نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
اس شعر میں مصنف کی غرض یہ تھی کہ نقشِ تصویر فریادی ہے ہستی بے اعتبار و بے توقیر کا ، اور یہی سبب ہے کاغذی پیراہن ہونے کا۔ ہستی بے اعتبار کی گنجایش نہ ہو سکی ، اس سبب سے کہ قافیہ مزاحم تھا اور مقصود تھا مطلع کہنا۔ ہستی کے بدلے شوخیِ تحریر کہہ دیا اور اس سے کوئی قرینہ ہستی کے حذف پر نہیں پیدا ہوا۔ آخر خود ان کے منھ پر لوگوں نے کہہ دیا کہ شعر بے معنی ہے۔
عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آ یا تھا صحرا کا کہ صحرا جل گیا
عرض کو لوگ جوہر کے ضلع کا لفظ سمجھتے ہیں حال آں کہ جوہر کے مناسبات میں سے عرض بتحریک ہے نہ بسکون۔
دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا کار فرما جل گیا
لفظ ’ چراغاں ‘ کو چراغ کی جمع نہ سمجھنا چاہیے۔
زخم نے داد نہ دی تنگیِ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا
تیر کے پر ہوتے ہیں اور اڑتا ہے۔ اس سبب سے پر افشانی جو کہ صفتِ مرغ ہے تیر کے لیے بہت مناسب ہے۔ مصنف مرحوم لکھتے ہیں ؛ یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نئی نکالی ہے جیسا کہ اس شعر میں :
نہیں ذریعۂ را حت جراحتِ پیکاں
وہ زخمِ تیغ ہے جس کو کہ دل کشا کہیے
یعنی زخمِ تیر کی توہین بہ سبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین بہ سبب ایک طاق سا کھل جانے کے۔
شمارِ سبحہ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف بردنِ صد دل پسند آیا
احتمال ہے کہ مصنف نے’بیک کف بردنِ صد دل ‘ میں حساب عقد انامل کی طرف اشارہ کیا ہو اور عقدِ صد کی یہ شکل ہے کہ چھونگلیا کے سر کو انگوٹھے کی جڑ میں لگا کر انگوٹھا سارا اس کی پشت پر جما دیتے ہیں۔ عرب میں اس حساب کا رواج تھا۔ رسولِ خدا ﷺ نے جس حدیث میں فتنۂ چنگیز و ہلاکو و تیمور وغیرہ کی زینب بنتِ جحش سے پیشینگوئی کی ہے اس میں ذکر ہے حضرت ایک دن ڈرے ہوئے ان کے پاس آئے اور فرمایا : لا الٰہ الا اللہ ویل للعرب من شر قد اقترب فتح الیوم من روم یاجوج و ماجوج مثل ھٰذہ یہ کہہ کرآپ نے کلمے کی انگلی کو انگوٹھے سے ملا کر حلقہ بنایا۔ وھیب اور سفیان بن عینیہ نے اس حدیث کو روایت کر کے عقدِ تسعین کی شکل دونوں انگلیوں سے بنائی یعنی کلمے کی انگلی کا سر انگوٹھے کی جڑ میں سے لگا کر انگوٹھے کو اس کی پشت پر جما دیا۔ فتنۂ تتار سے کئی سو برس پیشتر کی کتابوں میں (مثل)بخاری وغیرہ کے یہ حدیث موجود ہے۔ خوارزم شاہ نے جب دیوارِ ترکستان کو کھدوا ڈالا جبھی سے چنگیز و ہلاکو و تیمور کو راہ ملی اور سلطنت عرب کو تباہ کر ڈالا۔ اس زمانے میں شاہِ خوارزم قطب الدین سلجوقی تھے۔
دل گذر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂ سر منزلِ تقوی نہ ہوا
تار اور رشتہ اور خط اور جادہ نفس کے تشبیہات میں سے ہے۔
قافیہ ’تقوےٰ ‘ میں فارسی والوں کا اتباع کیا ہے کہ وہ لوگ عربی کے جس جس کلمے میں ’ی‘ دیکھتے ہیں اس کو کبھی الف اورکبھی ’ی‘ کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔ تمنی و تمنیٰ و تجلی و تجلیٰ و تسلی و تسلیٰ و ہیولی و ہیولیٰ و دنیی و دنیا بکثرت ان کے ٖکلام میں موجود ہے۔
ستایش گر ہے زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گل دستہ ہے ہم بے خودوں کے طاقِ نسیاں کا
یہاں گل دستہ کے لفظ نے یہ حسن پیدا کیا ہے کہ گل دستہ کو زینت کے لیے طاق پررکھا کرتے ہیں ؛ دوسرے یہ کہ باغ کومقامِ تحقیر گل دستہ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ بھی حسن سے خالی نہیں۔ لیکن یہ حسن بیان و بدیع سے تعلق رکھتا ہے ، معنوی خوبی نہیں ہے۔
نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا
دستور ہے کہ کسی کے رعب و سطوت کے اظہار کرنے کے لیے جو مرعوب ہو جاتا ہے وہ اپنے دانتوں میں گھاس پھونس اٹھا کر دبا لیتا ہے تاکہ وہ شخص اسے اپنا مطیع و مغلوب سمجھے اور قصدِ قتل سے باز آئے۔
کیاآئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتو ِخورشیدِ عالم شبنمستاں کا
آئینہ خانے کی تشبیہ شبنمستاں سے تشبیہِ مرکّب ہوئی۔
خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغِ مردہ ہوں میں بے زباں گورِ غریباں کا
خاموش آدمی کو بے زبان کہتے ہیں ، اور چراغ کی لو کو زبان سے تشبیہ دیتے ہیں تو بجھے ہوئۓ چراغ کو بے زبان آدمی کے ساتھ مشابہت ہے اور اسی طرح سے خون گشتہ آرزوؤں کو گورِ غریباں سے مشابہت ہے۔
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتارہے نقشِ قدم میرا
ذوق سے صحرا نوردی مراد ہے اور رفتار کو موج اور نقشِ قدم کو حباب کے ساتھ تشبیہ دینے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح موج کا ذوقِ روانی کبھی کم نہیں ہوتا اسی طرح میرا بھی ذوق کم نہیں ہوگا۔ ’یک بیاباں ماندگی‘ خواہ ’صد بیاباں ماندگی‘ کہو مراد ایک ہی ہے یعنی ماندگیِ مفرط۔ یک بیاباں ماندگی کہہ کر ماندگی کی مقدار بیان کی ہے گویا بیابا ں کو پیمانہ اس کا فرض کیا ہے۔
سراپا رہنِ عشق و نا گزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
عشق کو برق اور ہستی کو خرمن سے تشبیہ دی ہے۔ پہلے مصرع میں فعل ’ ہوں ‘ محذوف ہے۔ حاصل کے معنی خرمن۔ ’ ناگزیرِ الفتِ ہستی‘ ہوں یعنی جان کو عزیز رکھنے پر میں مجبور ہوں۔ جس طرح یہ کہتے ہیں کہ فلاں امر ناگزیر ہے یعنی ضرور ہے اسی طرح فارسی میں یوں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص از فلاں نا گزیر است۔
منھ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منھ پر کھلا
اس شعر میں ’ کھلنا ‘ زیب دینے کے معنی پر ہے۔ دیکھو معنی ردیف میں جدّت کرنے سے شعر میں کیا حسن ہو جاتا ہے۔
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نا یاب تھا
یعنی تارِ نگہ میں اس کثرت سے آنسو پروئے ہوئے تھے کہ وہ خود پوشیدہ و مفقود ہو گیاتھا جس طرح دھاگے کو موتی چھپا لیتے ہیں۔
جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا
’ آب جو ‘ کے بعد ’ کو ‘ کا لفظ حذف کر دینا کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
یعنی وہاں رنگ و عیش کی رنگ رلیاں ہو رہی تھیں اور ہم یہاں جل رہے تھے۔ ’ سوختن کے باب سے‘ ماضی و حال و مستقبل کی تصریف مراد ہے۔ نزاکت یہ ہے کہ اس امتدادِ زمانہ کو جوتصریف میں سوختن کے ہے مصنف نے امتدادِ مکانی پرمنطبق کیا ہے۔ دوسرا پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ یہاں کا زمین و آسمان آگ لگا دینے کے قابل تھا۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنااگر ایک بار ہوتا
خوبی اس شعر کی حد تحسین سے باہر ہے۔
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
’ تو اور پاسخِ مکتوب ‘ یعنی تو اور جواب لکھے ممکن نہیں۔
باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل
ابرِ بہار خم کدہ کس کے دماغ کا
پہلے مصرع میں سے ’ ہے ‘ محذوف ہے۔۔۔ دوسرے مصرع میں سے ’ ہو ا ‘ محذوف یعنی ابرِ بہار بھی تیرے ہی دماغ میں نشہ پیدا کرنے کے لیے ایک خم کدہ ہے۔ یہ تجنیس بساط و نشاط صنایعِ خطیہ میں سے ہے۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
’ ہمارا ‘ کے بعد ’ بھی ‘ کے لانے کا محل تھا مگر ضرورتِ شعر سے اسے آخر میں کر دیا ہے۔
ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یارب، اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا
’ یا رب ‘ اس شعر میں ندا کے لیے نہیں ہے بلکہ اظہارِ استعجاب کے لیے ہے۔
موجِ خوں سر سے گذر ہی کیوں نہ جاے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا
’ کیا ‘ دوسرے مصرع میں تحقیر کے لیے ہے۔
دے بطِ مے کودل و دست شنا موجِ شراب
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موجِ شراب
شراب کا شہپرِ موج سے پرواز کرنا استعارہ ہے جوشِ شراب سے ، اور ’ وقت ‘ سے فصلِ بہار مراد ہے جس کی حرارت سے غلیان و جوش شراب میں پیدا ہوتا ہے۔ اور بطِ مے کو دل و دست شنا دینے سے یہ مراد ہے کہ خود شرابِپر جوش اس کا دل ہوگی۔ اور دستِ ساقی اس کے لیے دست شنا ہوگا یعنی اس کے ہاتھ سے حلقۂ رنداں میں وہ شنا کرے گی۔ خود شیشے کو بھی دل سے تشبیہ دیتے ہیں۔
بسکہ دوڑے ہے رگِ تاک میں خوں ہو ہو کر
شہپرِ رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب
لفظ ’ خون ‘ میں نون کا اعلان فصیح سمجھتے ہیں اور بعض بعض شعرا بغیر اعلان اس لفظ کو استعمال بھی نہیں کرتے۔
کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ
برنگِ خار مر ے آئینے سے جوہر کھینچ
حسرتِ دید ایک آئینہ ہے جس میں جوہروں کے بدلے کانٹے ہیں اور یہ کانٹے تگا پو و جستجوے دیدار میں گڑے ہیں۔ اس شعر کے پہلے مصرع میں چار معنویہ اضافتیں ہیں اور تین اضافتوں سے زیادہ ہونا عیبِکلام ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اضافت ایک سے زیادہ ہوئی اور بندش میں سستی پیداہو گئی، نہ کہ چار اضافتیں ہوں اور وہ بھی معنویہ۔
بہ نیم غمزہ ادا کر حقِ ودیعتِ ناز
نیامِ پردۂ زخمِ جگر سے خنجر کھینچ
نیام میں سے خنجر یعنی الف کے نکال ڈالنے سے نیم تو بنا مگر اس خنجر سے معنی کا بھی خون ہو گیا۔
چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
’چھوڑنے ‘ کا لفظ دونوں مصرعوں میں قابلِ توجّہ ہے کہ اس لفظ کی تکرار نے حسنِ کلام کو بڑھا دیا۔ یہ بھی ایک صنعت ہے صنایعِ لفظیہ میں سے گو اہلِ فن نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
آتا ہے میرے قتل کو، پر جوشِ رشک سے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
دوسرا مصرع اس مضمون کو مانگتا ہے کہ وہ اس ادا سے میرے قتل کو آتا ہے کہ میں مرتا ہوں۔۔۔ الخ مصنفِمرحوم نے معنیِ رشک کے اتنے پہلو نکالے ہیں کہ ان کی تعریف حدِّ امکان سے باہر ہے۔ لیکن یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک ہی مطلب کو بار بار کہوتو اس میں افراط و تفریط ہو جاتی ہے۔ اس غزل کے دو شعر اس سبب سے سست رہے۔ ایک تو یہ شعر کہ معشوق کے ہاتھ میں تلوار کو دیکھ کر تلوار پر رشک آتا ہے ، دوسرے عاشق کے طوطی پالنے سے معشوق کو طوطی پر رشک آنا۔ دونوں امر غیر عادی ہیں اور بے لطف ہیں اور اسی سبب سے یہاں مصرع نے ربط نہیں کھایا۔
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر
یعنی اس شعر میں مصنف نے آبلوں کی طرف اشارہ کر کے مخاطب کو زیادہ متوجہ کر لیا۔ اگر ’ ان ‘ کی جگہ پر ’ کیا ‘ ہوتا تو یہ لطف نہ حاصل ہوتا۔ اشارے نے جس شعر میں زیادہ تر لطف دیا ہے وہ یہ شعر ہے
صحبتِ وعظ تو تا دیر رہے گی قائمؔ
یہ ہے مے خانہ ابھی پی کے چلے آتے ہیں
گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی ، نہ طور پر
دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
بڑے پلّے کا مصرع لگایا ہے اور تجلّی کو شراب سے اور طور کو میخوارِ تنگ ظرف سے تشبیہ دی ہے اور تنگ ظرف ہونا اس سے ظاہر ہے کہ وہ تجلّی کا متحمّل نہ ہو سکا۔
سر پھوڑنا وہ غالب ؔشوریدہ حال کا
یاد آ گیا مجھے تری دیوار دیکھ کر
مصنف نے عاشق کی جگہ غالبؔ کہا اورنکرہ کے بدلے معرفہ کو اختیار کیا اور اس سبب سے شعر زیادہ مانوس ہو گیا اور دوسرا لطف یہ ہے کہ مصرع پورا کرنے کے لیے جو الفاظ بڑھائے ہیں وہ بہت ہی پُر معنی ہیں۔ ایک تو غالبؔ کی صفت شوریدہ حال بڑھا دی جس سے سر پھوڑنے کا سبب ظاہر ہو گیا ، دوسری لفظ ’ وہ ‘ بڑھا دی اور اس نے کثیر المعنی ہونے کے سبب سے شعر کا حسن ایک سے ہزار کر دیا۔
مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلود یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر
’ اب ‘ کا لفظ اس شعر میں کثیر المعنی ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ ’ اب یاد آیا ‘ اس سے ،بالتزام یہ نکلتا ہے کہ پہلے بھولا ہوا تھا اور صدمۂ مفارقت کے اس طرح بھول جانے سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ معشوق کو دیکھ کر انتہا کی محویت و مسرت غالب ہو گئی ہے اور یہ معنی نکلتے ہیں کہ جیسے شکوۂ ہجر کچھ بیان کیا تھا اور کچھ باتیں اب یاد آتی جاتی ہیں۔ غرض کہ ایک لفظ میں اتنے معنی انتہاے بلاغت ہے اور پھر شفق کی ابرِ آتش بار سے تشبیہ نہایت بدیع ہے۔
نہ لڑ ناصح سے غالبؔ کیا ہوا گر اس نے شدّت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
کیا گریبان پھاڑنے سے بھی تسکین نہ ہوگی۔ کیا خوب شعر کہا ہے۔
اسد ؔ بسمل ہے کس انداز کا ، قاتل سے کہتا ہے
تو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر
’ کس ‘ یہاں استفہام کے لیے نہیں ، استعجاب کے لیے ہے۔ اس شعر کی تعریف حدِّ امکان سے باہر ہے۔
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب ، اور تو غریب نواز
اس شعر میں ’ کچھ غضب نہ ہوا ‘ کثیر المعنی ہے۔ اگر اس جملے کے بدلے یوں کہتے کہ : ’ مہربانی کی‘تو لفظ و معنی میں مساوات ہوتی، ایجاز نہ ہوتا ؛اور اگر اس کے بدلے یوں کہتے کہ : ’ مرا خیال کیا ‘ تو مصرع میں اطناب ہوتا لطفِ ایجاز نہ ہوتا۔
یعنی اس مصرع میں : ’ مجھ کو پوچھا مرا خیال کیا ‘ اطناب ہے۔
اور اس مصرع میں : ’ مجھ کو پوچھا تو مہربانی کی‘ مساوات ہے۔
اور اس مصرع میں : ’ مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا ‘ ایجاز ہے۔
اس سبب سے کہ یہ جملہ کہ ’ کچھ غضب نہ ہوا ‘ معنیِ زاید پر دلالت کرتا ہے۔ اس جملے کے تو فقط یہی معنی ہیں کہ ’کوئی بیجا بات نہیں ہوئی ‘ لیکن معنیِ زاید اس سے یہ بھی سمجھ میں آتے ہیں کہ معشوق اس سے بات کرنا امرِ بیجا سمجھے ہوئے تھا یا اپنے خلافِ شان جانتا تھا اور اس کے علاوہ یہ معنی بھی پیدا ہوتے ہیں کہ اس کے دل میں معشوق کی بے اعتنائی و تغافل کے شکوے بھرے ہوئے ہیں مگر اس کے ذرا بات کر لینے سے اس کو اب امّیدِ التفات پیدا ہوگئی ہے اور ان شکووں کو اس خیال سے ظاہر نہیں کرتا کہ کہیں خفا نہ ہو جائے۔اس آخری معنی پر فقط لفظ ’ غضب ‘ نے دلالت کی کہ اس لفظ سے بوئے شکایت آتی ہے اور اس کے دل کے پُر شکوہ ہونے کا حال کھلتا ہے۔ بخلاف اس کے اگر یوں کہتے کہ مجھ کو پوچھا تو مہربانی کی۔۔۔ تو یہ جتنے معنی زاید بیان ہوئے ان میں سے کچھ بھی نہیں ظاہر ہوتے۔ فقط’ مہربانی کی ‘ میں جو معنی ہیں وہ البتہ نئے ہیں جیسے کہ وہ لفظ نئے ہیں۔
اور اگر یوں کہا ہوتا کہ’ مجھ کو پوچھا مرا خیال کیا ‘تو نہ تو کچھ معنی زاید ظاہر تھے نہ کوئی او رنئے معنی بڑھ گئے تھے۔یعنی ’ مرا خیال کیا ‘ کے وہی معنی ہیں جو ’ مجھ کو پوچھا ‘ کے معنی ہیں ، یا دونوں جملے قریب المعنی ہیں۔ غرض کہ ’ مرا خیال کیا ‘ لفظ نئے ہیں اور معنی نئے نہیں۔
اس کے علاوہ دونوں مصرعوں میں شرط و جزا مل کر ایک ہی جملہ ہوتا ہے۔ اور اس مصرع میں دو جملے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اس مصرع میں کثیر اللفظ و قلیل المعنی ہونے کے سبب سے اطناب ہے۔اور مصنف کے مصرع میں قلیل اللفظ اور کثیر المعنی ہونے کے سبب سے ایجاز ہے۔ اور جو مصرع باقی رہا اس میں لفظ و معنی میں مساوات ہے۔
اس جگہ یہ نکتہ بیان کر دینابھی ضرور ہے کہ یہ شعر مصنف کا
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تو غریب نواز
مقامِ فہمایش میں ہے اور یہ دونوں شعر
مجھ کو پوچھا تو مہربانی کی
میں غریب اور تو غریب نواز
مجھ کو پوچھا مرا خیال کیا
میں غریب اور تو غریب نواز
مقامِ شکر میں ہیں۔ یعنی اس شعر میں معشوق کا فہمائش کرنا مقصود ہے اور ان دونوں شعروں میں اس کا اداے شکر مقصود ہے۔ غرضیکہ اس کی غایت ہی اور ہے اوراُن کی غایت ہی اور ہے۔ اور جب مقام میں اختلاف ہوا تو مقتضائے مقام بھی الگ الگ ہو گیا لیکن ان دونوں شعروں میں غایت ایک ہی ہے ۔
دونوں شعر مقامِ شکر میں ہیں اور مقامِ شکر کا مقتضی یہ ہے کہ اداے شکر کرتے وقت احسان کو طول دے کر بیان کرنا حسن رکھتا ہے اور اسی سبب سے جس مصرع میں اطناب ہے وہ مقتضائے مقام سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے بہ نسبت اس مصرع کے جس میں مساوات ہے۔یعنی اس مقام میں اطناب والا مصرع بلیغ ہے اور مساوات والا غیربلیغ۔
ان دونوں شعروں کے مقابلے سے غرض یہ ہے کہ مقامِ اطناب میں مساوات ہونا حسنِ کلام کو گھٹا دیتا ہے۔
رخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع
ہوئی ہے آتشِ گل آبِ زندگانیِ شمع
اسے ادّعاے شاعرانہ کہتے ہیں کہ پہلے یہ ٹھہرا لیا کہ شمع رخِ معشوق کو دیکھ کر جل رہی ہے ، پھر اسی بنا پر یہ مضمون پیدا کیا کہ آتشِ گل جو کہ چہرۂ معشوق میں ہے وہ شمع کے لیے آبِ حیات ہے اور اس سبب سے کہ محاورے میں بجھی ہوئی شمع کو شمعِ کشتہ کہتے ہیں ، جلتی ہوئی شمع کو شعرا زندہ فرض کرتے ہیں۔
غم اس کو حسرتِ پروانہ کا ہے اے شعلہ
ترے لرزنے سے ظاہر ہے نا توانیِ شمع
یعنی پروانے کے غم نے اسے نا تواں کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے شعلے کے تھرتھرانے کی۔ شعلے کی طرف خطاب کرنا یہاں بے لطفی سے خالی نہیں۔
آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
’ داغ ‘ اور ’ گنہ ‘ دونوں یہاں اسمِ جنس ہیں اور اس وجہ سے جمع کے حکم میں ہیں۔
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے بادِ بہار سے
میناے بے شراب و دلِ بے ہواے گل
یہ شعر ایک سوال مقدّر کا جواب ہے۔ یعنی میرا شراب پینا اور باغوں کی سیر کرنا لوگ برا سمجھتے ہیں مگر ایسا نہ کروں تو مجھے بادِ بہار سے شرمندگی ہوتی ہے۔
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائیِخیال کہاں
یہاں ’اک شخص ‘ کا لفظ بہت بلیغ ہے۔ اگر اس کے بدلے ’ اک شوخ ‘ کہا ہوتا تو معشوق کی تعریف نکلتی اور اس سے یہ ظاہر ہوتا کہ ابھی تک ذوق و شوق باقی ہے جو معشوق کو ایسی لفظ سے تعبیر کیا ہے اور یہ مقتضاے مقام کے خلاف ہوتا۔
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا جو خوں کہ دامن میں نہیں
’ گریہ ‘ کی طرف خظاب کرنا نہایت تصنع ہے اور تکلّفِ نا مقبول ہے۔
زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذّت زخمِ سوزن میں نہیں
یعنی زخم میں ٹانکے دلوانا اس لیے نہیں ہے کہ اس کا اچھا ہو جانا منظور ہو بلکہ زخمِ سوزن کی لذّت اٹھانا مقصود ہے۔مضمونِ شعر یہی ہے جو گذرا لیکن اس مضمون کو مصنف نے رقیب کی غلط فہمی پر تشنیع کر کے حسن میں دہ چند کر دیا۔
لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موجِ مے کی آج رگ مینا کی گردن میں نہیں
غرور کو رگِ گردن سے تعبیر کرتے ہیں اور اس تعبیر میں مجازِ مرسل ہے۔
تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلّف ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں
لفظِ ’ بے تکلّف ‘ اس شعر میں تکلّف سے خالی نہیں۔
میں اور صد ہزار نواے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں
اس شعر سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ غالبؔ سا شخص اور اس طرح اردو اور فارسی میں خلط کرے جسے ایک مبتدی سا مبتدی اور گنوار سا گنوار بھی صحیح نہیں سمجھتا۔ مقامِ طنز میں تفنّنِ الفاظ اچھا معلوم ہوتا ہے یہ سمجھ کر مصنف نے یہاں ’ نہ شنیدن ‘ کہا ہے لیکن یہ تاویل مستبعد ہے ، اس میں شک نہیں
گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غمِ محرومیِ جاوید نہیں
اس شعر میں سے ’ مجھ کو ‘ یا ’ تجھ کو ‘ محذوف ہے۔ اگر ’ مجھ کو ‘ محذوف سمجھیں تو مطلب یہ ہے کہ حصولِ طرب کے بعد زوالِ طرب ہونا ایسا جانکاہ ہے کہ اس سے محرومیِ جاوید بہتر ہے۔ اور اگر ’ تجھ کو ‘ محذوف لیں تو مطلب یہ کہ تجھے عیشِ دو روزہ جو دنیا میں حاصل اس کے زوال کا تو ڈر ہے اور آخرت کی محرومیِ جاوید کا کچھ خیال نہیں۔ یہ شعرایک مثال اس کی ہے کہ محتمل دو معنی پر یا زیادہ پر ہونا شعر کے لیے کوئی خوبی کا باعث نہیں ہوتا۔ خوبی کثرتِ معنی سے پیدا ہوتی ہے نہ احتمالاتِ کثیر سے۔ اسے سمجھو ۔
کل کے لیے کر آج نہ خسّت شراب میں
یہ سوئے ظن ہے ساقیِ کوثر کے باب میں
شاعر کی نظر میں کل جو آنے والا ہے وہ فرداے قیامت ہے۔ اور کل جو گذر گیا وہ روزِ الست ہے اور اوپر کا لفظ جو آئے گا تو فلک الافلاک پر خیال پہنچے گا اور نیچے کے لفظ سے تحت الثریٰ کی طرف ذہن منتقل ہوگا۔ جام کے ساتھ جمشید کا تصوّر کرے گا اور خُم کا لفظ آتے ہی فلاطون یاد آ جائے گا۔ عصا اگر تھا تو موسیٰؑ ہی کے پاس تھا ، اور زرہ اگر ہے تو داؤد ہی کے لیے ہے۔ انگوٹھی پر سلیمان ہی کا نام کھدا ہوا ہے اور آئینہ سکندر ہی کے سامنے لگا ہوا ہے۔ دنیا میں اگر کوئی دیوار ہے تو سدِّ سکندر ہے اور طاق ہے تو طاقِ کسریٰ ہے۔ غرض کہ شاعر کا موضوعِ کلام وہی ہونا چاہیے جو بہت مشہور ہے۔
ہے کیا جوکَس کے باندھیے ، میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمھاری کمر کو میں
اس شعر میں ’ میں ‘ کی لفظ کو ذرا لہجے میں ممتاز رکھنا چاہیے اور اس سے معنیِ زاید پیدا ہوں گے کہ:’ کوئی اور بھی نہیں ، میں ‘ اور پھر اسی معنی کو ایک اور معنی کے ساتھ ملازمت ہے کہ اس کی تصریح کو قلم انداز کرنا بہتر ہے۔
کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم
ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں
شمع کا ذکر محض تمثیل ہے ، غرض اپنے حال سے ہے۔
قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
تعجّب سے وہ بولا : یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں ؟
یعنی لیلیٰ کے اس فعل پر اس نے تعجب کیا ، اور تعجب کرنے کو یہ معنی لازم ہیں کہ شرم و حیا کے خلاف سمجھا، اور اس فعل کو شرم و حیا کے خلاف سمجھنے سے یہ معنی لازم آئے کہ لیلیٰ پر اس نے تشنیع کی، اور تشنیع کرنے سے یہ بات لازم آئی کہ عاشق کی خبر لینے میں خود اس کو شرم و حجاب مانع ہے۔ غرض کہ اس شعر میں بلاغت کی وجہ یہی سلسلۂ لزوم ہے۔ حاصل یہ ہوا : قیامت ہے کہ عاشق کی خبر گیری میں بھی وہ حجاب کرتا ہے۔
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
یعنی اس کی ناوک فگنی و قدر اندازی کونظر نہ لگے۔ اور اس شعر کی خوبی بیان سے باہر ہے۔ بڑے بڑے مشاہیر شعرا کے دیوانوں میں اس کا جواب نہیں نکل سکتا۔
کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں
کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں
’ بزم ‘ کا لفظ اس شعر میں مقتضائے مقام سے گرا ہوا ہے۔ اس سبب سے کہ مصرع معشوق کی زبانی ہے اور اس کے محاورے کی نقل ہے ، اور لفظ ’ بزم ‘ اس کے محاورے کا لفظ نہیں ہے۔ لیکن اصل یہ ہے کہ محاورے میں اس قدر احتیاط کوئی نہیں کرتا۔
علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب
گداے کوچۂ مے خانہ نامراد نہیں
پہلا مصرع فقیروں کا لہجہ ہے کہ بھئی وہاں جمعرات کے سوا اور دن بھی کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔
جہاں میں ہو غم و شادی بہم ، ہمیں کیا کام
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں
دنیا میں غم و شادی کا بہم ہونا اس مقام پر ذکر کرتے ہیں جہاں دنیا کی سرور و خوشی سے نفرت ظاہر کرنا۔منظور ہو۔ اس شعر میں مصنف نے تازگی یہ پیدا کی ہے کہ غم و شادی کے بہم ہونے پر حسرت ظاہر کی ہے۔ کہتے ہیں : ’ ہمیں کیا کام ‘ یعنی ہم تو محروم ہیں ، ہم کو تو کبھی ایسی خوشی بھی حاصل نہیں ہوئی جو غم سے متصل ہو۔ اور شادی مخلوط بہ غم کی حسرت کرنے سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ شاعر کو انتہا کی غم زدگی ہے کہ ایسی ہیچ و ناکارہ خوشی کی تمنا ّ رکھتا ہے۔ اور یہی وجہِ بلاغت ہے اس شعر میں۔
سب کہاں ، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں
دوسرا مصرع اصل میں یوں ہے کہ کیا صورتیں ہوں گی کہ خاک میں پنہاں ہو گئیں۔ ضرورتِ شعر کے لیے متعلق اور اس کے فعل میں اجنبی کو فاصل لائے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ لالہ و گل انھیں حسینوں کی خاک ہے جو خاک میں مل گئے۔
(استدراک:۔ اگست ۱۸۵۲ ع میں مرزا نور الدین بہادر متخلص بہ شاہیؔ نے لال قلعے میں مشاعرہ منعقد کیا تھا۔ اس میں مرزا صاحب(غالبؔ)نے (یہ )بے نظیر طرحی غزل پڑھی تھی۔ اور منشی نبی بخش حقیرؔ کو اس کی نقل روانہ کرتے ہوئے لکھا تھا : ’ بھائی، خدا کے واسطے غزل کی داد دینا۔ اگر ریختہ یہ ہے تو میرؔ و مرزاؔ کیا کہتے تھے ؟ اگر وہ ریختہ تھا تو پھر یہ کیا ہے ؟‘۔۔ نسخۂ عرشی ص ۵۱۔۔)
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہوگئیں
اس شعر میں ’ بھی ‘ کا لفظ دیکھنے کا ہے۔ یہ دو حرف کا لفظ اگر اس شعر سے نکال ڈالا جائے تو کس قدر معنیِشعر میں کمی ہوجاتی ہے۔ اور اس ایک لفظ سے کتنے معنیِ زاید کی طرف اشارہ نکلتا ہے۔ وہ معنیِ زاید یہ ہیں کہ : جس طرح تم لوگ رنگا رنگ جلسے کیا کرتے ہو کبھی ہم کو بھی ان صحبتوں کا شوق تھا لیکن اب ہمارا حال دیکھ کر تم کو عبرت کرنا چاہیے کہ شباب کو قیام نہیں ہے۔
تھیں بنات النّعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی جو عریاں ہوگئیں
تاروں کے کھلنے کی کیفیت بیان کرتے ہیں اور اس کو عریاں ہو جانے سے تعبیر کیا ہے۔ بنات النعش اُتّر کے طرف سات ستارے ہیں ، چار ستارے ان میں جنازہ ہیں اور تین جنازہ کے اٹھانے والے ہیں ’ بنات ‘ کی لفظ سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ عرب ان کو لڑکیاں سمجھتے ہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جنازہ اٹھانے والے کو عرب ابن النعش کہتے ہیں اور ابن النعش کی جمع بنات النعش ان کے محاورے میں ہے جس طرح ابن آوےٰ ا ور ابن العرس ، جب جمع کریں گے بنات آوےٰ اور بنات العرس کہیں گے۔ اسی طرح بیر بہٹی کو مثلاُ ابن المطر کہیں گے اور اس کی جمع بنات المطر بنائیں گے اور عربی میں یہ ضابطہ کلیہ ہے۔ ایسی بہت سی لفظیں ہیں اور ان کے جمع کا بھی یہی خاص طریقہ ہے۔ لیکن بدرؔ چاچ نے بھی اس لفظ میں تسامح کیا ہے۔ کہتے ہیں ، شعر
در سیاست گاہِ قہرش بر فضاے کاینات
قطب را دایم جنازہ برسرِ سہ دختر است
نیند اس کی ہے ، دماغ اس کا ہے ، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں
زلفوں کے پریشان ہونے سے کنایہ کیا ہے جوشِ اختلاط و کثرتِ بوس و کنار کی طرف۔ اس میں شک نہیں کہ یہ شعر بیت الغزل ہے اور کار نامہ۔
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہوگئیں
’ گویا ‘ کا لفظ اکثر اشعار میں بھرتی کا ہوا کرتا ہے لیکن اس شعر میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں سے اگر یہ لفظ نکال ڈالا جائے تو مبالغہ حدِ امکان سے تجاوز کر جائے اور مطلب یہ ہو کہ لکیریں سچ مچ رگِ جاں بن گئیں۔ اور قواعدِ بلاغت میں ایسا مبالغہ جو حد امکان سے بڑھ جائے اسے غیر ممدوح سمجھتے ہیں۔ لیکن اکثر شعرا اس زمانے میں بے تکلف ایسے مبالغے اور اغراق کہا کرتے ہیں بلکہ اسے صنعت سمجھتے ہیں۔ مصنف نے یہاں مبالغے کے گھٹانے کے لیے ’ گویا ‘ کا لفظ صَرف کیا ہے جو کہ ظن و تخمین و اشتباہ پر دلالت کرتا ہے۔ نہیں تو مصرع یوں پورا ہو سکتا تھا ، مصرع: سب لکیریں ہاتھ کی اس کے رگِ جاں ہوگئیں۔
ہم موحد ہیں ، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزاے ایماں ہوگئیں
ہم موحد ہیں یعنی وحدتِ مبدٔ کے قایل ہیں اور اس کی ذات کو واحد سمجھتے ہیں۔ یہی سبب سلبیات کہ ان کے اعتقاد سے اور سب ملّتیں باطل ا ور محو ہو جاتی ہیں عین اجزائے توحید ہیں۔
دیر نہیں ، حرم نہیں ، در نہیں ، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگذر پہ ہم ، غیر ہمیں اٹھائے کیوں
