سنسکرت اور برج بھاشا میں جو علمِ عَروض ہے اسے پِنگل کہتے ہیں۔یہ علم ہندی شاعری کے اوزان و قواعد کا ضابطہ ہے۔ جس طرح عَروض میں سبب ، وتد ، فاصلہ وغیرہ اجزا ہیں اسی طرح پنگل میں بھی اجزا ہیں جن کی تعداد دو ہے اور یہ ’ لَگُھ‘ اور ’ گُرُ ‘ کہلاتے ہیں۔ جس طرح اجزاے عروضی سے ارکان بنتے ہیں اسی طرح لگھ اور گر سے گَنَ مرتّب ہوتے ہیں۔
لَگھُ : ایک حرفِ متحرّک کو لگھ کہتے ہیں۔
گُرُ: ا ک حرف متحرک مع ایک ساکن کو گر کہتے ہیں ۔ گویا ’ گر‘ سببِ خفیف ہوا۔
گَن: (اصل ’ گَنْڑ) یعنی ارکان۔
چھنْد : بحر اور اس کی اقسام کو کہتے ہیں۔
چرن یا پَد: ایک مصرع کو کہتے ہیں۔
اَنُپَّراس : قافیے کو کہتے ہیں۔
تُکانُت : ردیف ہے ۔
پِرِتِّے : وہ آٹھ کلّیے ہیں جن کے ادراک کے بغیر چھندوں (یعنی بحروں )کے اصول پر عبور نہیں ہوتا۔
غرض پِنگل بھی علمِ عروض کی طرح ایک مبسوط و مکمّل اور محنت طلب علم ہے۔
مندرجۂ بالا معلومات کے لیے اِن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے:۔
۔۔۔ قواعد العروض مؤلفۂ قدرؔ بلگرامی
۔۔۔ تلخیصِ عروض و قافیہ مؤلفہ ٔ نظم طباطبائی
۔۔۔ میزانِ سخن مؤلفۂ حمیدؔ عظیم آبادی
۔۔۔ قواعدِ اردو مؤلفۂ مولوی عبد الحق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشاداتِ طباطبائی
دکھ جی کی پسند ہو گیا ہے ، غالبؔ
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے ، غالبؔ
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے ، غالبؔ
اس رباعی کے دوسرے مصرع میں دو حرف وزنِ رباعی سے زائد ہو گئے ہیں اور ناموزوں ہے۔ مختلف چھاپے کے سب نسخوں میں بھی ، اور جس نسخے کی کاپیاں خود مصنف مرحوم کی صحیح کی ہوئی ہیں اس میں بھی یہ مصرع اسی طرح ہے۔ اوزانِ رباعی میں سے جس وزن میں سببِ خفیف سب سے زیادہ ہیں وہ یہ مصرع مشہور ہے،ع۔۔۔ یا می گویم نامِ تو یا می گریم۔ وزن پر اگر اس مصرع کو کھینچیں تو یوں ہونا چاہیے ، ع ۔۔۔ دل رک رک کر بند ہوا ہے غالب۔۔اور اس صورت میں زمین بدل جاتی ہے۔ غالباً اسی فارسی مصرع نے مصنف کو دھوکا دیا۔ اب خیال کرو غالبؔ سا موزوں طبع شخص اور نا موزوں کہہ جائے بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ جو عروض کہ فارسی و اردو کہنے والوں نے عربی کو ماخذِ علوم سمجھ کر اختیار کیا ہے یہ غرض عربی زبان ہی کے واسطے خاص ہے۔ اردو کہنے والوں کو پنگل کے اوزان میں کہنا چاہیے جو زبانِ ہندی کے اوزانِ طبعی ہیں۔ جانتا ہوں میرے اس مشورے پر شعراے ریختہ گوہنسیں گے اور نفرت کریں گے۔ مگر اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ہندی زبان عربی کے اوزان میں ٹھونس کر شعر کہا کرتے ہیں اور ہندی کے جو اوزان طبعی ہیں اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے کوئی انگریزی قصیدہ بحرِ طویل میں کہے کہ کوئی انگریز اسے موزوں نہ کہے گا۔
