اب تک جن نظموں کا مطالعہ فن کی کسی نہ کسی جہت سے ہم نے کیا ہے‘ ان میں خاص خاص تخلیقات مسدس کے ترکیب بند میں ہیں اور شاعر نے اسی ہئیت میں اپنے خیالات کا اظہار مربوط و موثر طریقے سے کیا ہے اگرچہ اس کے علاوہ قطعہ غزل کی ہسیت بھی اس نے کامیابی کے ساتھ استعما ل کی ہے جو مسدس کے ترکیب بند میں ظاہر ہوئی ہے۔ دونوں صورتوں میں ترسیل و ابلاغ کے لے بہت ہی حسین وسائل کا اظہار سے کام لیا گیا ہے۔ جن میں مظاہر فطرت کے استعاروں علامتوں اور پیکروں کی کثرت ہے‘ اگرچہ کبھی کبھی مجرد تصورات و تصاویر کی معنی آفریں بلاغت بھی دکھائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ الفاظ و تراکیب کی نغمہ ریز حد تک موزوں اور رواں نشست بندش و ترتیب ہے قدیم ہستیوں کے تصویروں کے رنگ اور ترکیبوں کے آہنگ کے ساتھ تخیلات و تصورات کی تازگی و شادابی سے مجموعی طور پر جدید وحید ہئیتوں کی شکل دے دی گئی ہے۔ چنانچہ ان نظموں پرموضوعات کی عنوان بندی ہئیت کی اندرونی جدت و جودت کے لیے ایک بالکل چست اور ناگریز سرخی ہے۔
فن کی روایات میں اجتہاد ‘ تجربے اور تجدید کی بکثرت مثالیں بانگ درا کی نظموں میں ملتی ہیں۔ ایک ترکیب بند ہی کو شاعر نے اتنے مختلف طریقوں سے استعمال کیا ہے اگر اس ہئیت میں رقم کی ہوئی تمام تخلیقات کے اشعار کی ہئیتی ترتیب و ترکیب کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ایک مستقل مقالے کا موضوع ہو گا‘ بعض وقت کسی ایک نظم میں بھی ترتیب و ترکیب کی مختلف ہئیتیں جمع کر دی گئی ہیں۔ ایک نظم ’’شمع‘‘ کی مثال لیجیے اس کا پہلا بند مسدس ہے اور دوسرا بھی۔مگر تیسر مثمن چوتھا پھر مسد س مگر پانچویں میں بارہ مصرعے ہیں۔ اور چھٹے میں بیس‘ پھر ٹیپ کے اشعار قوافی بالکل الگ الگ ہیں حسن و عشق جیسی نظم مسبع ہے۔ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت مخمس ہے۔ پہلی کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ردیف ترکیب پر مبنی ہیں جبکہ دوسری کی ترجیح پر نظم انسان صرف ایک مصرعے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک بند چھ مصرعوں کا ہے اور دوسرا چودہ مصرعوں کا۔ ان ہئیتوں میں بیانیہ بھی ہے مکالمہ بھی تمثیلیں بھی ‘ اور اظہار خیال کبھی واحد متکلم میں ہے‘ کبھی واحد حاضر کو خطاب کر کے کبھی واحد غائب کا ذکر کر کے اور بعض وقت تینوں صیغوں کا استعمال کر کے۔
ہئیت و اسلوب کے تنوع کے علاوہ نقوش فن خاص کراستعارات و علامات کا استعمال اقبال جس کثرت و شدت کے ساتھ کرتے ہیں اس سے پوری پوری نظم علامتی ہو جاتی ہے اور آہنگ اسے غنائیہ بھی بنا دیتا ہے۔ چنانچہ تخیل کاوفور شعریت سے وفور میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہی چیز فکر کو فن میں تبدیل کر تی ہے۔ اس طرزفن کاری کے لیے حقیقت حسن اور حسن و عشق تو بہت نمایاں نمونے ہیں لیکن دوسری متعدد نظمیں بھی جن کا موضوع بہ ظاہر غیر شاعرانہ ہے اسی فن برتائو کی پر تاثیر مثالیں پیش کرتی ہیں۔
