا نسخہ کیمیا متنوع نکات و استعارات کے ساتھ تجویز کیا گیا ہے، یہ نسخہ تمام ہندوستانیوں کے لیے ہے اور اگر مسلمان اس کو استعمال کریں اورکرائیں تو اسلام کے پیغام اخوت انسانی کے پیش نظر یہ ان کا فرض بھی ہے اور حق بھی، خاص کر شاعر چونکہ وطن دوست ہونے کے ساتھ ساتھ دین پسند بھی ہے لہٰذا اس کا موقف دین و وطن دونوں کی خدمت ہے اور یہ اس کی خاص بصیرت ہے کہ وہ دونوں کے درمیان عصر حاضر کے دوسرے بہتیرے دانشوروں برخلاف کوئی تضاد محسوس نہیں کرتا۔ اسی بصیرت کی دین وہ اعتماد ہے جس کی بناء پر اقبال اپنے وطنی اور دینی دونوں بھائیوں کی کم عقل و بے عملی پر تنقید بھی کرتے ہیں اور انہیں فکر و عمل کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے درد دل کا پر زور اور پر تاثیر اظہار کر کے خود ایک خاموش تصویر درد بنے رہنے کی بجائے پورے ملک کو ایک تصویر درد بنا دیتے ہیں۔ موضوع سخن کے اندر یہ تہ جس لطیف فن کاری سے پیدا ہوئی ہے اس کے نشانات، ایک منظم منصوبہ فکر اور مرتب ارتقائے خیال کے علاوہ، یہ ہیں:
شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
نہ اٹھا جذبہ خورشید سے اک برگ گل تک بھی
یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اڑتی ہے شبنم کو
پھرا کرتے نہیں خبروح الفت فکر درماں میں
یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو
٭٭٭
جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں
غلامی ہے اسیر امتیاز ماو تو رہنا
شراب روح پرور ہے محبت نوع انساں کی
سکھایا اس نے محبت کو مست بے جام و سبو رہنا
محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے سخت خفتہ کو بیدار قوموں نے
٭٭٭
بیابان محبت دشت غربت بھی، وطن بھی ہے
یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے
محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے صحرا بھی
جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے
مرض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرض ایسا
چھپا جس میں علاج گردس چرخ کہن بھی ہے
جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے
وہی اک حسن ہے لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں
یہ شیریں بھی ہے گویا، بیتوں بھی، کوہکن بھی ہے
اجاڑا ہے تمیز ملت و آئین نے قوموں کو
مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے؟
٭٭٭
بلاشبہ اس خطاب میں خطابت ہے، جو پوری نظم میں جگہ جگہ پائی جاتی ہے۔ لیکن اول تو خطابت اگر شاعرانہ ہو تو وہ بھی شاعری ہے، دوسرے بعض موضوعات کے لیے خطابت ہی موزوں وسیلہ اظہار ہے، جیسے حب وطن کا موضوع، غلامی، تفرقے اور اندیشہ تباہی کے پس منظر میں جب موضوع میں ایک سیاسی عنصر پیدا ہو جاتاہے اور نعرہ انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کی شعریت کا اندازہ کرنے کے لیے جوش کی گھن گرج کے ساتھ موازنہ کافی ہو گا۔ اقبال کی شاعری میں جو فن کارانہ نکتہ سنجی اور درد مندی ہے وہ جوش کے کلام میں سیاسی للکار اور جھنکار سے بدل جاتی ہے۔ لہٰذا خطابت Rhetoric کی بھی ایک جگہ شاعری میں ہے۔ اگر اس کا اظہار موقع و محفل کے مناسب اور شعریت کے ساتھ ہو جو اقبال کی خطیبانہ شاعری کی خصوصیت ہے۔
’’ تصویر درد‘‘ کی شاعری میں خطابت کا جوہر بالعموم شاعرانہ حسن کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جیسا کہ آخری بند کے محولہ بالا اشعار کی نفاست بیان سے نمایاں ہے لیکن بعض مواقع پر نفاست میں رخنہ پیدا ہو گیا ہے جس کا اندازہ ’’ ارے‘‘ اور’’ او‘‘ جیسے الفاظ کے استعمال سے ہوتا ہے۔ اسی طرح مختلف بندوں کے درمیان ربط خیال اور ارتقائے خیال کے باوجود بعض بندوں کے اندر تسلسل بیان میں کہیں کہیں شگاف نظر آتا ہے۔ ایک بات اور بعض نکات کی تکرار ہے، گرچہ اس کی توجہ معانی کے تنوع اور بیان کے تسلسل دونوں سے کی جا سکتی ہے۔ بہرحال نظم کی یہ جزوی خامیاں ایک مجموعی طور پر کامیاب تجربے کے چند معمولی نقائص ہیں اور ابتدائے کار کی فطری صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں، جبکہ مجموعی کامیابی اور عمومی شعریت تنظیم ہیئت اور اسلوب کلام کے مستقبل میں رونما ہونے والے بہتر و برتر تجربات و کمالات کی طرف واضح اور قطعی اشارہ کرتی ہے۔ اقبال کے نقوش کلام Figures of Speechکا شوخ رنگ اور مترتم آہنگ Musical Rhythm ’’ تصویر درد‘‘ میں عام طور سے نمایاں ہو کر ایک عظیم فن کے امکانات روشن کرتا ہے جبکہ بندوں کی تنظیم کا منصوبہ و سلیقہ اس فن کی استواری و ہمواری کی توقعات کا مظہر ہے۔