اس شعر کی تعریف کے لیے الفاظ نہیں مل سکتے۔
واں وہ غرور و عزٍ و ماز۔ یاں یہ حجابِ پاسِ وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں ، بزم میں وہ بلائے کیوں
لف و نشر مرتّب ہے۔
ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر بننے کا
کیا بیتاب کاں میں جنبشِ جوہر نے آہن کو
لفظ کان ‘ میں اعلانِ نون نہ ہونا یہاں برا معلوم ہوتا ہے۔
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پانو
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پانو
آج کل کے رسمِ خط میں پاؤ ں میں نون واو سے موخر لکھا جاتا ہے اور یہ غزل اس اعتبار سے نون کی ردیف میں ہونا چاہیے تھی۔ لیکن بعض شعراے دہلی کو اس میں اصرار ہے کہ پاؤں میں نون ، واو سے مقدم ہے۔ مگرقائم ؔکے اس شعر میں عجب طرح سے پاؤں کا لفظ موزوں ہو گیا ہے
تو کرتا ہے پاؤں سے سر کی تمیز
ہے اپنی جگہ پاؤں سر سے عزیز
اب پہلے مصرع میں اگر’ پانو ‘لکھیں تو موزوں نہیں رہتا۔
بھاگے تھے ہم بہت ، سو اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پانو
اس شعر کے جو معنی کہ حقیقی ہیں وہ تو شاعر کا کلام نہیں معلوم ہوتے ، ہاں اگر یہ سب باتیں استعارہ سمجھو تو وہ بھی صاف نہیں ہے۔
شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دُکھتے ہیں آج اس بتِ نازک بدن کے پانو
نزاکت کے بیان میں اغراق ہے کہ خواب میں جانے سے پاؤں دُکھتے ہیں۔
ہمیں پھر ان سے امید اور انھیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیونکر ہو
یعنی ہمیں امید کیونکر ہو اور انھیں قدر کیونکر ہو۔ بندش میں تعقید ہے اور ’ وہ ‘ کی ’ ہ ‘ کو قافیے کے لیے وا و بنا لیا ہے اس لیے کہ یہ ’ ہ ‘ تلفظ میں نہیں ہے بلکہ اظہارِ حرکتِ ما قبل کے لیے ہے۔
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ، ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
اس نظم نے وہ بندش پائی ہے کہ نثر میں بھی ایسے بر جستہ فقرے نہیں ہو سکتے۔
وفا کیسی ؟کہاں کا عشق؟ جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
یہ شعر رنگ و سنگ میں گوہرِ شاہوار ہے۔ ایک نکتہ یہ خیال کرنا چاہیے کہ یہاں مخاطب کے لیے دو لفظوں کی گنجایش وزن میں ہے۔ ایک تو ’ بے وفا ‘ دوسرے ’ سنگ دل ‘۔ اور بے وفا کا لفظ بھی مناسبت رکھتا ہے، معنی ً اور لفظاً۔۔ اس سبب سے کہ اولِ شعر میں ’ وفا ‘ کا لفظ بھی گذر چکا ہے اور سنگ دل کا لفظ بھی معنی ً وہی مناسبت رکھتا ہے اور لفظاً بھی ویسی ہی مناسبت ہے۔ اس سبب سے کہ آخرِ شعر میں ’سنگِ آستاں ‘ کا لفظ موجود ہے۔ لیکن مصنف نے لفظ’ بے وفا ‘ کو ترک کیا اور ’ سنگ دل ‘ کو اختیار کیا۔ باعثِ رجحان کیا ہوا؟ باعثِ ترجیح یہاں نزدیکی ہے اور لفظ ’بے وفا‘ کو’ وفا ‘سے بہت دوری تھی۔
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو؟
اس قدر معانی ان دو مصرعوں میں سما گئے ہیں !۔۔۔ علاوہ اس کثرتِ معانی کے اُس مضمون نے جو دوسرے مصرع میں ہے تمام واقعے کو کیسا دردناک کر دیا ہے۔.. غرض کہ یہ شعر ایک مثال ہے دو بڑے جلیل الشّان مسٔلوں کی جو کہ آدابِ کاتب و شاعر میں اہم اصول ہیں۔ ایک مسٔلہ تو یہ کہ خیر الکلام ما قلّ و دل اور دوسرا مسٔلہ یہ کہ الشعر کلام ینقبض بہ النّفس و ینبسط اور یہاں انقباضِ خاطر کا اثر پیدا ہوا ہے۔
یہ کہہ سکتے ہو’ ہم دل میں نہیں ہیں ‘ پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمھیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو؟
’ یہ ‘ پہلے مصرع میں استفہامِ انکاری ہے ، یعنی یہ توتم نہیں کہہ سکتے کہ ہم دل میں نہیں ہیں۔
کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو ، سچ کہتے ہو ، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
فقط خاطر سے ’ کیوں ہو‘ اس مقام پر مصنف نے استعمال کیا ہے ورنہ ایسے مقام پر یوں کہتے ہیں کہ ’ رسوائی کیوں ہونے لگی ‘۔ تاہم بندش اس کی سحر کے مرتبہ تک پہنچ گئی ہے۔
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
’ اب ‘ کا لفظ یہ کہہ رہا ہے کہ جو لوگ ہمدم و ہم سخن اور ہمسایہ و ہم وطن ہیں ان سے رنج پہنچاہے۔
ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ہنوز مِنّتِ طفلاں اٹھائیے
فرمان اور حکم نامہ وغیرہ کو برات کہتے ہیں۔
(’ برات تنخواہ کی چٹھی کو کہتے ہیں ‘ مرآۃ الغالب از سید وحید الدین بیخودؔ دہلوی)
دیوا ر بارِ منّتِ مزدورسے ہے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے
دیوار کا خم ہونا اور پھر بارِ احسان سے ، دونوں باتوں میں صنعتِ ادّعاے شاعرانہ ہے۔
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے
مصوری کنایہ ہے شاعری سے۔
مۓ عشرت کی خواہش ساقیِ گردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جامِ واژگوں وہ بھی
’ اک، دو ، چار ‘۔۔۔ سات آسماں ہوئے۔
ہے دورِ قدح وجہِ پریشانیِ صہبا
یک بارلگادو خمِ مے میرے لبوں سے
کثرتِ مے خواری میں مبالغہ کرنا شعرا کی عادت قدیم سے چلی آتی ہے۔ مصنف نے بھی تقلیداً کہہ دیا ورنہ یہ مضمون کوئی لطف نہیں رکھتا۔
(استدراک:۔ اساتذۂ فن کے مذاقِ شعری کا اختلاف بھی دلچسپ اور سبق آموز ہوتا ہے۔ یہی شعر جس کے لیے علّامہ نظمؔ طباطبائ نے لکھا ہے کہ ’ یہ مضمون کوئی لطف نہیں رکھتا ‘ حضرتِ بیخودؔ دہلوی کے نزدیک لایقِ داد ہے۔ فرماتے ہیں :۔۔۔ ’اپنے مطلب کی بات اس خوبی سے اور دلیل کے ساتھ بیان کرنی لطف سے خالی نہیں ‘۔[مرآۃ الغالب ، ص ۲۰۹ ] ذکا صدّیقی)
تا ،ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں ، گو ذکر ہمارا نہیں کرتے
اس شعر میں مصنف نے معشوق کے مزاج کی اس حالت کو نظم کیا ہے جو انتہائی درجے کے بگاڑ میں ہوتی ہے یعنی خفگی بھی نہیں ظاہرکرتاکہ معذرت کریں ، نفرت بھی نہیں ظاہر کرتا کہ شکایت کریں ، اظہارِ ملال بھی نہیں کہ منا لیں۔ گویا کہ ہمارے اس کے کبھی کی ملاقات ہی نہ تھی۔
اس قسم کی حالتوں کا نظم کرنا اوقع فی النفس ہوا کرتا ہے اور یہ بڑی مرتبے کی شاعری ہے۔ گو کہ بیان اور بدیع کی کوئی خوبی اس میں نہیں ہے۔ شیخ الرۓس نے ’ ’شفا ‘‘ میں شعر کے لذیذ ہونے کا سبب وزن کے علاوہ محاکات یعنی شاعر کے نقشہ کھینچ دینے کو لکھا ہے۔۔۔۔ شاعری وہی اچھی ہے جس میں مصوّری کی شان نکلے۔ بہت بڑھا ہو ا وہی شعر ہے جس میں معشوق کے کسی انداز یا کسی ادا کی تصویر کھینچی ہوئی ہو۔ بلکہ معشوق کی کیا تخصیص ہے۔ دیکھو خور شید ؔمرحوم نے طیور کا نقشہ دکھادیا ہے
چٹکی کلی تو رہ گئے پر تو لتے ہوئے
پتی ہلی تو مل کے اڑے بولتے ہوئے
اس بیت میں طیور کی ادا ہے معشوق کی بھی نہیں مگر محاکات پائی جاتی ہے ، اس سبب سے کس قدر لذیذ ہے۔
غالبؔ، ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں یہ اجارہ نہیں کرتے
شعر تو بہت صاف ہے لیکن اس کے وجوہِ بلاغت بہت دقیق ہیں۔ بیچ والوں کا کہنا ہے ’ سنا دیں گے ہم ان کو ‘ اس فقرے نے عاشق کے اصرارِ بے تابانہ کی تصویر کھینچی ہے۔ ایک تو کلام کا کثیر المعنی ہی ہونا وجوہِ بلاغت میں سے بڑی وجہ ہے ، پھر اس پر یہ ترقّی کہ ادھر معشوق کی تمکنت و ناز ، اِدھر عاشق کی بیتابی و اصرار کی دونوں تصویریں بھی اس شعر میں سے جھلکی دکھلا رہی ہیں۔
حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے
پتھر کی چوٹ سے شیشے کا ٹوٹنا سب باندھتے ہیں ، چوٹ کھا کر سرخ ہو جانا خلافِ واقع ہے۔ اس شعر میں صدرِ کلام میں لفظِ ’ حالانکہ ‘ خبر دیتا ہے کہ مصنف نے پہلے نیچے کا مصرع کہہ لیا ہے اس کے بعد مصرعِ بالا بہم پہنچایا ہے۔
ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا
کس سے کہوں کہ داغ ، جگر کا نشان ہے
۔۔۔ کبھی ہم بھی جگر رکھتے تھے اور اس کی نشانی داغ اب تک موجود ہے تو کسی کومیرے کہنے کا اعتبار نہیں آتا۔ یہ مضمون بہت نیا اور خاص مصنفِ مرحوم کا نتیجۂ فکر ہے۔
پینس میں گذرتے ہیں وہ کوچے سے جو میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
کندھا اور کاندھا دونوں طرح بولتے ہیں۔ بدلنے کے ساتھ کندھا کہتے ہیں اور دینے کے ساتھ کاندھا محاورہ ہے۔
خزاں کیا ، فصلِ گل کہتے ہیں کس کو ، کوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں ، قفس ہے ،اور ماتم بال و پر کا ہے
اس شعر کی بندش میں یہ حسن ہے کہ چھ جملے دو مصرعوں میں آ گئے ہیں۔ اور اداے معانی میں یہ حسن ہے کہ بلبل کی زبانی شکایتِ اسیری ہے۔ اور شکایت میں اطناب لطف دیتا ہے تو معنیِ قلیل کو الفاظِ کثیر میں یہاں مصنف نے ادا کیا ہے۔ اور اطناب کا زیادہ لطف اسی میں ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملے بہت سے ہوں نہ یہ کہ ایک طولانی جملہ ہو۔ گویا اس میں الفاظ زیادہ تر ہوں مگر اطناب کا لطف نہیں پیدا ہوتا۔
مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیِ خیال
تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے
یعنی چاہتا ہوں کہ اپنے خیال میں ایسا غرق ہوں کہ پھر نہ اُبھر سکوں۔
شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے
دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جاۓہے