اس کے بر خلاف پِنگل کے سب اوزان ہم کو بھی موزوں معلوم ہوتے ہیں۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ وہ سب اوزان ہمارے اوزان طبعی ہیں اور جن اوزان کو ہم نے اختیار کر لیا ہے ان وزنوں میں بہ تکلف ہم شعر کہتے ہیں اور ہماری شاعری میں اس سے بڑی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس کی ہمیں خبر نہیں۔ میں نے انگریزی کا ایک فقرہ دیکھا جو ہزج میں موزوں معلوم ہوا:
pondor bank still on Let us stand
لیکن جو لوگ اہلِ زبان ہیں ان کو سنایا تو انھوں نے کہا اس طرح موزوں نہیں ہے۔
بعض لوگوں نے عربی کو فارسی والوں کے اوزان میں نظم کیا ہے ، مثلاً:
یا صاحبَ الجمالِ وَ یا سیّدِ البشر
لیکن جو لوگ عربی اشعار سے مزہ اٹھانے والے ہیں ان سے پوچھو ، ان کے نزدیک یہ مصرع نا موزوں ہے۔ یا یہ سمجھو کہ وزن سے جو مزہ پیدا ہوجاتا ہے وہ اس میں نہیں پیدا ہوا۔ وجہ یہ کہ اوزانِ مطبوع میں شعر ہو تو اہلِ زبان اس شعر کو شعر سمجھیں۔ اور اوزانِ مصنوع کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ یہی حال پنگل والوں کی نظر میں اردو شاعری و اردو اشعار کا ہے کہ وزن سے جو مزہ آنا چاہیے وہ مزہ ان کو ہمارے شعر سے نہیں ملتا اور مختلف زبانوں کے مختلف اوزان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہر زبان کا خاص لہجہ ہوتا ہے۔ اس کے اسماء و افعال کے خاص اوزان ہوتے ہیں ، وزنِ شعر بھی لا محالہ جدا ہوگا۔
مثلاً انگریزی میں عروض کا دار و مدار لہجے کے شدّت و رَخا پر ہے ، اعدادِ حروف و مطابقتِ حرکات و سکنات کو کچھ دخل نہیں۔ اس کے بر خلاف عربی کا عروض ہے کہ اس میں محض مطابقتِ حرکات و سکنات و شمارِ حروف پر عروض کی بنا ہے ، شدّت وَرخائے لہجہ سے وزن میں کچھ خلل پیدا نہیں ہوتا۔ ہندی میں اکثر الفاظ کے آخر میں حروفِ علّت ہوا کرتے ہیں۔ انھیں حرفوں کے مد و قصر و حذف و وقف پر پنگل کی بنا ہے۔قواعدِ پنگل میں اردو زبان کے لیے البتہ ایک دشواری ہے کہ ان لوگوں کے لہجے میں بعض حروف مثل‘ لام‘ و ’را ‘ وغیرہ کے ایسے خفیف اور مخلوط سے ہیں کہ ان حرفوں کا شمار حروفِ صحیح میں نہیں بلکہ ایک قسم کا اعراب سمجھتے ہیں ، بر خلاف اردو کے لہجے کے کہ ’لام‘ یا ’رے‘ کو مثلاً تقطیعِ شعر میں شمار نہ کریں تو وزن ہی باقی نہیں رہتا اتنا اثر عربی و فارسی کا اردو کے لہجے پر رہ گیا ہے۔ میرے مزعوم پر ایک دلیل یہ ہے کہتفحص و استقراء کے بعد الفاظ اردو کے اجزا چارطرح کے پائے جاتے ہیں اور خود الفاظ پندرہ قسم کے:۔
( ۱ ) پہلا حرف متحرک ، اور دوسرا ساکن۔۔ جیسے چَل ، سُن۔عروض کی اصطلاح میں اسے سببِ خفیف کہتے ہیں۔
( ۲ ) پہلا حرف متحرک اور اس کے بعد دو ساکن۔۔۔ جیسے بات ، زور ، شور ، ایک ، نیک وغیرہ۔ اس کو اصطلاح میں سببِ متوسّط کہتے ہیں۔
( ۳ ) پہلے دو حرف متحرک ، اس کے بعد ایک حرف ساکن۔۔۔ جیسے کہا ، سنا ، لیا وغیرہ۔ عروضی اسے وتدِ مجموع کہتے ہیں۔
( ۴ ) پہلے دو حرف متحرک ، اس کے بعد دو حرف ساکن۔۔۔ جیسے نشان ، مکان ، امیر ، وزیر ، حصول ، وصول وغیرہ ۔ شعرا اسے وتدِ کثرت کہتے ہیں۔ اردو میں جتنے کلمات جس جس زبان کے پائے ہیں اور محاورے میں داخل ہیں یا تو وہ انھیں چار چیزوں میں سے کسی جزو کے وزن پر ہیں ، جیسے : تم یاد کرو مثال۔۔۔ اور یا انھیں چاروں جزوں سے مرکب ہوتے ہیں ، مثلاً:۔
