اقبال نے اردو شاعری کی تقریباً ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے او رسبھی میں اپنی انفرادیت کے امتیازی نشانات قائم کیے ہیں۔ قدیم صنفوں میں غزل کے علاوہ رباعیات و قطعات بہت زیادہ متبداول ہیں اس کے باوجود کہ قطعے کا ایک تعلق غزل سے رہا ہے‘ یہ رباعی کی طرح نظم کی ایک شکل ہے۔ اس لیے کہ غزل کی بحراور ہئیت میں ہونے کے باوجود اس کا باقاعدہ تسلسل خیال اسے ایک نظم کی خصوصیت عطا کرتا ہے۔ رباعی تو بداہتہً چار مصرعوں کی ایک نظم اور اختصار کے باوجود نظم کی بہت ہی موثر اور حسین ہئیت ہے جب کہ قطعہ مختصر و طویل دونوں قسموں کا ہوتا ہے اقبال کے قطعات مختصر ہوتے ہیں شاید اس لیے کہ جو باتیں انہیں زیادہ طوالت کے ساتھ کہنی ہوتی ہیں ان کے اظہار کے لیے وہ لمبی اور چھوٹی دونوں طرح کی جدید نظموں بالعموم مسمط کی مختلف قسموں مثلث‘ مسدس‘ مخمس‘ اور ترکیب بندیا پھر مثنوی اور غزل کی ہستیوں میں رقم کرتے ہیں۔ بہرحال اقبال کے قطعات اتنے ہی بھرپور ہوتے ہیں جتنی ان کی رباعیات۔
قطعات کی تعداد قطعات کے عنوان سے برائے نام ہیں ایک قطعہ بانگ درا میں ہے اور چار قطعات با ل جبریل میں ہیں۔ جبکہ ضرب کلیم میں اور ارمغان حجاز بہ عنوان قطعات سے خالی ہیں۔ لیکن ضرب کلیم کے آخر میں محراب گل افغان کے افکار اورارمغان حجاز میں ملازادہ اور ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘ کے اشعار تقریباً سب ہی گویا قطعات ہیں۔ ضرب کلیم کی چھوٹی چھوٹی بہت ساری نظمیں بھی درحقیقت قطعات ہی ہیں جن پر عنوان موضوع لگا کر انہیں نظم کی شکل دے دی گئی ہے ۔ ایسی چند نظمیں بال جبریل میں بھی ہیں۔ بہرحال خواہ بانگ درا کا ایک قطعہ ہو یا بال جبریل کے چار قطعات یا محراب گل افغان اور ملازادہ ضیغم لولابی کی قطعہ نما منظومات سب کی سب تخلیقات اقبال کی رعنائی خیال اور شوخی بیان سے اسی طرح پر ہیں جس طرح ان کی غزلیات و رباعیات اور جدید نظمیں ہیں ایک ہی طرز فکر اور ایک ہی اسلوب فن ہر ہئیت سخن میں اس کے مخصوص پیمانے پر اپنی بہار دکھا رہا ہے۔
بانگ درا کے واحد قطعے کا انداز یہ ہے:
کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبیؐ پر رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستان کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں
یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ مرشد ان خود بیں خدا تیری قوم کو بچائے
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
سنے گا اقبال کون ان کو یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں
٭٭٭
بال جبریل کے ایک قطعے کا انداز یہ ہے :
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات
٭٭٭
دوسرا قطعہ یوں ہے:
اقبال نے کل اہل خیاباں کو سنایا
یہ شعر نشاط آور و پرسوز و طربناک
میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج
کرتاہے مرا جوش جنوں مری قبا چاک
٭٭٭
دوسرے مجموعے کے قطعات میں بیان کی صفائی اور زور پہلے مجموعے کے قطعے سے کچھ زیادہ ہے‘ اگرچہ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلا قطعہ طویل بحر میں ہے۔ جبکہ دوسرے اور تیسرے قطعات متوسط بحروں میں۔ بہرحال آخر الذکر دونوں قطعوں میں زیادہ جوش اور روانی خیال اور اس کے اظہار دونوں میں ہے۔ اس کو ہم فکر کی تیزی اور فن کی پختگی میں اضافہ و ارتقاء کہہ سکتے ہیں۔