’ لت ‘ کہتے ہیں بد عادت اور بری علّت کو۔ یہ لفظ فحش سے خالی نہیں ، اور یہ اس کا محلِّ استعمال نہ تھا مگر مصنف نے لفظ حالت کے سجع کو خیال کیا۔
ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا
رنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے
عشق میں رنگ سفید ہونے کو رنگ کے کھلنے سے تعبیر کیا ہے۔
غنچہ تا شگفتن ہا برگِ عافیت معلوم
با وجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں ہے
یعنی کلی جب تک کھلے کھلے ساز و برگِ عافیت کا حاصل ہونا یعنی آفت سے اس کا محفوظ رہنا کہاں سے معلوم ہے۔ جب یہ حال ہوا تو گل کو با وجود دل جمعی پریشانی ہے۔ اور غنچہ کو دل سے تشبیہ ہے اور جمعیتِ دل کی صورت بھی اس سے ظاہر ہے۔ اسی طرح گلِ شگفتہ کی پنکھڑیوں کا بکھرا ہوا ہونا پریشانی کی صورت ظاہر کر رہا ہے ، اور گل کی خاموشی و بر جا ماندگی خواب کا عالم دکھا رہی ہے غرض کہ یہ تینوں حالتیں گل پر طاری رہتی ہیں تو باوجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں رہتا ہے اور سبب پریشانی کا یہ ہے کہ اسے اندیشہ ہے کہ دیکھیے ساز و برگِ عافیت اس دارِ بلا میں ممکن ہے یا نہیں۔
اُگ رہا ہے در و دیوار پہ سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہارآئی ہے
اس شعر میں بیان و بدیع کی کوئی خوبی نہیں ہے ، لیکن صاف صاف لفظوں میں حالتِ دیوانگی کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ جواب نہیں۔
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
یہ وہ شعر ہے کہ میرؔ کو بھی جس پر رشک کرنا چاہیے۔ افسردگیِ خاطر کو کس عنوان سے بیان کر دیا ہے اور کیا خوب شرح کی ہے۔
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
پہلا مرنا مجاز ہے کثرتِ شوق کے معنی پر ، اور دوسرا مرنا معنیِ حقیقی پر ہے۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
استفہام یہاں اس غرض سے نہیں ہے کہسائل حال سے ناواقف ہے ، دریافت کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ استفہام سے یہاں محض زجر و ملامت مقصود ہے۔
کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ وو آئے
انصاف تو یہ ہے کہ بادشاہ کا مطلع اس سے کہیں بڑھا ہو ا ہے
یا آئے اجل ، یا صنمِ عربدہ جو آئے
ایسانہ ہو یا رب کہ نہ یہ آئے نہ و وآئے
( استدراک :۔ مرزا صاحب نے منشی نبی بخش حقیرؔ کو ایک خط میں یہ غزل لکھ کر بھیجی ہے اور لکھا ہے: ’ ’داد دینا کہ اگر ریختہ پایۂ سحر یا اعجاز کو پہنچے ، تو اس کی یہی صورت ہوگی یا اور کچھ شکل؟‘ ‘ بحوالۂ نسخۂ عرشی ، ص ۳۱۶)
رگِ لیلیٰ کو خاکِ دشتِ مجنوں ریشگی بخشے
اگر بووے بجاۓ دانہ دہقاں نوک نشتر کی
اس شعر میں لیلیٰ کی فصد کھلنے کا اور مجنوں کی رگِ دست سے خون جاری ہونے کا جو قصہ مشہور ہے اس کی طرف تلمیح ہے۔ اور احتمالِ غالب یہ ہے کہ مصنف نے خاکِ دستِ مجنوں کہا ہے۔ کاتب نے نقطے دے کر دشت بنا دیا۔ بہر حال حاصل یہ ہے کہ اگر دستِ مجنوں میں دانے کے بدلے نوکِ نشتر کو بوئیں تو وہاں سے رگِ لیلیٰ اُگے۔ اس قدر اتحاد عشق نے عاشق و معشوق میں اور نشتر و رگ میں پیدا کر دیا ہے۔ (استدراک :۔ نسخۂ عرشی میں دوسرے مصرع میں ’ بو دے ‘ ہے بجاے ’ بووے ‘ ص ۲۶۳)
کروں بیدادِ ذوقِ پر فشانی عرض ، کیا قدرت
کہ طاقت اڑگئی اڑنے سے پہلے میرے شہپر کی
یعنی پھڑک نہیں سکتا اس سبب سے کہ شہپر میں طاقت نہیں۔ یہ شعر بر سبیلِ تمثیل ہے۔
لکھتے رہے جُنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
کسی امر کی سزا میں ہاتھ قلم ہونا یہ مضمون دوسرے مصرع کا ہے۔ اور پہلے مصرع میں شاعر کے ذمّے یہ بات ہے کہ اسے بیان کرے جس سبب سے ہاتھ قلم ہوئے۔
( اس شعر کی تشریح کے ذیل میں علّامہ نظم ؔ طباطبائی نے مصرع لگانے کے فن پر نہایت مفید اور دلچسپ گفتگو کی ہے۔ اس کی افادیت کے پیشِ نظر وہ پوری گفتگو ایک مستقل مضمون کی صورت میں اس کتاب کے شروع میں درج کر دی گئی ہے۔ ذکاؔ)
اہلِ ہوس کی فتح ہے ترکِ نبردِعشق
جو پانو اُٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے
پاؤں اٹھنے کو علم اٹھنے سے تعبیر کرنا نہایت تکلف ہے۔ اس مضمون کو یوں کہنا تھا : اٹّھا وفا سے ہاتھ تو اونچے علم ہوئے۔
جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی
شعلہ کی تشبیہ زبان سے مشہور ہے۔۔۔۔ ’ داغ ‘ کو نقد کہا یعنی روپیے اشرفی سے اسے تشبیہ دی۔۔۔ یہ تشبیہیں نہایت لطیف ہیں لیکن حاصل شعر کا دیکھو تو کچھ بھی نہیں۔’ جو نہ نقد داغ ‘ میں دونوں متعاقب عیبِتنافر رکھتے ہیں۔اور دو دالیں بھی جمع ہوگئی ہیں۔ یہ بھی ثقل سے خالی نہیں۔ اس کا معیار ائمّۂ. ادب نے مذاقِ صحیح کو قرار دیا ہے۔ بعض لوگوں کو تنافر نہیں محسوس ہوتا۔ یہاں د و’ نون ‘ جمع ہونا تنافر رکھتا ہے اور دو دالیں متعاقب اس قدر بری نہیں معلوم ہوتیں۔ اگر مصرع یوں ہوتا: ع ۔۔ کرے نقدِ داغِ دل کی جو نہ شعلہ پاسبانی ۔۔۔ تو پھر تنافر نہ تھا۔
یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے
لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ نواے چنگ
یہ جنتِ نگاہ ، وہ فردوسِ گوش ہے
یا صبحدم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور وسوز نہ جوش و خروش ہے
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے ، سو وہ بھی خموش ہے
رات کی وہ چہل پہل اور دل لگی اور چہلیں ، صبح کی یہ اداسی اور سنّاٹا اور ہو کا عالم۔۔۔ دو متضاد کیفیتیں ہیں۔ اُس سے سننے والے کو انبساط اور اِس سے انقباض ہوتا ہے۔ اُس سے واشد اور اسِ سے گرفتگی پیدا ہوتی ہے۔ اس قطعے میں آخر کے دو شعر اسی سبب سے زیادہ بلیغ ہیں کہ ان کا اثر گرفتگیِ خاطر ہے اور وہ گرفتگی جو بعد واشد کے ہو اثرِ قوی رکھتی ہے۔
رفوئے زخم سے مطلب ہے لذّت زخمِ سوزن کی
سمجھیو مت کہ پاسِ درد سے دیوانہ غافل ہے
’ مطلوب ‘ کے مقام پر مصنف نے ’ مطلب ‘ کو استعمال کیا ہے بہ ضرورتِ شعر۔
دے مجھ کو شکایت کی اجازت، کہ ستمگر
کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے
یعنی شکایت اور فریاد میں کروں گا تو تجھے مزہ آوے گا اورلطف اُٹھے گا۔ اس زمین کا حاصل اس شعر میں آ گیا۔
اُس چشمِ فسوں گر کا اگر پائے اشارہ
طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے
لفظ ’ سخن گو ‘ کو ترک کر کے اس کے بدلے فسوں گر اس وجہ سے کہا کہ آئینے کا باتیں کرنا خرقِ عادت و افسوں ہے۔
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے
بہت صاف شعر ہے اور اچھا شعر ہے۔
ہم سخن تیشے نے فرہا د کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچّھا ہے
پہلے مصرع میں گنجلک ہے اور دوسرے میں تنافر۔ اور دونوں مصرعوں میں ربط بھی خوب نہیں ، اور مضمون بھی کچھ نہیں۔
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی ، نہ سہی
امتحان اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
اس شعر پر اگر غالبؔ خداے سخن ہونے کا دعوےٰ کریں تو خدا گواہ ہے کہ زیبا ہے۔ پھر دیکھیے تو نہ فنِّ معانی کی کوئی خوبی ہے نہ فنِّ بیان کا کچھ حسن ہے ، نہ فنِّ بدیع کے تکلفات ہیں۔
نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا
گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلی ، نہ سہی
لیلیٰ کے گھر کو سیہ خانہ نفرت کی راہ سے کہا ہے۔ یعنی جب قیس کو اس میں بار نہ ہو تو وہ گھر کیسا ؟ اس کے علاوہ نام بھی لیلیٰ ہے اور سنتے ہیں کہ سیاہ خیمے میں رہتی بھی تھی۔
نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب
لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے
’ میرا ‘ اس شعر میں بے ضرورت ہے اور بیکار ہے۔ اس لفظ کی جگہ ’ پہلے ‘ کا لفظ ہوتا تو ’ اب ‘ کے ساتھ مقابلہ کا حسن شعر میں زیادہ ہوجاتا اور مصنف کو یہاں مقابلہ ہی مقصود ہے۔
درسِ عنوانِ تماشا بہ تغافل خوشتر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے
’ عنوان ‘ کا لفظ مبالغہ پیدا کرنے کے لیے لاۓہیں یعنی سارا تماشا تو ایک طومار ہے۔ اس کے دیکھنے کاکسے دماغ ہے۔ یہاں عنوانِ تماشا کے بھی دیکھنے سے تغافل ہے۔
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے
معشوق پر طعن کرتے ہیں کہ تونے جو غیر کو نامۂ شوق لکھا ہے وہ اس کے چھپانے میں احتیاط نہیں کرتا ، تجھے رسوا کرے گا۔ یہ مضمون بہت نیا اور سچاہے۔ (لفظِ ’ غیر‘ کی تفصیل ’محاورہ ‘ کے ذیل میں ملاحظہ ہو)
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
ایک تو مضمون نہایت اچّھا ، دوسرے دونوں مصرعوں کی ترکیب کو متشابہ کر کے اور بھی شعر کو برجستہ کر دیا۔
عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
ساری غزل مرصّع کہی ہے اور یہی رنگ غزل خوانی کا ہے۔
میکدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پائے شکست
موئے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے
جو چشم کہ شرابِ ناز سے مست ہو رہی ہے اس کے مقابلے میں اگر میخانے کو شکست ہو جائے تو شیشہ میں جوبال پڑ یں وہ دیدۂ ساغر کے لیے پلکیں بن جا ئیں اور ساغر اس آنکھ سے اس کی چشمِ مست کو دیکھ کر حیران ہو جائے۔۔۔ اس قدر تصنع اور مضمون کچھ نہیں !