ایک نظم سلیمیٰ کو لیجیے پورے آٹھ مصرعوں میں تو امیس فطرت میں ہیں حسن کے دلکش مظاہر اور حق کے اشارات کے پیکر تراشی کے بعد آخر دو مصرعوں میں مطلق حسن و حق کی دونوں صفات جمال و کمال کا ذکر نہایت لطیف انداز میں کیا گیا ہے:
جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ بیں نے
خورشید میں قمر میں تاروں کی انجمن میں
صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا
شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں
جس کی چمک سے پیدا جس کی مہک ہویدا
شبنم کے موتیوں میں پھولوں کے پیرہن میں
صحرا کو ہے بسایا جس نے سکوت بن کر
ہنگامہ جس کے دم سے کاشانہ چمن میں
ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا
آنکھوں میں ہے سلیمیٰ تیری کمال اس کا
یہی اسلوب سخن کوشش ناتمام کا ہے:
فرقت آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح
چشم شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے لیے
رہتی ہے قیس روز کو لیلیٰ شام کی ہوس
اختر صبح مضطرب تاب دوام کے لیے
کہتا تھا قطب آسماں قافلہ نجوم سے
ہمرہو! میں ترس گیا لطف خرام کے لیے
سوتوں کو ندیوں کا شوق بحر کا ندیوں کو عشق
موجہ بحر کو تپش ماہ تمام کے لیے
حسن ازل کو پردہ لالہ و گل میں ہے نہاں
کہتے ہیں بے قرار ہے جلوہ عام کے لیے
راز حیات پوچھ لے خضر حجتہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے
کیا اس انداز کی نظم نگاری کو اشاریت یا علامت نگاری (Symbolism)کہا جاسکتا ہے؟ بعض لوگ اس سوال کا جواب نفی میں دیں گے۔ اور ان کی یہ دلیل ہو گی کہ دونوں نظموں کے آخری اشعار اشاریت کا طلسم ابہام توڑے دیتے ہیں۔ جس سے علامت نگاری کی ایمائیت مجروح ہوتی ہے۔ اس طرح جب یہ سوال کیا جائے گا کہ دوسری بے شمار نظموں میں جو پیکر تراشیاںالفاظ و تراکیب کے ذریعے کی گئی ہیں اور خیالات کی تجسیم کے لیے طرح طرح کی تصویریں بنائی گئی ہیں کیا انہیں تصویریت یا پیکریت (Imagism) کے نمونے کہا جا سکتا ہے ؟ تو بعض لوگ پھر نفی میں جواب دیتے ہوئے یہ کہیں گے کہ یہ الفاظ و تراکیب کے پیکر واضح بیانات کے درمیان واقع ہوئے ہیں۔ اور صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ تصویریں افکار کی تزئین کے لیے استعمال کی گئی ہیں لہٰذا تصویر و پیکر کی لطافت باقی نہیں رہتی۔ میرے خیال میں یہ جوابات اور ان کے دلائل بہت ہی رسمی اور بالکل ہی روایتی قسم کے ہیں۔ میں سوال یہ کرتا ہوں کہ کیا علامت نگاری اور پیکر تراشی میں تجربے نہیں کیے جا سکتے جبکہ خود علامت نگاری اور پیکر تراشی رومانیت کے اندر تجربے کر کے پیدا کی گئی ہے؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اشاریت اور تصویریت کے اثبات کے لیے اتنا کافی ہے کہ کسی ہیئت سخن میں علامت و پیکر کے عناصر و مظاہر نہ صرف پائے جاتے ہیں۔ بلکہ بہت نمایاں اور بعض اوقات غالب ہیں۔
