(صِرف انھیں حروف کا مختصر تعارف جو شرحِ کلامِ غالبؔ کے دوران میں استعمال ہوئے ہیں۔)
حروف وہ غیر مستقل الفاظ ہیں جو تنہا بولنے یا لکھنے میں کوئی خاص معنی پیدا نہیں کرتے جب تک کسی جملے میں یا دوسرے الفاظ کے ساتھ استعمال نہ ہوں ، جیسے کو، تک ، جب وغیرہ۔
اردو میں حروف کی چار قسمیں ہیں :۔ ربط (جار )، عطف ، تخصیص اور فجائیہ۔
حروفِ ربط یا حروفِ جار: یہ ایک لفظ کا تعلق کسی دوسرے لفظ سے ظاہر کرتے ہیں۔ کا، کی ، کے ، نے ، کو ، تئیں ، سے ، میں ، تک ، پر۔۔۔ حروفِ ربط ہیں۔یہ حروفِ ربط اسم ، ضمیر ، اسمِ صفت ، فعل اور تمیزکے بعد آتے ہیں اور ان کی حالت کا پتا دیتے ہیں ، جیسے: احمد تک خبر پہنچ گئی، بد سے بچو ، نیک سے ملو ، اس کے سننے میں فرق ہے (فعل کے بعد )، آہستہ سے نکل جاؤ (تمیز کے بعد )۔
حروفِ عطف: ایسے حروف (یا کلمے )ہوتے ہیں جو مفرد کلموں یا مرکب جملوں کو ایک حالت یا ایک حکم میں جمع کر دیں۔ جن کلموں یا جملوں کے مابین حروف ِعطف آتے ہیں ان میں سے پہلے کو معطوف علیہ اور دوسرے کو معطوف کہتے ہیں۔ حروفِ عطف یہ ہیں : اور ،نیز ، کر ، کے ، پھر ، حرفِ واو۔حروفِ عطف کی کئی قسمیں ہیں ، مثلاً حروفِ تردید ، حرفِ بیان ، حروفِ علّت ،حروفِ شرط ، حروفِ جزا ، حروف ندا وغیرہ۔
حروفِ تردید: ایسے کلمے ہیں جن سے کلام میں تردُد یا دُبدا پیدا کی جائے۔ وہ حروف یہ ہیں : یا ، کہ ، یا تو ، خواہ ، چاہے ، چاہو۔
حرفِ بیان: یعنی ایسا حرف کہ وہ اس جملے کی ابتدا میں آئے جو اپنے سے پہلے جملے کی وضاحت کرتا ہو پہلے جملے کو مبیّن (بفتح یاے مشدّدہ )کہتے ہیں اور دوسرا جملہ جس کی ابتدا میں حرفِ بیان ہے ’ ’ عطفِ بیان ‘ ‘کہلاتا ہے۔ بیان کے لیے صرف فارسی حرف ’ کہ ‘ ہے جو اردو میں بھی مستعمل ہے ، جیسے: تم جانتے ہو کہ میں تمھارا مخالف نہیں ہوں۔
حروفِ علّت: ایسے کلمے ہیں جو سبب اور علّت کے ظاہر کرنے کے لیے بولے جاتے ہیں۔ کہ ، کیوں ، اس لیے ، اس واسطے ، تا ، لہٰذا۔ غالبؔ کے اس شعر میں ’ کہ ‘ کافِ تعلیل ہے
ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا
تیرا آغاز اور ترا انجام
کلمات: جب کسی ایک بات کو دوسری بات پر منحصر کرنا چاہیں تو جو کلمات حصر کرنے کے لیے لائے جائیں وہ کلماتِ شرط و جزا کہلاتے ہیں ، جیسے: اگر تم مدرسے جاؤگے تو میں بھی جاؤں گا۔ یہاں ’’اگر ‘‘ اور ’ ’ تو ‘‘ کلماتِ شرط و جزا ہیں۔
کلماتِ شرط: جس بات پر حصر کیا جائے اس پر حصر کرنے کے لیے جو کلمات آتے ہیں ان کلمات کو کلماتِ شرط کہتے ہیں اور اُس بات کو موقوف علیہ۔ وہ کلمات یہ ہیں : جو ، جب ، چونکہ ، ا گرچہ ، ہرچند ، گو ، تا وقتیکہ ، کیوں نہ ، نہیں تو ، ورنہ ، وگرنہ ، با وجودیکہ ، اگر ، بسکہ۔۔۔