وہ آ کے خواب میں تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل مجالِ خواب تو دے!
پہلے مصرع میں ’ تو ‘ امکان کے معنی رکھتا ہے یعنی اس کا خواب میں آنا ممکن ہے۔ اور دوسرے مصرع میں خواب کو مہتم بالشان کرنے کے لیے ’ تو ‘ کا لفظ ہے ، یعنی خواب ہی کا آنا بڑی چیز ہے۔
سمجھ اس فصل میں کوتاہیِ نشوونما غالبؔ
اگر گل سرو کی قامت پہ پیراہن نہ ہو جائے
کیا پوچھنا اس مبالغے کا کہ مبالغے کے ضمن میں ایک دلکش نقشہ دکھا دیا۔ لیکن قامتِ سرو پر گل کے پیراہن ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک گل اتنا بڑا ہو جائے کہ سرو کا پیراہن (ہو جائے ) بلکہ مصنف کی غرض یہ ہے کہ شاخہاے گل کو اس قدر نمو ہو کہ سرو کے گرد لپٹ کر پھولوں کی قبا اسے پنہا دیں۔اور اس مبالغے میں یہی خوبی ہے کہ کوئی محال بات نہیں لازم آتی۔۔۔۔ جہاں مبالغہ کرنے کے بعد کوئی نقشہ کھنچ جاتا ہے وہ مبالغہ زیادہ تر لطیف ہوتا ہے ، خصوصاً جہاں وہ نقشہ بھی معمولی نہ ہو بلکہ نادر و بدیع شکل پیدا ہو۔ اور مصنف کے اس شعر میں دونوں خوبیاں جمع ہیں۔
کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محوِ تغافل ، کیوں نہ ہو
یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
اس بیمار کو یعنی چشمِ بتاں کو۔ ایک بات یہ بھی یہاں غور کرنے کی ہے کہ لفظِ تغافل پر مطلب تمام ہو گیا تھا مگر مصرع تمام ہونے میں کچھ بڑھانے کی ضرورت تھی۔ اور ایسی ضرورت پر جو لفظ بڑھائے جاتے ہیں وہ اکثر بھرتی کے بے مزہ ہوتے ہیں۔ مثلاً کوئی کم مشق ہوتا وہ یہاں پر ’ ہر گھڑی ‘ کا لفظ یا ’ رات دن ‘ کا لفظ ،’ ہم نشیں ‘ وغیرہ کہہ دیتا اور یہ لفظ گودڑ کی طرح بھرے ہوئے بد نما معلوم ہوتے لیکن مصنف نے کس خوبی سے مصرع کو پورا کیا۔ یعنی ’ کیوں نہ ہو ‘ کو مکرر لے آئے اور اس سے اور حسن بڑھ گیا۔
حسد سزاے کمالِ سخن ہے ، کیا کیجے
ستم بہاے متاعِ ہنر ہے ، کیا کہیے
اس شعر میں بھی حسن فقط تشابہِ ترصیع کے سبب سے ہے۔ کیا کیجے اور کیا کہیے عاجز آنے کے مقام پر کہتے ہیں۔
دل لگا کر آپ بھی غالبؔ مجھی سے ہو گئے
عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے
آپ بھی یعنی وہ خود بھی۔ ’ آپ ‘ یہاں محلِ خطاب میں نہیں ہے۔میرزا صاحب طعن سے کہا ہے یہاں مصنف نے صاحب کو مطلب کا قافیہ عام محاورے کی بنا پر کیا ہے کہ محاورے میں ’ ح ‘ کو مفتوح بول جاتے ہیں۔
وہ آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ غافل تھے
شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمایش ہے
مضمون اصل میں مردہ ہے،فقط مصرع لگا کر اس میں جان ڈال دی۔ مصرع کے تین ٹکڑے کرو: وہ آیا بزم میں ، جیسے کہتے ہیں : وہ چاند ہوا۔ دیکھو : یعنی ہشیار ہو جاؤ ، دلوں کو سنبھال لو۔ نہ کہیو پھر کہ غافل تھے۔ یہ جملہ بھی وہی معنی رکھتا ہے جو دیکھو کی لفظ میں ہیں۔ یعنی یہ جملہ اس جملے کی تاکید ہے۔ اور حسن شعرمیں اسی تاکید سے بہت پیدا ہو گیا ہے اور ’ وہ ‘ کے اشارے سے۔
اُدھر وہ بد گمانی ہے، اِدھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے مجھ سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے
اس شعر میں ترکیب کے تشابہ اور الفاظ کے تقابل سے حسن بہت پیدا ہو گیا ہے۔
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیِ اشیا مرے آگے
یعنی عالم کا نام ہی نام ہے۔ صورت اس کی مرئی و مبصر نہیں۔ منظور عربی لفظ ہے لیکن جس معنی پر مصنف مرحوم نے اسے باندھا ہے اس معنی پر عربی میں اس کا استعمال نہیں ہے ایک شعر نون کی ردیف میں گذر چکا ہے
شاہدِ ہستیِ مطلق کی کمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ہے ، پر ہمیں منظور نہیں
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
’ تیرا مرے آگے ‘ کی جگہ اگر ’ میرا ترے آگے ‘ ہوتا تو شعر کا حسن بہت زیادہ ہو جاتا مگر زمین خلاف ہونے سے مصنف نے اُلٹ دیا اور اس میں بھی ایک معنی پیداہوئے کہ تو اپنی بے اعتنائی یا حسن کو میری آنکھ سے دیکھ اور اسی پر قیاس کر لے کہ تیری مفارقت میں میرا کیا حال ہوتا ہوگا۔
خوش ہوتے ہیں ، پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شبِ ہجراں کی تمنا ّ مرے آگے
یہ شعر اس زمین میں بیت الغزل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شبِ ہجراں میں جو میں نے مرنے کی تمنا کی تھی آج وہ بڑا بول میرے آگے آیا کہ وصل کی خوشی میں مر گیا۔ وصل کی خوشی میں مر جانا اور لوگ بھی باندھا کرتے ہیں مگر یہ بات ہی اور ہے اور ساری کرامات محاورے اور زبان کی ہے جس نے مرنے کے مضمون کو زندہ کر دیا۔ فکرِ غالبؔ کے کارناموں میں یہ شعر بھی شمار کرنا چاہیے۔
گو ہاتھ کو جنبش نہیں ، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
یہ شعر بھی مصنف کے جیّد اشعار میں مشہور ہے مگر ’ تمنّا ‘ والے شعر کو نہیں پہنچتا۔
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
’ کرنا ‘ اُس سرے پر ، اور ’ گلہ ‘ اِ س سرے پر ثقل سے خالی نہیں۔
عرضِ نازِ شوخیِ دنداں برائے خندہ ہے
دعویِ جمعیتِ احباب جائے خندہ ہے
دانتوں کو اپنی شوخی و خوبی پر ناز ہے۔ اس کا ظاہر کرنا ہنسی ہی کے لیے ہو اکرتا ہے۔ مطلب یہ کہ ہنسنے ہی کے وقت دانت کھلتے ہیں۔ دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ جمعیت واتفاقِ احباب پر بھروسا کرنا قابل ہنسی ہی کے ہے اور ربط یہ ہے کہ دانتوں کے چوکے کو مجمعِ احباب سے شعرا تشبیہ دیا کرتے ہیں۔ توالیِ اضافات و رکیک تکلفات اس شعر میں بھرے ہوئے ہیں۔ شوخیِ دنداں نہایت مکروہ لفظ ہے۔ مصنف کی شوخیِ طبیعت نے ’ خوبی ‘ کو سامنے کا لفظ سمجھ کر چھوڑ دیا ، ورنہ وہ بہتر تھا۔
ہے عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گل
یک جہاں زانو تأمل در قفائے خندہ ہے
تأمّل و تفکّر سر بزانو ہونے سے تعلق (رکھتا )ہے تو تأمل کے لیے پیمانۂ مقدار مصنف نے زانو کو فرض کیا اور یہ کہا کہ غنچہ ہنسنے کے بعد اس سوچ میں ہے کہ گُل کا انجام کیا ہوگا۔۔۔ اور یہ جو کہا کہ عدم میں غنچہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ غنچہ جب ہنسا یعنی کھلا تو وہ گل ہو گیا اور غنچہ نہ رہا ۔۔۔ اس قسم کے شعر کو محض کلامِ موزوں اور چیستاں یا معمّےٰ وغیرہ کہہ سکتے ہیں اور انصاف یہ ہے کہ جادۂ مستقیم سے خارج ہے۔
رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عقدۂ دل وا کرے کوئی
’ سے ‘ اس شعر میں فارسی کا ترجمہ ہے۔ محاورۂ اردو کے اعتبار سے یہ ’ پر ‘ کا مقام ہے۔
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
کڑی کمان کا تیر بہت تیز پرواز ہوتا ہے۔ معشوق کی بے اعتنائی کی چال کو اس سے تشبیہ دی ہے۔ اور اس شعر کا پہلا مصرع سارے کا سارا محاورہ ہے۔ اوردوسرے مصرع میں استفہام انکاری ہے یعنی ایسے کے دل میں کہیں جگہ ہو سکتی ہے ؟
