ارشا داتِ سجاد مرزا بیگ دہلوی:۔
حقیقت ، یا دلالت وضعی ، کے مطابق کلام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ متکلّم لفظوں کے صحیح معنی اور محلّ۱ستعمال، اور زبان کے محاورات اور روز مرّہ سے پوری واقفیت رکھتا ہو۔تحریر و تقریر میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری کام الفاظ کا انتخاب کرنا ہے۔ ہر مطلب اوّل سے آخر تک الفاظ ہی سے ظاہر ہوتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ ادائے مطلب کے لیے با معنی ، صحیح اور بر محل الفاظ تلاش کیے جائیں۔ اچھے مضمون نگار اور شاعر ہمیشہ لفظوں کی بہت چھان بین کیا کرتے ہیں۔
محاورہ:
الفاظ کے معنی کی دو قسمیں ہیں : حقیقی اور مجازی۔جب کوئیکلام ایسے دو یا دو سے زیادہ الفاظ سے مرکّب ہو جو اپنے معنی غیر موضوع لہ پر استعمال ہوتے ہوں تو وہ کلام محاورہ کہلاتا ہے۔جیسے ٹھیک بنانا ، سزا دینا ، ابر کا برس کر کھل جانا وغیرہ۔محاورے کی ایک قسم یہ ہے کہ کلمہ ایک اسم اور ایک فعل سے مرکب ہو اور فعل اپنے حقیقی معنی میں نہیں بلکہ مجازی معنی میں استعمال ہوا ہو، ایسے محاوروں میں ہر اسم کے لیے خاص خاص افعال مقرر ہیں۔ اگر ایک فعل کی جگہ دوسرا فعل رکھ دیں ، یا فعل کو اس کے حقیقی معنی میں لیں تو کلام غلط ہو جاتا ہے۔ مثلاً نقل اتارنا کے بجاے نقل بنانا، طرارے بھرنا کے بجاے طرارے کرنا ، رنگ میں رنگنا کے بجاے رنگ میں کھینچنا وغیرہ۔
کس موقعے پر کون سے الفاظ برتنے چاہییں اس کے لیے کوئی قاعدہ کلیہ مقرر نہیں۔ یہ کلیہ صرف مستند ادیبوں اور شاعروں کے کلام پڑھنے ، لایق اہلِ زبان کے صحبت میں بیٹھنے اور خود غور و فکر کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔اخباروں ، رسالوں اور کم لیاقت ادیبوں اور شاعروں کے من گھڑت الفاظ زبان کو خراب کرتے ہیں۔ محاورات اور الفاظ کی سند ہمیشہ مستند مصنفوں اور عالموں کی زبان سے لینی چاہیے۔ الفاظ کو رواج پانے کے لیے بھی مدّت گذرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور جب تک کسی لفظ کو قبولیت اور پسندِ عام کا رتبہ حاصل نہ ہو وہ عالمانہ اور ثقہ تحریروں میں استعمال کے قابل نہیں ہوتا۔ جس طرح ثقہ و مہذب اور بازاری و غیر مہذب آدمیوں کے اوضاع و اطوار میں فرق ہوتا ہے اسی طرح ان کی زبان اور گفتگو میں بھی فرق ہوا کرتا ہے۔ بازاری الفاظ اگرچہ بہت مروج ہوتے ہیں لیکن مہذب تحریروں اور تقریروں میں ان سے بہت بچنا چاہیے۔
زبان کا با محاورہ ہونا اس کی لطافت کو زیادہ کرتا ہے۔ ہر زبان کا محاورہ اسی کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے۔ دوسری زبان میں اس کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ان کا صحیح استعمال زبان دانی کی دلیل ہے اور زبان دانی کی سادگی اور اصلی حسن بھی محاورے ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔محاورے کی غلطیاں کئی طرح کی ہوتی ہیں : ایک تو یہ کہ محاورہ جن معنیِ غیر موضوع لہ پر استعمال ہوتا ہے نا واقفیت کی وجہ سے اس کے سوا دوسرے معنوں میں اس کا استعمال کیا جائے۔ یا یہ کہ محاورے کے الفاظ بدل دیے جائیں یا محاورے کے الفاظ کے حقیقی معنی لیے جائیں۔ مثلاً ناسخؔ کا شعر ہے
دیکھ کر طاقِ حرم کو جو چڑھاتا ہے بھویں
عشق ہے مجھ کو دِلا اس صنمِ بے دیں کا
محاورہ ’ ناک بھَوں چڑھانا ‘ ہے ، ’ بھویں چڑھانا ‘ نہیں۔۔۔ خواجہ آتش کا شعر ہے
وہم و خیال کے بھی نہ ہاتھ آئے وہ کمر
حجت کا اس دہن کی کسی کو دہن نہ ہو
’ کسی کو دہن نہ ہو ‘ خلافِ محاورہ ہے۔ ’ کس کا منہ ہے ‘ یا ’ منہ نہیں ‘ محاورہ ہے۔
روزمرہ:
روز مرہ اس بول چال اور اسلوبِ بیان کو کہتے ہیں جو خاص اہلِ زبان استعمال کرتے ہیں۔ اس میں قیاس کو دخل نہیں۔ صرف سماعت پر دار و مدار ہے۔در حقیقت روز مرہ فصاحت ہی کا ایک فردِ خاص ہے۔
روز مرّہ کی غلطیاں بھی عام ہیں۔مثلاً آتش ؔ
موسیٰ کو تیرے حکم سے دریا نے راہ دی
فرعوں کو تو نے غرق کیا رودِ نیل کا
’ رودِ نیل میں ‘ صحیح روز مرہ ہے۔
کس کس کو خاک میں نہیں ملوایا آپ نے
کشتہ ہے کون کون تمھارے غرور کا
دوسرے مصرع میں بھی حرفِ نفی ہو نا چاہیے تھا ، کیونکہ عطف کا قاعدہ یہ ہے کہ جب دو فقروں کو حروف نفی کے ساتھ عطف کرتے ہیں تو دونوں فقروں میں حروفِ نفی لاتے ہیں ، مثلاً ’ نہ یار آیا نہ قرارآیا ‘۔
کیا چشمِ مستِ یار سے تشبیہ دیجیے
کیفیتِنگاہ نہیں جام کے لیے
روز مرّہ کے مطابق ’ جام میں ‘ کہنا چاہیے تھا۔
۔۔۔ماخوذ و منقول از ’ تسہیل البلاغت ‘، مؤلفہ سجاد مرزا بیگ دہلوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشاداتِ طباطبائی
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت
’ ہے ‘ اس شعر میں اور ہی معنی رکھتا ہے۔ یہ معنی فرض و وجوب پر دلالت کرتا ہے لیکن مصدر کے ساتھ ان معنی پر زیادہ آتا ہے۔ کہتے ہیں مجھے ایک خط لکھنا ہے اورکئی خط لکھنے ہیں اورکتاب لکھنی ہے اور کتابیں لکھنی ہیں۔ اور لکھنؤ کے بعض شعرا جودعویٰ تحقیق رکھتے ہیں مصدر کو قابلِ تعریف نہیں سمجھتے اور اس کے افراد اور جمع و تذکیر و تانیث کو غلط سمجھتے ہیں وہ یوں کہتے ہیں مجھے ایک خط لکھنا ہے اورکئی خط لکھناہیں اور کتاب لکھنا ہے اور کتابیں لکھنا ہیں لیکن یہ محاورے میں قیاس ہے جو قابلِ قبول نہیں۔ ہے یہ کہ وہ بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح ۔ دونوں طرح بولتے ہیں۔
دَھول دھپاّ اس سرا پا ناز کا شیوہ نہ تھا
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن
’ ہم ہی ‘ اور ’ تم ہی ‘ کی جگہ ’ ہمیں ‘ اور ’ تمھیں ‘ محاورہ ہے۔ میرؔ کہتے ہیں
آخر کو ہے خدا بھی تو اے میاں جہاں میں
بندے کے کام کچھ کیا موقوف ہیں تمھیں پر
’ زمیں ‘ اور ’ نگیں ‘ قافیہ ہے۔ مصنف نے ضرورتِ شعر کے سبب سے ’ ہم ہی ‘ باندھ دیا۔ نثر میں اس طرح کہنا ہرگز نہیں درست لیکن اس کے تتبع میں اکثر لوگ زبان کو خراب کر بیٹھے۔ اور سنو! محاورے میں قیاس نہیں درست ورنہ یہیں اور وہیں کو بھی یہاں ہی اور وہاں ہی کہا کرو۔
کی ہم نفسوں نے اثرِ گریہ میں تقریر
اچھے رہے آپ اس میں مگر ہم کو ڈبو آئے
محاورہ یہ ہے کہ ہم کو اس امر میں کلام ہے یعنی ہم اسے نہیں مانتے۔ مصنف نے یہ تصرف کیا کہ کلام کی جگہ تقریر کہا اور محاورے میں تصرف کرنے سے وہ معنی باقی نہیں رہتے۔
آزادؔ لکھتے ہیں ایک دن میں اوجؔ سے ملا اور استاد مرحوم کے مطلع کا ذکر آیا
مقابل اس رخِ روشن کے شمع گر ہو جائے
صبا وہ دَھول لگائے کہ بس سحر ہو جائے
کئی دن کے بعد جو رستے میں ملے تو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور کہا
یاں جو برگِ گلِ خورشید کا کھڑکا ہو جائے
