(ذیل میں صرف اُن اصطلاحات کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا
ہے جو علّامہ نظم طباطبائی کی شرحِ غالبؔ میں واقع ہوئی ہیں۔)
ارشاداتِ سجاد مرزا بیگ دہلوی
مجاز:
الفاظ کا اپنے حقیقی اور وضعی معنوں کے علاوہ اپنے معنی غیر موضوع لہ میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس کو مجاز کہتے ہیں۔ جب الفاظ اپنے غیر حقیقی معنوں میں استعمال کیے جاتے ہیں تو بعض دفعہ ان غیر حقیقی معنوں میں استعمال کرنے کا کوئی قرینہ ہوا کرتا ہے، جس سے یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ متکلم نے ان الفاظ کو وضعی معنوں میں استعمال نہیں کیا۔ ’ زید کا ہاتھ کھلا ہوا ہے‘ یعنی زید مسرف ہے یا سخی ہے۔ قرینہ اس میں یہ ہے کہ اگر ہاتھ میں روپیہ ہوا اور اس کو خرچ کرنا نہ چاہیں تو مٹھی بند رکھتے ہیں اور دیتے وقت کھول دیتے ہیں۔ تو جس شخص کا ہاتھ ہر وقت کھلا رہے وہ زیادہ سخی ہے۔ علمِ بیان کی اصطلاح کے موافق ایسی دلالتِ غیر وضعی کو، جس میں قرینہ پایا جاتا ہے، مجاز کہتے ہیں۔
کنایہ :
ایسی دلالتِ غیر وضعی جس میں قرینہ نہ پایا جائے، کنایہ کہلاتی ہے۔ ’ احمد کا دستر خوان بہت وسیع ہے ‘۔ دستر خوان کی وسعت مہمانوں کی کثرت پر دلالت کرتی ہے تو خواہ یہ مراد لی جائے کہ احمد مہمان نواز شخص ہے یا یہی کہ وہ کپڑا جو کھانا کھاتے وقت احمد کے سامنے بچھایا جاتا ہے بہت لمبا چوڑا ہے۔ یہ کنایہ ہے۔
تشبیہ:
تشبیہ کے معنی ہیں کسی خاص لحاظ سے ایک شے کو کسی دوسری شے جیسا ظاہر کرنا۔تشبیہات کے لیے ضروری ہے کہ شاعر کا مشاہدہ وسیع اور اسکو حقائقِ اشیا سے اچھی واقفیت ہو تاکہ وہ مختلف چیزوں میں صحیح وجہِ شبہ دریافت کر سکے ، اور یہ بھی اس کو معلوم ہو کہ کون کون سی چیزیں باہم تشبیہ دینے کے قابل ہیں ورنہ وہ نئی تشبیہات نہیں پیدا کر سکے گا اور جو تشبیہات استعمال کرے گا ان میں بھی غلطیاں کرے گا۔
میر انیسؔ نے اس شعر میں ا وس کے قطروں کو موتیوں سے تشبیہ دی ہے
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا
جس چیز کو کسی دوسری چیز سے تشبیہ دیں وہ مشبّہ کہلاتی ہے۔ اس شعر میں اوس کے قطرے مشبہ ہیں۔
جس سے تشبیہ دی جائے وہ مشبّہ بہ کہلاتی ہے۔ یہاں موتی مشبہ بہ ہیں۔
جو معنی مشبّہ اور مشبّہ بہ میں مشترک ہوں وہ وجہِ شبہ کہلاتے ہیں۔ اوس کے قطروں اور موتیوں میں آب و تاب ایسی چیزہے کہ دونوں میں پائی جاتی ہے ، یہی وجہِ شبہ ہے۔
اگرکسی تشبیہ میں وجہِ شبہ صرف ایک صفت ہوتو وہ تشبیہِ مفرد کہلائے گی۔ مثلاً
ہر سنگ ریزہ نور سے دُرِِّ خوش آب تھا
لہریں جو تھیں کرن تو بھنور آفتاب تھا
سنگریزوں کو دُرِّ خوش آب سے ، لہروں کو کرن سے اور بھنور کو آفتاب سے تشبیہ دی ہے۔ سب میں وجہِ شبہ صفائی ہے ، لہٰذا تشبیہِ مفرد ہے۔
اگر کئی اوصاف اس طرح ملے ہوئے ہوں کہ ان سے وجہِ شبہ کی ایک مجموعی ہیئت تصور کی جاسکے تو وہ تشبیہِ مرکب ہے۔مثلاً
اک گھٹا چھا گئی ڈھالوں سے سیہ کاروں کی
برق ہر صف میں چمکنے لگی تلواروں کی
ڈھالوں کی اس قدر کثرت تھی کہ جب فوج کے سپاہیوں نے ان کو بلند کیا تو ایسی تاریکی ہو گئی جیسے ابرِ سیاہ کے چھا جانے سے ہوتی ہے اور جس طرح ابر میں بجلی چمکتی ہے اسی طرح ڈھالوں کے سائے میں تلواریں چمکتی تھیں گویا وجہِ شبہ مرکب ہوئی۔
وجہِ شبہ کا زیادہ مرکب ہونا تشبیہ کو زیادہ غریب و بعید بنادیتا ہے اور اس قسم کی تشبیہ زیادہ بلیغ خیال کی جاتی ہے ، وہمی و عقلی تشبیہ میں عموماً یہی ہوتا ہے۔ مثلاً ذوقؔ کا شعر ہے
ہوا پہ دوڑتا ہے اس طرح سے ابرِ سیاہ
کہ جیسے جائے کوئی فیلِ مست بے زنجیر
غرضِ تشبیہ: مشبّہ کی رفعتِ شان یا حُسن یا تحقیر و تذلیل یا رعب و ہیبت وغیرہ صفات ظاہر کرنا غرضِ تشبیہ ہوتی ہے۔انیسؔ کے شعر میں اوس کے قطروں کی خوش نمائی اور چمک دمک ظاہر کرنا غرضِ تشبیہ ہے۔اور ذوقؔ کے شعر میں سیاہ دَل بادل کا آسمان کی وسعت میں اڑتے پھرنا غرضِ تشبیہ ہے۔
تشبیہ کو ظاہرکرنے کے لیے کلام میں یہ الفاظ لاتے ہیں : مانند ، مثل ، سا ، جیسا ، برابر وغیرہ۔۔یہ حرو فِ تشبیہ کہلاتے ہیں۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی لفظ کلام میں استعمال نہیں کرتے لیکن تشبیہ ظاہر ہو جاتی ہے ، جیسے انیسؔ کے شعر میں ہم نے دیکھا۔
مشبّہ اور مشبّہ بہ کو اطرافِ تشبیہ کہتے ہیں۔
اطرافِ تشبیہ ، وجہِ شبہ ، غرضِ تشبیہ ، حروفِ تشبیہ یہ سب ارکانِ تشبیہ کہلاتے ہیں۔
اطرافِ تشبیہ: (یعنی مشبّہ و مشبّہ بہ )جب ایسے ہوں کہ وہ یا ان کا مادّہ حواسِ خمسۂ ظاہری کے ذریعے سے معلوم ہو سکے تو ان کو حسّی کہے ہیں۔ (حواسِ خمسۂ ظاہری یعنی پانچ قوتیں یہ ہیں : قوتِ باصرہ ، قوتِ سامعہ ، قوتِ شامّہ ، قوتِ ذائقہ اور قوتِ لامسہ)۔حسّی تشبیہات زیادہ پُر اثر ہوتی ہیں کیونکہ ان کا تصوّر ذہن میں جلد آ جاتا ہے اور مشبّہ کی صورت آنکھوں کے سامنے پھِر جاتی ہے۔
بہت سی چیزیں ، خصوصاً غیر مادّی اشیا ایسی ہیں کہ وہ حواسِ ظاہری سے معلوم نہیں ہو سکتیں۔ زندگی ،موت ، علم ، جہل ، الم ،خوشی ، بھوک ،پیاس ، محبت ، نفرت یہ سب غیر حسّی چیزیں ہیں۔ ان کو عقلی (یا غیر حسّی )کہتے ہیں اور یہ بھی اطرافِ تشبیہ بن سکتی ہیں۔