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں ، اور سنا کرے کوئی
’ کہیں ‘ کے معنی گالیاں دینا۔
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
دونوں شعروں میں تشابہِ ترکیب سے بندش میں حسن پیدا ہوا ہے اور پہلے شعر میں ’ کہنے ‘کی لفظ میں تکرار ہونا بھی لطف سے خالی نہیں۔
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت رو ا کرے کوئی
یعنی اپنا کام نہ نکلے تو کسی کی شکایت کرنابے جا ہے۔ ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہے ، دوسرا پہلو یہ ہے (کہ)سبھی حاجت مند ہیں ، کس کس کی حاجت روائی کیجیے۔ یہ نکتہ یاد رکھنے کا ہے کہ کلام میں کئ پہلو ہونا کوئی خوبی نہیں ہے بلکہ سست و نا روا ہے۔ ہاں ، معانی کا بہت ہونا بڑی خوبی ہے ، اور ان دونوں باتو ں میں بڑا فرق ہے۔
جب توقّع ہی اٹھ گئ غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
اس کی تعریف کیا کرے کوئی۔ نہایت عالی مضمون ہے جس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص سے امید منقطع ہو گئی ہو پھر اس کا گلہ کیوں کریں کہ فائدہ تو کچھ ہوگا نہیں اور نفرت و دشمنی پیدا ہوگی۔
جوہرِ تیغ ، بہ سر چشمۂ دیگر معلوم
ہوں میں وہ سبزہ کہ زہراب اُگاتا ہے مجھے
مصنف مرحوم نے غفلت کی کیوں کہ ایران میں زہراب اہلِ زبان پیشاب کو بھی کہتے ہیں ، اس لفظ سے بچنا چاہیے تھا۔
نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کفِ خاک
آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے
آسمان پر بیضۂ قمری کی پھبتی کہی ہے کہ جس میں کفِ خاک کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس مٹّھی بھر خاک کی قسمت میں بھی عمر بھر کی نالہ کشی لکھی ہوئی ہے۔ اگر یہ کہو کہ بیضۂ قمری کیوں کہا ، بلبل بھی ایک مشتِ خاک ہے کہ نالہ کشی کے لیے پیدا ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فارسی والے قمری کو کفِ خاکستر باندھا کرتے ہیں ، اس لیے کہ اس کا رنگ خاکستری ہوتا ہے۔صائبؔ کہتے ہیں
گر نمی خواہد کہ در پائے تو ریزدرنگِ عشق
سرو از قمری بکف چوں مشتِ خاکستر گرفت
اور خاک اور خاکستر میں کچھ ایسا فرق نہیں ہے۔ ہاں بہ نظرِ دقیق یہ کہہ سکتے ہیں کہ نالہ کا سرمایہ عالم ، اور عالم کا مشتِ خاک ہونا مقام عبرت و حسرت ہے۔ اور ایسے مقام پر پھبتی اور دل لگی بے محل ہے۔
آمدِ سیلاب طوفانِ صدائے آب ہے
نقشِ پا کو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے
سچ پوچھو تو یہ شعر بے معنی ہے اور اس سبب سے شرح سے مستغنیٰ ہے مگر تاویل میں بڑی وسعت ہے۔
پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار ، تمنّا کہیں جسے
استفہام سے سچ مچ پوچھنا نہیں مقصود ہے بلکہ اظہارِ تعجب یا توجع منظور ہے۔
ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں
شوقِ عناں گسیختہ ، دریا کہیں جسے
’ عناں گسیختہ ‘ اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے۔ جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے۔ اور ’ شوقِ عناں گسیختہ ‘ سے جوشِ اشک مجازاً مقصود ہے کیونکہ شوق سبب ، گریہ مسبب کے محل پر سبب کو مجازاً استعمال کیا ہے۔
نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب ، اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
اس شعر کی دادکون دے سکتا ہے۔ میر تقی کو بھی حسرت ہوتی ہوگی کہ یہ مضمون مرزا نوشہ کے لیے بچ رہا!
بیگانگیِ خلق سے بیدل نہ ہو غالبؔ
کوئی نہیں تیرا تو مری جان، خدا ہے
یعنی خدا تیرا ہے۔ اور فقط ’ خدا ہے ‘ بھی محاورہ ہے۔ ’ ہے ‘ کو خواہ تامّہ لو خواہ ناقصہ۔
اک خوں چکاں کفن میں ہزاروں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی
یہ شعر بھی ایسا کہا کہ کروروں میں ایک آدھ ایسا نکلتا ہے۔ آج کل کی جو زبان دلّی میں ہے اس کے بموجب کڑوڑوں پڑھنا چاہیے۔
واعظ ، نہ تم پیو ، نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمھاری شرابِ طہور کی
ایک شخص سے خطاب کر کے فوراً جمع کی طرف ملتفت ہو جا نا نئی صورت التفات کی ہے اور نہایت لطف دیتی ہے۔
غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
یہ رنج ، کہ کم ہے مئے گلفام ، بہت ہے
ایک ہی مصرع میں رنج اور اس کی تفسیر ، پھر کم اور بہت کا تقابل ، جذبِ مضمون کے علاوہ یہ خوبی ہے۔
کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے دُردِ تہِ جام بہت ہے
شراب کی حرص کے بیان میں شعرا نے خم خالی کیے ہیں مگر ہمیشہ یہ مضمون بے کیفیت رہا۔ اس شعر کو دیکھیے کہ اس کا مضمون کیسا ہوش ربا ہے کہ اس سے بڑھ کر حرصِ مے کا بیان نہیں ہو سکتا۔
ہیں اہلِ خرد کس روشِ خاص پہ نازاں
پا بستگیِ رسم و رہِ عام بہت ہے
جس طرز کا یہ شعر ہے اس روشِ خاص پر مصنف کو ناز ہو تو زیبا ہے۔
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی
اُٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
اس شعر نے ایسی بندش پا ئی ہے کہ جواب نہیں۔( یادگارِ غالب ،مطبوعہ مطبع ریاضِ ہند ، علی گڑھ ،ص ۱۴۹ اور نسخۂ عرشی ، ص ۱۱۳ ، میں پہلا مصرع : گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے)
زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرایش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے
ممدوح کا نام تجمّل حسین ہے۔ اسی سبب سے زمانہ اس کے عہد میں صَرفِ تجمل و آرایش ہے۔
قصائد
سامعِ زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں لیکن
نہ سر و برگِ ستایش نہ دماغِ نفریں
زمزمہ کا لفظ طعن سے کہا ہے۔سر و برگِ ستایش ، سرِ ستایش کے محل پر کہہ دیا ہے۔ یہ تکلف سے خالی نہیں۔
نسبتِ نام سے اس کے ہے یہ رتبہ کہ رہے
ا بداً پشتِ فلک خم شدۂ نازِ زمیں
۔۔۔ وہ حضرت ؓ اہلِ زمیں میں سے ہیں اس سبب سے زمین کا احسان فلک پر ہوااور بارِ احسان و نازِ زمین اٹھاتے اٹھاتے پشتِفلک خم ہو گئی۔۔۔۔ حضرت کی کنیت ابو تراب ہے۔ اس سبب سے زمین فلک پر ناز کر رہی ہے کہ تراب زمین پر ہے۔ لیکن جب ابو تراب کا لفظ ذہنِ شاعر ہی میں رہ گیا تو کیونکر اس شعر کو بامعنی کہہ سکتے ہیں
دلِ الفت نسب و سینۂ توحید فضا
نگہِ جلوہ پرست و نفس ِ صدق گزیں
نگاہ کی صفت جلوہ پرست اور نفس کا وصف صدق گزیں خاتم و نگیں کا حسن دے رہا ہے۔
صرفِ اعدا اثرِ شعلہ و دودِ دوزخ
وقفِ احباب گل و سنبلِ فردوسِ بریں
رنگینیِ گل کا شعلے سے اور پیچ و تابِ سنبل کا دھوئیں سے مقابلہ کرنا مقصود ہے۔ صَرف و وقف کا سجع اور اعدا و احباب و دوزخ و فردوس کا تقابل بھی لطف سے خالی نہیں۔
ماہ بن ، ماہتاب بن ، میں کون
مجھ کو کیا بانٹ د ے گا تو انعام
اس سارے قصیدے میں عموماً اور اس شعر میں خصوصاً مصنف نے اردو کی زبان اور حسنِ بیان کی عجب شان دکھائیہے ایک مصرع میں تین جملے جس کے مضمون سے رشک ٹپک رہا ہے اور دوسرا مصرع طنز سے بھرا ہوا ہے۔ چاروں جملوں میں حسنِ انشا ، پھرخوبیِ نظم و بے تکلفیِ ادا!