دَھول دستارِ فلک پر لگے تڑکا ہو جائے
ٔاور کہا کہ دیکھا ، محاورہ یوں باندھا کرتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ طنز کرتے ہیں کہ سحر ہوجائے جو استاد نے باندھا یہ جائزنہیں۔ مگر تجاہل کر کے میں نے کہا کہ حقیقت میں پات کے کھڑکے کا آپ نے خوب ترجمہ کیا اور استعارے میں لا کر۔ میری طرف دیکھ کر ہنسے اور کہا : بھئی واہ ، آخر شاگرد تھے ، ہماری بات ہی بگاڑ دی۔
اس نقل سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوگئی کہ لکھنؤ میں جس معنی پر صبح ہو جانا بولتے ہیں دلّی میں تڑکا ہو جانا محاورہ ہے اور ’ سحر ہو جانا ‘ دونوں جگہ خلافِ محاورہ ہے۔
اس نزاکت کا برا ہو ، وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آویں تو انھیں ہاتھ لگائے نہ بنے
لفظِ ’ نزاکت ‘ کے غلط ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اس وجہ سے کہ نازک فارسی لفظ ہے ، اس کا مصدر نزاکت عربی کے قیاس پر بنا لیا ہے۔ لیکن اساتذۂ فارس کی یہ گڑھت ہے جن کی تقلید آنکھ بند کر کے ارد و والے کرتے ہیں۔ اسی طرح اردو میں بھی چاہنے کا اسمِ مصدرچاہت اور رنگ سے رنگت ، اور ا سی طرح بادشاہت بنا لیا ہے اور محاورے نے اور اساتذہ کے استعمال نے ان سب لفظوں کو صحیح بنا دیا ہے۔
غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
ایک عجب نحوی طلسم زبان اردو میں یہ ہے کہ مصنف نے جہاں پر ’ کی ‘ کو صَرف کیا ہے یہاں محاورے میں ’ کے ‘ بھی کہتے ہیں ، مگر قیاس یہی چاہتا ہے کہ ’ کی ‘ کہیں۔ اسی طرح لفظ ’ طرف ‘ جب اپنے مضاف الیہ پر مقدم ہو تو ’ کی ‘ کہنا صحیح نہ ہوگا۔ مثلاً ع۔۔ پھینکی کمندِ آہ طرف آسمان کے۔اس مصرع میں ’ کی ‘ کہنا خلافِ محاورہ ہے اور پھر لفظِ طرف مؤنث ہے۔ اگر اس لفظ کو مؤخر کرد و تو کہیں گے، آسمان کی طرف۔ اور اگر مقدّم کر دو تو کہیں گے : طرف آسمان کے۔ غرضکہ ایک لفظ جب مقدم ہو تو مذکر ہوجائے ، مؤخر ہو تو مؤنث ہو جائے۔ اسی کی نظیر ’ نذر کرنا ‘ بھی ہے۔
آم کا کون مردِ میداں ہے
ثمر و شاخ گوے و چوگاں ہے
تاک کے جی میں کیوں رہے ارمان
آئے ، یہ گوے ، اور یہ میدان
لفظ، ’ تاک ‘ کو مصنف مرحوم نے بتذکیر باندھا ہے۔۔۔۔ ضابطہ یہ ہے کہ فارسی یا عربی کا جو لفظ کہ اردو میں بولا نہ جاتا ہو ، ا وّل اس کے معنی پر نظر کرتے ہیں۔ اگر معنی میں تانیث ہے تو بتانیث اور اگر تذکیر ہے تو بتذکیر اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں دوسرے اس کے ہم وزن اسما جو اردو میں بولے جاتے ہیں اگر وہ سب مؤنث ہیں تو اس لفظ کو بھی مؤنث سمجھتے ہیں۔ اگر اس وزن کے سب اسما مذکرہیں تواس لفظ کو بھی بتذکیربولتے ہیں۔ اسی بنا پر لفظِ ابرو ، کہ محاورۂ اردو میں داخل نہیں ہے شعرا اکثر مذکّر باندھا کرتے ہیں اس لیے کہ آنسو اور بازو اور چاقو وغیرہ جس میں ایسا واوِ معروف ہے سب مذکر ہیں۔ لیکن ابرو کے معنی کا جب خیال کیجیے تو بھوں مؤنث لفظ ہے۔ اس خیال سے مؤنث بھی باندھ جاتے ہیں۔ اب لفظ تاک کے معنی کا لحاظ کیجیے تو بیل مؤنث ہے ، تاک کو بھی مؤنث ہونا چاہیے۔ اس سے مشابہ و ہم وزن جو اسما اردو میں ہیں وہ بھی مؤنث ہیں ، جیسے خاک ، ناک ، ڈانک ، ہانک ، راکھ ، آنکھ۔ قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ لفظ ’ تاک ‘ کو مؤنث بولنا چاہیے۔
اور میں وہ ہوں کہ گر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا ، خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے
’ مجھے میری اوقات سے نفرت ہے ‘ محاورۂ اردو کی رو سے محض غلط ہے۔ نہ لکھنؤ کی یہ زبان ہے نہ دلّی کی۔ اکبر آباد کی ہو تو ہو۔ اصل میں محاورہ یہ ہے کہ’ مجھے اپنی اوقات سے نفرت ہے‘۔ رہ رہ کے یہی تعجب ہوتا ہے کہ غالبؔکی زبان سے یہ لفظ کیونکر نکلا۔ جن لوگوں کی اردو درست نہیں ہے ان کو اس طرح بولتے سنا ہے۔:میں نے میرا قلم پایا ، تم نے تمھارا قلم پایا۔ ’ اپنے ‘ کے استعمال میں بس وہی لوگ دھوکا کھاتے ہیں۔ اہلِ زبان کبھی بہک کے بھی ’ اپنے ‘ کی جگہ ’ میرا ، تیرا ‘ نہ کہیں گے۔ ضابطۂ کلیہ یہ ہے کہ جو فاعل یا مشبہ فاعل ہو اس کی ضمیر مضاف الیہ ہو کر متعلق نہیں ہو سکتی۔ ایسے موقعوں پر ’ اپنے‘ کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً : ’ زید اس کی زندگی سے بیزار ہے ، مجھے میری زندگی سے نفرت ہے ‘۔ ان دونوں صورتوں میں یوں کہنا چاہیے کہ زید اپنی زندگی سے بیزار ہے ، مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہے۔
رات کو آگ ، او ر دن کو دھوپ
بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار
آگ تاپے کہاں تلک انساں
دھوپ کھاوے کہاں تلک جاں دار
دھوپ کی تابش ، آگ کی گرمی
وقنا ربّنا عذابَ ا لنّار
تینوں شعروں میں آگ اور دھوپ کا لفظ ہے اور لطف سے ہے۔ لیل و نہار کو مصنف نے جمع کر کے باندھا ہے ، مگر اکثر مفرد استعمال کرتے ہیں۔مثلاً اگر یہی لیل و نہار رہا تو زندگی کیوں کر ہوگی ؛ لب و لہجہ اچھا ہے ؛ شعر و سخن سیکھا ؛ بات کا سر پیر نہ ملا ؛ منہ ہاتھ ٹوٹ گیا ؛ لہو پانی ایک ہوا۔
دونوں لفظ مؤنث ہوں تو وہ بھی اسی طرح مفرد ہی بولے جاتے ہیں ، جیسے: خیر و عافیت معلوم ہوئی؛ اس کی آنکھ ناک اچھی ہے۔
نہایت عجیب بات یہ ہے کہ ایک لفظ مؤنث اور دوسرا مذکّر اسے بھی مفرد بولتے ہیں اور اس کے فعل کی تذکیر و تانیث محاورے پر موقوف رہتی ہے۔ مثلاً: اس عورت کا کمر کولا اچھا ہے ؛ بول چال اچھی ہے؛ آسمان و زمین ایک کر دیا ؛ زمین آسمان دوسرا ہو گیا۔
اکثر ایسے بندھے ہوئے محاورے ہیں کہ جمع بول ہی نہیں سکتے اور نحوِ اردو میں غیر ذوی العقول کے لیے اکثر مواقع میں جمع بولنا متروک ہے۔
ہر زبان میں یہ بات ہے کہ جس طرح ادنیٰ درجے کے لوگوں کی زبان اچھی نہیں ہوتی اسی طرح لکھے پڑھے ہوئے لوگ بھی بعض الفاظ کا خلط کرتے ہیں ، بعض محاورات کی تصحیح کرتے ہیں اور زبان کو خراب کر ڈالتے ہیں۔بعض اشخاص محاورے میں نحوی یا لغوی قیاس کو دخل دے کر خرابی کرتے ہیں۔۔۔۔ اور علما کی زبان تو سب سے زیادہ بگڑی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ علوم و فنون کے اصطلاحات اپنے محاورات میں داخل کرتے ہیں اپنی زبان کی نحو و ترتیب کلمات کو بھول جاتے ہیں۔ لفظی ترجمہ کرتے کرتے غیر زبان کی نحو اپنی زبان میں جاری کرنے لگتے ہیں۔
اہلِ ادب کا اتفاق ہے اس بات پر کہ جس تقریر و تحریر میں اصطلاحات کا زیادہ خرچ ہو اس سے بڑھ کر کوئی مکروہ زبان نہیں ہو سکتی اور اہلِ فن کا یہ حال ہے کہ اس قدر اصطلاحات وضع کیے ہیں کہ ان کی ایک نئی زبان ہو گئی ہے کہ اصطلاحات یاد کرنے میں ادب سے محروم رہ جاتے ہیں۔
شرحِ کلامِ غالب از طباطبائی
میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
’پرے ‘ کا لفظ اب متروک ہے۔ لکھنؤ میں ناسخ ؔکے زمانے سے روزمرہ میں عوام الناس کے بھی نہیں ہے۔ لیکن دلّی میں ابھی تک بولا جاتا ہے اور نظم میں بھی لاتے ہیں۔ میں نے اس امر میں نواب مرزا خان داغ ؔسے تحقیق چاہی تھی۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ لوگوں کی خاطر سے (یعنی لکھنؤ والوں کی خاطرسے )اس لفظ کو چھوڑ دیا مگر یہ کہا کہ مومن خاں صاحب کے اس شعر میں
چل پرے ہٹ ، مجھے نہ دکھلا منھ
اے شبِ ہجر تیرا کالا منھ
اگر پرے کی جگہ ادھر کہیں تو برا معلوم ہوتا ہے۔ میں نے یہ کہا کہ’ پرے ہٹ‘ بندھا ہوا محاورہ ہے اس میں پرے کی جگہ اُدھر کہنا محاورے میں تصرف کرتا ہے اس سبب سے برا معلوم ہوتا ہے ورنہ پہلے جس محل پر ’چل پرے ہٹ‘ بولتے تھے اب اسی محل پر ’دور بھی ہو‘ محاورہ ہو گیا ہے۔ اس توجیہ کو پسند کیا اور مصرع کو پڑھ کر الفاظ کی نشست کو غور سے دیکھا ع۔۔ ’ دور بھی ہو مجھے نہ دکھلامنھ ‘ اور تحسین کی۔(سجاد مرزا بیگ دہلوی کے بموجب ’ ورے ‘ اور ’ پرے ‘ دونوں لفظ اہم ہیں اور ہرگز قابلِ ترک نہیں۔ الفاظ کے ترک و اختیار کی بحث آپ مقالہ ’’ دہلی اور لکھنؤ کی زبان ‘ ‘ میں پڑھ آئے ہیں۔ یہاں متعلقہ اقتباس کا اعادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
سجاد بیگ فرماتے ہیں :۔ ’’ورے اور پرے کو سرے سے زبان سے نکال ہی ڈالا۔ اگر ایک خطِ مستقیم میں کئی چیزیں ہوں تو اہلِ زبان قریب کے لیے ورے اور بعید کے لیے پرے کہتے ہیں۔ ان لفظوں کی بجاے اِدھر اُدھر ، دور نزدیک خواہ کوئی بھی لفظ رکھ دو ایک سیدھ میں ہونے کا مفہوم جو ورے اور پرے میں ہے نہیں پیدا ہوتا۔‘‘ )
شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
’ ہر رنگ ‘ کے معنی ہر حال میں اور ہر طرح سے۔ اگر یوں کہتے کہ شوق ہر طرح رقیب سروساماں نکلا یا شوق بے طرح رقیب سرو ساماں نکلا جب بھی مصرع موزوں تھا لیکن تصویر کے مناسبات میں سے رنگ گو سمجھ کر ’ہر رنگ ‘ کہا اور ہر طرح و بے طرح کو ترک کیا۔ مناسبت کے لیے محاورے کا لفظ چھوڑ دینا اچّھا نہیں۔
نا لۂ دل نے دیے اوراقِ لختِ دل بباد
یادگارِ نالہ اک دیوانِ بے شیرازہ تھا
’ بباد دادن ‘ فارسی کا محاورہ ہے ، ارد و میں برباد کرنا کہتے ہیں۔
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنہٗٔ فریاد آیا
دوسرے مصرع میں ’آیا ‘ ’ ہوا ‘ کے معنی پر ہے۔ فارسی کا محاورہ ہے ، اردو میں اس طرح محاورہ نہیں بولتے۔
سادگی ہائے تمنّا یعنی
پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا
پہلے مصرع میں سے ’ دیکھو ‘ محذوف ہے۔
عذرِ واماندگی اے حسرتِ دل
نالہ کرتا تھا ، جگر یاد آیا
’ قبول کر ‘پہلے مصرع میں محذوف ہے۔ اور اس قسم کے محذوفات فارسی میں ہوتے ہیں۔ اردو کی زبان اس کی مساعد نہیں۔ حذف سے شعر میں حسن پیدا ہوجاتا ہے مگر اُسی جگہ جہاں محاورہ میں حذف ہے۔
پیشے میں عیب نہیں ، رکھیے نہ فرہاد کو نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا
’ ہم ہی ‘ اور ’ تم ہی ‘ اور ’ اس ہی ‘ اور ’ ان ہی ‘ کی جگہ پر ہمیں ، اور تمھیں اور اسی اور اُنھیں اب محاورے میں ہے اور یہ کلمات اپنی اصل سے تجاوز کر گئے ہیں۔
میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی ، کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
’ ہوں ‘ محذوف ہے ، یعنی ’ میں ہوں ‘ اور وہ دل جو دشمنِ عافیت ہے۔ ظاہر ہے کہ آفت کوئی ایسی شے نہیں ہے جس کا ٹکڑا بھی ہو مگر محاورے میں قیاس کو دخل ہی نہیں۔ اسی طرح پری کا ٹکڑا، حور کا ٹکڑا بھی محاورہ ہے۔ چاند کا ٹکڑا البتہ معنی رکھتا ہے اور پہلے بھی محاورہ تھا ، اس کے بعد پری کا ٹکڑا اور حور کا ٹکڑا اور آفت کا ٹکڑا اسی قیاس پر کہنے لگے اور اب سب صحیح ہیں۔
گرنہیں نکہتِ گل کو ترے کوچے کی ہوس
کیوں ہے گردِ رہِ جولانِ صبا ہو جانا
یعنی پھر فعل اس کا کیوں ہے کہ صبا کی گردِ راہ بن جاتی ہے یعنی صبا کے ساتھ تیرے کوچے میں آنے کی ہوس رکھتی ہے۔ ردیف محاورے سے گری ہوئی ہے۔
نفس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
ا گر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ
یعنی آرزو کا دم بھرے جا ، اس سے علٰحدہ نہ ہو۔ اگر شراب کھینچنے کو نہیں ملتی تو اس کا انتظار ہی کھینچ۔ ’ کھینچ ‘ کی لفظ شراب اور انتظار دونوں سے تعلّق رکھتی ہے لیکن انتظار کھینچنا تو اردو کا بھی محاورہ ہے ، شراب کھینچنا فارسی کا محض ترجمہ ہے کہ مے کشیدن وہ لوگ شراب پینے کے معنی میں بولتے ہیں۔ اسی طرح سے دو شعروں کے بعد مصنف نے کہا ہے ؛ ع۔۔بکوریِ دل و چشمِ رقیب ساغر کھینچ۔ اور یہ بھی محاورۂ اردو کے خلاف ساغر کشیدن کا ترجمہ ہے اور ساغر کا پینا مراد لیا ہے۔
مرے قدح میں ہے صہبائے آتشِ پنہاں
بروئے سفرہ کبابِ دلِ سمندر کھینچ
یعنی جب شراب چھپی ہوئی آگ کی ہے تو کباب بھی سمندر کے دل کا چاہیے کہ دل بھی باطنی شے ہے۔ کباب نے یہاں کچھ مزہ نہ دیا۔ ’ کھینچ ‘ ترجمہ ہے ، دستر خوان پر چن دے یا لگا دے محاورۂ اردو ہے۔
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد
چھٹنا اور چھوٹنا ایک ہی معنی پر ہے ، الف تعدیہ بڑھانے کے بعد ’ ٹ ‘ کا ’ ڑ ‘ کر دینا فصیح ہے یعنی چھڑانا فصیح ہے اور چھٹانا غیر فصیح۔ اور چھوڑنا اور چھڑانا دونوں متعدی ہیں ۔ چھوٹنا سے چھوڑنا متعدی بیک مفعول ہے جیسے پھوٹنا سے پھوڑنا اور ٹوٹنا سے توڑنا اور چھڑانا متعدی بہ دو مفعول ہے۔ بعض متبعینِ زبانِ دہلی کے کلام میں چھٹوانا دیکھنے میں آیا ہے ، اہلِ لکھنؤ اس طرح نہیں کرتے۔
جگر ِ تشنۂ آزار ، تسلّی نہ ہوا
جوئے خوں ہم نے بہائی بُنِ ہر خار کے پاس
’ جگر تسلّی نہ ہوا ‘ خلافِ محاورہ ہے۔
فروغِ حسن سے ہوتی ہے حل ہر مشکلِ عاشق
نہ نکلے شمع کے پا سے نکالے گر نہ خار آتش
شمع کے ڈورے کو خارِ شمع کہتے ہیں اور اس خار کا نکالنے والا شعلۂشمع ہے۔ اور’ حل ‘ کو بتانیث باندھا ہے ، شاید ’ مشکل ‘ کے ہمسایہ میں ہونے سے دھوکا کھایا ورنہ محاورہ یہ ہے کہ میں نے اس کتاب کا حل لکھا۔
سر کھجاتا ہے جہاں زخم پھر اچھا ہو جائے
لذّتِ سنگ باندازۂ تقریر نہیں
’ جہاں ‘ اس شعر میں ’ جس وقت ‘ کے معنی پر ہے اور اصل میں یہ لفظ ’ جس جگہ ‘ کے معنی کے لیے موضوع ہوا ہے مگر محاورے میں معنی ’جہاں ‘ کے لیے بھی بول جاتے ہیں۔ باندازۂ تقریر نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس قدر بیان کو وسعت ہے لذتِ سنگ اس سے کہیں زیادہ ہے۔
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول، ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِمیرؔ نہیں