ذہنی قوأ میں سے واہمہ وہ قوت ہے جو فی الواقع غیر موجود اشیا کا تصور کر سکتی ہے۔ جب ایسی چیزوں سے ، جو قوتِ واہمہ کی اختراع ہیں ، مشبّہ و مشبّہ بہ بنائے جائیں تو وہ وہمی کہلائیں گے۔مثلاً
نحوست بھی سعادت ہوگئی سودا میں زلفوں کے
گلیمِ تیرہ بختی سر پہ ہم ظلّ ہُماسمجھے
’ گلیمِ تیرہ بختی ‘ کو ’ ظلِّ ہُما ‘ سے تشبیہ دی ہے۔ مشبّہ ’ تیرہ بختی‘ غیر حسّی یعنی عقلی ہے اور ’ ظلِّ ہُما ‘ مشبّہ بہ وہمی ہے۔
تشبیہِ معکوس: یہ ہے کہ مشبہ کو مشبہ بہ قرار دیں ، مثلاً
میں ہوں لاغر تری کمر کی طرح
ہے کمر تیری جیسا میں ہوں نزار
تمثیل:وہ تشبیہ ہے جس میں وجہِ شبہ کئی امور سے حاصلہو ، لیکن وصفِ حقیقی نہ ہو بلکہ اعتباری ہو ، جیسے تشبیہِ مرکب میں ہوتا ہے
جو ناتواں نہ کریں دستگیریِ دُشمن
توخار و خس نہ کرے شعلے کو کبھی برپا
فتادگی میں یہ عزت ہے ، دیکھ اے سر کش
کہ نیک و بد نے کیا نقشِ پا کو راہ نما
اضافتِ تشبیہی : اس کی ترکیب تو فارسی ہے لیکن اردو میں بھی مروّج ہے ، چنانچہ ’ مارِ زلف ‘ ، ’ کمانِ ابرو ‘ ’گلِ رخسار ‘ وغیرہ۔ اضافتِ تشبیہی میں مشبہ بہ کو اوّل لاتے ہیں اور ایک اضافتِ حرفِ تشبیہ، وجہِ شبہ ، حرفِ ربط کا کام دیتی ہے۔
استعارہ:
استعارہ کے لغوی معنی عاریت طلب کرنا ہیں۔ اصطلاح میں مراد وہ لفظ ہوتا ہے جو غیر وضعی معنوں میں استعمال ہو اوراس کے حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کا علاقہ ہو۔استعارے میں مشبہ یا مشبّہ بہ کو حذف کر کے ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی ایسا قرینہ بھی ساتھ ہی ظاہر کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے کہ متکلم کی مراد حقیقی معنوں کی نہیں ہے۔
معنیِ مشبّہ کو مستعار لہ (یعنی مانگا ہو ا اُس کے واسطے )کہتے ہیں۔
معنیِ مشبّہ بہ کو مستعار منہ (مانگا ہو ا اُس سے )کہتے ہیں۔
اس لفظ کو جو مشبّہ بہ کے معنی پر دلالت کرے مستعار کہتے ہیں۔
وجہِ شبہ کو وجہِ جامع کہتے ہیں۔ مثال
نہیں ممکن کہ کلکِ فکر لکھّے شعر سب اچھے
برستا ہے بہت نیساں ، گہر ہوتے ہیں کم پیدا
’ فکر ‘ کو منشی سے تشبیہ دی ہے۔’ منشی ‘ مستعار منہ ، قوتِ فکر مستعار لہ ، لفظِ ’ فکر ‘ مستعار اور انشا کی قوت وجہِ جامع ہے۔
اضافتِ استعارہ: اضافتِ تشبیہی کی طرح اضافتِ استعارہ بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ کسی لفظ کے مجازی معنوں کے لوازمات سے کچھ لے کر اس کو اصل لفظ کی طرف مضاف کرتے ہیں۔ مثلاً دستِ عقل، پائے فکر۔ عقل اور فکر کو انسان فرض کیا ہاتھ اور پاؤں انسان کے لوازمات میں سے ہیں ، ان کو عقل و فکر کی طرف مضاف کیا اور دستِ عقل اور پاے فکر کہہ دیا۔
اضافتِ تشبیہی اور اضافتِ استعارہ میں یہ فرق ہے کہ اضافتِ تشبیہی میں اگر مضاف ، مضاف الیہ کو الٹ کر بیچ میں حرفِ تشبیہ ڈال دیں تو مطلب ٹھیک رہتا ہے۔ لیکن اضافتِ استعارہ میں مطلب بگڑ جاتا ہے۔ ’ مارِ زلف ‘ کو فارسی میں زلف ہمچو مار اور اردو میں سانپ جیسی زلف کہہ سکتے ہیں۔لیکن ’دستِ عقل ‘ کو عقل ہمچو دست کہنا غلط ہوگا۔
صنعتِ استخدام:
کلام میں اوّل ایک ایسا لفظ لائیں جس کے دو معنی ہوں اور ان دونوں معنی میں سے ایک معنی مراد لیں۔ پھر ایک ضمیر لائیں جو اس لفظ کی طرف راجع تو ہوتی ہو لیکن ضمیر کی مراد اس دوسرے معنی کی طرف ہو جو پہلے نہیں لیے گئے
سایہ فگن ہو میں نے کہا ہم پہ ، اے پری
بولا کہ اس کے سائے سے پرہیز چاہیے
’ پری ‘ بہ معنی معشوق۔ دوسرے پری حقیقی۔ ضمیر ’ اس ‘ کی حقیقی پری کے معنی ظاہر کرتی ہے کیونکہ اس کے سائے سے پرہیز کیا کرتے تھے۔
(منقول از تسہیل البلاغت مؤلفہ سجاد مرزا بیگ)
ارشاداتِ طباطبائی
(۱) پھبتی ایک قسم کی تشبیہ ہے جس میں مشبہ پر استہزا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے کسی سیاہ فام چہرے پر چیچک کے داغ ہوں تو اسے کوچا ہوا کریلا کہتے ہیں یا یہ کہ گوبر میں اولے پڑے۔ ائمۂ فن نے تشبیہ کی ایک غرض یہ بھی لکھی ہے کہ مشبہ کو بد نما کردے۔ لیکن ایسی تشبیہ کا انھوں نے کوئی نام نہیں رکھا ہے اور اردو میں اس کے لیے نام موجود ہے کہ اسی کو پھبتی کہتے ہیں۔ میر ممنونؔ کہتے ہیں
قدر کیا ہو چرخ پر اختر کی ، مطبخ سے ترے
چند اخگر ہیں بروے تودۂ خاکسترے
اور اس قسم کی تشبیہ سہل ہے۔
( ۲) ہاں ، جس تشبیہ میں یہ غرض ہو کہ بد نما شے کو خوش نما کر دے وہ زیادہ مشکل ہے۔ جیسے ایک عرب نے غلامِ سیاہ فام کے چہرے کو ہرن کا چشم و چراغ کہہ کر روشن کر دیا ہے۔
( ۳) ان دونوں تشبیہوں سے زیادہ اس تشبیہ کا استعمال ہے جس میں یہ غرض ہو کہ مشبہ کی نسبت جو دعوےٰ کیا جاتا ہے وہ ممکن ہے۔ مرزا بیدلؔ کا یہ مطلع:
نہ با صحرا سرے دارم نہ با گلزار سودائے
بہ ہر جا می روم از خویش می جوشد تماشائے
اس میں نرا ادّعاے شاعرانہ تھا۔ مرزا رفیع سوداؔ نے اس پر مصرعے لگاے اور گرہ میں تشبیہ دے کر اس ادّعا کو ثابت کر دیا
نہ بلبل ہوں کہ اس گلشن میں سیرِ گل مجھے بھائے