کلماتِ جزا: جس بات کو دوسری بات پر منحصر کیا جائے اس پر منحصر کرنے کے لیے جو کلمات لائے جائیں ان کو کلماتِ جزا اور اُس بات کو موقوف کہتے ہیں۔کلماتِ جزا اکثر یہ ہوتے ہیں : مگر ، لیکن ، اِ لّا ، تاہم ، اس لیے ، اسی لیے ، تب ، سو ، پھر بھی ، تو(بضم اؤل و واوِ مجہول )۔
کلماتِ ندا: وہ کلمات ہیں جو پکارنے کے وقت بولے جائیں۔ جس کو پکارا جاتا ہے اس کو منادیٰ کہتے ہیں۔ وہ کلمات جو منادیٰ سے پہلے بولے جاتے ہیں یہ ہیں : اے ، او ، اجی ، ارے ، یا (’ ’ یا رب ‘ ‘ میں )۔
اضافت:
جب کسی اسم یا ضمیر کو کسی دوسرے اسم یا ضمیر کی طرف نسبت دی جائے تو جس اسم کو نسبت دی گئی ہے اسے مضاف کہتے ہیں۔ اور جس اسم یا ضمیر کی طرف منسوب کیا جائے اسے مضاف الیہ کہتے ہیں ، جیسے : اُسامہ کاگھر ، میری لڑکیاں۔ ان مثالوں میں گھراور لڑکیاں مضاف ہیں ، اور اُسامہ اور میری مضاف الیہ ہیں۔ اردو میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف اس کے بعد۔ علامتِ اضافت کا ، کی ، کے ، را ، رے ، ری (میرا ، میرے ، میری ، تمھاری ، ہماری ) اپنا ، اپنے، اپنی۔ ’اُسامہ کا گھر‘ ، میری لڑکیاں ‘ مرکبِ اضافی کہلاتے ہیں۔۔۔ اضافت کی کئی قسمیں ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں :۔
اضافتِ حقیقی یا تملیکی: ایسی اضافت جس میں مضاف کی تخصیص کا سببِ نسبت مِلک یا قبضہ ہو ، جیسے اُسامہ کا گھر۔
اضافت بہ ادنیٰ ملابست: ایسی اضافت جو تھوڑے سے لگاؤ کی وجہ سے مضاف کی تخصیص کرے ، جیسے ہمارا شہر۔
اضافتِ بیانیہ : جس میں وجہ تخصیص قبضہ یا نسبت یا تشبیہ وغیرہ نہ ہو ، جیسے پینے کا پانی ، پہاڑ کی چوٹی۔۔۔
کافِ بیان: ’ کہ ‘ حرفِ بیانیہ ہے اور ہمیشہ دو جملوں کے ملانے کے لیے آتا ہے ، جیسے : میں سمجھا کہ تم آرہے ہو۔
یہ اقتباسات مندرجہ ذیل کتابوں سے اخذ کیے گئے ہیں :۔
غیاث اللغات: ملّا غیاث الدّین رامپوری ، ۔۔قواعدِ اردو : مولوی عبد الحق
آئینِ اردو : مولانا زین العابدین فرجاؔد کوتانوی،۔۔تسہیل البلاغت : پروفیسرسجاد مرزا بیگ دہلوی
شرحِ کلامِ غالبؔ از طباطبائی
بوے گل نالۂ دل دود چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا وہ پریشاں نکلا
پہلے مصرع میں سے فعل اور حرفِ تردید محذوف ہے۔ یعنی پھولوں کی مہک ہو یا شمعوں کا دھواں ہو یا عشاق کی فغاں
بلاے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا ، اشارت کیا ، ادا کیا