’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ بیس چھوٹے چھوٹے ٹکڑوںمیں منقسم ہیں جن میں ایک گویا مستزاد کی شکل میں ایک گیت ہے باقی انیس کو قطعات کہنا چاہیے جن کا انداز فکر و فن یہ ہے :
وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بیداغ ضرب ہے کاری
اگر ہو جنگ تو شیران غائب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری
عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز
کہ نیستاں کے لیے بس ہے ایک چنگاری
خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری
نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہے سرمایہ کلاہ داری
٭٭٭
اس میں ضرب کلیم کی مخصوص دقت نظر اور دقیقہ سنجی کے ساتھ ساتھ ایک ولولہ اور زمزمہ بھی ہے اس کے خیالات و الفاظ دوونوں میں صلابت و شوکت ہے ۔ اس لیے کہ اس کا موضوع ہے شجاعت و غیرت۔
ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض میں انیس ٹکڑے ہیں جن میں پہلا مستزاد کی ہئیت میں ایک گیت ہے اور دو فرد ہیں ۔ باقی سولہ قطعات میںجن احساسات کا اظہار جس اسلوب سے کیا گیا ہے ان کے نمونے کے طور پر دو قطعات درج ذیل ہیں:
تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ
یہ راز ہم سے چھپایا ہے میر واعظ نے
کہ خود حرم ہے چراغ حرم کا پروانہ
طلسم بے خبری کا فری و دیں داری
حدیث شیخ و برہمن فسوں و افسانہ
نصیب خط ہو یا رب وہ بندہ درویش
کہ جس کے فقر میں انداز ہو کلیمانہ
چھپے رہیں گے زمانے کی آنکھ سے کب تک
گہر میں آب و لرکے تمام یک دانہ
٭٭٭
ضمیر مغرب ہے تاجرانہ‘ ضمیر مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ‘ یہاں بدلتا نہیں زمانہ
کنار دریا خضر نے مجھ سے کہا بہ انداز محرمانہ
سکندری ہو قلندری ہو یہ سب طریقے ہیں شاطرانہ
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایان خانقاہی
انہیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ آہنگ آستانہ
غلام قوموں کے علم و عرفاں کی یہی ہے رمز آشکارا
زمین اگر تنگ ہے تو کیا ہے ‘ فضائے کردوں ہے بے کرانہ
خبر نہیںکیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
مری اسیری پہ شاخ گل نے کہہ کے صیاد کو رلایا
کہ ایسے پر سوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پر آشیانہ
٭٭٭
ان قطعات پر باآسانی عنوان لگاکر انہیں ضرب کلیم کی چند پر معنی و پر اثر نظموں میں شامل کر لیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ واقعہوئے ہیں ارمغان حجاز میں جو شاعر کے آخری کلام ور باقیات فن کا مجموعہ ہے۔ فکر کی شوخی اور بیان کی رعنائی دونوںمیں نمایاں ہے جچے تلے الفاظ میں ایک سے ایک خیال انگیز نکتہ بڑے حسین آہنگ میں پیش کیا گیا ہے گویا خیالات کی موسیقی تصورات کی ترکیب اور الفاظ کی ترتیب سے پیدا کی گئی ہے ۔ اس میں ردیف و قافیہ کا جادو بھی ہے۔ جو پابند کہلانے والی نظم کے کمال فن پر دلالت کرتا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ قدیم ہیتوں کے نغمہ شعریت کی وسیع و حسین ترین تصویر کشی کلام اقبال نے کی ہے۔