نہ طوطی ہوں کہ دل میرا فضاے باغ لے جائے
میں ہوں طاؤسِ آتش بار ، کیسی ہی بہار آئے
نہ با صحرا سرے دارم نہ با گلزار سودا ئے
بہ ہر جا می روم از خویش می جوشد تماشائے
بیدلؔ کا مقطع یہ ہے
من بیدلؔ حریفِ سعیِ بے جا نیستم زاہد
تو وقطعِ منازلہا ، من ویک لغزشِ پائے
زاہد سے کہتے ہیں : تو منزلیں طے کیا کر ، مجھے فنا فی اللہ ہونے کے لیے ایک لغزشِ پا کافی ہے۔ سوداؔ نے اس ادعا کو ثابت کیا ہے
نگاہِ دیدۂ تحقیق تو ، اور اشک ہم ، زاہد
تو و قطعِ منازلہا ، من وِ یک لغزشِ پائے
یا جیسے میر انیس کہتے ہیں ، ع۔۔۔تم جان ہو ، پھر جان کی رخصت تو ہے دشوار
اردو کی اصطلاح میں ایسی تشبیہ کو ثبوت دینا کہتے ہیں۔
(۴) اسی طرح کبھی نا ممکن ہونے کا ثبوت بھی تشبیہ سے دیتے ہیں ، جیسے مصنف کا ایک شعر گذرا
دل سے مٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا
(۵) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مشبہ کے لیے جو ادعا کیا ہے اس میں کچھ ایسا استبعاد نہیں ہے لیکن تشبیہ سے غرض زیادتیِ ثبوت ہے۔ جیسے میر ممنونؔ کہتے ہیں
ابروے کج نے کیا ملک دلوں کا تسخیر
راست ہے: ملک اُسی کا ہے کہ جس کی شمشیر
اور اس طرح کی تشبیہ بہت کہی جاتی ہے۔
(۶) اس سے ادنیٰ مرتبہ اس تشبیہ کا ہے جس میں کوئ غرض نہ ہو محض غرابت و ندرت ہو ، جیسے شیخ ناسخؔ کہتے ہیں
مسی آلودہ لب پر رنگِ پا ں ہے
تماشا ہے تہِ آتش دھواں ہے
اور یہ تشبیہ بہت سہل اور بہت مستعمل ہے۔
(۷) کبھی بتصنع و تکلف ایک بات بنانے کے لیے تشبیہ دیتے ہیں۔ جیسے میر ممنونؔ کہتے ہیں
واہ گردوں سیر یاں اس رخش کی ہے آفتاب
یوں رکاب اس کی میں جیسے لعل اور انگشتری
چلبلاہٹ سے کھنچے نقشہ کب اس کا ، ہاں مگر
کوند بجلی کی ہو صفحہ ، خامہ موجِ صرصری
یہ تشبیہ کسی قدر اس تشبیہ سے بہتر ہے جس میں محض ندرت ہی ندرت ہو۔ اور لکھنؤ کے شعرا اس طرف بہت مایل ہیں۔
(۸) اور کبھی اس تشبیہ دینے سے وجہِ شبہ کی مقدار کا بیان کرنا مقصود ہوتا ہے ، جیسے میر انیسؔ
گھوڑے پر اس طرح سے شہِ انس و جن چڑھے
جس طرح نکلے ابر سے خورشید دن چڑھے
یعنی ممدوح کو آفتاب سے تشبیہ تو دی ، لیکن کس آفتاب سے ؟ جو دن چڑھے دکھائی دے۔ اس بیت میں اور بھی لطایف ہیں جو تشبیہ کے علاوہ ہیں اور جسے میرصاحبؔ کی معجز بیانی کہنا چاہیے ورنہ بیانِ مقدار کے لیے جو تشبیہ ہوتی ہے وہ اس قدر بدیع نہیں ہوتی۔
(۹) کبھی تشبیہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ ایک نا معلوم شے کی کیفیت دوسروں کی سمجھ میں آ جائے، جیسے رند ؔ
بہار تک ہم اسیروں کی زندگی معلوم
جو پچھنے دل پہ یونہیں موسمِ خزاں دے گا
’ اندوہِ خزاں ‘ کو ’ پَچھنے لگنا ‘سے استعارہ کیا ہے۔ یہ تشبیہ اداے مطلب میں بہت کام آتی ہے اور ہر ادیب کو نظم و نثر میں اس قسم کی تشبیہ کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۱۰) کبھی تشبیہ کوالٹ دیتے ہیں اور اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ مشبّہ اتم و اکمل ہے۔ جیسے رندؔ
چشم و ابرو بھی اگر تیرے سے ہوتے اس کے
ہو چکا تھا رخِ خورشید پہ دھوکا تیرا
یعنی آفتاب کو معشوق سے تشبیہ دی ہے اور مشہور (مقصود ؟ )ہے اس کا عکس۔
(۱۱) ایک اور بھی صنعت یہ آجکل کہی جاتی ہے کہ ایک لفظ جوکئی معنی میں مشترک ہو اس کے ایک معنی کو دوسرے معنی سے تشبیہ دیتے ہیں اور اسی اشتراکِ لفظی کووجہِ شبہ سمجھ لیتے ہیں ، مثلاً (میر علی اوسط صاحب رشکؔ کے ایک شاگرد ) ہلالؔ کہتے ہیں
پیٹوں سر سن سن کے گانا اس بتِ بے پیر کا
دایرہ بجنے لگے حرفِ خط تقدیر کا
یعنی دایرہ ایک باجا ہے اور حرف کے دامن کو بھی دایرہ کہتے ہیں۔ اس وجہ سے دائرۂ حرف کو باجے سے تشبیہ دی ہے۔ اس رنگ کے کہنے والے جو شعرا ہیں ان کی رائے یہ ہے کہ ناسخؔ کے دیوان بھر میں بس ایک ہی شعر نئے مضمون کا ہے۔ شعر
دانے ہیں انگیا کی چڑیا کو جگت کی چکّیاں
چلتی ہے بالے کی مچھلی موتیوں کی آب میں
یعنی چڑیا بالاشتراک طاۓر کو بھی کہتے ہیں اور دونوں کٹوریوں کے درمیان کی سیون کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی اشتراکِ لفظی کے سبب سے بغیر کسی وجہِ شبہ کے کٹوریوں کی سیون کو طایر سے تشبیہ دی اور اسی قسم کی تشبیہ یہ بھی ہے کہ زلف کو لیلیٰ سے اور خطِ رخسار کو خضر سے تشبیہ دیتے ہیں یعنی لیلیٰ و خضر دونوں عَلَم بھی ہیں اور لیل و خضرت سے صفتِ مشتق بھی ہیں اور اشتراک کو وجہِ شبہ قراردے کر یوں کہتے ہیں کہ لیلیِ زلف دلِ عاشق کی محمل میں رہتی ہے یا جیسے خضرِ خط کا چشمۂ حیوان دہنِ معشوق ہے یعنی پہلے تو زلف و خط کو لیلی و خضر معنیِلغوی کے اعتبار سے کہا کہ زلف میں شبگونی اور خط میں سبزی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ان معانی سے تجاوز کیا اورمحمل و چشمۂ حیوان کا ذکر کر کے دونوں لفظوں میں معنی علمیت مراد لیے جس کا حاصل یہ ہوا کہ زلف و خط کو لیلیِ محمل نشیں اور خضرِ ظلمات گرد سے تشبیہ دے دی حالاں کہ کوئی وجہِ شبہ نہیں ہے۔ اسے صنعتِ استخدام کہہ سکتے ہیں لیکن اتنی بات بڑھی ہوئی ہے کہ دونوں معنوں میں تشبیہ بھی مقصود ہوتی ہے اور استخدام میں تشبیہ نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(منقول از شرح کلامِ غالب از طباطبائی)