’ کیا ‘ اس شعر میں حرفِ عطف ہے جسے معطوف و معطوف علیہ میں بیانِ مساوات کے لیے لاتے ہیں
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
’ اور ‘ اس شعر میں فع کے وزن پر ہے ، وسط میں سے واو گر گیا اور وسط میں سے کوئی حرف کبھی نہیں گرتا اور یہ حرفِ عطف ہے اور حروف جتنے ہیں ان سب میں اختصار ہی اچھا ہوتا ہے اس سبب سے کہ وہ محض روابط اور صلات ہوتے ہیں مثلاً ’ جو ‘ اور ’تو‘ شرط و جزا میں اگر اس طرح سے موزوں ہو کہ واو تقطیع سے گر جائے تو زیادہ فصیح معلوم ہوتا ہے بر خلاف اس کے کہ دونوں کا واو وزن میں محسوب ہو اور اشباعِ تام ہو کہ وہ برا معلوم ہوتا ہے لیکن ’ اور ‘کی لفظ میں فصیح یہی ہے کہ فاع کے وزن پر ہو اور اختصار اس کا بخلاف اور حروف کے برا معلوم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وسط میں سے واو ساقط ہوتا ہے اور بعض شعرا نے اس لفظ کو ایسا مختصر کیا ہے کہ ’ و ‘ کو بھی گرا دیا ہے اور یہ صورت عموماً آج کل سب اہلِ قلم غلط سمجھتے ہیں جیسے یہ مصرع : ع۔۔دیکھ ٹک آن کر یہ دل اورجگر۔….. اس مصرع میں ’ واو‘ اور ’رے‘ دونوں گرگئے،’ اور‘ میں سے فقط ’ الف ‘ رہ گیا ہے لیکن حقیقتِ امر یہ ہے کہ بول چال میں تینوں طرح ’اور ‘کو بولتے ہیں۔ ایک صورت یہ کہ تینوں حرف وزن میں داخل رہیں یعنی ملفوظ ہوں۔ دوسری صورت یہ کہ واو گر جائے فقط ’ اَر ‘ رہ جائے اور جب بول چال میں تینوں طرح ہے تو پھر غلط کہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسی طرح لفظ ’ کوئی ‘ بھی چار طرح سے بولا جاتا ہے ؛ فعلن و فاع و فعل کے وزن پر فصیح ، اور فع کے وزن پر غیر فصیح ہے۔
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
’ تو اور پاسخِ مکتوب ‘ یعنی تو اور جواب لکھے ممکن نہیں۔ تقدیر اس کی یہ ہے ؛ کہاں تو اور کہاں پاسخِ مکتوب‘ کہاں کی لفظ محذوف ہے اور لفظ پاسخ سے نوشتنِ پاسخ یا فرستادن و دادنِ پاسخ مراد ہے اور قاعدہ یہ ہے کبھی فعل و فاعل میں اظہارِ استبعاد کے لیے حرفِ عطف کو فاصل کیا کرتے ہیں مثلاً آگ اور نہ جلائے یعنی یہ بات مستبعد ہے اور کبھی مبالغہ کے لیے عطف کرتے ہیں جیسے آگ اور دہکتی ہوئی۔ اسی طرح اور متعلقاتِ فعل میں بھی فصل کر دیتے ہیں۔
منصبِشیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولیِ انداز و ادا میرے بعد