بانگ درا میں کتاب کے خاتمے پر ظریفانہ کے عنوان سے جو باب ہے اس میں انتیس مندرجات ہیں۔ جن میں دو بظاہر غزلیںنظر آتی ہیں۔ لیکن ایک کے پہلے دو مصرعے ہی ہم قافیہ و ہم ردیف نہیں اور ایک میں غزل کی طرح ردیف و قافیہ گرچہ مطلع ہی ہے مگر یہ بات قطععے میں بھی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا کہہ ستے ہیں کہ ظریفانہ کے سبھی مندرجات قطعات ہیں عنوانباب یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ حصہ مزاحیہ کلام کا ہے‘ گرچہ مسجد تو بنا دی شب بھر میں … والا قطعہ محض چند ہندی الفاظ کے خاص استعمال سے ابھرنے والی ظرافت کو چھوڑ کر پورا کا پورا بالکل سنجیدہ کلام ہے ‘ بہرحال زیر نظر باب کے چند مزاحیہ قطعات ملاحظہ کیجیے:
مشرق میں اصول دین بن جاتے ہیں
مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں
رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلے
واں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں
٭٭٭
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاں کی راح
روشن مغربی ہے مدنظر
وضع مشرق کو جانتے ہیںگناہ
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
٭٭٭
شیخ صاحب بھی تو پرونے کے کوئی حامی نہیں
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہو گئے
وعظ میں فرما دیا کل آپ نے صاف صاف
پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے
٭٭٭
یہ کون دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند
غیرت نہ تجھ میں ہو گی نہ زن اوٹ چاہے گی
آتا ہے اب وہ دور کہ اولاد کے عوض
کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی
٭٭٭
تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ؟
دفع مرض کے واسطے پل پیش کیجیے
تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجیے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجیے
٭٭٭
انتہا بھی اس کی ہے آخر خریدیں کب تلک
چھتریاں‘ رومال مفلر‘ پیرہن جاپان سے
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسال کا بل سے کفن جاپان سے
٭٭٭
جان جائے ہاتھ سے نہ ست
ہے یہی اک بات ہر مذہب کا تت
چٹے بٹے ایک ہی تھیلے کے ہیں
ساہوکاری‘ بسوہ داری ‘ سلطنت
٭٭٭
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الکشن‘ ممبری‘ کونسل ‘ صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
٭٭٭
سنا ہے میں نے کل یہ گفتگو تھی کارخانے میں
پرانے جھونپڑے میں ہے ٹھکانا دست کاروں کا
مگر سرکار نے کیا خوب کونسل ہال بنوایا
کوئی اس شہر میں تکیہ نہ تھا سرمایہ داروں کا
٭٭٭
شام کی سرحد سے رخصت ہے وہ رند لم یزل
رکھ کے میخانے کے سارے قاعدے بالائے طاق
یہ اگر سچ ہے تو ہے کس درجہ عبرت کا مقام
رنگ اک پل می بدل جاتا ہے یہ نیلی رواق
حضرت کرزن کو اب فکر مداوا ہے ضرور
حکم برداری کے معدے میں ہے درد لایطاق
وفد ہندوستان سے کرتے ہیں سر آغا خاں طلب
کیا یہ چورن ہے پے ہضم فلسطین و عراق
٭٭٭