شرحِ کلامِ غالب از طباطبائی
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نا یاب تھا
یعنی تارِ نگہ میں اس کثرت سے آنسو پروے ہوئے تھے کہ وہ خود پوشیدہ و مفقود ہو گیاتھا جس طرح دھاگے کو موتی چھپا لیتے ہیں۔ دیکھو پوری تشبیہ پائی جاتی ہے مگر تازگی اس بات کی ہے کہ تشبیہ دینا مقصود نہیں ہے۔ شاعر دو متشابہ چیزیں ذکر کر رہا ہے اور پھر تشبیہ نہیں دیتا ہے۔
یاد کر وہ دن کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا
انتظارِ صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا
’ حلقۂ دام ‘ کو ’ دیدۂ بے خواب ‘ سے تشبیہ دی ہے۔ وجہِ شبہ یہ ہے کہ دیدۂ بے خواب کی طرح حلقۂ دام کھلا رہتا تھا۔
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سروپا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا
پنجہ میں اور مژگاں میں اور پشت خار میں وجہ شبہ جو ہے وہ ظاہر ہے یعنی شکل تینوں کی ایک ہی سی ہے۔ مژگاں کو پہلے پنجے سے تشبیہ دی ، پھر پنجے کو پشت خار سے تشبیہ دی۔
نازہ نہیں ہے نشّہ فکرِ سخن مجھے
تریاکیِ قدیم ہوں دودِ چراغ کا
دود بہ معنی فکر اور چراغ استعارہ ہے کلامِ روشن سے۔
اہلِ بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیِ ناز
جوہر آئینہ کو طوطیِ بسمل باندھا
سبزۂ باغ و سبزۂ خط و سبزۂ زنگار و سبزیِجوہر کو طوطی سے تشبیہ دیتے ہیں اورآئینۂٔ فولادکے جوہروں کی سبزی ہر ایک رخ سے قایم نہیں ہوتی اس سبب سے اسے طوطیِ بسمل سے تشبیہ دی کہ اس میں حرکت معلوم ہوتی ہے اور متحرک کی متحرک سے تشبیہ جس میں وجہ شبہ بھی حرکت ہو نہایت لطیف و بدیع ہوتی ہے غرض یہ ہے کہ اس کے آئینۂ فولاد میں جوہروں کی سبزی جو بعض رخ سے دکھائی دے جاتی ہے یہ طوطیِ بسمل ہے جسے شوخیِ ناز نے بسمل کر دیا ہے۔اور غنیمتؔ کا مصرع:
ع۔۔۔۔۔۔ چمن بے تاب چوں طاؤسِ بسمل ‘۔۔۔۔ اسی قسم کی تشبیہ رکھتا ہے۔
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
یہاں دشت کی ویرانی میں مبالغہ اس لیے کیا کہ گھر کی ویرانی میں زیادتی لازم آئی ، یعنی دشت میں ایسی ویرانی جیسے بعینہ میرے گھر میں تھی۔ تشبیہِ معکوس ہے۔
سرمۂ مفتِ نظر ہوں ، مری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا
لذّتِ نظر کو سرمۂ مفت سے تشبیہ دی ہے اور سرمۂ مفت کی اضافت نظر کی طرف تشبیہی ہے۔
بزمِ قدح سے عیش تمنّا نہ رکھ ، کہ رنگ
صیدِ ز دام جستہ ہے اس دام گاہ کا
بزمِ قدح یعنی بزمِ شراب۔ رنگ یعنی عیش۔ دام گاہ دنیا سے استعارہ ہے۔ ’ عیش تمنّا نہ رکھ ‘ ترجمۂ فارسی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عیش کی تمنّا نہ رکھ۔
جاں در ہواے یک نگہِ گرم ہے ، اسدؔ
پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا
جان کو ’ در ہواے نگہِ گرم ‘ میں ہونے کی وجہ سے پروانے سے تشبیہ دی ہے۔
حریف ِجوششِ دریا نہیں خودداری ساحل
جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا
ساقی کو دریاے پر جوش سے تشبیہ دی ہے اور ساحل کو اپنے آغوش سے۔
ہے مجھے ا برِ بہاری کا برس کر کھلنا
روتے روتے غمِ فرقت میں فنا ہو جانا
یعنی روتے روتے مر جانا میرے لیے باعثِ مسرّت ہے۔ میں اسے یہ جانتا ہوں کہ جیسے ابر برس کر کھل گیا اور باعثِ نشاط ہوا۔ خوبی اس میں تازگیِ تشبیہ کی ہے۔
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موجِ شراب
دے بطِ مے کو دلِ دوست شنا موجِ شراب
شراب کا شہپرِ موج سے پرواز کرنا استعارہ ہے جوشِ شراب سے۔
ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر
موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب
ہواے بہار سے جو ایسے ایسے انقلاب ہوتے ہیں کہ جہاں دی و بہمن میں چٹیل میدان تھے وہ سبزہ زار بن جاتے ہیں۔ جن مقاموں میں جھاڑ جھنکاڑ اور خار زار تھا وہاں جوشِ لالہ و گل دکھائی دیتا ہے تو اس انقلاب و کون و فساد و جوش و نشوونما کے بیان میں شعرا ہمیشہ صنعتِ اغراق کو استعمال کرتے ہیں ۔ جیسے عرفی ؔ ع
اخگر از فیضِ ہوا سبز شود در منقل
یعنی انگیٹھی میں دا نۂ ا خگر سے اکھوے پھوٹتے ہیں۔ یا سوداؔ جیسے اسی زمین میں کہتے ہیں۔ ع۔۔۔۔
شاخ سے گاوِ زمیں کے نکل آئی کوپل
وجہ اس کی یہ ہے کہ شعر میں معنی صیرورت یعنی کسی شے کا کچھ سے کچھ ہو جانا بڑا لطف دیتا ہے۔ دوسرا سبب اس مضمون پر شعرا کے توجہ کرنے کا یہ ہے کہ جب تشبیہ میں حرکت وجہِ شبہ ہو تو وہ تشبیہ ہی بہت بدیع ہوتی ہے اور یہاں چنگاری میں سے اکھوے پھوٹنا یا شاخِ گاؤ میں سے کوپل نکلنا حرکت سے خالی نہیں۔ غرض کہ مصنف نے بھی فیضِ ہوا کے بیان میں یہاں اغراق کیا ہے کہ ہستیِ گذراں کو موج سے تشبیہ دی اوراس موج کو فیضِ ہوا سے موجِ شراب بنا دیا نشاط آور ہونے کی مناسبت سے۔
چار موج اٹھتی ہیں طوفانِ طرب سے ہر سو
موجِ گل، موجِ شفق ، موجِ صبا ، موجِ شراب