’ کے ‘ اس شعر میں اضافت کے لیے نہیں ہے ورنہ ’ کا‘ہوتا جیسے کہتے ہیں کوئی اس منصب کا مستحق نہیں رہا، بلکہ یہ ’کے ‘ ویسا ہے جیسا میر انیسؔ مرحوم کے اس مصرع میں ہے ؛ سرمہ دیا آنکھوں میں کبھی نورِ نظر کے ‘۔اس مصرع پر لوگوں کو شبہ ہوا تھا کہ میر صاحب نے غلطی کی یعنی ’ کی ‘ کہنا چاہیے تھا۔ اسی طرح کہتے ہیں ؛ ان کے مہندی لگادی۔ جو لوگ نحوی مذاق رکھتے ہیں وہ اس بات کو سمجھیں گے کہ ایسے مقام پر ’ کے ‘ حرفِ تعدیہ ہے اور اسی بنا پر میں برقؔ کے اس مصرع کو غلط نہیں سمجھتا جو مرثیے میں انھوں نے کہا تھا اور اعتراض ہوا تھا ؛ ڈاڑھی میں لال بال تھے اس بد نہاد کے۔ اور اسی دلیل سے انیسؔ کا مصرع بھی صحیح ہے اورمیرؔ کا یہ مصرع بھی ؛ آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے …. غلط نہیں ہے۔ اور آتشؔ کا یہ شعر بھی صحیح ہے۔
معرفت میں اس خداے پاک کے
اڑتے ہیں ہوش و حواس ادراک کے
وہ بھی دن ہو کہ اس ستم گر سے
ناز کھینچوں بجاے حسرتِ ناز
اس جملے میں کہ اس ستمگر سے ناز کھینچوں ، ’ سے ‘ اچھا نہیں معلوم ہوتا مگر ’ سے ‘ کا تعلق حسرت کے ساتھ ہے یعنی جس طرح اس ستمگر سے میں حسرتِ ناز کھینچ رہا ہوں وہ بھی دن آئے اسی طرح ناز کھینچتے۔ اور ’ سے ‘ اس شعر میں معنیِ سبب کے لیے ہے۔
اے ترا غمزہ یک قلم انگیز
اے ترا ظلم سر بسر انداز
دونوں مصرعوں میں سے منادی بھی محذوف ہے اور فعل بھی۔ یعنی اے نازنین ، تیرا غمزہ یک قلم انگیز ہے۔ اے ظالم ، تیرا ظلم سر بسر اندازِ معشوقانہ ہے۔ ان دونوں جملوں کی صورت خبر کی ہے۔ مگر شاعر کو قصد انشا ہے۔ اور منادی کا محذوف ہونادلیل ہے اس بات پر کہ خبر نہیں ہے اس وجہ سے کہ محل انشا میں منادی کو حذف کرتے ہیں جیسے دعا کے محل میں : اے تو جیے۔ کوسنے کے مقام پر: اے تو مرے۔ تعجّب میں : اے واہ۔ اے لو۔ تمنّا کے لیے : اے وہ دن خدا کرے۔ امر میں : اے، یہاں آؤ۔ نہی میں : اے یہ بات نہ کرنا۔ استفہام کی جگہ پر : اے بتاؤ۔ قسم میں : اے تمھاری جان کی قسم۔ عرض کے لیے : اے یہاں نہیں آتے کہ باتیں کریں۔ ترجی میں : اے شاید وہ آیا۔ لوم کے لیے : اے لعنت ہے ۔تخصیص کے لیے : اے تو بھی جواب نہیں دیتا۔ وجہ یہ ہے کہ ’ اے ‘ حرفِ ندا ہے اور ندا انشا ہے اس سبب سے اس کا استعمال انشا ہی میں ہوتا ہے اس صورت سے کہ منادی محذوف ہو۔ اگر جملۂ خبریہ میں حرفِ ندا واقع ہو تو منادی کا ذکر ضرور ہے کہ وہ منادی سے مل کرجملۂ انشائیہ ہو جائے اورجملۂ خبریہ کا جزو نہ واقع ہو۔
اسد اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رندِ شاہد باز
دوسرے مصرع میں ندبہ و نوحہ ہے اور ندبہ اقسامِ انشا میں ہے اور مقامِ انشا میں ’ تھا ‘ حرفِ ندا کو لانا اور منادی کو محذوف کر دینا محاورہ ہے جیسا آگے بہ تفصیل بیان ہوا۔ لیکن اہلِ نحو ایسے مقام پر دریغ کو منادی کا قایم مقام سمجھتے ہیں۔
نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
’ خاموشی ‘ کی ’ ی ‘ وزن میں نہیں سماتی۔ اس سے مصنف کا یہ مذہب ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی لفظ کے بھی آخر میں سے نظمِ اردو میں حروفِ علّت کا گر جانا وہ جایز سمجھتے تھے۔ مگر سارے دیوان بھر میں الف کو یا واو کو مصنف نے لفظ فارسی سے نہیں گرنے دیا ہے۔ اس مسٔلے میں لکھنؤ کے شعراے معتبر اختلاف کرتے ہیں اور فارسی گویوں کی طرح ’ ی ‘ کا گرانا بھی جایز نہیں سمجھتے۔ اور ناسخؔ کے زمانے سے یہ امر متروک ہے ۔
قولِ فیصل اس باب میں یہ ہے کہ جب بر وقتِ محاورہ اوراثناے گفتگو میں بہت جگہ حروفِ علّت کا تلفظ میں سے گرا دینا ضرور ہے کہ جو امر فارسی والوں کی زبان پر ثقیل ہے وہ اردو میں بھی ثقیل ہو اور یہی وجہ ہے کہ خواجہ حیدر علی آتشؔ مرحوم اور میر انیسؔ مغفور نے اس کی پابندی نہیں کی اور حروفِ علّت کے گرانے میں لفظ فارسی و اردو کا امتیاز نہیں کیا۔
مگر یہ امر البتہ عجیب ہے کہ مصنف نے الف اور واو میں تو پابندی کی اور ’ ی ‘ کو گرا دیا۔ حالانکہ یاے معروف کا اور اسی طرح واوِ معروف کا خواہ لفظ فارسی میں ہو خواہ کلمۂ ہندی میں ہو وزن میں سے گر جانا زبانِ اردو پر ثقیل ہے۔ اور واو اور یاے مجہول کا گرانا ثقیل نہیں ہے۔ بلکہ روابط میں سے گرانا تو فصیح ہے۔ اور الف کے گرانے نہ گرانے کا مدار محاورے پر ہے۔ جو ’ ی ‘ اور’ واو ‘ کہ ما قبل مفتوح ہیں ان کا گرانا بشہادتِ محاورہ اردو میں ثقیل ہے جیسا کہ فارسی میں ثقیل ہے۔ واوِ مجہول کو فارسی والے بھی اکثر لفظوں سے گراتے ہیں۔ لیکن یاے مجہول کو وہ اس سبب سے نہیں گراتے کہ ’ ی ‘ کے گرنے سے اور زیر کے باقی رہ جانے سے اضافت کے ساتھ التباس ہو جاتا ہے اور ہماری زبان میں ویسی اضافت نہیں ہے اس سبب سے یاے مجہول کا گرانا ہمار ی زبان میں ثقیل نہیں ہے البتہ اگر منادی میں یاے مجہول ہو اور حرفِ ندا محذوف ہو تو اسی ’ ی ‘ کا گرنا برا معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً جرأت کے اس شعر میں
کس مزے سے یہ باظہارِ وفا اس نے کہا
مت بنا بات نہیں اب تری جھوٹی وہ آنکھ
اگر ’ ی ‘ کو گرا دیں اور مصرع کو یوں کر دیں ،ع مت بنا بات نہیں اب ہے تری جھوٹی وہ آنکھ….. دیکھو کیا برا معلوم ہوتا ہے۔
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق ، مصیبت ہی سہی
مصیبت سہی دونوں معنوں کے ساتھ یہاں درست ہے ، خواہ سہی کو فعل لو خواہ حرف۔
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