ان اشعار کے بارے میں اگر پہلے سے نہ بتا دیا جائے تو ہر قاری انہیں اکبر الہ آبادی کا کلام تصور کرے گا ۔ ظرافت کے ساتھ ساتھ لطیف مزاح اور کاری طنز جا بجا ان قطعات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان میںدیدہ ووری بی ہے نکتہ سنجی بھی طنز و مزاح و ظرافت کے سارے ہجویہ وسائل تصورات کی شوخی کے علاوہ انگریزی یا ہندی کے الفاظ کے تیکھے الفاظ اور اردو الفاظ کے ساتھ ان کا قافی ملا کر پیدا کیے گئے ہیں‘ ان میں مغربی تجد د غلامانہ تقلید معاشرتی بے راہ روی‘ سیاسی دیوالیہ پن اور معاشی ناکارگی کو نشانہ تنقید و ملامت بنایا گیا ہے۔ کم عقل تعلیم یافتوں اور بے ایمان لیڈروں کاپول کھول کر ان کے مغربی حڑبوں کے ساتھ استہزاد و تمسخر کیا گیا ہے۔ لیکن اثر و کیفیت نہ تو خندہ بے جا کی ہے نہ قہقہہ بے اختیار کی۔ بلکہ ایک لطیف اور معنی خیز تبسم کی ۔ یقینا یہ اکطر کا فن اور رنگ ہے مگر اس میں اقبال کی نظر اورچابک دستی بھی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اکبر و اقبال کا مقصد ایک ہی ہے۔ گرچہ مطمع نظر میں تھوڑا سا فرق ہے۔ اقبال کا اندازہ زیادہ مثبت اور مستقبلی ہے۔ جب کہ اکبر کا رویہ منفیانہ وار ماضی پسندانہ ہے۔ لیکن تجدد‘ تصنع تقلید نقالی اور غلامی کے خلاف دونوں ہی یکساں طور پر ہیں بہرحال ظرافت میں اکبر کا اختصاص ہے کہ جبکہ اقبال کے یلے یہ تفنن طبع ہے۔ طنز و مزاح میں اکبر کی عظمت اظہر من الشمس ہے۔ وہ یقینا اردو کے سب سے بڑے ہجو نگار ہیں۔ اور عالمی ادب کی سطح پر ان کامقام انگریزی طنز نگار شاعرپوپ سے کسی طرح کم نہیں۔ اقبال کا یہ میدان نہیں گرچہ اس سلسلے میں ان کی فنی مہارت کے چند نمونے ہمارے سامنے ہیں واضح ہو کہ اس بحث میں میں نے ہجو طنز ظرافت‘ اور مزاح کے الفاظ کا استعمال اصطلاحی طور پر نہیں کیا ہے بلکہ اردو محاورے کے الفاظ کیا ہیں اس سلسلے میں فنی گفتگو میں نے اپنے بعض ان مضامی میں کی ہے جو میرے چند ہائے مجموعہ مضامین میں شامل ہیں)۔
٭٭٭
رباعیات کی تعداد باون ہے۔ 39 بال جبریل میں ہیں اور 13ارمغان حجاز میں ہیں بال جبریل کی متعدد رباعیات بہت معروف متداول ہیں اور گھروں سے محفلوں تک کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جاتی ہیں۔ غزلوں اور نظموں میں اقبال کے فکر و فن کے جو کمالات ظاہر ہوئے ہیں وہی رباعیات میں بھی رونما ہوئے ہیں اس فرق کے ساتھ کہ چار مصرعوں کی تجدید اور ان کی خاص ترتیب کے باعث جو ذہن و فن دوسری ہئیتوں میں پھیلا ہوا ہے وہ رباعیوںمیں سمٹا ہوا ہے ۔ اس طرح اختصار و ارتکاز سے ایجاز کا اعجاز ظاہر ہوتا ہے۔ یہ رباعیاں نگینوں کی طرح جڑائو اور موتیوں کی طرح چمک دار ہیں۔ فارسی و اردو میں رباعی کی ایک عظیم الشان روایت ہے اور اقبال کی رباعیات اس روایت میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ان میں اقبال کی شاعری کے بنیادی تصورات کا عطر کشید کر لیا گیا ہے اور یہ عطر ان کے مخصوص فن کے بلوریں شیشے میں محفوظ کیا گیا ہے۔ عطر کی جاں فز ا خوشبو اور شیشے کی آب و تاب ذیل کی ان چند رباعیات میںملاحظہ ہوں جو زیادہ متداول نہیں ہیں:
مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں
جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں
وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست
مجھے اتنا بتا دیں میںکہاں ہوں