جوشِ طرب کو دریاے طوفاں خیز سے تشبیہ دی جس کی موجیں دوسرے مصرع میں بیان کی ہیں اور اس تشبیہ میں بھی وجہِ شبہ حرکت ہے۔
موجۂ گل سے چراغاں ہے گذر گاہِ خیال
ہے تصوّر میں ز بس جلوہ نما موجِ شراب
اس شعر میں موجِ شراب کو پہلے موجِ گل سے تشبیہ دی ہے پھرچراغاں سے تشبیہ دی اور چراغاں کی مناسبت سے خیال کو گذرگاہ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی خیالِ موجِ شراب کیا ہے موجِ گل ہے ، موجِ گل کیا ہے گذر گاہِ تصور میں چراغاں ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ موجِ شراب کو موجِ گل سے تشبیہ دیں توکوئی وجہِ شبہ نہیں ہے ہاں ،موجِ شراب کو موجِ گل سے تشبیہ دیں تو وجہِ شبہ رنگ دونوں میں موجود ہے اور موجِ گل کو چراغاں سے تشبیہِ تام ہے یعنی ہر ہر گل کی افروختگی شعلۂ چراغ سے مشابہ ہے۔ حاصل یہ کہ موجِ گل کو چراغاں سے مشابہت ہے اور موجِ شراب کو موجِ گل سے مشابہت ہے تو تصورِ موجِ شراب سے گذرگاہِ خیال میں چراغاں ہو رہا ہے۔ اس سبب سے کہ مشابہ کا مشابہ بھی مشابہ ہوتا ہے لیکن ایک مشبہ بہ سے دوسرے مشبہ بہ پر تجاوز کرنے میں وجہِ شبہ مفرد ہے اور موجِ گل و چراغاں میں وجہِ شبہ مرکّب ہے۔
مقصد ہے ناز و غمزہ ، ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
دشنہ و خنجر سے ناز و غمزہ کی تشبیہ محسوس سے معقول کی تشبیہ ہے اور معقول کا فہم ہر ایک کونہیں ہوتا اس لیے اسے محسوس فرض کر کے کام نکالتے ہیں یعنی ان کی تاثیر کو سمجھا دیتے ہیں۔
گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی ، نہ طور پر
دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
بڑے پلّے کا مصرع لگایا ہے اور تجلّی کو شراب سے اور طور کو میخوارِ تنگ ظرف سے تشبیہ دی ہے اور تنگ ظرف ہونا اس سے ظاہر ہے کہ وہ تجلّی کا متحمّل نہ ہو سکا۔
نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر
زنداں پر سفیدی پھرنا اور آنکھوں کا سفید ہو جانا دونوں میں حرکت فی الکیف ہے اور یہاں بھی وجہِ شبہ میں حرکت ہے۔
نہیں اقلیمِ الفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا
کہ پشتِ چشم سے جس کے نہ ہووے مّہر عنواں پر
ناز و ادا کو طومار کہنا تو ایک وجہ رکھتا ہے لیکن الفت جو ایک ادنیٰ مرتبہ عشق کا ہے اسے اقلیم و قلمرو سے تعبیر کرنابلا وجہ ہے اس لیے کہ مشبّہ و مشبّہ بہ میں اضافت کرنے میں وجہِ شبہ ظاہر ہونا شرط ہے ، نہیں تو وہ اضافت ایسی ہی ہوگی جیسے کہیں کہ آسمانِ رخ کا ستارہ خال ہے یا دریاے دہن کے موتی دندان ہیں اور ان اضافتوں کا غلط ہونا اہلِ ادب کے مذاق میں ظاہر ہے۔
دوسرے مصرع کی بندش میں گنجلک بہت ہو گئی ہے۔ مطلب مصنف کا یہ ہے کہ دیوانِ حسن میں کوئی طومارِ ناز ایسا نہیں جس کے عنوان پر پشتِ چشمِ معشوق کی مُہر نہ ہوئی ہو۔اور پشتِ چشم سے مّہر ہونا معشوق کی آنکھ چرانے اور آنکھ پھیر لینے اور کنکھیوں دیکھنے سے اشارہ ہے اور مّہراور آنکھ میں وجہِ شبہ سیاہی ہے۔ مصنف نے اس اضافت کو اور بندش کی اس گنجلک کوجس خوبیِ شعر کے لیے گوارا کیا ہے البتّہ اس خوبی کے مقابلے میں بندش کا عیب کچھ بھی نہیں وہ یہ ہے کہ عنوان پر نقش بٹھا کر فوراً مہر کا پشت پھیر لینا اور عاشق سے آنکھ ملا کر فوراً معشوق کا آنکھ پھیر لینا تشبیہِ بدیع ہے اور وجہِ شبہ حرکت ہے اور حرکت بھی وہ جو نہایت محبوب ہے۔
مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلود یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر
شفق کی ابرِ آتش بار سے تشبیہ نہایت بدیع ہے۔
ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے کماں اور
ابرو کو کمان اور نگاہ کو تیر کہنا پرانی تشبیہ ہے۔ مصنف نے فی الجملہ اسے تازہ کر کے کہا ہے۔ یعنی نگاہ کا تیر ابرو کی کمان میں سے نہیں آتا ہے ، دل فریبیِ حسن اسے پرتاب کرتی ہے۔
برنگِ کاغذِ آتش زدہ نیرنگِ بیتابی
ہزار آئینہ دل باندھے ہے بالِ یک تپیدن پر
پہلے مصرع میں سے ’ ہے ‘ محذوف ہے۔ کہتے ہیں : نیرنگِ بیتابی مثلِ کاغذِ آتش زدہ ہے کہ دل نے ایک بال تپیدن پر ہزار ہزار آئینے باندھے ہیں۔ اس شعر میں آئینۂ متحرک کی تڑپ کو اس شعلے سے تشبیہ دی ہے جو کاغذِ آتش زدہ سے بلند ہو۔
نہ لیوے گر خسِ جوہر طراوت سبزۂ خط سے
لگادے خانۂ آئینہ میں روے نگار آتش
آئینے میں عکس پڑنا اور آگ لگ جانا ان دونوں میں وجہِ شبہ حرکت ہے۔اور نہایت بدیع ہے یہ تشبیہ اس سبب سے کہ وجہِ شبہ بہت ہی لطیف ہے۔ مطلب یہ کہ جوہرِآئینہ کو معشوق کے سبزۂ خط سے طراوت پہنچ جاتی ہے نہیں تو شعلۂ رخسار کے عکس نے خانہ آئینہ میں آگ لگا دی ہوتی۔
ترے خیال سے روح اہتزاز کرتی ہے
بجلوہ ریزیِ باد و بہ پر فشانیِ شمع
دوسرے مصرع میں ’ بہ ‘ دونوں جگہ قسم کے لیے ہے۔ اس شعر میں مصنف نے تشبیہ کو بہ تفنّنِ عبارت ادا کیا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہا کہ جس طرح ہوا سے پر فشانیِ شمع ہوتی ہے بلکہ مشبہ بہ کی قسم کھائی یعنی قسم ہے ہوا کے آنے اور شمع کے جھلملانے کی کہ ترے خیال سے روح پھڑکنے لگتی ہے۔
محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال
ہیں ورق گردانیِ نیرنگِ یک بت خانہ ہم
اس شعر میں گنجفے کی ورق گردانی سے محفلِ نشاط کی برہمی کو تشبیہ دی ہے اور تازہ تشبیہ ہے۔
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھرآبھی نہ سکوں
ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر ، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
ان تینوں شعروں میں یہ صنعت ہے کہ ایک فعل جو دو معنوں میں مشترک ہے اسے وجہِ شبہ قرار دیا ہے لیکن ’ خضر و سبزہ ‘ کی طرح یہاں محض اشتراکِ لفظی وجہِ شبہ نہیں ہے۔ اسی سبب سے یہ اشعار بہت بدیع ہیں۔مومنؔ خاں بھی اس طرز پربہت دوڑے ہیں اور ایک واسوخت میں کئی بند اسی طرح کے کہے ہیں۔ آتش ؔکا بھی ایک شعر اسی صنعت میں مشہور ہے
ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا
صورتِ پیرہنِ تنگ نکل جاؤں گا
مجھے ایک شعر اپنا یاد آیا
راز ہے کیا گرہِ زلف جو کھل جائے گا
کوئی مضموں ہیں جو بندھ جائیں گے بازو میرے
آخرکے مصرع میں غضب کا تنافر ہے تین کاف متحرّک پے در پے جمع ہوگئے ہیں ، ع کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
ہے مشتمل نمودِ صور پر وجودِ بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرۂ موج و حباب میں
یعنی قطرہ و موج و حباب کے لیے کچھ ہستی ہی نہیں ہے ، ان کی نمودِ بے وجود بحر کے ضمن میں ہے۔ غرض اس تمثیل سے یہ ہے کہ ممکنات کی ہستی وجو دِ واجب کے ضمن میں ہے۔ اگر یہ غرض نہ ہو تو شعر بے معنی رہا جاتا ہے۔ اور یہ طرزِ بیان کہ فقط تمثیل کو ذکر کریں اور ممثل کوترک کریں اس بیان سے بلیغ تر ہے جس میں تمثیل و ممثل دونوں مذکور ہوں۔ جس طرح استعارہ بلیغ تر ہوتا ہے بہ نسبت تشبیہ کے ، لیکن جس طرح استعارہ میں یہ شرط ہے کہ مشبّہ کی طرف جلد ذہن منتقل ہو جانا چاہیے ، اسی طرح تمثیل بھی ایسی ہو نی چاہیے کہ اسے سن کر ممثل کی طرف انتقالِ ذہن ہو جائے۔ مثلاً یوں کہیں کہ : جیسابیج بوؤگے ویسا پھل کھاؤگے۔ اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ جیسا کروگے ویسا پاؤ گے۔ اور ممثل کا ترک کر نا اس سبب سے بہتر ہوتا ہے کہ ایسا ابہام جس کے بعد انکشاف فوراً ہو جائے ذہنِ سامع کو لذّت بخشتا ہے۔ اور یہ لذّت اس لذت سے بڑھی ہوئی ہے جو ذکرِ ممثل سے حاصل ہوتی۔
آرایش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دایم نقاب میں
’ نقاب ‘ استعارہ ہے حجابِ قدس سے ، اور آئینہ اس میں علمِ ما یکون و ما کان ہے ، اور آرایشِ جمال سے فارغ نہ ہوناتفسیر کلُّ یومٍ ھو فی شانَ ہے۔
ہیں زوال آمادہ ، اجزا آفرینش کے تمام
مہرِگردوں ،ہے چراغِ رہگذارِ باد ، یاں
’ باد ‘ استعارہ ہے زمانے کے تجدّد و مرور سے۔ غیر محسوس کومحسوس سے تشبیہ دی ہے اور پھر وجہِ شبہ حرکت ہے۔ اس سبب سے یہ استعارہ بہت ہی بدیع ہے۔
یارب ، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
مضمون تو یہ ہے کہ اپنے مٹنے کو حرفِ غلط کے مٹنے سے تشبیہ دی ہے۔ لیکن اگر یوں کہتے کہ زمانہ مجھے حرفِ غلط کی طرح مٹائے دیتا ہے تو اس قدر بلیغ نہ ہوتا جس قدر کہ اب بلیغ ہے ، اور بلاغت کی وجہ زیادتیِ معنی ہے۔ یعنی اب اتنے معنی اور بڑھے ہوئے ہیں کہ باوجودیکہ میں حرفِ مکرر نہیں ہوں اور کوئی وجہ میرے مٹانے کی نہیں ہے زمانہ مجھے مٹا رہا ہے۔ اس شعرسے یہ نکتہ سمجھنا چاہیے کہ ایک تشبیہِ مبتذل میں زیادتیِ معنی پیدا کرنے کا کیا طریقہ ہے ، اور پھر زیادتیِ معنی سے کس قدر بلاغت بڑھ جاتی ہے۔
بسکہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیۂ چاکِ گریباں ہوگئیں
اس شعر میں آہ کے بار بار ابھرنے کو اور بار بار ضبط کرنے کو رشتۂ بخیہ گرکی حرکت سے تشبیہ دی ہے ، یعنی متحرک کی متحرک سے تشبیہ ہے اور وجہِ شبہ حرکت ہے۔ لیکن آہ کے لیے ایسی حرکت محض ادّعاے شاعرانہ ہے اس سبب سے یہ تشبیہ ویسی بدیع نہیں ہے جیسے اور شعر تشبیہِ متحرک کے گذر چکے ہیں اور باعتبار مضمون کے شعر بے معنی ہے۔ فارسی و اردو کے شعرا آنکھ بند کر کے ایسے مضمون کہا کرتے ہیں۔ یہاں بخیہ اور سینہ میں جو ضلع بول گئے ہیں لطف سے خالی نہیں۔
بقدرِ حسرتِ دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی
بھروں اک گوشۂ دامن گرآبِ ہفت دریا ہو
عاصی کو تر دامن کہنا اصطلاحِ فارسی ہے ، آبِ ہفت دریا سے کثرتِ معاصی کا استعارہ ہے۔
نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اُس جراحت پر
کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگانِ سوزن کو
سوزن سے سوزنِ غم مراد ہے جس کا مقام سینے کے اندر ہے اور سوزن سے یہ استعارہ نہ لیں تو شعر عامیانہ ہو جائے گا جیسے نا فہم شعرا غیر واقعی باتیں نظم کر دیا کرتے ہیں۔ ہاں اگر سینہ کی جگہ سینا سمجھو تو استعارہ کی ضرورت نہیں۔
شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خومجھ کو
جہاں تلوار کو دیکھا جھکا دیتا تھا گردن کو