کلام اقبال کے دور اول میں فن کے یہ سارے حقائق اشارہ کرتے ہیں۔ کہ اقبال کا اسلوب سخن اپنے موضوعات کے اظہار کے لیے بہت لچکدار چست اور کارگزار ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اپنے ذریعہ اظہار پر شاعر کی مکمل قدرت و مہارت معلوم ہوتی ہے بلکہ فن کے اندر اجتہاد و تجدید کے لیے اس کی آمادگی ‘ استعداد اور ضرورت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اسی کے ساتھ واضح ہوتا ہے کہ فن کار اپنے فن کی روایت کا احترام کرتا ہے۔ اس کی اہمیت سے واقف ہے اور اس کے آداب و لوازم ملحوظ رکھنا چاہتا ہے۔ یعنی اپنی فنی ضروریات کے لیے وہ جدت کی تمام کوششیں چند حدود کے اندر کرتا ہے۔ اس کے اختراعات میں اعتدال و اجتہادات میں توازن ہے۔ اقبال وقعہ یہ ہے کہ جس طرح فکر کی تنظیم کرتے تھے اسی طرح فن کی بھی‘ اس لیے کہ نظم و ضبط ان کے نزدیک ادب کے ان دونوں عناصر ترکیبی کے وجود و فروغ کے لیے ایک شرط لازم ہے اور چونکہ وہ دونوں کے ادا شناس ہیں لہٰذا وہ بخوشی اور باآسانی اتنے بڑے پیمانے پر اپنے تجربات کو روایات کے ساتھ ہم آہنگ کر پاتے ہیں۔ اقبال نے جدید تصورات کے ابلاغ کے لیے قدیم اصناف و اسالیب کے تمام لسانی و ادبی وسائل جس کمال کے ساتھ پیش کیے ہیں اس سے ان کی وہ زبردست تنقیدی حس آشکار ہوتی ہے۔ جو کسی بھی عظیم فن کاری کی بنیاد بنتی ہے۔ اقبال کا فنی عمل بہت پیچیدہ ہے ۔ مرکب اور مرتب ہے۔ انہوںنے اپنے پر زور افکار کے پرشور طلاطم کے باوجود ہئیت فن کی جمالیاتی نزاکتوں کا پورا پور الحاظ کیا ہے اور بلاغت کو ہمیشہ ایک نفاست بیان کے ساتھ ادا کیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نفاست ہی بلاغت کی حامل ہو گئی ہے۔ چنانچہ فن کی صورت حال یہ ہے کہ ہئیت کے سانچوں کو موڑ کر ان کے اندر مواد کو اس چابکدستی کے ساتھ سمو دیا گیا ہے کہ قاری فن کار کے تجربات کی الجھنوں کا مطلق احساس نہیںکرتا۔ صرف اپنے احساسات کی تازگی اور شادابی میں محو رہتا ہے مخاطب کی یہی شاد کامی کسی بھی متکلم کا انتہائی مطمح نظر ہوتا ہے۔
از نوا برمن قیامت رفت و کس آگاہ نیست
پیش محفل جز بم و زیر و مقام و راہ نیست
…(اقبال)
اقبال کا فنی رویہ ایک فلسفی کا ہے اور وہی اس حیرت و بصیرت کا باعث ہے جو ان کی شاعری کا نمایاں ترین اور غالب اثر ہے ۔ جب کہ مسرت اسی حیرت و بصیرت کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے ‘ ورنہ اگر فنی رویہ محض فن کارانہ ہوتا تو وہ لازماً کاری گری کے ابتذال تک پہنچ جاتا ہے اور دفع الوقعی کے سوا کوئی اثر پیدا نہ کرتا۔ یہی فلسفیانہ رویہ ایک طرف مناظر قدرت اور مظاہر فطرت کا مکمل مصرف لیتا ہے۔ اور دوسری طرف مناظر و مظاہر سے نتائج اخذ کر کے ان کے مضمرات کو حقائق کائنات کا وسیع کر دیتا ہے۔ پرھ مظاہر و حقائق کی اصلیت کی طرف اشارہ کرتا ہے کلام اقبال کی یہی آفاقی اپیل ہے جو ان کے تمام اشعار سے ہویدا ہے اور متنوع موضوعات پر مشتمل معمولی سے معمولی نظموں میں پائی جاتی ہے۔ خواہ وہ بچوں کا گیت ہو یا وطن و ملت کا ترانہ ہو‘ اعزا ز و احباب کا نوحہ ہو اشخاص کا خاکہ ہو تاریخی واقعات کا مرقع ہو سیاسی امور کا نقشہ ہو یا مذہبی جذبات کا عکس ہو‘ ذاتی واردات کا نقش ہو‘ کسی خیال کی تمثیل ہو‘ یا کسی فلسفے کی پیش کش‘ ہر موضوع میں شاعر فلسفی یا فلسفی شاعر کے لیے فکر کا ایک سبق اور فن کا ایک نکتہ ہے اور وہ بیک وقت دونوں کا منبع و محور اور ایک دل آویز شکل میں ان کا معمار بھی ہے۔