ہے مجھے آرزوئے بخششِ خاص
گر تجھے ہے امید ِ رحمت ِ عام
لفظ’ آرزو ‘ کسی قدر مقتضائے مقام سے الگ ہے۔ آرزو میں اس کے پورے ہونے کا اعتقاد نہیں ہوتا اور امید وار کو اپنی امید بر آنے کا اعتقاد ہوتا ہے۔
مے ہی پھر کیوں نہ میں پیے جاؤں
غم سے جب ہو گئی ہو زیست حرام
لطیفہ اس میں یہ ہے کہ مے بھی حرام ہے اور غم سے زیست بھی حرام ہے۔ پھر مے کیوں نہ پیوں کہ اس سے غم تو غلط ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر مے کو حرام سمجھ کر اس سے پرہیز کروں تو غم کے ہاتھوں زیست حرام ہوئی جاتی ہے۔ نہایت لطیف مضمون ہے۔
ہے ازل سے روائیِ آغاز
ہو ابد تک رسائیِ انجام
دعائیہ شعر ہے۔ ’ روائی ‘ بہ معنی جواز و امکان ہے۔ یہ لفظ مصنف نے فقط ’ رسائی ‘ کا سجع پیدا کرنے کے لیے بنا لیا۔ شارح کی نظر میں یہ قصیدہ،خصوصاًاس کی تشبیب،ایک کارنامہ ہے مصنف مرحوم کے کمال کا، اور زیور ہے اردو کی شاعری کے لیے۔ اس زبان میں جب سے قصیدہ گوئی شروع ہوئی ہے اس طرح کی تشبیب کم کہی گئی۔
نقشِ پا کی صورتیں وہ دل فریب
تو کہے بت خانۂ آذر کھلا
آذر فارسی قدیم میں آگ کو کہتے ہیں۔ بت خانۂ آذر سے آتش کدۂ مجوس مراد ہے لیکن آتش کدے میں سنا ہے کہ بت نہیں ہوتے ، پھر اسے بت خانہ کہتے نہیں بن پڑتا۔مگر اساتذۂ قدیم نے بھی بت خانۂ آذر باندھا ہے۔ شاید کسی آتش کدے میں زمانہ ٔ قدیم کے بت بھی ہوں گے۔ آذر بت تراش کی طرف نسبت نہیں ہو سکتی اس سبب سے کہ املا بدلا ہوا ہے۔
ہو جہاں گرمِ غزل خوانی نفس
لوگ جانیں طبلۂ عنبر کھلا
قصیدے میں شعرا غزل بھی کہہ جاتے ہیں لیکن تشبیب و تمہید میں۔ یہاں مصنف مرحوم نے مدح کہتے کہتے غزل شروع کر دی۔ غزل کے بعد پھر مدح گوئی شروع کی۔ یہ ایجاد ہے۔
نامے کے ساتھ آگیا پیغامِ مرگ
رہ گیا خط میری چھاتی پر کھلا
شادی مرگ ہو جانے کا مضمون کیا خوب کہا ہے۔ یہ شعر بیت الغزل ہے۔
مدح سے ممدوح کی دیکھی شکوہ
عرض سے یاں رتبۂ جوہر کھلا
’ جوہر ‘ کا لفظ یہاں گوہر کی طرح چمک رہا ہے۔ دو معنوں کی تڑپ اس میں دکھائی دے رہی ہے۔ ایک تو محل عرض ، جو فلسفے کی اصطلاح ہے ، اور دوسرے معنی حسنِ ذاتی و خوبیِ فطری کے جو عرف میں زبان زد ہیں۔
تیرا اقبالِترحم مرے جینے کی نوید
تیرا اندازِ تغافل مرے مرنے کی دلیل
یہاں ’ اقبال ‘ کے معنی رخ کرنے کے اور ملتفت ہونے کے ہیں۔
دُرِ معنی سے مرا صفحہ لقا کی داڑھی
غمِ گیتی سے مرا سینہ امر کی زنبیل
جس طرح لقا کی داڑھی میں موتی پروئے گئے تھے اسی طرح میرے اشعار عقدِ گوہر ہیں لیکن فکرِ دنیا کی سمائی میرے سینے میں اس قدر ہے کہ عمرو بن امیہ ضمری مہاجر کی زنبیل میرا سینہ ہو گیا ہے۔ یہاں عمرو کو مصنف نے الف سے لکھا ہے۔اور میم کو متحرک نظم کیا۔ دونوں باتیں غلط ہیں۔ (استدراک: دیوانِ غالبؔ کے چوتھے ایڈیشن ، مطبوعہ مطبعِ نظامی ،کانپور ، ۱۸۶۲ ع ، میں ’ امر ‘ ہے ، لیکن’ مجموعۂ سخن ‘ میں ’ عمرو ‘ ہی ہے۔بہ حوالۂ نسخۂ عرشی ، مقدمہ :ص ۱۳۵)
اصل امر یہ ہے کہ داستان گویوں نے مغازیِ سرورِ عالم ﷺ سن سن کر خود بھی ویسے ہی قصے بنانا چاہے تو موضوعِ داستان انھوں نے حضرت حمزہ ، عمِ رسالتمآبﷺ ، کو قرار دیا اور عمرو بن امیہ صحابی کو ان کا عیّار مقرر کیا اس سبب سے کہ حضرت حمزہ بڑے شجاع تھے اور عمرو بڑے عیّار تھے۔ ان کو آں حضرت ﷺ نے جاسوسی کے لیے مشرکینِ مکہ میں بھیجا تھا اور مشرکین نے خبیب صحابی کو سولی پر چڑھا دیا تھا۔ عمرو ان سب کی آنکھ بچا کر خبیب کو سولی پر سے چّرا لے گئے۔ اس سبب سے ان بے چارے کے لیے عیاری کا عہدہ داستان گویوں نے تجویز کیا۔ غرض کہ حمزہ اور عمرو یہ دونوں نام مغازی میں سے لیے گئے ہیں۔میں نے خود سنا ہے داستان گویوں کو اس طرح کہتے ہوئے ’ عیّارِ عیّاراں عمرو بن امیہ ضمیری ‘ یعنی عمرو کے باپ کا اور خاندان تک کا نام داستان میں ذکر کرتے ہیں ، مصنف کو یہ دھوکا ہوا کہ جس طرح قصہ فرضی ہے ، نام بھی بے اصل ہوگا ، عمرو نہیں امر سہی۔
مسی آلودہ سر انگشتِ حسیناں لکھیے
داغِ طرفِ جگرِ عاشقِ شیدا کہیے
بیچ کی انگلی کے بعد(چھنگلی کی طرف )جو انگلی ہے اس کا نام عورتوں نے’ مسی کی انگلی ‘ رکھ لیا ہے اور اسی انگلی سے مسی لگانے کا دستور بھی ہے۔ یہاں محلِ مدح میں داغ سے تشبیہ کچھ بے جا نہیں ہے اس لیے کہ اگر سر انگشتِ مسی آلود حسینوں کے لیے باعثِ زینت ہے تو داغِ جگر عشّاق کے واسطے سبب ِتز ئین ہے۔
استادِ شہ سے ہو مجھے پر خاش کا خیال
یہ تاب ، یہ مجال ، یہ طاقت نہیں مجھے
اس قطعے میں جس جس پہلو سے معنیِ استعطاف کو مصنف نے باندھا ہے قابل اس کے ہے کہ اہلِ قلم اس سے استفادہ کریں۔ ایسے پہلو شاعر کے سوا کسی کو نہیں سوجھتے۔ یہ عرش کے خزانے سے نکلتے ہیں اور اس کی کنجی شاعروں کے سوا کسی کے پاس نہیں۔
قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
یہ شعر مصنف کی بلاغت کی سند اور استادی کی دستاویز ہے۔
صادق ہوں اپنے قول میں غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
’ کہ ‘ اس مصرع میں یا بیان کے واسطے ہے۔۔۔یعنی کہتا ہوں سچ یہ بات کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔یا توجیہ و تعلیل کے واسطے ہے۔۔ یعنی جو کچھ میں کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں ، جھوٹ کی مجھے عادت نہیں یعنی سچ بولنے کی وجہ اور علّت یہ ہے کہ جھوٹ کی عادت نہیں۔ اور دونوں معنی میں سے یہی معنی مصنف کو غالباً مطلوب ہیں۔
کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے
ہے ترے حسنِ دل افروز کا زیور سہرا
قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوقؔ مرحوم نے اس شعر کی چوٹ پر کئی شعر کہے ہیں۔ ’ مکھڑے ‘ کو انھوں نے بھی باندھا ہے
وہ کہے صلِّ علےٰ ، یہ کہے سبحان اللہ
دیکھے مکھڑے پہ جو تیرے مہ و اختر سہرا
سہرے کا بھلا لگنا انھوں نے اس طرح کہا ہے
سر پہ طرّہ ہے مزیّن تو گلے میں بدّھی
کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منہ پر سہرا
پھر اس پر بھی ترقی کی
ایک کو ایک پہ تزئیں ہے دمِ آرائش
سر پہ دستار ہے ، دستار کے اوپر سہرا
اس میں شک نہیں کہ غالبؔ نے بے مثل شعر کہا تھا ، مگر ذوقؔ نے جواب دیا اور خوب جواب دیا۔ شعر کا جواب تو ہو گیا لیکن زیور کا قافیہ غالبؔ ہی کے حصے میں آ گیا۔ذوقؔ نے استادی کی کہ اس قافیے پر ہاتھ نہیں ڈالا۔
ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صفر ، چلو
رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مشکبو کی ناند
تشبیب اس قطعے میں فقط مدح کی تمہید ہے ، ورنہ آخری چہارشنبہ کوئی خوشی کا دن نہیں ہے۔(استدراک:۔ ’ اس قطعے میں جس رسم کی طرف اشارہ ہے اس کی اصل یہ ہے کہ ماہِ صفر کے آخری چہار شنبے کو رسولِ پاک ﷺ بیمار ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے اس دن دعا و استغفار اور صدقہ و خیرات کرنا شروع کیا اور باغوں میں جاکر پند و موعظت کے جلسے کرنے لگے۔ امراخیر خیرات کے علاوہ اپنے عزیزوں اور متوسلوں کو سنہری اور روپہلی چھلّے بھی تقسیم کیا کرتے تھے۔ طامس مٹکاف نے اپنی ڈائری(شائع کردہ خواجہ حسن نظامی، ص ۲۹ ، میں جمعہ ، ۲۶ جنوری ۱۸۴۹ء ، کو اس رسم کی تفصیل لکھی ہے)نسخۂ عرشی ، ص ص ۱۴۲۔۱۴۳)
خانہ زاد او ر مرید اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ نگار
لفظ ’ عریضہ ‘ مولدین کی گڑھت ہے۔ عربیِ صحیح میں ان معنی پر نہیں آیا۔
نہ کہوں آپ سے تو کس سے کہوں
مدّعائے ضروری الاظہار
’ضروری الاظہار ‘ بھی عجیب ترکیب ہے۔ ایک تو مقتضاے ترکیب یہ تھا کہ ’ ی ‘ پر تشدید ہو۔ دوسرے لفظ ’ ضروری ‘ ان معنی پر عربی میں ہے ہی نہیں۔ ایسے الفاظ پر ہندی کا حکم ہے۔ اور ترکیب میں لانا منع ہے اور اہلِ ادب احتراز کرتے ہیں۔
کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں ، ہے اگرچہ نزار
لفظ ’ پوشش ‘ اردو کے محاورے میں داخل ہے لیکن شیشہ آلات و ظروف و صندوق و منبر وغیرہ کے غلاف کو پوشش کہتے ہیں ، انسان کے لباس کو پوشش اردو کے محاورے میں نہیں کہتے۔ گو فارسی میں درست ہو یہاں پوشاک کے لفظ سے مصنف مرحوم نے اس لیے اعراض کیا کہ پوشاک میں امتیاز نکلتا تھا جو مقتضاے مقام کے خلاف ہے اور پوشش کا لفظ اختیار کیا جو انسان کے لیے ادنےٰ درجے کا لباس ہے اور یہی مقتضاے مقام و عین بلاغت ہے۔ گویابہ کنایہ اس مطلب کو ادا کیا ہے کہ جسمِ نزار ایک ہڈّیوں کا ڈھانچاہے ، اسے پوشش درکار ہے نہ پوشاک۔
بسکہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض
اور رہتی ہے سود کی تکرار
میری تنخواہ میں تہائی کا
ہو گیا ہے شریک ساہو کار
’ سود کی تکرار ‘ سے سود در سود ہونا مقصود ہے۔ اردو میں لفظِ ’ تکرار ‘ بحث کے معنی پر بھی بولتے ہیں۔ وہ معنی یہاں نہیں مراد ہیں ورنہ تنخواہ کی تہائی سود میں نہیں لگ سکتی۔
بزم کا التزام گر کیجے
ہے قلم میری ابرِ گوہر بار
مصنف مرحوم کی زبان پر ’ قلم ‘ بتانیث تھا ۔۔۔ مگر اصل یہ ہے کہ لکھنؤ و دہلی میں بتذکیر سب بولتے ہیں۔ فخرِ شعراے دہلی نؤاب مرزا خاں داغؔ کا کلام دیکھ لو۔ تعجب یہ ہے کہ ایک جگہ خود مصنف بھی ’ قلم ‘ کو بتذکیر باندھ چکے ہیں ، ع فقط خراب لکھا ، بس ، نہ چل سکا قلم آگے۔
آپ کا بندہ ، اور پھروں ننگا
آپ کا خادم ، اور کھاؤں ادھار
اُدھار کا لفظ اہلِ اعتبار کی زبان پر نہیں ہے۔ نوکر چاکربولا کرتے ہیں۔ اسی لیے مصنف نے لفظِ ’ نوکر ‘ مصرع میں باندھا۔ غیر لفظ کے استعمال کا یہ بہت دقیق طریقہ ہے۔ ہاں ، کسی پرادھار کھانا ، البتہ محاورہ ہے۔