٭٭٭
عرب کے سوز میں ساز عجم ہے
حرم کا راز توحید امم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب
کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے
٭٭٭
وہ میرا رونق محفل کہاں ہے
مری بجلی مرا حاصل کہاں ہے
مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں میں
خدا جانے مقام دل کہاں ہے
٭٭٭
ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے
ترا دم گرمی محفل نہیں ہے
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیںہے
٭٭٭
خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
مقام رنگ و بو کا راز پا جا
برنگ بحر ساحل آشنا رہ
کف ساحل سے دامن کھینچتا جا
٭٭٭
خرد ہے راہرو روشن بصرہے
خرد کیا ہے؟ چراغ رہ گزر ہے
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہگذر کو کیا خبر ہے
٭٭٭
کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق
کبھی سوز و سرور انجمن عشق
کبھی سرمایہ محراب و منبر
کبھی مولا علی خیبر شکن عشق
٭٭٭
یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے
کہ جاں مرتی نہیں مرگ بدن سے
چمک سورج میں کیا باقی رہے گی
اگر بیزار ہو اپنی کرن سے
٭٭٭
زمانے کی یہ گردش جاودانہ
حقیقت ایک تو‘ باقی فسانہ
کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا
فقط امروز ہے تیرا زمانہ
٭٭٭
ترا تن روح سے ناآشنا ہے
عجب کیا آہ تری نا رسا ہے
تن بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے
٭٭٭
چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے
سمن ہے ‘ سبزہ ہے باد سحر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
یہاں کا لالہ بے سوز جگر ہے
٭٭٭
ارمغان حجاز کی چند منتخب رباعیات یہ ہیں:
خرد کی تنگ دامانی سے فریاد
تجلی کی فراوانی سے فریاد
گوارا ہے اسے نظارہ غیر
نگہ کی نامسلمانی سے فریاد
٭٭٭
حدیث بندہ مومن دل آویز
جگر پر خوں‘ نفس روشن‘ نگہ تیز
میسر ہو کسے دیدار اس کا
کہ ہے وہ رونق محفل کم آمیز
٭٭٭
نہ کہ ذکر فراق و آشنائی
کہ اصل زندگی ہے خود نمائی
نہ دریا کا زیاں ہے نے گہر کا
دل دریا سے گوہر کی جدائی
٭٭٭
ترے دریا میں طوفان کیوںنہیںہے؟
خودی تیری مسلماں کیوںنہیں ہے؟
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟
٭٭٭
کبھی دریا سے مثل موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش کر
٭٭٭
علم العروض کے اعتبار سے یہ رباعی کی چوبیس بحریں ہیں جو اس ہئیت نظم کے لیے مخصوص ہیں اور یہ صنف سخن بھی انہی بحروں تک محدود بتائی جاتی ہے۔ لیکن بابا طاہر اور ان کے بعد اقبال نے ایک مختلف بحر ہزج مسدس محذوف میں بھی رباعی لکھی ہے۔ جس کا وزن ہے مفای لن فعولن مثلاً دلوں کو مرکز مہر و وفا کر والی مشہور رباعی۔
رباعی کو ترانہ بھی کہتے ہیں۔ اور ان کا قماش نغمہ ہونا بھی معلوم ہے۔ مذکورہ بالا رباعیات میں بڑے باریک خیالات اور بڑے دقیق اشارات نہایت زور و اثر رعنائی اور روانی کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ حسین و خیال انگیز پیکر تراشے گئے ہیں مطالعہ باطن بھی ہے مشاہدہ خارج بھی ہے۔ انفس و آفاق دونوں کی آیات ہیں معرفت کے رموز اسرار فطرت کے ذریعے واضح کیے گئے ہیں۔ تازہ بہ تازہ نو بہ نو نکات کا اظہار کرتے ہیں۔