المیہ شاعری
بانگ درا میں اقبال کے موضوعات فن کی جو فہرست اوپر دی گئی ہے اس میں سے صرف ذاتی واردات کو لے کر میں دکھانا چاہتا ہوں کہ ایک فلسفی کی نظر میں کس طرح بالکل شخصی و جذباتی امور سے بھی غیر شخصی اور جمالیاتی معروضیت فن پیدا کرتی ہے۔ سب سے پہلے تو غم مرگ کے نہایت رقت آمیز اور جاں گداز موضوع کو لیجیے۔ اس سلسلے میں حسب ذیل نظمیں قابل ذکر ہیں:
خفتگان خاک سے استفسار‘ گورستان شاہی ‘ فلسفہ غم۔
والدہ مرحومہ کی یاد میں۔
ان میں ایک شاعر کا ذاتی المیہ ہے ۔ دوسرا اس کے ایک عزیز دوست کا۔ تیسرا ملت کا چوتھا انسانیت کا۔ یہ سب نوحے ہیں۔ مگر ان میں کوئی بھی مرثیہ ہیں آہ و بکا ماتم و سینہ کوبی سے یہ سب خالی ہیں۔ جذبات کی گرمی سبھی میں ہے مگر احساسات کی لطافت کی حد میں اس لیے کہ ان میں ایک ادراک ہے ۔ ایک دانشمندی ہے اقبا ل اپنی نوائے غم کی تشریح خود اسی عنوان کی ایک نظم میں اس طرح کرتے ہیں:
زندگانی ہے مری مثل رباب خاموش
جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش
بربط کون و مکاں جس کی خاموشی پہ نثار
جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار
محشرستان نوا کا ہے امیں جس کا سکوت
اور منت کش ہنگامہ نہیں جس کا سکوت
آہ امید محبت کی برائی نہ کبھی
چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی
مگر آتی ہے نسیم چمن طور کبھی
سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھی
چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مراتار حیات
جس سے ہوتی ہے رہا روح گرفتار حیات
نغمہ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے
اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتی ہے
جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے
میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے
یہ محرومی و مہجوری کے درد کی نوا ہے اور ہر نوحے کی کیفیت یہی ہوتی ہے کہ کسی متاع عزیز کی رحلت یا اس کا عدم حصول ایک احساس فراق و نامرادی پیدا کرتا ہے جس سے سوز و گداز ابھرتا ہے لیکن ا ب اگر وہ رقیق ہو گیا تو اس سے صرف جذباتیت کا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اور اگر وہ دقیق ہو گیا تو بصیرت کا باعث ہوتا ہے ۔ پہلی صورت سطحی ہے ۔ اور دوسری گہری بڑا فن گہرائی سے نکلتا ہے سطرح پر نہیں کھیلتا نوائے غم سے ’’فطرت کی بلندی‘‘ کا حصول بڑی آگہی کی بات ہے اور اس آگہی کے لیے ’’رفعت شبنم‘‘ کے ’’مذاق رم‘‘ کی جو پیکر تراشی کی گئی ہے وہ حسن فن کی دلیل ہے۔
یہی دلیل محولہ بالا چاروں نوحوں Elegies میں نمایاں ہے گورستان شاہی اور والدہ مرحومہ کی یاد میں۔ کی معنی آفرینی اور حسن کارانہ فطرت نگاری ہم دیکھ چکے ہیں باقی نظموں میں بھی فطرت کی علامت گری کاکمال دیکھیے:
مہر روشن چھپ گیا اٹھی نقاب روئے شام
شانہ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام
یہ سیہ پوشی کی تیاری کسی کے غم میں ہے
محفل قدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے
کر رہا ہے آسماں جادو لب گفتار پر
ساحر شب کی نظر ہے دیدہ بیدار پر