بہ لفظِ استقبال یہ کہنا کہ خو ڈالیں گے اس معنی پر یہ کنایہ دلالت کرتا ہے کہ ابھی طبیعت کو بے نیازی کی برداشت نہیں ہے۔ اور عادت بگڑی ہوئی ہے ، یکایک طبیعت کے بدل جانے کی بھی امّید نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ بے نیازی کو انگیز کر لیں گے۔یہاں حرفِ استقبال میں تراخی و تاخیر بھی مصنف کو مقصود ہے اور اسی سے معنی میں کثرت پیدا ہوتی ہے۔
اے ساکنانِ کوچۂ دلدار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبِؔ آشفتہ سر ملے
عبارت تو یہ ہے کہ وہاں کہیں غالبؔ اگر مل جائے تو دیکھنا۔ اور مطلب یہ ہے کہ خیال رکھنا شاید غالبؔ وہاں کہیں مل جائے۔ یہ مطلب اس عبارت سے ’ جو ‘ کے سبب سے نہیں نکلتا۔ ’ جو ‘ کی لفظ نے جملے کو شرطیہ کر دیا اور شرط مقصود نہیں۔ اس لیے کہ شرط سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ اگر غالبؔ کہیں ملے تو دیکھنا۔ حالانکہ جو ملے اس کا نہ دیکھنا کیا معنی۔ غرض کہ شرط یہاں کچھ معنی نہیں رکھتی۔ اس جملے کی صورت شرط کی ہے۔ مگر قصد شرط نہیں ہے۔ اور ’ جو ‘ یا ’ اگر ‘ اس محاورے میں زاید ہوا کرتا ہے۔ معنیِ مقصود یہی ہوا کرتے ہیں کہ دیکھنا یعنی خیال رکھنا شاید فلاں شخص کہیں مل جائے۔ لیکن محاورہ یوں نہیں جاری ہے کہ اس معنی کو جملۂ شرطیہ کی صورت میں ادا کرتے ہیں جیسا کہ مصنف نے کیا ہے اور یہ مسٔلہ نحوِ اردو کے نوادر میں سے ہے۔
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سایل ہوۓ توعاشقِ اہلِ کرم ہوئے
’ تو ‘ اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ اس کے پہلے جو جملہ ہے اس میں سے ’’ جو ‘ ‘ یا ’’ جب ‘‘ یا ’’ اگر ‘‘ محذوف ہے ، یعنی یہ جملہ شرطیہ ہے۔ اور حذف نے بہت لطف دیا۔ نحوِ اردو میں یہ قاعدہ کلیہ سمجھنا چاہیے کہ جملہ شرطیہ میں حرفِ جزا مذکور ہو تو حرفِ شرط کا حذف حسن رکھتا ہے۔
سبزۂ نُہ چمن و یک خطِ پشتِ لبِ بام
رفعتِ ہمتِ صد عارف و یک اوجِ حصار
’ سبزۂ نُہ چمن ‘ استعارہ نو آسمانوں سے ہے اور حرفِ عطف دونوں مصرعوں میں معنیِ مساوات کے لیے ہے اور اس شعر میں بلندیِ قصر کی تعریف مقصود ہے۔ یعنی سبزۂ نُہ فلک و سبزۂ پشتِ لبِ بام برابر ہے۔ اور بلندیِ ہمتِ عارف اور اس قصر کا اوج یکساں ہے۔ اس طرح کا عطف معنیِ مساوات کے لیے فارسی سے اردو میں آیا ہے۔ ورنہ خاص اردو میں یعنی مساوات کے لیے حرفِ نفی سے عطف کرتے ہیں۔ میر انیسؔ مرحوم فرماتے ہیں ، ع
گورے نہ ان کے پاؤں نہ روئے مہِ منیر۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے گورے تلوے اور چاند کا منہ برابر ہے۔