فطرت کی پر خیال تصویروں کو لیجیے جو چند معانی کا وسیلہ اظہار ہیں صرف ایک مظہر فطرت کا دریا کر لیا جائیے تو آخری رباعی میں موج دریا‘ سینہ دریا اور ساحل دریا تینوں مقامات آب کا استعمال ابھر کر اور گزر کر کے چست وموزوں افعال کے ساتھ کر کے آخری مصرعے میں مقام خودی انہی مراحل کے اندر فاش کرنے کی تلقین کی گی ہے۔ ظاہر ہے کہ دریا کے یہ سارے پیکر آدمی کی نفسی و روحانی حرکات کے استعارے ہیں اور انہیں بڑے حرکی انداز میں ایک ترتیب سے اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ایک منظر ایک سماں نگاہوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ اور اس نظارے کے بعد بلکہ اس کے دوران ہی ذہن غور و فکر کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ پر معنی استعمال سطح آب کا خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا والی رباعی میں ہوا ہے ۔ جس میں شاعر کے مقام رنگ و بو کا راز پا جا کا اشارہ کرنے کے بعد بہ خیال انگیز تصویر جلوہ نما ہو کر ایک جہان معنی اورعالم کیف کا دروازہ کھولتی ہے:
برنگ بحڑ ساحل آشنا رہ
کف ساحل سے دامن کھینچتا جا
مطلب یہ ہے کہ انسان کو روئے زمین پر سمندر کی مانند رہنا چاہیے جو بار بار ساحل سے ٹکرانے کے باوجود کسی ساحل میں بند نہیں ہوتا۔ کسی ساحل پر ٹھہرتا نہیں بلکہ اس کی موجیں اپنے تلاطم اور تصادم سے ساحل پر جھاگ اڑا کر فوراً ہی اپنی سطح کے دھاروں اور ان کی لہروں اور تہوں کی طرف پلٹ جاتی ہیں۔ اس طرح سکون ساحل کو چھوتے ہوئے بھی سمندر کی موجیں ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں۔ یہی ان کی زندگی تابندگی اور پاکیزگی ہے اور وہ اپنے آپ کو کف ساحل سے االودہ نہیں کرتیں وسط دریا کی صاف و شفاف سطح پر رواں دواں رہتی ہیں۔ جس کی تہوں میں موجوں کے تلاطم سے ایک سے ایک گوہر شاہوار کی پرورش اور سیرابی ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا زندگی کے سمندر سے حقیقت و صداقت کا موتی نکالنے اور اس کے اندر حسن و جمال کی آب و تاب پیدا کرنے کے لیے کف کی طرح ساحل پر آسودہ و آلودہ رہنے کی بجائے موج کی طرح دھاروں اور تہوں میں اچھلنا اور اترنا پڑے گا۔
ایک اور رباعی میں اظہار خودی کے لیے تہہ دریا سے گوہر کی جدائی کا استعارہ اس آن بان کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے :
نہ کر ذکر فراق و آشنائی
کہ اصل زندگی ہے خود نمائی
نہ دریا کا زیاں ہے‘ نے گہر کا
دل دریا سے گوہر کی جدائی
دل دریا گویا آغوش ربوبیت ہے جس سے جدا ہوئے بغیر موتی اپنی چمک دمک دنیا کو نہیںدکھا سکتا اور چونکہ اظہار ذات ضروری ہے لہذا یہ جدائی گوارا کرنی ہی ہو گی اس تصویر میں فراق و آشنائی کا تصور بندہ ورب کے باہمی ربط اور رتشتے کی طرف اشار ہ کرتا ہے ‘ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ انسان کے لیے فنائیت مقصود حیات نہیں‘ اثبات ذات ہے اور اسی اثبات سے ہر فرد کی قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔ لہٰذا عبد کا مقام ر ب سے جدا رہ کر اپنی عبدیت کا کمال دکھانا ہے۔ اس مقصد کے لیے ابدی وصال نہیں‘ ازلی فراق مطلوب ہے‘ انسان کی خودی کے اسی اظہار سے خالق کامنشا بھی پورا ہوتا ہے۔ اور مخلوق کا مقصد بھی ۔ منصوبہ تخلیق کی یہ تکمیل سب کے لیے مفید ہے ۔