غالبؔ اور میرؔ دونوں بزرگ اکبر آبادی ہیں یعنی زبان آنے کی عمر دار السلطنت اکبر آباد میں گذری۔ نواب مصطفیٰ خاں شیفتہؔ، غالبؔ مرحوم کو لکھتے ہیں : ’ سابقاً مستقر الخلافۃ اکبر آباد از استقرارش سر گرمِ ناز بود ، اکنوں دار الخلافۃ شاہ جہاں آباد بدیں نسبت غیرت افزاے صفاہاں و شیراز ‘۔۔۔۔۔ اور میر محمد حسین صاحب آزادؔ میر محمّد تقی میرؔ کو لکھتے ہیں : باپ کے مرنے کے بعد(اکبر آباد سے )دلّی میں آئے۔ اور ’گلشنِ بے خار ‘ میں ہے: ’ میرؔ از اہلِ اکبر آباد است۔ در بدوِ حال بہ شاہجہاں آباد آمد ، تمتع نیافتہ ناکام برگشتہ در لکھنو ٔ می گزرانید و ما یحتاج از سرکار نواب وزیر المما لک بہادر یافت۔ ہم دراں جا بسیرِ ملکِ عدم شتافت ‘۔اب اگر غالبؔ کو دہلوی کہو تو میرؔ کو لکھنوی کہنا ضرور ہے مگر ان دونوں استادوں کی زبان یہ کہہ رہی ہے کہ نہ وہ دہلوی ہیں نہ یہ دہلوی ہیں۔ اور اردو زبان کا حال ایک لفظ سے معلوم ہوجاتا ہے ، زیادہ تفحص کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرؔ مرحوم کے محاورے میں سارے دیوان میں جا بجا ’ اور ‘ کا لفظ ’طرف ‘ کے معنی پر ہے حالانکہ دہلی کی زبان میں یہ لفظ کبھی نہ تھا۔ مرزا غالبؔ مغفور فرماتے ہیں : ایک دل تس پر یہ نا امّید واری ہاے ہاے ۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ’ پارسلوں کا چھٹویں ساتویں دن پہونچنا خیال کر رہا ہوں ‘۔ ایک جگہ لکھتے ہیں : پلنگ پرسے کھسل پڑا کھانا کھا لیا۔۔۔ حالانکہ ان کے معاصرین میں کسی کی زبان پر دہلی و لکھنؤ میں یہ الفاظ نہ تھے۔ انصاف یہ ہے کہ یہ دونوں زبانِ اکبر آباد کے لیے مایۂ فخر و ناز ہیں۔ دو ایک لفظوں کے نامانوس ہونے سے ان کی زبان پر حرف نہیں آ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔ جن باتوں پر کہ اب دارو مدار استادی کا آرہا ہے وہ عروضِ سیفی اور غیاث اللغات کی صفحہ گردانی ہے۔ یہ دونوں بزرگ محاورے کے آگے نہ غلطی کی پروا کرتے تھے نہ قواعد کا خیال رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔ غرض کہ قدر شناسیِ فن اور محبتِ وطن دونوں امر اس بات کے مقتضی ہوئے کہ غالبؔ نے ناسخؔ کے ساتھ اس عقیدے میں اتفاق کیا کہ، ع۔۔ آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں ‘۔
دل آشفتگاں ، خالِ کنجِ دہن کے
سویدا میں ، سیرِ عدم دیکھتے ہیں
’ سیر ‘ عربی لفظ ہے اور چلنے کے معنی پر عربی میں مستعمل ہے لیکن فارسی و اردو میں تماشے کے معنی پر مستعمل ہے۔ مصنف نے یہاں اہلِ عجم کے مذاق کے موافق نظم کیا ہے اور اس سبب سے لفظِ سیر کی اضافت درست ہے۔
تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں
فارسی والے کہتے ہیں : مددے ،یعنی مدد کر ؛ نگاہے یعنی نگاہ کر ؛ تماشائے یعنی تماشا دیکھ ؛ زخمے یعنی زخم لگا ؛ دستے یعنی ہاتھ پکڑ۔ اسی مذاق کے موافق مصنف نے یہاں فعل کو محذوف کیا ہے۔۔۔ لیکن اردو میں خالی ’ تماشا ‘ کہہ دینا محاورہ نہیں ہے۔
میں اور حظِّ وصل ، خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
یعنی مجھ کو اور حظِّ وصل حاصل ہو ! ایسے غیر مترقب امر پر اظہارِ تعجّب میں فعل کا حذف محاورے میں ہے۔ اسی طرح مقامِ مبالغہ میں بھی فعل کو حذف کرتے ہیں۔ جیسے : یہ ہاتھ اور ایسی تلوار۔ ’دینی ‘ مصدر مؤنث ہے۔
شاہدِ ہستیِ مطلق کی کمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ہے ، پر ہمیں منظور نہیں
مصنف نے لفظ ’ منظور ‘ کو یہاں مبصر و مرئی کے معنے پر استعمال کیا ہے۔ محاورہ اس کے مساعد نہیں۔
عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خوب
ہم کو تسلیم نکو نامیِ فرہاد نہیں
ہم کو تسلیم نہیں یعنی ہمارے نزدیک مسلّم نہیں یعنی مصدر کو بہ معنیِ مفعول استعمال کیا ہے اور عربی کے مصدر اکثر اردو میں اس طرح لوگ استعمال کیا کرتے ہیں ، جیسے کہتے ہیں : مطلب حصول ہوا یعنی حاصل ہوا۔؛ راز افشا ہوا یعنی فاش ہوا۔ لیکن جو لوگ عربی داں ہیں وہ ایسی عبارت سے احتراز کرتے ہیں اور محاورہ بگاڑ لیتے ہیں۔
زمانہ سخت کم آزار ہے بجانِ اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقّع زیادہ رکھتے ہیں
’ سخت ‘ کا استعمال بہت کے معنی پر فارسی کا محاوہ ہے ، اردو میں بہت کم مستعمل ہے۔
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
’ سخت قریب ‘ محاورہ فارسی میں بہت قریب کے معنی پر ہے۔
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں
لفظ ’ کافر ‘ میں اہلِ زبان ’ ف ‘ کو زیر پڑھتے ہیں لیکن عجم کا محاورہ زبر ہے۔ اسی سبب سے اس کو ساغر کے ساتھ قافیہ کرتے ہیں۔یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ ضرورتِ قافیہ کے لیے مکسور کو مفتوح کر لینا درست ہوگا بلکہ (یہ لفظ)‘مخصوص سمجھنا چاہیے اس حکم کے لیے۔
دی سادگی سے جان ، پڑوں کوہکن کے پانؤ
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے پیر زن کے پانؤ
کسی کی مصیبت پر جوشِ محبت میں کہتے ہیں کہ : ہے ہے ، میں اس کے پاؤں پڑوں۔ اور یہ بڑے محاورے کا لفظ ہے۔ اور التجا کے لیے تو پاؤں پڑنا مشہور بات ہے۔
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو
لفظ ’ پیہم ‘ باضافت و بلا اضافت دونوں طرح صحیح ہے لیکن اردو کا محاورہ یہی ہے کہ اس لفظ کو بے اضافت بولتے ہیں۔ فارسی عربی کے جتنے لفظ ذو وجہین ہیں ان میں محاورۂ اردو کا اتباع کرنا ضرور ہے ورنہ مخلِّ فصاحت ہوگا۔
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا ، پھر کہو تو کیونکر ہو
اس غزل کے اکثر شعروں میں ’ کیونکر ہو ‘ لکھنؤ کے محاورے سے الگ ہے۔ یہاں ’کیونکر ہو ‘ مصنف نے اہلِ دہلی کی طرح ’کیا ہو ‘ کی جگہ پر کہا ہے۔
ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گو مگو تو کیونکر ہو
اس شعر میں ’ کیونکر ہو ‘ کی جگہ ’ کیونکر بنے ‘ محاورے میں ہے۔
الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک د و تو کیونکر ہو
یہاں بھی ’ کیونکر ہو ‘ مصنف نے’ کیونکر بنے ‘ کی جگہ پر کہا ہے۔
بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے باندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی
اردو کی زبان متحمل نہیں ہے کہ ’ چکیدن ‘ کا لفظ اس میں لائیں مگر مصنف پر فارسیت غالب تھی ، اس سبب سے وہ نامانوس نہ سمجھے۔
نہ کرتا کاش نالہ ، مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہوگا باعثِ افزایشِ دردِ دروں وہ بھی
پہلا مصرع محاورے میں ڈھلا ہوا ہے لیکن دوسرے مصرع پر فارسیت بے طرح غالب آتی ہے۔ ہمدم کا لفظ نالہ کے مناسب ہے ورنہ یہاں ’ پہلے ‘ کا لفظ یا ’ ناصح ‘ کا لفظ بھی کھپ سکتا تھا۔
نہ لائی شوخیِ اندیشہ تابِ رنجِ نومیدی