غوطہ زن دریائے خاموشی میں ہے موج ہوا
ہاں مگر اک دور سے آتی ہے آواز درا
دل کی بیتابی الفت میں دنیا سے نفور
کھینچ لایا ہے مجھے ہنگامہ عالم سے دور
منظر حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں
ہم نشین خفتگان کنج تنہائی ہوں میں
(بند اول ’’خفتگان خاک سے استفسار‘‘)
٭٭٭
آتی ہے ندی جبین کوہ سے گاتی ہوئی
آسماں کے طائروں کونغمہ سکھلاتی ہوئی
آئینہ روشن ہے اس کا صورت رخسار حور
گر کے وادی کی چٹانوں پر یہ ہوجاتاہے چور
نہر جو تھی اس کے گوہر پیارے پیارے بن گئے
یعنی اس افتاد سے پانی کے تارے بن گئے
جوئے سیماب رواں پھٹ کر پریشاں ہو گئی
مضطرب بوندوں کی اک دنیا نمایاں ہو گئی
ہجر ان قطروں کو لیکن وصل کی تعلیم ہے
دو قدم پر پھر وہی جو مثل تار سیم ہے
ایک اصلیت میں ہے نہر روان زندگی
گر کے رفعت سے ہجوم نوع انسان بن گئی
پستی عالم میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم
عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم
(بند ماقبال آخر ’’فلسفہ غم‘‘)
نہ تو یہ محض منظر نگاری ہے۔ نہ نظم کے ارتقائے خیال سے الگ کوئی ٹکڑا ہے۔ گرچہ دونوںنظموں میں فطرت نگاری کا محل وقوع مختلف ہے‘ یہ تمہید ہے اور دوسری میںگویا خاتمہ۔ یہی ترتیب گورستان شاہی میں ہے جہاں تمہید ہے اور والدہ مرحومہ کی یا د میں میں جہاں تقریباً خاتمہ ان سب نظموں کے خاتمے پر اپنے اپنے موضوع کے مطابق اور ارتقائے خیال کا منطقی نقطہ عروج ہیں۔ خفتگان خاک سے استفسار کا آخری شعر یہ ہے:
تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے
یاد کر لینا چاہیے کہ عنوان نظم میں استفسار شامل ہے۔ چنانچہ منظر فطرت کی تمہید کے بعد دو بندوں میں مسلسل سوال ہی سوال ہے جس کا سلسلہ مذکور بالا شعر پر ختم ہوتا ہے۔ گورستان شاہی میں تمہید کے بعد بھی بار بار فطرت کی تصویریں فلسفیانہ خیالات کی ترسیل و تزئین کے لیے پیش کی جاتی ہیں ساتویں بند کا پہلا شعر ہے:
سلسلہ ہستی کا ہے اک بحر نا پیدا کنار
اور اس دریائے بے پایاں کو موجیں ہیں ہزار
اس کے بعد اس بحر ناپیدا کنار میں چاند کی صورت گری کے بعد ٹیپ کے شعر میں یہ تصویر ملتی ہے:
اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے جو مہتاب تھا
آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا
ساتویں بند کا یہ خاتمہ ہی آٹھویں کے آغا ز کی تمہید بن جاتا ہے:
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار
رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار
نویں بند میں پھر فطرت کی ولولہ خیز حسن کاری شروع اس طرح ہوتی ہے:
ہے مرگ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی
کوئی سورج کی کرن شبنم میں ہے الجھی ہوئی
اور ختم اس طرح:
پتیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
دست طفل خفتہ سے رنگین کھلونے جس طرح
اس کے بعد ٹیپ کا یہ شعر سبق دیتا ہے:
اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے
ایک غم یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے
دسواں اور آخری بند پوری نظم کے تمام اجزا کو سمیٹ کر موضوع پر لے آتا ہے ۔ اور اس کی نشاندہی کی ابتدا اس طرح کرتا ہے:
دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
اور انتہا اس شعر پر:
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
اور یہ بھی دیکھیے کہ آخری بند کی ابتدا و انتہا کے درمیان جو اشعار ہیں وہ کس طرح ایک بار پھر فطرت کی تصویروں سے ارتقائے خیال کو عروج پر پہنچاتے ہیں:
اشک باری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در
گریہ پیہم سے بینا ہے ہماری چشم تر
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدہ گویاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفان کے ہم
ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ خاموش میں
وادی گل خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے امید دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ
’’ فلسفہ غم‘‘ کا عنوان ہی اس کے موضوع کی تعین کرتا ہے اور پوری نظم میں نہایت منطقی دلیلوں اور بڑی جاندار تصویروں کے ذریعے موضوع کے مضمرات واضح کئے گئے ہیں چنانچہ آخری بند گویا ’’ فلسفہ غم‘‘ کا نچوڑ اور عطر ہے:
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
عقل جس دم دہر کی آفات میں محصور ہو
یا جوانی کی اندھیری رات میں مستور ہو
دامن دل بن گیا ہو رزم گاہ خیر و شر
راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر
خضر ہمت ہو گیا ہو آرزو سے گوشہ گیر
فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمیر
وادی ہستی میں کوئی ہمسفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جنگو کا شرر تک بھی نہ ہو
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
یہ گویا موت سے زندگی اور ظلمت سے نور یعنی یاس سے بھی امید پیدا کرنے کا نکتہ بھی ہے اور نغمہ بھی ۔ آخری شعر کی تصویروں اور الفاظ کے پیکروں پر غور کرنے سے اس بصیرت و مسرت کا تجزیہ ہو سکتا ہے جو دونوں مصرعوں سے ٹپک کر ’’ فلسفہ غم‘‘ کو ایک پیغام نشاط بنا دیتی ہے۔ دنیا کے ’’ ظلمات‘‘ میں مرنے والوں کی ’’ جبیں روشن‘‘ ہونا اور اس کا ’’ اندھیری رات‘‘ میں تارے چمکنے سے مشابہ ہونا ایک نہایت خیال انگیز صورت گری اور فن کاری ہے۔ فن کا یہی جادو ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے آخری بند میں نکھرتا ہے جبکہ اس کے قبل کے بند میں خاتمہ نظم اور اثبات موضوع کے طور پر ایک معنی خیز فطرت نگاری کی گئی ہے جس میں ’’ صبح‘‘ کا پیکر بار بار علامتی طریقے پر استعمال کیا گیا ہے:
دام سیمیں تخیل ہے مرا آفاق گیر
کر لیا ہے جس سے تری یاد کو میں نے اسیر
یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حیات
جلوہ گاہیں اس کی ہیں لاکھوں جہان بے ثبات
مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے
آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے
ہے وہاں بے حاصلی کشت اجل کے واسطے
سازگار آب و ہوا تخم عمل کے واسطے
نور فطرت ظلمات پیکر کا زندانی نہیں
تنگ ایسا حلقہ افکار انسانی نہیں