ایک اور رباعی کا پہلا مصرعہ ہے:
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟
ظاہر ہے کہ اشارہ ہے حرکت و عمل کی طرف۔ اسی اشارے کی بنیاد پر باقی تین مصرعوں میں حرکت کو خودی کے مسلماں ہونے کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ اپنی بے عملی اور جمود کے باوجود تقدیر یزداں کا شکوہ کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اور آخر میں تان اس جھنجھوڑ دینے والے کے سوال پر تو ڑ دی گئی ہے:
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟
یعنی اگر کسی کیدریائے وجودمیں طوفان سعی و عمل ہو تو وہ اپنی تقدیر آپ بنا سکتاہے۔ اس لیے کہ کوششوں پر تقدیر یزداں کا سایہ کرم گستر ہو گا۔
فطرت کی دوسری تصویریںبھی ہیں جیسے یہ پیکر گلستاں:
چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے
سمن ہے‘ سبزہ ہے باد سحر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
یہاں کا لالہ بے سوز جگر ہے
٭٭٭
ان مصرعوں میں تصویر ہی تصویر اور اشارے ہی اشارے ہیں کوئی بیان نہیںکوئی تلقین نہیں‘ بس پھولوں کی ایک تروتازہ اور سرسبز و شاداب انجمن ہے جس میںایک ہی کمی ہے اور وہ ساری تازگی و شادابی کو بے لطف و بے اثر بنا رہی ہے۔ جب تک یہ کمی دور نہیح ہو جاتی چمن میں ہنگامہ رنگ و بو گرم نہں ہو سکتا۔ اورا س کے بغیر باغ کے سارے پھول محض کاغذی ثابت ہوں گے۔ وہ کمی یہ ہے کہ اس ہرے بھرے چمن میں لالہ اگر ہے بھی تو سوز جگر سے خالی ظاہر ہے کہ یہ لالہ رنگ گلستاں کا ضامن اور اس کی خوبی کی علامت ہے اگر لالہ کے جگر میں سرخی کا سوز نہ ہو تو آتش گل فروزاں نہیں ہو سکتی۔ اور رنگ چمن اپنی بہار دکھا نہیں سکتا۔ یہ آتش گل یہ سوز جگر بداہتہً جذبہ دل کی گرمی کا اشاریہ ہے۔ زندگی کے تمام سازوسامان کے باوجود اگر یہ گرمی ن ہہوت و فرد معاشرہ دونوں بے جان ہیں اور عصر حاضر میں یہی کیفیت مشرق و ملت کے خیاباں کی ہے۔ عشق کی آگ بجھ چکی ہے ہر طرف ایک اندھری اور راکھ کا ڈھیر ہے۔ خواہ ظاہری چمک ودمک جتنی بھی ہو۔
مظاہر قدرت کے ساتھ ساتھ صنعت انسانی کی تصویریںبھی حسن کا راز انداز میں استعمال کی گئی ہیں مثلاً چراغ کا استعارہ دور باعیوں کی اس طر حآیا ہے کہ پورا مفہوم ہی استعارے پر مبنی ہے۔ ایک رباعی میں کہا گیاہے کہ عقل بھی گرچہ ایک سرچشمہ نور ہے مگر یہ چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی روشنی میں راستہ تو طے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن منزل تک پہنچنے کے لیے اس سے آگے جانا پڑے گا۔ یعنی عقل ذریعہ ہے مقصد نہیں۔ مرحلہ راہ ہے منزل مقصود نہیں۔ دوسری رباعی میں خرد کو چراغ راہ گزر قرار دے کر بتایا گیا ہے کہ اس کی روشنی صرف باہرکی دنیا کو روشن کر سکتی ہے۔ اندر کی دنیا کو منورنہیں کر سکتی‘ بلکہ راستے پر رکھے ہوئے چراغ کی طرح خرد کو خانہ دل کے اندر کی کیفیات کی خبر تک نہیں ہوتی لہٰذا نور خرد صرف ہماری بصارت کا نور ہے بصیرت کا نہیں خارجی مشاہدے میں مددگار ہے باطنی مطالعے میں نہیں۔