کفِ افسوس ملنا عہدِ تجدیدِ تمنّا ہے
یہاں مصنف نے تفنّنِ کلام کی راہ سے ’ تجدیدِ عہدِ تمنّا‘ کے بدلے ’ عہدِ تجدیدِ تمنّا ‘ کہا ، گو محاورے سے الگ ہے لیکن معنی درست ہے۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ دھوکا کھایا۔ جیسے ’ اصلاح ذات البین ‘ کے مقام پر ایک خط میں ’ اصلاح بین الذاتین ‘ لکھ گئے ہیں۔ وہ فقرہ یہ ہے؛ اگر خدا نخواستہ مجھ میں اور مولوی صاحب میں رنج پیدا ہوتا تو آپ بہت جلد اصلاح بین الذاتین کی طرف توجہ کرتے۔
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی
’ ’اے وہ ‘ ‘ کا لفظ اس میں بہت رکیک ہے۔ اہلِ زبان ہی اس کو سمجھیں گے۔
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے
تہمت ہونا ، تہمت کرنا ، تہمت دھرنا ، تہمت باندھنا ، تہمت بنانا ، تہمت لگانا یہ سب محاورے میں ہے مگر تہمت تراشنا مصنف نے فقط آرے کی رعایت سے کہہ دیا۔
ضد کی ہے اور بات ، مگر خو بُری نہیں
بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کیے
اب دلّی کی زبان میں بر خلاف لکھنؤ کے سیکڑوں کی لفظ میں نون بھی داخل ہو گیا ہے۔ سیکڑوں کو سینکڑوں کہنے لگے ہیں۔ اسی طرح پراٹھے کو پرانٹھا کہتے ہیں۔
مینائے مے ہے سرو نشاطِ بہار سے
بالِ تدرو جلوۂ موجِ شراب ہے
شعرا کی عادت ہے کہ سرو کے ساتھ قمری کا ذکر کرتے ہیں۔ مصنف نے تدرو کو باندھا اور قمری کو چھوڑ دیا۔ فقط فارسیت مصنف کو اس طرف لے گئی کہ مصطلحاتِ فارسی میں بالِ تدرو ، لکۂ ابر کو بھی کہتے ہیں۔
گرچہ ہے طرزِ تغافل پردہ دارِ رازِ عشق
پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے
اس کے سامنے جا کر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں یعنی از خود رفتہ ہو جاتے ہیں کہ وہ پا جاتا ہے یعنی سمجھ جاتا ہے کہ اس پر جادو چل گیا ، اگرچہ وہ تغافل کا انداز رکھتا ہے تاکہ رازِ دل کا کچھ پردہ رہ جائے۔یہ یاد رہے کہ کھوئے جانا (’ ے ‘ کے ساتھ )از خود رفتگی کے معنی پر ہے۔ اگر کھو جانا کہیں تو یہ معنی نہ پیدا ہوں گے۔
سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسدؔ
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
یعنی میری وہ حالت ہے کہ سایہ تک ساتھ نہیں دیتا۔ یہ سارا مضمون تو محاورہ ہے لیکن مصنف نے اسے تشبیہات سے رنگاہے۔
رنجِ رہ کیوں کھینچیے وا ماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
اس شعر میں معلوم ہوتا ہے ’ کا ‘ کی جگہ ’ کو ‘ کاتب کا سہو ہے۔ اور اس صورت میں معنی صاف ہیں۔ لیکن عجب نہیں کہ ’ کو ‘ ہی کہا ہو تو معنی ذرا تکلف سے پیدا ہوں گے یعنی وا ماندگی کو میرے قدم سے عشق ہو گیا ہے اور وہ نہیں چھوڑتی کہ میں منزلِ مقصود کی طرف جاؤں۔ شعر میں مصنف نے منزل سے راہِ منزل مراد لی ہے۔ چنانچہ ’ میں ‘ کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی محاورے میں منزل کو جب ’ میں ‘ کے ساتھ بولیں تو راہِ منزل اس سے مراد ہوتی ہے اور جب ’ پر ‘ کے ساتھ کہیں تو خودمنزلِ مقصود مراد ہوتی ہے اور فارسی والوں کے محاورے میں عشق بہ معنی سلام و نیاز بھی ہے۔ اور اس صورت میں ’ کو ‘ صحیح ہے۔ یعنی ہم واماندگی کے نیاز مند ہیں کہ اس کی بدولت : اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے۔(بیخودؔ دہلوی : ’ واماندگی کو ہم سے عشق ہو گیا ہے۔ یعنی نا کامی و نا مرادی ہم پر عاشق ہے۔ ‘مرآۃ الغالب، ص ۲۳۵)
(عرضِ مرتّب :۔نواب مرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی نے پروفیسر آلِ احمد سرورؔ کو بتایا تھا کہ ’’ عشق ہے‘ ‘ کے معنی ’’ آفرین‘ ‘ کے ہیں ۔(’ خواب باقی ہیں ‘ از پروفیسر آلِ احمد سرور ، ص ۱۵۰)اس صورت میں شعر کے معنی یہ ہونے چاہییں کہ وا ماندگی کو آفریں ہے کہ اس کی بدولت رنجِ راہ کھینچنے کی طاقت ہم میں نہیں رہی۔ اس لیے اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے۔۔میرؔ کی ایک غزل کی ردیف ہی ’ عشق ہے ‘ ہے اور ہر جگہ ’آفریں ہے ‘ کے معنی میں ہے۔ فرماتے ہیں
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
اس دل جلے کی تاب کے لانے کو عشق ہے
سر مار مار سنگ سے دیوانہ مر گیا
فرہاد کے جہان سے جانے کو عشق ہے
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
عشق اُن کی عقل کو ہے جو ما سوا ہمارے
ناچیز جانتے ہیں ، نا بود جانتے ہیں
۔۔۔..ذکا صدّیقی)
اے ساکنانِ کوچۂ دلدار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبِؔ آشفتہ سر ملے
عبارت تو یہ ہے کہ وہاں کہیں غالبؔ اگر مل جائے تو دیکھنا۔ اور مطلب یہ ہے کہ خیال رکھنا شاید غالبؔ وہاں کہیں مل جائے۔ یہ مطلب اس عبارت سے ’ جو ‘ کے سبب سے نہیں نکلتا۔ ’ جو ‘ کی لفظ نے جملے کو شرطیہ کر دیا اور شرط مقصود نہیں۔ محاورہ یوں نہیں جاری ہے کہ اس معنی کو جملۂ شرطیہ کی صورت میں ادا کرتے ہیں جیسا کہ مصنف نے کیا ہے اور یہ مسٔلہ نحوِ اردو کے نوادر میں سے ہے۔
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
بندش کی خوبی اور محاورے کے لطف نے اس شعر کو سنبھال لیا ورنہ غالبؔ سا شخص اس بات سے بے خبر نہیں ہے کہ جی کی بات جی ہی میں رکھنا المعنی فی بطن الشاعر کہلاتا ہے۔ اس شعر سے سبق لینا چاہیے کہ بندش کے حسن اور زبان کے مزے کے آگے اساتذہ ضعفِ معنی کو بھی گوارا کر لیتے ہیں۔
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی ، یہ ماجرا کیا ہے
دوسرا مصرع جس محاورے میں مصنف نے کہا ہے جو شخص اس کے محلِ استعمال کو نہ جانتا ہوگا اس کی نظر میں شعر سست اور مصرعے بے ربط معلوم ہوں گے۔ محلِ استعمال اس کا یہ ہے کہ جب کسی کے پھیکے غمزوں پر استہزا یا تشنیع یا اظہارِ نفرت مقصود ہوتا ہے جب اس طرح کہتے ہیں۔ اور اسی مناسبت سے مصنف نے مصرع لگایا ہے اور معشوق پر استہزا کیا ہے۔
ظاہرہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے فرشتے
ہاں ، منھ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے
استہزا کی راہ سے کہا ہے کہ (نہ )بھاگیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ بھاگ جائیں گے اور بادۂ دوشینہ رات کی شراب۔ محاورے میں واوِ مجہول کے ساتھ بد بو کے معنی پر بولتے ہے۔ منہ سے بو آنے کا مضمون نظم کرنے کے قابل نہ تھا۔
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
ناخن سے ناخنِ غم مراد ہے۔ مگر ناخن سے کریدنا محاور ہ ہے ، ناخن سے جگر کھودنا محاورے سے گرا ہو ا ہے۔
ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے
محاورہ ہے کہ ہمارے پاس فلاں شے قسم کھانے کو بھی نہیں یا نام کو بھی نہیں۔ بِنا اس محاورے کی اس بات پر ہے کہ اگر وہ شے نام کو بھی ہوتی تو ثبوتِ قسم کے لیے کافی تھی اور یہ ظاہر ہے کہ ا س طرح کی ہستی جو قسم کھانے کے لیے ہو اور براے نام ہو وہ فنا و نیستی کی دلیل ہے اور یہ بھی محاورہ ہے کہ ’ ہمیں فلاں شے کی قسم ہے ‘۔ یعنی اس سے کچھ تعلق نہیں۔
( استدراک :۔ غالبؔ نے اس شعر کا مطلب مجروحؔ کو یہ بتایا ہے : ’ پہلے یہ سمجھو کہ قسم کیا چیز ہے ، قد اس کا کتنا لمبا ہے ، ہاتھ پانو کیسے ہیں ، رنگ کیسا ہے ، جب یہ نہ بتا سکوگے تو جانوگے کہ قسم ، جسم و جسمانیات میں سے نہیں۔ ایک اعتبارِ محض ہے وجود اس کا صرف تعقل میں ہے۔ سیمرغ کا سا اس کا وجود ہے۔ یعنی یہ کہنے کو ہے ، دیکھنے کو نہیں۔ پس شاعر کہتا ہے کہ جب ہم آپ اپنی قسم ہو گئے تو گویا اس صورت میں ہمارا ہونا ہمارے نہ ہونے کی دلیل ہے ‘۔۔۔۔ [ بحوالہ نسخۂ عرشی ، ص ۲۹۶] )
ہم سے عبث ہے گمانِ رنجشِ خاطر
خاک میں عشّاق کی غبار نہیں ہے
مطلب مصنف کا یہ ہے کہ عشاق کی طینت میں غبار نہیں ہے ، لیکن طینت کی جگہ خاک کہنا محاورے سے گرا ہوا ہے اس مقام پر طینت ، سرشتِ آب و گِل کو بولتے ہیں۔ خاک کا لفظ لانے سے ادائے مطلب میں خلل پیدا ہو گیا۔اور اب اس شعر کے یہ معنی ہیں کہ عشاق گو مر کر خاک ہو گئے لیکن ان کی خاک میں بھی غبار نہیں ہے۔ اور یہ محض ادّعاے شاعرانہ ہے جس کے لیے تعلیل کی ضرورت ہے۔
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے
’ گفتار میں آنا‘ بات چیت کرنے کے معنی پر اردو کا محاورہ نہیں ہے ، ترجمہ ہے۔
سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قدِ دلکش سے جو گلزار میں آوے
’ سے ‘ کا لفظ اس شعر میں عجب لطف رکھتا ہے اور بڑے محاورے کا لفظ ہے۔ اور مصنف پہلے شخص ہیں جس نے اس مقام پر ’ سے ‘ کو استعمال کیا۔ اور سب شاعر اس طرح نظم کیا کرتے ہیں ع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس قد کو اگر لے کے تو گلزار میں آوے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے
دل کا بوسے پر بِکنا مبتذل مضمون ہے ، لیکن یہاں محاورے کی خوبی اور بندش کی ادا نے اس مضمون کو تازہ کر دیا ہے۔
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ جس کا کہ مأل اچّھا ہے
قطرہ و دریا کی تمثیل اہلِ تصوف کی نکالی ہوئیہے لیکن شعرا کو بھی پسند آ گئی ہے ، کسی نے اسے نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ یہ مضمون مبتذل ہو گیا۔ اب جو کوئی اسے نظم کرتا ہے تو شعر ہی بے مزہ ہو جاتا ہے۔ مصنف نے بھی اس مضمون کو کئ جگہ کہا ہے ، اور یہ شعر
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
اس سبب سے اچھا نظم ہوا ہے ہے کہ محاورے کی چاشنی نے پھیکے مضمون کو چٹ پٹا کر دیا۔
مے پرستاں ، خُمِ مے منہ سے لگائے ہی بنے
ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی ، نہ سہی
’ مے پرستو ‘ چھوڑ کر ’ مے پرستاں ‘ کہنا حال کی زبان میں نہیں جائز۔ اور ’ لگائے ہی بنے . کے معنی یہ کہ اس میں زیادہ لطف ہے اور جی بھر کر پینا یونہیں بن پڑتا ہے۔ ساقی ہوتا تو ایک ایک گھونٹ کر کے پلاتا۔
دل و جگر میں پرافشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے
کہتے ہیں : جسے ہم سانس سمجھے ہوئے تھے وہ ایک موجِ خوں کی پر افشانی ہے۔ یعنی غم نے دل و جگر کو لہو کر دیا ہے۔ طبیب کہیں گے کہ جگر میں سانس کہاں جاتی ہے ، دل و ریہ کہا ہوتا اور ریہ کو فارسی میں شش اور اردو میں پھیپڑا کہتے ہیں۔ لیکن یہ تینوں لفظ کسی شاعر نے نہیں باندھے کہ غیر فصیح ہیں۔ یہ عجب سؤ اتفاق ہے کہ اردو کا لفظ جب غیر فصیح معلوم ہوتا ہے تو اس وقت میں شاعر فارسی یا عربی سے لفظ لیتا ہے۔ یہاں عربی و فارسی میں بھی لفظ شش و ریہ لینے کے قابل نہیں۔ دیکھو ، اس مصرع میں ، ع : دل و ریہ میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے ، ’ ریہ ‘ کا لفظ کیسا رکیک اور غریب معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ مصرع ۔۔۔دل اور شش میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے۔۔۔ کیسا واہیات ہے۔ اسی طرح دیکھو ، ع: یہ پھیپڑے میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے۔۔۔ شاعر کی زبان نہیں معلوم ہوتی ہے۔ یہی اشکال واقع ہونے کے سبب سے مصنف نے پھیپڑے کا نام بھی جگر رکھ لیا کہ محض اندرونِ شے کو بھی جگر کہتے ہیں۔
رات پی زمزم پہ مے ، اور صبحدم
دھوئے دھبّے جامۂ احرام کے
یعنی رات کو پی۔ ’ کو ‘ ترک کرنا اب محاورے میں نہیں ہے لیکن مصنف کے اوایلِ عہد تک دلّی و لکھنؤ میں دونوں جگہ بغیر ’ کو ‘ بولتے تھے۔ ناسخؔ کہتے ہیں ، ع.
. رات اہلِ بزم کی کثرت کا احساں ہو گیا۔
اس لب سے مل ہی جاے گا بوسہ کبھی تو، ہاں
شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہیے
قدما کی اردو اس طرح کی تھی کہ کہتے تھے ’ تجھ گلی میں ‘ اور مطلب یہ ہوتا تھا کہ تیری گلی میں۔ اور ’ مجھ خاک پر ‘ یعنی میری خاک پر ، اور ’ اُس زلف سے ‘ یعنی اس کی زلف سے۔اور اب جو ’اس زلف سے ‘ یا ’ اُس لب ‘ سے کہتے ہیں تو اس کا اشارہ زلف یا لب کی طرف مقصود ہوتا ہے۔ لیکن ایسا اشارہ بھی خلافِ عادت ہونے کے سبب سے اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ مثلاً خواجہ آتشؔ کہتے ہیں : ع کب تک وہ زلف دیتی ہے آزار دیکھیے۔۔۔یہاں ’ اس کی زلف ‘ کہنا تھا ، ضرورتِ شعر کے سبب سے ’ وہ زلف ‘ کہہ دیا اور یہی حال اب تمام شاعروں کا ہے کہ اسے جائزسمجھ لیا ہے اورنظم کرتے ہیں لیکن تکلف سے خالی نہیں۔
صحبت رنداں سے واجب ہے حذر
جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے
یعنی مے کو نہ کھینچ ، اپنے کو صحبتِ مے سے کھینچ۔ اور مے کے کھینچنے سے پینا مراد ہے ، یعنی مے کشیدن کا ترجمہ کر لیا ہے۔ اور شاید مصنف کی رائے میں فارسی کا ترجمۂ لفظی ہندی میں کر لینا درست ہے گو خلافِ محاورہ ہو۔ تجربے سے ثابت ہے کہ جوشاعر دوسری زبان میں بھی شعر کہے اس کی اپنی زبان بگڑ جاتی ہے۔ ایک انگریز شاعرجس کا نام ڈرایڈنؔ تھا حسرت کرتا تھا کہ میں نے کیوں لاطینی پڑھی اور اس میں شعر کہا کہ میری اپنی زبان بگڑگئی۔
غافل ، ان مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے
’ چاہیے ‘ کا لفظ اہلِ لکھنؤ کے محاورے میں جمع و مفرد دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ لیکن دلّی میں محاورہ اب یہ ہو گیا ہے کہ ’ اتنی چیزیں چاہییں ‘۔
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے
اردو کے شاعروں نے رقیب کا نام غیر رکھ لیا ہے اور اس قدر ان معنی پر یہ لفظ مشہور ہوا ہے کہ حکمِ علم ا س پر ہو گیا ہے اس اعتبار سے مصنف کا یہ مصرع : غیر پھرتا ہے لیے یوں۔۔۔ الخ صحیح ہے۔ ورنہ محاورے میں ’ غیر ‘ اسمِ صفت ہے اور رقیب کے لیے بھی کچھ خاص نہیں ہے اور بول چال میں ہمیشہ صفت ہو کر بولا جاتا ہے ، جس طرح ’ اپنا ‘ اسمِ صفت ہے کہ بے موصوف کے نہیں بولتے۔