(۵ ) کسی کلمہ میں دو سببِ خفیف ہیں ، جیسے : ماتھا
( ۶ ) کسی میں تین سببِ خفیف ہیں ، جیسے : پیشانی
( ۷ ) کسی میں پہلا جزو سببِ خفیف ہے اور دوسرا متوسط ،جیسے : رخسار
( ۸ ) کسی میں عکس اس کا ، جیسے : کالبد
( ۹ ) کسی میں دونوں سببِ متوسّط ہیں ، جیسے : خاکسار
( ۱۰ ) کسی میں پہلا جزو وتدِ مجموع ، اور دوسرا سببِ خفیف ، جیسے : مسرّت
( ۱۱ ) کسی میں عکس اس کا ، جیسے : تہنیت
( ۱۲ ) کسی میں پہلا جزو وتدِ مجموع ، اور دوسرا سببِ متوسّط ، جیسے : خریدار
( ۱۳ ) کسی میں دونوں جزو وتدِ مجموع ہیں ، جیسے : موافقت
( ۱۴ ) کسی میں پہلا وتدِ کثرت ہے اور دوسرا سببِ خفیف ، جیسے : نیاریا
( ۱۵ ) کسی میں عکس اس کا ہے ، جیسے : اعتبار بس ،کلماتِ اردو کے یہی پندرہ وزن ہیں۔ تم کہوگے : غَلَبہ اور دَرَجہ بھی تو ایک وزن ہے۔ اور حَیَوان و جَوَلان بھی تو وزن ہے۔ نہیں ، ایسے الفاظ میں دوسرے متحرک کو ساکن کر کے بولتے ہیں ، یعنی وزن ان کا نا مانوس و ثقیل سمجھ کر مہنّد کر ڈالتے ہیں۔ اور جب دوسرا حرف ساکن ہو گیا تو غلبہ و درجہ پانچویں قسم کے وزن میں اور حیوان و جولان ساتویں قسم کے وزن میں داخل ہو گیا۔ اس وجہ سے کہ اردو کی زبان توالیِ حرکات کی متحمل نہیں ہے۔ اور اسی وجہ سے(۱ ) سببِ ثقیل اور ( ۲ ) وتدِ مفروق اور( ۳ ) فاصلہ اردو کے الفاظ میں نہیں پایا جاتا۔ یہ تینوں جزو الفاظِ عربی کے لیے مخصوص ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ الفاظِ اردو کے اجزا چار ہی طرح کے ہیں اور سببِ ثقیل و وتدِ مفروق و فاصلہ کبھی اردو میں جزوِ کلمہ نہیں واقع ہوتا ، اور یہ بھی تم سمجھ گئے کہ تمام زبان بھر میں الفاظ کے پندرہ ہی وزن ہیں جس میں کہیں توالیِ حرکات نہیں پائی جاتی تو اب اوزانِ عروض پر لحاظ کرو۔
مثلاً ایک وزن ہے : فَعِلُنْ فَعِلُنْ فَعِلُنْ فَعِلُنْ۔ کہ یہ سارا وزن محض فواصل سے مرکّب ہے۔
اور ایک وزن ہے : مُتَفَاعِلُنْ مُتَفَاعِلُنْ مُتَفَاعِلُن ْ مُتَفَاعِلُنْ۔کہ اس کے ہر رکن میں توالیِ حرکات موجود ہے۔
اسی طرح اور ایک وزن ہے جس میں قصائد و غزلیات و واسوخت و مراثی بکثرت ہم لوگ کہا کرتے ہیں : فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ اس کے بھی ہر رکن میں توالیِ حرکات موجود ہے۔
اب خیال کرو کہ ایسے ایسے اوزان میں جب ہم اردو کے الفاظ باندھیں گے تو ان الفاظ کی کیا گت ہوگی اور کن کن تکلفات سے اس میں توالیِ حرکات پیدا کرنا پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عمر بھر شعر کہوجب بھی ان اوزان میں فی البدیہہ کہنے کی قدرت نہیں حاصل ہوتی بخلاف عرب کے کہ ان کو یہ اوزان طبعی معلوم ہوتے ہیں اور ان کا فی البدیہہ کہنا مشہور و معروف بات ہے۔
غرض کہ غالبؔ سے شاعرِ منفرد نے عمر بھر مشق کر کے بھی ان اوزان پر قابو نہ پایا اور وزن غیر طبعی ہونے کے سبب سے دھوکا کھایا۔ اس رباعی کی شرح میں جو کچھ میں لکھ گیا ہوں وہ کتاب کے مختصات و سوانح و اوقات و مغتنمات میں سے ہے ، و ھذا ممّا تفردت بہ۔۔۔
سہرے کا بھلا لگناذوقؔ نے اس طرح کہا ہے