ترسیل خیال کے لیے جان و دل کے مجرد تصورات کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اور اس صورت میں موضوع اور استعارہ دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ الایہ کہ الفاظ کو استعارہ فرض کر کے موضوع کے مضمرات کی تشریح کی جائے اگرچہ یہ اس لیے مشکل ہے کہ جان و دل کی حیثیت کثرت استعمال سے محاورے کی ہو گئی ہے۔
یہ رباعی دیکھیے:
وہ میرا رونق محفل کہاں ہے
مرا بجلی مرا حاصل کہاں ہے
مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں میں
خدا جانے مقام دل کہاں ہے
یہ دل ظاہر ہے کہ انسان کا دل ہے اور گویا انسانیت کی علامت ہے ۔ اس کے باطنی حسن اور اس کی تخلیقی اصلیت کا اشارہ ہے یہ حیات و کائنات کی سب سے قیمتی متاع ہے اور دو سوز آرزو مندی کی متاع بے بہا ہے ۔ یہی و ہ شے انسان کے پورے وجودمیں ہے جو اس کا رشتہ محبوب ازل کے ساتھ استوار کرتی ہے۔ بلکہ اسے محبوب کے ساتھ وابستہ کر دیتی ہے۔ اسی لیے شاعر کہتا ہے ہ محبوب کا مقام تو دل میں ہے لیکن دل کا مقام کہاں ہے استفہام کا واضح اشارہ یہی ہے کہ مقام دل دل محبوب میں ہے۔ اس طرح دل بڑی چیز ہے۔ سب سے بڑی چیز ہے۔ اسکی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ اس کے درد سوز ہ آرزو کو زندہ و پائندہ رکھنا انسان کا اولین فریضہ ہے جس کی ادائیگی ہی کائنات میں اس کی شرافت و کرامت کی ضامن ہو گی۔
اقبال کی رباعیات میں اخلاقیات کے علاوہ فلسفہ بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ولولہ بھی ۔ اردو رباعیات میں زیادہ تر صرف اخلاقیات ہیں ضنہیںفلسفہ کہنا موزوںنہ ہو گا۔ فارسی میںخاص کر عمر خیام کی رباعیات کی طرف ایک فلسفہ منسوب کیا جاتا ہے۔ اور ان میں ایک ولولہ بھی پایا جاتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فلسفہ نشاط ہے۔ ممکن ہے ایسا ہ ہو اور اس خاص فلسفے کے جو متصوفانہ مضمرات بتائے جاتے ہیں وہ شاید عام طور پر صحیح نہ ہوں۔ لیکن نشاط کے ساتھ ساتھ ساز جتنا بھی ہو خیام کی رباعیات میں وہ سوز سے یکسر خالی ہیں اس لیے کہ ان کے اندر عشق کا وہ حقیقی تصور واضح نہیں ہے جو سوز کا سرچشمہ ہے لہٰذا خیام کی رباعیات میں اخلاقیات کی تلاش کار عبث ہے۔ اور ان کا جو کچھ ولولہ ہے وہ ایک جسمانی تلذذ کا سرور ہے ۔ خواہ وہ خمریات کا نتیجہ ہو یا ذہنی عیش کوشی اور ایبقوریت کا ۔ یہ ولولہ بہرحال سطحی ہے۔ اور اس میں کلبیت کا عنصر نمایاں ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کی رباعیات اخلاقیات کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہے اس میں ایک واضح تصور عشق ایک متعین فلسفہ حیات کا زبردست اضافہ کرتی ہیں۔ چنانچہ اس عشق و فلسفہ سے اقبال کی رباعیات میں جو ولولہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ وہ محض نشاط کا نہیں نشاط کار کا ہے۔ اس سے وابسطہ نشاط تصور میں رجائیت ہے۔ اثباتی حرکت ہے عزم و یقین ہے۔ یہ وہ روحانی سرور ہے جو گہرائیوںسے پھوٹتاہے اور تہوں میں سرایت کرتا ہے۔ اقبال کی رباعی ایک نغمہ فکر اور ترانہ عمل ہے خیام کی رباعی کے ساتھ اس کا فنی و تجزیاتی موازنہ فارسی شاعری پر گفتگو کر تے ہوئے اس کتاب کے دوسرے حصے میں کیا جائے گا۔