تلوار استعارہ ہے ناز و ادا و جور و جفا سے ، اور گردن جھکانا کنایہ ہے گوارا کرنے سے اور شہادت سے خونِ آرزو مراد ہے۔اور اگر معنیِ حقیقی پر ان لفظوں کو لیں تو شعر کا کوئی محصل نہیں رہتا۔
مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے
آنکھ کی میخانہ سے اور بھوں کی محرابِ مسجد سے تشبیہ مشہور ہے۔ مصنف نے یہاں جدت یہ کی ہے کہ اس تشبیہ کا عکس لیا ہے۔ قبلۂ حاجات مسجد کے ضلع کا لفظ ہے لیکن بڑے محاورے کا لفظ ہے۔ اور بات یہ ہے کہ جہاں محض ضلع بولنے کے لیے محاورے میں تصرف کرتے ہیں وہاں ضلع برا معلوم ہوتا ہے اور جب محاورہ پورا اترے تو یہی ضلع بولنا حسن دیتا ہے اور ہر صنعتِ لفظی کا یہی حال ہے۔
خیالِ مرگ کب تسکیں دلِ آزردہ کو بخشے
مرے دامِ تمنّا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی
’ بخشیدن ‘ فارسی مصدر ہے۔ اس سے اردو میں بخشنا بنا لیا ہے ، جیسے بخشنا اور تجویزنا اور خریدنا۔ مگر ایسے لفظ کے استعمال کو کسی قدر غیر فصیح سمجھتے ہیں۔ اس شعر میں تمنّا کی تشبیہ حال سے اور خیالِ مرگ کی تشبیہ ایک مریل شکار سے محسوس کی غیر محسوس سے تشبیہ ہے۔ اور پھر وجہِ شبہ مرکّب۔ اس سبب سے تشبیہ بدیع ہے
نہ اتنا بر شِ تیغِ جفا پر ناز فرما ؤ
مرے دریائے بے تابی میں ہے اک موجِ خوں وہ بھی
موج کی تشبیہ تلوار سے مبتذل ہے۔ اسے دریاے بیتابی کی موجِ خوں کہہ کر جدّت پیدا کی ہے۔
ہے کاینات کو حرکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے
اس شعر میں ذرّے کے جان دار ہونے نے بڑا لطف دیا یعنی اس کو ذی روح سے تشبیہ دی اور وجہِ شبہ حرکت ہے۔
مری ہستی فضائے حیرت آبا دِ تمنّا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے
اپنی ہستی کو فضا سے تشبیہ ، زماں کی مکان سے تشبیہ ہے اور وجہِ شبہ امتداد ہے جو دونوں میں پایا جاتا ہے۔
رحم کر ظالم ، کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے
نبضِ بیمارِ وفا دودِ چراغِ کشتہ ہے
پہلے مصرع میں چراغِ کشتہ استعارہ ہے بیمارِ وفا سے۔ اور دوسرے مصرع میں معنیِ حقیقی پر ہے۔ نبض کو دودِ چراغِ کشتہ سے تشبیہ متحرک با متحرک ہے۔ وجہِ شبہ میں حرکت ہے یعنی سرد ہونا ، کمزور ہونا ، بتدریج کم ہوتے جانا وغیرہ۔جتنے یہ سب صفات بجھے ہوئے چراغ کے دھوئیں میں ہیں وہ سب دم نکلتے وقت نبضِ بیمار میں ہوتے ہیں۔ انصاف یہ ہے کہ متحرک کی تشبیہ میں مصنف کو یدِ طولیٰ ہے۔اطبّا اس وقت کی نبض کو ’ دودی ‘ کہتے ہیں یعنی کیڑے کے رینگنے سے تشبیہ دیتے ہیں کہ عربی میں دود کیڑے کو کہتے ہیں۔ (اس وقت کی نبض کو’ نملی ‘ بھی کہتے ہیں۔ مرآۃ الغالب : بیخود دہلوی ص ۲۲۲ )دونوں تشبیہوں کے مقابلے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی تشبیہ اس سے زیادہ تر بدیع ہے۔
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے
یعنی حالتِ آرمیدگی و ترکِ ہرزہ گردی میں نکوہش و سر زنش کا میں سزاوار ہوں کہ وطن میں صبح مجھے نہیں ہوتی بلکہ میری حالت پر خندۂ دنداں نما ہوتا ہے۔ خندۂ صبح مشہور استعارہ ہے۔
ڈھونڈھے ہے اس مغنی ِّ آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے
یعنی ایسے سماع کو جی چاہ رہا ہے جس کے سننے سے وہ حال آئے کہ فنا فی الذات ہو جاؤں۔ ’ آواز کی روشنی ‘ اور ’زمزمے کا لہرا ‘ مل کر وجہِ شبہ مرکّب ہوئی اور ترکیب وجہِ شبہ پہلی خوبی ہے اس تشبیہ کی۔ بعد اس کے یہ ترقی ہے کہ حرکت بھی وجہ میں داخل ہے۔ پھر طرفینِ تشبیہ کو دیکھیے : ایک مسموع ہے ، دوسرا مبصرہے گو دونوں محسوس ہیں۔ لیکن ایسا یوں بعید ہے کہ تشبیہ محسوس بہ معقول کا لطف پیدا ہے۔ مگر اس شعر میں یہ کہنا کہ ایسا ہو ، ویسا ہو ، شعر کو سست کر دینا ہے۔ اس کے بر خلاف اگر اس مضمون کو انشا میں ڈھالا ہوتا اور یوں کہتے کہ ’ تیری صدا ہے جلوۂ برقِ فنا مجھے ‘ تو زیادہ لطف دیتا۔
نظّارہ کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا
جوشِ بہار، جلوے کو جس کی نقاب ہے
جوشِ بہار ظہورِ عالم سے استعارہ ہے۔
ہاتھ دھو دل سے ، یہی گرمی گر اندیشے میں ہے
آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے
دل کو آبگینہ سے تشبیہ دی ہے۔
سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسدؔ
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
یعنی میری وہ حالت ہے کہ سایہ تک ساتھ نہیں دیتا۔ یہ سارا مضمون تو محاورہ ہے لیکن مصنف نے اسے تشبیہات سے رنگاہے۔ اپنے تئیں آتش بجاں کہا ہے یعنی اپنے اضطراب و بے چینی کو اس شخص کے تڑپنے سے تشبیہ دی ہے جو آگ میں گرپڑا ہو اور سایہ کودُھویں سے تشبیہ دی ہے۔ ان تشبیہوں کے علاوہ اس شعر میں اس توجیہ نے بڑا لطف دیا کہ دُھویں کے اٹھنے کو آگ سے بھاگنا قرار دیا۔
وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحرگئی
اس شعر کے الفاظ معنیِ حقیقی پر محمول کریں تو کچھ لطف نہیں۔غالباً مصنف کو استعارہ مقصود ہے۔ یعنی بادۂ شبانہ سے نشۂ شراب اور سحر سے پیری کا استعارہ ہے ، اور اٹھیے کا خطاب اپنے نفسِ غافل کی طرف ہے۔
نظارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھرگئی
نگاہ کو تار سے اور رشتے سے تشبیہ مشہور بات ہے۔ تازگی یہاں یہ ہے کہ رشتۂ نگاہ کے تا ر تار کھل کر ان سے نقاب بن گئی۔ اور جس تشبیہ میں اس طرح کے معنی صیرورت ہوں جو وجہِ شبہ کے گھٹانے سے یا بڑھانے سے پیدا ہو گئے ہوں وہ تشبیہ نہایت لذیذ ہوتی ہے اور سننے والے کے ذہن میں استعجاب کا اثر پیدا کرتی ہے۔ ’ ہر ‘ کا لفظ یہاں پورانقاب بنانے کے لیے مصنف نے صَرف کیا ہے۔ مطلب شعر کا یہ ہے کہ تیرا رخ دیکھ کر ایسی از خود رفتگی ہوئی کہ لذّتِ دید سے سب محروم ہو گئے۔
دل ، ہواے خرامِ ناز سے پھر
محشرستانِ بے قرا ری ہے
وجہِ مناسبت یہ ہے کہ خرام کو محشر سے تشبیہ دیا کرتے ہیں۔
جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی
شعلہ کی تشبیہ زبان سے مشہور ہے۔۔۔۔ ’ داغ ‘ کو نقد کہا یعنی روپیے اشرفی سے اسے تشبیہ دی۔۔۔ یہ تشبیہیں نہایت لطیف ہیں
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
لفظ کی تشبیہ طلسم سے نہایت بدیع ہے۔
اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
انگشت کا مہندی سے لال ہوکر لہو کی بوند ہو جانا کیا اچھی تشبیہ ہے۔ دیکھو تشبیہ سے مشبّہ کی تزیین و تحسین اکثر مقصود ہوتی ہے۔ یہ غرض یہاں کیسی حاصل ہوئی کہ سر انگشت کی خوبصورتی آنکھ سے دکھا دی۔ دوسری خوبی اس تشبیہ میں یہ ہے کہ جس انگلی کی پور لہو کی بوند برابر ہو وہ انگلی کس قدر نازک ہوگی اور کنایہ ہمیشہ تصریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ پھر یہ حسن کہ وجہِ شبہ یہاں مرکب بھی ہے۔ یعنی بوند کی سرخی اور بوند کی شکل ان دونوں سے مل کر وجہِ شبہ کو ترکیب حاصل ہوئی ہے اور ترکیب سے تشبیہ زیادہ بدیع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ادا ۃِ تشبیہ کے حذف و ترک سے تشبیہ کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ مصنف نے بھی حذف ہی کیا ہے سب سے بڑھ کر یہ نئی تشبیہ ہے۔ کسی نے نہیں نظم کی۔ پھر یہ شانِ مشّاقی دیکھیے کہ نئی چیز پا کر اس پر اکتفا نہ کی۔ اسی تشبیہ میں سے ایک بات یہ نکالی کہ دل میں ایک بوند تو لہو کی دکھائی دی۔ پھر کجا تصور ، کجا لہو کی بوند ، دونوں میں کیسا بیّن بُعدہے۔ اور تباینِ طرفین سے تشبیہ میں حسن اور غرابت زیادہ ہو جاتی ہے۔ ’ تو ‘ کی لفظ نے مقامِ کلام کو کیسا ظاہر کیا ہے۔ یعنی یہ شعر اس شخص کی زبانی ہے جس کا لہو سب خشک ہو چکا ہے۔ وہ اپنے دل کو ایک خیالی چیز سے تسکین دے رہا ہے۔ترکیبِ وجہِ شبہ کے متعلق یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ جس طرح بوند کے معنی میں ٹپک پڑنا داخل ہے یہی حال تصور کا خیال سے اتر جانے میں ہے۔ یعنی حرکت وجہِ شبہ میں داخل ہے۔ گو طرفینِ تشبیہ متحرک نہیں ہیں۔ غرضکہ یہ نہایت غریب و بدیع و تازہ تشبیہ ہے۔
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
’ پردہ چھوڑنا ‘ استعارہ ہے عالمِ امکاں سے، اور اسی استعارے نے مضمونِ شعر کو جلوہ دیا ہے۔
ہے شکستن سے بھی دل نومید یارب ، کب تلک
آبگینہ کوہ پر عرضِ گراں جانی کرے
کوہ استعارہ ہے سختی و شدّتِ غم کا اور دل کو شیشے سے تشبیہ دی ہے۔ لفظ ’ شکستن ‘ نے شعر کو کھنکھنا کر دیا۔ ترکیبِ اردو میں فارسی کے اور الفاظ لے لیتے ہیں لیکن فارسی مصدر کا استعمال سب نے مکروہ سمجھا ہے۔ اور مصنف مرحوم کے سوا اور کسی کے کلام میں نظم ہو یا نثر ، ایسا نہیں دیکھا۔
دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وا بستۂ تن میری عریانی مجھے
اس شعر میں مضمونِ تصوف ہے۔ عریانی استعارہ ہے تجرد سے۔ اور دامن افشانی تنفس سے۔
نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کفِ خاک
آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے
آسمان پر بیضۂ قمری کی پھبتی کہی ہے کہ جس میں کفِ خاک کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس مٹّھی بھر خاک کی قسمت میں بھی عمر بھر کی نالہ کشی لکھی ہوئی ہے۔ اگر یہ کہو کہ بیضۂ قمری کیوں کہا ، بلبل بھی ایک مشتِ خاک ہے کہ نالہ کشی کے لیے پیدا ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فارسی والے قمری کو کفِ خاکستر باندھا کرتے ہیں ، اس لیے کہ اس کا رنگ خاکستری ہوتا ہے۔ صائبؔکہتے ہیں
گر نمی خواہد کہ در پائے تو ریزدرنگِ عشق
سرو از قمری بکف چوں مشتِ خاکستر گرفت
اور خاک اور خاکستر میں کچھ ایسا فرق نہیں ہے۔ ہاں بہ نظرِ دقیق یہ کہہ سکتے ہیں کہ نالہ کا سرمایہ عالم ، اور عالم کا مشتِ خاک ہونا مقامِ عبرت و حسرت ہے۔ اور ایسے مقام پر پھبتی اور دل لگی بے محل ہے۔
آمد بہار کی ہے کہ بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
یعنی نغمۂ بلبل بہار کی اڑتی ہوئی خبر ہے۔ یہ تشبیہ نہایت بدیع ہے اور انصاف یہ ہے کہ نئی ہے۔
گر واں نہیں تو واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
ضابطہ یہ ہے کہ بتوں کا ذکر اسی شعر میں اچھا معلوم ہوتا ہے جہاں حسینوں سے استعارہ ہو۔ نہیں توکچھ بھی نہیں۔ (بتوں کا ذکر حقیقی معنوں پر )ہمیشہ بے لطف ہوتا ہے۔