خطِّ عار ض سے لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے ، جو کچھ پریشانی کرے
’ یک قلم ‘ کے لفظ میں دوہری رعایت رکھی ہے۔ ایک تو رخسار پر قلمیں ہوتی ہیں ، دوسرے خط بھی قلم سے لکھتے ہیں۔ یہ شعر بھی تصنعِ بے مزہ سے خالی نہیں۔
اسدؔ خوشی سے مرے ہات پانو پھول گئے
کہا جو ا س نے ذرا میرے پانو داب تو دے
’ تو ‘ اس شعر میں زاید ہے۔ زاید سے یہ غرض نہیں کہ بھرتی کا ہے۔ بلکہ اس مقام پر زاید بولنا محاورے میں داخل ہے۔
کہا ہے کس نے کہ غالبؔ برا نہیں ، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ، کیا کہیے
یعنی جو دیوانہ ہو اس کا کہنا ہی کیا۔ ’ سوا ‘ عربی لفظ ہے۔ اور الف مقصورہ ہے۔ اضافت کی حالت میں فارسی والے اس میں ’ی‘ بڑھاتے ہیں اور اردو میں لفظ سوا اور مع عامیانہ محاورے میں اکثر باضافت بولتے ہیں اور پھر مضاف الیہ میں ’ کے ‘ بھی لگاتے ہیں۔ کہتے ہیں : سوائے خدا کے کون ہے اور مع عیال کے روانہ ہوا۔ لیکن جو لوگ لکھے پڑھے ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ سوا خدا کے کون ہے ، اور مع عیال روانہ ہوا۔
مصنف مرحوم نے یہاں عام محاورے کے موافق لفظ ’ سوا ‘ کو اضافت دی ہے اور پھر ہندی لفظ کی طرف اضافت دی ہے۔! اور مضاف الیہ میں ’ کے ‘ بھی لگایا ہے۔ یہ پا لغزِ قلم ہے۔ اسی طرح ایک خط میں لکھتے ہیں : بیڑی کو زاویۂ زندان میں چھوڑ مع دونوں ہتکڑیوں کے بھاگا اور اپنے نام کا خط مع ان اشعار کے یوسف علی کے حوالے کیا ‘۔
جو مدّعی بنے ، اس کے نہ مدّعی بنیے
جو نا سزا کہے اس کو نہ نا سزا کہیے
اس شعر میں ’ بنیے ‘ کا نام آ جانا مذاقِ اہلِ لکھنؤ میں گراں گذرتا ہوگا ، اور البتہ برا معلوم ہوتا ہے۔
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
طبیعتوں کا چالاک ہونا محاورہ ہے۔ اس مقام پر جمع اور مفرد دونوں طرح بولتے ہیں لیکن مصنف پہلے شخص ہیں جنہوں نے جمع کے ساتھ نظم کیا ۔ اور تازگیِ لفظ اسی کو کہتے ہیں۔
غم آغوشِ بلا میں پرورش دیتا ہے عاشق کو
چراغِ روشن اپنا قلزمِ صر صر کا مرجاں ہے
پرورش و تربیت کے ایک ہی معنی ہیں لیکن پرورش کرنا اور تربیت دینا محاورہ واقع ہوا ہے ۔ ’ پرورش دینا ‘ خلافِ محاورہ ہے۔
دل مدّعی و دیدہ بنا مدعا علیہ
نظّارے کا مقدّمہ پھر روبکار ہے
دل نے آنکھ پر یہ نالش کی ہے کہ نہ یہ نظارہ کرتی نہ میرا خون ہوتا۔ دیدہ آنکھ کو کہتے ہیں لیکن ہر جگہ آنکھ کے بدلے دیدہ کہنا برا ہے اس سبب سے کہ اردو کے محاورے میں ڈھیٹھ اور بے شرم آنکھ کو دیدہ کہتے ہیں ۔ اور دیدہ کا لفظ عورتوں کی زبان کے ساتھ خاص ہو گیا ہے ، جیسے ’ دیدے پھوٹیں ‘ ، اور ’ دیدوں کے آگے آئے ‘ اور ’ غضب کا دیدہ ہے ‘۔ لیکن فارسی میں دیدہ مطلق آنکھ کے معنی پر دیکھ کر اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں ، جیسے ناسخؔ کہتے ہیں
ہر گز مجھے نظر نہیں آتا وجودِ غیر
عالم تمام ایک بدن ہے میں دیدہ ہوں
اس شعر میں آنکھ کی جگہ دیدہ کہہ کر ڈھیلا کھینچ مارا ہے۔ اس کی خرابی اندھے کو بھی سوجھتی ہوگی۔ مگر مضمون شعر کا بہت عالی ہے۔
شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
د اغِ دلِ بیدرد نظر گاہِ حیا ہے
پہلے مصرع میں ’ ہے ‘ کے ساتھ ’ نہ ‘ خلافِ محاورہ ہے۔ ’ نہ ہے ‘ کے بدلے ’ نہیں ‘ کہنا چاہیے۔
شعلے سے نہ ہوتی ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگیِ دل پہ جلا ہے
جی جلنا اردو کے محاورے میں ناگوار ہونے کے معنی پر ہے۔ یہاں یہ معنی مقصود نہیں ہیں بلکہ جی جلنے سے کُڑھنا مقصود ہے۔ اور یہ مصنف نے اپنی عادت کے موافق ’ دل سوختن ‘ کا ترجمہ کر لیا ہے۔ فارسی میں کہیں گے : بر بے کسیش دلم می سوزد ‘۔ لیکن اردو میں یہ کہنا کہ اس کی بیکسی پر دل جلتا ہے اچھا نہیں ہے۔ افسردگیِ دل سے اس کا شعلۂ عشق سے خالی ہونا مراد ہے۔
اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب ، ادھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
یعنی ادھر بھی کرم کر۔ وقت پڑنے کا محاورہ جس محل پر مصنف نے صَرف کیا ہے اس کی خوبی بیان نہیں ہو سکتی۔
بیگانگیِ خلق سے بیدل نہ ہو غالبؔ
کوئی نہیں تیرا تو مری جان، خدا ہے
یعنی خدا تیرا ہے۔ اور فقط ’ خدا ہے ‘ بھی محاورہ ہے۔ ’ ہے ‘ کو خواہ تامّہ لو خواہ ناقصہ۔
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ، ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
اس شعر میں ’ نہ ‘ عجب محاورے کا لفظ مصنف نے باندھ دیا ہے۔ بولتے سب ہیں مگر کسی نے نظم نہ کیا تھا۔ لیکن اس ’ نہ ‘ کے کیا معنی ہیں اس کا جواب مشکل ہے۔ قیاسِ نحوی تو یہ کہتا ہے کہ آؤ نہ اور دیکھو نہ وغیرہ کیوں نہ آؤ اور کیوں نہ دیکھو کا مخفف ہے کہ بے اس کے حرفِ نفی کے کچھ معنی نہیں بن پڑتے۔
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیّۂ طوفاں کیے ہوئے
مصنف نے یہاں طوفان کے معنی طوفان برپا کرنے کے لیے ہیں۔ اس کی سند ملنا مشکل ہے۔
نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لیے
رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لیے
لفظِ طرز پہلے مؤنث تھا ، اور دلّی میں اب بھی مؤنث ہے۔ مگر لکھنؤ میں عام محاورہ اس کی تذکیر کا ہے۔ ہاں ، چند غزل گو جو زبان میں قیاس کیا کرتے ہیں وہ اب بھی مؤنث باندھتے ہیں لیکن خلافِ محاورہ معلوم ہوتا ہے کانوں کو۔ میرا شعر ہے
طرز دکھلادے اس کی قامت کے
پانوں پڑتا ہوں میں قیامت کے
کفر سوز اس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے
رنگِ عاشق کی طرح رونقِ بتخانۂ چیں
رنگ کا ٹوٹنا اور رونق کا ٹوٹنا اردو محاورہ نہیں ہے۔ مصنف مرحوم نے اپنی عادت کے موافق فارسی کا ترجمہ کر لیا ہے۔ ٹوٹے کی جگہ اُڑ جائے پڑھنا چاہیے۔ ’وہ ‘ اس شعر میں ایسا کے معنی پر ہے ، اور بندش میں گنجلک ہو گئی ہے۔
تیرے در کے کیے ، اسبابِ نثار ، آماد
خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں
اس شعر میں اسباب کا آمادہ کرنا محاورۂ اردو کے خلاف ہے۔ اسباب کا مہیا کرنا محاورہ ہے اور آمادہ کرنا اردو میں ترغیب دینے کے محل پر بولتے ہیں۔ فارسی کا ترجمہ کر لینے میں مصنف مرحوم کی جرأت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ان کے کلام سے اردو کے محاورات کوئی نہیں سیکھ سکتا۔
طبع کو الفتِ دُلدُل میں یہ سر گرمیِ شوق
کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں
دوسرے مصرع کا مضمون فارسی سے ماخوذ ہے لیکن اردو کے محاورے میں بھی کیا پورا اترا ہے کہ تعریف نہیں ہو سکتی یہاں فارسیت کلام کا زیور ہو گئی۔
سوزِ دل کا کیا کرے بارانِ اشک
آگ بھڑکی ، مینہ اگر دم بھر کھلا
جس مقام میں ’ کا ‘ کہا ہے یہاں ’ کو ‘ زیادہ محاورے میں ڈوبا ہوا ہے۔ اور فیصلہ اہلِ زبان کے ہاتھ ہے۔
خامے نے پائی طبیعت سے مدد
بادباں بھی اٹھتے ہی لنگر ، کھلا
یعنی خامہ اٹھاتے ہی طبیعت اس کی مدد کرنے لگی جیسے لنگر اٹھتے ہی بادبان بھی کھلا۔’ کھلنے ‘ کا لفظ طبیعت کے ساتھ بھی بولا جاتا ہے۔ بس اتنی مناسبت طبیعت کو بادبان فرض کرنے میں کافی ہے۔ لیکن مصرعِ ثانی کی بندش اچھی نہیں۔ ’ بادباں بھی ‘ اِس سرے پر ہے اور ’ کھلا ‘ اُس سرے پر۔
شاد دل شاد ، و شادماں رکھیو
اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو
شاد و دل شاد و شادماں تینوں لفظ ایک ہی معنی کے ہیں مگر اس محل میں تکرارِ معنی کیا ، تکرارِ لفظی بھی ہوتی تو بے جا نہ تھی۔ گویا مطلب یہ ہے شاد رکھیو ، شاد رکھیو ، شاد رکھیو۔۔۔ اور باوجود تکرارِ لفظ کے بھی بُرا نہیں معلوم ہوتا۔ اور جب کہ لفظ میں ذرا ذرا تصرّف کر دیا تو اور بھی لطف ہو گیا۔ رکھنا کے مقام پر رکھیو ابھی تک محاورے میں جاری ہے بلکہ فصحا کی زبان ہے۔
گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری
بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی ، جانے دو ، مل جاؤ
کیا کرتے تھے تم تقریر ، ہم خاموش رہتے تھے
قسم لو ہم اگر یہ بھی کہیں : کیوں ہم نہ کہتے تھے
یہ قطعہ ایسا بے تکلّف نظم ہوا ہے کہ نثر بھی ایسی نہیں ہو سکتی۔ مگر ایک تو تعقیدِ معنوی ہو گئی ہے کہ اوپر والے شعر میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم خاموش رہتے تھے۔ اور دوسرے شعر میں کہتے ہیں : کیوں ہم نہ کہتے تھے۔ دوسرے یہ کہ تم غیروں کی وفاداری تقریر کیا کرتے تھے ، خلافِ محاورہ ہے۔ جس جگہ لفظِ تقریر کو صَرف کیا ہے محاورے میں یہاں لفظ ’ بیان ‘ ہے یا ’ اظہار ‘۔
صبر آزما وہ ان کی نگاہیں ، کہ حف نظر
طاقت ربا وہ ان کا اشارا ، کہ ہاے ہاے
’ ہف نظر ‘ چشمِ بد دور کے معنی پر اردو کا محاورہ ہے لیکن یہ لفظ ہندی معلوم ہوتا ہے ، فارسی میں کہیں نہیں ہے اور عربی میں بھی ’ حف ‘ ان معنی پر نہیں ہے۔ غرض کہ ’ ح ‘ سے اس کو نہ لکھنا چاہیے۔
( استدراک:۔’ حف نظر ‘ کے معنی چشمِ بددور ہیں۔ اس محاورے کاپہلا لفظ ’ حف ‘ بھی عربی ہے۔ کسی کو بری نظر لگ جائے تو کہا جاتا ہے: ’ حفّ الرجلُ ‘۔ اس صورت میں ’ حف نظر ‘ سے مراد ہوگی ’ نظرِ بد لگنے کے قابل‘ جس نے رفتہ رفتہ ’ نظرِ بد نہ لگے ‘ کا مفہوم ا ختیار کر لیا ‘۔ ’ نسخۂ عرشی ‘ ، ص ۱۳۳)
خوش ہو اے بخت ، کہ ہے آج ترے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
مصنف نے پہلے مصرع میں جو محاورہ باندھا ہے یہی ’ سر سہرا ‘ ذوقؔ نے بھی اپنے مطلع میں باندھا ہے
اے جواں بخت ، مبارک تجھے سر پر سہرا
آج ہے یُمن و سعادت کا ترے سر سہرا
مصنف سے یہ محاورہ پورا نہ بندھا اور ذوقؔ سے پورا اترا۔ محاورہ یہ ہے کہ ترے سر شاعری کا سہرا ہے ؛ تیرے سر فضیلت کا سہرا ہے ؛ تیرے سر سعادت کا سہرا ہے ۔ خالی ’ سہرا ‘ کوئی نہیں کہتا جس طرح مصنف نے ’ بخت کے سر سہرا ‘ کہا ہے جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سچ مچ کا سہرا مراد ہے۔ اور ذوقؔ نے پہلے مصرع میں اصلی سہرا مراد لیا ہے اور دوسرے مصرع میں سعادت کا سہرا شہزادے کے سر باندھا ہے۔ غرض کہ ’ سر سہرا ہونا ‘ جو محاورہ ہے وہ خالی نہیں کہا جاتا بلکہ’ آج ‘ کا لفظ بھی محاورے میں داخل ہے۔ اور محاورے میں تصرف کرنا کسی طرح نہیں درست۔اس میں اچھے اچھے لوگ دھوکا کھاتے ہیں۔ مثلاً خون ہو جانے سے قتل کا واقع ہونا ، نام ہو جانے سے مشہور ہو جانا ، دل آجانے سے عاشق ہو جانا جو مراد لیتے ہیں تو یہ معنی محض اصطلاح و محاورۂ اردو کے باعث سے سمجھے جاتے ہیں۔ یوں کہنا کہ خونِ تمنا ہو گیا یا نامِ قاتل ہو گیا یا دلِ بیتاب آگیا ، یعنی ترکیبِفارسی کا استعمال کر کے محاورے میں تصرف کرنا درست نہ ہوگا ، اس لیے کہ فارسی میں خون شدن سے قتل اور دل آمدن سے عشق اور نام شدن سے شہرت نہیں سمجھ میں آتی کہ یہ ان کا محاورہ نہیں۔ اسی طرح مثلاً اردو کا محاورہ ہے ’ تمھارا طوطی بولتا ہے ‘ ، ’ سب تمھارا دم بھرتے ہیں ‘۔ برقؔ نے اس کو یوں نظم کیا ہے ،ع۔ کیا بولتا ہے طوطیِ شیریں مقالِ یار۔۔ اور مومنؔ نے یوں باندھا ہے ، ع۔ کون کہتا ہے دمِ عشق عدو بھرتے ہیں۔اسی طرح ’ قبا شدنِ لباس ‘ فارسی کا محاورہ ہے۔ کپڑوں کا دھجّیاں ہو جانا مراد ہے۔ عشق نے اس کو اس طرح باندھا ہے ، ع۔ بالکل قبا لباسِ عروسِ چمن ہوا
محاورے میں یہ سب تصرّفات نا درست ہیں اس سبب سے کہ مطلب خبط ہو جاتا ہے۔ (مزید ’عروض ‘ کے تحت دیکھیے اختلاطِ حروف، مثلاً کنگنا اور رنگنا وغیرہ پر مفید بحث ، ذوقؔ کے مندرجۂ ذیل شعر کے سلسلے میں
سر پہ طرہ ہے مزیّن تو گلے میں بدّھی
کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منہ پر سہرا
اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہلِ دہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہنر کو میں
اپنے اوپر محاورہ ہے ، اور اپنے پر تو لکھنؤ میں نہیں بولتے۔ عموماً اہلِ قلم تئیں اوراوپر کا لفظ لکھنے میں احتیاط کرتے ہیں۔
گرچہ از روئے ننگِ بے ہنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار
کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آئے خاک کو عار
پہلے لوگ ’ کو ‘ کے مقام پر ’ تئیں ‘ زیادہ خرچ کیا کرتے تھے : زید کے تئیں مارا ؛ میرے تئیں پکارا ، پھر تئیں سے کراہیت پیدا ہو گئی اس سبب سے کہ زید کو مارا ، مجھ کو پکارا بھی وہی بات ہے اور محاورہ بھی ہے مگر اپنے تئیں اور اپنے اوپر آج تک زبان ز د و عین محاورہ رہا ، اس سبب سے کہ اپنے کو اور اپنے پر صحیح اردو کا محاورہ نہیں ہے۔ اہلِ زبان نے اسے قبول نہ کیا اور اپنے کے ساتھ تئیں بولے جاتے ہیں۔ مگر شعرا اس قیاس پر عمل کر کے کہ ’ تئیں ‘ ا و ر ’ کو ‘ ایک ہی معنی پر ہیں ’ اپنے کو ‘باندھ جاتے ہیں مصنف نے بھی یہی قیاس کیا ہے۔ ورنہ عام محاورہ اپنے تئیں ہے۔ اور محاورے میں قیاس کو دخل دینا بے جا ہے۔ کہتے ہیں اپنے تئیں آپ خراب کیا۔ اور یہی صحیح ہے۔ اپنے کو آپ خراب کیا ، یا آپ کو آپ خراب کیا۔۔۔ یہ سب صورتیں خلافِ محاورہ ہیں۔
میری تنخواہ کیجے ماہ بماہ
تا نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار
جو لوگ فارسی پڑھے ہوئے نہیں ہیں وہ کبھی اردو میں ’ تا ‘ نہ بولیں گے بلکہ یوں کہیں گے: کہ نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار۔