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سم مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آفاق گیر’’ دام سیمین تخیل‘‘ کی یہ کرشمہ سازی ملاحظہ کی جانی چاہئے۔ اس بند میں بالکل بیانیہ اور فکریہ انداز ہے۔ اس کے باوجود ایک ایک شعر، ایک ایک مصرع، ایک ایک لفظ میں کوٹ کوٹ کر شعریت کی بجلیاں بھری ہوئی ہیں اور نکتہ بہ نکتہ، پیکر بہ پیکر خیالات و احساسات کا ابلاغ اس طرح ہوا ہے کہ پورا موضوع نظم اپنے تمام مضمرات کے ساتھ متشکل ہو گیا ہے، ’’ دل درد آشنا‘‘ مرحومہ ماں کی یاد سے اس طرح ’’ معمور‘‘ ہے جیسے کعبے میں ’’ دعاؤں سے فضا‘‘ حیات’’ فرائض کا تسلسل‘‘ ہے جس کی ’’ جلوہ گاہیں لاکھوں جہان بے ثبات‘‘ ہیں اور ان میں ہر ’’ منزل ہستی‘‘ کی رسم و راہ مختلف ہے۔ چنانچہ ’’ آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ‘‘ ہے۔ جہاں کشت اجل کے واسطے بے حاصلی ہے اور ’’ تخم عمل کے واسطے سازگار آب و ہوا‘‘ ہے۔ لہٰذا سمجھنا چاہیے کہ نور فطرت ظلمت پیکر کا ززندانی نہیں، اس لیے کہ حلقہ افکار انسانی ایسا تنگ نہیں کہ جسم اور مادی دنیا تک ہی محدود ہو، والدہ مرحومہ کی زندگانی ’’ مہتاب سے تابندہ تر‘‘ تھی اور اس زندگانی کے عالم خاک و باد سے ان کا سفر ’’ خوبتر تھا صبح کے تارے سے بھی‘‘ فرزند شاعر کی کی دعا ہے کہ مرحومہ کا مرقد’’ مثل ایوان سحر‘‘ فروزاں ہو اور ان کا ’’ خاکی شبستان‘‘ نور سے معمور رہے۔ آسمان ان کی لحد پر ’’ شبنم افشانی‘‘ کرے اور ’’ سبزہ نورستہ‘‘ ان کے اس گھر کی نگہبانی کرے معلوم ہوتا ہے کہ مصرعے سے مصرع، شعر سے شعر اور پیکر سے پیکر نکل رہا ہے اس سلاست اور سلسلے کے ساتھ کہ اس کی ترتیب کو توڑ کر شعر کو نثر کرنا بھی مشکل ہے۔ یہ تازگی تخیل، گرمی جذبہ ربط فکر، لطافت احساس، باریکی تصور قدرت بیان اور تنظیم فن کا فیض ہے۔
انگریزی میں دو نوحے بہت مشہور ہیں، ایک گرنے کی الیجی دوسرے مینی سن کا ان میموریم پہلے میں ایک دہقانی گور غریباں کا نقشہ ہے۔ دوسرے میں ایک عزیز دوست کا مرثیہ۔ گور غریباں کے نقشے میں چند ٹھوس اور خیال انگیز تصویریں ہیں، جبکہ عزیز دوست کے مرثیے میں کچھ المیہ جذبات اور کچھ فلسفیانہ افکار ہیں۔ پہلی نظم مختصر سی ہے اور اس میں مربوط ارتقائے خیال ہے۔ لیکن دوسری نظم میں صرف خیالات کا ایک سلسلہ دراز ہے جس کے مختلف حصوں میں کوئی ربط و تنظیم نہیں ہے، یہ دونوں نظمیں اپنے اپنے شاعروں کے شاہکار تصور کی جاتی ہیں، جبکہ اقبال کے نوحے ان کی بالکل معمولی اور ابتدائی نظمیں ہیں۔ اگر شعریت اور سلیقہ نظم کے لحاظ سے موقع و حجم کے اختلافات کو سامنے رکھتے ہوئے مثال کے طور پر ’’ گورستان شاہی‘‘ کا موازنہ گور غریباں اور ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا موازنہ ان میموریم سے کیا جائے تو اقبال کی نظموں کی فنی قوتوں اور فلسفیانہ خوبیوں نیز شاعرانہ محاسن کا احساس شدید تر ہو جائے گا اور کم از کم یہ معلوم ہو گا کہ اپنے مخصوص فکر و فن کے قالب میں ڈھال کر اقبال نے نوحے کو بھی فطرت کی طرح ایک ایسا رنگ و آہنگ دیدیا ہے جس کی شعریت غم و الم کے خام ذاتی جذبات کو ایک پختہ فنی شکل عطا کرتی ہے۔