’’ تصویر درد‘‘ کی بازگشت، وطن پرستی پر مشتمل مندرجہ ذیل نظموں میں سنائی دیتی ہے:
’’ ترانہ ہندی، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، نیا شوالہ، سوامی رام تیرتھ، رام، نانک، اسیری، خضر راہ کا ایک باب، سلطنت‘‘
اقبال کی وطن دوستی کے متعلق طرح طرح کی باتیں فکر اور فن دونوں کے سلسلے میں کی گئی ہیں اور بالعموم اس کو نظام اقبال کے اندر ایک تضاد کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ فکر و فن دونوں کا بہت ہی سطحی اور ناقص مطالعہ ہے، فن کے اعتبار سے وطن دوستی کی شاعری میں گاہے گاہے خطابت کے باوجود فن کارانہ حسن عمومی طور پر موجود ہے ’’ ترانہ ہندی‘‘ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اور ’’ نیا شوالہ‘‘ اور ان سے قبل’’ صدائے درد‘‘ کو غیر شاعرانہ کہنے کی جسارت کوئی بے ذوق ہی کر سکتا ہے، فکر کے سلسلے میں سب سے مشہور شعر ہی کا مسئلہ لیجئے:
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
لوگ عام طور پر صرف دوسرا مصرعہ پڑھ کر سمجھ لیتے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اقبال کبھی وطن پرست تھے، یہاں تک کہ ان کی نگاہ میں ’’ خاک وطن کا ہر ذرہ دیوتا‘‘ تھا، لیکن ذرا دوسرے مصرعے کو پہلے سے ملا کر پورے شعر پر غور کیجئے، پھر یہ بھی دیکھئے کہ یہ ٹیپ کا شعر ہے ’’ نیا شوالہ‘‘ کے پہلے بند کا تو واضح ہو جائے گا کہ شاعر نے نظم کے پہلے ہی شعر میں برہمن سے جو یہ خطاب کیا تھا اسی کے ذیل میں زیر نظر شعر آتا ہے:
سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
معلوم ہوا کہ شعر برہمن کو خطاب کر کے اس کے اس تخیل کو باطل کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ ’’ پتھر کی مورتوں میں خدا ہے‘‘ اس لیے کہ جہاں تک خدائی کے مظاہر کا تعلق ہے زمین یا خاک وطن کے ذرے ذرے سے جلوۂ آگہی آشکار ہے۔ پورے بند کا مقصود بداہتہً فرقہ آرائی اور تعصب کی وہ مذمت ہے جو ہم ’’ تصویر درد‘‘ میں دیکھ چکے ہیں ۔ چنانچہ ’’ نیا شوالہ‘‘ کا دوسرا بند پورا کا پورا اس ’’ محبت‘‘ کے نشے میں ڈوبا ہوا ہے، جسے اقبال نے ’’ تصویر درد‘‘ میں ملک کے امراض کے لیے نغمہ شفاء کے طور پر تجویز کیا ہے۔ اس لحاظ سے زیر بحث شعر فی الواقع ’’ نیا شوالہ‘‘ کے پہلے بند کا خلاصہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے بند کی تمہید ہے۔ اس معاملے میں اگر اس بین حقیقت کو ذہن نشین کر لیا جائے کہ اقبال وطن پرور اور وطن دوست تھے، وطن پرست نہیں تھے تو ساری الجھن دور ہو جائے گی اور تب انہوں نے رام نانک اور سوامی رام تیرتھ جیسے غیر مذاہب کے بزرگوں کی جو تعریف کی ہے وہ بھی بآسانی سمجھ میں آ جائے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا ذہن ہر دور میں فرقہ وارانہ تعصب سے بالکل خالی رہا اور فرقہ پرستی کو وہ خدا پرستی کے منافی اسی طرح سمجھتے رہے جس طرح وطن پرستی کو، اس لیے کہ ان کے عقیدۂ توحید کی آفاقیت کی راہ میں فرقہ پرستی اور وطن پرستی دونوں کی تنگ نظری حائل اور مزاحم ہے۔ اقبال کے فن کی ہمیہ گیر اپیل صرف اور خالص و کامل خدا پرستی پر مبنی ہے، یہ خدا پرستی ہی وہ بسیط انسان دوستی پیدا کرتی ہے جس کے اجزائے ترکیبی بیک وقت وطن دوستی اور ملت دوستی دونوں ہیں۔ وطن دوستی اس ترکیب میں ملت دوستی کی مددگار ہے اور ملت دوستی میں وطن دوستی بھی شامل ہے۔ نغمہ اقبال ان کے تصور انسانیت کے اسی تار حریر دو رنگ کا سلسلہ فن ہے۔