سر پہ طرّہ ہے مزیّن تو گلے میں بدّھی
کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منہ پر سہرا
’ کنگنا ‘ اس طرح باندھا ہے کہ فاعلن کے وزن پر ہو گیا اور محاورہ یوں ہے کہ نون و گاف مخلوط ہو کر ایک حرف ہو جاتا ہے اور فعلن کے وزن پر بولتے ہیں۔ اسی طرح اردو میں اکثر الفاظ ہیں جن کے نظم کرنے میں شاعر کو تشویش پیدا ہوتی ہے۔ کنگنے سے بڑھ کر رنگنے میں بکھیڑا ہے کہ یہ ایک ہندی مصدر فارسی لفظ سے بنا لیا ہے۔ فیصلہ یہ ہے کہ رنگنے میں ، اور اس کے مشتقات میں ، جہاں جہاں گاف ساکن ہو وہاں دونوں طرح بولنا اور نظم کرنا درست ہے۔
اور جہاں گاف متحرک ہو جائے وہاں ایک ہی صورت بس درست ہے۔ آتشؔ مرحوم کے اس مصرع میں ، ع( رنگریز بن کے فکر نے رنگے ہزار رنگ )، رنگے کا لفظ بہ سبب اظہارِ نون کے خلافِ محاورہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں نون کا مخلوط رکھنا واجب ہے اور دوسرا اعتراض ناسخؔ والوں کا اس مصرع پر یہ بھی ہے کہ رنگریز فارسی لفظ ہے ، اس میں نون کو محاورۂ عوام کی بنا پر مخلوط کر دینا خلاف ہے۔لفظ رنگریز میں محاورہ یہی ہے کہ نون و گاف دونوں مخلوط رہیں اور خلط نہ کرنا خلاف ہے۔ اسی طرح بنگلہ اور انگیا میں بھی خلط ضرور ہے اور نون کا ظاہر کرنا خلافِ محاورہ ہے اس سبب سے کہ یہ ہندی الفاظ ہیں لیکن بہت سے اور ہندی لفظ ہیں امنگ ، النگ ،پتنگ ، ڈھنگ وغیرہ کہ اس میں نون و گاف دونوں لہجے میں ہیں۔ ان الفاظ کو اس طرح نظم کریں کہ نون و گاف ایک حرف ہو جائے تو غلط ہوگا۔غرض ہندی لفظوں میں محاورہ و لہجہ پر مدار ہے۔ اور کنگنا محاورہ میں فعلن کے وزن پر ہے ، نہ فاعلن کے وزن پر۔
میر وزیر علی صباؔنے صیدیہ مثنوی میں یہ مصرع کہاتھا ، ع۔۔۔ پھر آیا بہادر جنگ اس کو خطاب۔۔۔ اس پر نا موزوں ہونے کا اعتراض ان کے معاصرین نے کیاتھا کہ موزوں کر کے پڑھو تو نون کا کچھ پتا نہیں رہتا۔ اور صباؔ سے کچھ جواب نہیں بن پڑا۔ مگر انصاف کرنا چاہیے کہ بہادر جنگ نام ہے ، اس کا ذکر شعر میں اہم اور ضروری ہے۔ اور جس وزن میں مثنوی ہے اس وزن میں بہادر جنگ کا لفظ بے نون کے گرائے ہوئے کسی طرح سے آ ہی نہیں سکتا ، وزن ہی اس کا متحمل نہیں ہے تو ایسے وقت میں شاعر کیا کرے گا سوا اس کے کہ تصرّف کرے۔۔۔۔ یہ سچ ہے کہ ضرورتِ شعر کے لیے جو جو تصرف عرب کر جاتے ہیں فارسی و اردو والوں نے وہ سب تصرفات غیر مقبول و نا جائز قرار دیے ہیں۔ لیکن یہاں تو ضرورتِ شعر سے بڑھی ہوئی ایک وجہ موجود ہے۔ معترضین سے ہم کہتے ہیں کہ بہادر جنگ کو وہی موزوں کر کے دکھا دیں۔ سوا اس کے کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے کہ، ع۔۔۔ ملا دو بہادر سے تم لفظِ جنگ۔۔۔ بھلا اس طرح نام کو توڑ پھوڑ ڈالنا اورعَلَمکی ترکیب میں تصرف کرنا کیونکرجائز ہو سکتا ہے۔ پھر اس سے ہزار درجے وہی اچھا ہے کہ ایک ذرا سے نون کو گرا دیں ، جیسا صبا ؔنے کیا ہے۔
اسی طرح علم میں سے ’ ع ‘ ، ’ ہ ‘ ، ’ ح ‘ کا گرانا بھی بہتر ہوگا بہ نسبت تصرف کرنے کے۔ جیسے آقا طوباے شوستری نے یہ مصرع کہا ہے ، ع۔۔۔
در زمانِ حضرتِ محبوب علی شاہِ دکن۔